Friday 23 August 2024

نئی نظم نیا سفر

چند سال قبل پروفیسر کوثر مظہری صاحب کے گھر پر جانے کا اتفاق ہوا. وہاں پر کئی ادبی شخصیتیں موجود تھیں، بات نثری نظم کی نکلی تو اس وقت سر نے بہت ہی ہلکے انداز میں کہا تھا کہ نثری نظم کیا چیز ہوتی ہے؟ اس کا وجود کیا ہے؟ اس کی فنی خصوصیات کیاہیں؟ اسی وقت علامہ اقبال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نظم کا اس سے بڑا شاعر اردو میں پیدا نہیں ہوا. یہ بات اسی وقت میرے ذہن میں بس گئی تھی کہ سر کسی بھی صنف کی فنی خصوصیت کو لے کر بہت ہی زیادہ پابند ہیں. 
یہ حقیقت ہے کہ نظم، غزل، مرثیہ، مثنوی، قصیدہ، رباعی قطعہ یہ سب شاعری کے اصناف ہیں. نظم سب سے جدید صنف ہے اور سب سے زیادہ ہیئتی تجربہ اسی میں ہوا ہے، اور اتنا زیادہ تجربہ ہوا کہ نظم اپنی بنیادی خصوصیت وزن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا. 
دس بارہ سطروں میں (اسے مصرع تو نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مصرع تو موزوں ہوتا ہے سطر زیادہ مناسب ہوگا) خیال کی داخلی تپیش پیش کرنے کا نام اگر نثری نظم ہے تو پھر یہ کیفت تمام تخلیقات میں ہوتی ہے. کوئی بھی تخلیق صنف اسی وقت ہوسکتی ہے جب اسے ایک مخصوص ڈھانچے میں پیش کیا جائے. خیر اُس وقت ذہن میں یہ بات آگئی تھی. 

میرے پاس پرسوں کے پروگرام کا کوئی دعوت نامہ نہیں آیا تھا اور نہ ہی کہیں سے مجھے کسی قسم کی اطلاع ملی تھی، اتفاق سے ایک دن پہلے اسکرین اسکرول کرتے ہوئے پروگرام کا اشتہار نظر سے گزرا تو شرکت کا ارادہ کرلیا. پروگرام میں شرکت کی غرض سے ایوان غالب کا ارادہ کیا سات بجے پہنچا پروگرام جاری تھا، کچھ اظہار خیال کر چکے اور کچھ باقی تھے. صدارتی تقریر سے پہلے صاحب کتاب کی گفتگو ہونی تھی پروفیسر کوثر مظہری اسٹیج پر تشریف لائے اور سب سے پہلے جو اعتراضات کیے گئے تھے ان کا انہوں نے ایک مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا(مخصوص مسکراہٹ تساہلی و عدم دلچسپی کا جواب تھا) اس کے بعد جمع و ترتیب میں جو مشکلات پیش آئیں ان کا ذکر کیا جو مقدمہ میں بھی مذکور ہے. اس کے بعد صدر محترم پروفیسر عتیق اللہ تشریف لائے کتاب کے حوالے سے متفرق خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے نثری نظم کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ اپنی جگہ پر لیکن مستقبل نثری نظموں کا ہے. اس جملے کے ساتھ ہی میرے ذہن میں بہت سارے تانے بانے قائم ہونے لگے. کون مقدم کون مؤخر، کون افضل کون غیر افضل، کون معیاری کون غیر معیاری، کون پذیرائی یافتہ کون پذیرائی کے لیے ترستا، کون نئے رستے کا مسافر کون قدیم رستے محافظ یہی سب ذہن میں چلتا رہا اور پروگرام ختم ہوگیا. باہر نکلا تو ہم عصروں اور بزرگوں سے علیک سلیک ہوا. وہاں "نئی نظم نیا سفر" کے چند نسخے بھی برائے فروخت موجود تھے جو پچاس فیصد کی رعایت سے مل رہے تھے ایک نسخہ خریدا پروفیسر کوثر مظہری کا دستخط لیا اور اپنے ٹھکانے کو لوٹا. 
اج جب کتاب اٹھا کر دیکھااور مقدمہ  پڑھنے لگا تو سب سے پہلے مجھے یہ احساس ہوا کہ ناقد کہتے کس کو ہیں. ناقد  کی زبان کیا ہوتی ہے. بالکل واضح اور دو ٹوک لہجہ میں اپنی بات کہنا، گول مٹول باتیں اور پیچیدہ جملوں کو پیش کر کے فلسفہ بگھارے کی کوشش نہیں کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر آپ اپنے نظریے میں واضح ہیں تو پھر آپ کی زبان بھی واضح ہوگی.
آپ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ پروفیسر کوثر مظہری کا نثری نظم کے بارے میں کیا نظریہ ہے اور وہ تنقید کے لیے کیسی زبان کا استعمال کررہے ہیں. 

"نثری نظم کے بارے میں

میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ اقرار کرتا ہوں کہ نثری نظم کو میری طبیعت بہت آسانی سے قبول نہیں کرتی۔ بلکہ بہت سے نثری نظم کہنے والوں کی نظمیں (اگر وہ نظم ہیں) دیکھ کر جی میں آتا ہے کہ ان کے خلاف تحریک چلائی جائے ، ودستخطی مہم چلائی جائے۔ بہت واضح اور دو ٹوک لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ شاعری کو شاعری ہونا چاہیے، محض لفظوں کا گورکھ دھندا نہیں ۔ کچھ ایک شاعروں کی نثری نظموں کو میں اس لیے برداشت کرتا ہوں کہ انھوں نے کچھ آزاد نظمیں بھی کہی ہوئی ہیں۔ آجکل شاعری کے مجموعوں کو اور رسالوں کو دیکھیے تو لگتا ہے جیسے نثری نظموں کی باڑھی آئی ہوئی ہے۔ شاعری کیا واقعی اس قدر ارزاں ہوگئی ہے؟ اگر شاعر تلمیذ الرحمن ہوتا ہے یا شاعری بھی ایک طرح کی الہامی کیفیت کے زیر اثر وقوع پذیر ہونے والی صورت ہے تو پھر معاف کیجیے! آزاد نظم کی توسیع کی اتنی اجازت نہیں کہ شاعری کو کھیل بنا دیا جائے۔ ایک دو شعرا سے میری بات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے معرا یا آزاد نظمیں بھی کہی ہیں ۔ معذرت خواہی کے انداز میں نفی میں جواب دیا۔ ظاہر ہے کہ وہ مصرعے موزوں کرنے پر قادر نہیں ہوں گے۔ میرا تو مانتا ہے کہ اگر کوئی شاعر ہے تو وہ زندگی بھر نثری شاعری ہی نہیں کرتا رہے گا۔ کبھی تو معرا، کبھی تو آزاد شاعری بھی کرے گا۔ یہ کیا کہ منہ میں پان کی پیک دبائے سڑک سے گزرتا جارہا ہے اور آس پاس کی دیواروں پر اور سڑک کے دونوں جانب پیک کے چیھنٹے مارتا جارہا ہے۔ میرے اس طرز تخاطب سے ان شعرا کو تکلیف ہو سکتی ہے جنھوں نے کبھی ایک مصرع موزوں نہیں کیا اور پھر بھی ان کی نثری نظموں کے مجموعے منظر عام پر آتے رہے۔ کیوں بھئی! قارئین پر یہ جبر کیوں؟ وہ ایسی چیزیں/ نظمیں برداشت کیوں کریں جو ان کے دل اور دماغ دونوں کو خراب کر سکتی ہیں؟ شاعری، پہلے تو یہ ہے کہ پڑھی جاسکے۔ پڑھتے ہوئے کسی نوع کی جاذبیت، لطافت اور Rhythm کا احساس پیدا ہو۔ یعنی کوئی آہنگ تو ہو۔ آئیے اب آہنگ،  فکر اور خیال پر بھی تھوڑی سی گفتگو کر لی جائے۔

آہنگ ، خیال اور نثری نظم

داخلی آہنگ کا ذکر بار بار ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خارجی آہنگ کیوں نہیں؟ میرا ماننا ہے کہ پہلے خارجی آہنگ پیدا کر لیجیے پھر داخلی آہنگ بھی پیدا ہو جائے گا۔ آہنگ اگر دھیمی آنچ ہے اور اس کا مقصد مصرعوں میں پیش کردہ خیال کو کسی قدر پکانا ہے تو سوال پھر پیدا ہوگا کہ خیال اگر اندرون یعنی باطن میں ہے تو باہر سے آنچ دی جائے تو یہ خیال اندر ہی اندر پکتا رہے گا اور کسی کو آنچوں آنچ ( کانوں کان) خبر تک نہ ہوگی ۔ گرمی کس کی اہم ہے۔ خیال کی یا آہنگ کی؟ یا پھر الفاظ اور خیال کے برتے جانے کے عمل سے اگر آہنگ، وہی داخلی آہنگ پیدا ہوتا ہے تو پھر تخلیقی شعور کدھر سے داخل ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ خیال کو پیش کرنے کے لیے تخلیقی شعور کی ضرورت ہوتی ہے اور جب یہ دونوں ملتے ہیں تو مرحلہ آتا ہے اس کی پیش کش کا جس کے لیے الفاظ و تراکیب کی ضرورت پڑتی ہے۔ نثری نظموں کے شعرا مانتے ہیں کہ ان کے خیال کی جولانی کے لیے معرا اور آزاد دونوں کی عروضی پابندیاں حارج ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس نوع کے شعرا کے خیال کا کہنا ہی کیا؟ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ان شعرا کی فکری بلندی علامہ اقبال کی شاعری میں پیش کی جانے والی فکر سے عظیم تر ہے؟ حالانکہ اقبال سے پہلے ہی...... "
آگے کی تحریر کے لیے کتاب حاصل کریں.

آتِش یا آتَش

 آتِش یا آتَش ہمارے یہاں خواجہ حیدر علی آتش کا جب بھی ذکر ہوتا ہے تو لفظ آتش میں بکسر دو م یا بفتح دوم کی ایک بحث کھڑی ہوجاتی ہے۔ اردو ک...