Friday, 23 August 2024
نئی نظم نیا سفر
Thursday, 11 July 2024
ادبی جرنل
ادبی جرنل
مدیر ڈاکٹر ہمایوں اشرف
ہندو ستان کے صوبائی تناظر میں اگر ادبی صورتحال کی بات کی جائے تو جھارکھنڈ کو صف اول میں ہی رکھا جائے گا جب کہ جھارکھنڈ میں نہ تو کبھی کوئی دبستان رہا ہے اور نہ ہی وہاںپر کوئی قدیم ادبی روایت نظر آتی ہے ۔پھر بھی جھارکھنڈ میں لسانی و ادبی صورتحال اس قدر پختہ ہے کہ ہر شہر میں آپ کو ادبی کہکشاں نظر آجائے گی ۔ وہاں پر ہمیشہ ادبی محفلیں بھی منعقد ہوتی رہتی ہیں ، تخلیق ، تنقید اور تحقیق میں بھی ایسے نمایا ں نام نظر آتے ہیں جن کا شمار صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ یہ تو محض میرا دعویٰ ہے لیکن اس دعوے کی دلیل آپ کواس ادبی جرنل میں بخوبی پڑھنے کو ملے گا جسے بہت ہی کدو کاوش کے ساتھ ڈاکٹر ہمایوں اشرف نے مرتب کیا ہے۔ یہ مجلہ شعبہ اردو ونوبا بھاوے یونی ورسٹی کا شاہکار سالانہ ادبی جرنل ہے۔ 2023 کا یہ مذکورہ شمارہ جھارکھنڈ کے اردو شعرا و ادبا پر مختص ہے ۔ میرے خیال میں جھارکھنڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے جھارکھنڈ سے شائع ہونے والا یہ پہلا ادبی دستاویز ہے ، دستاویز میں اگرچہ بہت کچھ سمیٹا جاتا ہے لیکن محدود صفحات اور محدود وقت میں سارے علاقات کو سمیٹ لینا ایک محال امر ہے پھر بھی اس ضخیم رسالہ میں فکشن ، شاعری اور تنقید و تحقیق سے تعلق رکھنے والے حتی الامکان شخصیات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے پھر بھی تشنگی کا احساس ہوتا ہے لیکن تشنگی تو دلکشی کی علامت ہوتی ہے تو وہ باقی ہی رہے گی ۔ اس کتابی مجلہ سے قبل جامعات سے جھارکھنڈ کے حوالے سے تحقیق مقالے سامنے آئے ہیں ، ایک زمانہ تھا جب مقالوں کے دامن بہت ہی وسیع ہوتے تھے لیکن اب اتنا تنگ ہوگیا ہے کہ آپ کو ہر مقالے میں ’’کے حوالے سے ‘‘ کا لاحقہ پڑھنے کو مل جائے گا ، جب کہ یہ میگزین کسی بھی سابقہ اور لاحقہ سے خالی ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ علاقہ جھارکھنڈ میں قیام پذیر خواہ وہ چھوٹا ناگپور سے ہوں یا سنتھال پرگنہ سے سبھی کی ادبی خدمات کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تاہم مدیر محترم کی عاجزی و انکساری بھی ہے کہ انہوںنے اداریہ میں برملا اظہار کیا ہے کہ حتی الامکان سبھی کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاہم کئی شخصیتیں ایسی ہوںگی جن کا ذکر چھوٹ گیا ہوگا انہیں مستقبل کے شماروں میں ضرور شائع کیا جائے گا ۔
مجلہ کو بنیاد ی طور پر پانچ حصوں میں منقسم کیا گیا ہے ۔ اول :ابتدائیہ ، دوم: جھارکھنڈ شاعری کے حوالے سے ، سوم : جھارکھنڈ فکشن کے حوالے سے ، چہارم : جھارکھنڈ تحقیق و تنقید کے حوالے سے ، پنجم : شعبہ کی سر گرمیا ں ۔ ابتدائیہ میں اداریہ کے علاوہ چھ مضامین بھی ہیں وہ مضامین شاعری کے حوالے سے ہیں یا فکشن کے حوالے سے لیکن انہیں ابتدائیہ میں رکھا گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ ان میں عمومی طورپر جھارکھنڈ کے چند نمایاں ادبی خدمات کا جائزہ لیاگیا ہے ۔ جیسے جھارکھنڈ کے غیر مسلم افسانہ نگار ، خواتین کے خواتین افسانہ نگار اور جھارکھنڈ میں طنز و مزاح وغیرہ ۔ڈاکٹر زین رامش نے جھارکھنڈ کی خواتین افسانہ نگاروں میں تقریبا بیس سے زائد خواتین افسانہ نگاروں کا ذکر کیا ہے جن میں سے اکثر کا تعلق شہر آہن جمشید پور سے ہے ۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف اپنے مضمون ’ جھارکھنڈ کے غیر مسلم افسانہ نگار‘ میں گیا رہ غیر مسلم افسانہ نگاروں کاذکر کرتے ہیں او ر اتفاق سے اس میں بھی اکثریت سکھوں کی ہے ۔ رسالہ کے شاعری کے حصہ پر جب نظر ڈالتے ہیں تو جھارکھنڈ میں اردو شاعری کی عظیم روایت نظر آتی ہے جس میں سہیل واسطی ، شمیم ہاشمی ، صدیق مجیبی ، وہاب دانش، سرور ساجد ، سید شمیم احمد، شیدا چینی ، انور ایرج، عقیل گیاوی، پرکاش فکری، شان بھارتی ، اظفر جمیل ، وقار قادری، نادم بلخی ، ارمان بہاری ، مقبول منظر ، وہاب دانش ، حیرت فرخ آبادی ، اسلم بدر، مہجور شمسی، اختر مدھوپوری اور شعیب راہی کی شعری کائنات پر ڈاکٹر منظر حسین ، پروفیسر کوثر مظہر ی ، ڈاکٹر راشد انور راشد ، ڈاکٹر قیصر زماں و دیگر کی تحریروں نے ادبی جرنل کو وقار بخشا ہے ۔
’جھارکھنڈ : فکشن کے حوالے سے ‘ میںغیاث احمد گد ی ، الیاس احمد گدی، کہکشاں پروین ، منظر کاظمی ، پرویز شہریا ر ، انور امام ، اختر آزاد ، احمد عزیز ، گلزار خلیل ، اسلم جمشید پوری ، ش اختر ، خورشید جہاں ، مسعود جامی اور شیریں نیازی کی فکشن خدمات یا ان کے کسی ایک فن پر 19 تحقیقی و تنقیدی مضامین سے اس رسالہ کی وقعت میں اضافہ کیا گیا ہے ۔اس حصے کے چند اہم مقالہ نگار پروفیسر قمر جہاں ، ،مشرف عالم ذوقی، پروفیسر اسلم جمشید پوری، ڈاکٹر کہکشاں پروین، پرو فیسر شہاب ظفر اعظمی ، ڈاکٹر رونق شہری ،ڈاکٹر سید احمد قادری و دیگر ہیں ۔
’جھارکھنڈ : تحقیق و تنقید کے حوالے سے ‘ ‘ میں پرو فیسر منظر حسین ، ڈاکٹر حسن نظامی ، نادم بلخی ، وہاب اشر فی ، ش اختر ، پروفیسر ابو ذر عثمانی ، ڈاکٹر احمد سجاد ، منظر شہاب ، سید منظر امام ، ظہیرغازی پوری ، جمشید قمر ، پرو فیسر ارشد اسلم ، ڈاکٹر ہمایوں اشرف اور ڈاکٹر محمد یو نس کی تنقیدی و تحقیقی فتوحات کا ذکر بخوبی کیا گیا ہے۔ تحقیق و تنقید کے اس حصہ کو پر فیسر احمد سجاد ، اسلم بدر ، ڈاکٹر سر ور حسین ، ڈاکٹر سید ارشد اسلم ، امام اعظم اور دیگر کئی نئی نسل اور نئی فکر کے حامل قلمکاروں سے سنوارا گیا ہے ۔ مذکورہ بالا عظیم اسما پر جب آپ کی نظر گئی ہوگی تو محسوس ہوا ہوگا کہ جھارکھنڈ کی سرزمین نے اردو ادب کو نمایاں جواہر پارے دیے ہیں ۔ ان میں سے کئی ایسی شخصیتیں ہیں جو اپنی لازوال نگارشات کی وجہ سے اس فن میں عدیم المثال ہیں۔ اردو نے انہیں کبھی بھی علاقائی تناظر میں نہیں دیکھا ہے لیکن جب کہیں پر علاقائیت کی بات آتی ہے تو وہاں فخریہ اندا ز میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ فلاں فلاں ادیب کا تعلق فلاں علاقے سے ہیں ۔ شروع میں مَیں نے جھارکھنڈ کے ادبی منظر نگاری کو صف اول میں رکھا تھا اس کی وجہ اس مجلہ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔نیز اس مجلہ میں جن شخصیات کی تحریریں شامل ہیں ان سب کا تعلق جھارکھنڈ کی نئی نسل سے ہے او ر ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو موجودہ نئی نسل میں نمایاں شناخت کے حامل ہیں جسے تیار کرنے میں وہاں کی یونیورسٹیوں کا نمایاں رول رہا ہے ، خصوصاً ونوبا بھاوے یونی ورسٹی نے اپنے قیام کے محض اکتیس بر س میں جو نئی نسل تیار کی ہے وہ بھی قابل اعتنا ہے ۔مدیر محترم ڈاکٹر ہمایوں اشر ف کو مبارکباد نیز امید ہے کہ ادبی جرنل کے اس شمارہ کو خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوگی ۔
صفحات 525
قیمت 500 روپے
ناشر شعبہ اردو ،ونوبابھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ ، جھارکھنڈ
مبصر ڈاکٹر امیرحمزہ ، نوادہ ، ہزاری باغ ، جھارکھنڈ
Thursday, 8 December 2022
رباعیات رباب رشیدی
نام کتاب رباعیات
نام شاعر رباب رشیدی ( سلمان احمد )
سن اشاعت ۲۰۲۰
صفحات ۲۲۴
قیمت ۳۰۰ روپے
ملنے کا پتہ رباب رشیدی ، ۱۲۶ ؍تازی خانہ ، امین آباد، لکھنؤ، یوپی ۔۲۶۶۰۱۸
اردو کے ادبی حلقوں کے لیے رباب رشیدی کوئی نیا نام نہیں ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابر سفید ‘‘ ۱۹۸۴میں شائع ہوا ، اس کے بعد حمد و نعت کے مجموعے بھی منظر عام پر آتے رہے ۔ لیکن وہ خود ہی اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ شروع سے ہی غیر محسوس طور پررباعی سے منسلک رہے لیکن کبھی اس جانب تو جہ نہیں کی اس لیے رباعیاں منتشر تھیں ۔ اب جاکر انہوں نے رباعیاں جمع کیں اور سادگی کے ساتھ ’’رباعیات ‘‘ کے نام سے شائع بھی کیں ۔ اکیسویں صدی کے اِن دو دہوں کی بات کی جائے تو رباعی گوئی کا رجحان بڑھا ہے اور ساتھ ہی رباعیات کے مجموعے شائع کرانے کا بھی ۔ ایسے میں رباعی کے متعلق یہ خوبصورت فضا بھی تیار ہوئی کہ اب رباعی اردو کے ادبی ماحول میں اجنبی صنف سخن کے طور پر نہیں جانی جاتی ہے اور نہ ہی قدیم ذیلی اصناف میں اس کوگردانا جاتا ہے بلکہ موجودہ وقت کی بات کی جائے تو ہر ادبی شہر میں اردو رباعی گو شعرا مل جائیں گے ۔ رباب رشیدی صاحب کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور لکھنوکی ادبی و شعری روایت سے کون واقف نہیں ۔رباعی کی عمدہ روایت لکھنؤ سے منسوب ہے ، رباعی کے بڑے بڑے شعرا لکھنؤ سے وابستہ رہے ہیں اسی روایت کے علَم کو رباب رشیدی سنبھالے ہوئے ہیں ۔
ان کے پیش لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے رباعیات کو زیادہ سنجیدگی سے لیا بھی ہے اور نہیں بھی ،رباعیوں کی اہمیت ان کے یہاں بایں طور پر نظر آتی ہے کہ اپنے پہلے شعر ی مجموعہ ’’ ابر سفید ‘‘ کا دیباچہ انہوں نے رباعی میں لکھا ۔جس سے رباعی کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ رباعیات میں دیباچہ لکھنا فاروقی کی اتباع میں ہے ،یہ کتاب بھی وہ فاروقی کو ہی معنون کرتے ہیں ، فاروقی نے جس طرح اپنے پہلے شعر ی مجموعہ کا دیبا چہ دو رباعیوں میں لکھا ہے ان ہی کی اتباع رباب رشیدی بھی کرتے ہیں لیکن صرف دو رباعیوں سے نہیں بلکہ اٹھارہ رباعیوں سے ۔ اس کے بعد انہوں نے رباعی گوئی کی جانب زیادہ دلچسپی نہیں لی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رباعی گوشعرا میں ان کا نام بہت ہی کم رقم ہوتا ہے ۔لیکن اس مجموعے سے ماضی کا خلا پن دور ہوکر اردو رباعی کی دنیا میں ایک نئی آواز بھی سنائی دے گی ۔ رباعی کی یہ آوازروایتی آواز سے بہت ہی زیادہ مختلف نظر آتی ہے ۔اس مجموعے میں کل چار سو چالیس رباعیاں ہیں ۔ ساری رباعیاں ایک ترتیب سے ہیں ۔عموما رباعیوں کو عناوین کے تحت ذکر کیا جاتا ہے لیکن شروع کی آٹھ رباعیاں بغیر کسی عنوان کے حمد ونعت اور دعا جیسے مضامین کی حامل ہیں ۔ اس کے بعد شہر آشوب کا عنوان درج ہے جس کے بعد پورے مجموعے کی رباعیاں ہیں جن کی تعداد ۴۳۲ہیں ۔ ایسے میں ہم یہی سمجھیں کہ جو شہرآشوب قصائد میں ہوا کرتا تھا وہ ان کی رباعیوں میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن جب موضوعات کی جانب توجہ دیتے ہیںتو تنہائی، حوصلہ، موجودہ حالات ، قیادت ، شہر لکھنؤ ،تہذیب ، فطرت ، رواداری ، مروت ، حدسے تجاوز کے بعد کی کیفیت ، نغمہ، یاد ماضی، دباؤ، حالات ، تلاشِ ذات ، لاچاری، امنگ ، تمناؤں کا ٹوٹنا، روانی و دیگر موضوعات کی حامل رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان موضوعات کو بغور دیکھیں تو یقینا انہوں نے شہرآشوب ہی رقم کیے ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں اصلاح ہے اور نہ صوفیانہ فلسفے کی چھاپ بلکہ موجودہ وقت کی شاعری کی چھاپ مکمل طور پر نظرآتی ہے ۔ ہر صفحہ میںانہوں نے دو رباعیوں کو رکھا ہے ۔ رباعیاں یا تو دو سطروں میں لکھی جاتی ہیں یا چار سطروں میں ، لیکن ان کی رباعیاں دو اشعار کی صورت میں پانچ سطروں میں ہیں جن میں بیچ کی سطراشعار میں فاصلہ کے لیے ہے ۔ اس طریقے سے رباعی لکھنے کا طریقہ پہلی مرتبہ اسی کتاب میں نظرآتا ہے ۔ رباعی کے لیے یہ بات اہم ہوتی ہے کہ اس کے چاروں مصرعے دو دو مصرعے کا شعر بن کر نہ رہ جائے بلکہ چاروں ایک اکائی صورت میں آپس میں مر بوط ہوں ایسے میں مشاہدہ بھی رہا ہے کہ غزل کے شعرا جب رباعیاں رقم کرتے ہیں توان کی رباعیوں میں غزل کے اشعار کی سی کیفیت پائی جاتی ہے جو رباعی میں فنی سقم کی کیفیت کو لاتا ہے ۔ الغرض رباعیاں کہنا اگرچہ مشکل فن ہے ساتھ ہی رباعی کے مزاج کے ساتھ رباعیاں کہنا اوربھی مشکل فن ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو میں رباعی گو شاعر انگلیوں پر گنے جاتے ہیں ۔ اب اس مجموعے سے ادبی حلقوں میں رباب رشیدی کا رباعی گو شاعر ہونا کتنا مؤثر ثابت ہوتا ہے وہ ناقدین کی تحریروں اور عمومی مقبولیت سے بھی ثابت ہوگا ۔ ان کی ایک عمدہ رباعی ملاحظہ ہو:
کچھ یوں ہی نہیں ہے کج کلاہی اپنی
صد شکر روش ہے خانقاہی اپنی
سچ بات ہے لیکن وہ برا مانیں گے
منظر سے بڑی ہے خوش نگاہی اپنی
امیر حمزہ
مدرسہ محلہ نوادہ ، ہزاری باغ ،جھارکھنڈ
Thursday, 3 March 2022
شہزادہ پرویز عالم
شہزادہ پرویز عالم
Monday, 1 November 2021
انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی
مرتب: انجینئرفیروز مظفر
اشاعت: 2021
صفحات: 582
قیمت: 500روپے
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
مظفر حنفی اردو کے ادبی دنیا کی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کا ادبی سفر پچا س بر سو ں پر محیط ہے۔ اس عرصہ میں وہ بطو ر تخلیق کار شعر ی اور نثر ی دنیا میں اپنی شناخت سب سے الگ بناتے ہیں۔مظفر حنفی غزلیہ شاعری کے منظر نامے پر جدید لب و لہجہ اور منفر د آواز کے ساتھ ابھر تے ہیں جن کا اظہار وہ اپنے اشعار میں بھی کر تے ہیں۔ادب اطفال میں مروجہ روایت سے ہٹ کرکہانیاں اور نظمیں تحریرکرتے ہیں۔ مظفر حنفی کی ادبی دنیا بہت ہی زیادہ وسیع ہے، انہوں نے1967 سے 2018 تک اپنے چوبیس شعری مجموعے ترتیب دیے۔اپنے ابتدائی ادبی زمانے میں تین اور2015 میں اپنا آخری افسانوی مجموعہ سامنے لائے۔ 1983 سے 2016 تک ادب اطفال پر نو کتابیں تصنیف کیں۔ آخری عمر میں انٹر ویوکے بھی تین کتابیں منظر عام پر لائے۔1978 سے 2014 تک بارہ تحقیقی و تنقیدی کتابیں تصنیف کیں ان کے علاوہ چھ مونوگراف بھی لکھے۔ تیرہ کتابوں کے مرتب و مدون بھی رہے۔گیارہ کتابوں کا انہوں نے ترجمہ بھی کیا۔مزید برآں ایک سفر نامہ بھی ہے۔ ان تمام تصانیف سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ادب کی سیاحی نہیں بلکہ اردو ادب کی باغبانی کی ہے۔ ان کے کارنامہئ چمن میں طرح طرح کے ادبی پھول نظر آتے ہیں اور ان کا کارنامہ ئحیات محض چند بر سوں پر ہی محیط نہیں بلکہ مکمل پچاس برسوں میں پھیلاہوا ہے اور تقریباً 80کتابیں منظر عام پرآتی ہیں۔ کثیر التصانیف ہونے کے باوجود بسیار و زود نویس نہیں کہلائے۔ ایسا شاید اس وجہ سے نہیں ہوا کیونکہ انہیں اپنے فن پر عبور حاصل تھا۔ مظفر حنفی ان خوش نصیبوں میں سے بھی ہیں جن پر تحقیقی مقالہ ڈاکٹر محبوب راہی نے ان کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ ان کے ادبی سفر کے شباب میں ہی (1984) میں تحریر کیا،انہوں نے ناگپور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری اس وقت حاصل کی جب پروفیسرمظفر حنفی جامعہ ملیہ اسلامیں ریڈر تھے۔ یقینا تب ان کے مکمل کارنامے سامنے نہیں آئے تھے البتہ وہ اپنی شعری شناخت حاصل کرچکے تھے۔ جدیدیت سے تو متاثر تھے ہی ساتھ ہی انہوں نے اپنے استاد شاد عارفی کا طنزیہ لہجہ بھی بہت حد تک اختیار کیا اور وہ جدید غزل میں اپنی نئی شناخت قائم کیے۔
زیر تبصرہ کتاب ا ن کی وفات کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس کتاب سے قبل ڈاکٹر محبوب راہی کی تصنیف اور فیروز مظفر کی مرتب کردہ ایک کتاب مظفر حنفی کی شخصیت و فن پر منظر عام پر آچکی ہے جن کی ضخامت بھی اِ س کتاب کے آس پاس ہے۔ میری دستر س کے مطابق یہ ان کی شخصیت و فن پر تیسر ی کتاب ہے جو ان کی زندگی اور فن کی تکمیل کے بعد سامنے آئی ہے۔ ماقبل کی دوکتابوں سے یہ کتاب بہت حد تک مختلف ہے اول الذکر تحقیقی مقالہ ہے جس میں مظفرحنفی کی کل ادبی سرمایہ کا بیس فیصد کا ہی مطالعہ ہے کیونکہ یہ کتاب 1987 میں شائع ہوئی تھی۔ دو سر ی کتاب میں اپنے عہد کے اساطین ادب کی تحریریں ہیں جو مظفر حنفی کے فن کے دریچے وا کرتی ہیں اور اِس زیر تبصر ہ کتاب میں موجود ہ دور کے افراد کی تحریریں ہیں۔ کتاب کے شروع میں فیروز مظفر کے ذریعہ مظفر حنفی کا تفصیلی توقیت نامہ پیش کیا گیا ہے جس میں سال بہ سال بہت ہی تفصیل سے ان کے کارناموں کو شمار کیا گیا ہے اگر اس کو مختصر علمی سوانح عمر ی کہاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کتاب میں کل چہتر (74) چھوٹے بڑے مضامین ہیں اس کے بعد چھبیس منظوم خراج عقید تیں جس میں پانچ قطعات تار یخ بھی ہیں۔ مرتب نے واضح کیا ہے کہ اس میں دو قسم کے مضامین ہیں، ایک وہ جوان کی زندگی میں ہی لکھے گئے تھے اور دوسرے وہ جو وفات کے بعد تحریر کیے گئے ہیں۔زندگی میں لکھے گئے مضامین فن سے تعلق رکھتے ہیں، بعد کے مضامین میں فنی تحریریں ہیں اور تعزیتی بھی۔ پوری کتاب میں عمدہ تحریریں بکھری پڑی ہیں لیکن جس طرح کتاب کے فلیپ میں مظفر حنفی کی تصانیف کو اصناف میں الگ الگ پیش کیا گیا ہے ویسا کچھ مضامین کی ترتیب میں نظر نہیں آتا ہے۔ اکثر مضامین شاعری سے متعلق ہیں، مظفر حنفی کے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں اس میں ان کے فکشن پر صرف دو مضامین ہیں۔ یادیں اور ملاقاتیں پر کئی تحریریں ہیں،ادب اطفال پر شاعری کے حوالے سے تین مضامین ہیں، پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس بسیط شخصیت کا نام مظفر حنفی تھا ان کے فن و شخصیت پر محیط یہ کتاب نہیں ہے کیونکہ اس میں ان کی ترجمہ نگاری، تحقیق و تدوین، جمع و ترتیب کے فنی مطالعے پر کوئی تحریر نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود یہ کتاب بایں طور اہم ہے کہ اس میں ان کی شاعری کے کئی گوشوں کا خاطر خواہ مطالعہ ملتا ہے، جس سے آج کی نسل کو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جدیدت کے دور میں اس کے اثر ات کو قبول کرتے ہوئے بھی اپنی راہ الگ کیسے بنائی اور ان کی شاعری میں عصری حسیت کے ساتھ حالات پر طنز کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ فصیح اللہ نقیب کا مضمون صرف ایک شعری مجموعہ کے حوالے سے ہے لیکن وہ ان کی شعری کائنات کی مکمل نمائندگی کرتا ہے۔ جدید غزل میں مظفر حنفی کا کیا مقام ہے اس حوالے سے ڈاکٹر ممتا ز الحق، ارشد نیاز ودیگر کے مضامین عمدہ ہیں۔کتاب میں مظفر حنفی کے دو انٹر ویو بھی ہیں ایک طلعت فاطمہ کا اور دو سرا پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا۔ الغرض یہ کتاب ان کے شعری امتیازات کی تحریروں سے پر ہے۔ کتاب کی عمدگی میں کوئی حرف نہیں البتہ ترتیب و تہذیب میں قدرے غور و فکر کر کے فن کے اعتبار سے ترتیب وار پیش کرتے تو مزیدخوبصورتی آ جاتی، نیز ان کی بسیط شخصیت کے لیے یہ آخر ی کتاب ثابت نہیں ہوگی بلکہ شاعری کے سوا پر بھی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے جس جانب مرتب موصوف انشا ء اللہ توجہ دیں گے۔ کتاب کے ٹائٹل کے لیے انہوں نے نئی راہ نکالی ہے کہ نام کے مقام پر مظفر حنفی کی تصویر استعمال کی گئی ہے یہ کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے مزید تجربہ پر موقوف ہے۔
Monday, 11 October 2021
وہاب اشرفی ذکر، فکر اور فن
وہاب اشرفی ۔ ذکر،فکراورفن
وہاب اشرفی ذکر، فکر اور فن
امیر حمزہ
اردو ادب کے اہم و مشہور چنندہ ناقدین و محققین کا نام جب بھی سامنے آتا ہے تو ان میں وہاب اشر فی بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے بعد تنقید و تحقیق کا ارتقا نظر آتا ہے۔ نصف اول میں تخلیقی اصناف کا غلبہ تھا نصف ثانی میں تحقیق و تنقید نے اپنی جگہ بنانا شروع کی تو اس زمانے میں تخلیق کاروں کے شانہ بشانہ ناقدین نظر آنے لگے پھر آہستہ آہستہ ایسا وقت بھی آیا کہ ناقدین کا قدنمایاں ہوا اور تخلیق کار ناقدین کی سر پر ستی و کر م فرمائی میں آگئے۔ آٹھویں دہائی تک جدیدیت کے رجحان سے یہ سامنے آنے لگا اس کے بعد متنوع نظر یات کے سہارے فن پارو ں پر مختلف تنقید ی نظر یات سامنے آنے لگے، کوئی کسی کو مشرقیت کی کڑی سے جوڑتا ت،کوئی رجحانات کے سانچے میں تولتا تو کوئی مغربیت کے اسکیل میں ناپنے کی کوشش کرتا تھا۔ نثری فن پارہ تو ہندوستان میں ہی تخلیق پاتا تھا جس میں یہاں کی دیہاتوں کی کھری و کھردری زندگی، قصباتی زندگی اور شہر و ں میں دوڑتی بھاگتی زندگی ہی جی رہی ہوتی اور شعری کائنات میں مشرقی افکار و اقدار وشعریات ہی نظرآتا لیکن ناقدین کی علمی بصیرت و تہہ داری نے فن پاروں کی تہہ داری کو کھولنا شروع کیا اور ان میں کثیر سے کثیر رنگ و معانی تلاش کر کے پیش کیے جانے لگے۔ شاعر ی کی تفہیم کے لیے کئی فلسفے متعارف ہوئے اور عام سی منظر ی، فطری و معاملاتی شاعری کی تنقید بھی کلاسیکی شاعری کے معیار سے بڑھ کر کی جانے لگی الغرض اس عہد میں تنقید نے اپنی ارتقا کا سنہرا دور طے کیا۔اگرچہ کچھ تعبیرات فلسفی موشگافیوں میں الجھ کر رہ گئیں. اسی دور سے پروفیسر وہاب اشرفی کا تعلق ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی کے ساتھ ان ہی کے ہم وطنوں نے یہ تحدید کی ہوئی ہے کہ پر وفیسر کلیم الدین احمد کے بعد بہار میں اگر کوئی مکمل ناقد ہوا تو وہ پروفیسر وہاب اشر فی ہیں۔ اس تحدید کی ہمیں چندا ں ضرورت نہیں بلکہ اردو ادب میں انہوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں اور اردو ناقدین میں وہ صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ ”تاریخ ادبیات عالم“ اور ”تاریخ ادب اردو‘‘ کے لیے وہ حکومتی اعزازات سے بھی سرفراز کیے گئے۔ انہوں نے بیش بہا کتابیں اور مضامین اردو دنیا کو دیں۔ ان کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ اردو ادب میں جینے والے شخص نہیں تھے بلکہ وہ ایک انجمن تھے جس کے اندر ادبی ماحول مستقل اپنی نیرنگیوں کے ساتھ چمکتا و دمکتا رہا۔ رانچی یونی ورسٹی میں جب تک رہے تو وہاں پابندی سے ایک مجلہ نکالتے رہے جس میں نو آموز افراد کی مستقل تر بیت کی جاتی رہی، سبکدوشی کے بعدانہوں نے سہ ماہی مباحثہ نکالا جو آخری عمر تک جاری رہا جس کے ٣٩ شمارے منظر عام پر آئے تھے۔ ان کے تنقیدی جہان پر نظرڈالیں تو تنقیدی مضامین کے مجموعے کم اور یک موضوعی کتابیں زیادہ نظر آتی ہیں اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہاب اشرفی صاحب کی علمیت کتنی زیادہ تھی کہ وہ کتابوں کے لانے میں زیادہ مطمئن ہوئے نہ کہ کسی اہم موضوع کو صرف ایک مضمون میں سمیٹ دیا جائے۔ خیر! اُن کے تمام احوال و آثار کو ڈاکٹر سرور حسین نے اپنی اس کتاب میں جمع کیا ہے۔ سرور صاحب کو میں ان افر اد میں شمار کرتا ہوں جن کی تحریروں میں مواد بہت ہوتا ہے ان کی تحریروں میں الجھاؤ نہیں ہے بلکہ پیچیدہ مسائل کو بھی بخوبی اپنے سادہ سے اسلوب میں حل کرجاتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی جب وہ ”وہاب اشر فی بحیثیت نقاد“ تحریر کرتے ہیں تو تنقیدی نظریات اور فلسفیانہ موشگافیوں میں نہیں الجھتے ہیں بلکہ تعارف کے بعد وہاب اشرفی اپنی کیا رائے رکھتے ہیں اس کو بیان کرجاتے ہیں جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس فلسفہ نقد کو ہم سمجھتے ہی نہیں تھے اب اس پرتو سوال بھی قائم ہو سکتا ہے۔ الغرض انہوں نے وہاب فہمی کی تفیہم بہت ہی بسط وتشریح سے اس کتاب میں پیش کی ہے۔ چودہ عناوین کے تحت اس کتاب کومنقسم کیا ہے۔جس میں شروع کے چار عناوین تعارف، شخصیت، فکری سماجی و تہذیبی رویہ اور عصری حسیت، ان کی داخلی زندگی پر منحصر ہے جو ان کی عملی و تصنیفی زندگی میں بخوبی نظر آتا ہے۔ پانچواں عنوان بحیثیت نقادہے۔ جس میں مصنف نے ”قطب مشتر ی ایک جائزہ“ سے لے کر ”نسائی تحریک: مضمرات و ممکنات“تک بطور ناقد اپنی صلاحیتوں کو منوایااور ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ چھٹے عنوان میں وہا ب اشرفی کی اہم کتابوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ تقریباً ایک سو بیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں ان کی بیس اہم کتابوں پر عمدہ تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے اور جو مضامین کے مجموعے ہیں ان میں ہر مضمون پر تجزیاتی تحریر ہے۔ اس کے بعد آٹھ عناوین میں بطور محققق، مؤرخ، افسانہ نگار،سوانح نگار، نثر ی اسلوب، تبصرہ نگار، بحیثیت صحافی اور بحیثیت شاعر وہاب اشرفی کا کیا مقام و مر تبہ ہے اس کی قدر متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ الغرض وہاب اشر فی کے ذکر،فکر اور فن پر اس کتاب میں انہوں نے بھر پور گفتگو کی ہے جس سے ادب کے شیدائی بخوبی مستفید ہوسکتے ہیں۔
Tuesday, 2 February 2021
اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا
اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا
ڈاکٹر یوسف رامپوری
قصیدہ شاعری کی وہ صنف رہی ہے جس کا زیادہ تر تعلق شاہی دربار سے رہا ہے ۔ اس کو شاہی صنف سخن بھی کہا جاتا ہے ، ہوبھی کیوں نا جس زبان میں اس صنف نے کمالات حاصل کیے بعد میں اسی زبان یا کسی اورز بان کا قصیدہ وہ مقام حاصل نہیں کر سکا ۔ اس صنف کے ساتھ ایک دوسری خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس نے جس زبان میں بھی جس عہد میں ترقی کی وہ اس زبان کی شاعری کا عہد زریں رہا ہے جیسے عربی میں دور جاہلی، عہد اسلام ، عہد اموی اور دور ِ عباسی میں قصیدہ کا زور تھا تو عر بی میں بھی انہی ادوار کی شاعری کو عہد زریں سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی طر یقے سے فارسی میں دیکھیں تو سبک خر اسانی، سبک عراقی، سبک ہند ی اور سبک بازگشت میں عمدہ شاعری کئی گئی ہے ان ادوار میں فارسی میںبھی قصیدہ کو عروج حاصل ہوا ۔ اسی طریقے سے اردو کو دیکھیں تو دکنی شاعری کا اپنا دور تھا وہاں قصیدہ نے ترقی کی پھر شمالی ہند میں ذوق و غالب تک اس صنف میں خوب طبع آزمائی ہوتی رہی ۔ اسی شاہی صنف کا مو ازنہ اردو اور عربی کے حوالے سے ڈاکٹر یوسف رامپوری نے اس کتاب میں کیا ہے ۔ اردو کی دیگر اصناف کا موازنہ فارسی سے ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ ہمارے یہاں خیال بندی کی باتیں بھی دونوں زبانوں کے حوالے سے سامنے آتی رہی ہیں لیکن اردو اور عربی شاعر ی کا موازنہ جس وسیع پیمانہ پر یوسف رامپوری نے پیش کیا ہے اس وسیع پیمانہ پر نہیں بلکہ ایک محدود پیما نہ پر چند شاعروں کے حوالے سے مطالعات سامنے آئے ہیں ۔ اس کتاب میں طویل علمی اور تحقیقی مقدمہ حقانی القاسمی کا ہے جس میںانہوں نے عربی میں قصیدہ نگاری کے حوالے سے بہت ہی معلوماتی و تحقیقی گفتگو کی ہے ،اسی درمیان کئی مقامات پر اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ عربی قصیدہ نگاری پر جتنا کام انگریزی میں ہوا اتنا کسی اور زبان میں نہیں ہوا ہے ۔(اعنی: عرب اور عجم کی تفریق ہی زبان دانی پر ہے تو انگریزمحققین و ناقدین نے عرب کے اس تعلّی پر کام بھی خوب کیا ) حقانی صاحب نے کئی مقامات پر اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اردو اور عربی قصائد کے حوالے سے یوسف رامپوری نے جو کام کیا ہے وہ بالکل انوکھا ہے کیونکہ ’’انہوں نے عربی و اردو قصائد کے کینن ، اشتراکات اورافتراقات پر نظر ڈالی ہے ۔‘‘ مصنف نے کس طور پر نظرڈالی ہے اس کو کتاب کے مطالعہ سے معلوم کرتے ہیں ۔
کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب ’’اردو اور عربی قصیدہ گوئی : خصوصیات و امتیازات ‘‘ ہے ۔ اس باب میں مندرجہ ذیل نکات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔ قصیدہ کے متعلق سب سے پہلے وہ وضاحتی بات یہ لکھتے ہیں کہ عربی میں قصیدہ بہت ہی وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، سات یا اس سے زیادہ اشعار ہوں تو عربی میں قصیدہ ہوتا ہے موضوعات کی کوئی قید نہیں ۔ اردو میں قصیدہ باضابطہ ایک صنف سخن ہے جس کے پہلے کے دونوں مصرعے ہم ردیف و ہم قافیہ ہوں یا صرف ہم قافیہ ہوں باقی اشعار کے دوسرے مصرعے بھی اسی نہج پرہوں ۔ اردو میں قصیدہ کےاجزائے ترکیبی میں مدعاکو بھی شامل کیا جاتا ہے جبکہ عربی و ارد و دونوں میں اس کاالتزام نظر نہیں آتا ہے ۔ا س کے علاوہ جو دیگر چار عناصر ترکیبی اردو قصیدوں میں اہمیت کے حامل ہیں وہ عربی میں ایک ساتھ بہت ہی کم پائے جاتے ہیں۔ قصیدے کی خصوصیات میں سے شوکت الفاظ ، نادر تشبیہات اور پر شکو ہ الفاظ بھی ہیں اس میں عربی قصیدہ تو نمایاں مقام رکھتا ہی ہے اردو قصیدہ بھی اپنی کم دامنی کے باوجود بھر پور کوشش کرتا ہوا نظر ہوتا ہے ۔ جوش تو عربی میں نظر آتا ہے ار دو میں جو ش لانے میں ایک طر ح کا تصنع نظر آتا ہے ۔ عربی قصائد میں فخر و تعلّی کی بات کی جائے تو قصائد کی بنیادی بات نظر آنے لگتی ہے جب کہ ار د و قصیدہ نگاروں کے پاس کوئی ایسی چیز یا وجہ نظر نہیں آتی ہے جس پر وہ فخر و تعلّی کے اشعار پیش کر یں ، عر ب والے تو اپنی نسل پر تو کرتے ہی تھے ساتھ ہی اپنے گھوڑوں کی نسل و دیگر فنون پر بھی فخریہ اشعار پیش کیا کرتے تھے ، جبکہ اردو میں ممدوحین کی بہادر ی و سخاوت کا ذکر کیا گیا ہے ۔وصف نگاری اور سراپانگاری عربی قصیدوں میں فطری انداز میں نمایاں نظر آتی ہے جبکہ ارد و والوں کے یہاں تخیل کی کارفرمائی کے بعد بھی غلوو مبالغہ دیکھنے کو ملتا ہے جس سے سراپا نگار ی حقیقت سے بہت ہی دور چلی جاتی ہے ۔ ہاں ! اردو میں نظموں و مرثیوں میں عمدہ سراپا نگاری ملتی ہے ۔مبالغہ پر مصنف لکھتے ہیں کہ’’ اگر مبالغہ کو قصیدہ کا معیار سمجھا جائے تو اردو قصیدے اس معیار پر کھرے اترتے ہیں اور عربی قصائد سے کئی قدم آگے بڑھ جاتے ہیں ‘‘۔ بالآخر جب موضوعات کی جانب رخ کر تے ہوئے مصنف عربی و اردو قصائد کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تووہاں اردو قصیدے عربی قصیدے کی بہ نسبت زیادہ متنوع دکھائی دیتے ہیں ۔
دوسرا باب ’’ عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا ء ‘‘ پر ہے۔ اس باب میں انہوں نے سولہ شعرا کا ذکر کیا ہے ۔ زمانہ ٔ جاہلیت سے امر ؤالقیس، زہیر بن ابی سلمیٰ ، طرفہ بن العبد ، لبید بن ربیعہ ، عنترہ بن شداد العبسی اور اعشی قیس کو شامل کیا ہے ۔ عہداسلام سے حسان بن ثابت ، کعب بن زہیر اور حطیۂ ہیں ۔ دورِ اموی سے اخطل ، جریر، فرزدق ، جمیل بثینہ اور عمربن ربیعہ ہیں ۔عہد عباسی سے ابونواس اور متنبی ہیں ۔ان تمام کے بیان میں مصنف نے ان شعراء کی زندگی ، قصیدہ کے موضوعات ، ان کے اہم قصائد کی خصوصیات ، ماقبل کے قصیدہ گو شعراء سے کس طرح مختلف ہیںاور انہوںنے قصیدہ میں کیسی زبان استعمال کی ہے اس کو بیان کیا ہے ۔مصنف نے کئی شعراء کے بارے میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کا تشبیب اور گریز کس معیار کا ہے اور اس میں کن موضوعات کو بہ کمال ہنر مندی پیش کرنے میں وہ یکتا تھے ۔موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جاہلی دور کے تقریبا تمام شعرا کا تشبیب ایک طر ح کا نظر آتا ہے لیکن جیسے ہی وہ گریز سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو قصیدہ کے حوالے سے ان کی اپنی شناخت نظرآتی ہے ۔ مصنف نے تما م شعرا کا ایک ہی نہج پر مطالعہ نہیں پیش کیا ہے بلکہ ہر ایک کی نمایا ں خصوصیات کو سامنے لا یا ہے اور کمیوں کو بھی پیش کیا ہے جیسا کہ متنبی کے بیان میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مدح کی وجہ سے متنبی کا مقام بلند بھی ہوا ہے اور وہ اپنے مقام سے گرا بھی ۔‘‘ کیونکہ مدحیہ اشعار میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی نے اس کو وہ مقام نہیں دلایا جو دیگر کوملا ۔ البتہ وہ عرض طلب میں بہت ہی بے باک اور فصیح بھی واقع ہوا ہے ، کہ سیف الدولہ کی خدمت میں ایک بار میں ایک ہی شعر میں بائیس درخواستیں رکھ دیں ۔الغرض اس باب میں عربی قصیدہ نگاری کی تفہیم کے لیے بہت کچھ ہے ۔
تیسرا باب ’’ اردو کے اہم قصیدہ نگار شعرا ء ‘‘ پر ہے ۔ اس باب میں بھی انہوں نے عربی کے سولہ شعراء کے مقابلہ میں اردو کے سولہ شعرا ء کو شامل کیا ہے جن میں غواصی، نصرتی ، ولی ، شاکر ناجی ، محمد رفیع سودا، انشا، مصحفی ، ذوق ، مومن ، غالب، اسیر لکھنوی ، منیر شکوہ آبادی ، محسن کاکوری، اسماعیل میرٹھی ، حالی اور نظم طباطبائی ہیں ۔ اردو کے قصیدہ نگاروں کا مطالعہ کریں تو یہاں ترجیحات الگ نظر آتی ہیں اور پیش کش کے بھی مقاصد دیگر نظر آتے ہیں ، یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے ساتھ ہی متنبی جیسا غلوبھی نظر آتاہے ۔یہاں ایک دوسرے کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور ساتھ ہی مدح میں احتیاط کا پہلو بھی نظرآتا ہے ، کوئی بھاری بھر کم الفاظ و تراکیب پر توجہ دیتا ہے تو کوئی نادر مضامین پر ۔مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر آج قصیدہ کا احیا ہوگا توکن کے قصیدے نقشِ راہ ثابت ہوںگے۔ الغرض ڈاکٹر یوسف رامپور ی کی یہ کتاب قصیدہ فہمی کے باب میں مطالعہ کا در وا کرے گی ۔
صفحات : 400 ، قیمت 400، سال اشاعت 2020
ناشر : مر کزی پبلیکیشنز، نئی دہلی
Tuesday, 3 December 2019
غزل اور فن غزل
غزل اور فن غزل
امعان نظر
امعان نظر
شعرو نثر کی جمالیات
شعرو نثر کی جمالیات
Friday, 4 October 2019
کوثر چاند پوری
اردو زبان و ادب کی یہ مٹھاس رہی ہے کہ اس نے سب سے زیادہ اطبا کو متاثر کیا ہے اس لیے جو پیشے سے طبیب ہوئے وہ ادب کے مریض بھی ہوئے ۔ اگرسترہویں صدی سے طبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات سامنے آئے گی کہ اکثر اطبا نے اردو زبان و ادب میں کچھ نہ کچھ تعاون پیش کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ طبیبوں نے اپنے مطب کو مشاعرہ گاہ اور ادبی اجلاس گاہ بھی بنایا ۔یہ سلسلہ اب تک کئی شہر وں میں جاری ہے جہاں ماہانہ نشستوں میں طبیبوں کی نمائندگی مسلسل ہوتی رہتی ہے ۔ کوثر صاحب کا بھی تعلق طبابت سے تھا اور آزادی کے بعد افسرالاطبا کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ کوثر صاحب کے عہد کااگر مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگ عظیم سے لیکردوسری جنگ عظیم تک ادبی زرخیزی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ اس کے بعد جدید تہذیب کے پردے بھی کھلنے لگتے ہیں جہاں نثر و شاعری دونوں کر وٹیں بدلتے ہیں ۔شاعری کے نئے ابعاد طے ہوتے ہیں اور نثر کی نئی دنیا آباد ہوتی ہے، اس پوری صدی میں ادب اطفال بھی بہار سے خزاں کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔ اسی عہد میں کوثر صاحب نے اپنی ادبی خدمات سے ادبی دنیا کو اپنی جانب مائل کیا اور اخیر عمر تک ادب میںوہ مر کز بنے رہے ۔کوثر صاحب کی پیدائش ۰۰۹۱ ءمیں ہوئی ، عمر کا اکثر حصہ بھوپال میں گزرا، ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۶۹۱ ءمیں دہلی منتقل ہوگئے ،۳۱ جون ۰۹۹۱ءکو داعی ¿ اجل کو لبیک کہا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
کوثر صاحب کی کل نوے سالہ زندگی میں سترسالہ ادبی زندگی ہے جس میں انہوں نے نثر ی دنیامیں کمال حاصل کیا ۔ ان کی ان ہی ستر سالہ ادبی زندگی کی خدمات ،ذاتی حیات اور تخلیقی جہات کے تمام گوشوں کو اس مونو گراف میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف رشید انجم کی یہ کتاب چار بنیادی عناوین پرمشتمل ہے ۔ شخصیت و سوانح ، ادبی و تخلیقی سفر، تنقیدی محاکمہ اور جامع انتخاب ۔ شخصیت و سوانح کو بہت ہی جامع اور معلومات سے پر پیش کیا گیا ہے جس میں حسب و نسب، خاندانی پیشہ اور موصوف کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہ موصوف میں ادیبوں کی سی نزاکت اور طبیبوں جیسی لطافت تھی ۔اسی کے ذیل میں ابتدائی ادبی سفر کا ذکر بھی ہے کہ ادبی محفلوں میں شرکت کے باعث شاعری کی جانب ان کی طبیعت راغب ہوچکی تھی اور شعرگوئی میں شہرت بھوپال کی سرحدیں پارکر چکی تھیں۔ لیکن ادبی و تخلیقی سفر کے عنوان میں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ابھی وہ شعری سرمایہ اتنا بھی جمع نہیں کر سکے تھے کہ کوئی ایک شعری مجموعہ ہی منظر عام پر لایا جاسکے کہ نثری تخلیقات کی جانب مائل ہوگئے اور باضابطہ افسانوی دنیا میں ایک عہد گزارا۔ ۹۲۹۱ ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” دلگداز افسانے “ شائع ہوکر منظر عام پر آیا جس میں سو لہ افسانے تھے جن میں سے چند افسانوں پر مصنف کی مختصر رائے بھی ہے ۔ ۰۳۹۱ءمیں دوسرا افسانوی مجموعہ ” دنیا کی حور“ شائع ہوتا ہے ۔اس مجموعہ کے افسانوں پر مصنف کی کوئی زیادہ رائے نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پچھلے افسانوں سے یہ افسانے کافی بہتر ہیں ، اول میں نیاز فتح پوری کا عکس ہے تو دوسرے میں پریم چندکی طرح حقیقت پسندی کی جانب مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد ان کے دیگر سات افسانوی مجموعوں کا ذکر ہے ۔ جن پر گفتگو جدا جدا نہیں کی گئی ہے بلکہ اجتماعی تاثر ان افسانوی مجموعوں پر پیش کیا گیا ۔اس کے بعد مصنف کوثر صاحب کے ناولوں کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک ناول کے ذکر کے ساتھ بہت ہی مختصر فنی اور موضوعاتی گفتگو بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں ” سب کی بیوی ‘ کوثر صاحب کا وہ پہلا ناول ہے جسے ٹرننگ پوائنٹ کہا جاسکتا ہے “ ، ” اس ناول میں جنسیات پر ان کا قلم بے باک ہوا ہے “ ۔ دوسرے ناول ” اغوا“ کے بارے میں لکھتے ہیں ” پلاٹ قدرے کمزور ہے ۔ اس ناول میں کہیں کہیں واقعات میں روانی کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے ۔“ اس کے بعد سات اور ناولوں کا ذکر ہے ۔ جن میں سے مصنف ” مر جھائی کلیاں “ کو ثر صاحب کا اہم ناول مانتے ہیں اور ” پتھر کے گلاب“ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو شاہکار ناول کہا جاسکتا ہے ۔ ” محبت اور سلطنت “ میں کوثر صاحب کو ایک اعلیٰ اور منجھے ہوئے فنکار کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں ۔کوثر چاند پوری نے رپور تاژ نگاری میں بھی قدم رکھا تھا اور ” کارواں ہمارا “ ، ” سفر ارض غزل “ جیسے رپورتاژ لکھے ۔جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیںکہ یہ ” بلاخیز قلم کی روانی کے شاہکار مانے جاتے ہیں ، ان میںخیالات کی ندرت بھی ہے ،الفاظ کی طلسماتی قوت بھی ہے ، لسانی پیرایہ بھی اور فن کا منطقی اظہار بھی ہے ۔“ کوثر صاحب نے بچوں کے لیے بھی خوب لکھا اور بھوپال کے ادب اطفال کی تاریخ میں وہ واحد شخص نظر آتے ہیں جس نے بچوں کے لیے پچیس کتابیں (نثرمیں ) لکھیں جن کا ذکر مصنف نے اس مونوگراف میں بہت ہی مختصر اًکیا ہے ۔کوثر صاحب کی تنقید نگاری پر لکھی گئی چار کتابوں ” دیدہ ¿ بینا“ ،” جہانِ غالب “ ، ” فکر و شعور “ اور ” دانش و بینش “ کا بھی احاطہ کیاگیا ہے ۔کوثر صاحب فکر تونسوی کے ہمر عصر تھے اور ان سے مراسم بھی تھے جس کا ذکر اس کتاب میں بھی ہے، صر ف مر اسم ہی نہیں تھے بلکہ ان کے فن طنزو مزاح سے بھی وہ مرا سم رکھتے تھے جس پر ان کی پانچ کتابیں ” مسکراہٹیں “،” موج کوثر“، ”شیخ جی “،”نوک جھونک“اور ”خندہ دل“ منظر عام پر آئیںجس پر مصنف نے کچھ طنزیہ و مزاحیہ تحریر کے نمونے پیش کیے ہیں اور ان پر مختصر تجزیہ بھی ہے۔ سوانح نگاری پر بھی چار کتابیں ”بیرم خاں ترکمان“ ،” اطبائے عہد مغلیہ “ ،” حکیم اجمل خاں “ اور ” جام جم “ ہیں جن کا ذکر دیگر کتب کے مقابلے قدرے تفصیل سے ہوا ہے ۔اس کے بعد کوثر صاحب کی دیگر خدمات کا ذکر ہوا ہے اور جامع انتخاب بھی ہے جیسا کہ ہر مونوگراف میں ہوتا ہے ۔ اس کتاب کو مصنف نے جس محنت اور تگ ود و کے بعد پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اصناف سخن کی تعریف و ارتقا پر گفتگو کی ہے اگر اس کو حذف کر کے موصوف کی تخلیقات کے فن پرمزید گفتگو ہوجاتی تو زیادہ بہتر ہو تا ۔ تاہم یہ کونسل کی اہم اور عمدہ پیش کش ہے۔
نام کتاب کوثر چاند پوری (مونو گراف )
مصنف رشید انجم
سن اشاعت 2019
صفحات 150
قیمت 90 روپے
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر امیر حمزہ K12 ، حاجی کالونی ، غفار منزل ، جامعہ نگر ، نئی دہلی
Thursday, 11 July 2019
فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد
Wednesday, 10 July 2019
منٹو کے نادر خطوط
منٹو کے نادر خطوط
تحقیق و تر تیب فاروق اعظم قاسمی
امیر حمزہ
قاری کا فقدان
دریچہ ڈاکٹر امیرحمزہ اردو معاشرہ میں ابھی جس چیز کا مرثیہ سب سے زیادہ پڑھا جارہا ہے وہ ہے قاری کا فقدان۔ جس محفل میں بھی جائیے اور جس یون...
-
اسم ضمیر اسم ضمیروہ الفاظ ہوتے ہیںجو اسم کے مقام پر استعمال ہوتے ہیں جیسے ’ وہ ، میں ، اس ، مجھ اور تجھ ‘ وغیرہ ۔ اس شمارہ میں ہم اسم...
-
اسم صفت اور اس کی قسمیں صفت (Adjective) اس کلمہ کو کہتے ہیں جس سے کسی اسم کی کیفیت یا حا لت کا پتہ چلے ،اس کلمہ سے کسی اسم کی اچھائی ی...
-
اردو زبان میں امالہ کسی بھی زبان کا وجود اچانک کسی عظیم خطۂ ارض سے نہیں ہوتا بلکہ تمام زبانوں کے وجود میں آنے کا تعلق کسی نہ کسی مخ...