Monday 5 February 2024

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘





 نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

   

شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد اگر وہ دہلی میں ہے اور اسے خبر مل جائے کہ اردو اکادمی ،دہلی کا مشہور و معروف خالص ادبی جشن ’’ نئے پرانے چراغ ‘‘ منعقد ہونے والا ہے تور یسرچ اسکالرس ، فکشن نگار اور شعرا کے چہروں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ اس مرتبہ بھی دیکھنے کو ملا ، دوست احباب کے فون آنے شروع ہوگئے کہ ’’ نئے پرانے چراغ ‘‘ منعقد ہونے والا ہے دیکھتے ہیں اس مرتبہ اردو ادب کا سفرکیسا رہتا ہے ۔ ساتھ ہی پروگرام کا مقام اردو اکادمی دہلی سے دور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونا بھی سبھی کے لئے باعث مسرت تھا ساتھ ہی اکادمی کے کارکنا ن کے لیے ایک امتحان سے کم نہ تھا ،لیکن سبھی کمر بستہ تھے ۔ 

جوان اور بزر گ قلمکاروں کے اس ادبی اجتماع کا اشتہاراخبار میں شائع ہوتا ہے ساتھ ہی نظام الاوقات بھی سوشل میں پوسٹ ہونا شروع ہوجاتا ہے، جنہیں پرو گرام میں حصہ لینا تھا انہیں سوشل میڈیا میں ہی مبارکبادیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ جنہیں مقالہ پڑھنا تھا وہ تیاری میں لگ گئے ، افسانہ نگار نئے افسانے کی تخلیق میں جٹ گئے اور شعرا کے ذہن میں یہ چلنے لگا کہ وہ اپنی کون سی غزل پیش کریںگے ۔ 

  نئے پرانے چراغ کے افتتاح یعنی 18 دسمبر کا دن آپہنچا ۔ ان پانچ دنوں میں کل چودہ اجلاس منعقد ہونے ہیں ، جن میں تقریبا ً چار سو پچھتر شعرا و ادبا حصہ لے رہے ہیں۔ دوپہر بعد تین بجے جوان اور برز رگ قلمکاروں کے اجتماع کا افتتاحی اجلاس منعقد ہونا ہے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم کے دائیں جانب کی بلڈنگ میں تھا ، یعنی اگر آپ نو تعمیر صدی گیٹ سے داخل ہوتے ہیں تو انصاری آڈیٹور یم سے جیسے ہی آگے بڑھیں گے تو دائیں جانب ایک تین منزلہ سفید عمارت نظر آئے گی جو بڑے بڑے درختوں سے بھی ڈھکی ہوئی ہے وہ عمارت فخر الدین ٹی خوراکی والا کے نام سے بھی موسوم ہے اسی میں سینٹر فار انفارمیشن ٹکنا لوجی ہے جسے مخفف میں سی آئی ٹی کہا جاتا ہے ۔ ابھی تین بجنے میں کچھ وقت باقی تھا اردو اکادمی کے کارکنا ن تنظیم و ترتیب میں لگے ہوئے تھے ۔ عمارت کے باہر ہی میں بھی کھڑا تھا کہ ایک کار آکر عمارت کے سامنے رکتی ہے، تو دیکھتا ہوں کہ اس کار سے پروفیسر عبدالحق صاحب اتر رہے ہیں ۔ اتر تے ہی ان کی زبان سے نکلتا ہے کہ اتنا اندر اور دور آپ لوگوں نے کیسے پروگرام رکھا ؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ اردو پروگراموں کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ۔ سر دی کی مناسب سے رنگین کرتا پاجامہ اور گرم کپڑے کے ساتھ گر م جوتے بھی زیب تن کیے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے عصا کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے سمینار روم کی جانب چلے جاتے ہیں اور مقررین و سامعین میں سے یہ پہلے فرد ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے ہی تشر یف لاتے ہیں۔ بشری ضرورتوںسے فارغ ہوکرسمینار ہال میں بیٹھتے ہیں کہ دیگر مہمانان کی آمد شروع ہوجاتی ہے اور پندرہ منٹ کے اندر اندر کثیر تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ دائیں بائیں سے آواز بھی آنے لگتی ہے کہ پروگرام کب شروع ہوگا ۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ بس پانچ میںمنٹ میں آپ سبھی کو چائے پیش کردوں پھر پروگرام شروع کرتے ہیں ۔ مہمان آچکے تھے ، سامعین سے ہال بھرچکا تھا کہ سبھی کو عمارت سے باہر شامیانہ میں بلا یا جاتا ہے جہاں سبھی کے لیے چائے کے ساتھ ناشتہ بھی پیش کیا جارہا تھا ۔ طلبہ اور اساتذہ ، بزرگ اور جواں قلمکار خوش گپیوں میں مصروف ہوکر چائے کا مزا لیتے ہیں اور پھر سمینار ہال کی جانب لوٹ جاتے ہیں ۔ اسٹیج پر تر تیب سے پانچ کرسیاں لگی ہوئی تھیں ٹیبل کے سامنے رنگ برنگ پھولوں کے پودے تین قطار میں منظم طریقے سے سجائے گئے تھے ۔ ساڑھے تین بج چکا تھا کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر خالد مبشر استاد شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کو سپرد کی جاتی ہے ۔ہال میں لوگ باتیں کرنا بند کرچکے تھے کہ ناظم کی صدا بلند ہوتی ہے کہ وہ رسمی کلمات کے بعد صدر اجلاس پروفیسر عبدالحق کو دعوت اسٹیج دیتے ہیں ۔ اس کے بعد مہمانان خصوصی ، پرو فیسر خالد محمود ، پروفیسر شہپر رسول اور مہمان اعزازی پروفیسر چندر دیو یادو سنگھ صدر شعبہ ہندی جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ناظم صاحب ایک مختصر سی گفتگو سامعین کو مخاطب کر تے ہوئے کرتے ہیں جس میں نئے پرانے چراغ کی اہمیت کو خصوصی طور پر پیش کرتے ہیں اور ستائیس سالہ اس سفر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ناظم صاحب سب سے پہلے دعوت سخن دیتے ہیں پروفیسر چندر دیوسنگھ کو ۔ ان کی گفتگو اردو ہندی کی لسانی ماخذ سے شروع تو ہوتی ہے ساتھ ہی ان کے اسلوب گفتار میں اردو ہندی کی مشترکہ لفظیات سامعین کو ہمہ تن متوجہ ہونے کو مجبور کر دیا تھا جس میں وہ تحقیقی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھا جائے تو بھارت میں دو ہی اوریجنل شاعری ہے رامائن اور مہا بھارت ، بعد کے لوگوں نے انہی سے متاثر ہوکر لکھا ہے اور نئے چراغ ہمیشہ اسی میں بدلاؤ لاتے رہتے ہیں ۔پروفیسر چندر دیو سنگھ اپنی مختصر اور جامع گفتگو کر کے اسٹیج سے رخصت ہوتے ہیں کہ ناظم اجلاس مختصر تعارف کے بعد اردو اکادمی دہلی کے سابق چیئر مین پرو فیسر شہپر رسول کو دعوت سخن دیتے ہیں ۔ پروفیسر شہپر رسول اپنے مخصوص اور خوبصورت وضع قطع کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور اصحاب اسٹیج کو مخاطب کرنے کے بعد اپنی بات شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اردو اکادمی دہلی نے اکادمی کے نئے نئے عوامی اور ادبی پروگراموں سے اردو کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس میں اردو اکادمی کا ایک مخصوص پرو گرام جشن وراثتِ اردو کا خصوصی کردار رہا ہے ، پہلے وہ جشن لال قلعہ کے وسیع و عریض میدان میں منعقد ہوتا تھا بعد میں وہ کناٹ کے پلیس کے سنٹرل پارک میں منعقد ہوا۔نئے پرانے چراغ کس طرح شروع ہوا اس میں وہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر صادق کا ذکر کرتے ہوئے علی گڑھ کی ایک نشست کا بھی ذکر کرتے ہیں جہا ں سے اس پروگرام کا خاکہ تیار ہوا تھا ‘‘ ۔ موصوف کی اس بات سے ذہن ان رنگا رنگ پرواگرمس کی جانب منتقل ہوگیا کہ کس طرح کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک کو سجایا جاتا تھا ، داخلہ گیٹ کیا خوبصورت ہوتا اور استقبالیہ تو قابل سماعت ودید دونوں ہوتا تھا ، خیر پروفیسر شہپر رسول کی بات مبنی بر حقیقت تھی ۔ اس افتتاحی اجلاس میں اسٹیج پر اردو اکادمی دہلی کے ایک اور سابق وائس چیئر مین پر فیسر خالد محمود بھی رونق افروز تھے ، موصوف اپنے مخصوص وضع قطع سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں کوٹ پینٹ ٹائی کے ساتھ تازہ تازہ کلین شیو بھی تھ۔ اتفاق سے وہ ناظم اجلاس کے استاد اور پی ایچ ڈی کے نگراں بھی رہے ہیں تو آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ناظم نے انہیں اسٹیج پر بلانے کے لیے کس واجبی یالازمی تکلفات کا اظہار کیا ہوگا ۔ خیر پر وفیسر خالد محمود اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور بہت ہی ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے ہیں ۔عوامی مقامات اور خصوصاً طلبہ کے مابین ان کی گفتگو کا جوانداز ہوتا ہے وہ ان کی وہاں کی گفتگو میں بھی بخوبی جھلک رہا تھا۔ نئے پرانے چراغ اور اردو اکادمی دہلی کی کارکردگیوں سے گفتگو شروع ہوتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’  اکادمی کے اس پروگرام میں ہر سال آپ کو نئے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں اور اردو کا یہ ایک ایسا خالص ادبی پرو گرام ہے جو ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں اس کی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ، ہماری یہی خواہش ہے کہ ہر سال اکادمی یہ پروگرام جامعہ میں ہی منعقد کرے کیونکہ جامعہ اردو کا گہوارہ ہے ۔ خالد محمود صاحب کی زبان سے جیسے ہی گہوارہ کا جملہ مکمل ہوا سامعین کی جانب سے ان کی بات کی تصدیق کی تالیاں بجنے لگیں ۔ لیکن کچھ سامعین کے اذہان ماضی میں کھوگئے کہ جامعہ کا قیام سے لے کر اب تک اردو کا سفر کیسا رہا ہے اورموجودہ وقت میں جامعہ اردو کے ان اداروں کو کسی طرح سینچ رہی ہے جسے اکابرین وراثت میں چھوڑ کر گئے تھے اور ابھی اردو کے گہوارے میں اردو کی صورتحال کیا ہے ۔ مہانان کی گفتگو کے بعد باری آتی ہے صدارتی کلمات کی ، اتفاق سے سارے مہمانا ن کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تھا جب کہ صدر محتر م پروفیسر عبدالحق صاحب کا تعلق دہلی یونی ورسٹی سے ہے ۔ انہیں بھی بصد احترا م ناظم صاحب اسٹیج پر بلاتے ہیں، صدر اجلاس اپنی عصا کے بغیر ہلکے ہلکے قدموں سے اسٹیج پر پہنچتے ہیں اور اردو اکادمی دہلی کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ اکادمی نے وہ خدمات انجام دی ہیں جو دیگر بڑی اکادمیاں اور کونسلس نہیں دے سکیں، افراد ساز اور ادیب گر میں ارد و اکادمی دہلی کا کوئی ثانی نہیں ہے ، کیونکہ یہ اپنے قیام کے روز اول ہی سے ادب کے گنگا جمنی تہذیب کے کارواں کو لے کر چل رہی ہے ، مشاعروں اور ادبی محفلوں کے معاملے میں مقدم ہے ہی ساتھ ہی طباعت میں لگاتار انہوں نے وہ کتابیں شائع کی ہیں جو دیگر اکادمیوں کے حصے میں نہیں آئی ہیں ۔ اتفاق سے صدر محتر کی اس گفتگو سے ہی اگلے دن کے لیے اخبار کی سرخی نکل آتی ہے کہ ’’ افراد ساز اور ادیب گر میں اردو اکادمی دہلی کا کوئی ثانی نہیں ہے‘‘ یہ سرخی اکادمی کی ہمہ جہت کارکر دگی کو سمیٹے ہوئی تھی ۔ صدر محتر می کی تقریر کے بعد اجلاس کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے ، پھر سبھی انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم کی جانب قدم بڑھا تے ہیں جو سی آئی ٹی سے کوئی دو سو قدم کے فاصلے پر مغرب کی جانب واقع ہے ۔ 

جب اس آڈیٹوریم میں قدم رکھا تو دیکھا کہ وہاں سمینار ہال کی مناسبت سے افراد کی تعداد دوگنی ہے شعرا اور سامعین اپنی نشستوں میں تشریف فرما ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے ناظم مشاعر پروفیسر رحمن مصور نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں اور صدر مشاعر ڈاکٹر جی آر کنول کو اسٹیج پر دعوت دیتے ہیں ساتھ ہی چند بزرگ شعرا کو بھی دعوت اسٹیج دیتے ہیں اور انھیں کے ہاتھوں شمع روشن کی رسم بھی ادا ہوتی ہے۔ آڈیٹوریم بھرا ہوا تقریباً اسی شاعروں کو پڑھنا ہے اور اس محفل و شعر و سخن کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ چارگھنٹے کا ہے ، شاعروں کی فطرت ہے کہ وہ ایک غزل میں کہاں رکنے والے تو سبھی کے لیے ایک اصول طے ہوتا ہے کہ   اگر کوئی شاعر تحت اللفظ پڑھتا ہے تو وہ صرف پانچ شعر پیش کریںگے اور اگر ترنم میں پڑھ رہے ہیں تو صرف دو ہی شعر پیش کر سکتے ہیں ۔ اگر وقت کی بات کی جائے تو ایک شاعر کو زیاد ہ سے زیادہ ڈھائی منٹ کا وقت دیا گیا تھا ۔ یہ جوان اور بزر گ ، مشہور و غیر مشہور ، استاد و غیر استاد سبھی کے لیے تھا ۔اس قاعدے کے ساتھ مشاعرہ شروع ہوتا ہے اور وقت پر ہی ختم بھی ہوجاتا ہے ۔ اس محفل میں اہم شعرا میں سے فصیح اکمل ، درد دہلوی، خمار دہلوی، رضا امروہوی، معین شاداب ،نزاکت امروہوی، سرفراز احمد سرفراز دہلوی ودیگر ہوتے ہیں 

 ایک دن کا سفر مکمل ہوا جس میں افتتاحی اجلاس اور محفل و شعر و سخن کا انقعاد ہوا لیکن دوسرے دن سے اجلاس کی نوعیت بدلی ۔ تحقیقی ، تنقیدی اور تخلیقی اجلاس منعقد ہوئے اوریہ لگاتار چار روز اس ترتیب سے چلتے کہ صبح کا اجلاس تحقیقی و تنقیدی ہوتا جس میں ہر دن تقریبا دس ریسرچ اسکالر س اپنا مقالہ پیش کرتے ۔ اس میں تینوں یونی ورسٹیوں ( جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونی ورسٹی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی) کے ایک ایک استاد صدر اجلا س تھے ۔ تخلیقی اجلاس میں تخلیق کار اور اساتذہ بھی صدر اجلاس ہوئے محفل شعر و سخن میں صدارت کی ذمہ داری بزر گ شعرا کے کندھوں پر ہی رہی ۔ 

 دن کا پہلا اجلاس ریسرچ اسکالروں کے لیے تھا جس میں تینوں یونیورسٹیوں سے چالیس ریسر چ اسکالروں نے مقالا ت پیش کیے اور بارہ اساتذہ نے صدارت کی ذمہ داری ادا کی۔ ریسرچ اسکالروں کے لیے اردو اکادمی دہلی ہمیشہ چار موضوعات دیتی ہے جس پر وہ مقالہ لکھ کر لائیں ۔ اس مرتبہ کے چاروں موضوعات کچھ اس طرح تھے ۔ میر تقی میر: شخصیت اور شاعری / جدید اردو شاعری اور اہم شعرا / قدیم اردو نثر / اردو کی ادبی تحریکات و رجحانا ت ۔ 

پہلے دن کا تنقیدی و تحقیقی اجلاس تقریبا ساڑھے دس بجے شروع ہوا ، مسند صدارت پر پروفیسر شریف حسین قاسمی ، پرو فیسر معین الدین جینا بڑے اور پروفیسر کوثر مظہر ی تشریف فر ما تھے اور نظامت کی ذمہ داری مجھ ناچیز (امیر حمزہ ) کے ذمہ تھی ۔ اس اجلاس میں سیف الرحمن نے ’’کربل کتھا کی نثر‘‘، حفیظ الرحمن نے’’قدیم اردو نثر میں تراجم قرآن کے اسالیب‘‘، محمد تسنیم عابد نے ’ ’ میر کی شاعری میں خمریات ‘‘ ، محترمہ میسرہ اختر نے ’’ احمد فراز کی غزلیہ شاعری ایک تعارف ،ندیم علی نے ،، مخمور سعیدی شخصیت اور شاعر ی‘‘، محفوظ خاں نے ’’ ترقی پسند تحریک اور اردو غزل ‘‘ ، اسداللہ نے ’’ میر تقی میر کی غزلیہ شاعری میں تصور عشق ،محترمہ عظمی نے ’ ’ زبیر رضوی کی نظم نگاری‘ ‘ اور کلیم احمد نے ’’یعقوب یاور کی نظم نگاری‘‘ کے عناوین سے مقالات پیش کیے۔پر و گرام بہت ہی عمدہ ہوا مقالات کے بعد میں نے بطور ناظم صرف ایک جملے میں یہ بات کہی کہ ’نئے چراغو ں کی روشنی اس قدر روشن ہے کہ میں مزید اس پر کچھ نہیں کہ سکتا ، صدور محترم ہی اظہار خیال فرمائیں گے ۔ پھر اس کے بعد روایتی انداز میں سبھی نے مقالا ت پر عمدہ گفتگو کی ۔ یہاں صرف ان کے چند جملے نقل کیے جاتے ہیں ۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے فرمایا کہ اردو کے ارتقائی دور میں جو کچھ بھی کہا گیا وہ فارسی کا عکس نظر آتا ہے ۔ غزل آدمی بالقصد نہیں کہہ سکتا او نہ ہی یہ ہر وقت کہی جاسکتی ہے بمقابلہ دیگراصناف سخن کے کہ وہ بالقصد کہی جاسکتی ہیں ۔ تراجم پر انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کی اردو خدمات کو اردو والوں نے بہت ہی کم سراہا ہے ۔ پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے فریاکہ اس پروگرام میں ہم نئے ذہنوں سے واقف ہوتے ہیں اور نیا ذہن ہمیشہ پرانے ذہن سے آگے کا سوچتا ہے اور اس میں یہ اہم ہوتا ہے کہ نیا ذہن پرانے ذہن سے کیا لے رہا ہے اور کیا رد کررہا ہے ۔پروفیسر کوثر مظہری نے فرما یا کہ کچھ بھی نیا لکھنے میں اس بات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کون سا زاویہ ہے جس پر گفتگو نہیں ہوئی ہے اس لیے کسی بھی شخصیت کے ایک گوشہ پر مکمل و مدلل گفتگو کرنی چاہیے ۔اجلاس ختم ہونے کے بعد سبھی عمارت کے بازو میں لگے ٹینٹ میں چلے گئے جہاں سبھی کے لیے ظہرانے کا معقول انتظام تھا، کھانے میں لذیذ قورمہ بر یانی ، نان اور زردہ تھا کھانے کے بعد چائے کا بھی انتظام تھا ۔ سبھی کھانے میں مصروف تھے ساتھ ہی پیش کیے گئے مقالات پر بھی گفتگو کررہے تھے ۔ پھر تین بجے تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جس میں بطور صدر ڈاکٹر عبدالنصیب خاں ، جناب خورشید اکر م اور سہیل انجم تھے ۔ اس اجلاس میں محمد نظام الدین نے ’’ناک ‘ اور ’سودا ‘‘ ، غزالہ فاطمہ ، ’ اس ہار کو کیا نام دوں ‘ ، ذاکر فیضی’ ادھورا نروان ‘ ، نشاں زید ی’ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ‘، نشاط حسن ’ قدرت کا فیصلہ ‘ او ر امتیاز علیمی نے ’موت کا جشن ‘ کے عنوان سے اپنے افسانے پیش کیے ۔ پھر تینوں صدور نے اپنے کلمات سے سامعین کے علم میں اضافہ کیا۔ خورشید اکرم نے کہا کہ کہانی لمبے عرصے پر محیط نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ منٹوں اور گھنٹو ں پر محیط ہوتی ہے ۔ مزید انہوںنے کہا کہ کہانیوں میں زبان صرف بار برداری کا رول ادا کرتا ہے ، اس میں ش ق کی اردو کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی ہے جبکہ دوسرے صدراجلاس سہیل انجم نے کہا کہ افسانوں میں تنوع اور خوبصورت زبان حیر ت میں ڈال رہی ہے کیونکہ موجودہ وقت میں سب سے زیادہ زبان ہی خراب ہوئی ہے ۔تیسرے صدر محترم عبدالنصیب خاں نے کہا کہ افسانہ اب کوئی خاص صنف نہ ہوکر بہت سی اصناف کی عکاسی والا صنف ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ صدارتی کلمات کے بعد اجلاس تو ختم ہوگیا لیکن سامعین کے ذہنوں میں کہانی کے حوالے سے مذکورہ باتیں گردش کرنے لگیں کہ کس روش پر چل کر کن کے معیار کے مطابق کھرا اترا جائے ۔اس کے بعد سبھی محفل ِ شعرو سخن کی جانب رخ کرتے ہیں ، وہاں بھی پروگرام سے پہلے چائے کا انتظام تھا ۔ شعرا حضرات تشریف لارہے تھے اور دستخط سے اپنی حاضری دے کر آڈیٹوریم میں اپنی نشست سنبھال لیتے ، شعرا میں کئی کوٹ پینٹ کے ساتھ رامپوری ٹوپی پہنے ہوئے ہیں تو کئی کر تا پاجامہ کے ساتھ صدری میں ملبوس ہیں الغرض ایسا لگ رہا تھا سبھی باضابطہ تیار ہوکر آئے ہیں ۔ نظامت کے لیے مائک مرزا عارف سنبھالتے ہیں اور صدر محتر م بزرگ و استاد شاعر جنا ب وقار مانوی کو مسند صدارت کے لیے بلاتے ہیں۔صدر مشاعر ہ سمیت ظفر مراد آبادی ، طالب رامپوری اور فاروق ارگلی و دیگر کے ہاتھوں شمع روشن ہوتی ہے اور پھر حسب اصول مشاعر ہ شروع ہوجاتا ہے ۔ شعرا اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور اشعار سناکر داد وصول کرکے اپنی نشست پر واپس ہوجاتے ہیں ۔آڈیٹوریم مستقل داد کی تالیوں سے گونجتا رہا ۔ اس محفل میں اہم شعرا میں منیر ہمدم ، سہیل احمد فاروقی ، واحد نظیر ، ارشد ندیم ، صہیب احمد فاروقی ، عادل حیات ، ریشمہ زیدی، سلیم امروہوی ، راجیو ریاض پرتا پگڑھی ، حامد علی اختر و دیگر نے اپنا کلام سنایا ۔ 

دہلی کے بزر گ اور جواں عمر قلمکاروں کا اجتماع اب تیسر ے دن داخل ہوچکا ہے ۔ جس میں پہلے اجلاس کی صدارت پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، پرو فیسر شہزاد انجم او ر پروفیسر نجمہ رحمانی فرما رہی ہیں اور نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاہنواز فیاض سنبھال رہے ہیں ۔ اس ا جلاس میں ساجدہ خاتون نے ’’ ترقی پسند ناولوں کے منفی کردار : ایک جائزہ ‘‘ ، محمد شاہ رخ عبیر نے ’’ جدید غزل اختصاصات ، تشخصات اور تضادات ‘‘ ، فیضان اشرف نے’’ اردو میں جدید یت اور مابعد جدیدیت : ایک مطالعہ ‘‘، شاداب نے ’’ انشاء اللہ خاں انشاکی انفردایت اور رانی کیتکی کی کہانی ‘‘ ، سعدیہ پروین نے ’’ اردو تنقید میں تانیثی رجحان ‘‘ ، ہماکوثر نے ’’جدید غزل کا منفرد شاعر : بانی ‘‘، صدف فاطمہ نے ’’ ترقی پسند شعری رجحان ‘‘ ، طریق العابدین نے’’ وحید اختر اپنی غزلوں کے آئینے میں ‘‘ اور محمد آصف اقبال نے ’’ مجید امجد کی شاعری میں وقت کا تصور‘‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے ۔ صدور محترم نے سبھی مقالات پرفرداً فردا اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔  تاہم کچھ کلمات سبھی کے لیے عمومی تھیں جیسے پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدن نے فرمایا کہ جو بھی مقالہ نگار نئی بات یا نیا تجزیہ پیش کررہا ہے تو انہیں چاہیے کہ اسی پر مدلل اور وضاحت کے بات کریں کیونکہ یہ اجتماعیت آپ کی تحریروں کو نمایاں کرے گا ۔ پرو فیسر شہزاد انجم نے فرمایا کہ اب ہم اس مرحلہ میں آچکے ہیں کہ تمامتر رجحانات و تحریکات کو رد کرتے ہوئے اپنی فکر پیش کریں۔پرو فیسر نجمہ رحمانی نے مقالات پر فرمایا کہ، ان مقالات کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ جن گوشو ں اور شخصیات پر عموماً بات نہیں ہوتی ہے انہیں پر گفتگو کی گئی ہے ۔ مزید معافی کے ساتھ انھوں نہ کہا کہ ہمارے اسلاف نے مغربی تھیوریز کو ہم پر تھوپا ہے جبکہ ہمارا مشرقی ادب مغربی ادب سے بالکل الگ ہے ۔ اجلاس ختم ہوتا ہے سبھی ظہرانے کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ 

ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جو اس اجتماع کا ساتواں پروگرام تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت محترم اسد رضا ، ڈاکٹرنعیمہ جعفری پاشااور ڈاکٹر شمیم احمد نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر عینین علی حق نے ادا کی۔ اس اجلاس میں غزالہ قمر اعجاز نے’’ ٹشو پیپر‘‘رخشندہ روحی نے ’’ چاند کے پاس جو ستارہ ہے‘‘ تسنیم کوثر نے ’’ نوشتہ دیوار ‘‘ ، طاہرہ منظور نے ’’ بارش‘‘ چشمہ فاروقی نے ’’گونگی باجی ‘‘، نورین علی حق نے ’’مخدوش لاش کا بیانیہ ‘‘ نوازش چودھری  نے’’ناسٹالجک پولّن‘‘ ، محمد توصیف خاں نے انشائیہ ’’قبلہ مرزا کلاؤڈی ہاؤڈی‘‘، ثمر جہاں نے ’’دیا کبیرا روئے ‘‘، شفافاروقی نے ’’ ہمسفر‘‘،نثار احمد ’’ماڈرن بزرگ ‘‘ اور نازیہ دانش نے ’’خوابیدہ‘‘ کے عناوین سے اپنی تخلیقات پیش کیں ۔ جن پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے کہا کہ علامتی افسانے پڑھنے کے لیے زیادہ اور سننے سنانے کے لیے کم ہوتے ہیں ۔اسد رضا صاحب نے کہا کہ انشائیہ اور طنز و مزاح میں صرف شگفتہ بیانی سے کام نہیں چلتا بلکہ اس میں پیغام بھی پوشیدہ ہونا چاہے ۔ڈاکٹرشمیم احمد نے کہا کہ انشائیہ فنی اعتبار سے اچھا تھا اور اہم بات یہ تھی کہ آج کی ٹوٹتی زبان میں عمدہ زبان بیان سننے کو ملا۔ اجلاس ختم ہوتا ہے کچھ لوگ بکھر کر کر اپنے مقاصد کو نکل جاتے ہیں اور کچھ افراد مشاعرہ میں تشریف لے جاتے ہیں جہاں آج پروفیسر خالد محمود کی صدارت اور جناب فرید احمد قریشی کی نظامت میں مشاعرہ ہورہاہے ۔ پروفیسر خالد محمود صاحب شیروانی اور ٹوپی کے ساتھ آڈیٹوریم میں موجود ہیں ، حسب روایت شمع روشن ہونے کے بعد مشاعر ہ شروع ہوتا ہے جس میں تقریبا ً ستر شعرا اپنا کلام پیش کر تے ہیں اور سامعین کے ساتھ ساتھ شعرا سے بھی داد وصول کرتے ہیں ۔ آخر میں صد ر مشاعرہ نے شاعروں کے حوالے فنی باتیں کرکے اپنے اشعار بھی سنائے ۔ اس محفل میں راشد جمال فاروقی ،تابش مہدی،سیماب سلطانپوری 

، رؤف رامش ، احمد علوی ، خالد مبشر و دیگر نے اپنے کلام سنائے ۔

اب تک نئے پرانے چراغ کے تین دن گز ر گئے تھے ، ارد اکادمی ،دہلی کے اراکین سے لے کر حاضرین تک کو بہت کچھ احساس ہوچکا تھا ۔ جوش و جذبہ، اساتذہ اور طلبہ کی ملی جلی دلچسپی سامنے آچکی تھی ۔ اردو اکادمی کے اراکین و عملہ جو ہمہ وقت پر وگرام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں تھے وہ بھی جامعہ کے ماحول سے آشنا ہو چکے تھے یعنی آخر کے دو دن سبھی کے لیے حالات معمول پر تھے ، تو چوتھے دن کا پہلا اور پور ے اجتماع کا نواں اجلاس تحقیقی و تنقید ی  کے عنوان سے صبح شرو ع ہوتا ہے ۔ جس کی صدرا ت پر وفیسرقاضی عبیدالرحمن ہاشمی ، پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر خالد اشرف نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے انجام دیے ۔ اس اجلاس میں تو حید حقانی نے ’’ تر قی پسند تحریک او ر اردو تنقید‘‘  محمد عبدالقادر نے ’’ اردو کی قدیم نثر گلشن ہند کے آئینے میں‘‘ آصفہ زینب نے ’’ میر کی شاعری  اپنے عہد کی ترجمان‘‘ محمد نے ’’ اشتراکی نظریات کا علمبردار قمر رئیس ‘‘ صدف نایا ب نے ’’ میر کی سوانح اور ان کی شاعری کی چند بنیادی خصوصیات ‘‘ امام الدین نے ’’ میر تقی میر کی قنوطیت اور غربت کا قضیہ ‘‘ عبدالرزاق نے ’’ باغ و بہار بحیثیت نثر ‘‘ اور تبسم ہاشمی نے ’’ میر تقی میر شخصیت اور شاعر ی ‘‘ کے عنوانات سے اپنے مقالے پیش کیے ۔مقالات کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ پر وفیسر قاضی عبیدالرحمان ہاشمی نے کسی عذر کی بنا پر اپنے صدارتی کلمات کے لیے درخواست دی تو ناظم اجلاس نے انہیں اظہار خیال کے لیے مدعو کیا ، قاضی صاحب نے سنے ہوئے مقالات پر رسمی گفتگو کی اور اجلاس سے رخصت ہوگئے اس کے بعد دو مقالات اور پڑھے گئے پھر صدارتی کلمات کے لیے پروفیسر خالد اشرف کو دعوت دی گئی۔انہوں نے زبان کے حوالے سے ایک بنیادی بات کہی کہ زبان اکادمیوں اور اداروں سے نہیں چلتی ہے بلکہ گلیوں اور بازاروں سے چلتی ہے ۔یونی ورسٹیوں میں زبان نہیں بلکہ ادب پڑھایا جاتا ہے ، زبان تو اسکولوں میں ہی پڑھا دی جاتی ہے اور اسکولوں میں اردو کا جو معاملہ ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں ۔میر کی غربت پر ایک مقالہ تھا اس پر انہوں نے فرمایا کہ میرو غالب غربت کے شکار نہیں تھے بلکہ وہ نوابوں کی طرح زندگی گزرانے کے خواہشمند تھے ۔ان کے بعد صدارتی کلمات کے لیے پروفیسر انور پاشا تشریف لاتے ہیں ۔ اس دن وہ سفید کرتا ، چوڑی دار پاجامہ اور ہلکے رنگ کی صدری زیب تن کیے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کئی اہم نکات کی جانب سامعین کی توجہ کو مبذول کرا یا ساتھ ہی قنوطیت کی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میر و غالب کے یہاں جو درد و غم ہے وہ اُس وقت کا آشوب زائیدہ ہے ۔اس کے بعد انہوں نے ترقی پسندتحریک اورعلی گڑھ تحر یک پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ابھی زندہ ہیں اور ادب میں اپنی شمولیت درج کرارہے ہیں ۔صدارتی تقریر کے بعد ناظم صاحب اجلاس کے اختتا م کا اعلان کر تے ہیں۔ سبھی حاضرین وسامعین باہر آجاتے ہیں ۔ ابھی ظہرا نے کو پیش کرنے میں دس منٹ کا وقت تھا کہ سر دموسم میں سبھی دھوپ میں اِدھر اُدھر کھڑے ہوگئے لمحہ ہی گزرا تھا کہ کھانے کی جانب سبھی نے رخ کیا ۔ 

 ظہرا نے کے بعد تخلیقی اجلاس کے شروع ہونے میں کافی وقت بچا تھا تو چند لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور کچھ افراد سمینار ہال کی جانب رخ کیے ۔ وقت پر تخلیق اجلاس شروع ہوا جس کی صدارت پروفیسر غیاث الرحمان سید ، پروفیسر ندیم احمد اور پروفیسر شاہینہ تبسم نے کی ،جبکہ ناظم اجلاس ڈاکٹر شاہنواز ہاشمی تھے ۔اس اجلاس میں شمع افروز زیدی نے خاکہ ’’ انور نزہت ‘‘ ، ترنم جہاں شبنم نے ’’ تاج محل کی نیلامی ‘‘، انوارالحق نے ’’ مسٹر حضرت‘‘ محمد مستمر نے انشائیہ ’’ چٹنی ‘‘، شاہد اقبال نے ’’ چیخ ‘‘ ،نازیہ دانش نے ’’ شخص ‘‘، مصطفی علی نے انشائیہ ’’ جھپکی میں جنت ‘‘، زیبا خان نے ’’ باڑھ کھاگئی کھیت ‘‘، عبدالحسیب نے انشائیہ ’’ صحرا میں پانی کی تلاش ‘‘، ڈاکٹر شعیب رضا خاںوارثی نے انشائیہ ’’کل آج اور کل ‘‘، تفسیر حسین خاں نے ’’ بھینس کی لاج ‘‘، ثاقب فریدی نے ’’ میں جاگ رہا ہوں ‘‘ پیش کیا ۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مشہور فکشن نگار پروفیسر جی آر سید نے افسانہ کے فن پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ افسانے میں کرداروں کی سہی عکاسی اور جزئیات نگاری اس انداز میں پیش کریں کہ سامعین اورقارئین کو یہ لگے کہ وہ افسانے کا قاری اور سامع نہیں بلکہ یہ محسوس کریں کہ وہ کہانی دیکھ رہے ہیں ۔ نیز افسانہ میں کیا نہیں کہنا چاہیے اس پر توجہ دینی چاہیے ۔ مزید فرمایا کہ علاقائی زبان کہیں افسانے کوبہتر کرتا ہے تو کہیں بوجھل کردیتا ہے۔ پروفیسر ندیم احمد اور پرفیسر شاہینہ تبسم نے بھی تخلیقات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسانے ، انشائیے اور خاکے عمدہ سے عمدہ تر سننے کو ملے اس سے مستقبل میں اردو کی ضمانت کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ اجلاس دیر تک چلا شام ڈھل چکی تھی جامعہ کمپس روشنی سے نہارہا تھا ، سی آئی ٹی سے انجینئر نگ فیکلٹی جاتے ہوئے طلبہ کی اچھی خاصی تعداد یہاں وہاں بیٹھے ہوئے نظر آرہی تھی ، ہائی جینک کے آس پاس کا ایریا طلبہ و طالبات کی چہچہاہٹوں سے چہک رہا تھا ، گو کہ شام ڈھل چکی تھی لیکن کچھ علاقوں میں سناٹے کا گزر بھی نہیں تھا ۔ میںجب تک انجینئر نگ فکلٹی کے آڈیٹوریم میں پہنچا تو وہاں دیکھتا ہوں کے مشاعر ہ باقاعدہ شروع ہوچکا ہے ۔ مسند صدارت پر پروفیسر شہپر رسول جلوہ افروز ہیں ، ان کے ساتھ اسٹیج پر فاروق ارگلی ،متین امروہوی، اعجاز انصاری اور سلمی شاہین موجود ہیں اور نظامت کی ذمہ داری پیمبر نقوی سنبھال رہے ہیں ۔ مشاعر ہ کا آخر ی دن تھا حسب امید شعرا کی تعداد میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ۔ مشاعرہ دیر رات تک چلا ہر دن کی طرح اس دن بھی ایک کامیاب مشاعر ہ سننے کو ملا ۔ اس مشاعرہ میں ریاضت علی شائق ، شعیب رضا ، وسیم راشد ، شکیل جمالی ، امیر امروہوی و دیگر شعرا نے اپنے کلام پیش کیے ۔

 چاروں دن کے مشاعروں کے حوالے سے کوئی تفصیلی بات اب تک تحریر نہیں کہ لیکن دو باتیں جو مجھے محسوس ہوئی وہ عرض کردیتا ہوں او ل یہ کہ دہلی میں قیام پذیرتقر یبا ً چار سو شعرا کا نام نئے پرانے چراغ کے لیے شامل ہوا تھا ۔ جن میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی تھے ، اس سے یہ محسوس ہوا کہ اردو اکادمی دہلی کی راجدھانی دہلی میں گہر ی پکڑ ہے ، ہر علاقے اور ہر مذہب کے لوگ اس اکادمی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اکادمی کا ایک اور اصول ہے کہ مشاعر ہ گاہ میں ایک فارم گھومتا رہتا ہے جس میں شعرا اپنا ایک شعراپنے نام اور موبائل نمبر کے ساتھ درج کرتے ہیں ۔ اردو رسم الخط کے حوالے سے اس وقت مجھے بہت ہی زیادہ حیرانی ہوئی کہ روزانہ کی فائل میں مجھے مشکل سے اوسطاً آٹھ ہی ایسے افراد نظر آئے جنہوں نے اپنا شعر دیونا گری میں لکھا تھا، رومن میں کسی نے بھی نہیں لکھا تھا۔ اس میں بھی مزید حیرانی اس پر ہوئی کہ ان میں سے غیر مسلم تو نہ کے برابر ہیں بلکہ چند غیر مسلمین کی تحریر پر تو میں عش عش کر گیا جن میں سے میں چند کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں ، جگدیش داؤتانی ،کیلاش سمیر دہلوی، امبر جوشی ، پنڈٹ پریم بریلوی ، سپنا احساس ، حشمت بھاردواج ، راجیو ریاض پرتاپگڑھی اور سب سے اچھی تحریر کنوررنجیت چوہان کی تھی ۔ نئے شعرا کے کلام میں موضوعات کے ساتھ ساتھ زبان کی جمالیات بھی دیکھنے کو ملا ۔ کچھ ایسے شعرابھی تھے جنہوں نے سبھی کو حیرت میں بھی ڈالا ۔ 

جمعہ کا دن نئے پرانے چراغ کا آخری دن تھا ۔ اجلاس حسب سابق ساڑھے دس بجے شروع ہوگیا البتہ ختم کرنے کا وقت متعین تھا کہ جمعہ کی نماز کی وجہ سے ساڑھے بارہ بجے ختم کردینا ہے ۔ اس اجلاس کی صدارت پرو فیسر احمد محفوظ ، پروفیسر ابوبکر عباد اور پر فیسر مظہراحمد کر رہے تھے جبکہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاداب شمیم ادا کررہے تھے ۔ جس میں محمد سید رضا نے ’’ ن م راشد ایک روایت ساز نظم نگار ‘‘ ، محمد ناظم نے ’’ نشور واحدی کی غزل گوئی ‘‘، زرفشاں شیریں نے ’’ بلقیس ظفیر الحسن کا شعری مجموعہ گیلا دامن کی نظمیں : مسائل اور موضوعات ‘‘، عنب شمیم نے ’’ جدید اردو نظم کے امتیازی نقوش : ایک جائزہ ‘‘، محمد فرید نے ’’ بہار میں ترقی پسند افسانہ نگاروں کی ایک جھلک ‘‘ ،محمد فیصل خاں نے ’’ کیفی اعظمی کی فکری و فنی جہات (ترقی پسند تحریک کے حوالے سے ‘‘، محمد رضا نے ’’کلام میر میں لفظ مناسبت اور استعاراتی نظام ‘‘ اور عزہ معین نے ’’ حلقہ ارباب ذوق میں خواتین کی ادبی خدمات ‘‘ کے عناوین سے اپنے مقالات پیش کیے ۔ صدارتی خطبے میں وقت محدود ہونے کی وجہ سے جلد بازی ہوتی رہی پھر بھی صدور محتر م نے اپنے خیالات کا جو بھی اظہار کیا ان میں سے کچھ کلمات پیش کیے جاتے ہیں ۔

پروفیسر احمد محفوظ نے فرمایا کہ ایک ہی موضوع پر کئی شعرا کے مختلف شعر آپ کو پڑھنے کو ملیںگے تو کیا موضوعات شاعر یا شعر کو بڑا بناتا ہے نہیں بلکہ بڑی شاعری موضوع سے نہیں بلکہ فن اور اسلوب سے طے ہوتی ہے ۔ پروفیسر مظہر احمد نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ سمینار کے لیے اکثر ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں وقت پر بات مکمل ہو جائے ۔ پرفیسر ابو بکر عباد نے مقالات کی خامیوں اور خوبیوں سے طلبہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اچھی زبان کے ساتھ خوبصورت تلفظ بھی سننے کو ملا ۔ اجلاس ساڑھے بارہ بجے ختم ہوگیا تھا جنہیں جمعہ کی نما ز کے لیے جانا تھا وہ فوراً نکل پڑے ۔ واپسی کے بعد ظہرانے کا انتظام تھا ۔ ظہرانے کے مینیو میں ایک ڈش میں تبدیلی بھی تھی اس دن میٹھے میں زردہ کے بجائے حلوہ تھا پھر چائے بھی تھی ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تخلیقی اجلاس کے لیے سمینار ہال اپنے سامعین کے انتظار میں تھا ، صدارت کے لیے ڈاکٹر ریاض عمر جمعہ بعد ہی تشریف لائے تھے ، ڈاکٹر پرویز شہریار بھی موجود تھے ۔ یہ واحد اجلاس تھا جس میں پہلی مرتبہ کوئی صدر تشریف نہیںلائے اور وہ ڈاکٹر ابرار رحمانی تھے ۔ پرو گرام کو ناظم اجلا س ڈاکٹر حمیرہ حیات نے شروع کیا دونوں صدور کے ساتھ ڈاکٹر نگار عظیم صاحبہ بھی اسٹیج پر موجود تھیں ۔ اس تخلیقی اجلاس میں محمد خلیل نے خاکہ ’’ سالم علی ‘‘ پیش کیا ، یہ دوسرا خاکہ تھا جو پیش ہورہا تھا۔ نگار عظیم نے ’’ برے آدمی کی کہانی ‘‘ سفینہ نے ’’ او مائی گاڈ ‘‘ محمد عرفان خاں نے ’’ جال ‘‘ نثار احمد نے ’’روایت ‘‘ اور ناظمہ جبیں نے ’’ تصویر کا دوسرا رخ ‘‘ پیش کیا ۔ صدارت کی ذمہ دار ی اگر چہ پرویز شہر یار پر بھی تھی لیکن انہوں نے چند رسمی کلمات کے بعد اپنا افسانہ ’’ لال چند ‘‘ بھی پیش کیا ۔ تو گویا ایک ہی صدر بچ گئے اور وہ تھے ڈاکٹر ریاض عمر ۔ انہوں نے افسانہ کے موضوعات کی جانب تو جہ دلائی کہ اس ہال میں موجود ہر چیز پر افسانہ لکھا جاسکتا ہے ۔ تخلیقی اجلاس کے ساتھ ساتھ نئے پرانے چراغ کا اجتماع یہیں پر ختم ہوتا ہے البتہ ابھی ایک محفل باقی ہے اور وہ ہے قوالی کی محفل ۔جس کو پیش کر نے کے لیے سنبھل سے قوال سرفراز چشتی کے پوری ٹیم آئی ہوئی تھی ، یہ پروگرام بھی مشاعرہ کی طرح انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم میں ہورہا تھا ۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ خلاف توقع پورا آڈیٹوریم کھچا کچھا بھرا ہوا ہے ۔ سامنے کی سیٹییں ہی بڑی مشکل سے ریزرو رکھی جاسکیں تھیں ، پرو گرام شروع ہونے سے پہلے ہی طلبہ سیڑھیوں میں کھڑے ہوچکے تھے ۔ جگہ کی اتنی تنگی تھی کہ اراکین اکادمی بھی اپنے گھروالوں کے لیے کوئی جگہ انتظام نہیں کرسکے ۔ 

قوالی اپنے وقت پر شروع ہوئی ایک یا دو کلام کے بعد دہلی سرکار کے وزیر برائے فن ،ثقافت و السنہ جناب سوربھ بھاردواج ، براڑی کے ایم ایل اور میتھلی اکیڈمی کے وائس چیر مین سنجیو جھا کی تشریف آوری ہوئی اور ہال استقبالیہ تالیوں سے گونج اٹھا ، ان دونوں ممبران اسمبلی کو اردو اکادمی کے سکریٹر ی محمد احسن عابد نے گلدستہ پیش کرکے استقبال کیا جبکہ قوال کا استقبال وزیر محترم اور ممبر اسمبلی نے کیا ۔ وزیر سوربھ بھاردواج نے چند کلمات کا اظہار کرتے ہوئے اردو اکادمی کے تحت منعقد ہونے والے مختلف ثقافتی پروگرامس کا ذکر کیا ۔ 

 نئے پرانے چراغ کے پنج روزہ پرواگرا م کو کامیاب بنانے کے لیے اکادمی کے عملہ نے جس طرح محنت کی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ہر ایک کانام لینا بہت مشکل ہے ، جن کے ذمہ فائلوں کا سنبھالنا تھا وہ اسے انجام دے رہیں تھیں ، کتابوں کا انہوںنے اسٹال بھی لگا یا ہوا تھا جس میں امید سے زیادہ کتابیں بھی فروخت ہوئیں ، شعبہ اکل و شرب میں کسی قسم کی شکایت کا کسی کو موقع نہیں دیا گیا ۔ الغرض جس کے ذمہ بھی جو کام تھا سبھی اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے تھے ۔


Dr Amir Hamza

M.8877550086



Thursday 23 November 2023

ادبی نشیمن

موجودہ وقت میں رباعی پر خصوصی شمارہ نکالنے کی ضرورت کیوں آن پڑی جب کہ آج کے سہ ماہی رسالوں پر نظر ڈالیں تو ان کا رجحان فکشن کی جانب زیادہ رہا ہے. یا پھر عمومی شمارے کثیر تعداد میں نکالے جارہے ہیں. البتہ گزشتہ دہائی میں فکر و تحقیق کے کئی نمبر نکلے ہیں جن میں افسانہ نمبر نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی. ناول خاکہ نئی غزل اور نئی نظم پر بھی نمبر شائع ہوئے لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوکر رہ گیا اور اب مستقل عمومی شمارے ہی نکل رہے ہیں. اس درمیان کچھ رسائل کے بہت ہی خاص اور اہم شمارے بھی منظر عام پر آۓ، بلکہ ان کا ہر شمارہ ایک خاص شمارہ ہوتا تھا لیکن رباعی (جسے اردو والے حاشیائی صنف تصور کرتے ہیں) پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. سچ بات کہوں تو تنقید میں موجودہ وقت میں ناول، افسانہ غزل اور نظم کے علاوہ دیگر اصناف کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی جبکہ تخلیق کار اپنی کارکردگی بخوبی ادا کررہے ہیں. اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا ناقدین نے اپنا سیف زون منتخب کرلیا ہے یا پھر مغربی تنقید کی روش میں مشرقی خصوصیات کی حامل اصناف پر خامہ فرسائی میں وہ کوتاہ ہوجاتے ہیں؟ کیا موجودہ وقت میں فکشن نے عوام میں زیادہ جگہ بنا لی ہے یا اس کے قارئین میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے؟ آپ کو جواب ملے گا بالکل بھی نہیں بلکہ جو کچھ بھی ہے وہ آپ بھی بخوبی سمجھ رہے ہوں گے. یہی حال غزل اور نظم کا بھی ہے. جس طرح سے مذکورہ بالا اصناف کے قارئین ہیں اسی طرح سے رباعی کے بھی ہیں۔ جس طرح سے دیگر اصناف کے نمایاں تخلیق کار ہیں،اسی طرح رباعی نے بھی اپنے نمایاں تخلیق کار پیدا کیے ہیں. پھر بھی رباعی کو ادبی مباحث میں کم جگہ کیوں دی گئی ہے؟ جہاں انیس و دبیر کے مرثیوں سے دفاتر کے دفاتر بھرے ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب رباعیات پر صرف ایک فیصد حصہ ہی نظر آتا ہے۔ یہی حال اکبر و حالی اور جوش وفراق کی رباعیات پر مباحث کاہے. اگر امجد حیدرآبادی کی بات کی جائے تو ان پر بھی کوئ خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی. اگر بعد کی رباعیات کی بات کی جائے تو ان پر خال خال تجزیاتی اور تاثراتی مضامین دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن سے رباعی گو شعرا کو حوصلہ ملتا رہتا ہے. یہی کام ادبی نشیمن نے اس شمارہ سے کیا ہے. 
کیا کسی رسالہ کا خصوصی شمارہ کسی پی ایچ ڈی مقالے سے بہتر ہوسکتا ہے. جواب میں ہاں بھی سننے کو مل سکتا ہے اور نہیں بھی. زیادہ تر ہاں سننے کو ملے گا کیونکہ شمارہ مختلف الجہات ہوتا ہے. جبکہ سندی تحقیقی مقالہ بہت زیادہ بھر پور ہونے کے باوجود مختلف الجہات نہیں ہوسکتا لیکن فوری طور پر سلام سندیلوی کا تحقیقی مقالہ آپ کے سامنے پیش کردیا جائے گا. بالکل اعتراض بجا ہے کیونکہ ایسا تحقیقی اور سندی مقالہ (میری معلومات کے مطابق) کسی اور صنف کے متعلق نہیں لکھا گیا ہے جس میں ابتدا سے لے کر موجودہ وقت تک سبھی کا احاطہ کیا ہوگا. لیکن جس طرح سے سارے مقالے ایک جیسے نہیں ہوتے،ٹھیک اسی طرح سے سارے خصوصی شمارے بھی ہمہ جہت نہیں ہوتے بلکہ کچھ رسمی بھی ہوتے ہیں. میرے نزدیک ادبی نشمین کا موجودہ شمارہ دونوں کیفیات کا حامل ہے. 
ادبی نشیمن کا یہ شمارہ میرے لیے کئی اعتبار سے خاص ہے۔ اول تو یہ کہ ٹائٹل میں میری کتاب کو جگہ دی گئ ہے، دوم یہ کہ اس میں میرا بھی ایک مضمون شامل ہے جو یاس یگانہ چنگیزی کے تعلق سے ہے، سوم یہ کہ "کلیات رباعیات جوش" پر حقانی القاسمی کی تحریر جلوہ افروز ہے اور چہارم یہ کہ "رباعی تحقیق" پر جناب شاہد حبیب فلاحی صاحب نے خوبصورت تبصرہ کیا ہے. 
اس خصوصی شمارے کی اشاعت پر میں مدیر ڈاکٹر سلیم احمد اور معاون مدیر ڈاکٹر شاہد حبیب صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اب تک رباعی کے جو شمارے منظر عام پر آئے ہیں اور میری نظر جہاں تک پہنچی ہے ان سب میں یہ شمارہ تمام شماروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ پچھلی صدی میں ناوک حمزہ پوری صاحب کی ادارت اور نگرانی میں گلبن احمد آباد کا رباعی نمبر شائع ہوا تھا جس کا ذکر کئی جگہوں پر مل جاتا ہے۔ اس کے بعد فراغ روہوی مرحوم نے دستخط کا رباعی نمبر شائع کیا تھا جس میں رباعی کے فن،موضوع اور روایت پر بہت ہی کم نظر ڈالی گئی تھی. ماہنامہ شاعر کا بھی (ایک مخصوص) رباعی نمبر شائع ہوا ہے. 
رباعی کے موضوع پر کتابوں کی بات کی جائے تو گزشتہ صدی میں کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ہیں جن میں فرمان فتح پوری کی "رباعی فنی اور تاریخی ارتقا"، سلام سندیلوی کی ضخیم کتاب 'اردو رباعیات" وحید اشرف کچھچھوی کی "مقدمہ رباعی" خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ موجودہ صدی میں "تنقید رباعی" فرید پربتی نے اور شاید اس سے پہلے یا قریب قریب ناوک حمزہ پوری نے بھی "ساگر منتھن" تصنیف کی. پھر بعد میں سلمہ کبری صاحبہ کا ایک اہم کام "اردو رباعی میں تصوف کی روایت" منظر عام پر آیا، یحییٰ نشیط صاحب "رباعی میں ہندوستانی عناصر" کے حوالے سے ایک کتاب منظر عام پر لائے اور کئی دیگر لوگوں نے بھی خامہ فرسائی کی اور اس کی مختلف جہات کو منظر عام پر لاۓ. ہر موقع پر رباعی کے فروغ کی بات کی گئی لیکن اس صدی میں رباعی کی صورتحال بطور کمیت گزشتہ صدی کے نصف آخر کے مقابلے کافی بہتر ہے جس کی جھلک رسائل اور دیگر نشریات میں کافی دیکھنے کو ملتی ہے. 
 اس رسالے کی بات کریں تو مطالعہ کرتے ہوئے اسلم حنیف صاحب کے مضمون کو جب میں پڑھنے لگا تو اس میں مجھے کئی نئ چیزیں مل گئیں۔ انہوں نے شروع کے 24 اوزان کو تو شمار کیا ہی ہے ساتھ میں زار علامی اور سحر عشق آبادی کے بھی اوزان کو شامل کیا ہے. اس کے بعد وہ رمز آفاقی کے اوزان کو شمار کرتے ہیں۔پھر ان سب کو ملا لیتے ہیں تو ان کی تعداد 84 ہو جاتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان 84 اوزان پر جمنا پرشاد راہی نے رباعیاں کہیں ہیں جو ان کے مجموعہ میں موجود ہیں۔ اب بھی اوزان میں تجربات جاری ہیں، تجربات کا مستقل ہونا یہ بتلاتا ہے کہ یہ صنف پابندیوں کے لحاظ سے بھی اتنی پابند نہیں ہے جتنا کہ اسے محصور کر دیا گیا ہے بلکہ یہ مستقل تجربات کے دور سے گزررہی ہے. 
دوسرا حصہ رباعی تحقیق و تنقید ہے جس میں کئی قسم کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مخصوص رباعی گو شعرا اور بالعموم سبھی رباعی گو شعرا کا ذکر مضامین میں ملتا ہے. صوبائی خدمات پر پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے لکھا ہے اور اس سے پہلے والے حصے میں بھی مجموعی طور پر حافظ کرناٹکی نے "رباعی فن اور امکانات" کے تحت عہد قدیم سے لے کر عہد حاضر تک کے شعرا کا احاطہ کیا ہے. صوبائی میں صرف کرناٹک کے حوالے سے پروفیسر مقبول احمد مقبول کا مضمون ملتا ہے جبکہ اگر اسی نوعیت کو آگے بڑھاتے تو مہاراشٹر، بنگال، بہار، یو پی اور دیگر صوبوں میں رباعی گو شعرا کی اچھی تعداد مل جاتی. (بہار میں رباعی کے حوالے سے کونسل میں ایک پروجیکٹ مکمل ہوا ہے). 
اگر قدیم رباعی گو شعرا پر نظر ڈالیں تو رواں، جمیل مظہری، خیام، الطاف حسین حالی، عبدالغفور خان نساخ، علامہ اقبال، زیب النسا زیبی، یاس یگانہ چنگیزی، فراق، فضا ابن فیضی، شوق نیموی اور جوش پر مضامین ہیں۔ 
جدید رباعی گو شعرا میں ظفر کمالی، پرویز شاہدی، مامون ایمن، ظہیر غازی پوری، ناوک حمزہ پوری، شاہ حسین نہری اجتبی رضوی، صادقین، کوثر صدیقی، اشراق حمزہ پوری، فرید پربتی، طہور منصوری نگاہ، نور محمد یاس، عاصم شہنواز شبلی، عابدہ شیخ کی رباعی پر مضامین پڑھنے کو مل جاتے ہیں.مجموعی طور پر لکھنے والوں میں دبستان لکھنو، اردو کے غیر مسلم رباعی گو شعرا، میرٹھ کے اہم رباعی گو شعرا پر مضامین ہیں. 
موجودہ وقت میں کم از کم 100 شعرا تو ضرور ہیں جو بہت ہی خوبصورت رباعیاں لکھ رہے ہیں۔ معنوی اعتبار سے ان کے ہاں مضامین کی نیرنگی ہے تو ساتھ ہی رباعی کے فن پر گرفت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان میں سے چند شعراء کے نام جن کی رباعیاں اس شمارہ میں شامل ہیں، مخمور کاکوروی، شاہ حسین نہری، پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال، طہور منصوری نگاہ، ذکی طارق، اسلم حنیف، ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی، سلیم سرفراز، محمد انورضیا، ڈاکٹر فرحت نادر رضوی، اعجازمان پوری، فیضی سمبلپوری، فہیم بسمل، ساجدہ عارفی، ڈاکٹر ہارون رشید، معید رہبر، زیب النسا زیبی، مصباح انصاری، محسن عظیم وغیرہ ہیں.
تبصرہ کے گوشہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جن چھ کتابوں پر تبصرے ہیں وہ سارے رباعی سے تعلق رکھتے ہیں.
آخر میں طباعت کی بات کی جائے تو ماہنامہ رسائل کے سائز میں یہ سہ ماہی نکلتا ہے،(6*8.5 میں) اگر یہ چار سات میں شائع ہوتا تو زیادہ خوبصورت بھی ہوتا، لاگت بھی کم آتی اور ضخامت میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا. 
بہر حال رباعی پر خصوصی نمبر شائع کرکے اس صنف کو موضوع بحث و تخلیق بنانے کے لیے پوری ادبی نشیمن کی ٹیم کو مبارکباد............. امیر حمزہ

Wednesday 5 April 2023

شعر ، غیر شعر اور نثر

   شعر ، غیر شعر اور نثر 

امیر حمزہ


 اردو ادب کی یہ بے مثال اور فاروقی صاحب کی لازوال کتاب اشاعت کے کئی مراحل سے گزر چکی ہے ۔ پہلی مرتبہ یہ کتاب 1973 میں شائع ہوئی تھی ، پھر پس نوشت کے ساتھ 1998 میں اس کے بعد تیسری اشاعت دیباچہ طبع سوم کے ساتھ 2005  میں کونسل سے شائع ہوئی ۔ اور اب کونسل سے یہ تیسر ی اور کل پانچویں اشاعت ہے ۔ پہلی سے لے کر پانچویں اشاعت تک مضامین میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی ہے ۔ فاروقی صاحب جب پچیس برس بعد اس کتاب پر پس نوشت لکھتے ہیںتو اس میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس درمیان مزید مطالعہ اور جدید و قدیم نظریات سے واقفیت کے باوجود ’’اس کتاب میں درج کردہ باتوں کو جدید ادب اور جدیدیت کی تفہیم و استقلال ، اور کلاسیکی ادب کی فہم و بازیافت دونوں کے لیے بامعنی سمجھتا ہوں ۔‘‘ آج جب مزیدپچیس برس بعد میرے مطالعے میں یہ کتاب آئی تو میں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو تنقیدی نظریات و معنویت اس کتاب کی پچاس بر س پہلے تھی وہ آج بھی ہے ۔ تو چلیں کتاب کے محتویا ت پر نظر ڈالتے ہیں۔

 اس کتاب میں کل23 مضامین ہیں ۔پہلا مضمون ’’غبار کارواں ‘‘ ہے جسے کتاب کے مقدمہ کے طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ اس مضمون میں انہوںنے بچپن سے لے کر تا دمِ تحریر مضمون اپنے علمی و نظریاتی سفر کا عکس پیش کیا ہے جس میں انھوں نے اقرار کیا ہے کہ ان کی تحریر میں تو ضیحی و تشریحی پن کا آنا بچپن میں ایک مشہور عالم دین کی کتب سے متاثر ہونا ہے ۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اخیال ہے کہ میں نثر میں وضاحت اور استدلال پر جو اس قدر زور دیتا ہوں تو اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ میں بچپن میں مولانا تھانوی کے اسلوب میں اثر پذیر ہوا ہوں ۔‘‘ فاروقی صاحب کا یہ برملا اظہا ر بہت کچھ سوچنے پر مجبو ر کردیتا ہے ۔ اول یہ کہ آج کا ادبی معاشر ہ جن افراد سے متنفر نظر آتا ہے فاروقی وہیں سے اپنی بنیاد بناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کسی بھی متن پر تفصیل در تفصیل جانے کا اسلوب فاروقی نے یقینا علما ء سے لیا ہے بلکہ مجھے پورا گمان ہے کہ شعر شور انگیز لکھنے کا محر ک بھی تھانوی صاحب کی کتاب ’’ کلید مثنوی‘‘ بنی ہوگی ۔ واللہ اعلم۔ دوم یہ کہ بچپن کی تر بیت بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ یقینا تحریروں میں تاثر وہیں سے آتا ہے جہاں سے مصنف متاثر ہوتا ہے اور بے شک فاروقی کی تنقیدی تحریریں تجریدیت کی شکار نہیں ہیں بلکہ امثال در امثال وہ تشر یح کرتے جاتے ہیں اور قاری کے ذہن و دل میں اترتے جاتے ہیں ۔ 

 کتاب کا سب سے اہم اور پہلا مضمون ’’ شعر ، غیر شعر اور نثر ‘‘ ہے ، یہ اس کتاب کا سب سے طویل مضمون بھی ہے جو تقریبا ً پنچانو ے صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں وہ شعر و نثر کی شناخت پر کئی سوالات فر ض کرتے ہیں اور ان پر تفصیل در تفصیل بحث کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی صفحات کے بعد لکھتے ہیں ’’ میں وزن کو ہر قسم کے شعر کے لیے ضرور ی سمجھتا ہوں ، چاہے اس میں شاعری ہو یا نہ ہو، لیکن شاعری کی پہلی پہچان یہ ہے کہ اس میں اجمال ہوتا ہے ۔‘‘ لفظ اجمال سے فاروقی صاحب نثر ی نظم کو بھی شاعری کے دائرے میں لے آتے ہیں اور لکھتے ہیں ’’ نثر ی نظم اور نثر میں بنیادی فرق اجمال کی موجودگی ہے نثری نظم اجمال کا اسی طرح استعمال کرتی ہے جس طرح شاعری کر تی ہے ، اس طرح اس میں شاعری کی پہلی پہچان موجود ہوتی ہے۔‘‘ لیکن صر ف اجمال ہی شاعری کی پہچان نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ شاعری میں اول وزن آتا ہے پھر اجمال کوپیش کر تے ہیں ، اس کے بعد جدلیاتی لفظ پھر شاعری کی تیسر ی اور آخر ی معروضی پہچان ابہام پر گفتگو کرتے ہیں او ر ان سب کے مجموعے کو شاعری کی پہچان کے طور پرسامنے لاتے ہیں۔ اچھی اور خراب شاعری کے درمیان بھی یہی عناصر سامنے آتے ہیں اور نثر کی بھی شناخت انہیں عناصر سے ہوتی ہے ساتھ ہی’’ نثر کے جو خواص ہیں یعنی بندش کی چستی ، برجستگی ، سلاست ، روانی ، ایجاز، زورِ بیان وضاحت وغیر ہ وہ اپنی جگہ پر نہایت مستحسن ہیں لیکن وہ شاعری کے خواص نہیں ہیں ‘‘ ۔ الغر ض فاروقی صاحب کا یہ مضمون تخلیقیت کی بنیادی تفہیم میں بہت ہی معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔

 دوسرا مضمون ’’ادب کے غیر ادبی معیا ر ‘‘ ہے ۔اس مضمون میں یہ بات کھل کر کہی گئی ہے کہ ادیب کا نظر یہ زندگی ، اخلاق ، عادات و اطوار سے اس کی تخلیقات کے معیار کو کبھی بھی جانچا اور پرکھا نہیں جاسکتا ۔اس پور ے مضمون میں فاروقی صاحب نظریاتی وابستگی اور ذاتی عادات و اطوار کو سامنے لاکر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاعری کبھی بھی اشٹب لشمنٹ کے ردعمل کے طور پر سامنے نہیںآتی ہے بلکہ ایک طرح سے وہ ذاتی ودیعت ہی ہوتی ہے ۔ جیسے کریمنل اور بد کردار کی شاعر ی کامطالعہ کر یں اور دیکھیں کہ اس کی شاعری میں فاسق عناصر کتنے پائے جاتے ہیں تو شاید آپ کو بالکل بھی نہ ملیں ۔ یا کسی سلیم الطبع کی شاعری پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کتنے افکار صالحہ موجود ہیں تو شاید آپ کو رومانیت زیادہ ملے ۔ الغرض نظر یاتی وابستگی یا فطری عمل ادب کو جانچنے کا غیر ادبی معیار ہے ۔ 

 تیسرا مضمون ’’علامت کی پہچان ‘‘ ہے ۔ اس میں فاروقی صاحب علامت کی جامع اور مانع تعریف متعین کرنے کے لیے نکل جاتے ہیں لیکن تعریف نا مکمل ہی رہتی ہے اور علامت تشخیص و تمثیل کے درمیان کی چیز کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ یہ مضمون مکمل طور پر بحث طلب ہے کیونکہ فاروقی صاحب لکھتے ہیں ’’ لیکن ادبی علامت نہ صرف فی نفسہ بامعنی اور خوبصورت ہوتی ہے بلکہ اس میں ایک انوکھی شدت اور قوت ہوتی ہے جو عام الفاظ میں مفقود ہوتی ہے۔‘‘ جس کی تلاش ہر ادیب کو کرنی ہے کہ حقیقی علامت کیا ہوتی ہے اور کون سے الفاظ تمثیل کی سطح پر ہی دم تو ڑدیتے ہیں ۔فاروقی صاحب لکھتے ہیں’’ علامت شعوری ادرا ک کی ضد ہوتی ہے ، توسیع نہیں ۔لیکن پوری طرح شعور آجا نے کے بعد اس کا علامتی کردار برقرار رہ سکتا ہے ۔ اگر چہ اسے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ وہ تمثیل یعنی استعارہ بن جائے گی ۔ علامت جسمانیاتی ہوتی ہے، یعنی اس کا تعلق ذہن کے ان Processes سے ہوتا ہے جو جسم میں بند رہتے ہیں۔ اس طرح علامت مشاہدہ نہیں بلکہ علم ہوتی ہے ۔ ‘‘ ان الفاظ میں کسی حد تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن پوری طرح اتفاق نہیں کرپاتے ہیں ’’ کیونکہ ادبی علامت میں دسرے درجہ کا مشاہدہ اور شاعر کے سماجی ، تہذیبی اور ذاتی تجربات بھی کار فرما ہوتے ہیں ، جو سب کے سب جسمانیاتی یعنی غیر شعوری نہیں ہوتے ہیں۔ ‘‘ الغر ض تعریف و شناخت میں عدم جامعیت و مانعیت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور تشخیص و تمثیل کے درمیان ایک غیر واضح علامت کے طور پر سامنے آتا ہے ۔

 اگلا مضمون ’’صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ ‘‘ ہے۔ اس مضمون کے پہلے ہی جملے ’’ کیا کوئی قاری صحیح معنی میں صاحب ذو ق ہوسکتا ہے ؟ مجھے افسوس ہے کہ اس کے سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ‘‘ میں فاروقی صاحب نے جو دعویٰ کیا ہے اتفاق سے وہ آخر تک قائم رہتا ہے اور کئی زاویوں سے گفتگو کرنے کے بعد آخر میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ صاحب ذوق کی کوئی معیار بندی ممکن نہیں ۔ ذوق کے تعلیمی و غیر تعلیمی تاثراتی و غیر تاثر اتی جتنے بھی زاویے ہوسکتے تھے سب پر انھوں نے تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔ اس مضمون سے سرسری گزرجانا بالکل بھی مناسب نہیں لگ رہا ہے ، تو چاہتا ہوں کچھ چیزوں پر اجمالا ہی روشن ڈالی جائے ۔ تو دیکھتے ہیں کہ باوذوق قاری کسے فرض کر تے ہیں ۔ 

’’۱۔ باوذوق قاری وہ ہے جو ہمیشہ نہیں تو اکثر و بیشتر اچھے اور خراب فن پاروں میں فرق کر سکے۔ 

۲۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قاری حتی الامکان تعصبات، پس منظری مجبوریوں اور ناواقفیتوں کا شکار نہ ہوگا ۔ 

 ۳۔ شعر فہم قاری وہ ہے جو ذوق کی بہم کردہ اطلاع کو پر کھ سکے ۔

۴۔ اس کا مطلب یہ ہے شعر فہم قاری ذوق پر مکمل اعتماد نہیں کرتا 

۵۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شعر فہمی کا کمال یہ ہے کہ قاری ان فن پاروں سے بھی لطف اندوز ہوسکے جو اسے پسند نہیں آتے یا جنھیں اس کے ذوق نے خراب قراردیا تھا ۔

 ۶۔ باذوق اور شعر فہم قاری میں سب سے اہم قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کی زبان فہمی کے مرحلے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی ۔‘‘ 

جب آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ کسی بھی ایسے فرد کا وجود ممکن ہی نہیں ہے۔کیونکہ جب بھی کوئی شعر فہمی پر گفتگو کرتا ہے تو وہ اپنی ہی علم اور ذوق کی وسعت کو سامنے لاکر گفتگو کرتا ہے ۔اس کے نتیجے میں تین قسم کے افراد سامنے آتے ہیں۔ اول وہ جو دیگر قاریوں کو نظرانداز کردیتے ہیں جن کا معیار بز عم خود ان سے پست ہوتا ہے ۔ دوم :وہ لوگ جو وہی شاعری کو قبول کر تے ہیں جو ان کی سمجھ میں آتا ہے اور سوم : جو ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے اسے مطعون کرتے ہیں ۔اس کے بعد فاورقی صاحب ایک خوبصورت مثال پیش کرتے ہیں ندافاضلی اور غالب کے ایک ایک شعر سے ۔ 

 سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا 

کھڑکی کا پردہ کھینچ دیا رات ہوگئی 

اس شعر کو مجہول اور مہمل کہنے والے بہت سارے لوگ مل جائیں گے لیکن غالب کے درج ذیل کے شعر کے متعلق ایسا کچھ بھی نہیں ملے گا ۔

 نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں 

جس کے بازو میں تری زلفیں پریشاں ہوگئیں 

پھر صاحب ذوق قاری کا معیار کیا ہوگا ؟ 

 اس کے سو ا اور بھی بہت سی مثالیں پیش کرتے ہیں پھر جاکر کہتے ہیں’’ باذوق اور شعر فہم قاری کا تصور ایک انفرادی تصور ہے۔ ‘‘ لیکن فاروقی صاحب یہیں بس نہیں کرتے ہیں بلکہ پھر اس کو موضوع کے تعلیم کے پیمانے پر ناپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو بھی رد کردیتے ہیں اور یہی سامنے آتا ہے کہ صاحب ذوق کی کوئی معیار بندی سامنے نہیں آسکتی ۔ 

اب بڑھتے ہیں’’ نظم اور غزل کا امتیا ز‘‘ کی جانب ۔ اس مضمون کوبھی فاروقی صاحب نے اسی انداز میں لکھا ہے کہ پہلے دونوں اصناف کے مابین 12 امتیازات قائم کرتے ہیں پھر ان امتیازات کو مثال سے باطل بھی کردیتے ہیں ۔ جب معاملہ حل ہونے کا ہوتا ہے تب پھر سے امتیازی معروضات پر گفتگو کرتے ہیں پھر کئی زاویوں سے بات ہوتی ہے پھر بھی کوئی واضح فرق سامنے نہیں آتا ہے تب جاکر فرماتے ہیں کہ’’ ان سوالوں کا ایک جواب ہے: غزل بنیادی طور پر بالواسطہ اظہار کی شاعری ہے ، غیر واقعیت کی شاعری ہے …غزل کی پہلی اور آخری پہچان اس کی داخلیت ، غیر واقعیت اور بالواسطگی ہے۔ ‘‘ اور نظم میں بھی ساری چیزیں ہوتی ہیں لیکن غزل کے مقابلے میں واقعیت کا دخل ہوتا ہے ۔یعنی واقعیت اور غیر واقعیت کا فرق ہے۔ 

اس کے بعد ’’ مطالعہ اسلوب کا ایک سبق ‘‘ ہے ۔ اس عنوان میں ایک لفظ ’سبق ‘ قاری کو چونکا دیتا ہے کہ اتنے بھاری بھر کم مضامین کے بیچوں بیچ سبق جیسا مضمون فاروقی صاحب نے کیوں شامل کیا ۔ اس سوال کا جواب تو مجھے بھی نہیں پتہ البتہ سودا اور میر کی ایک ایک غزل اور غالب کی دو غزلوں کے حوالے سے انہوں نے اسلوبیات کے وہ سبق سکھائے ہیں جو عموما اسلوبیات کی کتابوں میں پڑھنے کو نہیں ملتا ہے ۔ واقعی میں انہوں نے جن جزئیات کے ساتھ اس کو پیش کیا ہے ان سے شعر ی اسالیب کے خطوط طے ہوتے ہیں اور قارئین کے لیے وہ سبق ہی ثابت ہوتا ہے ۔ 

افسانے کی حمایت میں دو مضامین ہیں پہلے مضمون میں وہ یہ مشاہدہ پیش کرتے ہیں کہ ’’ ناول کے مقابلے میں افسانے کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے یہاں غزل کے مقابلے میں رباعی کی ہے‘‘ اسی مشاہدہ پر باقی مضمون مکمل ہوتا ہے ۔ دوسرا مضمون انٹرویو کے انداز میں ہے جس میں افسانہ کے فن پر گفتگو کی گئی ہے ۔

 ’’آج کا مغربی ناول‘‘ (تصورات و نظریات ) اگر چہ مغربی ناولوں کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے لیکن اس میں ناول کے فن پر تعمیری گفتگو پڑھنے کو ملتا ہے ۔ موصوف ابتدا میں ہی لکھتے ہیں ’’ ناول در اصل ڈرامے کا ایک محدود اور نسبتاً بے جان بدل ہے ۔ ڈرامہ بھی وقت میں گرفتار ہے ،بلکہ اگر ہم ارسطو کو اپنا رہنما تسلیم کریں تو ڈرا ما کلیتہ وقت کا غلام ہے ۔لیکن اس کے باوجود وہ ناول سے برتر ہے کیونکہ ڈرامے میں عمل اور پرفارمینس کا عنصر ہے ناول اس سے عاری ہے ۔…بنیادی بات یہ ہے کہ ناول اس وقت سرسبز ہوسکتا ہے جب ڈرامے پر برا وقت پڑا ہو۔‘‘ فاروقی صاحب اتنی بڑی بات کہہ کر گزر جاتے ہیں لیکن کمال ہے کہ بعد میں اس پر کوئی بحث نظر نہیں آتی ہے ۔کیونکہ جو بات کہی وہ سچ ثابت ہوئی کیونکہ ڈرامہ زوال پذیر ہوا توناول آج سر سبز و شاداب ہے ۔لیکن اردو کی بات کی جائے تو یہاں ڈرامہ کا ناول سے کوئی مقابلہ رہا ہی نہیں بلکہ ناول زیادہ مقبول رہی ہے ۔ اور اردو ناول از اول تا ہنوز مقبول رہی ہے ، جبکہ ڈرامہ فلموں سے قبل ہی مقبول تھی اور اردو میں ڈرامہ کا شمار دیگر نثری اصناف میں ہوتا ہے ، مطلب فکشن ہونے کے باوجود فکشن کے ساتھ صف اول میں شمار نہیں ہوپاتا ہے ۔ 

 تبصر ہ نگاری کے فن پر عموما ً مضامین پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں ایسے میں فاروقی صاحب کے تبصرے پر لکھے گئے مضمو ن کو بنیادی حیثیت تسلیم کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ اس مضمون میں کئی نکات پر بحث کرتے ہوئے دو بنیادی پہلوؤں کے جانب اشارہ کر تے اول اخلاقی پہلو دو م تخلیقی پہلو ، یعنی کتاب کے ماسوا سے مبصر کو کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہیے خواہ مصنف کی ذات ہو یا پھر مصنف کی ماقبل کی تصنیفات ہوں ۔ اب تک کے مضامین اصناف پر تھے بعد کے مضامین جزئیات پر ہیں۔ جیسے ’’ جدید ادب کا تنہا آدمی ، نئے معاشر ے کے ویرانے میں‘‘یہ بہت ہی مختصر مضمون ہے جس میں تنہائی پر قدیم وجدید شعرا کے رویے پر خوبصورت تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے ۔ 

’’پانچ ہم عصر شاعر ‘‘کو فاروقی صاحب 1969 میں لکھتے ہیں ۔ اس مضمون میں اخترالایمان ، وزیرآغا، بلراج کومل ، عمیق حنفی اور ندا فاضلی کی شاعری پر دیگر زاویوں کے ساتھ اسلوب پر زیادہ گفتگو کی گئی ہے ۔ مضمون کے شروع میں ہی پانچوں شاعروں کی خصوصیات کو مختصراً بیان کرتے ہیں جو اجمال ہوتا ہے آنے والی تفصیلات کا ۔ تو یہاں اس اجمال کو پیش کیا جاتا ہے ۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں :

 ’’ اگر مجھے ان شاعروں کو مختصراً بیان کرنا ہوتو میں یوں کہوں گا :

اخترالایمان : تقریباً نثری اور روز مرہ کی زبان سے نزدیک ڈرامائی اظہار ۔ استعارے سے مبرا ، لیکن علامت سازی کی کوشش ، دروں بینی اور خود کلامی عصر حاضر پر سخت تنقیدی اور طنزیہ نگاہ، آواز میں اعتماد ۔

 وزیر آغا: رنگین پیکروں سے بھرا ہوا اظہار ، اخترالایمان کی بالکل ضد ، علامت سے زیادہ استعارہ سازی کی کوشش ، فضا خلق کرنے اور نظم میں منطقی تعمیر کا تاثر ۔

 بلراج کومل : علامت سازی ، روز مرہ کی دنیا سے دلچسپی ، لیکن اس دلچسپی کااظہار ایسی زبان میں جن میں ذاتی Involvement کی جگہ مابعد الطبیعیاتی Detatchment ہے ۔ لہجہ میں انتہائی شائستگی ۔

 عمیق حنفی : وسیع کینوس ، عصر ی دنیا اور گردو پیش کے ماحول کا شدید تجربہ ، فرد کے متصادم ہوتے رہنے کا احساس ، روز مرہ کی زبان لیکن خطابیہ لہجہ کے ساتھ جن میں خفگی اور الجھن نمایا ں ہے ۔ عصریت کا مکمل اظہار ہے ۔ 

ندافاضلی : زبان میں نسائی لچکیلا پن ، عصری حقیقت کو رو برو پاکر احتجاج کے بجائے تھکن اور بے سودگی کا احساس ، گھریلو زندگی سے مستعار لیے ہوئے پیکر ۔ ‘‘ 

اس کے بعد ہر ایک کی شاعری پر بلکہ اسلوب کی انفرادیت پر اشاراتی و قدرے وضاحتی گفتگو کر تے ہیں ۔ 

’’ن م راشد صو ت و معنی کی کشاکش ‘‘لا = انسان کے آئینہ میں ۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ اس میں موصوف صوتی تنقید بھی پیش کررہے ہیں جیسا کہ مطالعہ اسلوب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب ایسی گفتگو سننے کو نہیں ملتی ہے ، جبکہ شعری بنت میں الفاظ کے ساتھ اصوات کا بھی بہت زیادہ دخل ہوتا ہے ۔ خیر ! مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں ’’ میری نظر میں راشد کا سب سے بڑ ا کارنا مہ یہی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے انتہائی بیدار سماجی اورسیاسی شعور کے ہاتھوں اونے پونے نہ بیچ کر شاعرانہ آہنگ کے پاس رہن رکھ دیا ۔‘‘ 

’’ غالب اور جدید ذہن ‘‘میں یے ٹس اور غالب کے حوالے سے بحث ہے تاہم غالب کے اشعار کے حوالے سے جتنی بھی بحث جدید ذہن کو لے کر کی جائے کم ہی پڑ جائے گی آخر میں نتیجے کے طور پر لکھتے ہیں ’’ آج ہم جوغالب اور یے ٹس کی طرف بار بار رجو ع کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ یہ دونوں جدید انسان کی کسمپرسی کو ایک ایسی دنیا میں پناہ دیتے ہیں جو اس دنیا سے بہت بہت قریب ہے ، جس کی یادیں جدید انسان کے اجتماعی لاشعور میں پوشیدہ ہیں۔‘‘ اس پر حاشیہ میں غالب کا ایک شعر نقل کرتے ہیں جو مضمون کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے ۔ 

بزم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم اسد : دیکھتے ہیں چشم از خواب عدم نکشادہ ہے 

 ’’ اردو شاعری پر غالب کا اثر ‘‘ کیا اثر ہوا شروع میں کچھ واضح نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء میں ہی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جو بڑا شاعر ہوتا ہے ان کا لب و لہجہ بعد کا شاعر اختیار نہیں کرتا ہے ، بہت سے شعرا معتقد میر و غالب رہے لیکن کبھی ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا جیسے اثر لکھنوی میر کے کلام کی قسمیں کھایا کرتے تھے اور دیگر شعرا کے شعر کے مقابلے میں میرکا شعر پیش فرما دیا کرتے تھے لیکن خود میر کا لہجہ کبھی اختیار نہیں کر سکے ۔ اسی طریقے سے حالی غالب کے ذہین ترین شاگر د تھے اور غالب کو مابعد کے لیے یاد گار غالب سے متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیے لیکن ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا ۔ پھر غالب کا اردو شاعری پر کیا تاثر قائم ہوا ؟ وہ دیکھیے لکھتے ہیں: ’’ غالب کا سب سے بڑا اثر اردو شاعری پر اس طرح ہوا کہ انھوں نے اپنے بعد کی تنقیدی فکر کو بہت متاثر کیا اوراردو کی بہت سی تنقید شعوری اور غیر شعوری طور پر غالب کی توجیہ Justification کے لیے لکھی گئی ۔پھر اس تنقید نے شاعر کو براہ راست متاثر کیا ۔ ‘‘ تو گویا شاعر پر نہیں بلکہ ادبی تنقید میں غالب کا اثر زیادہ نظر آتا ہے ۔

’’ غالب کی مشکل پسندی‘‘بظاہر عنوان سے یہی لگا کہ ان کی مشکل پسند ی کو تہہ درتہہ پیش کیا جائے گا لیکن مضمون کے شروع میں کہتے ہیں کہ میں غالب کے کلام کو مشکل نہیں بلکہ مبہم سمجھتا ہوں اور ابہام کواشکال سے زیادہ بلند تصور کرتا ہوں کیونکہ’’ میری نظر میں اشکال عموماً شعر کا عیب ہے اور ابہام شعر کا حسن ۔‘‘ یعنی ’’ غالب کے نزدیک مشکل پسندی کا معیار استعار ہ ہے ۔ ‘‘ جس میں ایسی ہوش مندی کارفرمائی ہوتی ہے کہ’’ استعارہ ہیئت اور موضوع کے اس  امتزاج کو حاصل کرلیتا ہے جہاں استعارے کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ باقی آپ تو جانتے ہی ہیں کہ غالب نے بیدل کے اسلوب کو اپنایا ہے جو دیگر فارسی شعرا سے زیادہ پیچیدہ اسلوب کا حامل ہے جب کہ بیدل کی سرشت میں صوفیانہ پُراسرار ی تھی اور غالب پر عقلیت اور ہوش مندی حاوی تھی ۔ 

’’ غالب کی ایک غزل کا تجزیہ ‘‘میں ’’ جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی : مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی ‘‘ کا ایسا تجزیہ پیش کرتے ہیں جو مابعد کے لیے ایک رہنما خطوط ثابت ہوتا ہے لیکن افسوس ایسے تجزیات بعد میں کہیں زیادہ پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں ۔ 

’’ برف اور سنگ مرمر ‘‘میں غالب کے شاگر د ناظم اور غالب کی شاعری کا موازنہ پیش کیا گیاہے ۔ جس میں بنیادی طور پر یہی ہے کہ ناظم کے یہاں غالب کا کتنا رنگ پایا جاتا ہے ۔ ’’ میر انیس کے مرثیے میں استعارہ کا نظام ‘‘میں آپ محسوس کریں گے کہ نو ر اور نور سے متعلق استعارے انہوںنے بہت ہی خوبصورتی سے قائم کیے ہیں جو استعاراتی نظام میں یقینا منفرد نظر آتے ہیں۔ ’’ یے ٹس ، اقبال اور الیٹ‘‘میں مماثلت کے چند پہلو کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔سب کے ذہن میں آرہاہوگا کہ کیسی مماثلت ہوگی نظر یاتی، موضوعاتی یا پھر فنی ؟ لیکن فاروقی لکھتے ہیں ’’ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ نسل ، زبان اور تہذیب کے اختلاف کے باوصف ان تینوں نے حیات و کائنات کے بعض مخصوص مسائل کو چھیڑا ہے اور ان مسائل کی طرف ان کا رویہ ایک دوسرے سے مشابہ ہے ۔ ‘‘ الغرض اس کتاب کے اکثر مضامین شعری تنقید کے حامل ہیں جنہیں شعریات کی بنیادی تنقید میں شمار کیا جاتا ہے اور شمس الرحمن فاروقی کی یہ کتاب اردو تنقید کی بنیادی کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ 


Tuesday 27 December 2022

2022 کااردو زبان و ادب

 ۲۰۲۲ کااردو زبان و ادب 

ڈاکٹرامیرحمزہ 

ادب و زبان کے حوالے سے اس سال نے ہمیں بہت کچھ دیا تو ہم بہت کچھ لے بھی لیا ہے ، بلا کسی تمہید کے اطراف و جوانب کا جائزہ لیتے ہیں۔

 شروع کرتے سب سے پہلے صحافت سے کیونکہ ۲۰۲۲ صحا فت کی دو صدی کے جشن کے طور پر منایا گیا ۔ ہندو ستان کے مختلف شہر وں میں اعلی درجے کے سمینا ر منعقد کیے گئے ۔جس میں اردو صحافت کے نشیب و فراز پر گفتگو ہوئی ۔ بزم صدف انٹرنیشنل کے تحت پٹنہ ، کلکتہ اور حیدرآباد میں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ور سٹی کے زیر اہتمام یونی ورسٹی کیمپس میں، خلافت ہاؤس ممبئی میں، غالب اکیڈمی دہلی اور بنگال میںبھی صحافت کے دو سو سالہ جشن پر خوب جشن ہوا ۔ اس میں ایک جشن بہت اعلی پیمانہ پر ملک کی بڑی ہستیوں کی شرکت کے ساتھ سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کی نگرانی میں منعقد ہوا ۔ اب سال گز رنے والا ہے ایسے میں صحافت کے موجودہ منظر نا مے پر غور کریں توRNI کے مطابق 2015-16 میں 5,17,75,006 اردو اخبارات کی کاپیوں کی سر کولیشن کا دعویٰ کیا گیا تھا جو بتدریج سا بقہ تین برسوں سے بڑھ رہا تھا لیکن 20120-21 میں سرکلیشن کا دعویٰ 2,61,14,412 کا ہی ہے ۔ تقریبا پچاس فیصد گراوٹ کی وجہ شاید کورونا رہی ہو کیونکہ بہت سارے اخبارات دم ٹوڑچکے تھے ۔ لیکن جو اخبارا بڑے پیمانے پر مختلف شہروں سے شائع ہورہے ہیں ان کے ایڈیشن پر بات کریں تو کوئی نیا ایڈیشن کہیں سے نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی اردو میں کسی عمدہ اخبار کی ابتدا کی خبر ملتی ہے ۔ قومی کونسل کی جانب سے جاری کردہ ایک فہرست کے مطابق ہندوستان میں 81 اردو اخبارات نکل رہے ہیں، ان میں سے 20 دہلی سے ہی شائع ہوتے ہیں ۔ صحافت کی نظر سے 2022 کو اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ UNI کی سروس بند کر دی گئی ۔ ہاں پور ٹلس میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بات کی جائے تو ٹیلی ویژن میں اردو اپنا پیر سمیٹ رہی  ہے سوائے ای ٹی وی اردو ، ای ٹی وی بھارت کے ۔ ڈی ، ڈی اردو میں صر ایک بلیٹں جارہا ہے ۔ ریڈیو کی سروس کورونا سے پہلے اکیس گھنٹے سے زائد تھی اور آج صرف دس گھنٹوں میں سمٹ کررہ گئی ہے جس کی وجہ سے اردو کے بہت سارے پروگرام بھی ختم ہوگئے ۔ اردو مجلس کا پرو گرام بھی ایک دو گھنٹے پر ہی محصور ہوکر رہ گیا ہے ، ٹوڈا پور کا نیشنل چینل کورنا سے پہلے ہی بند ہوچکا ہے ۔ہفتہ واری رسائل تو اب نکل ہی نہیں رہے ہیں ، گھریلوڈائجسٹ جو بہت ہی اہتمام کے  ساتھ شائع ہوا کرتے تھے وہ بھی کورنا کے بعداس بر س منظر عام پر آنے کی ہمت نہیں کرسکے ۔

 ادبی صحافت کی بات کی جائے تو دلی کے سرکاری ماہناموں کے علاوہ اردو ادب کی نمائندگی کرنے والے دیگر ماہناموں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔ کورونا کے بعد اس بر س سہ ماہی رسالوں کی کارکردگی بہتر دیکھنے کو ملی جن میں عالمی فلک ، ثالث ، دربھنگہ ٹائمز ، مژگاں ، اردو جرنل پٹنہ ،جہان اردو ، نیاورق ،تمثیل نو، دیدبان ، ساغرادب ، اثبات ، انتساب ، استفسار ، امروز ، رہروان ادب ، انشا ، فکر و تحریر ،تکمیل ، تفہیم،جدید فکرو فن، عالمی ادبستان و دیگر نے خوب محنت کی۔سر کاری میں، فکرو تحقیق، ادب و ثقافت ،زبان و ادب، روح ادب ، شیرازہ ، ہندوستانی زبان، بھاشا سنگم ، فروغ ادب وغیرہ نکل رہے ہیں۔ شروع کے چند یقینا اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیںو دیگر خصوصی نمبرات کی وجہ سے ادب کی خدمت بخوبی اداکررہے ہیں۔ غیر سرکا ری ماہناموں میں ’’پیش رفت ‘‘ و ’’تریاق ‘‘کی اچھی پیش رفت دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ماہنامہ شاعر اس بر س چرا غ سحر ی کی شکل اختیار کرگیا۔ 

صحافت کے اس یاد گار سال میں صحافت پر’’اردو صحافت دو صدی کا احتساب ‘‘(صفدر امام قادر ی ) کتابیات صحافت ( محمد ذاکر حسین ) اردو صحافت تجزیاتی اور لسانی ڈسکور س (محمد جہانگیر وارثی و صباح الدین احمد ) مغربی بنگال میں اردو صحافت (محمد شکیل اختر ) جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز، جی ڈی چند کی نادر صحافتی تحریریں (سہیل انجم ) منظر عام پر آئے ۔

اب کتابوں کی دنیا کی بات کریں تواس سال فکشن پر زیادہ چرچے ہوئے ۔ اسے گزشتہ چندبرسوں کی محنت کا ثمرہ بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ ناول کی فضا مستقل ہموار کی گئی جس کے نتیجے میں ناول کے جدید قاری اور ناقد بھی سامنے آئے، ساتھ ہی ناول تنقید کی نئی زبان بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔یقینا قاری کی پہلی پسند اس سال ناول رہی کیونکہ جس چیز کے چرچے زیادہ ہوں گے عوام میں بھی وہی زیادہ جگہ بنائے گی اسی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں جو ناول لکھے گئے تھے ان پر اس سال گفتگو بھی زیادہ ہوئی جس پر پرو فیسر کوثر مظہر ی اور ڈاکٹر امتیاز علیمی کی ’’ نیا ناول نیا تناظر ‘‘ اور انتخاب حمید کی ’’ ارو کے نئے ناول صنفی و جمالیاتی منطق ‘‘ سال کے شروع میں منظر عام پر آئے جو ناول مذاکرات میں مزید معاون ثابت ہوئے ۔ناول کی دنیا میں خالد جاوید نئے انداز و موضوعات کی وجہ سے پہلے سے نمایاں تھے جے سی بی ایوارڈ نے خالد جاوید کے ساتھ اردو ناولوں کو بھی ممتاز کیا ۔اس بر س کی چند قابل ذکر کتابیںدرج ذیل ہیں ۔

ناول ارسلان اور بہزاد(خالدجاوید) نصف صدی کا قصہ ( سیدمحمد اشرف ) سسٹم (عبدالصمد) شہر ذات (شاہد اختر )  صفر کی تو ہین ، جو کر (اشعر نجمی ) زندیق ( رحمن عباس) ڈھولی ڈگڑوڈوم( غیاث الرحمن سید) درد کا چاند بجھ گیا (ڈاکٹر اعظم ) نئی نسل سے حمیرا عالیہ کا ناول ’’ محصور پرندوں کا آسمان‘‘۔ افسانے  تشبیہ میں تقلیب کا بیا نیہ ( نورین علی حق ) کر ب نا تمام ( شاہین نظر )راستے خاموش ہیں (مکرم نیاز )۔شاعریکٹھ پتلی کا خواب (صادق ) دو کنارے ( سرور ساجد ) بار زیاں ( یعقوب یا ور ) قر ض جاں (عدیل زیدی) قسط (صابر ) دختر نیل (ولا جمال العسیلی)دھوپ چھاؤں کا رقص (شبانہ عشرت )عشق دوبارہ ہوسکتا ہے (رخشاں ہاشمی )

 خود نوشتہندوستانی سیاست اور میری زندگی (محسنہ قدوائی ) نہ ابتدا کی خبر ہے نہ (شارب ردولوی ) دیکھ لی دنیا ہم نے (غضنفر ) طفل برہنہ پا کا عروج ( جلیس احمد خاں ترین ) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور میری داستان حیات (الما لطیف شمسی) 

 تنقید  غالب : دنیائے معانی کا مطالعہ (انیس اشفاق )اکبر الہ آبادی شخصیت اور عہد،مخاطبت ،باقیات سہیل عظیم آباد ی ، دھوپ چھاؤں(ارتضیٰ کریم) گمشدہ معانی کی تلاش (سر ور رالہدی ) معاصر ارد ادب میں نئے تخلیقی رویے (صدیق الرحمن قدوائی)ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری (یعقوب یاور ) 

شاداں فاروقی حیات و خدمات (مجیر آزاد )جدید اردو افسانے کا فکر ی و فنی منظر نامہ (حیدر علی )

غالب کا خود منتحب فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ (بیدار بخت ) غالب اور عالمی انسانی قدریں (ادریس احمد )جدیدیت اور غزل ( معید رشید ی) اردو ناول نظر ی و عملی تنقید ( سفینہ بیگم ) شعرائے کرناٹک (انوپما پول)تحقیق و تدوین تعلیمی سفرنا مے ، (شمس بدایونی )رشید حسن خاں اور شمس بدایونی کا ادبی رشتہ ، مقالات رشید حسن خاں، رشید حسن خاں اور اردو محققین(ٹی آر رینا )کلیات مکتوبات سر سید (عطا خورشید) اثرات شبلی دو جلد ( محمد الیاس اعظمی) رفقائے سر سید ( افتخار عالم خاں ) رباعی تحقیق (امیر حمزہ ) مقالات طارق (طارق جمیل )اردو املا مسائل اور مباحث ( ابرا ہیم افسر ) غبار فکر (اجے مالوی )بچوں کی کتابیں تعارف و تذکرہ ( عطا عابدی) خاکے  جنھیں میں نے دیکھا جنھیں میں نے جانا (شمع افروز زیدی ) کیسے کیسے آسماں (فاروق اعظم قاسمی )رہ و رسم آشنائی (اطہر صدیقی )۔ترجمیکی بات کی جائے تو یہ بر س ترجمہ کے لیے بہت ہی اچھا رہا ہے ہر فن کی کتابوں کا اردو میں تر جمہ کی جانب رجحان بڑھا ہے ساتھ ہی چند پبلیشر ایسے بھی ہیں جو تراجم کو شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیںچند تر جمہ شدہ کتابیں یہ ہیں۔ مغموم صنوبر ، زہراب نیل ، گاڈ فادر ، ڈاکٹر زاگو، جہنم ، سسیلیانو، آخری ڈان، اومیرتا ، فلسفہ جے کرشن مورتی ( یعقوب یاور )کشمیر نامہ ، ہندوستانی مسلمان اور نشاط ثانیہ (عبدالسمیع )گواڑ (نوشاد منظر )مسلم یو نی ورسٹی کے قیام کی مہم ( عبد الصبور قدوائی )کھر ونچ (متھن کمار ) ۔متفرقات جہان علی گڑھ (راحت ابرار )چار کھونٹ (ابن کنول)ممبئی کی بزم علمیہ ( عبدالستار دلوی )مقالات ابن احمد نقوی (سہیل انجم ) ۔

اس سال شخصیات پر زیادہ کتابیں نظر نہیں آتی ہیں البتہ پر وفیسر صادق کی شخصیت و فن پر چند کتابیں اسی سال نظر سے گزری ہیں۔ صادق کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری (اسرا فاطمہ ) صادق کے تحقیقی مضامین (شا ہینہ تبسم ) صادق کے تنقیدی مضامین ( ارشاد احمد ) صادق کے ہندی مضامین (ابراہیم افسر ) صادق دکن دیس میں (عبدالقادر ) اصناف ادب اور صادق ( انتخاب حمید ) 

یقینا ہزار کے قریب کتابیں اس سال شائع ہوئی ہوں گی جن میں سب تک رسائی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی سب کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔ 

اشاعتی دنیا کی بات کی جائے تو سبھی کے علم میں ہے کہ ادبی کتابوں کے اشاعتی مرکز دہلی ہے ۔ ملک بھر کے ادیبوں کی کتابیں یہاں سے شائع ہوتی رہتی ہیں گزشتہ بر س قومی کونسل نے 303 مسودات کو منظور کیا تھا یقینا ان میں سے زیادہ تر دہلی سے ہی شائع ہوئے ہوں گے اور یہ بھی گمان ہے کہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤ س نے ہی زیادہ کتابیں چھاپی ہوںگی ۔عرشیہ نے صرف اس سال تقریبا چالیس سے پچاس نئے ٹائٹل شائع کیے ہیں ۔ایم آر پبلی کیشن کریٹواسٹار ، 30۔ مر کزی پبلی کیشنز60، عذرا بک ٹریڈر س نے 32 ، عبارت پبلیکیشن جو اسی سال اسٹیبلش ہوا ہے اس نے پندرہ ادبی کتابیں شائع کی ہیں۔ بڑے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی بات کی جائے تو کونسل سے زیادہ تر کتابیں ری پرنٹ ہوئی ہیں البتہ چند نئی کتابیں بھی آئیں ہیں ، اردو اکادمی دہلی نے کوئی نیا ٹائٹل نہیں چھاپا ، اردو گھر نے دس سے کم ہی نئی کتابیں شائع کی ہیں ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے بھی تقریبا دس نئی کتابیں چھاپیں ۔

جشن دہلی میں دو جشن ہوا کرتے تھے ، جشن ریختہ کی جانب کشش یقینا اردو کی کشش ہے جسے میں نے جشن میں موجود حاشیائی آوازوں سے محسوس کیا ہے ، اردو اکیڈمی کا اردو وراثت میلہ منعقد نہیں ہوا ،قومی کونسل کا عالمی سمینا ر بھی کو رونا کے بعد نہیں ہوسکا ہے ، ادرو گھر کا سمینا ر کئی برسوں سے نہیں ہوا ۔ 

وفیات کا ذکرو ں تو ابرار کرتپوری،ابراہیم اشک،اشرف استھانوی ،اظہار عثمانی،پروفیسر گوپی چند نارنگ،پروفیسرمینیجر پانڈے،پروفیسر اسلم آزاد،پروفیسر اصغر عباس،پروفیسر جعفر رضا

پروفیسر حسین الحق،پروفیسر خورشید سمیع،پروفیسر عطیہ نشاط خان،حیدر بیابانی،خالد عابدی،ڈاکٹر کمار پانی پتی ،ڈاکٹر نادر علی خاں،ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی،کرامت علی کرامت، متین اچل پور ی ،مظفر حسین سید،مولانسیم شاہ قیصر،برقی اعظمی جیسی شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں ۔

ریسر چ اسکالر س کی دنیا کی بات کی جائے تو ہر سال تقریبا دو سو اردو کے طلبہ ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کرتے ہیں یہ تعداد یقینا قابل تحسین ہے۔ طلبہ کے عمدہ مضامین اور کتابیں بھی منظر عام پر آرہی ہیں ، اس برس کے عالمی ریسرچ اسکالرز سمینار غالب انسٹی ٹیوٹ میں یہ دیکھنے کو ملا کہ سابقہ کے مقابلے عمدہ مقالات کے ساتھ اچھے طلبہ کی شرکت تھی ۔ سب سے زیادہ سوال ریڈر شپ پر آتا ہے اوراس کا پیمانہ کتاب کی فروختگی ہے۔ اس کا جواب بھی یقینا ان ہی کے پاس ہے کیونکہ جب طلبہ فوٹو کاپی سے در س حاصل کریںگے تو کتاب سے دلچسپی کہاں قائم ہوگی اور نوٹ پر منحصر رہیںگے تو کتاب کی قرأت کی جانب کہاں راغب ہوںگے ۔ سوال کا جواب ہمارے پاس ہے اردو کی ترقی ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے جو چیزیں (نوٹ ، فوٹی کاپی ، پی ڈی ایف )سم قاتل ہیں ہم انہی کو فروغ دیے جارہیں ۔





Wednesday 21 December 2022

کردار نگاری و اقسام کردار kirdar nigari wa aqsam e kirdar

 کردار نگاری و اقسام کردار 

امیر حمزہ ، دہلی 


کردار افسانوی ادب میں روح کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جہاں تک کردار سفر کرتا ہے افسانوی ادب بھی سفر کرتا رہتا ہے ۔ داستا ن ہو یا ناول ، ڈرامہ ہو یا افسانہ ، داستانوی مثنوی ہو یا منظوم قصے یا ہر وہ ادب جہاں قصے کا عمل دخل ہے وہاں کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ کسی بھی قصہ کے کر دار عموما انسا ن ہی ہوتے ہیں، جانداروں کے کردار بھی قدیم و جدید افسانوں میں نمایاں طور پرپڑھنے کو ملتے ہیں ،غیر جاندار کرداروں سے بھی اب افسانوی دنیا مجہول نہیں، لیکن مؤخر الذکر دونوں یا تو علامات کے طور پر سامنے آتے ہیں یا پھر انسانی کرداروں کے بدل کے طور پر ۔البتہ جانداروں کے جزوی کردار اپنی اصل ہیئت میں سامنے آتے رہتے ہیں ۔ 

کردار نگاری اپنے وسیع مفہوم میں نہ صرف ناول بلکہ ادب کے دیگر اصناف میں بھی پائی جاتی ہے ، تاریخ ، سیرت ، سوانح ، خود نوشت، خاکہ ، انشائیہ ، ڈرامہ ،افسانہ ، نظم ، مثنوی ، مرثیہ اور داستان میں کردا ر موجود ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی کردار نگاری کی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ناول کی کردار نگار ی سامنے آتی ہے کیونکہ یہاں کردار اپنا مکمل عکس پیش کرتا ہے۔ اس اعتبار سے کردار نگاری میں ادب کی کوئی دوسری صنف ناول کا مقابلہ نہیںکرسکتی ۔ کیونکہ ناول کے کردار گہرے مشاہدے ، تجربے اور فنی تکمیل کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔

کر دار نگار ی کسی عمومی فرد یا بطور فرد استعمال ہونے والے کردار میں خصلت نگاری کا فن ہے ، جس میں ناول نگار افرادِ قصہ کے ایک فرد میں مخصوص عادات و اطواراور خصائل و طبیعت پیدا کرتا ہے تاکہ اس کی ہستی دیگر سے منفرد ہوجائے اور اگر اسے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرنا ہے تو پھر اس کی خصلت کی تراش و خراش میں مزید محنت کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے جملہ افراد ِقصہ میں نمایاں ہوجائے اور ادب میں عرصہ دراز تک منفرد رہ سکے۔ ایسے میں کامیاب کردار نگار وہی بن پاتا ہے جس کے پاس گہرے مشاہدے اور بھرپور تجربے کے ساتھ وفور علم بھی ہو ، نیز اسلوب پیش کش میں نمایاںلسانی صلاحیت بھی رکھتا ہو تاکہ قاری پر وہ گراں نہ گزرے ۔ یعنی کردار نگار اشخاص قصہ کی طبیعت ، سرشت ، عادا ت و اطوار میں ایسی امتیازی خصوصیات پیدا کردیتا ہے جس سے وہ مکمل معاشرہ کا فرد لگے اور ممیز خصوصیات کی وجہ سے امتیازی کردار کا حامل ہو جائے ۔ 

کردار کے حقیقی معنی سے ہم سب واقف ہیں لیکن یہ لفظ فکشن کی دنیا میں ہمیشہ مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چند لفظوں سے کردار کے بارے میں فکشن سے پرے جانے کی کوشش کر تے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز(جانداروغیر جاندار) اپنے لیے لفظ کردار تک اس وقت پہنچ پاتی ہے جب وہ منفرد خصوصیات اور ممیز علامات کی حامل ہوجائیں۔ فکشن کے منضبط ہونے سے پہلے سے ہی لفظ کردار اپنے ممتاز معنی میں مستعمل ملتا ہے ،  کردار جب قوموں کے ساتھ لکھا ملتا ہے تووہاں قوم کی کوئی نمایاں خصوصیت مراد ہوتی ہے ۔ الغرض لفظ کردار کا استعمال کسی ممتازصفت و علامت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ کردارجب اجتماعیت سے انفراد یت کی جانب سفر ہوا انفرادیت کے لیے مستعمل ہونے لگا ۔ اب عالم یہ ہے کہ اجتماعیت کے لیے کردار کا استعمال نہ ہوکر زیادہ تر انفرادیت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ یہ کردا ر کے معنی میں ہی پوشیدہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نقطہ پر مرکوز ہو خوا ہ وہ نقطہ کثیر (فرد، مقام ) پر محیط ہو یا قلیل پر ۔ اس کو درج ذیل دو تعریفوں سے سمجھتے ہیں :

’’ ایک شخصیت جسے کسی ناول نگار یا ڈرامہ نگار نے نمایاں اوصاف و خصائص بخش دیے ہوں ۔ ‘‘

’’کسی چیز کی ممیز خصوصیات اور خصوصا کسی فرد بشر کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف ، ان اوصاف کا مجموعہ جو اسے شخص کی حیثیت سے ممیزکریں ‘‘ 

پہلی تعریف میں شخصیت ہے جو عمومیت سے ہمیشہ ممتاز ہوتی ہے کیونکہ وہ نمایا ں اوصاف و خصوصیات کی مالک ہوتی ہے ۔ اس کو کہانی کا ر تخلیق کرتا ہے ۔ دو سری تعریف میں لفظ ’چیز ‘ میں جاندار و غیر جاندار سب داخل ہوجاتے ہیں پھر اس کو مخصوص کرتے ہیں ’’ممیز ‘‘ سے ، مزید مخصوص کرتے ہیں فرد بشر سے ، اب اس اختصاص میں بھی اخلاقی و ذہنی اوصاف سے ۔ گویا کردار اختصاص پر مرکوز ہوتا جاتا ہے اور یہ ایک پیرامڈ کی صورت میں اختتام کو پہنچتا ہے تب جاکر کوئی کردار تیار ہوتا ہے ۔ یہاں ذہن میں ایک سوال تو ابھرے گا کہ اردو کے اکثر ناولوں میں وہ کرادا ر اپنائے گئے ہیں جو شخصیت کے مالک نہیں ہوتے ہیں۔ سوال بالکل بجاہے لیکن یہاں شخصیت عرف عام سے مختلف نظر آتی ہے۔ فکشن میں ہم کوئی بھی عام کردار اٹھاتے ہیں جو نمایاں خصوصیات کی وجہ سے اپنے گروہ ، قبیلہ یا جماعت کی نمائندگی کرتا ہے پھر تخلیق کار کی قوت متخیلہ اس میں اختصاص کی کیفیت پیدا کرکے شخصیت( بمعنی ممتاز )کے خانے میں لے جاتا ہے ۔ 

کردار حقیقی ہو یا افسانوی دونو ںمیں کردار کی تعمیر کے لیے شخصیت کی تعمیر سے گہرا ربط ہوتا ہے اور شخصیت ظاہر و باطن دونوںکا نام ہوتاہے توکردار میں بھی ظاہر و باطن دونوں کی عکاسی کی حتی الامکان کو شش کی جاتی ہے۔ بلکہ فکشن میں کردار کو باطنی جذبات( مہیجات و رجحانات ، اشتہا ؤ تمنا ، تصورو فکر، فریب کاری ، منافقت اور ابن الوقتی ودیگر) سے ہی سینچا جاتا ہے اور ان سب کو اطورا کا نام دیا جاتا ہے ۔ الغرض یہاں سے معکوسی ترتیب دیکھیں تو اطوار سے شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اور شخصیت سے کردار وجود میں آتا ہے جس کو اس کے افعال وجذبات کی نمائندگی کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے ۔ 

ہر انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں جو تاریخ اور فکشن سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں ۔ قابل مشاہدہ باتیں تاریخ کے لیے مواد ہوتے ہیں ۔ تاریخ سے آگے جذبات سے متعلق باتیں ، خواب ،مسرت ،غم و یاس، خود کلامی ، عشق و محبت و دیگر جس کے اظہار میں شرم و اخلاق حائل ہوتے ہیں ، انسانی فطرت کے اسی پہلو کو تاریخ سے آگے بڑھ کر ناول نگار پیش کرتا ہے ۔  اس کردار سازی میں وہ شخصیت سے قریب ہوکر اس شخصیت کو کردار کے سانچے میں پیش کرتا ہے تب جاکر فکشن کا کردار تیار ہوتا ہے ۔ 

و تاریخی اور تخلیقی کردار میں سب سے نمایاں فرق یہیں سے سامنے آتا ہے ۔ ظاہر ی افعال و اعمال جو واقعات کی سطح پر عوام الناس کے سامنے آجاتے ہیں اور زندگی کے کردار ہوتے ہیں ۔ یعنی اگرکوئی کردار زندگی کے حقیقی کردار سے ہو بہو مل رہا ہے تو وہ ناول کا نہ ہو کر تذکر ہ کا ثابت ہوگا اور تذکرہ تاریخ ہے جس کی بنیاد واقعات پرہے ۔ واقعات کی ہی کسی ایک کڑی کو پکڑ کر تخلیق کار اپنی قوت متخیلہ سے وہ ساری چیزیں پیش کرتا ہے جس سے کردار کو حقیقی کردار سے الگ کرکے فکشن کا کردار بناتا ہے۔ اس کردار سازی میں وہ کتنا کردار کے اندر اتر پاتا ہے یہ اس کے قوت متخیلہ سے ہی ہوتا ہے ۔ کوئی تخلیق کار جب کسی کردار کو تراشتا ہے تو وہ اس کردار کے ذہن کو خود میں نہیں داخل کرتا ہے بلکہ اپنے ذہن سے کردار کو اپنے مطابق ڈھا لتا ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کردار اگر مختلف تخلیق کار کے یہاں وجود میں آیا ہے تو ہر ایک نے اپنے تخیل سے ہی اس میں رنگ بھر ا ہے ۔ ایسے میں کردار کو پڑھنے او ر سمجھنے کے انداز بھی الگ ہوجاتے ہیں ۔ اگر کوئی کردار جانا پہچانا ہے اور حقیقی زندگی میں اسے جانتے بھی ہیں لیکن روز مرہ کی زندگی میں اس کی شخصیت نمایاں نہیں ہے۔ ایسے میں تخلیق کار اس عمومی کردار کے کسی ایک حقیقی واقعہ کو لیکر اس کے داخل و خار ج کو ہر قاری کے لیے آئینہ کی طرح صاف و شفاف بنا کر پیش کر دیتا ہے ۔ بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے اس کے داخلی اور خارجی زندگی کے راز سر بستہ کو نہاں نہیں بلکہ عیاں کرتا ہے ۔ جبکہ خارجی زندگی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے کیونکہ زندگی کی اہم شرائط میں سے ایک رازدار ی ہے جو ناول نگار اس پردہ کو چاک کردیتا ہے اور جذبات و احساسات کی وسیع دنیا قاری کے لیے تخلیق کردیتا ہے ۔پھرقاری ناول کی دنیا اور حقیقی دنیا کو دیکھتا ہے تو ناول نگار کے کردار تراشی کا قائل ہوجاتا ہے ۔ 

ای ایم فار سٹر(Edward Morgan Forster  ) کے نظریہ کے مطابق ناول نگار کسی بھی کردار کی پیدائش ،غذا ،نیند،محبت اورموت  پر محیط زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ناول حقیقت یا حقیقت نما کو پیش کرنے کا فن کہلاتا ہے ، تخلیق میں صرف ناول کو ہی مختص کرکے کردا ر پر بات کی جائے تو ناول نگار کسی بھی کردار میں وہی پیش کرتا ہے جو ناول نگار کے ذہن میں اسٹور ہوتاہے یعنی وہ اپنی وسیع معلومات و مشاہدات کی دنیا سے ہی چیزوں کو چن کر لاتا ہے اور انہیں کرداروں کے ساتھ منطبق کر کے پیش کردیتا ہے۔ اب زندگی کے ہر ایک عنصر پر بات کر تے ہیں ۔

پیدائش ۔ اس متعلق تخلیق کار سائنسی طور پر معلومات تو رکھتا ہے لیکن تجرباتی طور پر کچھ بھی نہیں جانتا، کیو نکہ یہ اس وقت عمل میں آتا ہے جن کے تجربات ذہن میں محفوظ نہیں ہوتے ۔ اگر کردار میں ماں ہے تو وہ زچگی کی کیفیات کی ترجمانی کرسکتی ہے ، اگر معالج ہے تو وہ زچہ کی کیفیات اور بچہ کی صورت کی ترجمانی کرسکتی ہے ، لیکن تخلیق کار خو د اس عالم رنگ و بومیں آنے کی صورت کو بیان نہیں کرسکتا ہے کیونکہ وہ چیزیں ذہن میں کبھی بھی محفوظ نہیں ہوئی ہیں ۔ اس لیے ہر تخلیق کار ان جذبات کی عکاسی میں ناکام رہتا ہے اور بقول ای ایم فورسٹر ایسے کردار کو پیش کرنے میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے پارسل سے بھیچا گیا ہو ۔  کچھی یہی کیفیات موت کی ہے جس میں ناول نگار ایک ایسی تصوراتی دنیا کی تعمیر کرتا ہے۔

حصول غذا: یہ پیدائش سے موت تک جاری رہتا ہے لیکن ناول نگار کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ کسی بھی کردار کی زندگی کے اس حصہ پر مکمل توجہ دے ۔عمومی زندگی میں جو بات کہی جاتی ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا ہے، اس کی کامیاب عکاسی اردو ناولوں میں بہت ہی زیادہ ملتی ہے ۔ ہزاروں کہانیاں اور سیکڑوں ناول حصول غذا کی جد و جہد پر لکھی گئی ہیں ،جس طر ح سے غذا کے حصول کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں اسی اعتبار سے سیکڑ و ں الگ الگ کردا ر اس موضوع پر سامنے آتے ہیں ۔ 

زندگی کا چوتھا جزو اعظم نیند ہے ، عالم تنہائی میں گزارے اوقات سے بھی زیادہ وقت نیند کا ہوتا ہے۔ نیند میں ہر کوئی ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاںاسے اپنے بارے میں بھی کچھ نہیں پتہ ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی خواب کی صورت میں جن چیزوں سے رو برو ہوتا ہے وہ اس کی سوچ کے مطابق ایک معتد بہ وقفے پر محیط ہوتا ہے لیکن جاگنے کے بعد اس دنیا کے دھندلے نقوش ہی بتا پاتا ہے۔ عالم خواب میں جن مناظر سے گزرتا ہے اس کی عکاسی تو کرسکتا ہے لیکن خواب کی دنیا کے جذبات کی عکاسی سے وہ قاصر رہتا ۔ یعنی وہاں وہ افعال روئیہ کی تشریح کرسکتا ہے لیکن جذبات کی مکمل عکاسی سے عاری ہوگا ۔ نیند کے حصہ کو بیا ن کرنے کے بعد ای ایم فارسٹر کہتے ہیں کہ نیند زندگی کے ایک بڑے حصہ پر محیط ہوتی ہے جس طرح تاریخ اس حصہ کو کبھی پیش نہیں کرتی ہے تو کیا افسانوی ادب بھی وہی رجحان اختیار کرتا ہے یعنی فکشن نگار کیا کسی کی نیند میں گزری ہوئی زندگی کو پیش کر پاتا ہے ۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ ذہن میں چلتا رہتا ہے وہ نیند میں بھی بشکل خواب کچھ نہ کچھ دیکھتا رہتا ہے ۔ کبھی وہ بھی نہ ہوکر ایک اساطیری دنیا میں ہوتا ہے ۔ جس کی عکاسی مشکل ہوتی ہے جبکہ وہ فرد ایک مخصوص جذبات کے ساتہ اس اسطوری دنیا کا مسافر ہوتا ہے ۔ 

محبت یہ ایک ایسا لفظ ہے جو جذبات کے پورے مجموعے کو احاطہ کرتا ہے اور وسیع و بسیط تجربے کی نمائندگی کرتا ہے جس سے ہر انسان گزرتا ہے۔ فکشن کی دنیا کے لیے یہ سب سے اہم عنصر ہے کیونکہ باقی عناصر کا تعلق قابل مشاہدہ عمل سے ہوتا ہے جو تاریخ میں بھی رقم ہوجاتی ہیں لیکن محبت جو تمام جذبات کی نمائندگی کرتا ہے اس کی عکاسی فکشن میں ہی ممکن ہوپاتی ہے ۔ جنسی محبت کی تمام کیفیات، دو ستوں کی محبت ، خدا کی محبت ، وطن کی محبت ،کچھ حاصل کرنے کا دھن ، ثابت کرنے کا جنون ، زندگی جینے میں ہر قسم کی دشواریوں کو برداشت کر خوشی پانے کا جتن الغرض تمام اعمال کے مخفی جذبات کی عکاسی کے لیے ایک کردار کو کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے جن کے لیے تخلیق کار اپنی پوری قوتِ تخلیق صرف کرتا ہے تب جا کر ایک تخلیق نمایاں کردار کے ساتھ اپنی شناخت بنا پاتی ہے ۔ 

موت دنیا میں فلسفیوں نے بہت ہی زیادہ جس حقیقت کو اپنے فلسفے میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے وہ مو ت ہے ۔اس کو سب سے زیادہ مشاہدہ کے تجربہ پر بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں ناول نگار موت طاری ہونے سے زیادہ موت طاری کرنے کے فن سے واقف ہوتا ہے۔ اس میں بھی کر دار کے جذبات کی عکاسی مکمل طور پر ہوتی ہے کبھی کبھی تخلیق کار کردار کو موت کے قریب لے جاتا ہے پھر کہانی میں واپس لا کر نئی کہانی شروع کردیتا ہے ، یہ تو کہانی کی مانگ پر منحصر ہے یہاں اس عنصر کا اصل معاملہ موت کے جذبات کی عکاسی ہے ، جس تجربے سے کوئی بھی نہیں گزرا ہوتا ہے، پھر بھی مشاہدہ کی بنا پر اس کی عکاسی کردی جاتی ہے ۔ ایسا معقول بھی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تمام مخلوقات ارضی موت کے وقت کا مشاہدہ تو کرسکتی ہیںلیکن محسوس نہیں کرسکتی، الغرض پیدا ئش و موت دو نوں کے جذبات کی عکاسی سے تخلیق کار عاجز ہوتا ہے اور مشاہدہ کے عمل سے جذبات کے رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کرتاہے۔ 

مذکورہ بالا عناصر میں ناول نگار کردار کے اخلاق ، عادات و حرکات میں کتنی ہی قطعیت سے کام لے پھر بھی اس کی عکاسی کو افسانوی ماحول میں ذہنی تخلیق اور خیالی دنیا کی اپج ہی کہا جاتا ہے اور وہ کردار فرضی یا حقیقت کا عکس لیے ہوئے ایسا امر ہوجاتا ہے کہ آپ آس پاس میں تلاش کریں تو اس جیسا ملنا محال ہوگا ۔

کردار دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن سے ہم خارجی دنیا میں متعارف ہوتے ہیں لیکن اپنی بصیرت و بصارت سے وہ چیز نہیں دیکھ پاتے ہیں جو تخلیق کار اپنی تخلیق میں نمایا ں کرکے پیش کردیتا ہے ۔ یہ کردار دو طرح سے ہمار ے ذہن میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ غائبین اس کو حقیقت مان لیتے ہیں اور حاضرین اس میں ان خصوصیات کو تلاش کرنے لگتے ہیں جس کا ذکر کردار کی تخلیق میں کیا گیا ہے ۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ قاری کا ذہن ہی بتا سکتا ہے ۔ دوسرے کردار وہ ہوتے ہیں جو خارجی دنیا کے نہیں بلکہ وہ مکمل طور پر تخلیق کا ر کی اپج ہوتے ہیں لیکن اس کی تراش و خراش مکمل طور پر خارجی دنیا کے فرد پر کی جاتی ہے جس کا اثر قاری پر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آس پڑوس میں ویسے کردار کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ، اس میں تلاش عموم بھی ہوتا ہے اور تلاش خصوص بھی ۔تو کردار کی یہ دوسری قسم زیادہ پائیدار ہوتا ہے پہلی سے ۔ کیونکہ یہ وقت کے ساتھ سیال ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خصلت کی وجہ سے ہر عہدمیں وہ کردار سامنے آتے رہتا ہے ، جبکہ معلوم کردار میں فنکار ایک مردہ کردار کو زندہ کردیتا ہے جس کو اپنے وقت کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے ۔

ناولو ں میں کرداروں کو کب پیش کیا جائے اور کب انہیں پلاٹ سے غائب کردیا جائے یہ تو قصہ اورپلاٹ کے تقاضے پر منحصر ہوتا ہے لیکن اکثر  مرکزی کردار شروع سے آخر تک چلتے رہتے ہیں اور انہی کرداروں کے خصائل کی عمدہ پیش کش ہوتی ہے ۔قصہ میںمرکزی کرداروں کو اتارنے میں بہت محنت کر نی پڑتی ہے، ناول کے پلاٹ کو مضبوطی سے تھامنا ہوتا ہے۔ اسی اعتبار سے ان کرداروں کو جب ناول سے خارج کیا جاتا ہے تووہ لمحہ قاری کے ذہن کو پڑھنے کا ہوتا ہے اور فن کے معراج کا بھی ۔ 

جہاں تک حاشیائی کرداروں کی بات ہے وہ اکثر پورے ناول پر نہیں رہتے ہیں بلکہ واقعات کے اعتبار سے آتے ہیں ایک دو جملے میں ان کا تعارف ہوتا ہے اور اپنا عمل کر کے چلے بھی جاتے ہیں ، ان حاشیائی کرداروں میں سے اگر کوئی کردار قاری کو دلچسپ لگ جاتا ہے تو پھر وہ وقفہ وقفہ سے اس کی آمد کا انتظار کرتا رہتا ہے ایسے کردار پلاٹ سے اچانک غائب نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ ثانوی کردار کے اعتبار سے لمبا سفر طے کرتے ہیں۔ کچھ کردار بہت ہی مختصر سے عمل کیے لیے آتے ہیں انہیں ناول نگار قصہ سے خاموشی سے اس طرح غائب کردیتا ہے کہ قاری کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ اس عمل کو عبدالقادر سرو ری نے قصہ نگاری کا کمال قرار دیا ہے ۔ 

اب اس جانب رخ کرتے ہیں کہ ناول کے قاری کیسے کیسے افراد ہوتے ہیں ۔ 

 اول نفس قصہ : جنہیں صرف قصے سے دلچسپی ہوتی ہے وہ قصہ کے نشیب و فراز سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یہ پاپولر لٹریچر والے زیادہ ہوتے ہیں جہاں وہ رومان کے ساتھ بہترین قصے پسند کرتے ہیں ۔

 دوم زبان و اسلوب :ایک طویل عرصہ ناول کے قارئین کا وہ گزرا ہے جو زبان سے زیا دہ دلچسپی رکھتے تھے اور عمدہ زبان و اسلوب کے لیے ناول پڑھا کرتے تھے ۔ اس زمرے میں رزمیہ اور جاسوسی ناول آتے ہیں جن کی اشاعت بہت زیادہ ہوئی ہے اور اب تک ان کے قارئین کی تعداد میں زیادہ کمی نہیں آئی ہے ۔ 

 سوم فلسفہ حیات : یہ متذکرہ بالاسے منفر د ہوتے ہیں ،یہ قصہ اور نہ ہی زبان کے لیے ناول پڑھتے ہیں بلکہ ناول میںبے پناہ فلسفوں کی تلاش اور زند گی کے ہزرا رنگ کو سمجھنے کے لیے ناول سے دلچسپی کرتے ہیں ۔

چہارم : تخلیق کار کا مطالعہ: مذکورہ بالا تینوں زمروں میں ناول نگار اپنے مکمل تجربوں اور علم کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ہر کردار میں اس کی موجودگی محض اتفاقی نہیں بلکہ اکتسابی ہوتی ہے ۔یہ اکتسابی نوعیت آپ کو ہر کردار میں نظر آئے گا جس کے ذریعہ قاری تخلیق کار کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس صورتحال میں قاری حاشیائی کردار کو چھوڑ کر مرکزی کردار کو مجسم پڑھتا ہے اور اس کو اپنے تجربے اور علم میں تولنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں اسے محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے اپنے علم و تجر بے کی بساط پر کس طر ح سے ایک کردار کے مختلف شیڈس کو پیش کیا ہے اور کن جہات سے رو گردانی کی ہے ۔ 

فکشن میں کردار عموماً دو طرح سے سامنے آتے ہیں اول تدریج اور دوم مستقیم ۔ تدریج میں وہ کردار آتے ہیں جو غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ منزل کی جانب بڑھنے لگتے ہیں اگر کوئی کردار بدی کی جانب جارہا ہے تو حیات اصلی کے مطابق وہ چلتا ہی رہتا ہے اور قاری غیر محسوس طریقے سے اس میں سفر کرتا رہتا ہے ، اگر مستقیم ہوتا ہے تو کسی بھی مرکزی کردار میں اچانک تبدیلی رونما ہوجاتی ہے خواہ وہ کسی حادثہ کی ہی بنا پر کیوں نہ ہو قاری اس کردار کو وہیں سمجھ لیتا ہے کہ یہ کردار مرچکا ہے ۔ ناولوں میں پیچیدہ اور سپاٹ کردار دونوں ہوتے ہیں ۔ آج کل عموماً مرکزی کرداروں میں بتدریج زندگی چلتی رہتی ہے جہاں نشیب و فراز کا گزر ہوتا ہے لیکن ثانوی کردار اکثر سپاٹ ہوتے ہیں ،اگر کسی کردار کا داخلہ بدکے مظاہرہ کے ساتھ ہوا ہے تو کچھ دیر ساتھ چلنے کے بعد اس کا اخرا ج بھی اسی کیفیت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہکذا بالعکس ۔ 

کرداروں کے اقسام 

مرکزی کردار

کسی بھی کہانی میں شروع سے لے کر آخر تک ایک کردار ایسا ہوتا ہے جس پر پلاٹ مرکوز ہوتا ہے اور ساری کہانیاں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔  حرکت و عمل سے وہ فعال کردار ادا کررہا ہوتاہے۔ فنی نقطہ نظر سے اُسے مرکزی کردار کہا جاتاہے۔ عموما مرکزی کردار میں زندگی کے کئی رنگوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ مرکزی کردار ناول میں زیادہ دیر تک منظر سے غائب نہیں رہ سکتا ہے ، جو ناول باب وار لکھے جاتے ہیں ان میں بھی ہر باب میں وہ کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتا ہے خواہ اس باب کا مرکزی کردار کوئی او ر ہی ہو ۔

ثانوی کردار

کوئی بھی کہانی صرف ایک فرد کو سامنے رکھ کر نہیں لکھی جاتی اور نہ ہی صرف ایک فرد پر کہانیاں مکمل ہوتی ہیں ، اگر ایسا ہے تو اس کی جزئیات اور تفصیلات مکمل طور پر کھل کر سامنے نہیں آسکتیں۔کردار کا دوسرا اور مکمل رخ دیکھنے کے لیے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ ثانوی کرداروں کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ اکثر ثانوی کردار، مرکزی کرداروں سے تعلق رکھتے ہوئے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جہاں مرکزی کردار کئی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے وہیں پر ثانوی کردار بھی مرکزی کردار سے مختلف نہیں ہوتے بلکہ مرکزی کردار کی معاونت کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔

ذیلی کردار

مرکزی اور ثانوی کرداروں کے ساتھ ذیلی کردار بھی کسی کہانی کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔یہ مرکزی اورثانوی کرداروں کے درمیان نظرآتے ہیں۔ اس قسم کے کرداروں کا عمل ضمنی سا ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی افسانے میں مرکزی اور ثانوی کرداروں کی معاونت کرتے نظر آئیں گے۔ یہ مختصر سے وقت کے لیے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔موقع محل کی مناسبت سے ان کو پیش کیا جاتا ہے جو اپنے وجود کا احساس دلاتے ہوئے کبھی دیر تک اور کبھی وقتی طورپر سامنے آتے ہیں۔ ذیلی کہانی میں ہمیشہ کے لیے نہیں دکھائی دیتے ہیں بلکہ کسی بھی صورت حال میں وقتی طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔

کرداروں کے صفات 

سپاٹ کردار

کسی بھی ناول یا کہانی میں شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسی فطرت رکھنے اور یکساں حرکت کرنے والے کردار کو سپاٹ کردار کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے کرداروں میں انہونی حالات نہیں پائے جاتے۔ ان میں کسی خاص صورت حال میں کسی خاص رد عمل کی بجائے طے شدہ رد عمل کی ہی توقع کی جاتی ہے یعنی ان میں اپنے طور پر خاص رد عمل ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی ہے۔

اکہرے کردار

کسی ناول کا ایسا کردار جس پر صرف ایک ہی رویہ یاطرز عمل کی گہری چھاپ ہو،اکہر ا کردار کہلاتا ہے۔ یہ پوری کہانی میں ایک ہی انداز میں حرکت و عمل کرتے نظر آئیں گے۔ ان سے صرف ایک جیسے رد عمل اور طرز عمل کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ ناول میں کسی خاص طرز فکر، سوچ یا طبقے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔(یہ ذیلی کردار میں ہوتے ہیں ) 

مرکب کردار

ایک سے زائد رویوں اور طرز عمل کے حامل کردار مرکب کردار کہلاتے ہیں۔عام طور پر مرکب کردار بہت کم پائے جاتے ہیں۔ مرکب کردار دو متضاد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی کردار کسی خاص واقعہ میں ایسا طرز عمل پیش کرے جن سے ان کی شخصیت میں تضاد سامنے آتا ہے جبکہ وہ اس طرز عمل کے صفات کا حامل نہیں ہوتا ہے ۔(یہ مرکزی اور ذیلی دونوں میں ہوسکتے ہیں ) 

مجہول کردار

ایسے کردار جو اپنے اعمال و افعال میں کسی قدر جھول رکھتے ہیں اور اس سے دیگر کرداروں کے تاثر میں بھی فرق آنے لگتا ہے ایسے کردار کمزور طرز عمل کی وجہ سے مجہول کردار کہلاتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہوتے ہیں جو کسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے دوران ہی ختم ہوجائیں، ان کا شمار مجہول کرداروں میں کیا جاتا ہے۔(یہ مرکزی اور ثانوی دونوں کردار ہوسکتے ہیں )

محدود یا عارضی کردار

محدود کردار وقتی اور عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جو کہانی میں صورت حال کے مطابق وقتی طور پر  کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ یہ خاص مواقع پر سامنے آتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی ناول میں مخصوص مناظر میں کئی محدود کردار سامنے لائے جاتے ہیں۔

نقلی کردار

جب تخلیق کار کسی خاص گروہ(مذہبی، لسانی، علاقائی،سیاسی) یا فرقہ پرست کا کردار تخلیق کرتاہے تو اس کا انداز متعصبانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ تعصبانہ رویے کی وجہ سے کردار زندگی کی حقیقت سے دور رہ جاتا ہے اور ایسا کردار نقلی کردار کہلاتا ہے۔ (مرکزی ؍ذیلی)

پیچیدہ کردار

پیچیدہ شخصیت کے حامل اور نہ سمجھ آنے والی باطنی کیفیات کے حامل کردار پیچیدہ کردار کہلاتے ہیں۔ایسے کرداروں کی سوچ، فکر، طرز عمل اور حرکات وسکنات کسی نہ کسی نفسیاتی پیچیدگی کی مرہون منت ہوتی ہیں، وہ کردار قاری کی پکڑمیں جلدی نہیں آتے ہیں ۔(مرکزی ؍ثانوی)

مزاحیہ کردار

کسی بھی افسانے، قصے کہانی میں ہنسنے ہنسانے والے کردار مزاحیہ کردار کہلاتے ہیں۔ یہ عام طور پر دل بہلانے کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح کے کردار ہنسی مذاق سے کسی بھی فن پارے میں مزاح کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔(مرکزی ؍ثانوی)

اخلا قی و اصلاحی کردار

اس طرح کے کردار مقصدیت کے تابع ہوتے ہیں اور تخلیق کا ر ان کے ذریعے اچھائی و برائی کے اصلاحی پہلوؤں کو قارئین کے سامنے لاتاہے۔ مولوی نذیر احمدکے مشہور کردار نصوح اور ابن الوقت اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ (مرکزی)

رومانوی کردار، تخلیقی کردار

ایسے کردار ناول کی مجموعی فضا اور واقعاتی اتار چڑھاؤ کے مطابق ہی ہوتے ہیں مگر ان میں تخیلاتی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ایسے کردار جذباتیت کا شکار ہوتے ہیں۔ حسن و عشق کے معاملات کوہی دنیاوی زندگی کا حاصل اور مقصد سمجھتے ہیں۔(مرکزی )

صنفی کردار

خالق نے انسانوںکو بلحاظ صنف جوڑے کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ مرد اور عورت اس کے دو روپ ہیں۔بلحاظ صنف اور جنس اگر درجہ بندی کی جائے تو ہمیں مردانہ اور نسوانی کردار کسی بھی ناول میں ملتے ہیں۔ جس طرح کسی ناول کامرکزی کردار بے شمار خوبیوں کا حامل ہوتا ہے اور جدوجہد  سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح نسوانی کرداروں میں بھی ان خوبیوں کا پایا جانا اشد ضروری ہوتاہے۔(مرکزی ؍ثانوی )

باغی کردار

برصغیر کی سماجی اور معاشرتی زندگی پر کئی طرح کے نظام حاوی رہے ہیں ،نیز مختلف مذاہب کی تقسیم، ذات، پات، نسل خاندان اور طبقاتی امتیازات نے پوری طرح اس معاشرے کو اپنی جکڑ میں لے رکھا تھا ۔ ان حالات میں اردو افسانے کی ابتداء و ارتقاہوئی تو معاشرے میں مذہبی، سیاسی، لسانی اور سماجی بغاوت ایک فطری امر اور جذبہ تھا جسکی گہری چھاپ ہمیں اردو ناول میں بھی ملتی ہے۔ اردو ناول میں بہت سے ایسے کردا ر ہمیں نظر آتے ہیں جنہوں نے معاشرے کے بالادست طبقے سے بغاوت کیا اور باغی کہلائے۔ان کردار وں کا ظہور ہنوز جاری ہے جو کئی طرح کی سماجی اور معاشی جکڑ بندیوں کو توڑ کر سامنے آتے ہیں ، ایسے باغی کردار کے حامل کہانیاں مقبول بھی ہوتی ہیں یہ صنفی امتیاز سے الگ ہوتے ہیں ۔(مرکزی ؍ثانوی )

Thursday 8 December 2022

رباعیات رباب رشیدی

  نام کتاب رباعیات 

نام شاعر رباب رشیدی ( سلمان احمد )

سن اشاعت ۲۰۲۰

صفحات ۲۲۴

 قیمت ۳۰۰ روپے

ملنے کا پتہ رباب رشیدی ، ۱۲۶ ؍تازی خانہ ، امین آباد، لکھنؤ، یوپی ۔۲۶۶۰۱۸

 اردو کے ادبی حلقوں کے لیے رباب رشیدی کوئی نیا نام نہیں ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابر سفید ‘‘ ۱۹۸۴میں شائع ہوا ، اس کے بعد حمد و نعت کے مجموعے بھی منظر عام پر آتے رہے ۔ لیکن وہ خود ہی اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ شروع سے ہی غیر محسوس طور پررباعی سے منسلک رہے لیکن کبھی اس جانب تو جہ نہیں کی اس لیے رباعیاں منتشر تھیں ۔ اب جاکر انہوں نے رباعیاں جمع کیں اور سادگی کے ساتھ ’’رباعیات ‘‘ کے نام سے شائع بھی کیں ۔ اکیسویں صدی کے اِن دو دہوں کی بات کی جائے تو رباعی گوئی کا رجحان بڑھا ہے اور ساتھ ہی رباعیات کے مجموعے شائع کرانے کا بھی ۔ ایسے میں رباعی کے متعلق یہ خوبصورت فضا بھی تیار ہوئی کہ اب رباعی اردو کے ادبی ماحول میں اجنبی صنف سخن کے طور پر نہیں جانی جاتی ہے اور نہ ہی قدیم ذیلی اصناف میں اس کوگردانا جاتا ہے بلکہ موجودہ وقت کی بات کی جائے تو ہر ادبی شہر میں اردو رباعی گو شعرا مل جائیں گے ۔ رباب رشیدی صاحب کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور لکھنوکی ادبی و شعری روایت سے کون واقف نہیں ۔رباعی کی عمدہ روایت لکھنؤ سے منسوب ہے ، رباعی کے بڑے بڑے شعرا لکھنؤ سے وابستہ رہے ہیں اسی روایت کے علَم کو رباب رشیدی سنبھالے ہوئے ہیں ۔ 

 ان کے پیش لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے رباعیات کو زیادہ سنجیدگی سے لیا بھی ہے اور نہیں بھی ،رباعیوں کی اہمیت ان کے یہاں بایں طور پر نظر آتی ہے کہ اپنے پہلے شعر ی مجموعہ ’’ ابر سفید ‘‘ کا دیباچہ انہوں نے رباعی میں لکھا ۔جس سے رباعی کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ رباعیات میں دیباچہ لکھنا فاروقی کی اتباع میں ہے ،یہ کتاب بھی وہ فاروقی کو ہی معنون کرتے ہیں ، فاروقی نے جس طرح اپنے پہلے شعر ی مجموعہ کا دیبا چہ دو رباعیوں میں لکھا ہے ان ہی کی اتباع رباب رشیدی بھی کرتے ہیں لیکن صرف دو رباعیوں سے نہیں بلکہ اٹھارہ رباعیوں سے ۔ اس کے بعد انہوں نے رباعی گوئی کی جانب زیادہ دلچسپی نہیں لی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رباعی گوشعرا میں ان کا نام بہت ہی کم رقم ہوتا ہے ۔لیکن اس مجموعے سے ماضی کا خلا پن دور ہوکر اردو رباعی کی دنیا میں ایک نئی آواز بھی سنائی دے گی ۔ رباعی کی یہ آوازروایتی آواز سے بہت ہی زیادہ مختلف نظر آتی ہے ۔اس مجموعے میں کل چار سو چالیس رباعیاں ہیں ۔ ساری رباعیاں ایک ترتیب سے ہیں ۔عموما رباعیوں کو عناوین کے تحت ذکر کیا جاتا ہے لیکن شروع کی آٹھ رباعیاں بغیر کسی عنوان کے حمد ونعت اور دعا جیسے مضامین کی حامل ہیں ۔ اس کے بعد شہر آشوب کا عنوان درج ہے جس کے بعد پورے مجموعے کی رباعیاں ہیں جن کی تعداد ۴۳۲ہیں ۔ ایسے میں ہم یہی سمجھیں کہ جو شہرآشوب قصائد میں ہوا کرتا تھا وہ ان کی رباعیوں میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن جب موضوعات کی جانب توجہ دیتے ہیںتو تنہائی، حوصلہ، موجودہ حالات ، قیادت ، شہر لکھنؤ ،تہذیب ، فطرت ، رواداری ، مروت ، حدسے تجاوز کے بعد کی کیفیت ، نغمہ، یاد ماضی، دباؤ، حالات ، تلاشِ ذات ، لاچاری، امنگ ، تمناؤں کا ٹوٹنا، روانی و دیگر موضوعات کی حامل رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان موضوعات کو بغور دیکھیں تو یقینا انہوں نے شہرآشوب ہی رقم کیے ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں اصلاح ہے اور نہ صوفیانہ فلسفے کی چھاپ بلکہ موجودہ وقت کی شاعری کی چھاپ مکمل طور پر نظرآتی ہے ۔ ہر صفحہ میںانہوں نے دو رباعیوں کو رکھا ہے ۔ رباعیاں یا تو دو سطروں میں لکھی جاتی ہیں یا چار سطروں میں ، لیکن ان کی رباعیاں دو اشعار کی صورت میں پانچ سطروں میں ہیں جن میں بیچ کی سطراشعار میں فاصلہ کے لیے ہے ۔ اس طریقے سے رباعی لکھنے کا طریقہ پہلی مرتبہ اسی کتاب میں نظرآتا ہے ۔ رباعی کے لیے یہ بات اہم ہوتی ہے کہ اس کے چاروں مصرعے دو دو مصرعے کا شعر بن کر نہ رہ جائے بلکہ چاروں ایک اکائی صورت میں آپس میں مر بوط ہوں ایسے میں مشاہدہ بھی رہا ہے کہ غزل کے شعرا جب رباعیاں رقم کرتے ہیں توان کی رباعیوں میں غزل کے اشعار کی سی کیفیت پائی جاتی ہے جو رباعی میں فنی سقم کی کیفیت کو لاتا ہے ۔ الغرض رباعیاں کہنا اگرچہ مشکل فن ہے ساتھ ہی رباعی کے مزاج کے ساتھ رباعیاں کہنا اوربھی مشکل فن ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو میں رباعی گو شاعر انگلیوں پر گنے جاتے ہیں ۔ اب اس مجموعے سے ادبی حلقوں میں رباب رشیدی کا رباعی گو شاعر ہونا کتنا مؤثر ثابت ہوتا ہے وہ ناقدین کی تحریروں اور عمومی مقبولیت سے بھی ثابت ہوگا ۔ ان کی ایک عمدہ رباعی ملاحظہ ہو: 

 کچھ یوں ہی نہیں ہے کج کلاہی اپنی 

صد شکر روش ہے خانقاہی اپنی 

سچ بات ہے لیکن وہ برا مانیں گے 

منظر سے بڑی ہے خوش نگاہی اپنی 

 امیر حمزہ 

مدرسہ محلہ نوادہ ، ہزاری باغ ،جھارکھنڈ


متین اچل پوری کا ماحولیاتی ادب

 

متین اچل پوری کا ماحولیاتی ادب 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

 مدرسہ محلہ ،نوادہ ، ہزاریباغ ، جھارکھنڈ


ادب اطفال ادب کا ایک ایسا گوشہ ہے جس کے خدمتگار بہت ہی خاموشی سے نئی نسل کے لیے بہترین اور عمدہ ادب تخلیق کر تے ہیں اور اکثر گوشہ نشیں بھی رہتے ہیں انہیں میں سے ایک متین اچل پوری تھے جنہوں نے عمدہ بچوں کے لیے عمدہ ادب یاد گار چھوڑا ہے ۔ گزشتہ چار دہائیوں میں انہوں نے ایک متوازن رفتار میں بچوں کے لیے کئی کتابیں تحریر کیں اور سنجیدہ مصنفین میں اپنا نام شمار کروایا ۔ آپ کا نام محمد متین تھا 18 جنوری 1950 کواچل پور ضلع امراؤتی مہاراشٹر میں پیدا ہوئے ۔ وہیں ایم اے اور بی ایڈ تک کی تعلیم سنت گاڈگے بابا یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ شروع میں پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھایا پھر 1990 میں سرکاری اسکول وابستہ ہوئے اور 2007 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔گزشتہ دو برسوں سے طبیعت میں نشیب و فراز جاری تھا کہ 17 اکتوبر 2022 کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ 

زمانہ طالب علمی (1970)سے ہی ادب کی جانب مائل ہوگئے تھے شروع میں شاعری میں قلم آزمایا پھر جلدہی ادب اطفال کی جانب مائل ہوگئے اور تاعمر اسی میں جیتے رہے ۔ متین اچل پور چونکہ ایک مدرس تھے اور ادیبِ اطفال بھی تھے اس لیے انہوں نے بچوں کی نفسیات کو بخوبی سمجھا اورا پنی تحریروں میں برتا بھی ۔ انہوں نے بچوں کے لیے جدید موضوعات پر مبنی نظمیں تحریر کیں ساتھ ہی نثر میں کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ۔وہ اپنی عمدہ خدمات کے لیے کئی مرتبہ اعزاز ات سے نوازے بھی گئے ۔ صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے بہترین استاد ایوار ڈ 1990 میں ہی حاصل کیا اس کے علاوہ ملکی و صوبائی سطح پر دیگر 7 اعزازات و انعامات سے بھی نوازے گئے ۔ ان کے شائع شدہ تصانیف کی تعداد 16 ہیں ۔ جبکہ زیر طبع کتب کی تعداد 10 ہیں ۔ ان کی یہ قیمتی کتابیں اردو ادب میں انہیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں لیکن اس بھی بڑا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ مہاراشٹرا و تلنگانہ کی درسی کتب میں ان کی نظمیں شامل ہیں ۔ ادب میں ان کے خدمات شش جہات ہیں لیکن یہاں صرف ماحول کے مو ضوع پر لکھی گئی نظموں سے گفتگوہے ۔ 

 ہماری نظر میں ماحول اور ماحولیات دو شاخ نہیں بلکہ باضابطہ الگ الگ چیزیں ہیں جس کو ہم منطق کی اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں کہ دونوں میں تباین کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہم نے دو شاخ صرف ڈاکٹر مولا بخش کی موافقت میں لکھ دی ہیں بلکہ ان کے یہاں اس لفظ ماحولیات میں اتنی وسعت ہے کہ اس کے دائرے میں ماحول، فضا، منظر ، فطرت ، ثقافت ، رہن سہن کے طور طریقے، مقامیت اور دیہی جمالیات بھی آجاتے ہیں ۔پروفیسر عتیق اللہ صاحب نے اس کو بہت ہی جامع و مانع انداز میں پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’حیاتیات کی وہ شاخ جس کے تحت اجسام نامیہ کے ایک دوسرے سے تعلق کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ‘‘  اس کی تعریف ہم اپنے الفاظ میں کچھ اس انداز میں کر سکتے ہیں کہ ماحولیات وہ نامیاتی عناصر ہے جن کا تعلق ہمارے حواسہ ٔ خمسۂ ظاہر ہ سے ہے۔ جس میں ماحول و مناظر سے نہیں بلکہ ان میں کثافت کی وجوہات ، اس کے نقصانا ت اور اس کے بچاؤ کی تدابیر پر بات کر تے ہیں ۔ ماحولیات پر تنقید کے نام سے چند مضامین لکھے جاچکے ہیں لیکن ماحولیاتی ادب کا اردو میں ابھی تک کوئی خاص ذکر نہیں ملتا ۔ پوری دنیا جن وجوہات سے تباہی کے دہا نے پر کھڑی ہے، ہزاروں بیداری ریلیاں نکالی جاتی ہیں ،لاکھوں کی تعداد میں پمفلیٹ چھپتے ہیں، اربوں روپے اشتہارات میں خرچ ہوتے ہیں لیکن ان موضوعات کو لیکر ادب کا دامن خالی نظر آتا ہے چہ جائے کہ ادب اطفال کی بات کی جائے ۔

 ادب اطفال میں ابتداء ہی سے منظر نگاری اور فطری چیزوں کو پیش کر نے کا رجحان زیادہ رہا ہے ۔ اس میں وہاں سو رج کی بات کی جاتی ہے تو چندا ماما بھی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں ۔ سردی،گرمی ، برسات سے جیسے مضامین سے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں تو وہیں پرندے اور جانور بھی ان کے مخصوص اور  دلچسپی کے سامان ہوتے ہیں ۔ سائنس کی دنیا سے دلچسپی پیدا کر نے کے لیے سائنسی مضامین کو دلچسپ انداز میں پیش کیے جانے لگا ہے جس کے تحت جنرل نالج بھی اس میں شامل ہے ۔ ان سب میں ماحول کاعنصر تو نمایاں نظر آتا ہے لیکن اب لامتناہی وسائل نے جس طرح سے فطرت اور حیوانی زندگی کو متاثر کیا ہے اس پر لکھنے والے کم ملتے ہیں۔ صرف اتنا لکھ دیا جاتا ہے کہ ہزاروں سا ل پہلے سب سے بڑا جانور ڈائنا سور پایا جاتا تھا جس کی مختلف خصوصیات کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے ۔ یا یوں کے کسی زمانے میں ہمارے شہر کے چاروں طرف خوبصورت باغات اور جنگلات ہوا کر تے تھے جہاں ہمارے راجہ یا بادشاہ آرام کیا کرتے تھے اور شکار بھی کھیلتے تھے ۔ اٹھلاتی ہوئی اوربل کھاتی ہوئی ندیاں بھی بہتی تھیں ، جن میں مچھلیاں مچلتی رہتی تھی ، شہر کے لوگ مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسی کہانیاں تو خوب پڑھنے کو ملیں گی لیکن ان کے ختم ہونے سے ہماری زندگی میں کیا اثر ہوا یسی کہانیاں آپ کو پڑھنے کو نہیں ملیں گی ۔ اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے متین اچل پور ی ایک رہنما کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے بچوں کے لیے ماحولیات پر ’’ ہم ماحول کے رکھوالے ‘‘ اور ’’ ماحول نامہ ‘‘ جیسی کتابیں لکھیں جن میں انہوں نے بچوں کی قدرت سے محبت اور کثافت و آلودگی سے دور رہنے کے لیے کئی نظمیں لکھیں ہیں ۔ درخت کی کہانی ، جنگل کی کہانی ، باغ کی کہانی جیسے عنوانا ت بہت ملیں گے لیکن شجر کاری جیسے موضوعات پر نظمیں لکھنے کو ایوینٹ کی شاعری کہہ دیاجاتا ہے جو وقتی تناظر میں آتا ہے اور پھر منظر سے غائب ہوجاتا ہے ۔ایسے میں میر تقی میر کی ’’ مرغوں کی لڑائی‘‘ اور نظیر اکبرآبادی کی ’’ پودنے گڑھ پنکھ کی لڑائی ‘‘ کو کیا کہیں گے جو موضوعاتی طور پر وقت کے ساتھ متر وک، جس کی کمنٹری ا ور اصطلاحات بھی اب ہندوستان سے معدوم ہوچکے ہیں ۔ الغرض نئے نئے موضوعات سامنے آتے رہتے ہیں اور فن کار اپنی فن کاری سے ان موضوعات کو بچوں کے سامنے پیش کر تا ہے۔ ’ درخت راہوں کے ‘ نظم کا ایک شعر آپ کو بھی سوچنے کو مجبور کر دے گا کہ اس میں کہیں بھی وقتی تناظر نہیں ہے بلکہ ایک ابد ی و ازلی پیغام نظر آتا ہے ۔

 یہ سیکھو سائے میں ان کے رہ کر 

کہ چھاؤ ںدینا ہے دھوپ سہہ کر 

لفظ ’’ سہ کر ‘‘ سے یہا ں بہت سی مشکلات کی جانب اشارہ ہوسکتا ہے، مثلا ہمیں مشکلات کو سہہ کر اس عالمی گاؤ ں کو چھاؤں دینا ہے جہاں ہوا بھی اچھی اور فضا بھی بہتر ہو، جس کے سائے سے شہر کو گرم بھٹی ہونے سے بچایا جائے یعنی مستقبل کی چھاؤں کے لیے ابھی ہمیں بہت کچھ سہنا ہوگا۔

بچوں کے نصابات میں جب سے سائنس آئی ہے تب سے سائنسی ادب کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے جس کی وقت حاضر میں کئی حضرات نمائندگی بھی کر رہے ہیں جن میں اہم نام محمد خلیل کا ہے ۔ماہنامہ سائنس بچوں میں سائنسی شعور و دلچسپی پیدا کرنے کے لیے امیرا نہ کرادار ادا کر رہا ہے۔ اس میگزین میں شمسی، آبی اور فضائی توانائی سے متعلق لکھا جاتا ہے اور اس کے فوائد بھی بچوں کے لیے دلچسپی کے باعث بنتے ہیں لیکن متین اچل پور ی نے اس کو اپنی کئی نظموں میں پیش کیا ہے جیسے ’ سورج کی توانا ئی‘،’آگ کا سفر‘ ،’ انمول آبی گھر‘اور ’’ پھرکی اور پون چکی ‘‘ وغیرہ۔ سورج کی توانائی میں انہوں نے سولر جہاز کا خصوصی طور سے ذکر کیا ہے ۔ اس سے بچوں کے ذہن میں کئی معلوماتی سوال ابھر تے ہیں مثلاً سولر اسے کیوں کہتے ہیں ؟کو ن سا جہاز اس سے چلتا ہے؟ اس کے بعد بچوں کے اندر معصومانہ سوال ابھر تا ہے کہ جہاز تو اڑتا ہے تو یہ دوسرا جہاز ہوگا ، پھر بلا واسطہ سورج سے کیسے چلے گا وغیرہ وغیرہ ۔ ان ابھر تے سوالات سے بچوں کے تخیل کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے ۔ اسی طریقہ سے ’’آگ کا سفر ‘‘ ہے جس میں چنگاری ، آگ ، لکڑی، کوئلہ ، مٹی کا تیل اور اب رسوئی گیس لیکن ان سب کے لیے ہمیں کہیں نہ کہیں معدنیات کا سہارا لینا پڑرہا تھا تو مصنف مکمل طور پر معدنیات اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ’’شمسی چولہا ‘‘ کو بچوں سے متعارف کر واتے ہیں ۔ اس نظم سے دو شعر ملاحظہ ہو :

جب بڑھی آبادی یہ عالم ہوا 

ہر توانائی کا ذریعہ کم ہوا

بنتے بنتے بن گیا ہے آج کل 

شمسی چولھا آگ کا نعم البدل

اس کے بعد فضائی توانائی پر ’’ پھر کی اور پون چکی ‘‘ بھی ہے جس میں بچوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ بجلی جیسی توانا ئی کو ہم جس طر ح سورج اور پانی سے حاصل کرتے ہیں اسی طر ح بجلی کو ہم ہوا سے بھی حاصل کر سکتے ہیں جس کا استعمال بہت ہی مفید ہے اور صاف ستھری فضا کی تشکیل میں ہمارے لیے بہت ہی معاون ہے ، کیونکہ ہم جب ماحولیات کی بات کر تے ہیں تو سب سے پہلے ایندھن کی بات ہوتی ہے جس پر متین اچل پوری نے بچوں کے لیے خوبصورت نظمیں لکھیں ۔ اس نظم سے تین شعر :

کھیل تھا صبح و شام کاغذکا 

لے کے لوہا مقام کاغذکا 

خوب اونچا اٹھا ہے شان کے ساتھ

باتیں کر تا ہے آسمان کے ساتھ

کیا ہوا کے تھپیڑے سہتی ہے 

بجلی تیار کر تی رہتی ہے 

ہم جب ادب اطفال میں موضوعات کی بات کر تے ہیں تو اس میں دنیا کے تمام موضوعات نہیں سما سکتے ، بچوں کا ذہن کلچر، زبان ، تہذیب اور معاشرتی گفتگو کا متمنی نہیں ہوتا، وہ خانگی رشتے پر کہانیا ں سننا نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ مسائل پر توجہ دیتے ہیں بلکہ ظرافت و مسکراہٹ ان کی فطرت میں ہے جس  سے وہ مر حلہ وار کسی بھی چیز میں دلچسپی لیتے ہیں ۔وہ ہمارے ماحولیاتی مسائل پر کچھ بھی نہیں پڑھنا چاہیں گے۔ البتہ ان کو معلوماتی اور ماحولیاتی مسائل کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی پسند ہے ان کو یہ پسند ہے کہ جنگل کے فوائد کیا ہیں یہ نہیں پسند کہ جنگلوں کو برباد کر نے میں ہماری پالیسی کا کتنا دخل ہے ۔ انہیں بہتی ، جھومتی اور اٹھلاتی ندیوں پر نظمیں اور کہانیاں پسند ہیں نا کہ ان کے سوکھنے کی وجوہات پر ۔ پانی پر ہمارے یہاں بہت ہی زیادہ سلوگن بنائے گئے ہیں۔  بڑے بڑے سائن بورڈ جو شہر کی شان ہوتے ہیں اس میں آبی تحفظ پر شہر اپنی باطنی کہانی کو پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ ان بورڈ  پر بچوں کی نظر پڑتی ہے اور بڑوں کی بھی ،سب کو سلوگن بھی یا د ہوجاتے ہیں لیکن ذہن میں اتارنے کا کام توادب کرتا ہے جس پر متین اچل پور ی کی نظر پڑی اور انہوں نے آبی تحفظ کو خصوصی طور پر اپنی نظموں میں پیش کیا ۔اس سلسلے میں ان کی ایک انمول نظم ’’انمول آبی گھر ‘‘گلیشئر سے متعلق بچوں کو سوچنے پر مجبور کر نے والی خوبصورت نظم ہے جس میں بچوں کو بنیادی طو ر پر تین باتیں بتائی گئی ہیں کہ یہ گلیشیر (آبی ذخائر) کیا ہوتے ہیں ، اس کے فوائد انسانی زندگی کے لیے کیا ہیں اور اب ایندھن کے بے جا استعمال سے ان گلیشئر کے پگھلنے سے نقصانات ہیں ۔ وہ نظم میں پیش کر تے :

 دنیا کی تپش کے بڑھنے سے

تیزی سے یہ پارہ چڑھنے سے 

یہ بر ف کی ویرانے پگھلیں

بڑھتی ہے سمندر کی سطحیں

پر بت یہ روا ں ہوجانے سے

پانی کا زیاں ہوجانے سے 

سیلاب نرالے آتے ہیں

خوشیوں کو بہا لے جاتے ہیں

پانی کو سنبھالے رکھنا ہے

راہوں میں اجالے رکھنا ہے

اس کے بعد ’’پانی کی فریاد ‘‘ ایک اثر انداز اور پر سوز نظم ہے جس میں پانی کو ہی ایک کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔اس میں پانی بچوں سے ہی اپنے تحفظ کے لیے سوال کرتا ہے ، اپنے اوپر بیت رہی مصیبتوں کو بتا تا ہے ، جابر و ظالم کی نشاندہی کر تا ہے ، اپنی پرانی خصوصیات و کیفیات کو بتاتا ہے اور آخر میں التجابھی کرتا ہے کہ خدا کی مخلوق پر رحم کر و ورنہ آسمان والا خفا ہو جائے گا ۔اس نظم کا پہلا بند ملا حظہ فرمائیں : 

اب اپنے ماحول کو بچانے ، قدم اٹھاؤ قلم اٹھا ؤ

یہ ہم سے گھبراکے بولا پانی ، مجھے بچاؤ، مجھے بچاؤ

دھواں اگلتے یہ کارخانے 

کثافتوں کی یہ حکمرانی 

میں دق زدہ اک مر یض جیسا

ہوئی ہے دشوار زندگانی 

اس طریقے سے ’’ساگر کی حیرانی‘‘ نظم بھی ہے جس میں سمندر کی کثافت کو پیش کیا گیا ہے ۔ جس میں سمندرمیں بسنے والی پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے ۔ ہم انسانوں نے سمندر کو تو مسخر کر لیا لیکن اس سے اس پوری آبی کائنات کو خطر ہ لاحق ہوگیا ہے جس کو خدا نے ہمارے لیے بنا یا ہے ۔ہم اس میں شہر جتنے بڑے بڑے جہاز اتار دیتے ہیں جس سے آبی دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ اگر اس میںکچھ ناگہانی حادثہ ہوجائے تو جو کاربن ڈائی اکسائڈ ہمارے لیے زہر ہوتا ہے وہی تیل کی شکل میں اس دنیا کو تباہ کر دیتا ہے چنانچہ متین اچل پوری لکھتے ہیں :

پانی پر ہے تیل یہ کیسا 

انسانوںکاکھیل یہ کیسا 

ساحل کی سب گہما گہمی 

کچھ دن سے ہے سہمی سہمی 

خطرہ لاحق انسانوں کو 

سارے آبی حیوانوں کو 

خطرے میں ساحل کی زمین ہے 

چڑیوں کو بھی چین نہیں ہے 

آبی تحفظ کی جانب راغب کر نے والی ان کی ایک نظم ’’پانی بچاؤ‘‘ ہے ۔ اس میں وہ بہت ہی فن کاری سے ہر طبقہ کے بچوں کو شامل کر لیتے ہیں کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رئیس بچوں کے ذہن میں مالی فراوانی کی وجہ کسی چیز کی کمی نہ ہونا ان کے لیے آسان ہوتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ خدا کی جانب سے انمول نعمت ہے اور اس نعمت کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی ہے ۔ جس طرح سے صاف ہوا سب کے لیے برابر ہے اسی طریقے سے پانی بھی سب کے لیے یکساں ہے ۔بچوں کی ہی زبانی وہ کہتے ہیں :

چاہے کچن ہو یا کارخانہ 

ہوٹل ہو چاہے بھٹیار خانہ 

نیچا ہو چاہے اونچا گھرانہ 

کپڑے ہو دھونا چاہے نہاؤ

پانی بچاؤ ، پانی بچاؤ

  یہ وہ موضوعات تھے جن کے لیے دنیا پریشان ہے ۔ متین اچل پوری نے ان موضوعات کے علاوہ ماحولیات سے متعلق کئی اہم مضمون بچوں کے لیے بچوں کی سہل زبان میں بغیر کسی فکر و فلسفہ کے پیش کیے ہیں ۔ جیسے جب سر مایہ داری ختم ہوئی اور زمیندار طبقہ زمینداری کی فضا سے نکل کرشہر وں میں قدم رکھنے لگا ،گاؤں اور قصبات کی کوٹھیاں شہر کے فلیٹوں میں تبدیل ہوگئی، آنگن سے دور دور تک کا نظارہ صرف بالکنی کے نظاروں میں محصور ہوکر رہ گیا اور اجناس دینے والا ہاتھ لینے والا بن گیا۔ اس قسم کی بات ’’ نیاماحول نامہ‘‘میں متین اچل پوری کر تے ہیں جس کا پہلا بند کچھ اس طر ح ہے : 

گملوں سے اب کام چلا نا ہے یارو

آنگن کو گلزار بنانا ہے یارو

آنگن کا بٹوارہ ہوا تو کیاغم ہے 

دوبارہ ،سہ بارہ ہوا تو کیا غم ہے 

اب رشتوں کا مول بڑھانا ہے یارو

آنگن کو گلزاربنانا ہے یاروں 

اس نظم میں غزل کا المیہ پن نہیں ہے بلکہ بچوں میںہلکی سی فکر کے بعد نئے ماحول میں جینے کے لیے حوصلہ ہے ۔الغر ض اس طر ح کی کئی نظمیں ہیں جن میں وہ بچوں کو نئے در پیش ماحو ل میں ماحول ساز بچہ بننے کا سبق دیتے ہیں ۔ ایسی نظمیں ضرور لکھی جاتی ہوں گی، ہر زبان میں ہوتی ہوں گی لیکن اردو جس نے قدم سے قدم ملا کر چلنا سیکھنا ہے جہاں اس نے ادب عالیہ میں عالمی زبانوں میں اپنی اعلی شناخت میر ، غالب ، اقبال ،پریم چند، منٹو، عصمت اور قرۃ العین حید ر سے بنائی وہیں ہمارے ادب اطفال کے ادیبوں کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ گاہے بگاہے عالمی مسائل سے بچوں کو آگاہ کر اتے رہیں ، جہاں ہم اخلاقیات میں ان سے ہرہئیت و لہجہ میں مخاطب ہوتے ہیں وہیں زندگی کے بنیادی وسائل میں صر ف سائنس تک ہی محدو د ہونا کافی نہیں ہے بلکہ متین اچل پوری نے جس جانب قدم اٹھا یاہے اس جانب نثر ی تحریروں میں بھی ادیبوں کو آگے آنا ہوگا تاکہ جس تبدیلی کے ہم خواہشمند ہیں وہ تبدیلی جلد از جلد آسکے ۔

اس کے علاوہ ان کی دو کتابیں اور ہیں جن کا تعلق ما حول سے ہے ۔ ایک ’’ماحول کی خوشبو ‘‘ اور دوسری ’’ ماحول نا مہ ‘‘ لیکن یہ دونوں کتابیں ’’ ہم ماحول کے رکھوالے ‘‘ سے مختلف ہیں ۔ ’’ ماحول نا مہ ‘‘ بیاسی صفحات پر مشتمل ہے جس میں اڑتیس نظمیں ہیں ۔ان نظموں میں رنگینی اور بوقلمونی نظر آتی ہے۔ جہاں فطرت کی عکاسی ہے وہیں دیگر اخلاقی باتیں بھی ہیں۔ ساتھ ہی کچھ ایسی نظمیں ہیں جن سے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی دعوت ملتی ہے اور انسانوں کو سبق عبر ت بھی دیتی ہے کہ گئے دنوں کو یاد کریں جب ہم ماحول کے لیے ظالم و جابر نہیں بنے تھے ۔ اس کتاب میں ان کی ایک نظم ’’ اپنا ماحول اپنی جنت ‘‘ میں صاف لفظوں میں یہی پیغام ہے کہ ہماری جنت ہمارا ماحول ہے ۔ ہم ماحول کے تحفظ کی بات کریں گے تو اپنی جنت ارضی کے تحفظ کی بات کریںگے ۔ اس نظم کا ایک شعربہت ہی معنی خیز ہے : 

کریں ہم بے زبانوں سے محبت 

 پرندوں کے ٹھکانوں سے محبت 

اس شعر کا آخری مصرع تحفظِ ماحولیات کے ایک بڑ ے حصہ کو اپنے دائرے میں لے رہا ہے ۔ پرندوں کی کئی نسلیں اگرچہ جنگلوں میں رہتی ہیں تاہم آبادی میںرہنے والے پرندے بہت ہی کم ہوتے جارہے ہیں۔ جو پرندے ہمار گھر کے آنگن کے پیڑ میں گھونسلے بنا کر رہتے تھے  انہیں اب پنجر وں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جس سے سائنسی طور بہت ہی نقصان ہو ا کہ وہ پرندے جو حشرات الارض کو ہماری فضاسے دور کرتے تھے اب ہم نے ان ہی پرندوں کو خود سے دور کردیا ہے جس کا سبق متین اچل پور ی بچوں کو ادب کے ذریعے پیش کر رہے ہیں ۔ 

بچوں کے لیے نئے موضوعات کی کمی بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ دنیا میں جتنی بھی چیزیں وقو ع پذیر ہورہی ہیں خواہ وہ فطری ہوں یا غیر فطری ، ایجادات ہوں یا نئے مقامات کی سیر ۔یہ وہ سارے موضوعات ہیں جن سے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ انہیں میں سے سائنس سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ایک اہم موضوع ’اوزون‘ ہے جس پر مصنف کی ایک نظم ’’ ہوا ، اوزون اور زمین ‘‘ ہے ۔کسی بھی ایک نظم سے بچے مکمل طور پر اوزون سے واقف نہیں ہوسکتے لیکن تین اشیا( تعریف اچھائی اور برائی) کا اظہار شاعر ضرور کردیتا ہے جن کو بچوں کی نظموں میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اس نظم میں بھی تعریف اور اچھائیوں کا ذکر ہے ساتھ ہی بیداری بھی ہے جنہیں ان تین اشعار میں محسوس کر سکتے ہیں ۔

تہوں سے لگا قوس اوزون ہے بڑے کا م کا بھائی وہ زون ہے 

 بنفشی شعاعوں سے ہم کو بچائے یہ سمجھو بلاؤں سے ہم کو بچائے 

مگر آج اوزون خطرے میں ہے محافظ ہے جو زون خطرے میںہے 

ہمار یہاں اردو میں سائنسی موضوعات پر بہت سی تحریر یں لکھی گئی ہیں ۔ ہیئیت کے اعتبار سے ان کا زیادہ تعلق نثر ی تحریروں سے رہا ہے لیکن نظم کے پیرائے میں بچوں کے لیے بہت کم تحریریں ملتی ہیں جن کی خلا یہاں پُر ہوتی ہوئی نظرآتی ہے ۔ اگر صرف اردو دنیا کی بات کی جائے تو ابھی سائنس فکشن ہمارے یہاں اپنی جگہ نہیں بنا سکا ہے۔ بچوں میں صرف معلومات عامہ تک ہی اس کی رسائی ہی اچھی ہے لیکن سائنس کو ادب کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے والے بہت ہی کم ہیں ۔ 

گلوبل وارمنگ پر ان کی ایک کہانی ’’ جنگل کی پگڈنڈی ‘‘ ہے ۔ یہ ایک مکالماتی کہانی ہے جو سڑک اور پگڈنڈی کے بیچ چلتی ہے ۔ اس کہانی میں سڑک کے دکھ درد میں پگڈنڈی مکمل شامل ہوتی ہے لیکن سڑک کے مقدر میں جو ہونا ہے وہ تو مزید سے مزید تر ہوتا جارہا ہے ۔ دو مکالمے ملاحظہ فرمائیں 

’’پگڈنڈی :گرمی کی شدّت سے یوں جو تمہارا بدن جل رہا ہے۔چھوٹا منہ بڑی بات، میرا بس چلے تو جنگل کی صاف ، ٹھنڈی تازہ ہوا تمھارے نام لکھ دوں۔ گائوں کا تالاب لاکر تمہارے لبوں سے لگا دوں۔

سڑک : آہ ٹھنڈے ، میٹھے پانی کے ایسے کٹورے اور جنگل کی وہ انمول ہوا میرے نصیب میں کہاں۔(پگڈنڈی کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے)

بہن! تم بڑی خو ش نصیب ہو۔دھنک تمہاری اوڑھنی ۔۔۔، شفق تمہارا گھونگھٹ ۔۔۔اور بادل تمہارا کاجل۔۔۔میرے نصیب میں تو یہی سیاہ ماتمی لباس ہے جس میں سورج کی تیز کرنیں آگ لگا دیتی ہیں۔‘‘

نثر ی کہانی اور شاعری میں تاثر اتی اعتبار سے دو الگ الگ چیزیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک یہ کہ شاعری پڑھنے کے بعد ذہن میں فرحت و انبساط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور جب شاعری اعلیٰ درجے کی ہو اور اس کے معانی بڑے وسیع پیمانے پر کھل کر سامنے آتے ہوں تو قاری کا ذہن بہتر معنوی غذا کے ساتھ خوش ہوجاتا ہے ۔ لیکن کہانی کا معاملہ کچھ الگ ہوتا ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کہانی ختم ہونے کے بعد انسا ن کا ذہن فکر و سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کہانی کے کسی نہ کسی کردار کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جس کو اس کہانی میں محسوس کیا جاسکتا ہے جو بچوں کو سڑک کی ہمدردی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کئی کہانیاں اور نظمیں ہیں جو اس موضوع پر سنجیدگی سے بچوں کو غورو فکر کی دعوت دیتی ہیں ۔




’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...