Showing posts with label گرامر. Show all posts
Showing posts with label گرامر. Show all posts

Friday 17 December 2021

مرکب افعال امدادی افعال

مرکب افعال امدادی افعال

اردو زبان میں افعال کا ایک سمند ر ہے اور اسماء کا بھی، اسی طر ح سے ہماری اس پیاری زبان میں صفات بھی لا محدود ہیں۔ تواس میں آپ واقف ہوں گے کہ کبھی کبھی کوئی فعل دوسرے فعل کی مدد سے نیا معنی پیدا کر تا ہے اور اس دوسرے فعل کو امدادی فعل کے طور پر جانا جا تا ہے اور کبھی فعل کے ساتھ اسم یا صفت کے آجانے سے نئے معنی پیدا ہوجاتے ہیں تو ایسے میں ان افعال کو فعل مرکب کہتے ہیں ۔

اردو زبان میں ’’ ہونا ‘‘ ایک مصدر ہے جس سے کئی افعال نکلتے ہیں ۔اسی طریقے سے ’’ آنا ‘‘ مصدر سے کئی افعال بنتے ہیں تو دونوں کو ملا کر’ آیا ہو، گیا ہو ‘ مرکب افعال بنے ۔ ’ہونا ‘ کا ’ہو ‘مر کب افعال میںبہت ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے آیا ہو ، گیا ہو، پڑھا ہو، کھایا ہو، بیمار ہوا ہو ، سوگیا ہو ، چل دیا ہو وغیرہ۔ ان تمام مرکب افعال میں احتمالِ خفیف کی کیفیت پائی جارہی ہے جو مستقل فعل احتمالی سے کسی قدر کم ہے ۔

اسی طریقے سے ’دینا ‘ اور ’لینا ‘ ایسے مصدر ہیں جو اپنی مکمل صورت میں افعال کے ساتھ آتے ہیں اور کچھ نئے معنی پیدا کر تے ہیں جیسے اتار دنیا ، کتاب لے لینا، بچا لینا ،خر چ کر دینا وغیرہ ۔ ان افعال کے معنی میں ایک خصوصی زور یا تاکید نظر آتی ہے اور قربت کا اظہا ربھی ہوتا ہے جیسے بلا لینا ، سن لینا اور دکھا لینا وغیرہ۔

’’جانا‘‘ ایک مصدر ہے جس سے کئی افعال نکلتے ہیں اورمعاون فعل کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے ۔ جس کے ساتھ یہ فعل آتا ہے اس کا شمار مر کب افعال میں ہو جاتا ہے جیسے آجانا ، چلے جانا ، بکھر جانا اور ٹوٹ جانا ، مل جانا ، نکل جانا، اچھل جانا اور کودجانا وغیرہ یہ اکثر فعل لازم کے ساتھ آیا ہے ۔اسی طریقے سے آنا کا استعمال بھی فعل لاز م کے ساتھ نظر آتا ہے جیسے بن آنا ، بنا آنا ، بھاگ آنا اور دوڑ آنا وغیرہ ۔

کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو غصے کی حالت میں بہت ہی زیادہ استعمال ہوتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ’ ڈالنا ‘ ہے ۔ جس کے لغوی معنی تو آپ جانتے ہی ہوں گے اور اس کا استعمال بھی کچھ اس طرح ہوتا ہے جیسے پانی ڈالنا ، پردہ ڈالنا وغیرہ ۔ لیکن غصے کی حالت میں اس کو افعال کے ساتھ اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے مار ڈالنا ، کاٹ ڈالنا ، مسل ڈالنا ، چیر ڈالنا وغیرہ  ۔اسی معنی کے لیے ’’ ڈالنا ‘‘ کے بجائے ’’ دینا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے چیر دینا ،مسل دینا ، پیٹ دینا وغیرہ ۔

کہیں آپ نے حالِ استمر اری پڑھا ہوگا اگر نہیں پڑھا ہوتومر کبات فعل میں اس کی ایک شکل ’ رہنا ‘میں نظر آتی ہے جیسے بیٹھے رہنا ، بیٹھ رہنا ، سو رہنا ، بولتے رہنا ، پڑھتے رہنا وغیرہ اس میں حالِ استمراری کی کیفیت نظر آتی ہے ۔لیکن کبھی کبھی ختم ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے نظر جاتی رہی ، طاقت جاتی رہی ، قوت گویائی جاتی رہی وغیرہ لیکن اس میں دو افعال’ جانا‘ اور ’ رہنا ‘ کا استعمال ہوا ہے ۔

پڑنا کا استعمال مر کب افعال کی صورت میں اچانک اور اتفاق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے لڑپڑنا، گر پڑنا، ٹوٹ پڑنا ، کھانے میں ٹوٹ پڑنا وغیرہ اسم کے ساتھ اس کا استعما ل یوں ہوتا ہے جیسے قحط پڑنا ، بیمار پڑنا وغیرہ ۔

’’بیٹھنا ‘‘ایک باضابطہ فعل ہے لیکن اس کا استعمال کسی دوسرے فعل کے ساتھ جب آتا ہے تو اس میں جبر کی سی کیفیت آجاتی ہے جیسے لڑبیٹھنا ، پیسے دبا بیٹھنا ، چڑھ بیٹھنا وغیرہ ۔بیٹھنا کو اس طرح بھی استعمال کر تے ہیں جیسے پوچھ بیٹھا ، کر بیٹھا ، مار بیٹھا وغیرہ ۔اٹھنا بھی انہیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے لڑاٹھا ، جھگڑاٹھا، بو ل اٹھا، بلبلا اٹھا ، پھڑک اٹھا، جھلا اٹھا وغیرہ ۔پڑنا کا بھی استعمال انہیں چیزوں میں ہوتا ہے اور دوسری مثالیں جیسے بر س پڑا ، بن پڑا، آپڑا  وغیرہ۔ نکلنا سے لفظ نکلا بھی انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے آ نکلا ، بہہ نکلا ، پھوٹ نکلا وغیرہ ۔ ان تمام میں کسی کام کے دفعتاًہونے کا علم ہورہا ہے ۔

فعل کے شروع میں اگر’آ‘ یا ’جا‘ استعمال ہورہا ہے تو اس کے معنی میں کسی کام کے دفعتاً ہونے کا اضافہ ہوجاتا ہے جیسے جا پڑنا ، آپڑنا ، آنکلنا وغیرہ ۔ جا پڑنا میں ایک معنی یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کہیں گیا اور وہاں سے ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے جب تک کہ مقصد کو حاصل نہ کرلے ، اسی طر یقے سے لگ پڑنا ہے۔

فعل حال کے بارے میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ اس میں کسی کام کے ہونے کی خبر دی جاتی ہے جیسے حامد کام کر رہا ہے ۔ لیکن اس میں’ لگنا ‘کا اضافہ کر دیا جائے تو اس بات کی بھی اطلاع ملتی ہے کہ کوئی کام بس ابھی ابھی شروع ہوا ہے ۔جیسے کام کر نے لگا ، کھانے لگا ، نہانے لگا،پڑھنے لگا ۔ محاورے میں اس کے معنی لزوم کے ہیں جیسے ’’ وہ تو گلے آ لگا‘‘ او ر اگر ’لگنا ‘ کا مصدر بدلتا ہے اور ماضی کے بجائے حال یا مضارع کا استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی بھی اسی حساب سے بدلنے لگتے ہیں ، جیسے جب وہ باتیں کر نے لگتا ہے تو پھول جھڑنے لگتے ہیں ، جب وہ بولنے لگتا ہے تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ ان دونوں مثالوں میں کام کے تسلسل کا پتہ چلتا ہے ۔ لگنا میں احسا س و گمان کے معانی بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جیسے مجھے ایسا لگا کہ بارش ہورہی ہے ، اب بس سے سفر بھار ی لگنے لگا ہے۔

لگنا سے جیسے حال میں کام کے شروع ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو ایسے ہی صیغہ ’’چاہتا ‘‘کسی فعل کے بعد لایا جائے تو مستقبل قریب میں کسی کام کے ہونے کی خبر دیتا ہے جیسے ، محمود آیا چاہتا ہے ، اب کام مکمل ہوا چاہتا ہے ۔

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل 
چراغ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں

چاہنا ہے کا اصل استعمال تو خواہش کے اظہار کے لیے ہوتا ہے :

جیسے علامہ اقبال کے اس شعر میں 
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں 
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اوپر میں جو معنی مستقبل قریب کے لیے’’ چاہتا ہے ‘‘ سے پیدا کیا چاہتا ہے ، وہی معنی مصدر کے الف کو یا ئے مجہول سے بدلنے اور اس کے بعد ’کے‘،’کو‘ اور ’ہونا ‘ کے اضافہ سے ہوتا ہے ، جیسے اوپر کی مثال میں ’’ کھایا چاہتا ہے ‘‘ اور اب کی مثال میں ’’ کھانے کو ہے ، جانے کو ہے ، آنے کو ہے ، وغیرہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔

چاہنا مصدر سے چاہیے بھی بہت ہی زیادہ بطور امدادی فعل کے استعمال ہوتا ہے ۔ جس کے معنی میں کسی اخلاقی معاملہ یا ذمہ داری کی جانب توجہ دلا نے کے آتے ہیں ، جیسے ذمہ داری کے لیے: آپ کو بات کر نی چاہیے ۔تمھیں غالب سے مل لینا چاہیے تھا ۔اخلاقی ذمہ داری کے لیے جیسے ہمیں سب کے ساتھ اچھا برتاؤ کر ناچاہیے ۔

لفظ ’ لے‘ جب معاون فعل کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی میں کسی شخص یا شے کا بھی لزو م آتاہے ۔ جیسے لے بھاگا ، چیل چوزہ لے اڑا، راجو سونو کو بزنس میں لے ڈوبا وغیرہ ۔

لفظ ’ دے ‘ بھی فعل کے شروع میں کسی بھی کام میں زور پیدا کرنے کے لیے آتا ہے جیسے ، دے مارا ، دے پٹکا ، دے گھونسا دے تھپڑ وغیرہ ۔
لفظ ’ رہا‘ بطور امدادی فعل جب استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی میں یہ بات پوشیدہ ہوتی ہے کہ کسی کام کے کرنے میں دشواریاں آرہی تھیں لیکن مکمل کر لیا گیا ہے۔ جیسے دلی جا کر کے رہا ، مکان بنا کر کے رہا ، وہ اسے ہرا کر کے رہا وغیرہ ۔

اسی طریقے لفظ ’رکھا‘ جو بطور امدادی فعل استعمال ہو کر نئے نئے معانی پیدا کر تا ہے جیسے : مالک مجھے کام پر لگا رکھا ہے ، میں رکھا کا استعمال عدم رضامندی کو ظاہر کرتا ہے اور جیسے ’ فلا ں نے میرا مال دبارکھا ہے ۔اس نے مجھے سمجھا رکھا ہے ، یعنی پہلے ہی سے سکھا پڑھا کر کے تیار کر لیا ہے کسی کام کے کرنے یا نہ کر نے کے لیے ۔اسی طریقے سے تاکید پیدا کر نے کے لیے جیسے سن رکھو، دیکھ رکھو وغیرہ ۔ان تمام کے علاوہ کئی الفاظ اور بھی ہیں جن کو آپ اپنی روزمرہ گفتگو میں استعما ل کر تے ہیں

متعدی و تعدیہ

 متعدی و تعدیہ 


فعل لازم کو فعل متعدی کیسے بنایاجاتا ہے فعل لازم وہ فعل ہوتا ہے جس میں جملہ فعل اور فاعل سے پورا ہوجاتا ہے جیسے حامد گیا، امی آئیں، بھائی بیٹھا فوجی دوڑا، چور بھاگا پولیس آئی وغیرہ۔

فعل متعدی وہ فعل ہوتا ہے جس کو فاعل اور مفعول دونوں کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ جملہ فعل ،فاعل اور مفعول سے مکمل ہوتا ہو۔جیسے بشریٰ نے کتاب پڑھی، حامد نے خط لکھا، ثانیہ نے کمپیوٹر سیکھا وغیرہ تو ان سب مثالوں میں کتاب، خط اور کمپیوٹر مفعول ہیں۔یہ عمومی بات تھی اس کے بعد جاننے کی بات یہ ہے کہ مفعول کے لحاظ متعدی کی تین قسمیں ہیں ۔ اول یہ کہ جس میں مفعول صرف ایک ہی ہو جیسے زیدنے بلی کو مارا ۔ دوم جس میں دو مفعول ہو ں جیسے صبا نے اقرا کو کتاب دی ۔ اس مثال میں اقرا اور کتاب مفعول ہیں ۔سوم یہ کے جس میں مفعول کی تعداد تین ہو جیسے حامد نے زاہد سے عادل کو کتاب بھجوائی ۔

لیکن ہم اب جو چیز لکھنے جارہے ہیں وہ اوپر کی تعریف سے بالکل مختلف ہے کیونکہ ہم ان افعال کو پہچانیں گے جو بذات خود متعدی ہوں گے۔یعنی اس کو متعدی سمجھنے کے لیے فعل، فاعل اور مفعول کی ضرورت ہمیں محسوس نہیں ہوگی۔

اب ہم رخ کرتے ہیں اس بات کی جانب کہ کیسے فعل لازم فعل متعدی بنتا ہے ۔یہ بات ذہن میں رہے کہ اکثر افعال جو فعل لازم ہوتے ہیں وہ فعل متعدی بھی ہوتے ہیں اور وہ فعل لازم سے ہی بنتے ہیں۔

ایک عام قاعدہ یہ ہے کہ فعل لازم کے مادہ کے آگے (جیسے چلنا کا مادہ چل) الف بڑھایا جائے جیسے چلنا سے چلانا، پکڑنا سے پکڑانا، پڑھنا سے پڑھانا، دوڑنا سے دوڑانا، تڑپنا سے تڑپانااور کرنا سے کرانا وغیرہ۔

کبھی مادہ فعل کے آخری حرف سے پہلے الف لگا کر متعدی بنایا جاتا ہے جیسے اترنا سے اتارنا، بگڑنا سے بگاڑنا وغیرہ۔ 

کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں کہ اس کی متعدی اگر بنائی جائے تو پہلے حرف کی حرکت کو اس کے موافق حرف علت سے بدل دیتے ہیں (حرف علت تین ہیں الف، واو،یا) جیسے مرنا سے مارنا، ٹلنا سے ٹالنا، تھمنا سے تھامنا، مڑنا سے موڑنا، نچڑنا سے نچوڑنا، کھلنا سے کھولنا، چرنا سے چیرناوغیرہ۔ 

اس کے برعکس کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جس میں فعل کے دوسرے حرف کو حذف کر دیا جاتا ہے اور دو حرف کے بعد واو یا الف کا اضافہ کیا جاتا ہے جیسے بھاگنا سے بھگانا، بھیگنا سے بھگونا، جاگنا سے جگانا، توڑنا سے تڑانا(مثال بکری رسی تڑا کر بھاگ گئی) سیکھنا سے سکھانا، دیکھنا سے دکھانا وغیرہ۔ اسی نوعیت  کے کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جن میں واو الف کا اضافہ کیا جاتا ہے جیسے پاٹنا سے پٹوانا، ڈالنا سے ڈلوانا، ڈانٹنا سے ڈنٹوانا، تاکنا سے تکوانا وغیرہ 

کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جن کے متعدی بناتے وقت ٹ ڑ سے بدل جاتا ہے جیسے ٹوٹنا سے توڑنا، پھوٹنا سے پھوڑنا، پھٹنا سے پھاڑنا، پھڑوانا ،جھٹکنا سے جھاڑنا وغیرہ۔

اگر کوئی مصدر چار حرفی ہو اور اس کا دوسرا حرف حرف علت ہو تو ایسے میں اس حرف کو حذف کرکے (لا) کا اضافہ کرتے ہیں جیسے رونا سے رلانا، کھانا سے کھلانا، سونا سے سلانا دھونا سے دھلانا، نہانا میں تیسرا حرف علت کا ہے تو یہاں بھی حذف کرکے نہلانا ہوگا۔

کبھی افعال میں امداد ی افعال لانے سے بھی متعدی بنتا ہے جیسے جانا سے لے جانا ، بھاگنا سے لے بھاگاوغیرہ ۔

افعال کی نفی

افعال کی نفی

 آپ نے حر وف کی قسموں میںسے ایک قسم حرف نفی بھی پڑھا ہوگا ۔ نفی کے معنی انکار کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کے نہ کر نے یا نہ ہونے کا علم اس حرف سے ہو اور جس فعل کے شروع میں یہ حر ف آتا ہے اس کوفعل نفی کہتے ہیں ۔جیسے حامد نہیں ہے ، اس نے آج پڑھائی نہیں کی ۔ ان دونوں جملوں میں نہ ہونے اور پڑھائی نہ کر نے کی خبر معلوم ہورہی ہے گویا یہ دونوں جملے نفی کے جملے ہیں ۔اس سے پہلے جتنی بھی گردانیں آپ نے پڑھیں وہ سب معروف و مجہول کی تھیں اور وہ سب مثبت گردانیں تھیں۔ اس شمارے میں صرف افعال نفی کا ذکر ہوگا ۔ افعال فعل کی جمع ہے اور فعل کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ اس سے کسی کام کے ہونے یا کر نے کا علم ہوتا ہے ۔جیسے حامد آیا توآنا فعل ہوا جس سے حامد کا آنا معلوم ہوا ۔ اس کو ہم فعل نفی بنائیںگے تو ہم کہیں گے ’’ حامد نہیں آیا ‘‘ ۔ آیا جو فعل ہے اس کے شروع میں ’نہیں ‘ لگانے سے یہ فعل نفی ہوگیا ۔

ایک قاعدہ کلیہ یا در کھیں کہ کسی بھی فعل کے شروع میں ’نہ یا نہیں‘ لگا نے سے وہ فعل نفی ہوجاتا ہے ، چا ہے وہ فعل ماضی ، فعل حال یا فعل مستقل ہو ۔ فعل ماضی کی مثال حامد کتاب نہیں پڑھا ، فعل حال : امی کھانا نہیں پکا رہی ہیں ، فعل مستقبل : ابو مارکیٹ نہیں جارہے ہیں ، فعل تمنائی: کاش وہ نہیں آتا ، فعل احتمالی : شاید وہ نہ آئے وغیرہ ۔یہاں آپ نے تمنائی میں ’نہیں ‘ اور احتمالی میں’ نہ ‘ پڑھا ۔یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھر رہا ہوگا کہ ’ نہ ‘ اور ’ نہیں ‘ کا استعمال ایک ہی ہے یا دونوں کے استعمال میں کچھ فرق بھی ہے ۔ تو یہ بات جان لیں کہ اکثر مقام پر دونوں کے استعمال میں فرق پایا جا تا ہے۔ البتہ کہیں کہیں دونوں کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔جس طریقے سے اوپر ماضی کے مثال میں ’’ نہ ‘‘ کا استعمال ہوا ہے اسی طریقے سے ماضی شر طیہ میں بھی ’’ نہ ‘‘ کا استعمال ہوتا ہے جیسے اگر وہ ٹیم میں کھیلتا تو اچھا نہ کھیلتا ۔ اسی طریقے سے فعل مضارع کے شر طیہ میں بھی ’ نہ ‘ استعمال ہوتا ہے جیسے اگر وہ نہ کھائے تو میں کیا کروں ۔یہ دونوں جملے شرطیہ ہیں ۔ جملے کی قسموں میں سے آپ نے جملہ شرطیہ پڑھا ہی ہوگا کہ اس میں ایک جملے کے دو جز ہوتے ہیں ایک شرط اور ایک جزا ۔شر ط مطلب جس میں کسی چیز کے کر نے یا نہیں کر نے کی شرط رکھی جاتی ہے ۔ جزا میں اس شر ط کا بدلہ ہوتا ہے جیسے اگر وہ کھاتا تو نہ پچا پاتا ۔ اس میں اگر وہ کھاتا شرط ہے اور نہ پچا پا تا جزا ہے ۔ یہاں پر جملہ شر طیہ کے لانے کا مقصد یہ تھا کہ اگر جملہ شر طیہ کے جزا میں نفی لایا جائے تو وہاں بطور حر ف نفی ’نہ ‘ لانا زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔

فعل امر کی نفی ’ نہ ‘ اور ’ مت ‘ دونوں لگا نے سے ہوتا ہے جیسے نہ کر مت کر ۔ماضی مطلق میں اکثر مقام پر ’ نہیں ‘ ہی استعمال ہوتا ہے لیکن بعض مقام پر ’ نہ ‘ بھی لکھا اور بولا جاتا ہے جیسے مرزا غالب کا ایک مصرع ’ ’جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار ‘ ‘ یہاں پر ’نہ‘ استعمال ہوا ہے۔ لیکن اکثر مقام پر نہیں آیا ، نہیں پڑھا، نہیں کھایا ، نہیں سویا وغیرہ استعمال ہوتا ہے ۔فعل احتمالی میں بھی دنوں استعمال ہوتے ہیں جیسے (ماضی ) شاید وہ نہیں آیا ہو (مستقبل ) شاید وہ نہ آئے یا جیسے وہ آیا ہو اور ہماری نظر نہ پڑی ہو وغیرہ ۔فعل مستقبل کی نفی بنانے کے لیے بھی ’نہیں ‘ آتا ہے ۔لیکن اس میں فعل کے بعد ’ کا ، کے ، کی ‘ کا استعمال ہوتا ہے جیسے وہ نہیں آئے گا ، میں نہیں آؤں گا ، ہم نہیں آئیں گے ۔ وہ نہیں آنے کی ، میں نہیں آنے کا ، ہم نہیں آنے کے ۔اس میں’ کا ، کے ، کی‘ متکلم صرف تاکید کے لیے استعمال کر نا چاہتا ہے ۔

Sunday 21 February 2021

اردو کی گردانیں فعل ماضی اور مستقبل کی گردانیں

اردو کی گردانیں
فعل ماضی اور مستقبل کی گردانیں


’ ہنسنا‘ اور ’ کھانا ‘ سے ماضی مطلق کی گر دا ن دیکھیں 

فعل ماضی مطلق 

واحد غائب     جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ ہنسا         وہ ہنسے         تو ہنسا         تم لوگ ہنسے    میں ہنسا     ہم ہنسے 

اس نے کھا یا     انہوں نے کھایا    تونے کھایا     تم لوگ کھائے     میں نے کھایا     ہم لوگ کھائے  

 ماضی قر یب اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کے حال فی الحال ہو نے کے متعلق معلوم ہو ۔جیسے’’ وہ آئے ہیں ‘‘ یہ ماضی قر یب کا ایک صیغہ ہے ۔
 ماضی قریب بنانے کا طریقہ: ماضی قریب بنتا ہے ماضی مطلق ( و ہ لایا ) کے آخر میں لفظ ’ہے ‘ ، ’ ہیں ‘ اور ’ ہو‘ کے اضافے سے ۔ واضح رہے کہ یہ سب ایک ہی ہیں صرف صیغے کے اعتبار سے ان کی ہیئت بدلتی رہتی ہے ۔ اب ماضی قریب کی گردان مصدر ہنسنا اور کھانا سے ملاحظہ فرمائیں ۔
فعل ماضی قریب 
واحد غائب     جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ ہنساہے     وہ ہنسے ہیں     تو ہنسا ہے      تم ہنسے ہو     میں ہنسا ہوں ہم ہنسے ہیں 

وہ کھایا ہے     وہ کھائے ہیں    تو کھایا ہے     تم کھائے ہو     میں کھایا ہوں     ہم کھائے ہیں 

 ماضی بعید اس فعل کو کہتے ہیں جس سے کسی کام کے کر نے اور ہو جانے کی جانکاری بہت ہی پہلے زمانے میں معلوم ہو ۔ جیسے وہ آیا تھا ۔ اس فعل کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں لفظ ’ تھا ‘یا ’تھے ‘ ہوتا ہے۔ اس لفظ کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے کے زمانے میں کسی کام کا پتہ چلے ۔ اب ماضی بعید کی گر دا ن  ۔اس گر دان میں ایک تبدیلی کی جارہی ہے کہ پہلے مذکر کی گر دان پھر مؤنث کی گر دان لکھی جارہی ہے ۔
فعل ماضی بعید
واحد غائب     جمع غائب         واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم         جمع متکلم 
وہ پڑھا تھا      وہ پڑھے تھے    تو پڑھا تھا     تم پڑھے تھے    میں پڑھا تھا     ہم پڑھے تھے
وہ پڑھی تھی    وہ پڑھی تھیں    تو پڑھی تھی     تم پڑھی تھی     میں پڑھا تھا     ہم پڑھے تھے

ماضی ناتمام : اس ماضی کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کے ماضی میں ہونے کی تو جانکاری ہو لیکن وہ کام پور ا نہیں ہوا ہو یا اس کام کے مکمل ہونے یا نہ ہونے کے متعلق علم نہ ہو ۔ اس کے لیے ماضی بعید کا بھی صیغہ استعمال ہوتا ہے جیسے ’’ وہ لایا تھا ‘‘ آپ سو چ رہے ہوں گے کہ یہ تو ماضی بعید کا صیغہ ہے ۔ ہاں یہ ماضی بعید کا صیغہ ضرور ہے لیکن موقع کے لحاظ سے ماضی ناتمام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے لیے ’ ’وہ لایا کر تا تھا ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے ۔اب گردان ملاحظہ فرمائیں ۔
ماضی ناتمام 

وہ کیا تھا 
یا 
وہ کیا کر تا تھا 

وہ کیے تھے 
یا 
وہ کیا کر تے تھے

تو کیا تھا 
یا 
تو کیا کر تا تھا

تم کیے تھے 
یا 
تم کیا کرتے تھے 

میں کیا تھا
یا 
میں کیا کرتا تھا

ہم کیے تھے
یا 
ہم کیا کرتے تھے

وہ کی تھی 
یا 
وہ کیا کر تی تھی

وہ کی تھیں 
یا 
وہ کیا کر تی تھیں

تو کی تھی 
یا 
تم کیا کر تی تھی 

تم کی تھی 
یا 
تم کیا کر تی تھی

میں نے کیا تھا
یا 
میں کیا کر تا تھا

ہم کیے تھے
یا 
ہم کیا کرتے تھے

ماضی احتمالی: ماضی کی وہ قسم ہے جس کے فعل میں شک کی گنجائش ہوتی ہے یعنی گزرے ہوئے زمانے میں کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا شک پایا جائے جیسے حبیب دہلی گیا ہوگا ۔شگفتہ اسکو ل گئی ہوگی ۔ان مثالوں سے کسی کام کے گزشتہ زمانے میں ہونا یقینی معلوم نہیں ہورہا ہے بلکہ وہ کام ہوا بھی ہوگا اور نہیں بھی ہوا ہوگا ۔ ماضی احتمالی بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ ماضی مطلق کے اخیر میں صر ف’’ ہوگا ‘‘ کا اضافہ کیا جائے جیسے ’’ حبیب دہلی گیا ‘‘ (ماضی مطلق ) اور ’’ حبیب دہلی گیا ہوگا ‘‘ ماضی احتمالی ۔ اب ماضی احتمالی کی گر دان ملاحظہ فرمائیں:
ماضی احتمالی 
واحد غائب     جمع غائب         واحد حاضر     جمع حاضر         واحد متکلم         جمع متکلم 
وہ لایا ہوگا     وہ لائے ہونگے    تو لایا ہوگا     تم لائے ہوگے    میں لایا ہوں گا    ہم لائے ہوںگے
وہ لائی ہوگی     وہ لائی ہوں گی    تو لائی ہوگی    تم لائی ہوگی    میں لائی ہوں گی    ہم لائے ہوںگے

 ماضی تمنائی : ماضی تمنائی کو ماضی شر طیہ بھی کہتے ہیں ۔ یہ ماضی کی وہ قسم ہے جس میں گزرے ہوئے زمانہ میں کام کر نے کی تمنا، شر ط یا آرزو پائی جائے ۔ جیسے شر ط کی مثال اگر حامد آتا تو محمود سیر کو جاتا۔ تمنا کی مثال: کاش وہ پڑھتا ۔ تمنا اور آرزو ایک ہی چیز ہیں دونوں کے معنی ایک ہی ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ ماضی تمنائی کے فعل میں شر ط ، آرزو اور تمنا پا یا جاتا ہے ۔اس کے بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں مادہ فعل کے بعد ’’ تا ‘‘ بڑھا دیا جاتا ہے ۔ جیسے آنا کا ما دہ ’’ آ‘‘ ہے ، اور جانا کا مادہ ’’ جا ‘‘ ہے تو اس کے بعد ’’ تا ‘‘ بڑھا نے سے ’’ آ تا ‘‘ اور ’’ جاتا ‘‘ ہو جا تا ہے ۔ ماضی تمنائی گی گر دان دیکھیں :
ماضی تمنائی 
واحد غائب     جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ پڑھتا         وہ پڑھتے     تو پڑھتا         تم پڑھتے        میں پڑھتا        ہم پڑھتے
وہ آتی         وہ آتے             تم آتی         تم آتے             میں آتی            ہم آتے
فعل حال 

 آپ کو اس بات کا علم ہوگا کہ گزرے ہوئے زمانے کو ماضی کہتے ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ گزرے ہوئے زمانہ سے ملا ہوا حال کہ زمانہ ہوتا ہے جس میں ابھی ہم سانس لے رہے ہیں اس لیے فعل ماضی کے بعد اب فعل حال کا ذکر ہوگا ۔توفعل حال میں سب سے پہلے فعل مضا رع آتا ہے ۔ یہ اس فعل کو کہا جاتا ہے جس میں موجودہ اور آنے والا زمانہ دونوں پایاجائے ۔جیسے حامد کتاب پڑھے ، محمود گھومے ، ابو سوئے وغیرہ ۔فعل مضارع مادہ ٔ فعل کے آخر میں یائے مجہول بڑھا نے سے بنتا ہے جیسے کھا سے کھائے ، جمع غائب میں کھائیں ، مخاطب میں کھاؤاور کھائیں ، متکلم میں کھاؤں اور کھائیں ۔ یہ صرف اسی گردان میں نہیںہے بلکہ گزشتہ گردانوںمیں بھی آپ کو پڑھنے کوملا ہوگااور آگے بھی یہی تبدیلیاں دیکھنے کوملیں گی۔ اب مضارع کی گردان پڑھیں ۔ اس میں صر ف مذکر کی گردان پیش کی جارہی ہے کیوںکہ اس میں مذکرو مؤنث دونوں کے صیغے یکساں ہیں۔

فعل مضارع 
واحد غائب     جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ کھائے         وہ کھائیں    تم /آپ کھاؤ       آپ کھائیں        میں کھاؤں     ہم کھائیں
اس گر دا ن کے بعد آپ کی ایک پر یشا نی حل کر نا چاہتے ہیں کہ واحد حاضر کے صیغے میں جو لفظ ’’تم ‘‘ یا کہیں کہیں ’’ تو ‘‘ کا استعمال ہوا ہے یہ صر ف گردا ن کی مناسبت سے لکھا گیا ہے ۔ اچھے بچوں اور اچھی زبان کے لیے جب ہم ایسے صیغے یا جملے کا استعمال کرتے تو ’’ آپ ‘‘ جیسا لفظ استعمال کر تے ہیں جیسے ’’ آپ کھائیں ‘‘ اور ادب کے لیے ایک آدمی کے لیے بھی جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں ۔

  فعل حال مطلق : یہ اس فعل کو کہتے ہیں جس میں موجودہ زمانے میں کسی کام کے ہونے کا پتہ دے جیسے وہ کھاتا ہے ، وہ پڑھتا ہے ، وہ دوڑتا ہے ۔ اس سے کسی کام کے مطلقا ً ہونے کا پتہ معلوم ہوتاہے ، وہ کام ہوگا یا ہو رہا ہے اس کاعلم نہیں ہوتا ہے۔ اس کو بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ ماضی تمنائی کا جو صیغہ آپ نے پڑھا ’’ وہ لاتا ‘‘ اس کے آخر میں ’’ ہے ‘‘ لگانے سے حال مطلق بن جاتا ہے۔ اس کی گردان ملاحظہ ہو :
فعل حال مطلق 
واحد غائب         جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ پڑھتا ہے     وہ پڑھتے ہیں    تو پڑھتا ہے    تم پڑھتے ہو    میں پڑھتاہوں    ہم پڑھتے ہیں
وہ آتی ہے        وہ آتے ہیں        تو آتی ہو        تم آتے ہو         میں آتی ہوں    ہم آتے ہیں
  یہ گردان ہے حال مطلق کی۔ گزشتہ اوراق میں آپ نے ماضی نا تمام کی گردا ن پڑھی ہوگی اسی طریقے سے حال میں بھی حال ناتمام ہوتا ہے ۔ جس میں موجودہ وقت میں کسی کام کے ہونے کی خبر ہو لیکن اس کام کے مکمل  نہ ہونے کی خبر بھی معلوم ہورہی ہے ۔جیسے وہ لا رہا ہے ، وہ سورہا ہے ۔حال نا تمام کی شناخت یہ ہے کہ اس کے آخر میں ’’رہا ہے ‘‘لکھا ہو۔ گردان ۔
فعل حال نا تمام 
وہ جارہا ہے     وہ جارہے ہیں    تو جارہا ہے    تم جارہے ہو    میں جا رہا ہوں    ہم جارہے ہیں
وہ پڑھ رہی ہے     وہ پڑھ رہی ہیں     تو پڑھ رہی ہو    تم پڑھ رہے ہو     میں پڑھ رہا ہوں     ہم پڑھ رہے ہیں
  جس طر یقے سے آ پ نے ماضی احتمالی یا ماضی شکیہ پڑھا ہوگا جس میں کسی کام کے ماضی میں ہونے پر شک ظاہر کیا جارہا ہوگا اسی طر ح سے حال احتمالی میں بھی کسی کام کے موجودہ وقت میں پائے جانے کا گمان ہو یقین نہ ہو، تو اس کو فعل حال احتمالی کہتے ہیں۔ اس فعل کی شنا خت یہ ہے کہ اس کے آخر میں ’ ہو‘ یا ’ ہوگا‘ جیسے لفظ ہوں : جیسے وہ پڑھتا ہو ، پڑھتا ہوگا یا پڑھ رہا ہوگا ۔گردان 

فعل حال احتمالی 
وہ پڑھتا ہو یا وہ پڑھ رہا ہوگا
 وہ پڑھتے ہوں
وہ پڑھتے ہوں گے
یا 
پڑ ھ رہے ہوںگے تو پڑھتا ہو
تو پڑھتا ہوگا
یا 
تو پڑھ رہا ہوگا تم پڑھتے ہو 
تم پڑھتے ہو گے
یا 
تم پڑھ رہے ہوگے میں پڑھتاہوں
میں پڑھتا ہوںگا
یا
میں پڑھ رہا ہوںگا ہم پڑھتے ہوں
ہم پڑھتے ہوںگے
یا 
ہم پڑ ھ رہے ہوںگے
وہ آتی ہو 
وہ آتی ہوگی
یا 
وہ آرہی ہوگی وہ آتی ہوں 
وہ آتی ہوںگی 
یا 
وہ آرہی ہوںگی تو آتی ہو 
تو آتی ہوگی
یا 
تو آرہی ہوگی تم آتی ہو
تم آتی ہوںگی
یا 
تم آرہی ہوںگی میں آتی ہوں
میںآتی ہوںگی
یا 
میں آرہی ہوںگی ایضاً

 فعل امر میں کسی چیز کے حکم کا پتہ چلتا ہے ۔ تو آپ کو معلو م ہوگا کہ حکم اسی کو دیا جاتا ہے جو سامنے ہو اور مخاطب ہو تو مخاطب میں صرف دو صیغے آتے ہیں واحد حاضر اور جمع حاضر ، توفعل امر کے صر ف دو صیغے ہوتے ہیں فعل حاضر اور جمع حاضر :


 تو پڑھ
تم  پڑھو




تو پڑھ 
تم  پڑھو


فعل مستقبل اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کے کر نے یا ہونے کی خبر آنے والے زمانے میں معلوم ہو جیسے وہ جا ئے گا ، وہ ٹہلے گا ، وہ روئے گی وغیرہ ۔فعل مستقبل کی گردان کچھ اس طر ح ہے :
وہ جائے گا      وہ جائیںگی         تو جائے گا     تم جائوگے    میں جاؤںگا    ہم جائیںگے
 وہ پڑھے گی     وہ پڑھیںگے     تو پڑھے گی  تم پڑھوگی     میں پڑھوںگا     ہم پڑھیں گے

Wednesday 17 February 2021

فعل کی قسمیں fel ki qismen

 فعل کی قسمیں 

Urdu me fe'al ki qismen

  پیارے بچو ! آپ تمام نے پچھلے بلاگ میں فعل کی قسمیں اور ان کی تعریف کیا کیا ہیں ان تمام کے متعلق پڑھا ہوگا۔ اس شمارے سے آپ کو سلسلہ وار فعل کی اقسام کے بارے میں پڑھنے کو ملے گا۔بچو! آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ زما نہ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو گزر چکا ہوتا ہے جیسے آپ پچھلی گرمی کی چھٹی میں گھومنے گئے تھے۔ وہ وقت اور زمانہ گزر گیا جس میں آپ چھٹی پر گئے تھے اس لیے اس زمانے کو ماضی کہتے ہیں۔دوسرا زمانہ وہ ہوتا ہے جو آپ کے سامنے ابھی گزر رہا ہے یا جس حالت میں آپ ابھی ہیں جیسے ابھی آپ نیا کھلونا پڑھ رہے ہیں یا آپ کے استاد آپ کو ابھی پڑھ کر سنارہے ہیں، تو یہ زمانہ حال ہوا۔تیسرا زمانہ وہ ہوتا ہے جس کو آپ نے نہ کیا ہے نہ کیا تھا اور نہ ہی کر ر ہے ہیں ، بلکہ کر یں گے جیسے آپ سفر میں جائیںگے ، کہیں شادی یا رشتہ داری میں جائیںگے تویہ زمانہ مستقبل ہوا۔یعنی : دیکھا یا دیکھا تھا ماضی ، دیکھ رہے ہیں حال ، دیکھیںگے مستقبل۔ فعل کی تینوں قسموں کے جاننے کے بعد ابھی صرف فعل ماضی کے بارے میں جانتے ہیں۔

فعل ماضی : اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کوئی کام گزرے ہوئے زمانے میں ہوا ہو یا ہوا تھا جیسے بچے اسکول چلے گئے یا بچے اسکول گئے تھے۔ فعل ماضی کی چھ قسمیں ہیں۔ماضی مطلق، ماضی ، قریب ، ماضی بعید ، ماضی استمراری ، ماضی شکیہ ، ماضی شرطیہ یا تمنائی 

فعل ماضی مطلق: اس فعل کہتے ہیں جس سے صر ف اس چیز کا پتہ چلے کہ وہ کام گزشتہ زمانے میں ہوا ہے ، گزشتہ زمانے میں کب ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ واضح طور پر سمجھ میں نہ آئے جیسے۔ صبا نے کتاب پڑھی ، ظفر اسکو ل گیا ، امی نے کھانا پکا یا وغیرہ ان مثالوں میں پڑھی ، گیا اور پکا یا ماضی مطلق ہیں۔

ماضی مطلق بنانے کا قاعدہ اس طر ح ہے کہ اس میں مصدر کی جو علامت ’ نا ‘ ہوتی ہے جیسے ’پکا نا ‘ میں ’نا ‘ اس کو ہٹا کر کے اس میں ’ الف‘ یا ’ ی ‘ بڑھانے سے ماضی مطلق بنتا ہے جیسے ’پکانا‘ سے ماضی مطلق ’پکایا ‘ یا ’ پکائی ‘ وغیرہ۔

بچو! اب تک ہم گردان کو نہیں جانتے تھے لیکن اس شمارہ سے ہم گردان بھی سیکھیں گے جس کو انگلش میں Tens کہتے ہیں۔ اردو میں گردان کے چھ صیغے ہوتے ہیں 

(۱ ) واحد غائب : جس میں کسی ایک غائب شخص کے کام کرنے کے بارے میں معلوم ہو مثال کے طور پر آنا مصدر سے ماضی مطلق ہوا ’’ وہ آیا ‘‘ ، ’’ وہ آئی‘‘ وغیرہ

(۲) جمع غائب : جس میں ان لوگوں کے کام کے بارے میں معلوم ہو جو آپ کے سامنے نہیں ہیں ان کی تعداد دو ہو یا دو سے زائد ہو جیسے ’’ وہ آئے ، ’’ وہ آئیں‘‘ وغیرہ

(۳) واحدحاضر: جس میں سامنے موجود ایک شخص کے کا م کرنے کے بارے میں پتہ چلے ، جیسے ’ تو آیا ‘،’ توآئی ‘ ، ’ آپ آئے ‘ ،‘ آپ آئیں‘وغیرہ

(۴)جمع حاضر: جس میں سامنے موجود دو یا دو سے زائد شخص کے کام کے بارے میں معلوم ہو جیسے’ تم سب آئے ‘ ، ’ تم سب آئیں ‘ ، ’ آپ سب آئے ‘ ، ’ آپ سب آئیں ‘وغیرہ

(۵)واحد متکلم : جس میں بو لنے والے ایک شخص کے کام کے بارے میں معلوم ہو ، جیسے ’میں آیا ‘ ، ’ میں آئی ‘۔

(۶) جمع متکلم : جس میں بولنے والے دو یا دو سے زیادہ کے کام کے بارے میں معلوم ہو جیسے ’ ہم آئے ، 

فعل کی تعریف Urdu main fe'al ki tareef

  فعل کی تعریف

Urdu main fe'al ki tareef

فعل : وہ لفظ ہوتا ہے جس سے ہمیں کسی کام کے ہونے یا کر نے کا علم ہوجائے ۔ یعنی اس لفظ سے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ابھی کوئی کام ہورہا ہے یا ہوا ہے ۔جیسے حامد فٹ بال کھیل رہا ہے ، خالدہ سائیکل چلا رہی ہے ، ٹر ین گزر رہی ہے ، شریف نے خط لکھا تھا۔ ان مثالوں میں کھیل ، چلا،گزر ، لکھا فعل ہے، حامد ، خالدہ ، ٹرین، شریف فاعل ہیں کیونکہ فعل ان ہی سب کے ذریعہ ہورہا ہے ۔فٹ بال ، سائیکل اور خط مفعول ہیں کیونکہ جو بھی کام ہورہا ہے وہ ان ہی پر ہو رہا ہے ۔
 ساتھ ہی یہ بھی جان لیں کہ اوپر کے افعال کا مصدر کھیلنا ، جانا ، گزرنا اور لکھنا ہے ۔

فعل مصدر کی پانچ قسمیں ہیں ۔
(۱)فعل معروف (۲)فعل مجہول (۳)فعل لازم (۴)فعل متعدی (۵)فعل ناقص 

فعل معروف : وہ فعل ہوتا ہے جس کے فاعل کا علم ہو (یعنی کام کر نے والا پتہ ہو) جیسے امی آگئیں، بھیا پڑ ھتے ہیں ، ابو سورہے ہیں ۔ان سب مثالوں میں کون آئی ، کو ن پڑھتے ہیں اور کون سورہے ہیں ان کے فاعل کے متعلق پتہ ہے اس لیے اس کو فعل معروف کہتے ہیں ۔

فعل مجہول : اس فعل کو کہتے ہیں جس کے فاعل کا پتہ نہیں ہوتا ہے جیسے کتاب پھٹ گئی ، پانی گر گیا ، گیٹ کھلا ، کھانا پک گیا ۔ ان سب مثالوں میں فعل اور مفعول دونوں موجود ہیں لیکن فاعل کا علم نہیں ہے کہ کس نے کتا ب پھاڑی ، پانی کس نے گرایا ، گیٹ کس نے کھولا اور کھانا کس نے پکایا۔

فعل لازم : اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کا کر نا پا یا جائے مگر اس کا اثر صرف فاعل تک ہی ( یعنی کام کرنے والے تک ہی ) محدود رہے ۔ جیسے امی آرہی ہیں ، بہن روتی ہے ۔گھوڑا دوڑتا ہے ۔ ان تینوں مثالوں میں فعل اور فاعل تو موجود ہیں لیکن مفعول موجود نہیں ہے ۔ امی فاعل ہے اور آرہی ہیں فعل ۔ اسی طریقے سے دیگر مثالیں بھی ۔
فعل متعدی : اس فعل کو کہتے ہیں جس کا اثر فاعل سے گزر کر مفعول تک پہنچے۔جیسے عاکف کتاب پڑھتا ہے ۔ اس مثال میں پڑھنے کا کام عاکف کر رہا ہے اور پڑھنے (فعل ) کا اثر کتاب (مفعول) پر پڑ رہا ہے ۔فعل متعد ی میں فاعل کے ساتھ مفعول کا ہونا ضرور ی ہے ۔ کہیں مفعول ظاہر ہوتا ہے اور کہیں پوشیدہ جیسے اوپر کی مثال میں مفعول( کتاب ) ظاہر ہے اور گلشن نے کھایا میں مفعول پوشیدہ ہے ۔ یعنی کیا کھایا اس کا ذکر نہیں ہے ، گلشن نے کچھ تو کھایا ہوگا وہی کچھ مفعول ہے جو جملے میں پوشیدہ ہے ۔

  فعل ناقص : وہ فعل جو کسی پر اثر نہ ڈالے بلکہ کسی پر کسی اثر ہونے کو ثابت کر ے جیسے ایوب بیمار ہے ۔اس مثال میں ایو ب فاعل تو ہے لیکن کسی کام کو کر نے والانہیں ہے بلکہ کام کو سہنے والا ہے یعنی بیماری کو سہنے والا ہے ۔ بیمار ی کا اثر ایوب پر پڑ رہا ہے ۔اسی طر یقے سے راجو چور ہے ، پروین چالاک ہے ، نو کر گندا ہے ، ملا زمہ کاہل ہے وغیرہ 

مصدر 
اوپر کی سطر وں میں ایک جملہ لکھا گیا ہے کہ ، کھانا ، آنا ، کھیلنا وغیرہ مصدر ہیں ۔ لیکن مصدر کہتے ہیں کس کو؟ یہ اب جانیے ۔ جس طر ح سے کمہار ایک مٹی کے ٹکڑے سے کئی بر تن بناتا ہے۔ کبھی دیا ، کبھی ہانڈ ی ،کبھی گھڑا تو کبھی چھوٹا سا پیا لہ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طریقے سے ایک لفظ کھانا ہے۔ یہ مصدر ہے اس سے ہم کھا ، کھا ؤ ، کھا ئیں ، کھایا ، کھاتا ہے ، کھاتے ہیں، کھائے گا ، کھاؤ گے ، کھا ئی وغیرہ بناتے ہیں ۔

واحد اور جمع Urdu main Wahid aur Jama

   واحد اور جمع 

Urdu main Wahid aur Jama
اسم واحد سے صرف ایک شخص یا ایک ہی چیز مراد ہوتی ہے ۔ جیسے بیٹا ، بھائی ، کاپی ، کرسی وغیرہ 
اسم جمع سے دو یا دو سے زائد افراد اور چیز وں کو سمجھا جاتا ہے جیسے ۔ بیٹا سے جمع بیٹے ، بہن سے بہنیں ، کا پی سے کاپیاں، کرسی سے کرسیاں وغیر۔

( نوٹ کے طور پر یہ بات بھی واضح ہونی چا ہیے کہ واحد کے ساتھ واحد فعل اور جمع کے ساتھ جمع فعل آتا ہے جیسے بیٹا آیا ، بہنیں آئیں) اس کے ساتھ یہ بھی جان لیں کہ جن واحد مذکر الفاظ کے آخرمیں ’ الف ‘ یا ’ ہ ‘ نہیں ہے تو ان کی جمع بھی اسی صورت میں آتی ہے جیسے بھائی آ یا ، بھائی آئے، گھر بن گیا ، گھر بن گھر بن گئے ، بستر بچھ گیا ، بستر بچھ گئے  وغیرہ ۔

اسم جمع ان الفاظ کو کہتے ہیں جو ظاہر ی طور واحد ہی نظر آتے ہیں لیکن معنوی طور پر وہ جمع ہوتے ہیں جیسے ، فوج ، کنبہ ، ہجوم ، جماعت ، ریوڑ، بزم ، انجمن، مجمع، گرو ہ اور ٹیم وغیرہ ۔ یہ تمام اسم جمع ہمیشہ فعل واحد کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔جیسے فوج آئی ، کنبہ بکھر گیا ، ہجوم بڑھتا چلا گیا ، جماعت آرہی ہے ۔ رویوڑ آرہا ہے وغیرہ ۔

کچھ ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو واحد اور جمع میں نہیں بدلے جاتے جیسے ۔ابا ، امی ، تا یا ، دادا ، دادی ، نا نا ، نانی ، چچا ، دودھ پانی اور تیل وغیرہ۔ 
فارسی کے اسم فاعل بھی واحد ہی استعمال ہوتے ہیں ان کا جمع نہیں ہوتا ہے جیسے ۔دانا ، بینا ،آشنا ، شناسا وغیرہ ۔
واحد سے جمع بنا نے کے قاعدے 

 (۱) جس اسم کے آخر میں ’الف ‘یا’ ہ ‘ آئے تو جمع بناتے وقت الف اور ہ کو یا ئے مجہول ( ے ) سے بد ل دیتے ہیں جیسے ۔ کپڑا سے کپڑے ، تا نگہ سے تا نگے ۔گدھا سے گدھے ، رتبہ سے رتبے وغیرہ ۔ان تمام کے علاوہ بھی کچھ ایسے اسم آپ کو پڑھنے کو ملیں گے جس کے آخر میں الف ہوگا لیکن اس کی جمع ’ئیں ‘ کے اضافہ کے ساتھ بنا تے ہیں جیسے ہوا سے ہوائیں ، گھٹا سے گھٹا ئیں ، سبھا سے سبھائیں ، تمنا سے تمنا ئیں وغیر ہ۔  

(۲) جس اسم مؤنث کے آخر میں ی  ہوتو ’ الف اور نون غنہ ‘ بڑھا کر اس کی جمع بنا تے ہیں جیسے لڑکی سے لڑکیا ں ، روٹی سے روٹیاں ، کھڑکی سے کھڑ کیاں ، چابی سے چا بیاں ، بیٹی سے بیٹا ں ، سبزی سے سبزیاں ، کرسی سے کر سیاں ، جو تی  سے جوتیاں ، تتلی  سے تتلیاں اور چوڑی  سے چو ڑیاں وغیرہ ۔

(۳) جس اسم کے آخر میں ’ یا ‘ آئے تو اس کے آگے نون غنہ (ں ) کا اضافہ کر کے جمع بنا تے ہیں ۔جیسے : چڑیا سے چڑیاں ، گڑیا سے گڑیاں ، پڑیا سے پڑیاں وغیرہ ۔

(۴) کچھ اسم مؤنث ایسے ہوتے ہیں کہ جمع بنا نے کے لیے ان کے آخرمیں ’ یں ‘ کا اضافہ کر تے ہیں۔ جیسے چادر سے چادریں ، تصویر سے تصویریں ،  دوات سے دواتیں ، ملاقات سے ملاقاتیں محبت سے محبتیں وغیرہ ۔
یہ تو معلو م ہی ہوگا کہ اردو میں بے شمار الفاظ عربی اور فارسی سے آئے ہیں لہذا ان کے جمع جو عربی اور فارسی میں استعمال ہوتے ہیں وہی اردو میں بھی استعمال ہو تے ہیں ۔جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں ۔
اثر 
آثا ر

آفت 
آفات 

افق 
آفاق 

ادب 
آداب 

کتاب
کتب 

استاذ 
اساتذہ 

تصویر
تصاویر 

تکلیف 
تکالیف

احسان 
احسانات

رسم 
رسوم

حکم 
احکام

حادثہ 
حادثات 

آیت 
آیات 

تاجر 
تاجرین 

خدمت 
خدمات

روایت 
روایات 

واضح رہے کہ ان میں سے بھی بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کا جمع اردو کے مطابق بھی استعمال کر تے ہیں ۔  ان تمام کے علاوہ بھی آپ بہت سے الفاظ ایسے دیکھیں گہ کہ ان کے جمع بنانے کاقاعدہ ان تمام سے مختلف ہے ۔ اس کا تعلق عوامی استعمال سے ہوتا ہے ۔آپ جتنا زیادہ مطالعہ کر یں گے اتنا ہی آپ کو اس متعلق زیادہ علم ہوگا ۔

اسم تصغیر و اسم تکبیر ‏Ism e tasgheer wo Ism e takbeer

اسم تصغیر و اسم تکبیر


Ism e tasheer wo Ism e takbeer

   اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی اسم کے چھوٹا پن کے حساب سے یا اس کو چھو ٹا دکھا نے کے لیے اس اسم میں کچھ ردو بدل کر دیتے ہیں جس سے اس کے معنی میں چھوٹا پن آجاتا ہے اس کو اسم تصغیر کہتے ہیں ۔جیسے کھاٹ(چارپائی ) سے کھٹولہ (چھوٹی چارپائی ) 

کبھی تصغیر محبت کے لیے بنا تے ہیں جیسے بیٹی سے بٹیا اور بابو سے ببوا وغیرہ 
کبھی طنز اور حقا رت کے لیے بھی تصغیر بنا تے ہیں جیسے مر د سے مردوا ، چاچی سے چچیا اور روپیہ سے روپلی ، آٹھ آنہ سے اٹھنی ، چار آنہ سے چونی وغیرہ ۔
اردو میں اسما کی تصغیر کئی طر ح سے بنتی ہے ۔
لفظ اسم کے آخر میں الف اور واو بڑھا دینے سے جیسے چھو ٹو سے چھوٹوا اور موٹوسے موٹوا وغیرہ 
بعض اوقات ’ ی ‘ سے بدلنے سے جیسے شیشہ سے شیشی ، جھونپڑا سے جھونپڑی ۔ اس حالت میں لفظ مذکر سے مؤنث میں بھی بدل جاتا ہے ۔
فارسی الفاظ میں بھی اسم تصغیر بنانے کا کوئی ایک قاعدہ نہیں ہے بلکہ اردو کی طر ح اس میں بھی کئی طر ح سے تصغیر بنا ئے جاتے ہیں ، جیسے کتاب سے کتابچہ ، باغ سے باغیچہ ، مر د سے مردک اور مَشک سے مشکیزہ وغیرہ 
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کسی چیزکو چھوٹا بتانے خواہ باعتبار سائز ہو یا باعتبار قدر و منزلت اس کے لیے تصغیر بناتے ہیں اسی طر یقے سے تصغیر کی ہی ضد تکبیر ہوتی ہے جس میں کسی چیز کو بڑابنا کر دکھایا جا تا ہے 
مطلقا ً اسم سے اسم تکبیر بنا نے کے بھی عجیب عجیب طر یقے ہیں جیسے بوٹی اگر بڑی ہوجا ئے تو کہتے ہیں کہ بوٹی ہے یا بو ٹا؟ ، اٹیچی سے اٹیچا ،ڈولی سے ڈولا ، بالٹی سے بالٹا وغیرہ۔ 
کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ اسکو ہم اسم تصغیر نہیں کہتے یانہیں سمجھتے بلکہ مطلقاً اسم ہی جانتے ہیں ۔لیکن اسی میں کوئی حر ف تبدیل کرکے اس کے سائز میں بڑا معنی پیدا کرنے کے لیے اس کو اسم تکبیر بناتے ہیں۔ جیسے ، کھونٹی اس کو ہم نہ کھونٹ کی اسم تصغیر کہہ سکتے ہیں اور نا ہی کھونٹا کی ۔ لیکن جب ہم اس کی اسم تکبیر بناتے ہیں تو اس کے لیے کھونٹا بو لتے ہیں جیسے ہم نے کسی سے کہاکہ بکر ی باندھنے کے لیے کھونٹی گاڑ دو لیکن اس نے اس کی جگہ میں کچھ بڑ ے سائز کی کھو نٹی کھیت میں گاڑ دی تو مذاق میں کہتے ہیں کہ کھونٹی ہے کہ کھونٹا اسی طریقے سے  آپ اپنی آس پاس کی زبا ن اور بھاشا سے سمجھ سکتے ہیں کہ اسم تصغیر کے لیے کیا استعمال کر تے ہیں اور اسم تکبیرکے لیے کیا۔

Thursday 30 April 2020

باعتبار حال اسم کے اقسام

حالت کے لحاظ سے اسم کی اقسام 

کسی جملے میں اسم یا قائم مقام اسم کے طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی حیثیت کو ’حالت ‘ کہتے ہیں جیسے احمد خط لکھتا ہے ، احمد قلم سے لکھتا ہے۔ پہلے جملے میں لکھنے کا کام احمد کر رہا ہے اور دوسرے جملے میں قلم سے کام کر نے کی حالت کو ظاہر کیا جا رہا ہے ۔اسی طر یقے سے ہر جملے میں اسم کا استعمال مختلف حالتوں میں ہوتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

حالت فاعلی یہ اسم کی وہ حالت ہے جس سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ اسم کسی کام کو کر نے والا ہے یا وہ کسی خاص حالت میں ہے ۔ جیسے احمد شہر گیا ، ذکیہ نے کھانا کھایا ، بلال نے قرآن پڑھا ۔ ان تینوں مثالوں میں احمد ، ذکیہ اور بلال کی جو حالت ہے وہ فاعل کی حالت ہے ۔شہر جانے کا کام احمد کر رہا ہے ، کھانا کھانے کا عمل ذکیہ کر رہی ہے ۔قرآن پڑھنا ایک کام ہے جس کو بلال کر رہا ہے ۔گویا کام کرنے والے کوفاعل کہتے ہیں اور جو اسم فاعل کے مقام پر ہوتا ہے وہ حالت فاعلی میں ہوتا ہے۔حالت فاعلی میں اسم کے ساتھ کہیں’نے ‘ لگتا ہے اور کہیں ’نے ‘ نہیں لگتا جیسے احمد نے کھانا کھایا ، احمد قرآن پڑھتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

حالت مفعولی جس اسم پر کام کرنے والے کا اثر پڑے وہ اسم حالت مفعولی میں ہوتا ہے جیسے شاذیہ کتاب پڑھتی ہے ، امی کھانا پکاتی ہیں، ابو گاڑی چلاتے ہیں ۔پہلی مثال میں شاذیہ ،کتاب اور پڑھتی تین لفظ ہیں جن میں سے شروع کے دو اسم ہیں اور پڑھتی فعل ہے۔شاذیہ فاعل ہے کیونکہ پڑھنے والی شاذیہ ہے ، پڑھنا فعل ہے اور جو چیز پڑھی جارہی ہے وہ مفعول (کتا ب) ہے ۔یہاں پر کتاب حالت مفعولی میں ہے ۔ اسی طریقے سے دیگر مثالوں میں کھانا اور گاڑی حالت مفعولی میں ہیں ۔

جو اسم مفعولی حالت میں ہوتا ہے اس کے ساتھ کبھی ’کو‘ آتا ہے جیسے پولیس چو ر کو پیٹی ہے اور کبھی’ سے‘ آتا ہے جیسے غفران چھت سے گرا ۔ کبھی ان دونوں لفظوں میں سے کچھ بھی نہیں آتا جیسے امی کپڑے دھوتی ہیں ، آپی سبزی پکا تی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

حالت اضافی جب کسی اسم یا ضمیر کو دوسرے اسم سے نسبت دی جائے یعنی ایک اسم کا تعلق دوسرے اسم سے ظاہر کیا جائے تو اسے حالت اضافی کہتے ہیں جیسے خالد کی کتاب ، ابو کا چشمہ ، بو تل کا پانی وغیر ہ ۔ ان مثالوں میں کتاب ، چشمہ اور پانی کا تعلق خالد ، ابو اور بوتل کی جانب کیا جارہا ہے اس لیے یہ سب اسما ء ان مثالو ں میں حالت اضافی میں ہیں ۔ (کتا ب، چشمہ اور پانی مضاف ہیں ، خالد ، ابو اور بوتل مضاف الیہ ہیں ، کی اور کا حر وف اضافت ہیں)
حروف اضافت واحد مذکر میں ’ کا ‘ جمع مذکر میں ’ کے‘ اور واحد اور جمع مؤنث میں ’ کی ‘ آتے ہیں ۔
احمد کا کپڑا ( واحد مذکر ) احمد کے کپڑے (جمع مذکر )
خالد کی مر غی (واحد مؤنث) خالد کی مر غیاں (جمع مؤنث) 

حالت ظر فی جب کسی اسم سے زمان یا مکان یعنی وقت یا جگہ کا مفہوم پایا جائے تو وہ ظرفی حالت میں ہوتا ہے جیسے حامد گھر میں ہے ، فر زانہ اسکو ل میں ہے ، ابو صبح جلدی اٹھے ۔ان سب مثالوں میں گھر ، اسکول اور صبح ظرف ہیں ۔ 
یہ بھی آپ جان لیں کہ ظر ف کی دو قسمیں ہیں ظر ف زمان اور ظرف مکان۔ 

ظر ف زمان سے وہ اسم مر اد ہوتا ہے جس سے وقت کا پتہ چلے جیسے اوپر کی مثال میں صبح ظرف زمان ہے ، اسی طر یقے سے ظہر کے وقت اسکو ل کی چھٹی ہوتی ہے ، عصر بعد ہم سب کھیلتے ہیں ، بارش کے وقت گھر پہنچے ، آندھی کے وقت بجلی چلی گئی وغیرہ غیرہ ۔ ان سب میں ظہر ،عصر، بارش کے وقت ، آندھی کے وقت ظرف زمان ہیں ۔

ظر ف مکان سے وہ اسم مر اد ہوتا ہے جس سے کسی جگہ کے بارے میں پتہ چلتا ہے جیسے چھت پر کپڑے ہیں، کھانا فریج میں ہے ، لوگ ہال میں جمع ہیں ۔ ان تمام میں چھت ، فریج اور ہال ظرف مکان ہیں۔

 ظرفی حالت میں اسما کے ساتھ ’ سے ، تک ، پر ، میں ، اوپر ،نیچے ، تلے ، اندر ، اندر سے اور کو‘آتے ہیں ۔
مثالیں : صبح سے بیٹھا رہا، شا م تک گھر واپس آگیا ، چھت پر ٹہل رہا ہوں ، فر یج میں دیکھ لو، بکس کے اوپر ، چھت کے نیچے ، آدمیوں کی بھیڑ تلے دبا رہا ، نالی کے اندر کچھ ہے، بیڈکے اندر سے یہ سامان نکلا ، کلکتہ سے نکلا لکھنؤ کو گیاوغیرہ ۔ بعض اوقات کوئی حرف نہیں ہوتا ہے جیسے وہ صبح آیا ۔

طوری حالت 
جب کسی اسم سے طور ،طریقے ، اسلوب ، سبب ، ذریعہ اور مقابلہ جیسی کیفیت معلوم ہو تو وہ اسم حالتِ طوری میں ہوتا ہے جیسے وہ گیند سے کھیلتا ہے ، اس کی لاٹھی اور ڈنڈوں سے پٹا ئی ہوئی ، ابو اسکو ٹر سے بازا ر گئے ، اس نے ترقی علم سے حاصل کی وغیرہ وغیرہ ۔ان مثالوں میں گیند، لاٹھی ڈنڈے ، اسکوٹر اور علم سب اسم ہیں لیکن جملے میں جس طر ح استعمال ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب اسم طوری حالت میں ہیں ۔

ندائی حالت 
جب اسم کسی کو بلانے یاپکارنے کے لیے مخاطب کے طو ر پر استعمال ہو جیسے بھائی! ذرا سننا ، امی !کچھ کھانا ہے ۔ لڑکے! یہاں آؤ،بچو! شور نہ کر و، صاحبو! غور سے سنووغیرہ ۔مذکورہ بالا مثالوں میں امی ، بھائی ، لڑکے ،بچو اور صاحبوندائی حالت میں اسم ہیں ۔

ندائی حالت میں واحد مذکر اسم کے آخر میں ’الف ‘یا ’ہ‘ ہو تو وہ حالت ندائی میں ’ے ‘ سے بدل جاتا ہے جیسے واحد مذکر میں لڑکا جس کے آخر میں الف ہے حالت ندائی میں اس طر ح ہوگا لڑکے !شور نہ کر و،رشتے داروں کو پکارنے میں کسی قسم کی تبدیلی نظرنہیں آتی جیسے امی ، ابو ، ماما، مامی ، خالہ اور خالو وغیرہ ۔ لیکن بیٹا دو نوں طر ح استعمال ہوتا ہے جیسے بیٹا! کھانا کھالو، بیٹے !ادھر آؤ۔ جمع میں آخر کا نون گر جاتا ہے جیسے بچوں سے بچو !شور نہ کرو ۔ لڑکیو! سبق یا دکر ووغیرہ۔

خبر ی حالت 
وہ اسم جو جملہ میں بطور خبر کے واقع ہو جیسے احمد بیمار ہے ، عبد الغفور صاحب پرنسپل ہیں ، عبدالرحمان صاحب ہیڈ ماسٹر ہیں وغیرہ ان جملوں میں بیمار، پر نسپل اور ہیڈ ماسٹر حالت خبری میں ہیں

مذکر و مؤنث muzakkar muannas


 لواز م اسم 

(مذکر و مؤنث )


 اسم خواہ کسی بھی قسم کا ہو اس کے اندر چند خصوصیتیں لازمی طور پر پائی جاتی ہیں ۔اول یہ کہ وہ مذکر ہوگا یا مؤنث ، دو م یہ کہ وہ واحد ہوگا یا جمع اور سوم یہ کہ وہ اسم کام کرنے والا ہوگا یا کام کا اثر اس اسم پر ہوگا ۔ پہلے کو جنس دوسرے کو تعداد اور تیسرے کو حالت کہتے ہیں۔ 

جب کوئی کلمہ اسم ہوگا تو لازمی طور پر وہ مذکرہوگا یا مونث ( اسی کو عام زبان میں نَر اور مادہ کہتے ہیں ) اس کلمہ کو اسم جنس کہتے ہیں. پھر اسم جنس کی دو قسمیں ہیں حقیقی اورغیر حقیقی۔ جاندار چیزیں جو یا تو نر ہوتی ہیں یا مادہ تو اس کوجنس حقیقی کہتے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں ہم آسانی سے جان جاتے ہیں کہ یہ نر ہے یا مادہ ۔ 

مذکر حقیقی۔ باپ ، دادا ، بھائی ،چچا ، ماما ، نا نا، کتا ، گدھا ، شیر ، بند ر اور مور وغیرہ ہیں ۔
 مونث حقیقی جیسے ماں ، دادی ، بہن ،چچی ، ممانی، نانی، کتیا ، گدھی ، شیر نی، بندریا اور مورنی وغیرہ ۔ 
مذکر غیر حقیقی وہ اسم ہوتے ہیں جس میں مذکر ہونے کی بظاہر کوئی علامت نہ ہو لیکن وہ مذ کر ہوتا ہے جیسے جہاز ، آسمان ، بادل، پانی وغیرہ ،اسی طریقے سے مؤنث غیر حقیقی جس. میں بظاہر مادہ ہونے کی کوئی علامت نہ ہو لیکن جب ہم بو لتے ہیں تو مؤنث ہی بولتے ہیں جیسے کتا ب ، کاپی، پینسل ، ٹوپی ،گاڑی اور ٹرین وغیرہ ۔
کچھ چیز یں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے گروپ کے اعتبار سے مذکر ہوتی ہیں یا مؤنث 
مذکر 
٭ پیشہ وروں کے نام جیسے استاد ، ڈرائیور ، درزی ، دھوبی ،مالی اور موچی وغیرہ 
٭ پہاڑوں کے نام ، ہمالہ ، پارسناتھ ، اراولی۔
٭ دھاتوں کے نام جیسے لوہا، المونیم ، تانبہ ، کانسہ۔ 
٭ جواہرات کے نام جیسے سونا ، چاندی ، ہیرا۔ 
٭ دنوں کے نام ، ہندی ، انگلش میں تمام دن اور اردو میںبھی تمام دن مذکر ہوتے ہیں(جمعرات کے علاوہ ) ۔
٭ ہندی اور اسلامی مہینوں کے نام۔ 

٭ کچھ ایسے اسم ہیں جن کا مونث حقیقی (حقیقی مادہ ) موجود ہے لیکن پھر بھی مذکر ہی استعمال ہوتے ہیں جیسے الو، طوطا ، باز ، چیتا ، تیندوا، ٭ بچھو وغیرہ۔ ان سب کا مونث حقیقی استعمال نہیں ہوتا ہے ۔
 ان تمام کے علاوہ ہزاروں لفظ ہیں جو مذکر ہوتے ہیں ۔ ان سب کا تعلق استعمال سے ہے ۔

مؤنث 
٭ دنیا میں جتنی بھی زبانوں کے نام ہیں سب کے سب مؤنث ہوتی ہیں جیسے اردو ، عربی ، فارسی ، تر کی ، ہندی ، بنگالی، مر اٹھی وغیرہ 
٭ عبادتوں کے نام ، نماز ، پوجا ، دعا ۔
٭ تمام نمازوں کے نام ، فجر ، ظہر ، عصر مغرب ، عشا، تہجد، اشراق ، چاشت ، اوابین ، جنازہ ، عیدین ۔
٭ جس لفظ کے آخر میں ’ت‘ ہو جیسے عداوت ، مصلحت، محبت ، نفرت ، عنایت ، شوکت ندامت وغیرہ یہ سب عربی کے لفظ ہیںاگر کوئی لفظ ٭ ہندی کا ہو جس کے آخرمیں ’ ت‘ ہوتو وہ مذکر بھی ہوسکتا ہے جیسے بھگت، بھارت، بھوت وغیرہ ۔
٭ کچھ چھوٹے چھوٹے جاندار ایسے ہوتے ہیں جن کا استعمال صر ف مونث ہی ہوتا ہے ۔ جیسے مکھی ، چھپکلی، مکڑی ، چھچھوندر وغیرہ ۔ 
٭ تما م ہواؤں کے نام مونث ہوتے ہیں ۔
٭ ہندی کے بہت سارے الفاظ جن کے آخر میں ’ی ‘ ہوتی ہے وہ مونث ہوتے ہیں جیسے سبزی، لکڑی، کوٹھی، تالی، روٹی ، چابی، ہڈی وغیرہ اس کے علاوہ بھی ہزاروں لفظ ہیں جو صرف مونث ہی استعمال ہوتے ہیں ۔

مذکر سے مؤنث بنانے کا قاعدہ 
پیارے بچو! اب آپ جاننا چاہیں گے کہ مذکر سے مونث بنا نے کا قاعدہ کیا ہے ۔ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مذکرسے مونث بنانے کاکوئی مستقل قاعدہ نہیں ہے لفظ کے حساب سے قاعدے بدلتے رہتے ہیں جیسے اگر لفظ کے آخرمیں الف یا ہ ہے تو ی سے بد ل دیتے ہیں جیسے اندھا سے اندھی ، بیٹا سے بیٹی ، چچا سے چچی وغیرہ 
مذکر لفظ کے آخر میں ن کا اضافہ کرنے سے بھی مؤنث بنتا ہے جیسے ناگ سے ناگن ۔
مذکر لفظ کے آخر میں ’نی‘ کا اضافہ کرنے سے بھی مؤنث بنتا ہے جیسے فقیر سے فقیر نی ، اونٹ سے اونٹنی ۔
الغر ض اس کا کوئی خاص قاعدہ نہیں ہے بلکہ استعمال پر ہے کہ عوام اس لفظ کا مونث کیسے استعمال کر تے ہیں ۔
#گرامر
#مذکر
#مؤنث

Thursday 23 April 2020

اسم ضمیر اور اس کی قسمیں

اسم ضمیر


 اسم ضمیروہ الفاظ ہوتے ہیںجو اسم کے مقام پر استعمال ہوتے ہیں جیسے ’ وہ ، میں ، اس ، مجھ اور تجھ ‘ وغیرہ ۔ اس شمارہ میں ہم اسم ضمیر کے 
تمام اقسام سے واقف ہوں گے ۔ 

اسم ضمیر کی پانچ قسمیں ہیں ۔
 ضمیر شخصی ، ضمیر اشارہ ، ضمیر موصولہ ، ضمیراستفہامیہ اور ضمیر تنکیر ۔

ضمیر شخصی: وہ ضمیر ہے جو صرف اشخاص کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ ہم بات کر تے وقت اکثر نام نہ لیکر وہ، میں اور تو یا تم استعمال کرتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ مذکورہ لفظ صر ف انسانوں کے لیے ہی استعمال کر تے ہیں اسی لیے اس کو ضمیر شخصی کہتے ہیں ۔اس کی تین صورتیں ہیں ۔ 

پہلا: بات کر نے والاجسے متکلم کہتے ہیں ۔اس کے لیے میں اور ہم جیسے الفاظ استعمال کر تے ہیں ۔ متکلم کے ضمائر ’ میں ، ہم ، مجھے ، مجھکو ، ہمیں ہمکو، میرا ، ہمارا ، مجھ میں ،ہم میں ، مجھ سے اور ہم سے‘ ہیں 

دوسرا : جس سے بات کی جاتی ہے اسے مخاطب کہتے ہیں اس کے لیے تو اور تم جیسے الفاظ استعمال کر تے ہیں ۔ مخاطب کے ضمائر ’ تو ، تم ، تجھے ، تجھ کو ، تمہیں ، تم کو، تیرا ، تمہارا ، تجھ میں ، تم میں ، تجھ سے اور ہم سے ‘ ہیں ۔

تیسرا : جس کے بارے میں بات کی جاتی ہے اسے غائب کہتے ہیں ۔اس کے لیے وہ اور ان جیسے لفظ استعمال کر تے ہیں ۔ غائب کے ضمائر ’ وہ ، اسے ، اس کو ، ان ، انہیں ، اس کا ، ان کا ، اس میں ، ان میں، اس سے اور ان سے ‘ہیں ۔

ضمیر اشارہ :  عموما ًگفتگو میں کسی چیز کی جانب خواہ وہ نزدیک ہو یا دور اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے اس کو ضمیر اشارہ کہتے ہیں۔ مثلا یہ قلم وہ کتاب وغیرہ ۔ ایسا اور جیسا جیسے لفظ بھی ضمیر اشارہ کے دائرے میں آتے ہیں ۔

ضمیر موصولہ :  وہ لفظ جو کسی اسم کے بجائے استعمال کیا جائے ، مگر اس کے ساتھ ہمیشہ ایک جملہ آتا ہے جس میں اس اسم کا بیان ہوتا ہے جیسے وہ آدمی جو آیا تھا وہ پھر کل آئے گا ۔وہ کہانی جو فاطمہ نے لکھی تھی بہت اچھی تھی ۔ ان دونوں مثالوں میں ایک لفظ ’ جو ‘ استعمال ہواہے ۔ یہی ضمیر موصولہ ہے ۔ضمیر موصولہ ’ جو ‘ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں ہوتا ۔
ضمیر استفہامیہ : جو ضمیر سوال کر نے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اسے ضمیر استفہامیہ کہتے ہیں ۔یہ صر ف دو لفظ ’ کو ن اور کیا ‘ ہیں ۔ کون کا استعمال جاندار کے لیے اور کیا کا استعمال بے جان چیزوں کے لیے ہوتا ہے ۔ جیسے دروازے پر کون ہے ، تم کیا بننا چاہتے ہو وغیرہ ۔ 

ضمیر تنکیر : وہ ضمیر جو کسی غیر معین چیز یا شخص کے لیے استعمال ہو۔ جیسے مصیبت میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے ۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ، کوئی نہیں بولتا ۔ کچھ نہ کہو وغیرہ ۔ان مثالوں میں کوئی اور کچھ صفت تنکیر ی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ کوئی اشخاص اور اشیا دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔جیسے کوئی نہیں ہے ۔ کوئی کچھ بھی بولتا ہے ، تم کون سی کتاب لوگے ، کوئی سی بھی دے دو ۔

کچھ اشخاص کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن ہمیشہ جمع کی حالت میں جیسے وہاں کچھ لوگ کھڑے تھے تو کچھ بیٹھے تھے ۔ اگر کوئی کے بعد ’ کے ، کی ، سے یا نے ‘ جیسے لفظ آ جائیں تو کوئی کسی سے بدل جاتا ہے جیسے کسی کے آنے کی آہٹ ہے ، کسی کی آواز آرہی ہے ، کس سے لیا، کس نے بلا یا ہے۔


 #ضمیرشخصی
#ضمیراشارہ
#ضمیرموصولہ
#ضمیراستفہامیہ
#ضمیرتنکیر 

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...