Monday 5 February 2024

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘





 نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

   

شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد اگر وہ دہلی میں ہے اور اسے خبر مل جائے کہ اردو اکادمی ،دہلی کا مشہور و معروف خالص ادبی جشن ’’ نئے پرانے چراغ ‘‘ منعقد ہونے والا ہے تور یسرچ اسکالرس ، فکشن نگار اور شعرا کے چہروں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ اس مرتبہ بھی دیکھنے کو ملا ، دوست احباب کے فون آنے شروع ہوگئے کہ ’’ نئے پرانے چراغ ‘‘ منعقد ہونے والا ہے دیکھتے ہیں اس مرتبہ اردو ادب کا سفرکیسا رہتا ہے ۔ ساتھ ہی پروگرام کا مقام اردو اکادمی دہلی سے دور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونا بھی سبھی کے لئے باعث مسرت تھا ساتھ ہی اکادمی کے کارکنا ن کے لیے ایک امتحان سے کم نہ تھا ،لیکن سبھی کمر بستہ تھے ۔ 

جوان اور بزر گ قلمکاروں کے اس ادبی اجتماع کا اشتہاراخبار میں شائع ہوتا ہے ساتھ ہی نظام الاوقات بھی سوشل میں پوسٹ ہونا شروع ہوجاتا ہے، جنہیں پرو گرام میں حصہ لینا تھا انہیں سوشل میڈیا میں ہی مبارکبادیاں ملنا شروع ہوگئیں ۔ جنہیں مقالہ پڑھنا تھا وہ تیاری میں لگ گئے ، افسانہ نگار نئے افسانے کی تخلیق میں جٹ گئے اور شعرا کے ذہن میں یہ چلنے لگا کہ وہ اپنی کون سی غزل پیش کریںگے ۔ 

  نئے پرانے چراغ کے افتتاح یعنی 18 دسمبر کا دن آپہنچا ۔ ان پانچ دنوں میں کل چودہ اجلاس منعقد ہونے ہیں ، جن میں تقریبا ً چار سو پچھتر شعرا و ادبا حصہ لے رہے ہیں۔ دوپہر بعد تین بجے جوان اور برز رگ قلمکاروں کے اجتماع کا افتتاحی اجلاس منعقد ہونا ہے جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم کے دائیں جانب کی بلڈنگ میں تھا ، یعنی اگر آپ نو تعمیر صدی گیٹ سے داخل ہوتے ہیں تو انصاری آڈیٹور یم سے جیسے ہی آگے بڑھیں گے تو دائیں جانب ایک تین منزلہ سفید عمارت نظر آئے گی جو بڑے بڑے درختوں سے بھی ڈھکی ہوئی ہے وہ عمارت فخر الدین ٹی خوراکی والا کے نام سے بھی موسوم ہے اسی میں سینٹر فار انفارمیشن ٹکنا لوجی ہے جسے مخفف میں سی آئی ٹی کہا جاتا ہے ۔ ابھی تین بجنے میں کچھ وقت باقی تھا اردو اکادمی کے کارکنا ن تنظیم و ترتیب میں لگے ہوئے تھے ۔ عمارت کے باہر ہی میں بھی کھڑا تھا کہ ایک کار آکر عمارت کے سامنے رکتی ہے، تو دیکھتا ہوں کہ اس کار سے پروفیسر عبدالحق صاحب اتر رہے ہیں ۔ اتر تے ہی ان کی زبان سے نکلتا ہے کہ اتنا اندر اور دور آپ لوگوں نے کیسے پروگرام رکھا ؟ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ اردو پروگراموں کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ۔ سر دی کی مناسب سے رنگین کرتا پاجامہ اور گرم کپڑے کے ساتھ گر م جوتے بھی زیب تن کیے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے عصا کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے سمینار روم کی جانب چلے جاتے ہیں اور مقررین و سامعین میں سے یہ پہلے فرد ہوتے ہیں جو وقت سے پہلے ہی تشر یف لاتے ہیں۔ بشری ضرورتوںسے فارغ ہوکرسمینار ہال میں بیٹھتے ہیں کہ دیگر مہمانان کی آمد شروع ہوجاتی ہے اور پندرہ منٹ کے اندر اندر کثیر تعداد جمع ہوجاتی ہے۔ دائیں بائیں سے آواز بھی آنے لگتی ہے کہ پروگرام کب شروع ہوگا ۔ انتظامیہ کہتی ہے کہ بس پانچ میںمنٹ میں آپ سبھی کو چائے پیش کردوں پھر پروگرام شروع کرتے ہیں ۔ مہمان آچکے تھے ، سامعین سے ہال بھرچکا تھا کہ سبھی کو عمارت سے باہر شامیانہ میں بلا یا جاتا ہے جہاں سبھی کے لیے چائے کے ساتھ ناشتہ بھی پیش کیا جارہا تھا ۔ طلبہ اور اساتذہ ، بزرگ اور جواں قلمکار خوش گپیوں میں مصروف ہوکر چائے کا مزا لیتے ہیں اور پھر سمینار ہال کی جانب لوٹ جاتے ہیں ۔ اسٹیج پر تر تیب سے پانچ کرسیاں لگی ہوئی تھیں ٹیبل کے سامنے رنگ برنگ پھولوں کے پودے تین قطار میں منظم طریقے سے سجائے گئے تھے ۔ ساڑھے تین بج چکا تھا کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر خالد مبشر استاد شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ کو سپرد کی جاتی ہے ۔ہال میں لوگ باتیں کرنا بند کرچکے تھے کہ ناظم کی صدا بلند ہوتی ہے کہ وہ رسمی کلمات کے بعد صدر اجلاس پروفیسر عبدالحق کو دعوت اسٹیج دیتے ہیں ۔ اس کے بعد مہمانان خصوصی ، پرو فیسر خالد محمود ، پروفیسر شہپر رسول اور مہمان اعزازی پروفیسر چندر دیو یادو سنگھ صدر شعبہ ہندی جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ناظم صاحب ایک مختصر سی گفتگو سامعین کو مخاطب کر تے ہوئے کرتے ہیں جس میں نئے پرانے چراغ کی اہمیت کو خصوصی طور پر پیش کرتے ہیں اور ستائیس سالہ اس سفر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ناظم صاحب سب سے پہلے دعوت سخن دیتے ہیں پروفیسر چندر دیوسنگھ کو ۔ ان کی گفتگو اردو ہندی کی لسانی ماخذ سے شروع تو ہوتی ہے ساتھ ہی ان کے اسلوب گفتار میں اردو ہندی کی مشترکہ لفظیات سامعین کو ہمہ تن متوجہ ہونے کو مجبور کر دیا تھا جس میں وہ تحقیقی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھا جائے تو بھارت میں دو ہی اوریجنل شاعری ہے رامائن اور مہا بھارت ، بعد کے لوگوں نے انہی سے متاثر ہوکر لکھا ہے اور نئے چراغ ہمیشہ اسی میں بدلاؤ لاتے رہتے ہیں ۔پروفیسر چندر دیو سنگھ اپنی مختصر اور جامع گفتگو کر کے اسٹیج سے رخصت ہوتے ہیں کہ ناظم اجلاس مختصر تعارف کے بعد اردو اکادمی دہلی کے سابق چیئر مین پرو فیسر شہپر رسول کو دعوت سخن دیتے ہیں ۔ پروفیسر شہپر رسول اپنے مخصوص اور خوبصورت وضع قطع کے ساتھ اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور اصحاب اسٹیج کو مخاطب کرنے کے بعد اپنی بات شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اردو اکادمی دہلی نے اکادمی کے نئے نئے عوامی اور ادبی پروگراموں سے اردو کو جو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس میں اردو اکادمی کا ایک مخصوص پرو گرام جشن وراثتِ اردو کا خصوصی کردار رہا ہے ، پہلے وہ جشن لال قلعہ کے وسیع و عریض میدان میں منعقد ہوتا تھا بعد میں وہ کناٹ کے پلیس کے سنٹرل پارک میں منعقد ہوا۔نئے پرانے چراغ کس طرح شروع ہوا اس میں وہ پروفیسر گوپی چند نارنگ اور پروفیسر صادق کا ذکر کرتے ہوئے علی گڑھ کی ایک نشست کا بھی ذکر کرتے ہیں جہا ں سے اس پروگرام کا خاکہ تیار ہوا تھا ‘‘ ۔ موصوف کی اس بات سے ذہن ان رنگا رنگ پرواگرمس کی جانب منتقل ہوگیا کہ کس طرح کناٹ پلیس کے سنٹرل پارک کو سجایا جاتا تھا ، داخلہ گیٹ کیا خوبصورت ہوتا اور استقبالیہ تو قابل سماعت ودید دونوں ہوتا تھا ، خیر پروفیسر شہپر رسول کی بات مبنی بر حقیقت تھی ۔ اس افتتاحی اجلاس میں اسٹیج پر اردو اکادمی دہلی کے ایک اور سابق وائس چیئر مین پر فیسر خالد محمود بھی رونق افروز تھے ، موصوف اپنے مخصوص وضع قطع سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں کوٹ پینٹ ٹائی کے ساتھ تازہ تازہ کلین شیو بھی تھ۔ اتفاق سے وہ ناظم اجلاس کے استاد اور پی ایچ ڈی کے نگراں بھی رہے ہیں تو آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ناظم نے انہیں اسٹیج پر بلانے کے لیے کس واجبی یالازمی تکلفات کا اظہار کیا ہوگا ۔ خیر پر وفیسر خالد محمود اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور بہت ہی ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے ہیں ۔عوامی مقامات اور خصوصاً طلبہ کے مابین ان کی گفتگو کا جوانداز ہوتا ہے وہ ان کی وہاں کی گفتگو میں بھی بخوبی جھلک رہا تھا۔ نئے پرانے چراغ اور اردو اکادمی دہلی کی کارکردگیوں سے گفتگو شروع ہوتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’  اکادمی کے اس پروگرام میں ہر سال آپ کو نئے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں اور اردو کا یہ ایک ایسا خالص ادبی پرو گرام ہے جو ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں اس کی نظیر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ، ہماری یہی خواہش ہے کہ ہر سال اکادمی یہ پروگرام جامعہ میں ہی منعقد کرے کیونکہ جامعہ اردو کا گہوارہ ہے ۔ خالد محمود صاحب کی زبان سے جیسے ہی گہوارہ کا جملہ مکمل ہوا سامعین کی جانب سے ان کی بات کی تصدیق کی تالیاں بجنے لگیں ۔ لیکن کچھ سامعین کے اذہان ماضی میں کھوگئے کہ جامعہ کا قیام سے لے کر اب تک اردو کا سفر کیسا رہا ہے اورموجودہ وقت میں جامعہ اردو کے ان اداروں کو کسی طرح سینچ رہی ہے جسے اکابرین وراثت میں چھوڑ کر گئے تھے اور ابھی اردو کے گہوارے میں اردو کی صورتحال کیا ہے ۔ مہانان کی گفتگو کے بعد باری آتی ہے صدارتی کلمات کی ، اتفاق سے سارے مہمانا ن کا تعلق جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تھا جب کہ صدر محتر م پروفیسر عبدالحق صاحب کا تعلق دہلی یونی ورسٹی سے ہے ۔ انہیں بھی بصد احترا م ناظم صاحب اسٹیج پر بلاتے ہیں، صدر اجلاس اپنی عصا کے بغیر ہلکے ہلکے قدموں سے اسٹیج پر پہنچتے ہیں اور اردو اکادمی دہلی کی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ اکادمی نے وہ خدمات انجام دی ہیں جو دیگر بڑی اکادمیاں اور کونسلس نہیں دے سکیں، افراد ساز اور ادیب گر میں ارد و اکادمی دہلی کا کوئی ثانی نہیں ہے ، کیونکہ یہ اپنے قیام کے روز اول ہی سے ادب کے گنگا جمنی تہذیب کے کارواں کو لے کر چل رہی ہے ، مشاعروں اور ادبی محفلوں کے معاملے میں مقدم ہے ہی ساتھ ہی طباعت میں لگاتار انہوں نے وہ کتابیں شائع کی ہیں جو دیگر اکادمیوں کے حصے میں نہیں آئی ہیں ۔ اتفاق سے صدر محتر کی اس گفتگو سے ہی اگلے دن کے لیے اخبار کی سرخی نکل آتی ہے کہ ’’ افراد ساز اور ادیب گر میں اردو اکادمی دہلی کا کوئی ثانی نہیں ہے‘‘ یہ سرخی اکادمی کی ہمہ جہت کارکر دگی کو سمیٹے ہوئی تھی ۔ صدر محتر می کی تقریر کے بعد اجلاس کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے ، پھر سبھی انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم کی جانب قدم بڑھا تے ہیں جو سی آئی ٹی سے کوئی دو سو قدم کے فاصلے پر مغرب کی جانب واقع ہے ۔ 

جب اس آڈیٹوریم میں قدم رکھا تو دیکھا کہ وہاں سمینار ہال کی مناسبت سے افراد کی تعداد دوگنی ہے شعرا اور سامعین اپنی نشستوں میں تشریف فرما ہیں۔ بغیر کسی تاخیر کے ناظم مشاعر پروفیسر رحمن مصور نظامت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں اور صدر مشاعر ڈاکٹر جی آر کنول کو اسٹیج پر دعوت دیتے ہیں ساتھ ہی چند بزرگ شعرا کو بھی دعوت اسٹیج دیتے ہیں اور انھیں کے ہاتھوں شمع روشن کی رسم بھی ادا ہوتی ہے۔ آڈیٹوریم بھرا ہوا تقریباً اسی شاعروں کو پڑھنا ہے اور اس محفل و شعر و سخن کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ چارگھنٹے کا ہے ، شاعروں کی فطرت ہے کہ وہ ایک غزل میں کہاں رکنے والے تو سبھی کے لیے ایک اصول طے ہوتا ہے کہ   اگر کوئی شاعر تحت اللفظ پڑھتا ہے تو وہ صرف پانچ شعر پیش کریںگے اور اگر ترنم میں پڑھ رہے ہیں تو صرف دو ہی شعر پیش کر سکتے ہیں ۔ اگر وقت کی بات کی جائے تو ایک شاعر کو زیاد ہ سے زیادہ ڈھائی منٹ کا وقت دیا گیا تھا ۔ یہ جوان اور بزر گ ، مشہور و غیر مشہور ، استاد و غیر استاد سبھی کے لیے تھا ۔اس قاعدے کے ساتھ مشاعرہ شروع ہوتا ہے اور وقت پر ہی ختم بھی ہوجاتا ہے ۔ اس محفل میں اہم شعرا میں سے فصیح اکمل ، درد دہلوی، خمار دہلوی، رضا امروہوی، معین شاداب ،نزاکت امروہوی، سرفراز احمد سرفراز دہلوی ودیگر ہوتے ہیں 

 ایک دن کا سفر مکمل ہوا جس میں افتتاحی اجلاس اور محفل و شعر و سخن کا انقعاد ہوا لیکن دوسرے دن سے اجلاس کی نوعیت بدلی ۔ تحقیقی ، تنقیدی اور تخلیقی اجلاس منعقد ہوئے اوریہ لگاتار چار روز اس ترتیب سے چلتے کہ صبح کا اجلاس تحقیقی و تنقیدی ہوتا جس میں ہر دن تقریبا دس ریسرچ اسکالر س اپنا مقالہ پیش کرتے ۔ اس میں تینوں یونی ورسٹیوں ( جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی یونی ورسٹی، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی) کے ایک ایک استاد صدر اجلا س تھے ۔ تخلیقی اجلاس میں تخلیق کار اور اساتذہ بھی صدر اجلاس ہوئے محفل شعر و سخن میں صدارت کی ذمہ داری بزر گ شعرا کے کندھوں پر ہی رہی ۔ 

 دن کا پہلا اجلاس ریسرچ اسکالروں کے لیے تھا جس میں تینوں یونیورسٹیوں سے چالیس ریسر چ اسکالروں نے مقالا ت پیش کیے اور بارہ اساتذہ نے صدارت کی ذمہ داری ادا کی۔ ریسرچ اسکالروں کے لیے اردو اکادمی دہلی ہمیشہ چار موضوعات دیتی ہے جس پر وہ مقالہ لکھ کر لائیں ۔ اس مرتبہ کے چاروں موضوعات کچھ اس طرح تھے ۔ میر تقی میر: شخصیت اور شاعری / جدید اردو شاعری اور اہم شعرا / قدیم اردو نثر / اردو کی ادبی تحریکات و رجحانا ت ۔ 

پہلے دن کا تنقیدی و تحقیقی اجلاس تقریبا ساڑھے دس بجے شروع ہوا ، مسند صدارت پر پروفیسر شریف حسین قاسمی ، پرو فیسر معین الدین جینا بڑے اور پروفیسر کوثر مظہر ی تشریف فر ما تھے اور نظامت کی ذمہ داری مجھ ناچیز (امیر حمزہ ) کے ذمہ تھی ۔ اس اجلاس میں سیف الرحمن نے ’’کربل کتھا کی نثر‘‘، حفیظ الرحمن نے’’قدیم اردو نثر میں تراجم قرآن کے اسالیب‘‘، محمد تسنیم عابد نے ’ ’ میر کی شاعری میں خمریات ‘‘ ، محترمہ میسرہ اختر نے ’’ احمد فراز کی غزلیہ شاعری ایک تعارف ،ندیم علی نے ،، مخمور سعیدی شخصیت اور شاعر ی‘‘، محفوظ خاں نے ’’ ترقی پسند تحریک اور اردو غزل ‘‘ ، اسداللہ نے ’’ میر تقی میر کی غزلیہ شاعری میں تصور عشق ،محترمہ عظمی نے ’ ’ زبیر رضوی کی نظم نگاری‘ ‘ اور کلیم احمد نے ’’یعقوب یاور کی نظم نگاری‘‘ کے عناوین سے مقالات پیش کیے۔پر و گرام بہت ہی عمدہ ہوا مقالات کے بعد میں نے بطور ناظم صرف ایک جملے میں یہ بات کہی کہ ’نئے چراغو ں کی روشنی اس قدر روشن ہے کہ میں مزید اس پر کچھ نہیں کہ سکتا ، صدور محترم ہی اظہار خیال فرمائیں گے ۔ پھر اس کے بعد روایتی انداز میں سبھی نے مقالا ت پر عمدہ گفتگو کی ۔ یہاں صرف ان کے چند جملے نقل کیے جاتے ہیں ۔ پروفیسر شریف حسین قاسمی نے فرمایا کہ اردو کے ارتقائی دور میں جو کچھ بھی کہا گیا وہ فارسی کا عکس نظر آتا ہے ۔ غزل آدمی بالقصد نہیں کہہ سکتا او نہ ہی یہ ہر وقت کہی جاسکتی ہے بمقابلہ دیگراصناف سخن کے کہ وہ بالقصد کہی جاسکتی ہیں ۔ تراجم پر انہوں نے کہا کہ علمائے کرام کی اردو خدمات کو اردو والوں نے بہت ہی کم سراہا ہے ۔ پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے فریاکہ اس پروگرام میں ہم نئے ذہنوں سے واقف ہوتے ہیں اور نیا ذہن ہمیشہ پرانے ذہن سے آگے کا سوچتا ہے اور اس میں یہ اہم ہوتا ہے کہ نیا ذہن پرانے ذہن سے کیا لے رہا ہے اور کیا رد کررہا ہے ۔پروفیسر کوثر مظہری نے فرما یا کہ کچھ بھی نیا لکھنے میں اس بات کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کون سا زاویہ ہے جس پر گفتگو نہیں ہوئی ہے اس لیے کسی بھی شخصیت کے ایک گوشہ پر مکمل و مدلل گفتگو کرنی چاہیے ۔اجلاس ختم ہونے کے بعد سبھی عمارت کے بازو میں لگے ٹینٹ میں چلے گئے جہاں سبھی کے لیے ظہرانے کا معقول انتظام تھا، کھانے میں لذیذ قورمہ بر یانی ، نان اور زردہ تھا کھانے کے بعد چائے کا بھی انتظام تھا ۔ سبھی کھانے میں مصروف تھے ساتھ ہی پیش کیے گئے مقالات پر بھی گفتگو کررہے تھے ۔ پھر تین بجے تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جس میں بطور صدر ڈاکٹر عبدالنصیب خاں ، جناب خورشید اکر م اور سہیل انجم تھے ۔ اس اجلاس میں محمد نظام الدین نے ’’ناک ‘ اور ’سودا ‘‘ ، غزالہ فاطمہ ، ’ اس ہار کو کیا نام دوں ‘ ، ذاکر فیضی’ ادھورا نروان ‘ ، نشاں زید ی’ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ‘، نشاط حسن ’ قدرت کا فیصلہ ‘ او ر امتیاز علیمی نے ’موت کا جشن ‘ کے عنوان سے اپنے افسانے پیش کیے ۔ پھر تینوں صدور نے اپنے کلمات سے سامعین کے علم میں اضافہ کیا۔ خورشید اکرم نے کہا کہ کہانی لمبے عرصے پر محیط نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ منٹوں اور گھنٹو ں پر محیط ہوتی ہے ۔ مزید انہوںنے کہا کہ کہانیوں میں زبان صرف بار برداری کا رول ادا کرتا ہے ، اس میں ش ق کی اردو کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی ہے جبکہ دوسرے صدراجلاس سہیل انجم نے کہا کہ افسانوں میں تنوع اور خوبصورت زبان حیر ت میں ڈال رہی ہے کیونکہ موجودہ وقت میں سب سے زیادہ زبان ہی خراب ہوئی ہے ۔تیسرے صدر محترم عبدالنصیب خاں نے کہا کہ افسانہ اب کوئی خاص صنف نہ ہوکر بہت سی اصناف کی عکاسی والا صنف ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ صدارتی کلمات کے بعد اجلاس تو ختم ہوگیا لیکن سامعین کے ذہنوں میں کہانی کے حوالے سے مذکورہ باتیں گردش کرنے لگیں کہ کس روش پر چل کر کن کے معیار کے مطابق کھرا اترا جائے ۔اس کے بعد سبھی محفل ِ شعرو سخن کی جانب رخ کرتے ہیں ، وہاں بھی پروگرام سے پہلے چائے کا انتظام تھا ۔ شعرا حضرات تشریف لارہے تھے اور دستخط سے اپنی حاضری دے کر آڈیٹوریم میں اپنی نشست سنبھال لیتے ، شعرا میں کئی کوٹ پینٹ کے ساتھ رامپوری ٹوپی پہنے ہوئے ہیں تو کئی کر تا پاجامہ کے ساتھ صدری میں ملبوس ہیں الغرض ایسا لگ رہا تھا سبھی باضابطہ تیار ہوکر آئے ہیں ۔ نظامت کے لیے مائک مرزا عارف سنبھالتے ہیں اور صدر محتر م بزرگ و استاد شاعر جنا ب وقار مانوی کو مسند صدارت کے لیے بلاتے ہیں۔صدر مشاعر ہ سمیت ظفر مراد آبادی ، طالب رامپوری اور فاروق ارگلی و دیگر کے ہاتھوں شمع روشن ہوتی ہے اور پھر حسب اصول مشاعر ہ شروع ہوجاتا ہے ۔ شعرا اسٹیج پر تشریف لاتے ہیں اور اشعار سناکر داد وصول کرکے اپنی نشست پر واپس ہوجاتے ہیں ۔آڈیٹوریم مستقل داد کی تالیوں سے گونجتا رہا ۔ اس محفل میں اہم شعرا میں منیر ہمدم ، سہیل احمد فاروقی ، واحد نظیر ، ارشد ندیم ، صہیب احمد فاروقی ، عادل حیات ، ریشمہ زیدی، سلیم امروہوی ، راجیو ریاض پرتا پگڑھی ، حامد علی اختر و دیگر نے اپنا کلام سنایا ۔ 

دہلی کے بزر گ اور جواں عمر قلمکاروں کا اجتماع اب تیسر ے دن داخل ہوچکا ہے ۔ جس میں پہلے اجلاس کی صدارت پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدین ، پرو فیسر شہزاد انجم او ر پروفیسر نجمہ رحمانی فرما رہی ہیں اور نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاہنواز فیاض سنبھال رہے ہیں ۔ اس ا جلاس میں ساجدہ خاتون نے ’’ ترقی پسند ناولوں کے منفی کردار : ایک جائزہ ‘‘ ، محمد شاہ رخ عبیر نے ’’ جدید غزل اختصاصات ، تشخصات اور تضادات ‘‘ ، فیضان اشرف نے’’ اردو میں جدید یت اور مابعد جدیدیت : ایک مطالعہ ‘‘، شاداب نے ’’ انشاء اللہ خاں انشاکی انفردایت اور رانی کیتکی کی کہانی ‘‘ ، سعدیہ پروین نے ’’ اردو تنقید میں تانیثی رجحان ‘‘ ، ہماکوثر نے ’’جدید غزل کا منفرد شاعر : بانی ‘‘، صدف فاطمہ نے ’’ ترقی پسند شعری رجحان ‘‘ ، طریق العابدین نے’’ وحید اختر اپنی غزلوں کے آئینے میں ‘‘ اور محمد آصف اقبال نے ’’ مجید امجد کی شاعری میں وقت کا تصور‘‘ کے عنوان سے مقالات پیش کیے ۔ صدور محترم نے سبھی مقالات پرفرداً فردا اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔  تاہم کچھ کلمات سبھی کے لیے عمومی تھیں جیسے پرو فیسر خواجہ محمد اکرام الدن نے فرمایا کہ جو بھی مقالہ نگار نئی بات یا نیا تجزیہ پیش کررہا ہے تو انہیں چاہیے کہ اسی پر مدلل اور وضاحت کے بات کریں کیونکہ یہ اجتماعیت آپ کی تحریروں کو نمایاں کرے گا ۔ پرو فیسر شہزاد انجم نے فرمایا کہ اب ہم اس مرحلہ میں آچکے ہیں کہ تمامتر رجحانات و تحریکات کو رد کرتے ہوئے اپنی فکر پیش کریں۔پرو فیسر نجمہ رحمانی نے مقالات پر فرمایا کہ، ان مقالات کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ جن گوشو ں اور شخصیات پر عموماً بات نہیں ہوتی ہے انہیں پر گفتگو کی گئی ہے ۔ مزید معافی کے ساتھ انھوں نہ کہا کہ ہمارے اسلاف نے مغربی تھیوریز کو ہم پر تھوپا ہے جبکہ ہمارا مشرقی ادب مغربی ادب سے بالکل الگ ہے ۔ اجلاس ختم ہوتا ہے سبھی ظہرانے کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور خوش گپیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ 

ظہرانے کے بعد تخلیقی اجلاس منعقد ہوا جو اس اجتماع کا ساتواں پروگرام تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت محترم اسد رضا ، ڈاکٹرنعیمہ جعفری پاشااور ڈاکٹر شمیم احمد نے کی جب کہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر عینین علی حق نے ادا کی۔ اس اجلاس میں غزالہ قمر اعجاز نے’’ ٹشو پیپر‘‘رخشندہ روحی نے ’’ چاند کے پاس جو ستارہ ہے‘‘ تسنیم کوثر نے ’’ نوشتہ دیوار ‘‘ ، طاہرہ منظور نے ’’ بارش‘‘ چشمہ فاروقی نے ’’گونگی باجی ‘‘، نورین علی حق نے ’’مخدوش لاش کا بیانیہ ‘‘ نوازش چودھری  نے’’ناسٹالجک پولّن‘‘ ، محمد توصیف خاں نے انشائیہ ’’قبلہ مرزا کلاؤڈی ہاؤڈی‘‘، ثمر جہاں نے ’’دیا کبیرا روئے ‘‘، شفافاروقی نے ’’ ہمسفر‘‘،نثار احمد ’’ماڈرن بزرگ ‘‘ اور نازیہ دانش نے ’’خوابیدہ‘‘ کے عناوین سے اپنی تخلیقات پیش کیں ۔ جن پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا نے کہا کہ علامتی افسانے پڑھنے کے لیے زیادہ اور سننے سنانے کے لیے کم ہوتے ہیں ۔اسد رضا صاحب نے کہا کہ انشائیہ اور طنز و مزاح میں صرف شگفتہ بیانی سے کام نہیں چلتا بلکہ اس میں پیغام بھی پوشیدہ ہونا چاہے ۔ڈاکٹرشمیم احمد نے کہا کہ انشائیہ فنی اعتبار سے اچھا تھا اور اہم بات یہ تھی کہ آج کی ٹوٹتی زبان میں عمدہ زبان بیان سننے کو ملا۔ اجلاس ختم ہوتا ہے کچھ لوگ بکھر کر کر اپنے مقاصد کو نکل جاتے ہیں اور کچھ افراد مشاعرہ میں تشریف لے جاتے ہیں جہاں آج پروفیسر خالد محمود کی صدارت اور جناب فرید احمد قریشی کی نظامت میں مشاعرہ ہورہاہے ۔ پروفیسر خالد محمود صاحب شیروانی اور ٹوپی کے ساتھ آڈیٹوریم میں موجود ہیں ، حسب روایت شمع روشن ہونے کے بعد مشاعر ہ شروع ہوتا ہے جس میں تقریبا ً ستر شعرا اپنا کلام پیش کر تے ہیں اور سامعین کے ساتھ ساتھ شعرا سے بھی داد وصول کرتے ہیں ۔ آخر میں صد ر مشاعرہ نے شاعروں کے حوالے فنی باتیں کرکے اپنے اشعار بھی سنائے ۔ اس محفل میں راشد جمال فاروقی ،تابش مہدی،سیماب سلطانپوری 

، رؤف رامش ، احمد علوی ، خالد مبشر و دیگر نے اپنے کلام سنائے ۔

اب تک نئے پرانے چراغ کے تین دن گز ر گئے تھے ، ارد اکادمی ،دہلی کے اراکین سے لے کر حاضرین تک کو بہت کچھ احساس ہوچکا تھا ۔ جوش و جذبہ، اساتذہ اور طلبہ کی ملی جلی دلچسپی سامنے آچکی تھی ۔ اردو اکادمی کے اراکین و عملہ جو ہمہ وقت پر وگرام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں تھے وہ بھی جامعہ کے ماحول سے آشنا ہو چکے تھے یعنی آخر کے دو دن سبھی کے لیے حالات معمول پر تھے ، تو چوتھے دن کا پہلا اور پور ے اجتماع کا نواں اجلاس تحقیقی و تنقید ی  کے عنوان سے صبح شرو ع ہوتا ہے ۔ جس کی صدرا ت پر وفیسرقاضی عبیدالرحمن ہاشمی ، پروفیسر انور پاشا اور پروفیسر خالد اشرف نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر جاوید حسن نے انجام دیے ۔ اس اجلاس میں تو حید حقانی نے ’’ تر قی پسند تحریک او ر اردو تنقید‘‘  محمد عبدالقادر نے ’’ اردو کی قدیم نثر گلشن ہند کے آئینے میں‘‘ آصفہ زینب نے ’’ میر کی شاعری  اپنے عہد کی ترجمان‘‘ محمد نے ’’ اشتراکی نظریات کا علمبردار قمر رئیس ‘‘ صدف نایا ب نے ’’ میر کی سوانح اور ان کی شاعری کی چند بنیادی خصوصیات ‘‘ امام الدین نے ’’ میر تقی میر کی قنوطیت اور غربت کا قضیہ ‘‘ عبدالرزاق نے ’’ باغ و بہار بحیثیت نثر ‘‘ اور تبسم ہاشمی نے ’’ میر تقی میر شخصیت اور شاعر ی ‘‘ کے عنوانات سے اپنے مقالے پیش کیے ۔مقالات کا سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ پر وفیسر قاضی عبیدالرحمان ہاشمی نے کسی عذر کی بنا پر اپنے صدارتی کلمات کے لیے درخواست دی تو ناظم اجلاس نے انہیں اظہار خیال کے لیے مدعو کیا ، قاضی صاحب نے سنے ہوئے مقالات پر رسمی گفتگو کی اور اجلاس سے رخصت ہوگئے اس کے بعد دو مقالات اور پڑھے گئے پھر صدارتی کلمات کے لیے پروفیسر خالد اشرف کو دعوت دی گئی۔انہوں نے زبان کے حوالے سے ایک بنیادی بات کہی کہ زبان اکادمیوں اور اداروں سے نہیں چلتی ہے بلکہ گلیوں اور بازاروں سے چلتی ہے ۔یونی ورسٹیوں میں زبان نہیں بلکہ ادب پڑھایا جاتا ہے ، زبان تو اسکولوں میں ہی پڑھا دی جاتی ہے اور اسکولوں میں اردو کا جو معاملہ ہے وہ آپ بخوبی جانتے ہیں ۔میر کی غربت پر ایک مقالہ تھا اس پر انہوں نے فرمایا کہ میرو غالب غربت کے شکار نہیں تھے بلکہ وہ نوابوں کی طرح زندگی گزرانے کے خواہشمند تھے ۔ان کے بعد صدارتی کلمات کے لیے پروفیسر انور پاشا تشریف لاتے ہیں ۔ اس دن وہ سفید کرتا ، چوڑی دار پاجامہ اور ہلکے رنگ کی صدری زیب تن کیے ہوئے تھے ۔ انہوں نے کئی اہم نکات کی جانب سامعین کی توجہ کو مبذول کرا یا ساتھ ہی قنوطیت کی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میر و غالب کے یہاں جو درد و غم ہے وہ اُس وقت کا آشوب زائیدہ ہے ۔اس کے بعد انہوں نے ترقی پسندتحریک اورعلی گڑھ تحر یک پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ابھی زندہ ہیں اور ادب میں اپنی شمولیت درج کرارہے ہیں ۔صدارتی تقریر کے بعد ناظم صاحب اجلاس کے اختتا م کا اعلان کر تے ہیں۔ سبھی حاضرین وسامعین باہر آجاتے ہیں ۔ ابھی ظہرا نے کو پیش کرنے میں دس منٹ کا وقت تھا کہ سر دموسم میں سبھی دھوپ میں اِدھر اُدھر کھڑے ہوگئے لمحہ ہی گزرا تھا کہ کھانے کی جانب سبھی نے رخ کیا ۔ 

 ظہرا نے کے بعد تخلیقی اجلاس کے شروع ہونے میں کافی وقت بچا تھا تو چند لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور کچھ افراد سمینار ہال کی جانب رخ کیے ۔ وقت پر تخلیق اجلاس شروع ہوا جس کی صدارت پروفیسر غیاث الرحمان سید ، پروفیسر ندیم احمد اور پروفیسر شاہینہ تبسم نے کی ،جبکہ ناظم اجلاس ڈاکٹر شاہنواز ہاشمی تھے ۔اس اجلاس میں شمع افروز زیدی نے خاکہ ’’ انور نزہت ‘‘ ، ترنم جہاں شبنم نے ’’ تاج محل کی نیلامی ‘‘، انوارالحق نے ’’ مسٹر حضرت‘‘ محمد مستمر نے انشائیہ ’’ چٹنی ‘‘، شاہد اقبال نے ’’ چیخ ‘‘ ،نازیہ دانش نے ’’ شخص ‘‘، مصطفی علی نے انشائیہ ’’ جھپکی میں جنت ‘‘، زیبا خان نے ’’ باڑھ کھاگئی کھیت ‘‘، عبدالحسیب نے انشائیہ ’’ صحرا میں پانی کی تلاش ‘‘، ڈاکٹر شعیب رضا خاںوارثی نے انشائیہ ’’کل آج اور کل ‘‘، تفسیر حسین خاں نے ’’ بھینس کی لاج ‘‘، ثاقب فریدی نے ’’ میں جاگ رہا ہوں ‘‘ پیش کیا ۔ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مشہور فکشن نگار پروفیسر جی آر سید نے افسانہ کے فن پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ افسانے میں کرداروں کی سہی عکاسی اور جزئیات نگاری اس انداز میں پیش کریں کہ سامعین اورقارئین کو یہ لگے کہ وہ افسانے کا قاری اور سامع نہیں بلکہ یہ محسوس کریں کہ وہ کہانی دیکھ رہے ہیں ۔ نیز افسانہ میں کیا نہیں کہنا چاہیے اس پر توجہ دینی چاہیے ۔ مزید فرمایا کہ علاقائی زبان کہیں افسانے کوبہتر کرتا ہے تو کہیں بوجھل کردیتا ہے۔ پروفیسر ندیم احمد اور پرفیسر شاہینہ تبسم نے بھی تخلیقات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسانے ، انشائیے اور خاکے عمدہ سے عمدہ تر سننے کو ملے اس سے مستقبل میں اردو کی ضمانت کا اشارہ ملتا ہے۔ یہ اجلاس دیر تک چلا شام ڈھل چکی تھی جامعہ کمپس روشنی سے نہارہا تھا ، سی آئی ٹی سے انجینئر نگ فیکلٹی جاتے ہوئے طلبہ کی اچھی خاصی تعداد یہاں وہاں بیٹھے ہوئے نظر آرہی تھی ، ہائی جینک کے آس پاس کا ایریا طلبہ و طالبات کی چہچہاہٹوں سے چہک رہا تھا ، گو کہ شام ڈھل چکی تھی لیکن کچھ علاقوں میں سناٹے کا گزر بھی نہیں تھا ۔ میںجب تک انجینئر نگ فکلٹی کے آڈیٹوریم میں پہنچا تو وہاں دیکھتا ہوں کے مشاعر ہ باقاعدہ شروع ہوچکا ہے ۔ مسند صدارت پر پروفیسر شہپر رسول جلوہ افروز ہیں ، ان کے ساتھ اسٹیج پر فاروق ارگلی ،متین امروہوی، اعجاز انصاری اور سلمی شاہین موجود ہیں اور نظامت کی ذمہ داری پیمبر نقوی سنبھال رہے ہیں ۔ مشاعر ہ کا آخر ی دن تھا حسب امید شعرا کی تعداد میں اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ۔ مشاعرہ دیر رات تک چلا ہر دن کی طرح اس دن بھی ایک کامیاب مشاعر ہ سننے کو ملا ۔ اس مشاعرہ میں ریاضت علی شائق ، شعیب رضا ، وسیم راشد ، شکیل جمالی ، امیر امروہوی و دیگر شعرا نے اپنے کلام پیش کیے ۔

 چاروں دن کے مشاعروں کے حوالے سے کوئی تفصیلی بات اب تک تحریر نہیں کہ لیکن دو باتیں جو مجھے محسوس ہوئی وہ عرض کردیتا ہوں او ل یہ کہ دہلی میں قیام پذیرتقر یبا ً چار سو شعرا کا نام نئے پرانے چراغ کے لیے شامل ہوا تھا ۔ جن میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی تھے ، اس سے یہ محسوس ہوا کہ اردو اکادمی دہلی کی راجدھانی دہلی میں گہر ی پکڑ ہے ، ہر علاقے اور ہر مذہب کے لوگ اس اکادمی سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اکادمی کا ایک اور اصول ہے کہ مشاعر ہ گاہ میں ایک فارم گھومتا رہتا ہے جس میں شعرا اپنا ایک شعراپنے نام اور موبائل نمبر کے ساتھ درج کرتے ہیں ۔ اردو رسم الخط کے حوالے سے اس وقت مجھے بہت ہی زیادہ حیرانی ہوئی کہ روزانہ کی فائل میں مجھے مشکل سے اوسطاً آٹھ ہی ایسے افراد نظر آئے جنہوں نے اپنا شعر دیونا گری میں لکھا تھا، رومن میں کسی نے بھی نہیں لکھا تھا۔ اس میں بھی مزید حیرانی اس پر ہوئی کہ ان میں سے غیر مسلم تو نہ کے برابر ہیں بلکہ چند غیر مسلمین کی تحریر پر تو میں عش عش کر گیا جن میں سے میں چند کا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں ، جگدیش داؤتانی ،کیلاش سمیر دہلوی، امبر جوشی ، پنڈٹ پریم بریلوی ، سپنا احساس ، حشمت بھاردواج ، راجیو ریاض پرتاپگڑھی اور سب سے اچھی تحریر کنوررنجیت چوہان کی تھی ۔ نئے شعرا کے کلام میں موضوعات کے ساتھ ساتھ زبان کی جمالیات بھی دیکھنے کو ملا ۔ کچھ ایسے شعرابھی تھے جنہوں نے سبھی کو حیرت میں بھی ڈالا ۔ 

جمعہ کا دن نئے پرانے چراغ کا آخری دن تھا ۔ اجلاس حسب سابق ساڑھے دس بجے شروع ہوگیا البتہ ختم کرنے کا وقت متعین تھا کہ جمعہ کی نماز کی وجہ سے ساڑھے بارہ بجے ختم کردینا ہے ۔ اس اجلاس کی صدارت پرو فیسر احمد محفوظ ، پروفیسر ابوبکر عباد اور پر فیسر مظہراحمد کر رہے تھے جبکہ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر شاداب شمیم ادا کررہے تھے ۔ جس میں محمد سید رضا نے ’’ ن م راشد ایک روایت ساز نظم نگار ‘‘ ، محمد ناظم نے ’’ نشور واحدی کی غزل گوئی ‘‘، زرفشاں شیریں نے ’’ بلقیس ظفیر الحسن کا شعری مجموعہ گیلا دامن کی نظمیں : مسائل اور موضوعات ‘‘، عنب شمیم نے ’’ جدید اردو نظم کے امتیازی نقوش : ایک جائزہ ‘‘، محمد فرید نے ’’ بہار میں ترقی پسند افسانہ نگاروں کی ایک جھلک ‘‘ ،محمد فیصل خاں نے ’’ کیفی اعظمی کی فکری و فنی جہات (ترقی پسند تحریک کے حوالے سے ‘‘، محمد رضا نے ’’کلام میر میں لفظ مناسبت اور استعاراتی نظام ‘‘ اور عزہ معین نے ’’ حلقہ ارباب ذوق میں خواتین کی ادبی خدمات ‘‘ کے عناوین سے اپنے مقالات پیش کیے ۔ صدارتی خطبے میں وقت محدود ہونے کی وجہ سے جلد بازی ہوتی رہی پھر بھی صدور محتر م نے اپنے خیالات کا جو بھی اظہار کیا ان میں سے کچھ کلمات پیش کیے جاتے ہیں ۔

پروفیسر احمد محفوظ نے فرمایا کہ ایک ہی موضوع پر کئی شعرا کے مختلف شعر آپ کو پڑھنے کو ملیںگے تو کیا موضوعات شاعر یا شعر کو بڑا بناتا ہے نہیں بلکہ بڑی شاعری موضوع سے نہیں بلکہ فن اور اسلوب سے طے ہوتی ہے ۔ پروفیسر مظہر احمد نے طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ سمینار کے لیے اکثر ایسے موضوعات کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں وقت پر بات مکمل ہو جائے ۔ پرفیسر ابو بکر عباد نے مقالات کی خامیوں اور خوبیوں سے طلبہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ اچھی زبان کے ساتھ خوبصورت تلفظ بھی سننے کو ملا ۔ اجلاس ساڑھے بارہ بجے ختم ہوگیا تھا جنہیں جمعہ کی نما ز کے لیے جانا تھا وہ فوراً نکل پڑے ۔ واپسی کے بعد ظہرانے کا انتظام تھا ۔ ظہرانے کے مینیو میں ایک ڈش میں تبدیلی بھی تھی اس دن میٹھے میں زردہ کے بجائے حلوہ تھا پھر چائے بھی تھی ۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تخلیقی اجلاس کے لیے سمینار ہال اپنے سامعین کے انتظار میں تھا ، صدارت کے لیے ڈاکٹر ریاض عمر جمعہ بعد ہی تشریف لائے تھے ، ڈاکٹر پرویز شہریار بھی موجود تھے ۔ یہ واحد اجلاس تھا جس میں پہلی مرتبہ کوئی صدر تشریف نہیںلائے اور وہ ڈاکٹر ابرار رحمانی تھے ۔ پرو گرام کو ناظم اجلا س ڈاکٹر حمیرہ حیات نے شروع کیا دونوں صدور کے ساتھ ڈاکٹر نگار عظیم صاحبہ بھی اسٹیج پر موجود تھیں ۔ اس تخلیقی اجلاس میں محمد خلیل نے خاکہ ’’ سالم علی ‘‘ پیش کیا ، یہ دوسرا خاکہ تھا جو پیش ہورہا تھا۔ نگار عظیم نے ’’ برے آدمی کی کہانی ‘‘ سفینہ نے ’’ او مائی گاڈ ‘‘ محمد عرفان خاں نے ’’ جال ‘‘ نثار احمد نے ’’روایت ‘‘ اور ناظمہ جبیں نے ’’ تصویر کا دوسرا رخ ‘‘ پیش کیا ۔ صدارت کی ذمہ دار ی اگر چہ پرویز شہر یار پر بھی تھی لیکن انہوں نے چند رسمی کلمات کے بعد اپنا افسانہ ’’ لال چند ‘‘ بھی پیش کیا ۔ تو گویا ایک ہی صدر بچ گئے اور وہ تھے ڈاکٹر ریاض عمر ۔ انہوں نے افسانہ کے موضوعات کی جانب تو جہ دلائی کہ اس ہال میں موجود ہر چیز پر افسانہ لکھا جاسکتا ہے ۔ تخلیقی اجلاس کے ساتھ ساتھ نئے پرانے چراغ کا اجتماع یہیں پر ختم ہوتا ہے البتہ ابھی ایک محفل باقی ہے اور وہ ہے قوالی کی محفل ۔جس کو پیش کر نے کے لیے سنبھل سے قوال سرفراز چشتی کے پوری ٹیم آئی ہوئی تھی ، یہ پروگرام بھی مشاعرہ کی طرح انجینئرنگ فیکلٹی کے آڈیٹوریم میں ہورہا تھا ۔ جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ خلاف توقع پورا آڈیٹوریم کھچا کچھا بھرا ہوا ہے ۔ سامنے کی سیٹییں ہی بڑی مشکل سے ریزرو رکھی جاسکیں تھیں ، پرو گرام شروع ہونے سے پہلے ہی طلبہ سیڑھیوں میں کھڑے ہوچکے تھے ۔ جگہ کی اتنی تنگی تھی کہ اراکین اکادمی بھی اپنے گھروالوں کے لیے کوئی جگہ انتظام نہیں کرسکے ۔ 

قوالی اپنے وقت پر شروع ہوئی ایک یا دو کلام کے بعد دہلی سرکار کے وزیر برائے فن ،ثقافت و السنہ جناب سوربھ بھاردواج ، براڑی کے ایم ایل اور میتھلی اکیڈمی کے وائس چیر مین سنجیو جھا کی تشریف آوری ہوئی اور ہال استقبالیہ تالیوں سے گونج اٹھا ، ان دونوں ممبران اسمبلی کو اردو اکادمی کے سکریٹر ی محمد احسن عابد نے گلدستہ پیش کرکے استقبال کیا جبکہ قوال کا استقبال وزیر محترم اور ممبر اسمبلی نے کیا ۔ وزیر سوربھ بھاردواج نے چند کلمات کا اظہار کرتے ہوئے اردو اکادمی کے تحت منعقد ہونے والے مختلف ثقافتی پروگرامس کا ذکر کیا ۔ 

 نئے پرانے چراغ کے پنج روزہ پرواگرا م کو کامیاب بنانے کے لیے اکادمی کے عملہ نے جس طرح محنت کی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ ہر ایک کانام لینا بہت مشکل ہے ، جن کے ذمہ فائلوں کا سنبھالنا تھا وہ اسے انجام دے رہیں تھیں ، کتابوں کا انہوںنے اسٹال بھی لگا یا ہوا تھا جس میں امید سے زیادہ کتابیں بھی فروخت ہوئیں ، شعبہ اکل و شرب میں کسی قسم کی شکایت کا کسی کو موقع نہیں دیا گیا ۔ الغرض جس کے ذمہ بھی جو کام تھا سبھی اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے تھے ۔


Dr Amir Hamza

M.8877550086



’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...