Wednesday 5 July 2017

رباعی کی روایت کے امین ظہیر غازی پوری

رباعی کی روایت کے امین ظہیر غازی پوری
امیر حمزہ


 ریسرچ اسکالر شعبہ ¿ ارد و دہلی یونی ورسٹی دہلی 
فون9990018577
صنف رباعی کے آغاز کا سہرہ جہاں فارسی و اردو کے محققین نے ایران کو ہی دیا ہے وہیں اردو میں رباعی کے آغاز کا سہرہ دکن کو جاتا ہے جہاں اسے پھولنے اور پھلنے کا موقع بہت ہی کم ملا ۔ لیکن استادانہ صلاحیت کے اظہار اور شاعری میں تبدیلی ذوق کے طور پر اس کا وجود کم وبیش تما م دکنی شعرا کے یہاں نظر آتا ہے ۔شمالی ہند میں جب اردو اپنے عہد ذریںمیں آیا اس وقت بھی شعرا اپنی محبوب تر ین صنف سخن غزل ، مثنوی ، قصیدہ اور مرثیہ کے دام سحر میں گر فتار رہے ۔ شعوری اور لاشعوری کسی طور پر بھی رباعی کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دیے۔سوائے شاہ غمگین کے، جن کی رباعیوں کا مجموعہ ”مکاشفات الاسرار “ہے جس میں ان کی 1800 رباعیاں موجود ہیں ۔ تمام کلا سیکی شعرا کے یہاں رباعیاں ملتی ہیں کسی کے یہاں کم تو کسی کے یہاں زیادہ لیکن کوئی ضمنی طور پر یا ثانوی طور پربھی رباعی گو شاعر نظر نہیں آتا ہے ۔ عہد غالب میں مومن کی رباعیاں اچھی ہیں لیکن رباعی ان کے یہاں بھی خاص یا قابل توجہ صنف سخن کے طور پر نہیں نظر آتا ہے ، البتہ میر درد کے یہاں نظر آتا ہے لیکن ان کی اہم رباعیاں اور زیادہ تر رباعیاں فارسی میں ہیں ۔ بعد کے عہد میں اردورباعی کو سب سے زیادہ فروغ انیس و دبیر کے عہد میں ہوا ۔
انجمن پنجاب کے بعد اردو شاعری میں ایک نیا موڑ آیا کہ شاعر کلاسیکی اصناف سخن سے کنار ہ کشی اختیار کر کے شاعری میں جدید مغربی اصناف سخن کی جا نب مائل ہو رہے تھے ۔وہیں لاشعور ی طور پر اکبر و حالی کے یہاں رباعی اپنا قدم مضبوطی سے جمارہی تھی جو مزید تر مضبوط ہوتی چلی گئی اور تر قی پسند تحر یک سے بھی متا ¿ثر نہیں ہوئی تب تک فانی کے بعد جو ش وفراق کے یہا ں اردو رباعی اپنی تاریخ رقم کر چکی تھی ۔
آزادی کے بعد ذیلی صنف شاعری کے طور پر ان کی رباعیوں کی گونج مکمل طور پر ادبی فضا میں چھائی رہی ۔ کثیر تعداد میں شاعر رباعی کی جانب متوجہ ہورہے تھے ۔ لیکن جو ش کے قول ” یہ کم بخت چالیس بر س سے پیشتر کسی بڑے سے بڑے شاعر کے بس میں آنے والی چیز نہیں ہے “ سے مر عو ب بھی تھے ۔اس لیے جدید شاعروں کو اس میں اپنی شناخت قائم کر نا ایک مشکل امر تھا ۔البتہ رباعی کی ایک خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ کسی بھی عہد میں تاریخ سے غائب نہیں رہی ۔آزادی کے بعد صورت حال کچھ ایسی ہورہی تھی کہ چھوٹی چھوٹی صنف سخن کی تلاش میں شاعر حضرات چائنا ،جاپان اور فرنگ کی ادبی سیاحت میں تھے ، جبکہ مختصر صنف سخن کے طور پر ان کے یہاں رباعی جیسی صنف سخن موجود تھی ،پھر بھی لوگ سانیٹ ، ہائیکو، ماہیے ، چوبولے وغیرہ کی جانب توجہ دے رہے تھے بالآخر سب کے سب اپنی جگہ ہی منجمد ہوگئیں اور رباعی نے خاموشی کے ساتھ اپنا سفر جار ی رکھا ۔
 نظم جدید کے زمانہ میںجس طریقے سے اکبر و حالی کے یہاں اردو رباعی مضبوطی کے ساتھ اپنا قدم جماچکی تھی اور ترقی پسندی دور میں جو ش وفراق نے اسے بام عروج تک پہنچایا اسی طر یقے سے آزادی کے بعد جہاں دوسرے رباعی گو رباعی کی مشاطگی میں مصر وف تھے وہیں ظہیر غازی پوری نے رباعی کی آبیاری روایتی انداز میں کیا اور اس صنف سخن کی خاموشی سے مشاطگی کر تے چلے آئے ، معیاری طورپر جس کی نظیر رباعی کے حوالے سے موجودہ دور کے کسی اور شاعر کے یہاں کم ہی نظر آتا ہے ۔
ظہیر غازیپوری (ظہیر عالم انصاری ) کی پیدائش 1938 ءمیں غازیپور میں ہوئی۔ شادی گیا میں ہوتی ہے اور بسلسلہ ¿ ملازمت بہار و جھارکھنڈ کے ضلع گیا ، اورنگ آباد، شیرگھاٹی ، دمکا ، رانچی اور ہزاری باغ میں قیام رہا ۔بالآخر وطن اصلی وطن اصلی سے باطل ہوا اور ہزاری باغ کے ہی ہوکر رہ گئے اور غازیپوری ان کے نام کا ایک جزو بن کر رہ گیااوریہ ادب کا کھرا اور گمنام ستارہ ۳نومبر 2016ءکو ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا ۔
ظہیر غازیپوری نے 1955 ئ میں ابرار حسن گنوری کے آگے زانوئے تلمذتہہ کیا اور کچھ ہی عر صہ میں استاد نے انہیں فارغ الاصلاح قرار دے دیا بلکہ مبتدئین کی اصلاح کی ذمہ داری بھی سونپ دی اس وقت سے لیکر آخری اوقات تک مسلسل وہ خاموشی کے ساتھ ادب کی خدمت میں لگے رہے۔اللہ نے انہیں نظم ونثر میں یکساں قدرت دی تھی جس کی وجہ سے ان کے قلم سے شعر و نثر کی عمدہ تخلیقات تخلیق پائیں ۔ان میں سے ” مطالعہ ¿ اقبال کے بعض اہم پہلو“ ، ”اردو دوہے : ایک تنقیدی جائزہ“ اور ” جھارکھنڈ اوربہار کے اہل قلم“ نثر میں شائع ہوچکی ہیں اورشاعر ی میں دو مجموعے غزل کے ، دو نظم کے ، ایک غزل ونظم کا مشترکہ مجموعہ اور ایک رباعیوں کا مجموعہ ”دعوت صد نشتر“ اردو ادب میں اعلی مقام حاصل کیا۔
ظہیر غازیپوری کو شروع سے ہی غزلوں سے خصوصی دلچسپی تھی۔غزل کے مقبول شاعرہونے کے ساتھ ساتھ وہ غزل کے روایتی استاد بھی تھے، جس کی مثال ان کی آخری کتاب ’غزل اور فن غزل‘ سن اشاعت 2015ءہے۔غزلوں کی جانب خصوصی توجہ ہو نے کے ساتھ اظہار ذات و افکار کے لیے رباعیاں ان کے پاکیزہ ذہن سے رواں ہوئیں اور صفحہ ¿ قرطاس میں اتر گئیں۔ رباعیاں بھی ایسی کہ جو صرف بحر و ں کا استعمال کر کے خشک موضوع اپنا کر اپنی استادی کا اعلان کیا جائے۔ نہیں !بلکہ انہوں نے خودکو رباعی کے پیکر میں ڈھا لا، اپنے افکار اور فنی اقدار کو رباعی کے موافق بنانے میں زیادہ توجہ دی ، رباعی کے تمام فنی اقدار پر پوری دستر س حاصل کی پھر اپنی رباعیوں کو اپنے غزل کے ہم مقام لا نے کے لیے خوب تجر بے کیے اسی وجہ سے ان کی رباعیاں بے ہنگم الفاظ اور غیر موزوں تر اکیب سے پاک ہیں۔
ڈاکٹر تنویر احمد علوی ’دعوت صد نشتر ‘ کے مقدمہ میں ظہیر غازی پوری کی رباعیوں کے متعلق لکھتے ہیں ” مجھے جن رباعیات کے مطالعہ کا موقع ملا ان میں ایسی رباعیوں سے اکثر نظر دو چار ہوئی جنہیں دیکھ کر بے اختیار فارسی کا یہ مصرع یا د آیا۔ ع: کر شمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا ست“ ( اس کا کر شمہ ¿ حسن دامن دل کو کھنچتا ہے کہ سب سے بہتر اور حسین و جمیل نظارہ گاہ تو یہی اور یہیں ہے ) “۔ اور اس کی مثال میں وہ مندرجہ ذیل رباعی پیش کر تے ہیں۔
جذبات کی آنچ ، آنکھ کا نم جیت گئے 

تم اپنا اک اک قول و قسم جیت گئے 
لیکن تمہیں احساس نہیں ہے اس کا 

تاریخ کی سچائی تو ہم جیت گئے 
رباعی خود کے موضوعات میں کبھی تنگ دست نہیں رہی ہے ۔ اگرچہ شروع میںا س کے موضوعات حمد ونعت منقبت اور حکمت تک محدود تھے۔ لیکن جوں جوں رباعی کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا موضوعات میں تنوع پیدا ہوتا گیا۔جس جس معاشر ے میں رباعی پلی بڑھی ان معاشروں کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی ۔ صوفیاءکر ام کی محفلوں میں حمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی ۔خیام اور سرمد کے صحبت میں حکمت وفلسفہ کا آب حیات پیتی رہی ، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس ودبیر نے پاکیزہ خیالی اور بلندی مضامین سے خدمت کی، اکبر و حالی نے اصلاحی و پاسداری سے ، امجد نے حکمت وفلسفہ سے، جو ش نے الفاظ کا دبدبہ و مناظر فطرت سے ، فر اق نے جمالیا ت و رس سے اردو رباعی کو خوب سنوارا۔ گو یا اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیا اور وقت کی عکاسی کی ہے ۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودومخصوص موضو عات میں پابند نہیں کیا۔ رباعی میںاگر چہ اخلاقی ،مذہبی ، اصلاحی ، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ غالب رہے ہیں لیکن دوسرے موضوعات کا خاطر خواہ ذخیرہ بھی اردو رباعی میں موجود ہے ۔اور موضوعات کا یہ تنوع ظہیر غازی پور ی کے یہاں بھی بھر پور دیکھنے کو ملتا ہے ۔
عموما حمد ونعت جیسے پاکیزہ موضوعا ت کی کثرت استعمال کی وجہ سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس میں کوئی نئی بات کہنے کو نہیں رہ گئی ہے بلکہ انداز جداگانہ ہوگا اور کہنے کو وہی باتیں ہوں گی۔ لیکن جس خدا کے جہاں کی ساری چیزوں کا احصا ایک انسان نہیں کرسکتا تو ان کی حمدو ثنا کا حق کہاں ادا کر سکتا ہے۔ لیکن حمد وثنا میں نئے اسلوب اخذ کر نے اور رباعی کے اسلوب میں تازہ کاری لانے والے ظہیر غازی پوری کو کچھ بھی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ انہوں نے اپنی وسیع النظری کے سبب اس ازلی موضوع کوتخلیقیت کا اعلی پیرہن عطا کیا جس کی وجہ سے ان کی حمدیہ اور نعتیہ رباعی افق کے نئے منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔
’لا‘ میں بھی جھلکتا ہے اسی کا جلوہ 

’کن‘ میں بھی دمکتا ہے اسی کا جلوہ 
آنکھوں میں مقید جو کبھی ہو نہ سکا 

ہر شے ¿ مین چمکتا ہے اسی کا جلوہ 

جو کیف بھی ملتا ہے جدا ملتا ہے 

الہام کا بے مثل مزا ملتا ہے 
کھوجاتا ہے وجدان کی منزل میں جب 

لفظوں میں بھی عرفان خدا ملتا ہے 

ہر سانس ہے ناکردہ گناہی کی طرح 

ہر لمحہ ہے سامانِ تباہی کی طرح 
چھایا رہا افکار پہ احساس خدا 

بھیگے ہوئے کاغذ پہ سیاہی کی طرح 
جب بات حمدو ثنا سے نکلتی ہے تو خدا کی کہی ہوئی باتوں کو دہر اتے ہیں اور ان کے فرمودات کو سامنے رکھ کر اس کی مقبولیت کو بتاتے ہیں، اسی کو لوگ فلسفہ کہتے ہیں اور اسی فلسفہ کے تحت ایک اپنانیا فلسفہ بنا تے ہیں ۔وہ ایک نیافلسفہ نہیں بلکہ ایک مادہ ہوتا ہے جسے مختلف نظروں سے شاعر دیکھتا ہے اور لفظوں کا صورت جسمیہ بنا کر پیش کر دیتا ہے ۔دنیا کے متعلق بھی بہت ساری باتیں ہر مذہب کے اساسی کتب میں موجود ہیں اور انسان اس میں مزید غور کرنے کی جانب راغب ہوتا ہے ۔ انسان مذہبی امور میں اتنا غرق ہوجاتا ہے کہ وہ عشق کی حد تک اس فرمان پر اپنی وارفتگی کا اظہار کر تاہے۔جیسا کہ ’دنیا ‘ سے تقریبا ہر مذہب میں بیزار رہنے کو کہاگیا ہے ۔ اسلام میںدنیا کے لیے ”متاع قلیل“ جیسالفظ استعمال ہوا ہے ۔”متاع “ کے متعلق زمخشری لکھتے ہیں کہ متاع اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورتیں کھانا بناتے وقت صافی کے طور پر استعمال کرتی ہیں ۔ اس کپڑے سے بظاہر کوئی دل نہیں لگاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے جانب راغب ہوسکتا ہے لیکن وہ ضرورت کا کپڑا ہے کہ روٹی پکانے اور برتن پکڑنے کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔دنیا مومن کے لیے اسی ایک کپڑے کی طر ح ہے۔ اسی دنیا کوشاعر جس انداز میں پاتا ہے اپنی رباعیوں میںپیش کر دیتا ہے ۔ ظہیر غازیپوری دنیا کو اس انداز میں دیکھتے ہیں ۔
گلزار کی پرکیف ہوا ہے دنیا 

انساں کے لیے ہوش ربا ہے دنیا 
لیکن مجھے اکثر یہی محسوس ہوا 

ایک پھول پہ شبنم کی ردا ہے دنیا 

شاداب عناصر کی دھنی ہے دنیا 

زرخیز ہے ، دلکش ہے ، غنی ہے دنیا 
سب کچھ ہے مگر اہل خرد کہتے ہیں 

تفسیر غریب الوطنی ہے دنیا 

آواز ہے ، دستک ہے ، صدا ہے دنیا 

سرشاری ¿ احساسِ نوا ہے دنیا
نزدیک سے دیکھا تو یہ احساس ہوا 

اک قید میں جینے کی سزا ہے دنیا 
مذکورہ بالا رباعیوں میں”ایک پھول پہ شبنم کی ردا ہے دنیا ‘ ‘،”تفسیر غریب الوطنی ہے دنیا“،” ایک قید میں جینے کی سزا ہے دنیا“ یہ آخری مصرعے خود میں مکمل ہیںجو رباعی کی اہم خصوصیات میں سے ایک ہے۔رباعی کی سب بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا آخری مصرع ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتا ہو اور یہ خصوصیت ان رباعیوں کے آخری مصرعوںمیں بخوبی موجود ہے۔ اورسب شعر یت کے احساس سے مملو ہیں۔ روکھے سوکھے کا جو لیبل رباعیوں میں لگ گیا ہے وہ اس میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے ۔دنیا کے ذکر کے بعد ان کے یہاں ساکنِ دنیا یعنی انسان کا ذکر بہت ہی نمایاں انداز میںنظر آتا ہے ۔جس میں انہوں نے انسان کے اندر کے بدلتے ہوئے حالات و احساسات ، داخلی کرب و پریشانی ، خارجی معاملات زندگی ،رشتوں کی ریشہ دوانیاں اور اپنے اسلاف سے رشتے جو کہیں کھوسے گئے ہیںو ہ تمام ان کی رباعیوں میںبڑے ہی دردو کر ب اور طنز کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔
اخلاص و محبت کا سراپا انسان 

کونین کی مخلوق میں اچھا انسان 
کیوں شعر کی مانند وہ دو لخت ہوا 

کل تک نظر آتا تھا جو پورا انسان 

مٹی سے بنا شوخ نرالا انسان 

گہوارہ ¿ ادراک کا پالا انسان 
اجداد کی باتیں تو الگ ہی رکھیے 

اب خود کو بھی ہے بھولنے والا انسان 

مردم کش و آزار دہندہ انسان 

فطرت ہی سے لگتا ہے درندہ انسان 
بے بس نظر آتی ہے مشیت بھی جب 

انسان کو کھاجاتا ہے زندہ انسان 
اس سے پہلے ذکر آچکا ہے کہ ظہیر غازیپوری کو رباعی سے زیادہ غزلوں سے محبت ہے ۔اس محبت کو وہ اپنی رباعیو ں میں بھی پیش کر رہے ہیں ۔ جب ہندوستا ن میں جدیدیت کا رجحان بڑھ رہا تھا اس وقت وہ اپنے کلاسیکی اندازمیں جدت و تازگی سے غزل کی مضبوط روایت کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے ۔یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے جتنی جگر کاوی اپنی غزلوں کے لیے کی وہی جگر کاوی رباعیوں کے حصہ میںبھی آئی ۔جس سے غزل کے لیے کلمات عقیدت اپنی خوبصورت رباعیوں سے پیش کر تے ہیں ۔
شبنم کی سبک آنچ میں پلتی ہے غزل 

آغوش میں شعلوں کے بہلتی ہے غزل 
پانی ہو ، ہوا ہو ، کہ ردائے گل ہو 

ہر حال میں جلتی ہے پگھلتی ہے غزل

اب سایہ ¿ اشعار غزل میںآجا 

غم خانہ ¿ معیارِ غزل میں آجا 
دعوی ہے مرا تجھ کو ملے گی عظمت 

اک تو دربار غزل میں آجا 
ارور رباعی کے لیے ان کے دل سے یہ جذبات نکلتے ہیں ۔
وجدان کا ثمرہ ہے رباعی کا فن 

جذبے کا احاطہ ہے رباعی کا فن 
لفظوں کا قبیلہ بھی اگر ساتھ چلے 

معنی کا ذخیرہ ہے رباعی کا فن 
اردو میں وطنی شاعر ی کا ایک دور گذرا ہے ۔ اقبال ، سرور جہان آبادی ، چکبست لکھنوی قومی و طنی شاعر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ۔ظہیر غازیپوری کے یہاں بھی وطنی شاعر ی پائی جاتی ہے ۔ہند اور ہندوستان کا استعمال اردوشاعر ی میں بہت ہی ہوا ہے لیکن بھارت بہت ہی کم ہماری سماعتوں تک پہنچتا ہے شاید اس وجہ سے کہ شعر ی حسن کے معیار کو نہیں اتر تا ہوگا وہیں ظہیر غازیپوری اس کو اپنی رباعیوں میں اس خوبی سے استعمال کر تے ہیں ۔
دلکش مجھے لگتا ہے حسین لگتا ہے 

 ہر پہلو سے وہ لعل و نگیں لگتا ہے 
اقوام میں بھارت جسے کہتے ہیں لوگ 

اس دھرتی پہ اک خلد بریں لگتا ہے 

دل میرا ہے ، سر میرا ہے ، تن میرا ہے 

احساس شفق تابی ¿ فن میرا ہے 
جس پر ہے بہت ناز مجھے بچپن سے 

وہ خطہ ¿ بھارت ہی وطن میرا ہے 
حسن وعشق جیسے مضامین کوفرسودہ سمجھ کر کچھ جدید شاعر اس سے بالکلیہ عہدہ بر آ ہو گئے ہیں۔ لیکن جب ان کی شاعری کے مطالعہ کا اتفاق ہوتا ہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ آخر اس میں شاعرکا دردوکرب کہاں ہے ، اس میں وہ خارجی شے جو داخلی احساس کاروح اختیا ر کر کے شعر کے پیکر میں ڈھلے یا وہ صدا کہاں ہے جو دل کے نہاں خانوں سے ابھرتی ہے ، اس میں وہ جذبہ کہاں ہے جس کو شاعر بہت ہی تڑپ کر بیان کر نا چاہتا ہے ۔حقیقتا وہ صداجو محبوبہ کے پیا ر میں نکلتی ہے چاہے وہ اس کے عشق کا بیان ہو یااس کے حسین حسن و ادا کی تفسیر ہو جب وہ شعر ی پیکر میں ظاہر ہوتی ہے جو اپنے اندر تمام رنگینیاںو رعنائیاں سمیٹے ہوئے ہوتی ہے تب اس کی خصوصیت کو نظرانداز کرنا ناممکن سا ہوتا ہے ۔ظہیر غازیپوری کے ذہن سے بھی حسن وعشق سے مملو کئی رباعیاں تخلیق پائی ہیں جس میں وہ اپنے ذاتی احساس ، اس کی رعنائیاں اور فطر ت کی حسین اداو ¿ں کا عکس جو محبوبہ میں نظر آتا ہے عشق کے فضاو ¿ں کی نذر کر دیتے ہیںاور رباعیوں میں اس طر ح گویا ہوتے ہیں ۔
بولے تو دہن نغمہ سرا ہوتا ہے 

چپ ہو تو بدن نغمہ سرا ہوتا ہے 
تنہا ہو تو اک ایک ادا میں اس کی 

بے ساختہ پن نغمہ سرا ہوتا ہے 

گلشن کبھی جنگل کی ہوا لگتی ہو 

کچھ بھی ہو مگر ہوش ربا لگتی ہو 
جب کیف خودی حد سے سوا ہوتا ہے 

ایمان لرزتا ہے خدا لگتی ہو 

بیگانہ ¿ احساس ابھی ہو جیسے 

جگنو کی طر ح بجھ کے جلی ہو جیسے 
جب بھی اسے دیکھا یہی محسوس ہوا 

معصوم کلی سو کے اٹھی ہو جیسے 
ہمیں ان کی رباعیوں میں تنوع کی کمی نظرنہیں آتی ہے ۔انہوں نے اپنی رباعیوں میں ان سارے خیالات و احساسات کو اجاگر کیا ہے جو ایک عظیم شاعر کے یہاں ابھر تا ہے ۔ ان کی شاعر ی فطر ت ،عشق اور فلسفہ کو لیے ہوئے ہے۔ وہیں ان کی شاعر ی وقت کے آئینہ کے طور پرپیش کی جاسکتی ہے ۔کچھ رباعیو ں میں فارسی رباعیوں کا رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل رباعی میں ہے ۔
رعنائی جان حسن ادا ہے مٹی 

سمجھو تو بڑی ہوش ربا ہے مٹی 
غفلت میں جو ہیں پوچھ رہے ہیں ہم سے 

ہم لوگ ہےں انسان تو کیا ہے مٹی 
ان کے یہاں طنزیہ رنگ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
ہاں آپ تو آفاق سے اترے ہوں گے

الہام کے اوراق سے اترے ہوں گے 
ہم لوگ تو مٹی کے کھلونے کی طرح 

محراب سے یا طاق سے اترے ہوں گے 
دو رباعیاں ان کی فطر ت کے موضوع سے ۔
دنیا کو ضیا بانٹنے والا ہے چاند 

معصوم نگاہوں کا اجالا ہے چاند 
ہر بچے کو گرویدہ بنانے کے لےے 

تھالی میں اترتا ہے نرالا چاند 

اودا کہیں ، اجلا کہیں ، کالا بادل 

روئی کی طرح چرخ میں اڑتا بادل 
پچکاری کسی نے نہیں ماری لیکن 

پوچھو تو اتنا کہاں بھیگا بادل 

٭٭٭

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...