Showing posts with label تبصرہ. Show all posts
Showing posts with label تبصرہ. Show all posts

Thursday 8 December 2022

رباعیات رباب رشیدی

  نام کتاب رباعیات 

نام شاعر رباب رشیدی ( سلمان احمد )

سن اشاعت ۲۰۲۰

صفحات ۲۲۴

 قیمت ۳۰۰ روپے

ملنے کا پتہ رباب رشیدی ، ۱۲۶ ؍تازی خانہ ، امین آباد، لکھنؤ، یوپی ۔۲۶۶۰۱۸

 اردو کے ادبی حلقوں کے لیے رباب رشیدی کوئی نیا نام نہیں ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابر سفید ‘‘ ۱۹۸۴میں شائع ہوا ، اس کے بعد حمد و نعت کے مجموعے بھی منظر عام پر آتے رہے ۔ لیکن وہ خود ہی اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ شروع سے ہی غیر محسوس طور پررباعی سے منسلک رہے لیکن کبھی اس جانب تو جہ نہیں کی اس لیے رباعیاں منتشر تھیں ۔ اب جاکر انہوں نے رباعیاں جمع کیں اور سادگی کے ساتھ ’’رباعیات ‘‘ کے نام سے شائع بھی کیں ۔ اکیسویں صدی کے اِن دو دہوں کی بات کی جائے تو رباعی گوئی کا رجحان بڑھا ہے اور ساتھ ہی رباعیات کے مجموعے شائع کرانے کا بھی ۔ ایسے میں رباعی کے متعلق یہ خوبصورت فضا بھی تیار ہوئی کہ اب رباعی اردو کے ادبی ماحول میں اجنبی صنف سخن کے طور پر نہیں جانی جاتی ہے اور نہ ہی قدیم ذیلی اصناف میں اس کوگردانا جاتا ہے بلکہ موجودہ وقت کی بات کی جائے تو ہر ادبی شہر میں اردو رباعی گو شعرا مل جائیں گے ۔ رباب رشیدی صاحب کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور لکھنوکی ادبی و شعری روایت سے کون واقف نہیں ۔رباعی کی عمدہ روایت لکھنؤ سے منسوب ہے ، رباعی کے بڑے بڑے شعرا لکھنؤ سے وابستہ رہے ہیں اسی روایت کے علَم کو رباب رشیدی سنبھالے ہوئے ہیں ۔ 

 ان کے پیش لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے رباعیات کو زیادہ سنجیدگی سے لیا بھی ہے اور نہیں بھی ،رباعیوں کی اہمیت ان کے یہاں بایں طور پر نظر آتی ہے کہ اپنے پہلے شعر ی مجموعہ ’’ ابر سفید ‘‘ کا دیباچہ انہوں نے رباعی میں لکھا ۔جس سے رباعی کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ رباعیات میں دیباچہ لکھنا فاروقی کی اتباع میں ہے ،یہ کتاب بھی وہ فاروقی کو ہی معنون کرتے ہیں ، فاروقی نے جس طرح اپنے پہلے شعر ی مجموعہ کا دیبا چہ دو رباعیوں میں لکھا ہے ان ہی کی اتباع رباب رشیدی بھی کرتے ہیں لیکن صرف دو رباعیوں سے نہیں بلکہ اٹھارہ رباعیوں سے ۔ اس کے بعد انہوں نے رباعی گوئی کی جانب زیادہ دلچسپی نہیں لی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رباعی گوشعرا میں ان کا نام بہت ہی کم رقم ہوتا ہے ۔لیکن اس مجموعے سے ماضی کا خلا پن دور ہوکر اردو رباعی کی دنیا میں ایک نئی آواز بھی سنائی دے گی ۔ رباعی کی یہ آوازروایتی آواز سے بہت ہی زیادہ مختلف نظر آتی ہے ۔اس مجموعے میں کل چار سو چالیس رباعیاں ہیں ۔ ساری رباعیاں ایک ترتیب سے ہیں ۔عموما رباعیوں کو عناوین کے تحت ذکر کیا جاتا ہے لیکن شروع کی آٹھ رباعیاں بغیر کسی عنوان کے حمد ونعت اور دعا جیسے مضامین کی حامل ہیں ۔ اس کے بعد شہر آشوب کا عنوان درج ہے جس کے بعد پورے مجموعے کی رباعیاں ہیں جن کی تعداد ۴۳۲ہیں ۔ ایسے میں ہم یہی سمجھیں کہ جو شہرآشوب قصائد میں ہوا کرتا تھا وہ ان کی رباعیوں میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن جب موضوعات کی جانب توجہ دیتے ہیںتو تنہائی، حوصلہ، موجودہ حالات ، قیادت ، شہر لکھنؤ ،تہذیب ، فطرت ، رواداری ، مروت ، حدسے تجاوز کے بعد کی کیفیت ، نغمہ، یاد ماضی، دباؤ، حالات ، تلاشِ ذات ، لاچاری، امنگ ، تمناؤں کا ٹوٹنا، روانی و دیگر موضوعات کی حامل رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان موضوعات کو بغور دیکھیں تو یقینا انہوں نے شہرآشوب ہی رقم کیے ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں اصلاح ہے اور نہ صوفیانہ فلسفے کی چھاپ بلکہ موجودہ وقت کی شاعری کی چھاپ مکمل طور پر نظرآتی ہے ۔ ہر صفحہ میںانہوں نے دو رباعیوں کو رکھا ہے ۔ رباعیاں یا تو دو سطروں میں لکھی جاتی ہیں یا چار سطروں میں ، لیکن ان کی رباعیاں دو اشعار کی صورت میں پانچ سطروں میں ہیں جن میں بیچ کی سطراشعار میں فاصلہ کے لیے ہے ۔ اس طریقے سے رباعی لکھنے کا طریقہ پہلی مرتبہ اسی کتاب میں نظرآتا ہے ۔ رباعی کے لیے یہ بات اہم ہوتی ہے کہ اس کے چاروں مصرعے دو دو مصرعے کا شعر بن کر نہ رہ جائے بلکہ چاروں ایک اکائی صورت میں آپس میں مر بوط ہوں ایسے میں مشاہدہ بھی رہا ہے کہ غزل کے شعرا جب رباعیاں رقم کرتے ہیں توان کی رباعیوں میں غزل کے اشعار کی سی کیفیت پائی جاتی ہے جو رباعی میں فنی سقم کی کیفیت کو لاتا ہے ۔ الغرض رباعیاں کہنا اگرچہ مشکل فن ہے ساتھ ہی رباعی کے مزاج کے ساتھ رباعیاں کہنا اوربھی مشکل فن ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو میں رباعی گو شاعر انگلیوں پر گنے جاتے ہیں ۔ اب اس مجموعے سے ادبی حلقوں میں رباب رشیدی کا رباعی گو شاعر ہونا کتنا مؤثر ثابت ہوتا ہے وہ ناقدین کی تحریروں اور عمومی مقبولیت سے بھی ثابت ہوگا ۔ ان کی ایک عمدہ رباعی ملاحظہ ہو: 

 کچھ یوں ہی نہیں ہے کج کلاہی اپنی 

صد شکر روش ہے خانقاہی اپنی 

سچ بات ہے لیکن وہ برا مانیں گے 

منظر سے بڑی ہے خوش نگاہی اپنی 

 امیر حمزہ 

مدرسہ محلہ نوادہ ، ہزاری باغ ،جھارکھنڈ


Thursday 3 March 2022

شہزادہ پرویز عالم


 شہزادہ پرویز عالم


یہ میری بد قسمتی تھی کہ ڈاکٹر اقبال برکی سے اس کتاب سے پہلے کسی قسم کی بھی شناسائی نہیں تھی ۔ انہوں نے نہیں معلوم کہاں سے میرا نمبر حاصل کیا اور واٹس ایپ کے ذریعہ میرا حالیہ پتہ دریافت کیا ، تب بھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ کون صاحب ہیں اور کیوں میرا پتہ دریافت کررہے ہیں ۔ خیر جب ان کی یہ تینوں کتابیں مجھ تک پہنچی تو خوشی ہوئی ۔ جب اس میں بچوں کا ناول ’’شہزادہ پرویز عالم ‘‘ دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی ۔ بچوں کی کہانیاں لکھنے والے ادیبوں کی کثر ت ہے لیکن بچوں کے لیے ناول لکھنے والوں کی تعدا د شاید دس تک بھی نہیں پہنچتی ہو ۔ کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام نے خارجی مطالعے کو بچوں کے نظام الاوقات سے بالکل خارج کر دیا ہے اور دلچسپی نے کچھ اور راہ اختیار کرلی ہے ۔ حقیقت ہے کہ اب بہت ہی کم ادب بچوں کے لیے لکھا جارہا بلکہ بچوں کا ادیب بننے کے لیے بچوں کا ادب لکھا جارہا ہے ۔ صاف سی بات ہے مسئلہ قاری کا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب قاری ملکی سطح پر ملتے تھے ۔ ابھی اگر صرف مالیگاؤں کی بات کی جائے تو وہاں تقریبا ًبیس ایسے افراد مل جائیں گے جو بچوں کا ادب لکھ رہے ہوں گے لیکن اگر بچوں کے درمیان ان تخلیق کاروں کے بارے میں معلوم کیا جائے تو جواب صفر میں آئے گا ۔ بچوں کی بات الگ گزشتہ سال ہی میر ی کتاب( ادب اطفا ل ۔ ادب اور ادیب) پر شکایت کرتے ہوئے ایک صاحب نے یہ کہا کہ اس کتاب میں مالیگاؤ ں کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اور انہوں نے دو تین کتابوں اورمقالات کا ذکر کیا جن میں باضابطہ مالیگاؤں میں ادب اطفال پر خصوصی اور کافی تحریریں موجود ہ ہیں۔ ساتھ ہی انہوںنے اپنے طور پر مالیگاؤ ں کے دس اہم ادیبوں کا ذکر کیا جن میں اتفاق سے ڈاکٹر اقبال برکی کا نام شامل نہیں تھا جب کہ صرف بچوں پر ان کی تقریباً پندرہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں پھر بھی ان کا نام نہ ہونا اب مجھے باعث تعجب لگا ۔
خیر یہ ان کی آپسی بات ہے ۔
کتاب ملنے کے دو دن بعد کل جب یہ کتاب پڑھنا شروع کیا تو دلچسپ کہانی کے باعث پڑھتا ہی چلا گیا ہے اور اس 128 صفحات کو عصر سے رات سونے تک وقفہ وقفہ سے پڑ ھ کرجب مکمل کیا تو خاصہ سرو ر اور سکون ملا، یہی اس کتاب اور ادب کی کامیابی ہے کہ وہ آپ پر کوئی تاثر چھوڑجاتی ہے اور تھکاتی نہیں ہے ۔( زبانی سطح پر آج مجھ پر ایک انکشاف یہ ہوا کہ گزشتہ زمانے میں دلی اور لکھنؤ کی زبان ہوتی تھی لیکن آج اکیسویں صدی میں یونیورسٹیوں کی نثر ی زبان بھی کچھ اسی قسم کی ہے ، جہاں ایک مشہور یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ایسی نثر لکھتے ہیں جس کے ہر جملے میں خشک نظر یے نظر آتے ہیں ، حتی کہ تعزیتی تعزیتی پیغام میں بھی تجریدیت ، علمیت اور جرمن عربیت کی بنت سے چاشنی سے خالی تحریر لکھ جاتے ہیں اور اس میں انہیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ معاون حروف کا معاون افعال سے رشتہ غلط مقام پر قائم ہورہا ہے ۔ وہ اردومیں عربی زدہ زبان کے خلاف رہے ہیں لیکن عربی الفاظ کو دُم بُرید کر کے وہ اپنے لیے نئے اسلوب کی دنیا تلاشتے ہیں ۔ اس کاسابقہ تو ابھی پڑا لیکن سرا تلاش کرنے کے لیے دماغ پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ یونیورسٹی کے کورس میں بطور ریفرینس بک اسی یونی ورسٹی کے ایک فاضل کی کتاب داخل تھی باوجود تمام کوشش کے ایک صفحہ کیا ایک پیرا گراف بھی نہیں پڑھاگیا۔وہی حال اب بھی جاری ہے ) جب آپ عمدہ زبان پڑھیں گے تو وہ آپ کو تھکائے گی نہیں بلکہ فرحت بخشے گی ، ساتھ ہی ان کے یہاں جملے رواں دواں ملیں گے ۔ اسی وجہ سے آپ کو زبان سیکھنے کے لیے انشاپردازوں کی کتابوں کی جانب رہنمائی کی جائے گی ۔ جہاں زبان کی چاشنی آپ کو بھر پور انداز میں ملے گی ۔ )ناول نگاروں کی طرح بیچ بیچ میں اپنی کھوپڑ ی سے زبر دستی فلسفہ نما جملوں کو داخل کر نے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ اسلوب بالکل سادہ اور دلچسپ ہے زبان بالکل عام ہے جو ساتویں کلاس کا بچہ آسانی سے سمجھ سکے ۔
کہانی کا مکمل حصہ تو نہیں لیکن کچھ حصہ مافوق الفطری عناصر پرمشتمل ہے جو بچوں کوبہت زیادہ لبھاتی ہے ۔ شروع میں تخلیق کار نے اپنی بات شامل کر نے کی ایک مقام پر کوشش کی لیکن فوراً ہی کہانی پر واپس آگئے ۔ پھر آگے کہیں ایسا دیکھنے کو نہیں ملا ۔ بچوں کو باندھے رکھنے والاکر دار بدصورت لڑ کی کا کردار ہے ۔ خوبصورت شہزادے کی کہانی میں کسی مقصد کا حصول نہیں ہے بلکہ مقصد تو اس لڑکی کی کہانی میں ہے جس کے حصول میں قاری بھی لگا رہتا ہے ۔ایک زبر دست کمال اقبال برکی اس کتاب میں یہ نظر آئی کہ انہوں نے قاری کو کسی کردار کا ہمدرد بنانے کی کوشش نہیں کی جو عموما غیر شعوری طور پر فن کا ر کرجاتے ہیں کہ قاری کرجاتے ہیں بلکہ یہ ان کا ہنر بھی ہے کہ ساری توانائی کسی ایک کردار کو سنوارنے میں صرف کردیتے ہیں پھر قاری سے پوچھتے ہیں کو آپ کو کون ساکردار اچھا لگا ، ایسے میں قاری کے پاس ایک ہی کردار کے علاوہ دوسرے کردار کی گنجائش بھی نہیں بچتی ہے ۔ خیر ! کہانیوں میں ٹارگیٹ کا ذکر کرجانا قاری پر قابو پانے کا ایک خوبصورت حربہ ہے ، جو اس طرح بھی نہ کیا جائے کہ خبر بن جائے اور نہ اس طرح کیا جائے کہ قاری پر منشا ء کا اظہار بھی نہ ہوسکے ۔ کہانی میں زبان بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ بیانیہ ( یہ لفظ میں شاید پہلی مر تبہ استعمال کررہاہوں ) میں قاری پر کہانی میں موجود ہونے کی کیفیت طاری کرنے کے لیے ہمیشہ حال کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ جس سے قاری ’’ ہوتا تھا ‘‘ سے نکل کر ’ہوا ‘ اور ’ہوتا ہے‘ میں آجائے ۔ جیسے ماضی کے اظہار کے لیے آپ دوجملے لکھیں گے ایک بہت پرانے زمانے کی بات ہے دو سرا بہت پرانے زمانے کی بات تھی ۔لا محالہ پہلے سے قاری اٹیچ ہوجائے گا اور دوسرے سے نہیں ہوپائے گا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر مقام پر آپ ایسا معاملہ کریں بلکہ متن کی جہری قرات سے آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ کی زبان پر کیا اچھا لگ رہا ہے ۔
پر وف ریڈر کے پیشہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھ میں ایک خراب عادت یہ آن پڑی ہے کہ حرف بحرف پوری تحریر پڑھتا ہو ں اور قلم زد بھی کرتا جاتا ہوں، اس کتاب میں بھی کئی مقام پر عطف میں کوتاہی نظر آئی ، جہاں کا ما سے خوبصورتی آتی وہاں حرف عطف اور وصل کے استعمال نے کچھ اچھا نہیں کیا ۔ جملوں میں لفظ ’’ تھا‘‘ کئی مقام پر زائد نظر آیا ، ایسی چند اور چیز یںد یکھنے کو ملیں جن پرغور کیا جاسکتا ہے لیکن کہانی کے پلاٹ ، ارتقا ء اور اختتام پر کوئی کلام نہیں ۔ اس کتاب سے احساس ہوا کہ یقینا آپ ایک عمدہ کہانی کار ہیں ۔

Monday 1 November 2021

انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی

انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی 


 مرتب: انجینئرفیروز مظفر
 اشاعت: 2021
 صفحات: 582
قیمت: 500روپے
 ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
مظفر حنفی اردو کے ادبی دنیا کی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کا ادبی سفر پچا س بر سو ں پر محیط ہے۔ اس عرصہ میں وہ بطو ر تخلیق کار شعر ی اور نثر ی دنیا میں اپنی شناخت سب سے الگ بناتے ہیں۔مظفر حنفی غزلیہ شاعری کے منظر نامے پر جدید لب و لہجہ اور منفر د آواز کے ساتھ ابھر تے ہیں جن کا اظہار وہ اپنے اشعار میں بھی کر تے ہیں۔ادب اطفال میں مروجہ روایت سے ہٹ کرکہانیاں اور نظمیں تحریرکرتے ہیں۔ مظفر حنفی کی ادبی دنیا بہت ہی زیادہ وسیع ہے، انہوں نے1967 سے 2018 تک اپنے چوبیس شعری مجموعے ترتیب دیے۔اپنے ابتدائی ادبی زمانے میں تین اور2015 میں اپنا آخری افسانوی مجموعہ سامنے لائے۔ 1983 سے 2016 تک ادب اطفال پر نو کتابیں تصنیف کیں۔ آخری عمر میں انٹر ویوکے بھی تین کتابیں منظر عام پر لائے۔1978 سے 2014 تک بارہ تحقیقی و تنقیدی کتابیں تصنیف کیں ان کے علاوہ چھ مونوگراف بھی لکھے۔ تیرہ کتابوں کے مرتب و مدون بھی رہے۔گیارہ کتابوں کا انہوں نے ترجمہ بھی کیا۔مزید برآں ایک سفر نامہ بھی ہے۔ ان تمام تصانیف سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ادب کی سیاحی نہیں بلکہ اردو ادب کی باغبانی کی ہے۔ ان کے کارنامہئ چمن میں طرح طرح کے ادبی پھول نظر آتے ہیں اور ان کا کارنامہ ئحیات محض چند بر سوں پر ہی محیط نہیں بلکہ مکمل پچاس برسوں میں پھیلاہوا ہے اور تقریباً 80کتابیں منظر عام پرآتی ہیں۔ کثیر التصانیف ہونے کے باوجود بسیار و زود نویس نہیں کہلائے۔ ایسا شاید اس وجہ سے نہیں ہوا کیونکہ انہیں اپنے فن پر عبور حاصل تھا۔ مظفر حنفی ان خوش نصیبوں میں سے بھی ہیں جن پر تحقیقی مقالہ ڈاکٹر محبوب راہی نے ان کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ ان کے ادبی سفر کے شباب میں ہی (1984) میں تحریر کیا،انہوں نے ناگپور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری اس وقت حاصل کی جب پروفیسرمظفر حنفی جامعہ ملیہ اسلامیں ریڈر تھے۔ یقینا تب ان کے مکمل کارنامے سامنے نہیں آئے تھے البتہ وہ اپنی شعری شناخت حاصل کرچکے تھے۔ جدیدیت سے تو متاثر تھے ہی ساتھ ہی انہوں نے اپنے استاد شاد عارفی کا طنزیہ لہجہ بھی بہت حد تک اختیار کیا اور وہ جدید غزل میں اپنی نئی شناخت قائم کیے۔
 زیر تبصرہ کتاب ا ن کی وفات کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس کتاب سے قبل ڈاکٹر محبوب راہی کی تصنیف اور فیروز مظفر کی مرتب کردہ ایک کتاب مظفر حنفی کی شخصیت و فن پر منظر عام پر آچکی ہے جن کی ضخامت بھی اِ س کتاب کے آس پاس ہے۔ میری دستر س کے مطابق یہ ان کی شخصیت و فن پر تیسر ی کتاب ہے جو ان کی زندگی اور فن کی تکمیل کے بعد سامنے آئی ہے۔ ماقبل کی دوکتابوں سے یہ کتاب بہت حد تک مختلف ہے اول الذکر تحقیقی مقالہ ہے جس میں مظفرحنفی کی کل ادبی سرمایہ کا بیس فیصد کا ہی مطالعہ ہے کیونکہ یہ کتاب 1987 میں شائع ہوئی تھی۔ دو سر ی کتاب میں اپنے عہد کے اساطین ادب کی تحریریں ہیں جو مظفر حنفی کے فن کے دریچے وا کرتی ہیں اور اِس زیر تبصر ہ کتاب میں موجود ہ دور کے افراد کی تحریریں ہیں۔ کتاب کے شروع میں فیروز مظفر کے ذریعہ مظفر حنفی کا تفصیلی توقیت نامہ پیش کیا گیا ہے جس میں سال بہ سال بہت ہی تفصیل سے ان کے کارناموں کو شمار کیا گیا ہے اگر اس کو مختصر علمی سوانح عمر ی کہاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کتاب میں کل چہتر (74) چھوٹے بڑے مضامین ہیں اس کے بعد چھبیس منظوم خراج عقید تیں جس میں پانچ قطعات تار یخ بھی ہیں۔ مرتب نے واضح کیا ہے کہ اس میں دو قسم کے مضامین ہیں، ایک وہ جوان کی زندگی میں ہی لکھے گئے تھے اور دوسرے وہ جو وفات کے بعد تحریر کیے گئے ہیں۔زندگی میں لکھے گئے مضامین فن سے تعلق رکھتے ہیں، بعد کے مضامین میں فنی تحریریں ہیں اور تعزیتی بھی۔ پوری کتاب میں عمدہ تحریریں بکھری پڑی ہیں لیکن جس طرح کتاب کے فلیپ میں مظفر حنفی کی تصانیف کو اصناف میں الگ الگ پیش کیا گیا ہے ویسا کچھ مضامین کی ترتیب میں نظر نہیں آتا ہے۔ اکثر مضامین شاعری سے متعلق ہیں، مظفر حنفی کے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں اس میں ان کے فکشن پر صرف دو مضامین ہیں۔ یادیں اور ملاقاتیں پر کئی تحریریں ہیں،ادب اطفال پر شاعری کے حوالے سے تین مضامین ہیں، پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس بسیط شخصیت کا نام مظفر حنفی تھا ان کے فن و شخصیت پر محیط یہ کتاب نہیں ہے کیونکہ اس میں ان کی ترجمہ نگاری، تحقیق و تدوین، جمع و ترتیب کے فنی مطالعے پر کوئی تحریر نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود یہ کتاب بایں طور اہم ہے کہ اس میں ان کی شاعری کے کئی گوشوں کا خاطر خواہ مطالعہ ملتا ہے، جس سے آج کی نسل کو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جدیدت کے دور میں اس کے اثر ات کو قبول کرتے ہوئے بھی اپنی راہ الگ کیسے بنائی اور ان کی شاعری میں عصری حسیت کے ساتھ حالات پر طنز کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ فصیح اللہ نقیب کا مضمون صرف ایک شعری مجموعہ کے حوالے سے ہے لیکن وہ ان کی شعری کائنات کی مکمل نمائندگی کرتا ہے۔ جدید غزل میں مظفر حنفی کا کیا مقام ہے اس حوالے سے ڈاکٹر ممتا ز الحق، ارشد نیاز ودیگر کے مضامین عمدہ ہیں۔کتاب میں مظفر حنفی کے دو انٹر ویو بھی ہیں ایک طلعت فاطمہ کا اور دو سرا پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا۔ الغرض یہ کتاب ان کے شعری امتیازات کی تحریروں سے پر ہے۔ کتاب کی عمدگی میں کوئی حرف نہیں البتہ ترتیب و تہذیب میں قدرے غور و فکر کر کے فن کے اعتبار سے ترتیب وار پیش کرتے تو مزیدخوبصورتی آ جاتی،  نیز ان کی بسیط شخصیت کے لیے یہ آخر ی کتاب ثابت نہیں ہوگی بلکہ شاعری کے سوا پر بھی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے جس جانب مرتب موصوف انشا ء اللہ توجہ دیں گے۔ کتاب کے ٹائٹل کے لیے انہوں نے نئی راہ نکالی ہے کہ نام کے مقام پر مظفر حنفی کی تصویر استعمال کی گئی ہے یہ کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے مزید تجربہ پر موقوف ہے۔

امیر حمزہ 

Monday 11 October 2021

وہاب اشرفی ذکر، فکر اور فن

وہاب اشرفی ۔ ذکر،فکراورفن 

 وہاب اشرفی ذکر، فکر اور فن

امیر حمزہ


اردو ادب کے اہم و مشہور چنندہ ناقدین و محققین کا نام جب بھی سامنے آتا ہے تو ان میں وہاب اشر فی بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم ہند کے بعد تنقید و تحقیق کا ارتقا نظر آتا ہے۔ نصف اول میں تخلیقی اصناف کا غلبہ تھا نصف ثانی میں تحقیق و تنقید نے اپنی جگہ بنانا شروع کی تو اس زمانے میں تخلیق کاروں کے شانہ بشانہ ناقدین نظر آنے لگے پھر آہستہ آہستہ ایسا وقت بھی آیا کہ ناقدین کا قدنمایاں ہوا اور تخلیق کار ناقدین کی سر پر ستی و کر م فرمائی میں آگئے۔ آٹھویں دہائی تک جدیدیت کے رجحان سے یہ سامنے آنے لگا اس کے بعد متنوع نظر یات کے سہارے فن پارو ں پر مختلف تنقید ی نظر یات سامنے آنے لگے، کوئی کسی کو مشرقیت کی کڑی سے جوڑتا ت،کوئی رجحانات کے سانچے میں تولتا تو کوئی مغربیت کے اسکیل میں ناپنے کی کوشش کرتا تھا۔ نثری فن پارہ تو ہندوستان میں ہی تخلیق پاتا تھا جس میں یہاں کی دیہاتوں کی کھری و کھردری زندگی، قصباتی زندگی اور شہر و ں میں دوڑتی بھاگتی زندگی ہی جی رہی ہوتی اور شعری کائنات میں مشرقی افکار و اقدار وشعریات ہی نظرآتا لیکن ناقدین کی علمی بصیرت و تہہ داری نے فن پاروں کی تہہ داری کو کھولنا شروع کیا اور ان میں کثیر سے کثیر رنگ و معانی تلاش کر کے پیش کیے جانے لگے۔ شاعر ی کی تفہیم کے لیے کئی فلسفے متعارف ہوئے اور عام سی منظر ی، فطری و معاملاتی شاعری کی تنقید بھی کلاسیکی شاعری کے معیار سے بڑھ کر کی جانے لگی الغرض اس عہد میں تنقید نے اپنی ارتقا کا سنہرا دور طے کیا۔اگرچہ کچھ تعبیرات فلسفی موشگافیوں میں الجھ کر رہ گئیں. اسی دور سے پروفیسر وہاب اشرفی کا تعلق ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی کے ساتھ ان ہی کے ہم وطنوں نے یہ تحدید کی ہوئی ہے کہ پر وفیسر کلیم الدین احمد کے بعد بہار میں اگر کوئی مکمل ناقد ہوا تو وہ پروفیسر وہاب اشر فی ہیں۔ اس تحدید کی ہمیں چندا ں ضرورت نہیں بلکہ اردو ادب میں انہوں نے نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں اور اردو ناقدین میں وہ صف اول میں شمار ہوتے ہیں۔ ”تاریخ ادبیات عالم“ اور ”تاریخ ادب اردو‘‘ کے لیے وہ حکومتی اعزازات سے بھی سرفراز کیے گئے۔ انہوں نے بیش بہا کتابیں اور مضامین اردو دنیا کو دیں۔ ان کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ اردو ادب میں جینے والے شخص نہیں تھے بلکہ وہ ایک انجمن تھے جس کے اندر ادبی ماحول مستقل اپنی نیرنگیوں کے ساتھ چمکتا و دمکتا رہا۔ رانچی یونی ورسٹی میں جب تک رہے تو وہاں پابندی سے ایک مجلہ نکالتے رہے جس میں نو آموز افراد کی مستقل تر بیت کی جاتی رہی، سبکدوشی کے بعدانہوں نے سہ ماہی مباحثہ نکالا جو آخری عمر تک جاری رہا جس کے ٣٩ شمارے منظر عام پر آئے تھے۔ ان کے تنقیدی جہان پر نظرڈالیں تو تنقیدی مضامین کے مجموعے کم اور یک موضوعی کتابیں زیادہ نظر آتی ہیں اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وہاب اشرفی صاحب کی علمیت کتنی زیادہ تھی کہ وہ کتابوں کے لانے میں زیادہ مطمئن ہوئے نہ کہ کسی اہم موضوع کو صرف ایک مضمون میں سمیٹ دیا جائے۔ خیر! اُن کے تمام احوال و آثار کو ڈاکٹر سرور حسین نے اپنی اس کتاب میں جمع کیا ہے۔ سرور صاحب کو میں ان افر اد میں شمار کرتا ہوں جن کی تحریروں میں مواد بہت ہوتا ہے ان کی تحریروں میں الجھاؤ نہیں  ہے بلکہ پیچیدہ مسائل کو بھی بخوبی اپنے سادہ سے اسلوب میں حل کرجاتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی جب وہ ”وہاب اشر فی بحیثیت نقاد“ تحریر کرتے ہیں تو تنقیدی نظریات اور فلسفیانہ موشگافیوں میں نہیں الجھتے ہیں بلکہ تعارف کے بعد وہاب اشرفی اپنی کیا رائے رکھتے ہیں اس کو بیان کرجاتے ہیں جس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ جس فلسفہ نقد کو ہم سمجھتے ہی نہیں تھے اب اس پرتو  سوال بھی قائم ہو سکتا ہے۔ الغرض انہوں نے وہاب فہمی کی تفیہم بہت ہی بسط وتشریح سے اس کتاب میں پیش کی ہے۔ چودہ عناوین کے تحت اس کتاب کومنقسم کیا ہے۔جس میں شروع کے چار عناوین تعارف، شخصیت، فکری سماجی و تہذیبی رویہ اور عصری حسیت، ان کی داخلی زندگی پر منحصر ہے جو ان کی عملی و تصنیفی زندگی میں بخوبی نظر آتا ہے۔ پانچواں عنوان بحیثیت نقادہے۔ جس میں مصنف نے ”قطب مشتر ی ایک جائزہ“ سے لے کر ”نسائی تحریک: مضمرات و ممکنات“تک بطور ناقد اپنی صلاحیتوں کو منوایااور ان پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ چھٹے عنوان میں وہا ب اشرفی کی اہم کتابوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ تقریباً ایک سو بیس صفحات پر پھیلا ہوا ہے جس میں ان کی بیس اہم کتابوں پر عمدہ تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے اور جو مضامین کے مجموعے ہیں ان میں ہر مضمون پر تجزیاتی تحریر ہے۔ اس کے بعد آٹھ عناوین میں بطور محققق، مؤرخ، افسانہ نگار،سوانح نگار، نثر ی اسلوب، تبصرہ نگار، بحیثیت صحافی اور بحیثیت شاعر وہاب اشرفی کا کیا مقام و مر تبہ ہے اس کی قدر متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ الغرض وہاب اشر فی کے ذکر،فکر اور فن پر اس کتاب میں انہوں نے بھر پور گفتگو کی ہے جس سے ادب کے شیدائی بخوبی مستفید ہوسکتے ہیں۔

Tuesday 2 February 2021

اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا

   اردو اور عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا 

ڈاکٹر یوسف رامپوری 

قصیدہ شاعری کی وہ صنف رہی ہے جس کا زیادہ تر تعلق شاہی دربار سے رہا ہے ۔ اس کو شاہی صنف سخن بھی کہا جاتا ہے ، ہوبھی کیوں نا جس زبان میں اس صنف نے کمالات حاصل کیے بعد میں اسی زبان یا کسی اورز بان کا قصیدہ وہ مقام حاصل نہیں کر سکا ۔ اس صنف کے ساتھ ایک دوسری خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس نے جس زبان میں بھی جس عہد میں ترقی کی وہ اس زبان کی شاعری کا عہد زریں رہا ہے جیسے عربی میں دور جاہلی، عہد اسلام ، عہد اموی اور دور ِ عباسی میں قصیدہ کا زور تھا تو عر بی میں بھی انہی ادوار کی شاعری کو عہد زریں سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی طر یقے سے فارسی میں دیکھیں تو سبک خر اسانی، سبک عراقی، سبک ہند ی اور سبک بازگشت میں عمدہ شاعری کئی گئی ہے ان ادوار میں فارسی میںبھی قصیدہ کو عروج حاصل ہوا ۔ اسی طریقے سے اردو کو دیکھیں تو دکنی شاعری کا اپنا دور تھا وہاں قصیدہ نے ترقی کی پھر شمالی ہند میں ذوق و غالب تک اس صنف میں خوب طبع آزمائی ہوتی رہی ۔ اسی شاہی صنف کا مو ازنہ اردو اور عربی کے حوالے سے ڈاکٹر یوسف رامپوری نے اس کتاب میں کیا ہے ۔ اردو کی دیگر اصناف کا موازنہ فارسی سے ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ ہمارے یہاں خیال بندی کی باتیں بھی دونوں زبانوں کے حوالے سے سامنے آتی رہی ہیں لیکن اردو اور عربی شاعر ی کا موازنہ جس وسیع پیمانہ پر یوسف رامپوری نے پیش کیا ہے اس وسیع پیمانہ پر نہیں بلکہ ایک محدود پیما نہ پر چند شاعروں کے حوالے سے مطالعات سامنے آئے ہیں ۔ اس کتاب میں طویل علمی اور تحقیقی مقدمہ حقانی القاسمی کا ہے جس میںانہوں نے عربی میں قصیدہ نگاری کے حوالے سے بہت ہی معلوماتی و تحقیقی گفتگو کی ہے ،اسی درمیان کئی مقامات پر اس بات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ عربی قصیدہ نگاری پر جتنا کام انگریزی میں ہوا اتنا کسی اور زبان میں نہیں ہوا ہے ۔(اعنی: عرب اور عجم کی تفریق ہی زبان دانی پر ہے تو انگریزمحققین و ناقدین نے عرب کے اس تعلّی پر کام بھی خوب کیا ) حقانی صاحب نے کئی مقامات پر اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ اردو اور عربی قصائد کے حوالے سے یوسف رامپوری نے جو کام کیا ہے وہ بالکل انوکھا ہے کیونکہ ’’انہوں نے عربی و اردو قصائد کے کینن ، اشتراکات اورافتراقات پر نظر ڈالی ہے ۔‘‘ مصنف نے کس طور پر نظرڈالی ہے اس کو کتاب کے مطالعہ سے معلوم کرتے ہیں ۔

کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ پہلا باب ’’اردو اور عربی قصیدہ گوئی : خصوصیات و امتیازات ‘‘ ہے ۔ اس باب میں مندرجہ ذیل نکات پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔ قصیدہ کے متعلق سب سے پہلے وہ وضاحتی بات یہ لکھتے ہیں کہ عربی میں قصیدہ بہت ہی وسیع مفہوم میں استعمال ہوتا ہے، سات یا اس سے زیادہ اشعار ہوں تو عربی میں قصیدہ ہوتا ہے موضوعات کی کوئی قید نہیں ۔ اردو میں قصیدہ باضابطہ ایک صنف سخن ہے جس کے پہلے کے دونوں مصرعے ہم ردیف و ہم قافیہ ہوں یا صرف ہم قافیہ ہوں باقی اشعار کے دوسرے مصرعے بھی اسی نہج پرہوں ۔ اردو میں قصیدہ کےاجزائے ترکیبی میں مدعاکو بھی شامل کیا جاتا ہے جبکہ عربی و ارد و دونوں میں اس کاالتزام نظر نہیں آتا ہے ۔ا س کے علاوہ جو دیگر چار عناصر ترکیبی اردو قصیدوں میں اہمیت کے حامل ہیں وہ عربی میں ایک ساتھ بہت ہی کم پائے جاتے ہیں۔ قصیدے کی خصوصیات میں سے شوکت الفاظ ، نادر تشبیہات اور پر شکو ہ الفاظ بھی ہیں اس میں عربی قصیدہ تو نمایاں مقام رکھتا ہی ہے اردو قصیدہ بھی اپنی کم دامنی کے باوجود بھر پور کوشش کرتا ہوا نظر ہوتا ہے ۔ جوش تو عربی میں نظر آتا ہے ار دو میں جو ش لانے میں ایک طر ح کا تصنع نظر آتا ہے ۔ عربی قصائد میں فخر و تعلّی کی بات کی جائے تو قصائد کی بنیادی بات نظر آنے لگتی ہے جب کہ ار د و قصیدہ نگاروں کے پاس کوئی ایسی چیز یا وجہ نظر نہیں آتی ہے جس پر وہ فخر و تعلّی کے اشعار پیش کر یں ، عر ب والے تو اپنی نسل پر تو کرتے ہی تھے ساتھ ہی اپنے گھوڑوں کی نسل و دیگر فنون پر بھی فخریہ اشعار پیش کیا کرتے تھے ، جبکہ اردو میں ممدوحین کی بہادر ی و سخاوت کا ذکر کیا گیا ہے ۔وصف نگاری اور سراپانگاری عربی قصیدوں میں فطری انداز میں نمایاں نظر آتی ہے جبکہ ارد و والوں کے یہاں تخیل کی کارفرمائی کے بعد بھی غلوو مبالغہ دیکھنے کو ملتا ہے جس سے سراپا نگار ی حقیقت سے بہت ہی دور چلی جاتی ہے ۔ ہاں ! اردو میں نظموں و مرثیوں میں عمدہ سراپا نگاری ملتی ہے ۔مبالغہ پر مصنف لکھتے ہیں کہ’’ اگر مبالغہ کو قصیدہ کا معیار سمجھا جائے تو اردو قصیدے اس معیار پر کھرے اترتے ہیں اور عربی قصائد سے کئی قدم آگے بڑھ جاتے ہیں ‘‘۔ بالآخر جب موضوعات کی جانب رخ کر تے ہوئے مصنف عربی و اردو قصائد کا تقابلی مطالعہ کرتے ہیں تووہاں اردو قصیدے عربی قصیدے کی بہ نسبت زیادہ متنوع دکھائی دیتے ہیں ۔

 دوسرا باب ’’ عربی کے اہم قصیدہ گو شعرا ء ‘‘ پر ہے۔ اس باب میں انہوں نے سولہ شعرا کا ذکر کیا ہے ۔ زمانہ ٔ جاہلیت سے امر ؤالقیس، زہیر بن ابی سلمیٰ ، طرفہ بن العبد ، لبید بن ربیعہ ، عنترہ بن شداد العبسی اور اعشی قیس کو شامل کیا ہے ۔ عہداسلام سے حسان بن ثابت ، کعب بن زہیر اور حطیۂ ہیں ۔ دورِ اموی سے اخطل ، جریر، فرزدق ، جمیل بثینہ اور عمربن ربیعہ ہیں ۔عہد عباسی سے ابونواس اور متنبی ہیں ۔ان تمام کے بیان میں مصنف نے ان شعراء کی زندگی ، قصیدہ کے موضوعات ، ان کے اہم قصائد کی خصوصیات ، ماقبل کے قصیدہ گو شعراء سے کس طرح مختلف ہیںاور انہوںنے قصیدہ میں کیسی زبان استعمال کی ہے اس کو بیان کیا ہے ۔مصنف نے کئی شعراء کے بارے میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان کا تشبیب اور گریز کس معیار کا ہے اور اس میں کن موضوعات کو بہ کمال ہنر مندی پیش کرنے میں وہ یکتا تھے ۔موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے اس کی نشاندہی بھی کی ہے کہ جاہلی دور کے تقریبا تمام شعرا کا تشبیب ایک طر ح کا نظر آتا ہے لیکن جیسے ہی وہ گریز سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو قصیدہ کے حوالے سے ان کی اپنی شناخت نظرآتی ہے ۔ مصنف نے تما م شعرا کا ایک ہی نہج پر مطالعہ نہیں پیش کیا ہے بلکہ ہر ایک کی نمایا ں خصوصیات کو سامنے لا یا ہے اور کمیوں کو بھی پیش کیا ہے جیسا کہ متنبی کے بیان میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مدح کی وجہ سے متنبی کا مقام بلند بھی ہوا ہے اور وہ اپنے مقام سے گرا بھی ۔‘‘ کیونکہ مدحیہ اشعار میں جھوٹ اور مبالغہ آرائی نے اس کو وہ مقام نہیں دلایا جو دیگر کوملا ۔ البتہ وہ عرض طلب میں بہت ہی بے باک اور فصیح بھی واقع ہوا ہے ، کہ سیف الدولہ کی خدمت میں ایک بار میں ایک ہی شعر میں بائیس درخواستیں رکھ دیں ۔الغرض اس باب میں عربی قصیدہ نگاری کی تفہیم کے لیے بہت کچھ ہے ۔ 

 تیسرا باب ’’ اردو کے اہم قصیدہ نگار شعرا ء ‘‘ پر ہے ۔ اس باب میں بھی انہوں نے عربی کے سولہ شعراء کے مقابلہ میں اردو کے سولہ شعرا ء کو شامل کیا ہے جن میں غواصی، نصرتی ، ولی ، شاکر ناجی ، محمد رفیع سودا، انشا، مصحفی ، ذوق ، مومن ، غالب، اسیر لکھنوی ، منیر شکوہ آبادی ، محسن کاکوری، اسماعیل میرٹھی ، حالی اور نظم طباطبائی ہیں ۔ اردو کے قصیدہ نگاروں کا مطالعہ کریں تو یہاں ترجیحات الگ نظر آتی ہیں اور پیش کش کے بھی مقاصد دیگر نظر آتے ہیں ، یہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے ساتھ ہی متنبی جیسا غلوبھی نظر آتاہے ۔یہاں ایک دوسرے کا رنگ بھی دیکھنے کو ملتا ہے اور ساتھ ہی مدح میں احتیاط کا پہلو بھی نظرآتا ہے ، کوئی بھاری بھر کم الفاظ و تراکیب پر توجہ دیتا ہے تو کوئی نادر مضامین پر ۔مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر آج قصیدہ کا احیا ہوگا توکن کے قصیدے نقشِ راہ ثابت ہوںگے۔ الغرض ڈاکٹر یوسف رامپور ی کی یہ کتاب قصیدہ فہمی کے باب میں مطالعہ کا در وا کرے گی ۔

صفحات : 400 ، قیمت 400، سال اشاعت 2020

ناشر : مر کزی پبلیکیشنز، نئی دہلی 

 

Tuesday 3 December 2019

غزل اور فن غزل

 غزل اور فن غزل


موجودہ وقت میں اردو کے کہنہ مشق استاد شعراء میںظہیر غازی پوری کا اہم نام ہے ۔ان کی شناخت جہاں ایک شاعر کے طور پر ہے وہیں غزل کے اہم ناقد کے طور پر اردو دنیا میں مقبول و معروف ہیں ۔ان کے قلم سے اکثر تحریریں شاعری کی فنی باریکیوںپر اس بے استادی کے دور میں پختہ و ناپختہ شاعر کو متوجہ اور متنبہ کر نے کے لیے معرض وجود میں آتی رہتی ہیں ۔گو کہ وہ اردو کے پروفیشنل نقاد نہیں ہیں لیکن ان سب کے درمیان ایک مستحکم نظر یہ پیش کرنے والے کی شناخت رکھتے ہیں ۔وہ اکثر اپنی تحریر کو بہت ہی چانچ پر کھ کے بعد قارئین کے سامنے پیش کر تے ہیں ۔

مصنف کی زیر تبصرہ کتاب گیارہ عنوانات پر مشتمل ہے ۔سب سے پہلے’ جدید اردو غزل کا دوسرارخ ‘ میں جہاں وہ موجودہ غزل کی بہت ساری خوبیوں کو شمار کر واتے ہیں وہیں و ہ فنی طور  پر ناکام رہنے والوں پر بہت ہی نالاں نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں ’’ در اصل جد ید غزل سے ان لوگوں کو زیادہ نقصان پہنچاہے جو شعری اور فنی تقاضوں سے پوری طر ح واقفیت نہیں رکھتے ‘‘،’’ آج ابہام کو ہنر سمجھا جانے لگا ہے۔ بات صر ف ابہام تک محدود ہوتی تو زیادہ خطر ہ نہ تھا لیکن اب تو قوافی ، اوزان ، تعقید ، اور اضافت کے معمولی معائب بھی جا بجا اشعار میں مل جا تے ہیں اور بے ساختہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ‘‘ (ص۱۹)۔

اس کے بعد’’ غزل ایک جانب دارصنف سخن ‘‘ میں غزل کے اوصاف وخصائص کو شمار کرواتے ہوئے اس کی بھر پور وکالت کرتے ہیں اور’’نیم وحشی صنف شاعر ی میں‘ ‘ کلیم الدین احمد کے اس قول کا منطقی و فلسفی جواب دیتے ہیں ۔اسی کڑی کو وہ آگے ’’ صنف غزل میں مسلسل یلغار ‘‘ میں بڑھاتے ہیں ۔اس میں وہ ستیہ پال آنند کے مضمون ’’ کہی گئی یا بنائی گئی شاعری‘‘ جو ماہنامہ صریر کراچی میں شائع ہوا تھا پر سیر حاصل گفتگو کر تے ہیں ۔اپنی اس گفتگو میں وہ افتخارامام صدیقی، عزیر پریہار، مخمور سعیدی، مصور سبزواری، پروفیسر محمد حسن ، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی ، رام لعل ، ڈاکٹر اسلم حنیف ، برتپا ل سنگھ بیتاب ، جمیل فاطمی ،اندر موہن کیف وغیرہ کو ان کی تحریروں کے ساتھ شامل کر تے ہیں ۔اس پوری بحث میں جو بھی غزل میں یلغار کر تا ہے یا خواہش مند ہے اس کے لیے تسلی بخش جواب ہے ۔’’ نئی غزل میں تخلیقی لفظ و زبان ‘ ‘ پر بحث کر تے ہوئے مصنف نے لفظ و معنی اور موضوع پر بھی بحث کی ہے نیز موجودہ وقت کی شعری زبان کو ان عوامل کی باز گشت کہا ہے جو انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو کرید رہی ہے ۔عروضی و فنی معائب تحر یر کر تے ہوئے مصنف کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ جدید شاعروں میں اکثر یہ خامیاں کسی باریک بیں فن کار استاد شاعر سے تلمذ اختیار نہ کر نے اور مشورہ نہ لینے کی وجہ سے نظر آتی ہیں ۔ اس میں انہوں نے شعر کی جلی و خفی فنی کمیوں کو پیش کیا ہے جو اکثر عدم توجہی او رلا علمی میںشاعر سے سرزد ہوتی رہتی ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے جہاں کئی فنی خوبیوں اور کوتاہیوں کو بیان کیا ہے وہیں خصوصی طور پرایطا ء کا تفصیلی ذکر بھی ہے ۔ایطا ء جو شعر کی اصطلاح میں ایک غلطی کا نام ہے اس کی تفصیلی تعریف استاد شعر اء کی تحر یروں سے نقل کر تے ہیں پھر مصنف اس کی تمام فنی باریکیوں پر سیر حاصل بحث کر تے ہیں اور تمام بڑے شعراء کے کلام میں ایطائے جلی و خفی کو پاتے ہیں ۔ جس سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایطا ء کو ئی بڑا عیب نہیں ہے ۔اس کے بعدردیف و قوافی کے مسائل بھی تحر یر کر تے ہیں ۔

اخیر میں’’ غزل چہر ہ آئینہ در آئینہ ‘‘کے عنوان سے غزل کی تمام پرتوں کو مشہور ناقدین شعر کے حوالے سے اپنے خیالا ت و نظر یات کو مزین کر کے پیش کرتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب سے پہلے ان کی تین کتابیں تنقید کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہیں ۔ان میں سے خصوصاً ’’مطالعہ ٔ اقبال کے چند اہم پہلو‘اپنے موضوع میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ شاعر ی میں کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، رباعی کا بھی ایک مجموعہ ’’دعوت صد نشتر ‘‘1997 میں منظر عام پر آیا ۔

 الغر ض کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ کی طویل محنت ومشقت اور جانفشانی کے بعد اس کتاب کو مارکیٹ میں لایا گیا ہے جو یقینا شاعروں اور غزل شناس حضرات کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے ۔ہمیں امید ہے کہ ادب کے اس بے لوث خدمت گار کو مالک حقیقی سے بہترین اجر ملیگا۔

مصنف : ظہیرؔ غازی پوری 
صفحات :  160
قیمت:  200 روپے
سنہ اشاعت: 2015
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔6
مبصر: امیر حمزہ L-11/14 حاجی کالونی ،غفار منزل ، جامعہ نگر ،نئی دہلی ۔25

امعان نظر

امعان نظر

بدری محمد کا شمارہ موجودہ وقت میں بہار کے ادبی صحافت میں عمدہ نثر نگار کی حیثیت سے ہوتاہے ۔صحافتی مضامین کے علاوہ ان کے تنقیدی ، ادبی و نیم ادبی مضامین رسالوں کی زینت بنتے رہے ہیں نیز گاہے بگاہے ان کے تخلیقی ذہن نے موزوں مصر عے بھی وضع کیے ہیں جس کااچھا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ۲۰۱۱ء؁ میں ایک غزل کا مجموعہ ’’ بنت فنون کا رشتہ ‘‘ شائع ہوکر قبولیت عام حاصل کر چکا ہے ۔
زیر تبصر ہ کتاب مصنف کی دو سری کتاب ہے جو اپنی نوعیت میں اہمیت کی حامل ہے وہ اس طو ر پر کہ اب تک بہت ہی مشہور و غیر مشہور حضر ات کے تبصر ے کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، تا ہم ان میں تبصروں کا انتخاب اس طور پر نہیں جو انتخاب اس کتاب میں عمل میں لایا گیاہے ۔اس میں مصنف نے نہ کسی مصنف کی کتاب پر تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی کسی ناقد کی کتاب پر ، نہ شاعر کے شعری تخلیق پر اور نہ ہی افسانہ نویس کے افسانوی مجموعے پر ، نہ ہی کسی مزاح نگار کے خاکہ و انشائیہ اور طنز و مزاح کے مضامین پر اور نہ ہی کسی ڈارمہ نگار کے ڈراموں پر، نہ ہی سوانح نگار کے حقیت بیانی پر اور نہ ہی کسی سیاح کے سفر نامہ پر بلکہ یہ تمام تبصر ے ملک کے مشہور و معرو ف مجلات کے خصوصی شماروں پر ہیں جس میں ملک کے اعلی وادنی قلم کاروں کی تحریریں شامل ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے ملک کے ۱۱؍اہم مجلات کے ۲۴؍ خصوصی شماروں پر کیے گئے ان تبصر وں کو شامل کیا ہے جو قومی تنظیم ، پندار، راشٹریہ سہارا، سنگم اور فاروقی تنظیم میں شائع ہوچکے ہیں ۔ یہ تمام تبصر ے نہ تو مختصر ہیں اور نہ ہی طویل بلکہ متوازن ہیں ۔

تبصر ہ در اصل تنقید کی ہی ایک شاخ ہے جس میں تبصرہ نگار محض اس کتاب کو موضوع بناتا ہے جس پر وہ تبصر ہ کر رہا ہے نیز اس کے مشتملات پر روشنی ڈالتا ہے اور  قارئین کے سامنے خوش اسلو بی سے پیش کر نے کی کوشش کر تاہے تاکہ قارئین کی توجہ اس کتاب کی جانب متوجہ ہو ۔ ایسے تبصر ے اکثر رسائل و جرائد میں پڑھنے کو مل جاتے ہیں ۔کچھ تبصرے ایسے ہوتے ہیں جو تقابلی ہوتے ہیں ۔ وہ اس طور پر کہ جس کتاب پر وہ تبصر ہ کر رہے ہیں اس موضوع سے متعلق دو سری کتابوں پر بھی ان کی نظر رہتی ہے اور وہ اس چیز کو واضح کر نے کی کوشش کر تے ہیں کہ موجودہ کتاب ماقبل کی شائع شدہ کتابوں سے کس قدر مختلف ہے ، اس نئی کتاب میں کن کن نئی چیزوں کو شامل کیا گیاہے یا تخلیق میں کن کن نئی نظریات و مسائل کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تا ہم اس کتاب میں پہلے طر یقے کوہی اپنا یا گیا ہے ۔

اس کتاب میں زبان ادب ، ماہنامہ انشاء ، نیادور ، کتاب نما اور آج کل کے کئی نمبر وں کا تبصر ہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ مصنف نے کئی دیگر ماہنا موں و سہ ماہی مجلات کے مضامین کو بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہے ، اس کے بعد ان تمام مضامین کے اہم نکات کوتبصر ہ میں شامل کر کے اس مضمون کی وسعت و محدودیت پر گفتگو کی ہے ۔ان تمام میں وہ صرف توصیفی پہلو کو ہی سامنے نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان میں غیر پختگی اور ڈھیلے پن کی جانب بھی اشارہ کرتے جاتے ہیں ۔جیسے حفیظ بنارسی نمبر پر لکھتے ہیں ’’ حفیظ بنارسی کو رسالے اور مشاعرے کا مقبول شاعر بتاتے ہوئے ان کے تر نم کی بار بار تعریف کی گئی ہے جب کہ تر نم شاعری کے لیے ضروری چیز نہیں ہے ۔اس سے شاعر سامع یا مشاعر ہ کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے شاعری کو نہیں ‘‘ ۔

اس میں شامل ایک اہم تبصر ہ ماہنامہ ’’ انشاء‘‘ کے گفتنی نمبر پر بھی ہے ۔ انشاء کا یہ نمبر ف س اعجاز کے اداریوں کا مجموعہ ہے ۔ اس میں انہوں نے ان کے اداریوں کی ستائش کی ہے ، وہیں اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ ان سے بھی اچھے اداریے لکھنے والے موجود ہیں اور رہے ہیں ۔ وہیں دو سری جانب یہ بھی لکھا ہے کہ دوسرے صحافیوں کے لیے اس میں تر غیب ہے کہ اداریے معیاری ہونے چاہیے ۔ کئی تبصرے ایسے ہیں کہ مصنف نے کہیں کچھ چھپانے کے لیے رکھا ہی نہیں بلکہ اپنی شستہ انداز تحریر اور دلکش اسلوب بیان میں تمام نکات و کمیاں کو گنا تے چلے گئے ہیں ، اور یہ بھی نہیں کہ صر ف بڑے پائے کے قلم کار کو ہی زیا دہ پیش کر نے کی کو شش کی ہے بلکہ ریسر چ اسکالر کی تحریروں پر بھی اپنی رائے سے نوازا ہے ۔

اس کتاب میں انہوںنے جن معیاری مجلات کو تبصرے کے لیے انتخاب کیا ہے وہ ان کی تنقیدی ذوق کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ پھر تمام تبصر و ں میں اپنی ایک محکم رائے سے نوازنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مصنف موجودہ دور کے تخلیقی و تنقیدی تحر یروں سے کس قد ر واقف ہیں ۔الغر ض یہ کتاب تبصر ے کے حوالہ سے اہم کتاب ہے جو معلوماتی بھی ہے اور تبصرہ نگار ی میں قدم رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ بھی ۔ امید ہے کہ مصنف کی اس کتاب سے لوگ استفادہ کریں گے اور علمی حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی ۔

مصنف بدری محمد
صفحات ۱۵۲
قیمت ۲۵۱
سن اشاعت ۲۰۱۵
ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی 
مبصر امیر حمزہ ،ریسرچ اسکالر : شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی ،دہلی 

شعرو نثر کی جمالیات

شعرو نثر کی جمالیات 


 کتاب کے اس نام سے آپ روشناس ہوئے تو فوراً آپ کے ذہن میں یہ بات گردش کرنی لگی ہوگی کہ یہ کتاب بھی ان ہی عناوین ، موضوعات اور نظر یات کا احاطہ کر رہی ہوگی۔ جو جمالیات کے عنوان پرلکھی گئیں پروفیسرشکیل الرحمان ، پروفیسر عتیق اللہ ، پروفیسر قاضی عبدالستار ، اصغر علی انجینئراور حقانی القاسمی وغیرہ کی کتابیں ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں آپ کو ۳۲ ؍ شعرا و نثر نگاروں کی تخلیقات پر محض تاثر اتی اور محاسن کومرکوز نظر رکھ کر لکھے گئے تجزیاتی وتاثراتی مضامین ملتے ہیں ۔جن میں سے چند مضامین کی نوعیت کے بارے میں بھی آپ کو متعارف کر اتا چلوں ، اس کتاب کا پہلا مضمون غالب کی یکجہتی کے تصورات پر ہے جس میں انہوں نے قاری کے اذہان میں ان کی شاعری اور زندگی کے حوالے سے یہ سامنے لانے کی عمدہ کوشش کی ہے کہ غالب نے خود کو تمام رسوم وقیود سے آزاد رکھ کر انسانی فطرت کی زندگی کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے اور اسے جیا بھی ہے ۔ساتھ ہی مصنف نے ایک بہت ہی دلچسپ بات لکھی ہے جس پر شاید ہر قاری ضرور کچھ نہ کچھ سوچ کر اپنی رائے قائم کر ے گا۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اپنی تمام تر عظمت و بر گزیدگی کے باوجود بہ ہر حال یک رنگ شاعر ہیں ۔… جبکہ غالب کے ہاں ہمیں عشق بھی ملتا ہے ، در د کوشی بھی اور اپنی حالت زار نشاط نچوڑ لینے کا حوصلہ بھی ۔ یہ وہ خصوصیات ہیں ، جو غالب کو ایک آفاقی شاعر بنادیتی ہیں ۔‘‘ اس کے بعد دومضامین میر و غالب کے ہمعصر’ شمس گلاؤٹھوی ‘اور شاگرد دا غ ’سردار بہادر فریاد‘ کی شاعری پر ہے ۔ یہ دونوں اردو کے اہم ادوار میں اپنی شاعری کرتے ہیں لیکن بعد کے عام قارئین و طلبا کے لیے نہ ہی ان کا نام سامنے آتا ہے اور نہ ہی ان کی شاعری ،جس کو مصنف نے محاسن کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اب شعری محاسن کے بعد پر یم چند کی نثر کی جانب آتے ہیں جہاں وہ ان کے فکشن کے محاسن کے بعد ’ پوس کی رات ‘ پر گفتگو کر تے ہیں ۔ کتاب کا یہاں تک سفر کر نے کے بعد واپس ابتدائیہ کی جانب لوٹتے ہیں جہاں ’’ سخنے چند ‘‘ کے عنوان کے تحت شاہ اجمل فاروق ندوی مصنف کے متعلق لکھتے ہیں ’’ آپ کو ان کے ہاں ہر دور کے فن کار وں پر تنقیدی مضامین ملیں گے ۔ غالب و مصحفی سے لے کر معاصر فن کا روں تک ، انہوں نے ہر اس فن کا ر کے فن پر گفتگو کی ہے ، جس کو کسی بھی ناحیے سے انہوں نے لائق اعتنا سمجھا ۔ ان کی تنقید کا ایسا نمایاں وصف ہے جو ہماری آج کی تنقید میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ‘‘ اس کو نقل کر نے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس میں تین دعوے کیے گئے ہیں ، پہلے تو ’’ ہر دور ‘‘ کا ذکر کیا پھر اس کوغالب و مصحفی سے ہمعصر تک میں خاص کردیا گیا ۔ دوسر ا جس نے بھی کچھ خاص لکھا تنقید کی، اسی کا اضافی جزو ہے کہ ایسا آج کے دور میں عموما ً نہیں کرتے ہیں ۔یقینا یہ تینوں باتیں ان کی اس کتاب میں مکمل طور پر صادق آتی ہیں ،کیونکہ ناقدین عموماً جگر پر لکھتے ہیں لیکن مانی جائسی اور مولانا محمد احمدپرتاب گڑھی کی شاعری پر کون لکھتا ہے ؟ مودودی کی نثر اور فیض کی شاعری پر مضامین آپ کی نظر سے ضرور گزریں گے، لیکن شرافت حسین رحیم آبادی کا ادب اطفال ، متین طارق کی اصلاحی شاعری اور حفیظ میرٹھی کا انقلابی رنگ کاغذوں میں کہاں جھلکتا ہے ۔اقبال کے رنگ میں شاعری کرنے والوں کی فہرست بہت ہی لمبی ہے لیکن مقالات میں پانچ سے دس پر ہی بس کردیا جاتا ہے تو ایسے میں اقبال کے پیرو کار عمر فاروق عاصم عثمانی کیسے سامنے آسکتے ہیں، جن پر مصنف نے روشنی ڈالی ہے ۔بہت ہی کم ایسے جدید اورموجودہ شاعر ہیں جن کی شاعری پر کچھ لکھا جاتا ہو سوائے ان کے شعری مجموعوں پر تبصرے کے ۔تو یہ طلسم بھی ان کے یہاں ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ ان کے یہاںشجاع خاور، پروفیسر وسیم بریلوی اور ڈاکٹر نواز دیوبندی ہیں تو ساتھ ہی تو بہت ہی زیادہ رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مہدی پر تاب گڑھی او ر وقار مانوی بھی ہیں ۔انہوں نے جہاں اسلام فیصل کے دوہوں پر لکھا ہے وہیں طرب ضیائی کی رباعیوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے ۔ الغر ض جو دعوے ’’سخنے چند‘‘ کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے اس پر عمل بھی نظر آتا ہے ۔عموماً زبانی طور پر ہر ادیب دعویٰ کر تا ہے کہ ہم گروہ بندی کے قائل نہیں ہیں ایسا ہی دعویٰ کچھ ان کی طرف سے بھی کیا گیا ہے اس لیے شاید انہوں نے شاید شاعروں کی شہر ت و اہمیت کا خیال کیے بغیر ان کی اہمیت کو اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے ۔ ادب کے قاری اور ہم طلبا کے لیے ایک قابل غور دعویٰ یہ ہے کہ ’’ تابش مہدی اہل فن کے محاسن کو ابھارنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ موجودہ دور میں جب کہ کیڑے نکالنے ، ٹانگ گھسیٹنے اور خورد بین سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کمیاں نکالنے کا نام تنقید پڑگیا ہے ، ایسے ماحول میں ڈاکٹر تابش مہدی کا تحسین آمیز یہ تنقیدی رویہ مزید اہمیت کا حامل ہوجاتا ۔ ‘‘ یہ بھی اس کتاب میں بجاہے کیونکہ کسی بھی معاصر کے فن کی کمیوں پر ایک حر ف بھی نہیں سوائے پہلے مضمون کے جس میں غالب کو آفاقی اور میر تقی میر کو یک رنگی شاعر کہا گیا ہے ۔

مصنف تابش مہدی 
صفحات ۲۸۸ 
قیمت ۳۰۰ روپے
سنۂ اشاعت ۲۰۱۹ء
ناشر ادبیات عالیہ اکادمی ،G5/A ، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ، نئی دہلی 
 تبصر ہ نگار امیر حمزہ 
L11/14 حاجی کالونی ، جامعہ نگر اوکھلا 

Friday 4 October 2019

کوثر چاند پوری

اردو زبان و ادب کی یہ مٹھاس رہی ہے کہ اس نے سب سے زیادہ اطبا کو متاثر کیا ہے اس لیے جو پیشے سے طبیب ہوئے وہ ادب کے مریض بھی ہوئے ۔ اگرسترہویں صدی سے طبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات سامنے آئے گی کہ اکثر اطبا نے اردو زبان و ادب میں کچھ نہ کچھ تعاون پیش کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ طبیبوں نے اپنے مطب کو مشاعرہ گاہ اور ادبی اجلاس گاہ بھی بنایا ۔یہ سلسلہ اب تک کئی شہر وں میں جاری ہے جہاں ماہانہ نشستوں میں طبیبوں کی نمائندگی مسلسل ہوتی رہتی ہے ۔ کوثر صاحب کا بھی تعلق طبابت سے تھا اور آزادی کے بعد افسرالاطبا کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ کوثر صاحب کے عہد کااگر مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگ عظیم سے لیکردوسری جنگ عظیم تک ادبی زرخیزی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ اس کے بعد جدید تہذیب کے پردے بھی کھلنے لگتے ہیں جہاں نثر و شاعری دونوں کر وٹیں بدلتے ہیں ۔شاعری کے نئے ابعاد طے ہوتے ہیں اور نثر کی نئی دنیا آباد ہوتی ہے، اس پوری صدی میں ادب اطفال بھی بہار سے خزاں کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔ اسی عہد میں کوثر صاحب نے اپنی ادبی خدمات سے ادبی دنیا کو اپنی جانب مائل کیا اور اخیر عمر تک ادب میںوہ مر کز بنے رہے ۔کوثر صاحب کی پیدائش ۰۰۹۱ ءمیں ہوئی ، عمر کا اکثر حصہ بھوپال میں گزرا، ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۶۹۱ ءمیں دہلی منتقل ہوگئے ،۳۱ جون ۰۹۹۱ءکو داعی ¿ اجل کو لبیک کہا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
کوثر صاحب کی کل نوے سالہ زندگی میں سترسالہ ادبی زندگی ہے جس میں انہوں نے نثر ی دنیامیں کمال حاصل کیا ۔ ان کی ان ہی ستر سالہ ادبی زندگی کی خدمات ،ذاتی حیات اور تخلیقی جہات کے تمام گوشوں کو اس مونو گراف میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف رشید انجم کی یہ کتاب چار بنیادی عناوین پرمشتمل ہے ۔ شخصیت و سوانح ، ادبی و تخلیقی سفر، تنقیدی محاکمہ اور جامع انتخاب ۔ شخصیت و سوانح کو بہت ہی جامع اور معلومات سے پر پیش کیا گیا ہے جس میں حسب و نسب، خاندانی پیشہ اور موصوف کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہ موصوف میں ادیبوں کی سی نزاکت اور طبیبوں جیسی لطافت تھی ۔اسی کے ذیل میں ابتدائی ادبی سفر کا ذکر بھی ہے کہ ادبی محفلوں میں شرکت کے باعث شاعری کی جانب ان کی طبیعت راغب ہوچکی تھی اور شعرگوئی میں شہرت بھوپال کی سرحدیں پارکر چکی تھیں۔ لیکن ادبی و تخلیقی سفر کے عنوان میں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ابھی وہ شعری سرمایہ اتنا بھی جمع نہیں کر سکے تھے کہ کوئی ایک شعری مجموعہ ہی منظر عام پر لایا جاسکے کہ نثری تخلیقات کی جانب مائل ہوگئے اور باضابطہ افسانوی دنیا میں ایک عہد گزارا۔ ۹۲۹۱ ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” دلگداز افسانے “ شائع ہوکر منظر عام پر آیا جس میں سو لہ افسانے تھے جن میں سے چند افسانوں پر مصنف کی مختصر رائے بھی ہے ۔ ۰۳۹۱ءمیں دوسرا افسانوی مجموعہ ” دنیا کی حور“ شائع ہوتا ہے ۔اس مجموعہ کے افسانوں پر مصنف کی کوئی زیادہ رائے نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پچھلے افسانوں سے یہ افسانے کافی بہتر ہیں ، اول میں نیاز فتح پوری کا عکس ہے تو دوسرے میں پریم چندکی طرح حقیقت پسندی کی جانب مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد ان کے دیگر سات افسانوی مجموعوں کا ذکر ہے ۔ جن پر گفتگو جدا جدا نہیں کی گئی ہے بلکہ اجتماعی تاثر ان افسانوی مجموعوں پر پیش کیا گیا ۔اس کے بعد مصنف کوثر صاحب کے ناولوں کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک ناول کے ذکر کے ساتھ بہت ہی مختصر فنی اور موضوعاتی گفتگو بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں ” سب کی بیوی ‘ کوثر صاحب کا وہ پہلا ناول ہے جسے ٹرننگ پوائنٹ کہا جاسکتا ہے “ ، ” اس ناول میں جنسیات پر ان کا قلم بے باک ہوا ہے “ ۔ دوسرے ناول ” اغوا“ کے بارے میں لکھتے ہیں ” پلاٹ قدرے کمزور ہے ۔ اس ناول میں کہیں کہیں واقعات میں روانی کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے ۔“ اس کے بعد سات اور ناولوں کا ذکر ہے ۔ جن میں سے مصنف ” مر جھائی کلیاں “ کو ثر صاحب کا اہم ناول مانتے ہیں اور ” پتھر کے گلاب“ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو شاہکار ناول کہا جاسکتا ہے ۔ ” محبت اور سلطنت “ میں کوثر صاحب کو ایک اعلیٰ اور منجھے ہوئے فنکار کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں ۔کوثر چاند پوری نے رپور تاژ نگاری میں بھی قدم رکھا تھا اور ” کارواں ہمارا “ ، ” سفر ارض غزل “ جیسے رپورتاژ لکھے ۔جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیںکہ یہ ” بلاخیز قلم کی روانی کے شاہکار مانے جاتے ہیں ، ان میںخیالات کی ندرت بھی ہے ،الفاظ کی طلسماتی قوت بھی ہے ، لسانی پیرایہ بھی اور فن کا منطقی اظہار بھی ہے ۔“ کوثر صاحب نے بچوں کے لیے بھی خوب لکھا اور بھوپال کے ادب اطفال کی تاریخ میں وہ واحد شخص نظر آتے ہیں جس نے بچوں کے لیے پچیس کتابیں (نثرمیں ) لکھیں جن کا ذکر مصنف نے اس مونوگراف میں بہت ہی مختصر اًکیا ہے ۔کوثر صاحب کی تنقید نگاری پر لکھی گئی چار کتابوں ” دیدہ ¿ بینا“ ،” جہانِ غالب “ ، ” فکر و شعور “ اور ” دانش و بینش “ کا بھی احاطہ کیاگیا ہے ۔کوثر صاحب فکر تونسوی کے ہمر عصر تھے اور ان سے مراسم بھی تھے جس کا ذکر اس کتاب میں بھی ہے، صر ف مر اسم ہی نہیں تھے بلکہ ان کے فن طنزو مزاح سے بھی وہ مرا سم رکھتے تھے جس پر ان کی پانچ کتابیں ” مسکراہٹیں “،” موج کوثر“، ”شیخ جی “،”نوک جھونک“اور ”خندہ دل“ منظر عام پر آئیںجس پر مصنف نے کچھ طنزیہ و مزاحیہ تحریر کے نمونے پیش کیے ہیں اور ان پر مختصر تجزیہ بھی ہے۔ سوانح نگاری پر بھی چار کتابیں ”بیرم خاں ترکمان“ ،” اطبائے عہد مغلیہ “ ،” حکیم اجمل خاں “ اور ” جام جم “ ہیں جن کا ذکر دیگر کتب کے مقابلے قدرے تفصیل سے ہوا ہے ۔اس کے بعد کوثر صاحب کی دیگر خدمات کا ذکر ہوا ہے اور جامع انتخاب بھی ہے جیسا کہ ہر مونوگراف میں ہوتا ہے ۔ اس کتاب کو مصنف نے جس محنت اور تگ ود و کے بعد پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اصناف سخن کی تعریف و ارتقا پر گفتگو کی ہے اگر اس کو حذف کر کے موصوف کی تخلیقات کے فن پرمزید گفتگو ہوجاتی تو زیادہ بہتر ہو تا ۔ تاہم یہ کونسل کی اہم اور عمدہ پیش کش ہے۔

نام کتاب کوثر چاند پوری (مونو گراف )
مصنف رشید انجم
سن اشاعت 2019
صفحات 150
قیمت 90 روپے
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر امیر حمزہ K12 ، حاجی کالونی ، غفار منزل ، جامعہ نگر ، نئی دہلی

Thursday 11 July 2019

فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد

فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد 

  کتاب کے انتساب میں جب کوئی محتر م استاد یا بزرگ دانشور کا نام نہ ہو اور تقریظ و بیک کور کی تحر یریں کسی بڑے یا بہت ہی معزز سمجھے جانے والے شخصیات سے نہ لکھوائی گئی ہوں بلکہ ان سب کے لیے نئی نئی کونپلوں کو منتخب کیا گیا ہو تو یہیں سے سمجھ جائیے کہ تقلید سے پرے کی کہانی شروع ہوچکی ہے ۔فہر ست کے مقام پر ” سلیقہ “ نظر آئے گا جس کے ذیل میں ”محسوسات “ میں ریسر چ اسکا لر شہناز رحمن کے احساسات کو اور ’ تلخیات“ میں مصنف کی کتاب لکھنے کے درمیان کی تلخی کو محسوس کر سکتے ہیں ۔اپنی بات کوتلخیات کے عنوان سے قلم بند کرنے میں یقینا شکایتیں پوشیدہ ہیں خواہ وہ ایک ہی رو میں بہنے والی تنقید سے ہویا ایک ہی تجزیہ ، فکر و فلسفہ کو گھسیٹنے والے ناقدین سے ۔مدھم لہجے سے شروع کی گئی بات آہستہ آہستہ تلخی اختیا ر کر تی چلی جاتی ہے اور وہاں جوشیلی شکل اختیار کر جاتی ہے جہاں طلبہ کے حقوق کی پامالی پر بات ہوتی ہے ۔ بات سے جب بات آگے بڑھتی ہے تو مصنف کی ذات سے متعلق ریشہ دوانیوں کا بھی ذکر آتا ہے جو عمو ماً کئی مضامین کو زیر تحریر لاتے ہوئے ان کے ذہن و دماغ کو جکڑ رہی ہوں گی اور فکرکی شائستگی میں نا شائستگی کا عنصر در آرہا ہوگا لیکن مصنف نے بہت حد تک ان تمام پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہیں مدھم تو کہیں گفتگو کی لو کو تیز کیا ہے جس کا عکس آپ کو مضامین میں بھی کہیں کہیں دیکھنے کو ملے گا ۔

 کتاب کو تین حصو ں میں منقسم کیا گیا ہے جن میں سے دو ’ تنقید و تبحیث ‘ تفعیل کے وزن پر ہیں لیکن تجزیہ کے لیے ’تفعلہ‘ پر ہی صبر کر نا پڑا ہے ۔ تنقید کے تحت گیا رہ مضامین ہیں ۔پہلا مضمون" پریم چند کے دلت افسانوں کی قرات اوربین السطور" ہے ۔اس میں، پریم چند کے کئی افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے. سب کا عکس آپ اس اقتباس میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں . ” آخری بات یہ کہ یہ افسانہ ( گھاس والی ) بھی پریم چند کے بہت سے افسانوں کی طرح حقیقت کی کھردری عکاسی سے کہیں زیادہ تصورات کی بنائی ہوئی پینٹنگ معلوم ہوتا ہے “۔ آپ مصنف کے اس قول سے کس حد تک اتفاق کر تے ہیں اس کے لیے آپ کو بین المتونیت سے واپس جا کر پھر متن کے صفحات پر نظریں ٹکانی ہوں گی ۔” اردو افسانے کی خاتون اول - رشید جہاں “ میں آپ جہانِ افسانہ کی کئی جدتوں اور سنتوں کورشید جہاں سے منسوب پائیں گے اور ناقدین افسانہ پر بھی محاکماتی تنقید کی جھلک دیکھنے کو ملے گی ۔” فکشن کا بازیگر : کر شن چندر “ اپنے اندر بہت ہی کشش رکھتا ہے ، ہر ایک پیرا گراف آپ کو اپنی جانب مائل کر ے گا ۔ساتھ میں آپ کو کر شن چندر کے افسانوں میں شعور کی رو، سر رئیلزم ، ایکسر یشنزم ، مو نو لاگ ، غائب مخاطب ،ملفوظات ، سہ ابعادی اور کیر یکٹر اسکیچ سے روشناس ہو ں گے۔ ساتھ ہی مضمون کے آخر میں مصنف لکھتے ہیں ” کاش وہ الفاظ کا کفایت شعارانہ استعمال کرتے اور فن کے نازک اور حساس گل بو ٹوں کو نظریے کی تیز دھوپ کے بجائے اس کی نرم چاندنی میں پروان چڑھا نے کی کوشش کر تے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کے افسانوی ادب کے گلستاں کی بہار دو چند نہ ہوتی “ ۔ ” آخری کوشش والے : حیات اللہ انصاری “ والے مضمون میں ان کی تمام کوششوں اور کاوشو ں کو جو یہ کہہ کر ختم کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے پریم چند کی تقلید کی کوشش کی ہے . اس متعلق مصنف کا عدم تقلید ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ” اسے پریم چند کی تقلید یوں نہیں کہہ سکتے کہ ان کر داروں میں ایک نوع کی واقعیت ، جرا ت ، فہم اور بغاوت نمایاں ہے ۔ ہاں تسلسل یا تجدید کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس میں پر یم چند والی مثالی حقیقت کافی حد تک مفقود اور واقعی صداقت زیادہ نکھری صورت میں موجود ہے “ ۔موصوف میں مثالی حقیقت کے بجائے واقعی صداقت کتنی ہے اس کی تفصیل بھی ان افسانوں کے حوالے سے پڑھنے کو ملے گی ۔” منٹو کی ایک اور قرات “ میں آپ کو منٹو کی نئی دنیا میں لے جائیں گے ۔ جہاں آپ منٹو کی انانیت ، اس کی فن کا ری ، نفسیاتی گرہیں ، فطر ت کا فلسفہ ، بشریت اور شکست و فتح کی نئی تعبیروں سے آپ اپنی فکر کو مہمیز کریں گے ۔” بیدی ، عورت ، جنس اور نفسیات “ اس مضمون میں بہت ہی خاموشی اور اسلوب کا پر سکون ماحول ملے گا ۔بیس صفحہ کے اس مضمون میں آپ کو نئی قرا ت کی جانب کھینچیں گے اور نہ ہی بین السطور اور بین المتونیت میں محصور کرنے کی کوشش کر یں گے بلکہ مذکورہ بالا تینوں عناصر جزئیات کے ساتھ پڑھنے کو ملتا ہے ۔” ممتاز شیریں کا افسانوی طریقہ کار “ مصنف کی ممتاز شیریں پر باضابطہ ایک مکمل کتاب ہے لیکن اس میں تنقیدی مباحث زیادہ ہیں اور اس مضمون میں صر ف افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے ۔کتاب میں دو ہی مضمون ہیں جو بہت ہی خصوصیت کے حامل ہیں ایک یہ اور دوسرا جدید اردو افسانے کی شعریات وہ بایں معنی کہ ان ہی دونوں مضامین میں با ضابطہ حواشی ہیں ۔” عصمت چغتائی کے افسانوں کے حوالے سے ایک اور تحریر “ میں لحاف سے باہر معاشرہ کی چادر میں عصمت و عفت کی کہانیوں کے راز ملیں گے ۔ ” ترقی پسندوں کا پہلا درویش : خواجہ احمد عباس“ میں اس درویش کا افسانوی مملکت کتنا مالا مال ہے اس کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔”علی سردار جعفری کا جہان افسانہ “ میں جو خیالات مصنف کے پریم چند کے متعلق ہیں تقریباً وہی نظر یات یہاں بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں” سردار جعفری کے افسانوں کے مطالعہ سے جو باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں وہ یہ کہ افسانہ نگار غریبوں کی معاشرت اور اس کی نفسیات سے پوری طر ح واقف تو نہیں لیکن بہر حال ہمدردی رکھتا ہے ، اور یہ ہمدردی غریبوں سے غریبوں والی نہیں بلکہ وہ ہمدردی ہے جو غریبوں کو زمینداروں سے حاصل ہوتی ہے “ ۔باب تنقید کا آخری مضمون ” منحرف روایت کا فکشن نگار : پروفیسر محمد حسن “ ہے ۔مضمون میں فکشن اور فکشن نگار تو مکمل طور پر ہے لیکن انحرافیت کم کم ۔

 دوسرا حصہ تبحیث کا ہے جس میں سات مضامین ہیں ۔ پہلا مضمون ” افسانہ ،تخلیقیت اور ارتقائے خیال “ ہے ۔ارتقائے خیال کے لیے پانچ در س ملیں گے واقعہ ، بیان ، زمان و مکان ، بیان میں افعال کا استعمال اور وقت کا صورتحال کی تبدیلی ۔ اور بھی بہت کچھ ہیں لیکن فی الحال ان ہی پانچ کی تفصیل کے لیے مضمون کی تلا ش میں لگ جائیے۔ ” تر قی پسند افسانے کی جمالیات “ میں قدیم روایات پر طنز، سماجی نظام میں تبدیلی کی کوشش ، غربت اور جنس کی جمالیات سے رو برو ہو نے کا موقع مل سکتا ہے بشرط مطالعہ ۔ ” جدید اردو افسانے کی شعریات“ اس مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں” واضح رہے کہ جدید یت یا جدید حسیت اسلوب کا نہیں رویے کا نام ہے ۔ اسلوب کو جدید تصور کر نا یوں درست نہیں کہ ایک مارکسی یا ترقی پسند روایتی افسانہ نگار قدیم اور روایتی اسلوب میں افسانہ لکھ سکتا ہے ........... لہذا جدید افسانہ کے سلسلے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ صر ف علامتی انداز میں لکھا ہوا افسانہ ہی جدید ہے “ ۔ اس مضمون میں آپ مصنف موصوف کو وارث علوی اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان خوبصورت مباحثوں میں پائیں گے ۔” ہم عصر افسانہ ، افسانہ نگار ، ناقد اور قاری“ میں آپ خو د کو کسی نہ کسی مقام پر محسوس کریں گے اور افسانہ کی نئی جہت کی جانب نئے چشمے کے سراغ ملیں گے ۔ ” اردو ناول کی تہذیبی جہات اور چند اہم کردار “ میں نئے پرانے تقریبا بیس ناول کے اہم کر دراوں کا تہذیبی پس منظر پڑھنے کو ملے گا ۔” اردو افسانہ ہمارے عہد میں“ میں بقول نورین اسی (٨٠) کی دہائی والے ہی نظر آئیں گے۔” اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اردو ناول“ موضوع ہیئت فکر و فلسفہ اور سمت و رفتار پر خو بصورت و جامع مضمون ہے. 

تیسرا حصہ تجزیہ پر مشتمل ہے ۔ جس میں دو مضامین ہیں پہلا ” کفن کا متن اور تعبیر کی غلطیاں “ اس میں’ کفن' میں موجود تضادات کا انکشاف کر تے نظر آتے ہیں ساتھ میں اعتراف نامہ بھی دیکھیں” اعتراف کر نا چاہیے کہ ’ کفن ‘ میں حقیقت نگاری کے حوالہ سے ایک آدھ جھول موجود ہے ، یہ پریم چند کے دوسرے افسانوں کی سی مثالیت پسندی سے پاک ہو نے کے باوجود سماجی حقیقت نگاری کی کسوٹی پر صد فی صد کھرا نہیں اترتا ۔ تا ہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپنے موضوع اور فن کے اعتبار سے یہ بے حد خوبصورت اور عمدہ افسانہ ہے “ ۔ ” شہزادہ : نفسیاتی پیچیدگی اور انوکھی تکنیک کا افسانہ“ میں کر شن چندر کے افسانہ ” شہزادہ “ کا تجزیاتی مطالعہ نفسیاتی اعتبار سے مضمون کے آخر تک کہانی کے ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں گے اور انو کھی تکنیک کے متعلق اقتباس ملاحظہ فرمائیں ” یہ ایکسپریشنز م ( اظہاریت ) کی تکنیک ہے جو ظاہر ہے Streem of conciousness سے مختلف ہے ۔ چاہیں تو اسے باطن نگاری بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس میں ذہن میں خاص قسم کے تصورات خلق کر تا ہے ۔جو دیکھنے والوں کو حقیقی دنیا سے دور لے جاتے ہیں “ ۔ الحاصل اس پورے کتاب میں فکشن کی جس تنقید سے آپ زیادہ روبرو ہوں گے وہ ” بین المتونیت “ ہے۔ 

230 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف 200 ہے ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہا س سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔

Wednesday 10 July 2019

منٹو کے نادر خطوط

 منٹو کے نادر خطوط 

تحقیق و تر تیب فاروق اعظم قاسمی 

امیر حمزہ

تلاش و جستجو انسانی فطرت کا خاصہ ہوتا ہے ۔ جس جس میدان میں مسلسل تلاش و جستجو کو برو ئے کار لایا گیا ہے اس میدان میں تر قی دیکھنے کو ملی ہے ۔ جس طر ح سے تحقیق و تجر بات سے دنیا نئی مناز ل طے کر رہی ہے اسی طر یقے سے ہم ادب میں بھی مسلسل تحقیقات سے بلند ی کی جانب گامزن ہیں ۔منٹو اگر چہ پچھلی صدی کا اردو کے اول درجہ کا افسانہ نگار ہے لیکن اس کی بھی کئی چیزیں ہیں جواب تک پر دۂ خفا میں ہیں ۔مثلاًکئی ایسے نام سامنے آتے ہیں جس کو اس نے خطوط لکھے۔ لیکن وہ اب تک ہمارے ادب کا سر مایہ نہیں بن سکے تھے ۔ جن میں سے کچھ کو فاروق اعظم قاسمی نے بہت ہی محنت اور جفاکشی سے ارد وادب کے حوالہ کیا ہے جن کی تعداد 33 ہے ۔ ان نادر خطوط کو جس تحقیق و تلاش کے بعد سامنے لایا گیا ہے وہ ہمیں فن تحقیق کوسکھلا تی ہے اور اس جانب بھی اشارہ دیتی ہے کہ ایک سرا کے ملنے سے دو سرے سر ے کیسے کھلتے جاتے ہیں ۔

منٹو کے خطو ط کے متعلق موصوف نے پانچویں کڑی پیش کی ہے ۔ ان سے قبل 1962ء ، 1969 اور 1991 میں احمد ندیم قاسمی منٹو کے خطوط کی جمع و تر تیب کرچکے ہیں ۔ ان کے بعد اسلم پر ویز نے 2012 میں ان کے خطوط کو مر تب کیا ۔ جس میں انہوں نے قدیم تر تیب سے محض بارہ خطوط کا اضافہ کیا ۔فاروق اعظم قاسمی نے جب سندی تحقیق میں داخلہ لیا تو انہوں نے ’’ منٹو کے خطوط ندیم کے نام‘‘ کے موضوع کاانتخاب کیا۔انہوں نے اپنی تحقیق تو مکمل کی ہی ساتھ ہی ان کی کھوجی طبیعت نے 33 مزید خطو ط سے اردو دنیا کو متعارف کر ایا ۔ اب تک منٹو کے خطو ط سے متعلق یہ پانچویں تحقیق ہے ۔یہ تحقیق بالکل بھی آخری تحقیق نہیں کہی جاسکتی ۔ کیونکہ اب بھی کئی ناموی کی جانب اشارے ملتے ہیں جن کو منٹو نے خطوط لکھے ہیں لیکن ان خطوط تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے ۔

کتا ب کے شروع میں تقریبا 12 صفحات پر مشتمل تحقیق مقدمہ ہے ۔ واقعی یہ مقدمہ اتنا تحقیقی ہے کہ اکثر پیر اگراف میں نئی نئی تحقیقات ان کے خطوط کے متعلق پیش کی گئی ہیں۔ مقدمہ میں انہوں نے سب سے پہلے سابقہ تحقیق کہ منٹو نے سب سے پہلا خط 1937میں لکھا ، اس کو اپنی تحقیق سے مستر د کر دیا اور اپنی تحقیق انہوں نے یہ پیش کی کہ منٹو کا پہلا خط 13ستمبر 1933 کا ہے جو مولانا حامد علی خاں کے نام ہے ۔ اس خط کو بھی موصوف نے اس کتاب میں شامل کیا ہے ۔اسی خط کے متن ’’ از راہ عنایت اپنے گرا می ناموں میں مجھے مکر می اور محترمی ایسے الفاظ سے یا د نہ فر مایا کریں‘‘ سے اشارہ ہورہا ہے کہ اس سے پہلے بھی مولانا حامد علی خاں اور منٹو کے درمیان مراسلت ہوچکی ہے ۔ 

اس کتاب میں آٹھ لوگوں کے نام خطوط ہیں ۔ مولانا حامد علی خاں کے نام 14 ، مصطفی خاں کے نام 5، اپنی بڑی بہن ناصر ہ اقبال کے نام 4، والدہ کے نام 2، مجید امجد اور اختر الایمان کے نام ایک ایک خط ہیں ۔ ان کے علاوہ دو عمومی خطوط ہیں ایک رائیلٹی سے متعلق اور ایک مختلف فیہ افسانہ سے متعلق ہے جو انگریزی میں ہے ۔

موصوف نے مقدمہ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ اسلم پرویز نے جب 2012 میں ان کے خطوط کو جمع کیا تو اس میں انہوں نے بارہ نئے ناموں کا اضافہ کیا ۔ ان کے خطوط کا سراغ تو نہیں لگ سکا البتہ جن ذرائع سے ان ناموں کا پتہ چلتا ہے اس کابھی ذکر نہیں ہے ۔لیکن فاروق اعظم قاسمی ان بارہ ناموں کے علاوہ مزید 19 اسماء کا ذکر کرتے ہیں او ر ان خطوط کے سراغ کا بھی ذکر کر تے ہیں ۔

محقق نے جن خطوط کو تلاش کر کے اس کتاب میں جمع کیا ہے ان خطوط کا تعلق ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی بھی ہے ۔ ان خطوط سے منٹو کے ابتدائی حالات کے بہت سے گوشے روشن ہوتے ہیں ۔ممبئی آنے سے قبل کی زند گی پر سے پردہ اٹھتا ہے ۔ نیز مولانا حامد علی خاں سے متعلق جو خطوط ہیں وہ بہت ہی دلچسپ ہیں ۔ان خطوط میں منٹو اپنی فلم شناسی کا ثبوت پیش کر تے ہیںاور مولانا کے تئیں جو عقیدت و محبت تھی اس کا بھی احساس کر اتے ہیں ۔جن جن کے نام مکتوب ہیں موصوف نے ان کااجمالی تعارف ان کے خطوط سے پہلے پیش کیا ہے اور ان کے خطوط کے اخیر میں حوالہ پیش کیا ہے کہ محقق کو یہ خطوط کہاں سے ملے ۔خطوط میں مذکورہ اشخاص بطور خاص اہل خانہ کا اشاریہ بھی مصنف نے پیش کیا ہے ۔

امید ہے کہ ہمیشہ کی طر ح یہ کتاب بھی مطبوعات کونسل میں سے اہم کتاب ثابت ہوگی اور اس کتاب سے یقینا منٹو کے متعلق تحقیقات کے نئے دریچے روشن ہوں گے ۔مبا رکبا د پیش کر تا ہوں خصوصی طور فاروق اعظم قاسمی صاحب کوکہ انہوں نے اس کتاب سے نئی نسل کی نمائندگی کی اور ثابت کیا کہ ارد و میں نئی نسل سے بہت ساری امیدیں وابستہ کی جانی چاہیے ۔ 

صفحات  62
قیمت  55 روپے 
ناشر  قومی کونسل بر ائے فروغ اردو زبان

تنقیدی دریچہ

 تنقیدی دریچہ 

محمد وصی اللہ حسینی 

تبصر ہ نگار:امیر حمزہ 

دریچہ ایک ادبی اور خوبصورت لفظ ہے ۔البتہ کام وہی لیا جاتا ہے جو کھڑکی سے لیا جاتا ہے نیز دونوں مترادف لفظ بھی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ مترادفات بھی کمال کے ہوتے ہیں ، کہیں کہیں معنی بالکل تضاد کے دے جاتے ہیں جیسے کسی لڑکے کا  نام ’ نور عالم ‘ ہے ۔ عالم اور جہاں کے معنی تو ایک ہی ہے لیکن ان سے کہیے کہ جناب آپ اپنا نام’ نور جہاں‘ بھی تو رکھ سکتے تھے ۔ لیکن اس کا رد عمل کیا ہوگا وہ آپ سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ تو بات یوں ہی مترادف سے نکل آئی ۔
کہتے ہیں کہ دریچہ سے جھانکنا اور دریچہ میں نظر ڈالنا دونوں چیز یں بے ادبی سے گز ر کر بری عادتوں میں چلی جاتی ہیں ۔البتہ دریچو ں کے فوائد سے حکماء سے لیکر ادبا تک کسی کو انکار نہیں ہے ،کیابوڑھے ،کیا بچے اور کیا جوان سب اس کے دیوانے نظر آتے ہیں توچلیے ہم بھی دیوانگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی چٹخنی کو کھو لتے ہیں اور تنقیدی دنیا کی سیر کرتے ہیں ۔

اس تنقید عمارت میں بائیس چھوٹے بڑے اور متوسط دریچے ( مضامین ) ہیں ۔پہلا مضمون ’ وحیدالدین سلیم کی علمی و ادبی خدمات ‘ ہے ۔ عنوان میں لفظ علمی پر کچھ دیر کے لیے رکا پھر مضمون پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ علمی ہی سے سمجھ جانا چاہیے کہ لفظ مولانا کنہی وجوہات کی بنا پر عنوان میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکا ،لیکن علمی اور ادبی مشمولات کو بہت خوبصورتی سے مصنف نے ایڈجسٹ کیا ہے، جو یقینا مزید کی جستجو پیدا کر تا ہے ۔مصنف کا خیال ملاحظہ ہو ’’ راقم کے خیال میں اگر ان کے تبحر علمی و ادبی کارناموں کو الگ کر دیا جائے تب بھی ارد و ادب میں ان کے ’مقام بلند ‘ کے لیے یہی کافی ہے کہ مولانا حالی جیسے شاعر و ناقد ان کے تبحر علمی کے قائل تھے ۔ سر سید جیسے نابغہ ٔ رو زگار نے ان کو اپنا لٹریری اسٹنٹ منتحب کیا تھا اور بابائے اردو مولوی عبدالحق جیسے زبان داں نے عثمانیہ یو نی ورسٹی کے دارالتر جمہ میں وضع اصطلاحات و الفاظ سازی جیسا اہم کام سپر د کیا تھا ‘‘ ۔

’’علامہ سید سلیمان ندوی کے شعری کمالات ‘‘ میں جس قدر کمالات کو تنقید کے دریچہ میں رکھا گیا ہے کہ مضمون پڑھنے کے بعد دل میں جو خیال آیا وہ پیش ہے ’’ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بطور شاعر کم اور بطور نثر نگار زیادہ شہر ت پائی ،جبکہ نثر ی دنیا میں شاید وہ اس مقام کو نہیں پہنچ سکے جتنا اس عہد میں دوسرے تنقید نگاروں کے حصہ میں آیا ‘‘ ۔ گویاان کے شعری دریچے کو ناقدین نے زیادہ کھولنے کی کوشش نہیں کی جیسا کہ فاضل مصنف اپنے اس مضمون میں اشارہ کر تے نظر آتے ہیں ۔

’’ جنگ آزادی کے جانباز سپاہی : قاضی عدیل عباسی ‘‘ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے ، روانی کمال کی ہے ۔ آپ پڑھتے چلے جائیں گے اور مجاہد آزادی کے جہد مسلسل پر رشک کر تے چلے جائیںگے ۔

’’ مجاہد آزادی مو لوی جعفر علی نقوی‘‘ جن کا شمار اٹھا رہ سو ستاون کے اہم مجاہدین میں ہوتا ہے ان کے جملہ خدمات پر ایک جامع مضمون ہے ۔ 

’’ علی بر ادران کی شخصیت سازی میں بی اماں کا کر دار ‘‘ یہ مختصر سا مضمون وسعت کے اعتبار سے کر دار سے زیادہ بی اماں کی قربانیوں کی جھلک زیادہ پیش کر تا ہے ۔

’’ کیفی اعظمی اچھے شاعر ،بڑے انسا ن ‘‘ میں اچھے شاعر سے زیادہ ایک اچھے انسان کے طور پر کیفی اعظمی کو پیش کر نے کی اچھی کو شش کی گئی ہے ۔

’’ جا ں نثا ر اختر کا شعری پس منظر‘‘ اس مختصر سے مضمون میں جاں نثار کے شعر ی پس منظر تک پہنچتے پہنچتے زندگی کا پس منظر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔ان کا شعر ی پس منظر جس میں ’’ گھر آنگن ‘ ‘ کی طر ف میلان میں مجبو ریاں نظر آتی ہیں وہ نظر آئیں گے لیکن شاعری کا نمونہ پیش کر نے کی مجبو ریاں آپ سے پوشیدہ رہیںگی ۔

’’ شکیل بدایونی : ایک رومانی شاعر ‘‘ کے دریچہ سے تنقید کی ایک جھلک ملاحظہ فر مائیں ’’ شکیل بدایونی نے شاعری میں اپنا الگ راستہ اختیار کیا ، اپنے دور کے تینوں رجحانوں میں سے کسی کے اسیر نہیں ہوئے ۔ نہ تو انہوں نے نئے نئے تجر بوں پر توجہ دی ، نہ تر قی پسندی کی وردی پہنی اور نہ ہی جگر مرا د آبادی کی اندھی تقلید کی ۔ بلکہ وہ غزل کے حامیوں سے اس بات سے متفق تھے کہ غزل میں بھی سماجی شعور اور نئے طر ز کی گنجا ئش ممکن ہے ‘‘ ۔ اس مضمون میں رومانی شاعری کے علاوہ شکیل کے یہاں کیا کیا ہے وہ بھی پڑھنے کو ملے گا ۔ ساتھ ہی تحر یکات و رجحانات کے موسم میں کسی کے خریدار و طر فدار نہ ہونے پر بھی زور ہے ۔

’’ کنور مہندرسنگھ بیدی سحر : جامع صفات شخصیت ‘‘ ایک اچھا خراج عقیدت سے بھر پور تاثراتی مضمون ہے ۔

’’ ولی انصاری کی غزلوں کا رنگ اور انداز فکر ‘‘ اس کتاب میں شامل ایک طویل تحقیقی مضمون ہے جس میں مصنف نے کھل کر اپنے اشہب قلم کو رفتا ر دی ہے ۔

’’ خمار بارہ بنکوی (تغزل سے تقد س تک )‘‘ اس مضمون میں آپ کو خمار کے رومانوی رنگ کے تین وجوہات پڑھنے کو ملیں گے ،ساتھ ہی خمار کی شاعری کا عہد بعد اور موضوع بہ موضع اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔

’’ کلام والی کے فکر ی و فنی ابعاد ‘‘ میں مصنف نے بہت ہی سنجیدگی سے والی آسی کی ’ یاس ‘ اور ’ آس ‘ دونوں کو پیش کیا ہے ۔

’’ زندگی اور انسانیت کا رزمیہ نگار ، ڈاکٹر اختر بستوی‘‘ سب سے زیادہ حوالہ جات سے مزین مضمون نہیں !بلکہ مقالہ ہے ۔اس مضمون میں انسانیت سے لیکر شاعریت اور شعر یت تک سب کچھ دریچہ میں سجا نے کی عمدہ کو شش کی گئی ہے ۔

’’ شاطر حکیمی کی نعتیہ شاعر ی‘‘ اس مضمون کو پڑھا پھر پڑھا پھر ایک دن کے وقفہ کے بعد پڑھا اور تحقیق ، تنقید ، تجزیہ و تبصر ہ کے مابین الجھ کر بصارت بصیرت تک کی تر سیل اور بصیرت آؤٹ پٹ دینے میں ناکام رہی ۔لیکن آپ جب مطالعہ کر یں گے تو سب کچھ مل سکتا ہے ۔

’’ملک زادہ منظور احمد کا جہان تنقید ‘‘ اتنا وسیع ہے کہ اس کے لیے ایک ہی مضمون میں جہان تنقید کو سمیٹنا ممکن نہیں۔  اس لیے قلم کی سیاحت کے لیے ایک ہی شہر (کتاب ) ’’ شہر سخن ‘‘ کا انتحاب کیا ۔جس میں شامل ۲۶ چھو ٹے بڑے شہریو ں ( شعرا ء) کے متعلق دلچسپ اقتباسات پڑھنے کو ملیں گے ۔

’’ ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اور اردو ناولٹ ‘‘ میں ناول اور ناولٹ کے مابین جتنی وضاحتیں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کی ہیں ان کی توضیحات مصنف کے قلم سے پڑھنے کو ملیں گی ۔

’’ غزل سرائی کی نئی ادا : جنیوارائے‘‘ اس مضمون کا تعارف اس کی ضمنی سرخی ہی پیش کر رہی ہے ’ شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو‘۔ 

’’ جنگ آزادی میں بستی کے مسلمانوں کا حصہ ‘‘ کتاب کے دیگر مضامین کی طر ح یہ بھی ایک اہم تحقیقی و تعارفی مضمون ہے ۔ اس موضوع پر کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ تا ہم اس مضمون کے مطالعہ کے بعد آپ قلیل سے کثیر کی جانب ضرور راغب ہوں گے۔ اس مضمون میں ضلع بستی کے صرف چھ عظیم مجاہد کا ذکر مختصر طور پر پیش کیا گیا ہے ۔

’’ دانش محل : کتابوں کا تاج محل‘‘ اس مضمون کو پڑھ کر یقینا آپ کے دل میں خواہش اس علم و دانش کے تاج محل سے فیضیاب ہونے کی ہوگی ۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں ’’ دانش محل ایک ادار ہ ہی نہیں ایک تہذیب کا نام ہے ۔ قدیم فن تعمیر پر مشتمل ایک کشادہ اور ہال نما وسیع و عر یض اس دکان میں کتابیں ریک میں بڑے سلیقے سے رکھی گئیں ہیں ۔ کتابوں کی ریک کے اوپر دیواروں میں عظیم علماء ، ادبا ء ، شعراء اور دانشوروں کی تصویر آویزا ں ہیں ۔... . اس سلیقہ مندی اور تزئین کاری سے دکان کا منظر انتہائی حسین نظر آتا ہے ‘‘ 

’’ اردو زبان و ادب میں خواتین کا حصہ ‘‘ یہ مطلقا ایک تعارفی مضمون ہے جس میں تعارف سے پرے صر ف اسما پر صبر کر نا پڑے گا ۔’’ صنعت غیر منقوط ‘‘ میں ہادی عالم اور داعی اسلام سے پرے کی بھی دنیا نظر آئے گی ۔  الغرض کتاب نئے موضوضات بر محیظ ہے جسکا مطالعہ یقینا فائدے سے خالی نہیں ہوگا ۔

صفحات : ۲۱۶
قیمت : ۱۳۳
ناشر : محمد وصی اللہ حسینی ، ۴؍۶۳ ، شتر خانہ ادے گنج ،لکھنؤ ، ۲۲۶۰۰۱


’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...