Thursday 23 November 2023

ادبی نشیمن

موجودہ وقت میں رباعی پر خصوصی شمارہ نکالنے کی ضرورت کیوں آن پڑی جب کہ آج کے سہ ماہی رسالوں پر نظر ڈالیں تو ان کا رجحان فکشن کی جانب زیادہ رہا ہے. یا پھر عمومی شمارے کثیر تعداد میں نکالے جارہے ہیں. البتہ گزشتہ دہائی میں فکر و تحقیق کے کئی نمبر نکلے ہیں جن میں افسانہ نمبر نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی. ناول خاکہ نئی غزل اور نئی نظم پر بھی نمبر شائع ہوئے لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوکر رہ گیا اور اب مستقل عمومی شمارے ہی نکل رہے ہیں. اس درمیان کچھ رسائل کے بہت ہی خاص اور اہم شمارے بھی منظر عام پر آۓ، بلکہ ان کا ہر شمارہ ایک خاص شمارہ ہوتا تھا لیکن رباعی (جسے اردو والے حاشیائی صنف تصور کرتے ہیں) پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. سچ بات کہوں تو تنقید میں موجودہ وقت میں ناول، افسانہ غزل اور نظم کے علاوہ دیگر اصناف کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی جبکہ تخلیق کار اپنی کارکردگی بخوبی ادا کررہے ہیں. اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا ناقدین نے اپنا سیف زون منتخب کرلیا ہے یا پھر مغربی تنقید کی روش میں مشرقی خصوصیات کی حامل اصناف پر خامہ فرسائی میں وہ کوتاہ ہوجاتے ہیں؟ کیا موجودہ وقت میں فکشن نے عوام میں زیادہ جگہ بنا لی ہے یا اس کے قارئین میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے؟ آپ کو جواب ملے گا بالکل بھی نہیں بلکہ جو کچھ بھی ہے وہ آپ بھی بخوبی سمجھ رہے ہوں گے. یہی حال غزل اور نظم کا بھی ہے. جس طرح سے مذکورہ بالا اصناف کے قارئین ہیں اسی طرح سے رباعی کے بھی ہیں۔ جس طرح سے دیگر اصناف کے نمایاں تخلیق کار ہیں،اسی طرح رباعی نے بھی اپنے نمایاں تخلیق کار پیدا کیے ہیں. پھر بھی رباعی کو ادبی مباحث میں کم جگہ کیوں دی گئی ہے؟ جہاں انیس و دبیر کے مرثیوں سے دفاتر کے دفاتر بھرے ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب رباعیات پر صرف ایک فیصد حصہ ہی نظر آتا ہے۔ یہی حال اکبر و حالی اور جوش وفراق کی رباعیات پر مباحث کاہے. اگر امجد حیدرآبادی کی بات کی جائے تو ان پر بھی کوئ خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی. اگر بعد کی رباعیات کی بات کی جائے تو ان پر خال خال تجزیاتی اور تاثراتی مضامین دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن سے رباعی گو شعرا کو حوصلہ ملتا رہتا ہے. یہی کام ادبی نشیمن نے اس شمارہ سے کیا ہے. 
کیا کسی رسالہ کا خصوصی شمارہ کسی پی ایچ ڈی مقالے سے بہتر ہوسکتا ہے. جواب میں ہاں بھی سننے کو مل سکتا ہے اور نہیں بھی. زیادہ تر ہاں سننے کو ملے گا کیونکہ شمارہ مختلف الجہات ہوتا ہے. جبکہ سندی تحقیقی مقالہ بہت زیادہ بھر پور ہونے کے باوجود مختلف الجہات نہیں ہوسکتا لیکن فوری طور پر سلام سندیلوی کا تحقیقی مقالہ آپ کے سامنے پیش کردیا جائے گا. بالکل اعتراض بجا ہے کیونکہ ایسا تحقیقی اور سندی مقالہ (میری معلومات کے مطابق) کسی اور صنف کے متعلق نہیں لکھا گیا ہے جس میں ابتدا سے لے کر موجودہ وقت تک سبھی کا احاطہ کیا ہوگا. لیکن جس طرح سے سارے مقالے ایک جیسے نہیں ہوتے،ٹھیک اسی طرح سے سارے خصوصی شمارے بھی ہمہ جہت نہیں ہوتے بلکہ کچھ رسمی بھی ہوتے ہیں. میرے نزدیک ادبی نشمین کا موجودہ شمارہ دونوں کیفیات کا حامل ہے. 
ادبی نشیمن کا یہ شمارہ میرے لیے کئی اعتبار سے خاص ہے۔ اول تو یہ کہ ٹائٹل میں میری کتاب کو جگہ دی گئ ہے، دوم یہ کہ اس میں میرا بھی ایک مضمون شامل ہے جو یاس یگانہ چنگیزی کے تعلق سے ہے، سوم یہ کہ "کلیات رباعیات جوش" پر حقانی القاسمی کی تحریر جلوہ افروز ہے اور چہارم یہ کہ "رباعی تحقیق" پر جناب شاہد حبیب فلاحی صاحب نے خوبصورت تبصرہ کیا ہے. 
اس خصوصی شمارے کی اشاعت پر میں مدیر ڈاکٹر سلیم احمد اور معاون مدیر ڈاکٹر شاہد حبیب صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اب تک رباعی کے جو شمارے منظر عام پر آئے ہیں اور میری نظر جہاں تک پہنچی ہے ان سب میں یہ شمارہ تمام شماروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ پچھلی صدی میں ناوک حمزہ پوری صاحب کی ادارت اور نگرانی میں گلبن احمد آباد کا رباعی نمبر شائع ہوا تھا جس کا ذکر کئی جگہوں پر مل جاتا ہے۔ اس کے بعد فراغ روہوی مرحوم نے دستخط کا رباعی نمبر شائع کیا تھا جس میں رباعی کے فن،موضوع اور روایت پر بہت ہی کم نظر ڈالی گئی تھی. ماہنامہ شاعر کا بھی (ایک مخصوص) رباعی نمبر شائع ہوا ہے. 
رباعی کے موضوع پر کتابوں کی بات کی جائے تو گزشتہ صدی میں کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ہیں جن میں فرمان فتح پوری کی "رباعی فنی اور تاریخی ارتقا"، سلام سندیلوی کی ضخیم کتاب 'اردو رباعیات" وحید اشرف کچھچھوی کی "مقدمہ رباعی" خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ موجودہ صدی میں "تنقید رباعی" فرید پربتی نے اور شاید اس سے پہلے یا قریب قریب ناوک حمزہ پوری نے بھی "ساگر منتھن" تصنیف کی. پھر بعد میں سلمہ کبری صاحبہ کا ایک اہم کام "اردو رباعی میں تصوف کی روایت" منظر عام پر آیا، یحییٰ نشیط صاحب "رباعی میں ہندوستانی عناصر" کے حوالے سے ایک کتاب منظر عام پر لائے اور کئی دیگر لوگوں نے بھی خامہ فرسائی کی اور اس کی مختلف جہات کو منظر عام پر لاۓ. ہر موقع پر رباعی کے فروغ کی بات کی گئی لیکن اس صدی میں رباعی کی صورتحال بطور کمیت گزشتہ صدی کے نصف آخر کے مقابلے کافی بہتر ہے جس کی جھلک رسائل اور دیگر نشریات میں کافی دیکھنے کو ملتی ہے. 
 اس رسالے کی بات کریں تو مطالعہ کرتے ہوئے اسلم حنیف صاحب کے مضمون کو جب میں پڑھنے لگا تو اس میں مجھے کئی نئ چیزیں مل گئیں۔ انہوں نے شروع کے 24 اوزان کو تو شمار کیا ہی ہے ساتھ میں زار علامی اور سحر عشق آبادی کے بھی اوزان کو شامل کیا ہے. اس کے بعد وہ رمز آفاقی کے اوزان کو شمار کرتے ہیں۔پھر ان سب کو ملا لیتے ہیں تو ان کی تعداد 84 ہو جاتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان 84 اوزان پر جمنا پرشاد راہی نے رباعیاں کہیں ہیں جو ان کے مجموعہ میں موجود ہیں۔ اب بھی اوزان میں تجربات جاری ہیں، تجربات کا مستقل ہونا یہ بتلاتا ہے کہ یہ صنف پابندیوں کے لحاظ سے بھی اتنی پابند نہیں ہے جتنا کہ اسے محصور کر دیا گیا ہے بلکہ یہ مستقل تجربات کے دور سے گزررہی ہے. 
دوسرا حصہ رباعی تحقیق و تنقید ہے جس میں کئی قسم کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مخصوص رباعی گو شعرا اور بالعموم سبھی رباعی گو شعرا کا ذکر مضامین میں ملتا ہے. صوبائی خدمات پر پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے لکھا ہے اور اس سے پہلے والے حصے میں بھی مجموعی طور پر حافظ کرناٹکی نے "رباعی فن اور امکانات" کے تحت عہد قدیم سے لے کر عہد حاضر تک کے شعرا کا احاطہ کیا ہے. صوبائی میں صرف کرناٹک کے حوالے سے پروفیسر مقبول احمد مقبول کا مضمون ملتا ہے جبکہ اگر اسی نوعیت کو آگے بڑھاتے تو مہاراشٹر، بنگال، بہار، یو پی اور دیگر صوبوں میں رباعی گو شعرا کی اچھی تعداد مل جاتی. (بہار میں رباعی کے حوالے سے کونسل میں ایک پروجیکٹ مکمل ہوا ہے). 
اگر قدیم رباعی گو شعرا پر نظر ڈالیں تو رواں، جمیل مظہری، خیام، الطاف حسین حالی، عبدالغفور خان نساخ، علامہ اقبال، زیب النسا زیبی، یاس یگانہ چنگیزی، فراق، فضا ابن فیضی، شوق نیموی اور جوش پر مضامین ہیں۔ 
جدید رباعی گو شعرا میں ظفر کمالی، پرویز شاہدی، مامون ایمن، ظہیر غازی پوری، ناوک حمزہ پوری، شاہ حسین نہری اجتبی رضوی، صادقین، کوثر صدیقی، اشراق حمزہ پوری، فرید پربتی، طہور منصوری نگاہ، نور محمد یاس، عاصم شہنواز شبلی، عابدہ شیخ کی رباعی پر مضامین پڑھنے کو مل جاتے ہیں.مجموعی طور پر لکھنے والوں میں دبستان لکھنو، اردو کے غیر مسلم رباعی گو شعرا، میرٹھ کے اہم رباعی گو شعرا پر مضامین ہیں. 
موجودہ وقت میں کم از کم 100 شعرا تو ضرور ہیں جو بہت ہی خوبصورت رباعیاں لکھ رہے ہیں۔ معنوی اعتبار سے ان کے ہاں مضامین کی نیرنگی ہے تو ساتھ ہی رباعی کے فن پر گرفت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان میں سے چند شعراء کے نام جن کی رباعیاں اس شمارہ میں شامل ہیں، مخمور کاکوروی، شاہ حسین نہری، پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال، طہور منصوری نگاہ، ذکی طارق، اسلم حنیف، ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی، سلیم سرفراز، محمد انورضیا، ڈاکٹر فرحت نادر رضوی، اعجازمان پوری، فیضی سمبلپوری، فہیم بسمل، ساجدہ عارفی، ڈاکٹر ہارون رشید، معید رہبر، زیب النسا زیبی، مصباح انصاری، محسن عظیم وغیرہ ہیں.
تبصرہ کے گوشہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جن چھ کتابوں پر تبصرے ہیں وہ سارے رباعی سے تعلق رکھتے ہیں.
آخر میں طباعت کی بات کی جائے تو ماہنامہ رسائل کے سائز میں یہ سہ ماہی نکلتا ہے،(6*8.5 میں) اگر یہ چار سات میں شائع ہوتا تو زیادہ خوبصورت بھی ہوتا، لاگت بھی کم آتی اور ضخامت میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا. 
بہر حال رباعی پر خصوصی نمبر شائع کرکے اس صنف کو موضوع بحث و تخلیق بنانے کے لیے پوری ادبی نشیمن کی ٹیم کو مبارکباد............. امیر حمزہ

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...