Thursday 25 February 2021

فعل ‏مجہول، ‏فعل ‏لازم ‏، ‏فعل ‏متعدی ‏

آپ جانتے ہیں کہ معروف کا تعلق گردان ( افعال ) میں ان سے ہوتا ہے جن میں اسم فاعل ظاہر ہوتا ہے ۔ یعنی یہ معلو م ہوتا ہے کہ کام کرنے والا شخص کون ہے ، لیکن مجہول میں اسم فاعل کا پتہ نہیں ہوتا ہے یعنی اس چیز کی خبر نہیں ہوتی ہے کہ کام کرنے والا کو ن ہے ۔ اب اس کو مثال سے اس طر ح سمجھتے ہیں۔ ماضی مطلق معروف ہوتا ہے’’ خط لکھا‘‘ ۔ اس کا جب مجہول بنائیں گے تو وہ اس طر ح ہوگا’’ خط لکھا گیا‘‘۔ اب دوسری بات یہ دھیان میں رکھنی ہے کہ فعل مجہول اسی فعل سے بنتا ہے جس کا تعلق صرف فعل متعدی سے ہوتا ہے فعل لازم سے نہیں ۔ اب آپ کے لیے یہ مشکل ہوگیاکہ فعل لازم کسے کہتے ہیں اور فعل متعدی کیا چیز ہوتی ہے ۔تو یہ بنیادی باتیں جانتے ہوئے چلتے ہیں کہ فعل لازم اس فعل کو کہتے ہیں جس میں صرف فاعل کے ساتھ مل کر جملہ مکمل ہوجائے جیسے گھوڑا دوڑا ، سلمان بیٹھا ، نور سویا اور صبا جاگی وغیرہ ۔ان جملوں میں دوڑا ،بیٹھا ، سویا اور جاگی فعل لازم ہیں ۔ان مثالوں میں یہ نظر آرہا ہے کہ ایک فعل (دوڑا) اور ایک فاعل(گھوڑا ) سے مل کر جملہ مکمل ہوجارہا ہے کسی تیسرے کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ہے۔ اسی لیے اس کو فعل لازم کہتے ہیں کہ جس کا فعل فاعل پر ہی مکمل ہوجائے ۔فعل متعدی اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کام کو پورا کرنے کے لیے فعل کو فاعل کے ساتھ مفعول کی بھی ضرورت محسوس ہو جیسے حامد نے خط لکھا ، نور نے دودھ پیاوغیرہ ۔

فعل مجہول کو سمجھنے کے لیے آپ کو ان باتوں کا علم ہوگیا کہ فعل معروف اور مجہول میں کیا فرق ہوتا ہے نیز لازم کسے کہتے ہیں اور متعدی کسے کہتے ہیں ۔ فعل مجہول بنانے کا طریقہ بھی کوئی مشکل نہیں ہے ۔وہ اس طر ح ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ فعل مجہول ہمیشہ فعل متعدی ہی سے بنتا ہے، تو سب سے پہلے ایک فعل متعدی کا انتخاب کرتے ہیں۔ جیسے پڑھنا ، لکھنا ، کھانا ، پینااور خریدنا وغیرہ فعل متعدی ہیں ۔ان ہی میں سے پڑھنا کو منتخب کر تے ہیں اور اس سے ماضی مطلق کا صیغہ بنا تے ہیں، تو ’پڑھنا ‘سے ماضی مطلق’ پڑھا‘ہوا ۔ اب اس کے ساتھ ایک اور مصدر’ جانا‘ کا انتخاب کر تے ہیں یہ مصدر تمام افعال مجہول میں استعمال ہوگا ۔ یہ مصدر تمام افعال کے گردان میں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ نظر آئے گا جیسے ماضی مطلق میں جانا سے گیا، ماضی بعید میں گیا تھا ، ماضی ناتمام میں جایا کرتا تھا ، ماضی احتمالی میں گیا ہو یا گیا ہوگا ، حال میں جائے ، مستقبل میں جائے گا ۔ یہی(جانا ) فعل مجہول کی شناخت بھی ہے۔ اب مختلف افعال سے مختلف زمانے کی مجہول کی گر دان ملاحظہ فرمائیں ۔
فعل ماضی مطلق مجہول: اس کی کتاب پڑھی گئی، ان کی کتابیں پڑھی گئیں ، تمہاری کتاب پڑھی گئی ، تم سب کی کتابیں پڑھی گئیں ، میر ی کتاب پڑھی گئی ، ہماری کتابیں پڑھی گئیں ۔

فعل ماضی بعید مجہول: اس کا خط لکھا گیا تھا ، ان کے خط لکھے گئے تھے ، تمہارا خط لکھا گیا تھا ، تمہارے خط لکھے گئے تھے ، میرا خط لکھا گیا تھا ، ہمارے خط لکھے گئے تھے ۔
فعل حال مجہول: وہ سنا جاتا ہے ، وہ سنے جاتے ہیں ، تم سنے جاتے ہو، تم سب سنے جاتے ہو، میں سنا جاتا ہوں ، ہم سب سنے جاتے ہیں ۔

فعل حال احتمالی مجہول: وہ لایاجاتا ہوگا ، وہ سب لائے جاتے ہوں گے ، تو لایا جاتا ہوگا ، تم سب لائے جاتے ہوگے ، میں لایا جاتا ہوں گا ، ہم سب لائے جاتے ہوںگے ۔

فعل ا مر مجہول: وہ سنا جائے ، وہ سنے جائیں ، تو سنا جائے ، تم سب سنے جاؤ، میں سنا جاؤں ، ہم سنے جائیں 
فعل مستقبل مجہول : وہ لکھا جائے گا ،وہ لکھے جائیںگے ،تو لکھا جائے گا ، تم لکھے جاؤگے ، میں لکھا جاؤں گا ، ہم لکھے جائیں گے ۔

Sunday 21 February 2021

اردو کی گردانیں فعل ماضی اور مستقبل کی گردانیں

اردو کی گردانیں
فعل ماضی اور مستقبل کی گردانیں


’ ہنسنا‘ اور ’ کھانا ‘ سے ماضی مطلق کی گر دا ن دیکھیں 

فعل ماضی مطلق 

واحد غائب     جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ ہنسا         وہ ہنسے         تو ہنسا         تم لوگ ہنسے    میں ہنسا     ہم ہنسے 

اس نے کھا یا     انہوں نے کھایا    تونے کھایا     تم لوگ کھائے     میں نے کھایا     ہم لوگ کھائے  

 ماضی قر یب اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کے حال فی الحال ہو نے کے متعلق معلوم ہو ۔جیسے’’ وہ آئے ہیں ‘‘ یہ ماضی قر یب کا ایک صیغہ ہے ۔
 ماضی قریب بنانے کا طریقہ: ماضی قریب بنتا ہے ماضی مطلق ( و ہ لایا ) کے آخر میں لفظ ’ہے ‘ ، ’ ہیں ‘ اور ’ ہو‘ کے اضافے سے ۔ واضح رہے کہ یہ سب ایک ہی ہیں صرف صیغے کے اعتبار سے ان کی ہیئت بدلتی رہتی ہے ۔ اب ماضی قریب کی گردان مصدر ہنسنا اور کھانا سے ملاحظہ فرمائیں ۔
فعل ماضی قریب 
واحد غائب     جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ ہنساہے     وہ ہنسے ہیں     تو ہنسا ہے      تم ہنسے ہو     میں ہنسا ہوں ہم ہنسے ہیں 

وہ کھایا ہے     وہ کھائے ہیں    تو کھایا ہے     تم کھائے ہو     میں کھایا ہوں     ہم کھائے ہیں 

 ماضی بعید اس فعل کو کہتے ہیں جس سے کسی کام کے کر نے اور ہو جانے کی جانکاری بہت ہی پہلے زمانے میں معلوم ہو ۔ جیسے وہ آیا تھا ۔ اس فعل کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں لفظ ’ تھا ‘یا ’تھے ‘ ہوتا ہے۔ اس لفظ کی پہچان ہی یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے کے زمانے میں کسی کام کا پتہ چلے ۔ اب ماضی بعید کی گر دا ن  ۔اس گر دان میں ایک تبدیلی کی جارہی ہے کہ پہلے مذکر کی گر دان پھر مؤنث کی گر دان لکھی جارہی ہے ۔
فعل ماضی بعید
واحد غائب     جمع غائب         واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم         جمع متکلم 
وہ پڑھا تھا      وہ پڑھے تھے    تو پڑھا تھا     تم پڑھے تھے    میں پڑھا تھا     ہم پڑھے تھے
وہ پڑھی تھی    وہ پڑھی تھیں    تو پڑھی تھی     تم پڑھی تھی     میں پڑھا تھا     ہم پڑھے تھے

ماضی ناتمام : اس ماضی کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کے ماضی میں ہونے کی تو جانکاری ہو لیکن وہ کام پور ا نہیں ہوا ہو یا اس کام کے مکمل ہونے یا نہ ہونے کے متعلق علم نہ ہو ۔ اس کے لیے ماضی بعید کا بھی صیغہ استعمال ہوتا ہے جیسے ’’ وہ لایا تھا ‘‘ آپ سو چ رہے ہوں گے کہ یہ تو ماضی بعید کا صیغہ ہے ۔ ہاں یہ ماضی بعید کا صیغہ ضرور ہے لیکن موقع کے لحاظ سے ماضی ناتمام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس کے لیے ’ ’وہ لایا کر تا تھا ‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے ۔اب گردان ملاحظہ فرمائیں ۔
ماضی ناتمام 

وہ کیا تھا 
یا 
وہ کیا کر تا تھا 

وہ کیے تھے 
یا 
وہ کیا کر تے تھے

تو کیا تھا 
یا 
تو کیا کر تا تھا

تم کیے تھے 
یا 
تم کیا کرتے تھے 

میں کیا تھا
یا 
میں کیا کرتا تھا

ہم کیے تھے
یا 
ہم کیا کرتے تھے

وہ کی تھی 
یا 
وہ کیا کر تی تھی

وہ کی تھیں 
یا 
وہ کیا کر تی تھیں

تو کی تھی 
یا 
تم کیا کر تی تھی 

تم کی تھی 
یا 
تم کیا کر تی تھی

میں نے کیا تھا
یا 
میں کیا کر تا تھا

ہم کیے تھے
یا 
ہم کیا کرتے تھے

ماضی احتمالی: ماضی کی وہ قسم ہے جس کے فعل میں شک کی گنجائش ہوتی ہے یعنی گزرے ہوئے زمانے میں کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا شک پایا جائے جیسے حبیب دہلی گیا ہوگا ۔شگفتہ اسکو ل گئی ہوگی ۔ان مثالوں سے کسی کام کے گزشتہ زمانے میں ہونا یقینی معلوم نہیں ہورہا ہے بلکہ وہ کام ہوا بھی ہوگا اور نہیں بھی ہوا ہوگا ۔ ماضی احتمالی بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ ماضی مطلق کے اخیر میں صر ف’’ ہوگا ‘‘ کا اضافہ کیا جائے جیسے ’’ حبیب دہلی گیا ‘‘ (ماضی مطلق ) اور ’’ حبیب دہلی گیا ہوگا ‘‘ ماضی احتمالی ۔ اب ماضی احتمالی کی گر دان ملاحظہ فرمائیں:
ماضی احتمالی 
واحد غائب     جمع غائب         واحد حاضر     جمع حاضر         واحد متکلم         جمع متکلم 
وہ لایا ہوگا     وہ لائے ہونگے    تو لایا ہوگا     تم لائے ہوگے    میں لایا ہوں گا    ہم لائے ہوںگے
وہ لائی ہوگی     وہ لائی ہوں گی    تو لائی ہوگی    تم لائی ہوگی    میں لائی ہوں گی    ہم لائے ہوںگے

 ماضی تمنائی : ماضی تمنائی کو ماضی شر طیہ بھی کہتے ہیں ۔ یہ ماضی کی وہ قسم ہے جس میں گزرے ہوئے زمانہ میں کام کر نے کی تمنا، شر ط یا آرزو پائی جائے ۔ جیسے شر ط کی مثال اگر حامد آتا تو محمود سیر کو جاتا۔ تمنا کی مثال: کاش وہ پڑھتا ۔ تمنا اور آرزو ایک ہی چیز ہیں دونوں کے معنی ایک ہی ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ ماضی تمنائی کے فعل میں شر ط ، آرزو اور تمنا پا یا جاتا ہے ۔اس کے بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں مادہ فعل کے بعد ’’ تا ‘‘ بڑھا دیا جاتا ہے ۔ جیسے آنا کا ما دہ ’’ آ‘‘ ہے ، اور جانا کا مادہ ’’ جا ‘‘ ہے تو اس کے بعد ’’ تا ‘‘ بڑھا نے سے ’’ آ تا ‘‘ اور ’’ جاتا ‘‘ ہو جا تا ہے ۔ ماضی تمنائی گی گر دان دیکھیں :
ماضی تمنائی 
واحد غائب     جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ پڑھتا         وہ پڑھتے     تو پڑھتا         تم پڑھتے        میں پڑھتا        ہم پڑھتے
وہ آتی         وہ آتے             تم آتی         تم آتے             میں آتی            ہم آتے
فعل حال 

 آپ کو اس بات کا علم ہوگا کہ گزرے ہوئے زمانے کو ماضی کہتے ہیں تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ گزرے ہوئے زمانہ سے ملا ہوا حال کہ زمانہ ہوتا ہے جس میں ابھی ہم سانس لے رہے ہیں اس لیے فعل ماضی کے بعد اب فعل حال کا ذکر ہوگا ۔توفعل حال میں سب سے پہلے فعل مضا رع آتا ہے ۔ یہ اس فعل کو کہا جاتا ہے جس میں موجودہ اور آنے والا زمانہ دونوں پایاجائے ۔جیسے حامد کتاب پڑھے ، محمود گھومے ، ابو سوئے وغیرہ ۔فعل مضارع مادہ ٔ فعل کے آخر میں یائے مجہول بڑھا نے سے بنتا ہے جیسے کھا سے کھائے ، جمع غائب میں کھائیں ، مخاطب میں کھاؤاور کھائیں ، متکلم میں کھاؤں اور کھائیں ۔ یہ صرف اسی گردان میں نہیںہے بلکہ گزشتہ گردانوںمیں بھی آپ کو پڑھنے کوملا ہوگااور آگے بھی یہی تبدیلیاں دیکھنے کوملیں گی۔ اب مضارع کی گردان پڑھیں ۔ اس میں صر ف مذکر کی گردان پیش کی جارہی ہے کیوںکہ اس میں مذکرو مؤنث دونوں کے صیغے یکساں ہیں۔

فعل مضارع 
واحد غائب     جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ کھائے         وہ کھائیں    تم /آپ کھاؤ       آپ کھائیں        میں کھاؤں     ہم کھائیں
اس گر دا ن کے بعد آپ کی ایک پر یشا نی حل کر نا چاہتے ہیں کہ واحد حاضر کے صیغے میں جو لفظ ’’تم ‘‘ یا کہیں کہیں ’’ تو ‘‘ کا استعمال ہوا ہے یہ صر ف گردا ن کی مناسبت سے لکھا گیا ہے ۔ اچھے بچوں اور اچھی زبان کے لیے جب ہم ایسے صیغے یا جملے کا استعمال کرتے تو ’’ آپ ‘‘ جیسا لفظ استعمال کر تے ہیں جیسے ’’ آپ کھائیں ‘‘ اور ادب کے لیے ایک آدمی کے لیے بھی جمع کا صیغہ استعمال کرتے ہیں ۔

  فعل حال مطلق : یہ اس فعل کو کہتے ہیں جس میں موجودہ زمانے میں کسی کام کے ہونے کا پتہ دے جیسے وہ کھاتا ہے ، وہ پڑھتا ہے ، وہ دوڑتا ہے ۔ اس سے کسی کام کے مطلقا ً ہونے کا پتہ معلوم ہوتاہے ، وہ کام ہوگا یا ہو رہا ہے اس کاعلم نہیں ہوتا ہے۔ اس کو بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ ماضی تمنائی کا جو صیغہ آپ نے پڑھا ’’ وہ لاتا ‘‘ اس کے آخر میں ’’ ہے ‘‘ لگانے سے حال مطلق بن جاتا ہے۔ اس کی گردان ملاحظہ ہو :
فعل حال مطلق 
واحد غائب         جمع غائب     واحد حاضر     جمع حاضر     واحد متکلم     جمع متکلم 
وہ پڑھتا ہے     وہ پڑھتے ہیں    تو پڑھتا ہے    تم پڑھتے ہو    میں پڑھتاہوں    ہم پڑھتے ہیں
وہ آتی ہے        وہ آتے ہیں        تو آتی ہو        تم آتے ہو         میں آتی ہوں    ہم آتے ہیں
  یہ گردان ہے حال مطلق کی۔ گزشتہ اوراق میں آپ نے ماضی نا تمام کی گردا ن پڑھی ہوگی اسی طریقے سے حال میں بھی حال ناتمام ہوتا ہے ۔ جس میں موجودہ وقت میں کسی کام کے ہونے کی خبر ہو لیکن اس کام کے مکمل  نہ ہونے کی خبر بھی معلوم ہورہی ہے ۔جیسے وہ لا رہا ہے ، وہ سورہا ہے ۔حال نا تمام کی شناخت یہ ہے کہ اس کے آخر میں ’’رہا ہے ‘‘لکھا ہو۔ گردان ۔
فعل حال نا تمام 
وہ جارہا ہے     وہ جارہے ہیں    تو جارہا ہے    تم جارہے ہو    میں جا رہا ہوں    ہم جارہے ہیں
وہ پڑھ رہی ہے     وہ پڑھ رہی ہیں     تو پڑھ رہی ہو    تم پڑھ رہے ہو     میں پڑھ رہا ہوں     ہم پڑھ رہے ہیں
  جس طر یقے سے آ پ نے ماضی احتمالی یا ماضی شکیہ پڑھا ہوگا جس میں کسی کام کے ماضی میں ہونے پر شک ظاہر کیا جارہا ہوگا اسی طر ح سے حال احتمالی میں بھی کسی کام کے موجودہ وقت میں پائے جانے کا گمان ہو یقین نہ ہو، تو اس کو فعل حال احتمالی کہتے ہیں۔ اس فعل کی شنا خت یہ ہے کہ اس کے آخر میں ’ ہو‘ یا ’ ہوگا‘ جیسے لفظ ہوں : جیسے وہ پڑھتا ہو ، پڑھتا ہوگا یا پڑھ رہا ہوگا ۔گردان 

فعل حال احتمالی 
وہ پڑھتا ہو یا وہ پڑھ رہا ہوگا
 وہ پڑھتے ہوں
وہ پڑھتے ہوں گے
یا 
پڑ ھ رہے ہوںگے تو پڑھتا ہو
تو پڑھتا ہوگا
یا 
تو پڑھ رہا ہوگا تم پڑھتے ہو 
تم پڑھتے ہو گے
یا 
تم پڑھ رہے ہوگے میں پڑھتاہوں
میں پڑھتا ہوںگا
یا
میں پڑھ رہا ہوںگا ہم پڑھتے ہوں
ہم پڑھتے ہوںگے
یا 
ہم پڑ ھ رہے ہوںگے
وہ آتی ہو 
وہ آتی ہوگی
یا 
وہ آرہی ہوگی وہ آتی ہوں 
وہ آتی ہوںگی 
یا 
وہ آرہی ہوںگی تو آتی ہو 
تو آتی ہوگی
یا 
تو آرہی ہوگی تم آتی ہو
تم آتی ہوںگی
یا 
تم آرہی ہوںگی میں آتی ہوں
میںآتی ہوںگی
یا 
میں آرہی ہوںگی ایضاً

 فعل امر میں کسی چیز کے حکم کا پتہ چلتا ہے ۔ تو آپ کو معلو م ہوگا کہ حکم اسی کو دیا جاتا ہے جو سامنے ہو اور مخاطب ہو تو مخاطب میں صرف دو صیغے آتے ہیں واحد حاضر اور جمع حاضر ، توفعل امر کے صر ف دو صیغے ہوتے ہیں فعل حاضر اور جمع حاضر :


 تو پڑھ
تم  پڑھو




تو پڑھ 
تم  پڑھو


فعل مستقبل اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کے کر نے یا ہونے کی خبر آنے والے زمانے میں معلوم ہو جیسے وہ جا ئے گا ، وہ ٹہلے گا ، وہ روئے گی وغیرہ ۔فعل مستقبل کی گردان کچھ اس طر ح ہے :
وہ جائے گا      وہ جائیںگی         تو جائے گا     تم جائوگے    میں جاؤںگا    ہم جائیںگے
 وہ پڑھے گی     وہ پڑھیںگے     تو پڑھے گی  تم پڑھوگی     میں پڑھوںگا     ہم پڑھیں گے

Wednesday 17 February 2021

فعل کی قسمیں fel ki qismen

 فعل کی قسمیں 

Urdu me fe'al ki qismen

  پیارے بچو ! آپ تمام نے پچھلے بلاگ میں فعل کی قسمیں اور ان کی تعریف کیا کیا ہیں ان تمام کے متعلق پڑھا ہوگا۔ اس شمارے سے آپ کو سلسلہ وار فعل کی اقسام کے بارے میں پڑھنے کو ملے گا۔بچو! آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ زما نہ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو گزر چکا ہوتا ہے جیسے آپ پچھلی گرمی کی چھٹی میں گھومنے گئے تھے۔ وہ وقت اور زمانہ گزر گیا جس میں آپ چھٹی پر گئے تھے اس لیے اس زمانے کو ماضی کہتے ہیں۔دوسرا زمانہ وہ ہوتا ہے جو آپ کے سامنے ابھی گزر رہا ہے یا جس حالت میں آپ ابھی ہیں جیسے ابھی آپ نیا کھلونا پڑھ رہے ہیں یا آپ کے استاد آپ کو ابھی پڑھ کر سنارہے ہیں، تو یہ زمانہ حال ہوا۔تیسرا زمانہ وہ ہوتا ہے جس کو آپ نے نہ کیا ہے نہ کیا تھا اور نہ ہی کر ر ہے ہیں ، بلکہ کر یں گے جیسے آپ سفر میں جائیںگے ، کہیں شادی یا رشتہ داری میں جائیںگے تویہ زمانہ مستقبل ہوا۔یعنی : دیکھا یا دیکھا تھا ماضی ، دیکھ رہے ہیں حال ، دیکھیںگے مستقبل۔ فعل کی تینوں قسموں کے جاننے کے بعد ابھی صرف فعل ماضی کے بارے میں جانتے ہیں۔

فعل ماضی : اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کوئی کام گزرے ہوئے زمانے میں ہوا ہو یا ہوا تھا جیسے بچے اسکول چلے گئے یا بچے اسکول گئے تھے۔ فعل ماضی کی چھ قسمیں ہیں۔ماضی مطلق، ماضی ، قریب ، ماضی بعید ، ماضی استمراری ، ماضی شکیہ ، ماضی شرطیہ یا تمنائی 

فعل ماضی مطلق: اس فعل کہتے ہیں جس سے صر ف اس چیز کا پتہ چلے کہ وہ کام گزشتہ زمانے میں ہوا ہے ، گزشتہ زمانے میں کب ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ واضح طور پر سمجھ میں نہ آئے جیسے۔ صبا نے کتاب پڑھی ، ظفر اسکو ل گیا ، امی نے کھانا پکا یا وغیرہ ان مثالوں میں پڑھی ، گیا اور پکا یا ماضی مطلق ہیں۔

ماضی مطلق بنانے کا قاعدہ اس طر ح ہے کہ اس میں مصدر کی جو علامت ’ نا ‘ ہوتی ہے جیسے ’پکا نا ‘ میں ’نا ‘ اس کو ہٹا کر کے اس میں ’ الف‘ یا ’ ی ‘ بڑھانے سے ماضی مطلق بنتا ہے جیسے ’پکانا‘ سے ماضی مطلق ’پکایا ‘ یا ’ پکائی ‘ وغیرہ۔

بچو! اب تک ہم گردان کو نہیں جانتے تھے لیکن اس شمارہ سے ہم گردان بھی سیکھیں گے جس کو انگلش میں Tens کہتے ہیں۔ اردو میں گردان کے چھ صیغے ہوتے ہیں 

(۱ ) واحد غائب : جس میں کسی ایک غائب شخص کے کام کرنے کے بارے میں معلوم ہو مثال کے طور پر آنا مصدر سے ماضی مطلق ہوا ’’ وہ آیا ‘‘ ، ’’ وہ آئی‘‘ وغیرہ

(۲) جمع غائب : جس میں ان لوگوں کے کام کے بارے میں معلوم ہو جو آپ کے سامنے نہیں ہیں ان کی تعداد دو ہو یا دو سے زائد ہو جیسے ’’ وہ آئے ، ’’ وہ آئیں‘‘ وغیرہ

(۳) واحدحاضر: جس میں سامنے موجود ایک شخص کے کا م کرنے کے بارے میں پتہ چلے ، جیسے ’ تو آیا ‘،’ توآئی ‘ ، ’ آپ آئے ‘ ،‘ آپ آئیں‘وغیرہ

(۴)جمع حاضر: جس میں سامنے موجود دو یا دو سے زائد شخص کے کام کے بارے میں معلوم ہو جیسے’ تم سب آئے ‘ ، ’ تم سب آئیں ‘ ، ’ آپ سب آئے ‘ ، ’ آپ سب آئیں ‘وغیرہ

(۵)واحد متکلم : جس میں بو لنے والے ایک شخص کے کام کے بارے میں معلوم ہو ، جیسے ’میں آیا ‘ ، ’ میں آئی ‘۔

(۶) جمع متکلم : جس میں بولنے والے دو یا دو سے زیادہ کے کام کے بارے میں معلوم ہو جیسے ’ ہم آئے ، 

فعل کی تعریف Urdu main fe'al ki tareef

  فعل کی تعریف

Urdu main fe'al ki tareef

فعل : وہ لفظ ہوتا ہے جس سے ہمیں کسی کام کے ہونے یا کر نے کا علم ہوجائے ۔ یعنی اس لفظ سے ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ابھی کوئی کام ہورہا ہے یا ہوا ہے ۔جیسے حامد فٹ بال کھیل رہا ہے ، خالدہ سائیکل چلا رہی ہے ، ٹر ین گزر رہی ہے ، شریف نے خط لکھا تھا۔ ان مثالوں میں کھیل ، چلا،گزر ، لکھا فعل ہے، حامد ، خالدہ ، ٹرین، شریف فاعل ہیں کیونکہ فعل ان ہی سب کے ذریعہ ہورہا ہے ۔فٹ بال ، سائیکل اور خط مفعول ہیں کیونکہ جو بھی کام ہورہا ہے وہ ان ہی پر ہو رہا ہے ۔
 ساتھ ہی یہ بھی جان لیں کہ اوپر کے افعال کا مصدر کھیلنا ، جانا ، گزرنا اور لکھنا ہے ۔

فعل مصدر کی پانچ قسمیں ہیں ۔
(۱)فعل معروف (۲)فعل مجہول (۳)فعل لازم (۴)فعل متعدی (۵)فعل ناقص 

فعل معروف : وہ فعل ہوتا ہے جس کے فاعل کا علم ہو (یعنی کام کر نے والا پتہ ہو) جیسے امی آگئیں، بھیا پڑ ھتے ہیں ، ابو سورہے ہیں ۔ان سب مثالوں میں کون آئی ، کو ن پڑھتے ہیں اور کون سورہے ہیں ان کے فاعل کے متعلق پتہ ہے اس لیے اس کو فعل معروف کہتے ہیں ۔

فعل مجہول : اس فعل کو کہتے ہیں جس کے فاعل کا پتہ نہیں ہوتا ہے جیسے کتاب پھٹ گئی ، پانی گر گیا ، گیٹ کھلا ، کھانا پک گیا ۔ ان سب مثالوں میں فعل اور مفعول دونوں موجود ہیں لیکن فاعل کا علم نہیں ہے کہ کس نے کتا ب پھاڑی ، پانی کس نے گرایا ، گیٹ کس نے کھولا اور کھانا کس نے پکایا۔

فعل لازم : اس فعل کو کہتے ہیں جس میں کسی کام کا کر نا پا یا جائے مگر اس کا اثر صرف فاعل تک ہی ( یعنی کام کرنے والے تک ہی ) محدود رہے ۔ جیسے امی آرہی ہیں ، بہن روتی ہے ۔گھوڑا دوڑتا ہے ۔ ان تینوں مثالوں میں فعل اور فاعل تو موجود ہیں لیکن مفعول موجود نہیں ہے ۔ امی فاعل ہے اور آرہی ہیں فعل ۔ اسی طریقے سے دیگر مثالیں بھی ۔
فعل متعدی : اس فعل کو کہتے ہیں جس کا اثر فاعل سے گزر کر مفعول تک پہنچے۔جیسے عاکف کتاب پڑھتا ہے ۔ اس مثال میں پڑھنے کا کام عاکف کر رہا ہے اور پڑھنے (فعل ) کا اثر کتاب (مفعول) پر پڑ رہا ہے ۔فعل متعد ی میں فاعل کے ساتھ مفعول کا ہونا ضرور ی ہے ۔ کہیں مفعول ظاہر ہوتا ہے اور کہیں پوشیدہ جیسے اوپر کی مثال میں مفعول( کتاب ) ظاہر ہے اور گلشن نے کھایا میں مفعول پوشیدہ ہے ۔ یعنی کیا کھایا اس کا ذکر نہیں ہے ، گلشن نے کچھ تو کھایا ہوگا وہی کچھ مفعول ہے جو جملے میں پوشیدہ ہے ۔

  فعل ناقص : وہ فعل جو کسی پر اثر نہ ڈالے بلکہ کسی پر کسی اثر ہونے کو ثابت کر ے جیسے ایوب بیمار ہے ۔اس مثال میں ایو ب فاعل تو ہے لیکن کسی کام کو کر نے والانہیں ہے بلکہ کام کو سہنے والا ہے یعنی بیماری کو سہنے والا ہے ۔ بیمار ی کا اثر ایوب پر پڑ رہا ہے ۔اسی طر یقے سے راجو چور ہے ، پروین چالاک ہے ، نو کر گندا ہے ، ملا زمہ کاہل ہے وغیرہ 

مصدر 
اوپر کی سطر وں میں ایک جملہ لکھا گیا ہے کہ ، کھانا ، آنا ، کھیلنا وغیرہ مصدر ہیں ۔ لیکن مصدر کہتے ہیں کس کو؟ یہ اب جانیے ۔ جس طر ح سے کمہار ایک مٹی کے ٹکڑے سے کئی بر تن بناتا ہے۔ کبھی دیا ، کبھی ہانڈ ی ،کبھی گھڑا تو کبھی چھوٹا سا پیا لہ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طریقے سے ایک لفظ کھانا ہے۔ یہ مصدر ہے اس سے ہم کھا ، کھا ؤ ، کھا ئیں ، کھایا ، کھاتا ہے ، کھاتے ہیں، کھائے گا ، کھاؤ گے ، کھا ئی وغیرہ بناتے ہیں ۔

واحد اور جمع Urdu main Wahid aur Jama

   واحد اور جمع 

Urdu main Wahid aur Jama
اسم واحد سے صرف ایک شخص یا ایک ہی چیز مراد ہوتی ہے ۔ جیسے بیٹا ، بھائی ، کاپی ، کرسی وغیرہ 
اسم جمع سے دو یا دو سے زائد افراد اور چیز وں کو سمجھا جاتا ہے جیسے ۔ بیٹا سے جمع بیٹے ، بہن سے بہنیں ، کا پی سے کاپیاں، کرسی سے کرسیاں وغیر۔

( نوٹ کے طور پر یہ بات بھی واضح ہونی چا ہیے کہ واحد کے ساتھ واحد فعل اور جمع کے ساتھ جمع فعل آتا ہے جیسے بیٹا آیا ، بہنیں آئیں) اس کے ساتھ یہ بھی جان لیں کہ جن واحد مذکر الفاظ کے آخرمیں ’ الف ‘ یا ’ ہ ‘ نہیں ہے تو ان کی جمع بھی اسی صورت میں آتی ہے جیسے بھائی آ یا ، بھائی آئے، گھر بن گیا ، گھر بن گھر بن گئے ، بستر بچھ گیا ، بستر بچھ گئے  وغیرہ ۔

اسم جمع ان الفاظ کو کہتے ہیں جو ظاہر ی طور واحد ہی نظر آتے ہیں لیکن معنوی طور پر وہ جمع ہوتے ہیں جیسے ، فوج ، کنبہ ، ہجوم ، جماعت ، ریوڑ، بزم ، انجمن، مجمع، گرو ہ اور ٹیم وغیرہ ۔ یہ تمام اسم جمع ہمیشہ فعل واحد کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔جیسے فوج آئی ، کنبہ بکھر گیا ، ہجوم بڑھتا چلا گیا ، جماعت آرہی ہے ۔ رویوڑ آرہا ہے وغیرہ ۔

کچھ ایسے الفاظ ہوتے ہیں جو واحد اور جمع میں نہیں بدلے جاتے جیسے ۔ابا ، امی ، تا یا ، دادا ، دادی ، نا نا ، نانی ، چچا ، دودھ پانی اور تیل وغیرہ۔ 
فارسی کے اسم فاعل بھی واحد ہی استعمال ہوتے ہیں ان کا جمع نہیں ہوتا ہے جیسے ۔دانا ، بینا ،آشنا ، شناسا وغیرہ ۔
واحد سے جمع بنا نے کے قاعدے 

 (۱) جس اسم کے آخر میں ’الف ‘یا’ ہ ‘ آئے تو جمع بناتے وقت الف اور ہ کو یا ئے مجہول ( ے ) سے بد ل دیتے ہیں جیسے ۔ کپڑا سے کپڑے ، تا نگہ سے تا نگے ۔گدھا سے گدھے ، رتبہ سے رتبے وغیرہ ۔ان تمام کے علاوہ بھی کچھ ایسے اسم آپ کو پڑھنے کو ملیں گے جس کے آخر میں الف ہوگا لیکن اس کی جمع ’ئیں ‘ کے اضافہ کے ساتھ بنا تے ہیں جیسے ہوا سے ہوائیں ، گھٹا سے گھٹا ئیں ، سبھا سے سبھائیں ، تمنا سے تمنا ئیں وغیر ہ۔  

(۲) جس اسم مؤنث کے آخر میں ی  ہوتو ’ الف اور نون غنہ ‘ بڑھا کر اس کی جمع بنا تے ہیں جیسے لڑکی سے لڑکیا ں ، روٹی سے روٹیاں ، کھڑکی سے کھڑ کیاں ، چابی سے چا بیاں ، بیٹی سے بیٹا ں ، سبزی سے سبزیاں ، کرسی سے کر سیاں ، جو تی  سے جوتیاں ، تتلی  سے تتلیاں اور چوڑی  سے چو ڑیاں وغیرہ ۔

(۳) جس اسم کے آخر میں ’ یا ‘ آئے تو اس کے آگے نون غنہ (ں ) کا اضافہ کر کے جمع بنا تے ہیں ۔جیسے : چڑیا سے چڑیاں ، گڑیا سے گڑیاں ، پڑیا سے پڑیاں وغیرہ ۔

(۴) کچھ اسم مؤنث ایسے ہوتے ہیں کہ جمع بنا نے کے لیے ان کے آخرمیں ’ یں ‘ کا اضافہ کر تے ہیں۔ جیسے چادر سے چادریں ، تصویر سے تصویریں ،  دوات سے دواتیں ، ملاقات سے ملاقاتیں محبت سے محبتیں وغیرہ ۔
یہ تو معلو م ہی ہوگا کہ اردو میں بے شمار الفاظ عربی اور فارسی سے آئے ہیں لہذا ان کے جمع جو عربی اور فارسی میں استعمال ہوتے ہیں وہی اردو میں بھی استعمال ہو تے ہیں ۔جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں ۔
اثر 
آثا ر

آفت 
آفات 

افق 
آفاق 

ادب 
آداب 

کتاب
کتب 

استاذ 
اساتذہ 

تصویر
تصاویر 

تکلیف 
تکالیف

احسان 
احسانات

رسم 
رسوم

حکم 
احکام

حادثہ 
حادثات 

آیت 
آیات 

تاجر 
تاجرین 

خدمت 
خدمات

روایت 
روایات 

واضح رہے کہ ان میں سے بھی بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کا جمع اردو کے مطابق بھی استعمال کر تے ہیں ۔  ان تمام کے علاوہ بھی آپ بہت سے الفاظ ایسے دیکھیں گہ کہ ان کے جمع بنانے کاقاعدہ ان تمام سے مختلف ہے ۔ اس کا تعلق عوامی استعمال سے ہوتا ہے ۔آپ جتنا زیادہ مطالعہ کر یں گے اتنا ہی آپ کو اس متعلق زیادہ علم ہوگا ۔

اسم تصغیر و اسم تکبیر ‏Ism e tasgheer wo Ism e takbeer

اسم تصغیر و اسم تکبیر


Ism e tasheer wo Ism e takbeer

   اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی اسم کے چھوٹا پن کے حساب سے یا اس کو چھو ٹا دکھا نے کے لیے اس اسم میں کچھ ردو بدل کر دیتے ہیں جس سے اس کے معنی میں چھوٹا پن آجاتا ہے اس کو اسم تصغیر کہتے ہیں ۔جیسے کھاٹ(چارپائی ) سے کھٹولہ (چھوٹی چارپائی ) 

کبھی تصغیر محبت کے لیے بنا تے ہیں جیسے بیٹی سے بٹیا اور بابو سے ببوا وغیرہ 
کبھی طنز اور حقا رت کے لیے بھی تصغیر بنا تے ہیں جیسے مر د سے مردوا ، چاچی سے چچیا اور روپیہ سے روپلی ، آٹھ آنہ سے اٹھنی ، چار آنہ سے چونی وغیرہ ۔
اردو میں اسما کی تصغیر کئی طر ح سے بنتی ہے ۔
لفظ اسم کے آخر میں الف اور واو بڑھا دینے سے جیسے چھو ٹو سے چھوٹوا اور موٹوسے موٹوا وغیرہ 
بعض اوقات ’ ی ‘ سے بدلنے سے جیسے شیشہ سے شیشی ، جھونپڑا سے جھونپڑی ۔ اس حالت میں لفظ مذکر سے مؤنث میں بھی بدل جاتا ہے ۔
فارسی الفاظ میں بھی اسم تصغیر بنانے کا کوئی ایک قاعدہ نہیں ہے بلکہ اردو کی طر ح اس میں بھی کئی طر ح سے تصغیر بنا ئے جاتے ہیں ، جیسے کتاب سے کتابچہ ، باغ سے باغیچہ ، مر د سے مردک اور مَشک سے مشکیزہ وغیرہ 
آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کسی چیزکو چھوٹا بتانے خواہ باعتبار سائز ہو یا باعتبار قدر و منزلت اس کے لیے تصغیر بناتے ہیں اسی طر یقے سے تصغیر کی ہی ضد تکبیر ہوتی ہے جس میں کسی چیز کو بڑابنا کر دکھایا جا تا ہے 
مطلقا ً اسم سے اسم تکبیر بنا نے کے بھی عجیب عجیب طر یقے ہیں جیسے بوٹی اگر بڑی ہوجا ئے تو کہتے ہیں کہ بوٹی ہے یا بو ٹا؟ ، اٹیچی سے اٹیچا ،ڈولی سے ڈولا ، بالٹی سے بالٹا وغیرہ۔ 
کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ اسکو ہم اسم تصغیر نہیں کہتے یانہیں سمجھتے بلکہ مطلقاً اسم ہی جانتے ہیں ۔لیکن اسی میں کوئی حر ف تبدیل کرکے اس کے سائز میں بڑا معنی پیدا کرنے کے لیے اس کو اسم تکبیر بناتے ہیں۔ جیسے ، کھونٹی اس کو ہم نہ کھونٹ کی اسم تصغیر کہہ سکتے ہیں اور نا ہی کھونٹا کی ۔ لیکن جب ہم اس کی اسم تکبیر بناتے ہیں تو اس کے لیے کھونٹا بو لتے ہیں جیسے ہم نے کسی سے کہاکہ بکر ی باندھنے کے لیے کھونٹی گاڑ دو لیکن اس نے اس کی جگہ میں کچھ بڑ ے سائز کی کھو نٹی کھیت میں گاڑ دی تو مذاق میں کہتے ہیں کہ کھونٹی ہے کہ کھونٹا اسی طریقے سے  آپ اپنی آس پاس کی زبا ن اور بھاشا سے سمجھ سکتے ہیں کہ اسم تصغیر کے لیے کیا استعمال کر تے ہیں اور اسم تکبیرکے لیے کیا۔

Thursday 11 February 2021

اردو لغت اورتلفظ Urdu Lughat aur Talaffuz

 اردو لغت اورتلفظ 

Urdu Lughat aur Talaffuz

امیر حمزہ


  ’’نَحن الأطبا ء و أنتم الصیادلۃ ‘ ‘(ہم ڈاکٹر ہیں اور تم سب میڈیکل اسٹور) یہ مقولہ بچپن میں ایک استاد نے محدثین اور فقیہوں کے درمیان بنیادی فرق کو سمجھا نے کے لیے بتایا تھا کہ فقیہ تو حدیثیں لیتا ہے محدثین سے اور اس سے مسائل استنباط کر تا ہے ۔ اسی طریقہ سے لغویین اور زبان سیکھنے والوں کا معاملہ ہے ۔ لغت نگار قدم قدم پر زبان سیکھنے والوں کے لیے لفظ ، معنی ، تلفظ اور محاورہ میں اس لفظ کا کیا استعمال ہے یہ بتا تا ہے ۔یعنی لغت سے کئی قسم کے فائدے حاصل کیے جاتے ہیں ۔سب سے زیادہ لغت کی ورق گردانی معانی حاصل کر نے اور معانی کی تصدیق کے لیے کی جاتی ہے ،پھرکسی لفظ کے تلفظ میں مشکوک ہونے کی صورت میں صحیح تلفظ جاننے کے لیے لغت کا سہارا لیا جاتا ہے ، املامیں غلطی کی درستگی کے لیے یعنی وہ لفظ ’س‘ سے ہے یا ’ص‘ سے ، ’ذ‘  سے ہے یا’ ز‘ سے ۔یا کوئی لفظ تر کیب میں کس طر ح استعمال ہوتا ہے  ، محاورات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے۔ اخیر میں ادبی جملو ں و شعروں میں صورت استعمال کی تصدیق کے لیے لغت کا استعمال کر تے ہیں ۔

یہ حقیقت ہے کہ لغت کا تعلق عوام سے کم اور پڑھے لکھے طبقہ سے زیادہ ہوتا ہے ۔ لغت کی باریکیوں کا مکمل طور پر احاطہ کر نا ماہر فرہنگ کا کام ہے۔ جب کوئی لغت سے فائدہ اٹھا تا ہے تو اس کی نظر محض اس چیز پر رہتی ہے جو وہ اس سے چاہتا ہے ۔وہ مطلوبہ چیز کے حصول کے بعد اگروہ غلطی پر ہوتا ہے تو اصلاح کر لیتا ہے اور اگر درست ہوتا ہے تو اپنی درستگی پر خوش ہوتا ہے ۔شاید و باید ہی کوئی شخص ہوتا ہوگا جو اپنے پسندیدہ لغت سے تلفظ کے معاملہ میں مشکوک رہتا ہو گا بلکہ اس لغت نگار پر عقیدت کی حد تک بھروسہ کر تا ہوگا کہ یہ لغت مشمولات کی تفصیل میں کسی بھی قسم کی غلطی نہیں کر سکتی۔ لیکن جب کو ئی سنجیدہ شخص سنجیدگی کے ساتھ کسی تلفظ کی تلاش میں کئی لغتوں کی ورق گردانی کر تا ہے تو اسے وہاں ایک ہی لفظ کے تلفظ میں لغت نگار حضرات الگ الگ تلفظ بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگر لفظ عر بی یا فارسی کا ہوتا ہے تو عربی جاننے والا قاری اصل تلفظ تک پہنچ جاتا ہے لیکن جو قاری عربی نحو وصر ف سے ذرہ برا بر بھی واقف نہیں ہوتا ہے تو وہ مشکوک ہوجاتا ہے اپنی پسند کی لغت پر ہی بھر وسہ کر بیٹھتا ہے ۔ایک ہی لفظ کے تلفظ میں مختلف لغات میں کس قسم کا تنوع پایا جا تا ہے اس کی ہلکی سی جھلک اس مقالہ میں پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔

لغت کا بڑا کام معانی فراہم کر نا ہوتا ہے ۔ایک عام قاری کے لیے سب سے زیادہ کامیاب لغت نگار وہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ معانی بتاتا ہے اور اساتذہ کے کلام کے حوالے پیش کر کے اپنی بات کو مدلل کر تا ہے ۔پھر تلفظ کی جانب تو جہ دی جاتی ہے ، تلفظ کا ذکر بالحرکا ت و الاعراب ہے تو معاً وہ زیر تحریر لایا جاتا ہے اگر باللفظ ہے تو لفظ کے ماخذ کے ذکر کے بعد تلفظ کی تفصیل دی جاتی ہے ، پھر معانی کا ذکر ہو تا ہے ۔

اردو میں جو باضابطہ لغات لکھی گئی ہیں ان کو تلفظ کے لحاظ سے تین زمرے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔اول وہ لغت نگار جنہوں نے تلفظ کی وضاحت کے لیے فونیٹک سسٹم کو اپنا یا اور تلفظ کو اس سسٹم کے تحت پیش کر نے کی مکمل کوشش کی خواہ تلفظ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اس زمرہ میں ہم ڈبلیوایس- فیلن کے لغت ’A NEW HINDUSTANI-ENGLISH DICTIONARY ‘ ، جان ٹی - پلیٹس کی ’ اردو کلاسیکل ہندی اور انگریزی ڈکشنر ی‘ اور ڈنکن فاربس کی ’ڈکشنری ہندو ستانی انگلش ، انگلش ہندوستانی‘ کو رکھ سکتے ہیں ۔ دوسرے زمرے میں وہ لغات ہیں جن میں لفظ کے تلفظ کو حروف میں حرکات کے ساتھ توڑ کر پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کوشش میں لغت نگار بہت حد تک کامیا ب بھی ہوئے البتہ تمام حر وف میں حر کت رکھنے میں کہیں کہیں چوک بھی ہوئی ہے جس سے تلفظ سے مکمل طور پر قاری واقف نہیں ہوپاتا ہے ۔ اس زمرے میں ’ فرہنگ عامرہ ‘ اور ’ جامع فیروزاللغات‘ کو رکھا جاسکتا ہے ۔ تیسرے زمرے میں وہ لغات آتے ہیں جنہوں نے تلفظ پر توجہ تو دی لیکن بالحرکات ۔ اس زمرے میں سب سے پہلا نا م فرہنگ آصفیہ کا لیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ بھی کئی دیگر لغتات اس نوعیت کے ہیں جن کا ذکر کیا جائے گا ۔

ماضی میں جاکر جب لغت نویسی کی تاریخ کھنگالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ لغت نویسی کا رواج وہاں زیادہ رہا ہے جہاں کسی بڑے مذہب نے جنم لیا ہو، اس زبان کے بولنے والے سیاسی طور پر مضبوط رہے ہوںیا اس زبان کا ادب ادبِ عالیہ میں شمار ہوتا ہو۔ مذکورہ تینوں وجوہات کی بنا پرغیر زبان داں لغت کی ضرورت محسوس کر تا ہے اور جہاں ایک زبان کو دوسر ی زبان پر فوقیت حاصل نہیں ہو، کسی عظیم مذہب نے جنم نہیں لیا ہویا جہاں عظیم ادب تخلیق نہیں ہوا ہو وہاں لغت نویسی کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے بدھ ازم کی تعلیمات کے لیے چینی لغت نویسی کا آغاز ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ولادت حضرت عیسیؑ سے ہزاروں سال پہلے ہی لغت کی تر تیب و تدوین کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا لیکن مصدقہ طور پر چینی زبان کی سب سے پہلی لغت شواوین کی ملتی ہے۔ اسی طریقے سے ویدک کتابوں کی تقسیم کے لیے سنسکر ت لغت نویسی کا آغاز ہوا اور شعری و مذہبی اثرات عربی میں بھی کافی کار فرما ہوئے۔ جہاں قرآن و حدیث میں آئے غریب یا دخیل الفاظ کی تشریح و تفصیل کے لیے لکھی جانے والی فرہنگوں نے باقاعدہ لغت نگاری کی بنیاد ڈالی۔ اس سلسلے میں ابو الاسود الدولی نے سب سے پہلے علم زبان کی بنیاد ڈالی ، یہی علم آگے چل کر دو مختلف علوم ’ لغت ‘ اور ’ نحو‘ میں تقسیم ہوگیا ۔ان دونوں علوم سے متعلق اہم کارنامے ساتویں صدی عیسوی میں خلیل بن احمد کی ’ کتاب العین ‘ (لغت ) اور خلیل ہی کے شاگر د سیبویہ کی ’ کتاب النحو ‘کی صورت میں سامنے آئی۔

انگر یزی زبان میں لغت نویسی کی بنیاد لاطینی زبان کی حاشیائی لغات کی شکل میں سامنے آئی ان حاشیائی لغتوں میں انجیل کے اصل مآخذ یعنی دیگر زبانوں یونانی ، عبرانی، لاطینی اور سریانی وغیرہ تک کی لغتیں اس کے نتیجے میں سامنے آئیں ۔

ہندوستان میں اولاً مسلمانوں کی آمد پھر یوروپی اقوام کی آمد سے اردو لغت نویسی کا آغاز ہوتا ہے ۔سب سے پہلے اردو میں لغت نویسی کا آغاز نصاب ناموں سے ہوتا ہے ۔جن میں سے ’خالق باری‘ ، ’لغات گجری‘ ، ’ حفظ اللسان‘، ’صمدباری‘ ،’ اللہ خدائی‘،’رازق باری‘ ،’ رسالہ جان پہچان‘،’ صفت ‘، ’ واسع باری ‘ ،’ اللہ باری ‘ ،’ ناصر باری‘ ،’ اعظم باری ‘ یہاں تک کہ یہ سلسلہ غالب کے ’قادر نامہ‘ تک نظر آتاہے ۔ عصر حاضر میں بھی ایک کتاب ’ حمد باری ‘ کئی مدارس میں داخل نصاب ہے ۔

اردو لغت نگاری کا دوسرا دو ر اردو - فارسی لغات سے شروع ہوتا ہے ۔اس کی ابتداء عہد عالمگیری میں ملا عبدالواسع ہانسوی کی ’غرائب اللغات ‘ سے ہوتی ہے ۔اسی لغت کو بعد میں سراج الدین علی خان آرزو ’’ نوادرالالفاظ کے نام سے تصحیح و تر تیب کے ساتھ مرتب کرتے ہیں ۔اس لغت میں صرف ہندی الاصل اردو الفاظ کو بنیادی اندراج کی حیثیت دیکر فارسی زبان میں تشریح کی گئی ہے۔ اور ان الفاظ کے عربی و فارسی مترادفات جو اردو میں مستعمل ہیں ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ اس لغت کے تقریباً چالیس سال بعد مرزا جان طپش دہلوی نے قیام ڈھاکہ کے دوران ۱۷۲۹ء ؁ میں ۹۶ صفحات پر مشتمل ایک مختصر لغت مر تب کی جس کا نام ’ شمس البیان فی مصطلحات ہندوستا ں‘ تھا ۔اس کی اشاعت مر شدآباد سے ۱۸۸۴ ء؁ میں ہوئی ۔ لغت نگاری کے فن پر یہ لغت اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں اردو الفاظ کے تلفظ کی نشاندہی توضیحی طریقے پر کی گئی ہے اور معنی بھی وضاحت سے لکھے گئے ہیں ، مترادفات سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ پرہیز کیا گیا ہے۔

۱۸۳۳ء؁ میں مولوی محمد مہدی واصف نے ’’ دلیل ساطع ‘‘ کے نام سے ایک فارسی - اردو لغت مرتب کی جو پہلی بار مظہر العجائب مدراس سے شائع ہوئی ۔ یہ لغت باضابطہ اردو یا فارسی زبان کو مد نظر رکھ کر مدون نہیں کی گئی ہے بلکہ انہوں نے (جیسا کہ دیباچہ میں لکھا ہے) کہ اس کے الفاظ کسی انگریزی لغت سے ماخوذ ہیں۔ ہر لفظ کے بعد (ہ) ، (س) لکھا گیا ہے ۔ جس طر ح انگریزی لغتوں کا شیوہ وضاحتی تلفظ کا رہا ہے ویسا ہی طریقہ اس میں بھی اختیار کیا گیا ہے ۔

۱۸۳۷ء؁ میں مولوی اوحدالدین نے ایک لغت ’ نفائس اللغات ‘ کے نام سے مدون کیا ۔ جو ۱۸۴۹ء؁ میں نولکشور لکھنؤ سے شائع ہوئی ۔ اس لغت کی اہمیت یہ ہے کہ یہ سابقہ تمام اردو فارسی لغات سے ضخیم ۶۴۶ ؍یعنی صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہ پہلی لغت ہے جس میں اردو الفاظ کے تلفظ کی نشاندہی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔

۱۸۸۴ء ؁ میں علی اوسط اشک شاگر د ناسخ نے ’ نفس اللغہ‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی ۔ یہ ایک فرہنگ قسم کی کتاب ہے ۔ الفاظ کی تشریح بھی کم کم ہے ۔اس کی صرف ایک ہی جلد مکمل ہوسکی تھی جس میں صرف ت تک کے الفاظ شامل ہیں ۔بقول ڈاکٹر مسعود ہاشمی ’’اس لغت کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ مؤلف کو فن لغت نویسی کے اصول سے کوئی لگاؤ نہیں تھا ‘‘ (اردو لغت کا تنقیدی جائزہ ، مسعود ہاشمی ، ص ۵۰)

۱۸۴۵ء ؁ میں محبوب علی رامپوری نے ’منتخب النفائس ‘ کے نام سے ایک لغت مر تب کی ۔اس میں تشریحی طریقۂ کار نہ اختیار کرتے ہوئے صرف مترادفات کی تکنیک استعمال کی گئی ہے ۔مندرجات تین کالم میں ہیں ایک میں اردو، دوسرے میں فارسی ، تیسرے میں عربی لفظ ہے ۔ گویا یہ سہ لسانی لغت ہے۔ اس لغت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے اردو وفارسی لفظ کے بجائے مصنف نے ساری قابلیت عر بی لفظ میں صرف کی ہے حتی کے تلفظ میں بھی عربی لفظ کا ہی تلفظ حاوی ہے ۔

اب تک ان لغتوں کااجما لا ذکر تھا جو ہندوستانی تھے اور جن کا تعلق فارسی اردو لغت نگاری سے تھا ۔ اردو لغت نویسی میں مستشرقین کا اہم رول رہا ہے ۔ انگر یز ہندو ستان میں تجارت کی غرض سے آئے تھے اور حاکم بن کر حکومت کی ۔انہیں کے ساتھ عیسائی مبلغین کی کثیر تعداد ہندوستان آئی ۔جن کے لیے ہندوستانی زبان جاننا انتہائی ضروری تھا نیز حکومت و تجارت کے لیے بھی اردو جاننا ان کی پہلی ضرورت تھی ۔ اس لیے انگریز اپنی ضرورت کے مطابق فرہنگ نویسی کی جانب مائل ہوئے پھر باضابطہ اردو کے لیے لغات تر تیب دیں ۔

گر یرسین کے حوالہ سے انگریزوں کے ذریعہ لکھی گئیں کئی لغتوں کا پتہ چلتا ہے جو اٹھارہویں صدی میں تر تیب دیے جاچکے تھے ۔بلکہ اس سے بھی قبل انہوں نے ایک ایسی لغت کا ذکر کیا ہے جو ۱۸۳۰ء ؁ میں سورت میں لکھی جاچکی تھی ۔جو فارسی ، ہندوستانی ، انگریز ی اور پرتگالی الفاظ پر مشتمل تھی ۔ اس لغت میں فارسی الفاظ رومن وفارسی رسم الخط میں اور ہندوستانی الفاظ رومن وگجراتی رسم الخط میں لکھے گئے تھے ۔گر یرسین اس طر ح کی ایک اور لغت کا ذکر کر تے ہیں LEXICAN LINGUAGE INDOSTANICA  جو سو رت میں ہی ۱۷۰۴ ء؁ لکھی گئی تھی ۔ان کے بقول اس لغت کا مسودہ روما کی لائبری میں موجود تھا ۔یہ لغت دو جلدوں میں تھی اور ہر جلد پانچ سو صفحات پر مشتمل تھی ۔

۱۷۷۲ء؁ میں جارج ہیڈلے نے صر ف و نحو مع فرہنگ انگریزی ایک کتاب لکھی جو لندن سے شائع ہوئی۔ اس میں اردو الفاظ فارسی رسم الخط میں لکھے گئے تھے ۔اس میں ایسے الفاظ خاص طور سے شامل کیے گئے تھے جو متحد الصوت مگر مختلف المعنی تھے ۔اشاعت ثانی  بھی لندن ہی سے ۱۷۸۴ ء ؁میںہوئی ۔ تیسری اشاعت میں جملے اور مکالمے میں بھی اضافہ عمل میں آیا ، پانچویں بار مرزا محمد فطرت لکھنوی کی تصحیح و اضافہ کے ساتھ ۱۸۰۱ء ؁میں شائع ہوئی۔ جس میں بنگال کے رسم و رواج اور طور طریقوں پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی ۔چھٹی مرتبہ ۱۸۰۴ء؁ میں ، ساتویں مرتبہ مزید تصحیح و اضافہ کے بعد۱۸۷۹ء؁ میں لندن سے شائع ہوئی ۔

جان گلکر سٹ کی مدون کر دہ انگر یزی-ہندوستانی ڈکشنری (دو جلدوں میں) کلکتہ سے ۱۷۷۸ء ؁ سے شائع ہونا شروع ہوتی ہے جو ۱۷۹۰ء ؁ میں مکمل ہوئی ۔اس لغت کی اہمیت بایں معنی ہے کہ اس میں انگریزی الفاظ کے معانی رومن اور اردو دو نوں رسم الخط میں موجود ہیں ۔اردو الفاظ کی اصل کی طرف بھی نشاندہی کی گئی ہے ۔اس لغت میں یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ اردو کے مترادفات کے ساتھ انگریزی کے مترادفات بھی شامل ہیں ۔اس وجہ سے اسے انگریزی ہندوستانی - انگریزی لغت کہاجاتا ہے ۔ اصلاح وتر میم و اضافہ کے بعد یہ لغت ہندو ستانی فلولوجی کے نام سے دوبارہ ۱۸۱۰ء؁ میں اڈنبرا سے اور تیسری بار ۱۸۲۰ء؁ میں لندن سے شائع ہوئی ۔ اس کے بعداس دورمیں متعدد ہندو ستانی انگریزی اور انگریز ی ہندو ستانی لغتیں لکھی گئیں ۔جن میں سے دو لغتوں نے بہت ہی اہم مقام حاصل کیا۔ ایک ڈاکٹر فیلن کی ہندو ستانی انگریزی ڈکشنری ، دوسری پلیٹس کی اردو ہندی - انگریزی ڈکشنری ۔

ڈاکٹر فیلن ۱۸۳۷ء ؁ میں بنگال ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ میں انسپکٹر آف اسکولز کی حیثیت سے منسلک ہوئے ۔ ۱۸۵۷ء؁ میں انہوں نے’’ ہندوستانی انگلش لا اینڈ کمر شل ڈکشنری ‘‘ شائع کی ۔ وہ اپنی جگہ بہت ہی معتبر اور وقیع تالیف ثابت ہوئی ۔۱۹۷۶ ء؁ میں دوبارہ پاکستان سے یہ ڈکشنری شائع ہوئی ۔ اس ڈکشنری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ انگریزی نظم و نثر کے اقتباسات سے مزین ہیں۔ جو انگریزی الفاظ و محاورات کی سند میں پیش کیے گئے ہیں۔ سب سے زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ انگریزی نظم کا تر جمہ فیلن نے اردو نظم میں ہی کیا ہے ۔اس ڈکشنری میں انہوں نے الفاظ و معانی کی وضاحت کے لیے جملوں ،فقروں اور کہاوتوں کو پیش کیا ہے جو عموما شمالی ہند میں بولی جاتی ہیں ۔تلفظ کی وضاحت فونیٹک سسٹم سے کیا گیا ہے ۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انہوں نے واضح طور پر کیا تلفظ اختیار کیا ہے ۔ 

جان ٹی پلیٹس کی اردو ہندی اور انگریزی ڈکشنری ۱۸۸۴؁ء میں پہلی بار آکسفورڈ یو نی ورسٹی سے شائع ہوئی ۔یہ ڈکشنری فیلن کی ڈکشنری کے مقابلے میں زیادہ ضخیم ہے ۔ اس میں اردو کے ساتھ عوامی استعمال کے ہندی اور خالص سنسکرت الفاظ بھی شامل کیے گئے ہیں جو نہ اردو میں کبھی مستعمل تھے اور نہ ہی وقت تحریرمستعمل ملتے ہیں ۔

پلیٹس نے اس لغت میں اصل لفظ یا ماخذ زبان کی نشاندہی کے سلسلے میں اردو ہندی الفاظ کے اصل شکل کو بھی پیش کیا ہے۔ ہندی الاصل الفاظ کو اردو رسم الخط کے ساتھ ساتھ ناگر ی رسم الخط میں بھی لکھ کر ان کی مختلف پراکرت ، اپ بھر نش شکلوں اور ارتقائی مدارج پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ پلیٹس کی اس لغت کی اہمیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں نہ صرف لفظ کی اصل کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ دیگر زبانوں کے دخیل ،اردو یا ہندی الفاظ کے اصل مآخذ تک پہنچنے کی بھی کوشش کی گئی ہے ۔اور جہاں کہیں تحقیق نہیں ہوسکتی وہاں قیاس سے کام لیا گیا ہے ۔

فارسی اردو-اردو فارسی ، ہندوستانی انگریزی-ہندوستانی لغت نویسی کے بعد اردو - اردو لغت نویسی کا دورشروع ہوتا ہے ۔

اردو - اردو لغت نویسی کی سب سے پہلی کڑی امام بخش صہبائی کی ایک تالیف ہے جو صرف و نحو سے متعلق ۱۸۴۹ء؁ میں لکھی گئی تھی ۔جو اس وقت کے رواج کے برخلاف اردو میں لکھی گئی ۔اس کے بعد سید ضامن جلال لکھنوی کی سرمایہ زبان اردو ہے جو ۱۸۸۶؁ء میں شائع ہوئی ۔نیاز علی بیگ کی ’’مخزن فوائد ‘‘ ۱۸۸۶؁ء ، منشی چرنجی لال کی ’’ مخزن المحاورات ‘‘ ۱۸۸۶؁ء ، مرزا محمد مصطفی عر ف مچھوبیگ عاشق لکھنوی کی ’’ بہار ہند‘‘ ، سید احمد دہلوی کی لغات اردو ( جو آگے چل کر فرہنگ آصفیہ کی تدوین کی بنیاد بنی ) ، مولوی اشر ف علی لکھنوی کی مصطلاحات اردو (۱۸۹۰) وغیرہ ہیں ۔

اسی دور میں اردو کی سب سے معتبر و اہم لغت ’’ فرہنگ آصفیہ ‘‘ لکھی گئی ۔ سید احمد دہلوی ’فرہنگ آصفیہ ‘ سے پہلے ’ لغات اردو ‘ شائع کر چکے تھے جو ’ ارمغان دہلی ‘ کے نام سے مختصر رسالوں میں شائع ہوئی تھی ۔بعد میں اسی ’ارمغان دہلی ‘ پر مبنی ’لغات اردو ‘ اور ’ لغات النساء ‘ کی از سر نو تدوین کی ، جو کئی اضافوں اور تر میمات کے ساتھ پہلی جلد ’ ہندو ستانی اردو لغت کے نام سے مدون کی گئی۔ بعد میں نظام دکن کے مالی امداد کے باعث میں فر ہنگ آصفیہ کے نام سے موسوم ہوئی جس کی جلد اول و دوم ۱۸۸۸؁ء میں جلد سوم ۱۸۹۸؁ء میں اور جلد چہارم ۱۹۰۱؁ء میں مکمل ہوئی ۔ 

فرہنگ آصفیہ کئی اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے ، نیز یہ اردو کی پہلی مبسوط اردو لغت ہے جو بعد کی تمام لغتوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ اگرچہ اس میں ادبیت غالب ہے اور شعری تر کیبات بہ افراط شامل کی گئی ہیں ، تاہم  تلفظ کی نشاندہی یا وضاحت کا کوئی باضابطہ التزام نہیں ملتا ہے ۔

’ امیر اللغات ‘ امیر مینائی کی اردو لغت نگاری میں خاصی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کا پہلا حصہ ( الف ممدودہ) ۱۸۹۱ء ؁ میں مطبع مفید عام آگرہ سے ، دوسرا حصہ ۱۸۹۲ء؁ میں آگر ہ سے ہی، تیسر ا اور چو تھا حصہ زیر طبع ہی تھا کہ ۱۹۰۰ء؁ میں امیر مینائی کا انتقال ہوگیا۔ یہ لغت فر ہنگ آصفیہ پر ایک اضافے کی حیثیت رکھتی ہے۔  وہ اس طور پر کہ اس میں اندراجات کے اصل اور ماخذ لسانی کی نشاندہی نیز تلفظ کی نشاندہی کے سلسلے میں مکمل تحقیق سے کام لیا گیا ہے ۔ اس لغت کو یہی صفت اہمیت کا حامل بناتی ہے ۔

نو رالحسن نیر کاکوری نے ’ امیر اللغات ‘ کے نامکمل کام کو پورا کر نے کی غر ض سے ’ نوراللغات ‘ کی تدوین ۱۹۲۴ء؁ میں شروع کی ۔ جس کی پہلی جلد اسی سال منظر عام پر آگئی ۔ یہ لغت چار مبسوط جلدوں میں لکھی گئی ۔ اس کی آخر ی جلد ۱۹۳۱ء ؁ میں اشاعت العلوم پریس فرنگی محل لکھنو سے شائع ہوئی ۔ تلفظ کے سلسلے میں اس لغت کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں تمام اندراجات کے تلفظ کے لیے وضاحتی طریقہ ٔ کار کے علاوہ ہم و زن اور مساوی الحر کات طر یقہ بھی اختیار کیا گیا ہے ۔ مثلا (شرطیہ : بفتحہ ٔدوم و کسرۂ سو م و سکون یائے معروف مشدد و مفتوح) اور دو سرا طریقہ جو ہم وزن حرکات کا ہے وہ اس طر ح ہے جیسے ’ صیغہ ‘ بر وزن ’ زینت ‘ اور ’ اگری ‘ بروزن ’ سفری ‘  وغیرہ ۔ 

اسی عہد میں خواجہ عبدالحمید نے جامع اللغات کے نام سے ایک مبسوط لغت کی تدوین کا کام شروع کیا ۔جس کی اشاعت کا سلسلہ ۱۹۳۲ ء؁ سے شروع ہوا اور ڈھائی سال کے عرصہ کے بعد ۱۹۳۵ء ؁ میں مکمل ہوا ۔اب یہ لغت چار جلدوں میں دستیاب ہے ۔ تلفظ کی نشاندہی کے سلسلے میں یہ لغت نہایت ہی کمزو رہے اس جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے ۔

’فر ہنگ اثر ‘ نواب جعفر علی خاں اثر لکھنوی کی ایک جلد ی تالیف دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ یہ باقا عدہ الگ سے لغت ہو نے کے بجائے دو سابقہ لغات ’ سر مایۂ زبان اردو‘ اور ’ نوراللغات ‘ کا ناقدانہ جائزہ ہے ۔ حصہ اول جو کہ کل باون صفحات پر مشتمل ہے اس میں سید ضامن جلال لکھنوی کی ’ سرمایہ ٔ زبان ارود ‘ کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے ۔حصہ دو م جو تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے اس میں نیر کاکوروی کی ’ نوراللغات ‘ کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس لغت میں بھی اندراجات کے تلفظ کی نشاندہی ہم وزن یا مساوی الحر کات الفاظ کے ذریعہ کی گئی ہے مثلا اصیل بروزن کفیل اور اگری بروزن سفری وغیرہ۔ اس لغت میں صرف لکھنوی استعمال کو ہی معیار بنایا گیا ہے ۔ اگر کوئی لفظ یا محاورہ لکھنومیں مستعمل نہیں ہے تو وہ ان کے نزدیک معیاری نہیں ہے ۔

جس طر یقہ سے ’ فرہنگ اثر ‘ سابقہ لغات کا جائزہ ہے اسی طریقہ سے ’مہذ ب اللغات ‘ میں بھی مہذب لکھنوی نے ’ فرہنگ آصفیہ ‘ اور ’ نور اللغات ‘ کے اندراجات میں اختلاف رائے کو پیش کیا ہے ۔ اس نظریہ سے یہ لغت دونوں سابقۃ الذکر لغات کا ایک محاکمہ بھی پیش کر تا ہے ۔ کیو نکہ مؤلف مہذ ب اللغات نے فرہنگ آصفیہ اور نو راللغات کے اندراجات ، تلفظ ، قواعدی نو عیت اور خاص طور پر ان کے معانی کو اپنے لغت میں نقل کر نے کے بعد ان پر اپنی رائے دی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ یاتو متر وک ہوچکا ہے یا پھر لکھنؤ میں مستعمل نہیں ہے یا عوام میں استعمال نہیں وغیر ہ وغیرہ ۔در اصل انہوں نے ’ فر ہنگ آصفیہ ‘ اور ’ نو راللغات‘ کو لکھنو میں مستعمل زبان کے سانچہ پر پر کھنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن تلفظ کی نشاندہی کے سلسلے میں کوئی باقاعدہ طریقہ یا یکسا ں اصول نہیں اختیار کیا ہے۔ تلفظ کی نشاندہی اعراب کے ذریعے اور مساوی الاوزان و الحرکات کے ذریعے بھی کی گئی ہے ۔ 

عبد اللہ خاں خویشگی کی’ فرہنگ عامرہ ‘ کے پیش لفظ میں ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں ’’ اردو کلاسیکی لغا ت میں فرہنگ عامرہ کو اہم مقام حاصل ہے، اس میں عر بی ،فارسی اور تر کی کے ایسے چالیس ہزار االفاظ درج کیے گئے ہیں جو ارد و میں مستعمل ہیں ۔ فاضل مؤلف نے تلفظ کو اس طر ح تو ڑ کر لکھا ہے کہ لفظ کوصحیح طو ر پر آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے ‘‘ ۔ پہلی مرتبہ اس لغت کی طباعت ۱۹۳۷ء؁ میں عمل میں آئی پھر ۱۹۵۷ ء میں فاضل مؤلف نے اس پر نہ صرف نظر ثانی کی بلکہ ضروری اضافہ بھی کیا ۔ تلفظ کے معاملہ میں یہ لغت بہت ہی عمدہ ہے اس میں تمام اندراجات کے تلفظ  بین القوسین حر فوں کو توڑ کر باللفظ لکھے گئے ہیں ۔

جامع فیر وز اللغات جس کے کئی ہم شکل لغت مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔ اس لغت کو نئی تر تیب اور جدید اضافوں کے ساتھ مولوی فیروز الدین نے مر تب کیا جو ۱۹۸۷ ء ؁ میں مطبع ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوئی ۔ اس لغت کی مارکٹنگ بہت ہوئی اس وجہ سے عوام تک سب سے زیادہ اس کی رسائی بھی ہوئی ۔اس لغت میں مندر جات کے معانی کے ساتھ ساتھ تلفظ کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ تلفظ کی وضاحت کہیں کہیں حر کت سے کی گئی ہے لیکن اکثر مقا م پر بین القوسین لفظ کے حر وف کو توڑ کر اعراب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ 

لغت کبیر اردو 

بابائے اردو مولوی عبد الحق ۱۹۳۰ ء ؁ میں جب اورنگ آباد کے کالج سے سبکدوش ہوئے تو حکومت حیدر آباد نے انہیں جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو کا صدر مقرر کیا ۔اسی کے ساتھ دس سال کے لیے بارہ ہزار روپے ( سکۂ عثمانیہ) کی ایک خاص امداد بھی مقرر کر دی تاکہ وہ اردو زبان کی ایک جدید تر ضخیم لغت تیار کر یں ۔ اس کام کے لیے مولوی احتشام الحق حقی دہلوی مدد گار ہوئے ۔جن کا کام صر ف الفاظ کو تلاش کر کے ترتیب سے جمع کر نا تھا ۔ نظر ثانی خود مولوی عبد الحق صاحب اور ایک کمیٹی کر تی تھی جس میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ، جناب پنڈت کیفی ، اور سید ہاشمی فریدآبادی تھے ۔اس کے لیے سنسکر ت اور ہندی زبانوں کے بعض ماہرین بھی مامورتھے ۔ یہ مصدقہ نہیں ہے کہ اس کا کتنا حصہ قیام حیدرآبا د میں تیار ہوا تھا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ تقسیم کی تباہی میں وہ بھی تباہ ہوگیا تھا ۔اس کے بعد پاکستان میں اردو لغت بورڈ بنا جس کے پہلے صدر مو لوی عبد الحق بنے اور اپنی علالت کے سبب زیادہ خدمات نہیں انجام دے سکے ۔ الغر ض اس سلسلے کی پہلی جلد ۱۹۷۳ء میں منظر عام پر آئی ۔اب یہ لغت جو موجودہ شکل میں ہمارے پاس ہے اس میں تلفظ کی وضاحت اعر اب اور قوسین میں اعراب باللفظ کے ذریعہ کی گئی ہے ۔ کسی بھی لفظ کے استعمال کے سلسلے میں منظوم و منثور دونوں شواہد سے کام لیے گئے ہیں ۔ جبکہ اس سے ماقبل کے لغتوں میں نظموں سے شواہد زیادہ دیے جاتے تھے ۔ یہ لغت موجودہ وقت تک اردو زبان کی سب مبسوط لغت ہے جو ۲۲؍ جلدوں میں شائع ہوئی ہے ۔

لغات میں صورت اظہار تلفظ کی یہ مختصر روداد تھی جس میں صرف سن تالیف اور طریقہ ٔ تلفظ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا کے علاوہ بھی کئی لغتیںہیں جو عوام کے استعمال میں ہیں لیکن یہاں سب کا ذکر ممکن نہیں۔ 

مندرجہ ذیل ٹیبل میں ایک ہی لفظ کے تلفظ کو چارلغتوں سے پیش کیا جارہا ہے اس میں آپ لغتوں میں تلفظ کے تنوع کو دیکھ سکتے ہیں ۔ فیلن کے کالم میں جن اندراجات کا ذکر کیا گیا ہے ضروری نہیں کہ دوسرے کالموں میں بھی وہ مذکور ہوں۔ دو سرے کالموں میں جن کا ذکر نہیں ہو ا ہے وہ صرف اس وجہ سے کہ وہ بہت ہی فاش غلطیاں ہیں جو فیلن کی ڈکشنری میں پائی جاتی ہیں دوسری لغتوں میںوہ غلطیاں نہیں دہرا ئی گئی ہیں ، وہ فاش غلطیاں اکثر املا کی ہیں یا عربی کے اسم فاعل کو اسم مفعول کی حرکت دے دی گئی ہے ۔


لفظ

فیلن،ہندوستانی ۔انگریزی

فرہنگ آصفیہ 

فرہنگ عامرہ 

جامع فیروز اللغات 

اخذ

اَخَذْلکھا گیا ہے لیکن مصدر کے معنی میں خ پر سکون ہے 

اَخْذْخ پر سکون ہے 

اَخْذْخ پر سکون ہے 

اخذ: تلفظ مذکور نہیں 


اسپینا

کر اچی اردو لغت بورڈ نے spin سے ماخوذبتایا ہے جبکہ فیلن نے اسپینا اسپ سے مشتق بتایا ہے ، فیلن نے اسکو گھوڑوں کے سودا گر کی اصطلاح بتا یا ہے ، اس مناسبت سے قابل قبول بھی ہے ۔

مذکور نہیں 

مذکور نہیں 

مذکور نہیں 


اَسرار ، اِسرار 

اَسرار ، اِسرار دونوں تلفظ کے معنی راز کے بتائے ہیں جبکہ ایک کے معنی راز کے ہیں اوراِسرار کا معنی چھپانے کے ہیں ۔

اَسرار ، اِسرار: انہوں نے مشہور بکسرۂ الف لکھا ہے اور لکھا ہے کہ بالکسر کے معنی آسیب جن و پری کا سایہ 

اَسرار ، بفتحہ اول مذکور نہیں ۔ اِسراربکسر اول بھید کسی کو بات پہنچانا 

اَسرار : (اَس ۔رار) سِر کی جمع بھید کوشش 


اَسلِحَہ

اسلَح در ج ہے ، بقول وارث سرہندی یہ عامیا نہ تلفظ ہے 

اسلحہ: (اَس۔ لَ حہَ)سلاح کی جمع 


اُفُق

اُفَق: الف کے ضمہ اور ف کے فتحہ کے ساتھ لکھا ہے ، جبکہ صحیح اُفُق بضمۃالاولین ہے ۔ پلیٹس نے دونوں کا ذکر کیا ہے ۔

اُفُق: بضمہ ٔ اولین 

اُفُق: بضمہ ٔ ف و بسکون ف دونوں مذکور ہے ، لیکن بسکون ثانی کا کیا مطلب ہے وہ محل نظر ہے 

افق:(اُ۔فُق) 


اکسیر

اَِکسیر : بالفتح و بالکسر اول دونوں ہی مر قوم ہے ، وارث سرہندی بالکسر اول کو راجح قرار دیتے ہیں

اِکسیر : بکسرۂ اول 

اِکسیر : بکسرۂ اول 

اکسیر ( اِک۔سِیر)کیمیا 


اَلماس 

اِلماس : بکسرۂ اول مذکور ہے ، جبکہ بالاتفاق بالفتح اول ہے ۔

اَلماس : بفتحہ الف

اَلماس : بفتحہ الف

الماس: (اَل۔ ماس) ہیرا


اَمْن

اَمَن: بفتحہ میم مذکور ہے 

اَمْن: بسکون میم 

اَمْن: بسکون میم 

اَمَن: بفتحۃ الاولین ۔


آوُر د

آوُرد : بضمۂ واو ، وارث سرہندی واو پر فتحہ کو درست کہتے ہیں ۔

آوُرد : بضمۂ واو ، صفت از آوردن، نقیض آمد 

آوَرد : بفتحہ ٔواو، لایا ہوا ، متوسل

آورد: (آ۔ورد)  تلفظ مذکور نہیں البتہ ’ آوَر‘ میں واو پر فتحہ ہے۔


برادر 

بِرادر : بکسر ۂ اول در ج ہے 

بِرادر : بکسر ۂ اول 

بَرادر : بفتحہ ٔاول،وارث سرہندی نے اسی کو صحیح مانا ہے 

برادر : (بَ ۔را۔ در)


براق 

بَُراق : ب پر فتحہ و ضمہ دونو ں درج ہے 

بُراق : بضمہ ٔ اول 

بُراق : بضمہ ٔ اول 

برّاق: (بُ ۔راق)

براق : (بَر ۔راق) کملدار 


تَرْکہ ، تر ِکہ 

تَرْکہ : بسکو ن را مذکورہے 

تَرِکہ : بکسرۂ را 

تَرِکہ : بکسرۂ را 

ترکہ : (تَر۔کہ) را میں حر کت مذکور نہیں 


تِشنَع

عربی میں ایسا کوئی لفظ مذکور نہیں ہے بلکہ وہ تشنیع ہے 


تَفرقہ 

تَفْرَقہ : بفتحۂ رائے مہملہ 

تَفْرِقہ :بکسرۂ رائے مہملہ 

تَفْرِقہ :بکسرۂ رائے مہملہ 

تفرقہ : (تَف۔رِ۔قہ)


ثِقالَت 

ثِقالت : بکسر اول درج ہے

ثَقالت : بفتحۂ اول 

ثَقالت : بفتحۂ اول 

ثقالت : ثِ۔قَا۔لَت ) 


جَجمان 

جِجْمان : بکسرہ ٔ اول درج ہے جبکہ پلیٹس نے بفتحہ ٔ اول درست قرار دیا ہے 

جِجْمان : بکسرہ ٔ اول ۔

ججمان : مذکور نہیں 

جَجمان : (جَج ۔ مان )


جرح 

جَرَح : فتح الاولین درج ہے ، عربی میں بضم اول و سکون ثانی و ثالث (جُرْحْ) ہے ، اردو میں بکسر اول وفتح ثانی (جِرَح) بولاجاتا ہے 

جُرْح : بضم اول و سکون ثانی و ثالث ہے 

جُرْح : بضم اول و سکون ثانی و ثالث ہے 

جر ح : بکسر ہ ٔ جیم ، را میں حر کت مندرج نہیں 


جر یان 

جِرْیا ن :بکسر اول و سکون ثانی  کو ہندی لفظ بتا یاہے ، جبکہ عربی میں بفتح الاولین درست ہے ، 

جِرْیا ن :بکسر اول و سکون ثانی

جَرَیا ن : بفتح الاولین 

جَریا ن :(جَر ۔یا۔ن)  جیم پر فتحہ را پر سکون 


جنوب 

جُنُوب : بضم الاولین ، جبکہ عربی میں بفتح اول ہے 

جَنُوب : بفتح اول 

جُنُوب : بضمہ ٔ اول 

جنوب (جَ۔نُوب)


حماقت 

حِماقت : بکسر اول درج ہے 

حَماقت : بفتحہ اول

حَماقت : بفتحہ اول

حَماقت : حَ۔ما۔قت)


خزان 

خِزاں : بکسر اول درج ہے، جبکہ فارسی میں بفتح اول مستعمل ہے

خِزاں : بکسر اول ، انہوں نے فتحہ اور کسرہ کی مختصر گفتگو کے بعد لکھا ہے کہ لغات والوں نے دونوں لکھا ہے 

خَزَاں : بفتحۂ اول 

خزاں: ( خ۔زاں )  تلفظ مذکور نہیں ۔


خسارہ 

خِسارہ :خ مکسور ہے  

خَسارہ :خ مفتوح ہے 

خَسارہ :خ مفتوح ہے 

خسارہ : (خَ۔ سا۔ رہ) 


خنک 

خُنَک : خ مضمو م و ن مفتوح

خُنَک : خ مضمو م و ن مفتوح، نیز بفتحتین 

خُنک : خ مضمو م

خُنَک : (خُ۔نَک)


خواب 

خواب: تلفظ واو معدولہ و بغیر واو معدولہ دونوں درج ہے 

خواب:مذکور نہیں ، جبکہ اس کے مشتقات مذکور ہیں لیکن تلفظ کا ذکر نہیں ۔

خواب: مذکور نہیں 

خواب : (خا۔ب)


خوارق 

خَوارَق: را مفتوح در ج ہے ، یہ جمع ہے خارق کی 

خَوارق:مذکور نہیں ۔ 

خوارِق : بکسر ۂ را

خوارِق : (خَ ۔وا۔رِ۔ق)  کتابت کی غلطی سے خارج کی جمع تحریر ہوگیا ہے ۔


خواست کار 

خواست کار : واو معدولہ و بلا واو معدولہ دو نوں درج ہے ۔

واو معدولہ ہے 

واو معدولہ ہے 

واو معدولہ ہے 


دار السلام ، دارالشفا، دارالضرب 

ان جیسے تما م کا تلفظ لام کے ساتھ کیا ہے ،


دماغ

دَِماغ: بفتح و بکسر اول 

دَِماغ: بکسر اول 

دَِماغ: بکسر اول 

دِماغ: (دِ ۔ما۔غ)


دویم 

دُویَم: فتحہ ی ، اب یہ متروک ہے ، حال میں دوم سوم لکھا جاتا ہے  


دیار

دَِیار : بفتح و بکسر اول 

دَِیار : بکسر اول 

دیار : تلفظ واضح نہیں 

دیار : (دِ۔یا۔ر)


رعایا

رِعایا: بکسر اول 

رِعایا: بکسر اول 

رَعایا: بفتحہ ٔ اول 

رَعایا ۔ (رَ۔عا۔ یا )


رعونت 

رَعونت: بفتح اول 

رُعونت: بضمۂ اول 

رُعونت: بضمۂ اول

رُعونَت: (رُ ۔عُو ۔نت)


رفاقت 

رِفاقت : بکسر اول 

رَفاقت : بفتحۂ اول 

رفاقت: مذکور نہیں 

رَفاقت : (رَ۔فا۔قَت ) 


رکاب 

رَکاب: بفتح اول 

رِکاب: بکسرۂ اول 

رِکاب: بکسرۂ اول 

رکاب :(رِ۔کا۔ب ) 


رواج

رِواج: بکسر اول ، پلیٹس نے اس کو عامیانہ قرار دیا ہے 

رِواج: بکسرۂ اول، البتہ تصریح ہے کہ عربی را پر فتحہ ہوتا ہے 

رِواج: بکسرۂ اول و بفتحۂ اول دونوں مذکور ہے 

رَواج : (رَ۔وا۔ج) 


رِہا 

رِہا بمعنی آزاد بکسر اول درج ہے اگر فارسی کے رَہیدن سے مشتق مانتے ہے تو رَہا ہونا چاہیے


زرنباد

زَرُنباد: ز پر فتحہ ، ر ا پر ضمہ 

زَرنباد:مذکور نہیں 

زَرَنباد:بفتحۃ الاولین 

مذکور نہیں 


سبک 

سُبُک: بضم الاولین ، پلیٹس نے بضم اول وبفتح ثانی کو صحیح بتایا 

سَُبُک: بفتحہ اول بضم اول وضمہ ثانی ۔

سَبُک: بفتحہ اول وضمہ ثانی ۔

سُبک : ( س۔بُک )


سپرد

سُپُرد: بضم اولین، وارث سر ہندی نے س پر کسرہ صحیح کہا ہے لیکن کوئی اس کی دلیل نہیں دی

سِپُرد:بکسر ۂ اول در ج ہے (بضمہ ٔ اول زبان زد ہے )

سِپُرد:بکسر ۂ اول ۔

سپرد : (س ِ ۔پُرد)


سپوت 

سَپُوت: بفتح اول و ضم دو م ، جبکہ سنسکر ت میں بضم الاولین ہے

سَپُوت: بفتحۂ اول

سَپُوت: مذکور نہیں 

سپوت : (سَ ۔ پوُت)


ستون 

سِتون: بکسر ۂ اول 

سُتون: بضمۂ اول 

سُِتون: بضمہ و بکسرہ ٔاول 

سُتون: (سُ ۔تُو ن)


سرایت 

سَرایت : بفتح اول ، وارث سرہندی نے صحیح تلفظ بکسرۂ اول لکھا ہے 

سَرایت : بفتح اول 

سَرایت : بفتح اول 

مذکور نہیں 


سر شت 

سَرِشت : بفتح اول و کسرثانی 

سِرِشت :بکسر ۂ اولین 

سِرِشت :بکسر ۂ اولین 

سِرِشت:(سِ۔رِ۔شت)


سہام 

اس کو سَہْم کا واحد لکھا ہے لیکن سہم کا تلفظ ’ سہِم ‘ ہ میں کسرہ لکھا 

واحد مذکور نہیں 

اس لفظ کے تین تلفظ مذکور ہیں اور تینوں معانی الگ الگ ہیں ۔سِہام ، سہْم کی جمع ۔ سَہَام بفتحۃ الاولین (لو ، سخت گر می) سُہام بضمۂ اول تاریکی 

سِہام : (سِ ۔ہا۔م ) 


سہل 

سَہَل : بفتح الاولین 

سَہْل : بسکون ہائے ہوز 

سَہْل : بسکون ہائے ہوز 

سہل :تلفظ مذکور نہیں 


شائع 

اس جیسے تمام کا تلفظ جسمیں ہمزہ آتا ہے سب کو یا سے فتحہ کے ساتھ لکھا ہے 


شرف 

شَرَْف : بفتحۃ الاولین وسکون دوم،  

شَرَف : فتح الاولین 

شَرَف : بفتحۃ الاولین 

شر ف : (شَ۔رَ۔ف)


شعور 

شَعُور: بفتح ش و بضمہ ع

شَعُور: بفتح ش و بضمہ ع

شُعُور: بضمۃ الاولین 

شعور : (ش ۔عور )تلفط مذکو ر نہیں 


صدقہ 

صَدْقہ : بسکون دال ، جبکہ عربی میں دال پر زبرہے 

صَدَقہ :بفتحۃ الاولین 

صَدَقہ :بفتحۃ الاولین  

صدقہ : (صد ۔ قہ ) صاد اور دال ایک ساتھ مذکور ہے اس کا مطلب دال میں سکون ہے 


صعوبت 

صَعُوبت : بفتحہ ٔاول 

صُعُوبت : بضم الاولین 

صُعُوبت : بضمۃ الاولین 

صُعوبت : (صُ ۔ عُو۔بَت) 


صفحہ 

صُفحہ : بضمہ ٔ اول 

صفحہ : تلفظ مذکور نہیں 

صفحہ : بفتحۂ اول 

صَفْحہ : (صَفْ۔ حہ ) 


صلح 

صُلَح: بفتحۂ ثانی 

صُلْح: بسکون لام 

صُلح: لام کا تلفظ مذکور نہیں 

صُلح: لام کا تلفظ مذکور نہیں 


صلدات 

صَلْدات: بسکون لام، وارث سرہند ی نے لام میں فتحہ کو صحیح لکھا ہے  

صَلْدات: بسکون لام 

صلدات: مذکور نہیں 

مذکور نہیں 


ضرور 

ضُرور : بضمہ ٔ اول 

ضَرور :بفتحۃ اول 

ضَرور :بفتحۃ اول 

ضَرور : ( ضَ ۔رُور)


طبقہ 

طَبْقہ : بسکون ب ، عربی میں ب پر فتحہ ہے

طَبَقہ :بفتحۂ اولین 

طَبَقہ :بفتحۂ اولین 

طبقہ : تلفظ مذکور نہین 


طبل

طبَل : بفتحہ ٔ ف 

طبْل : بسکون با 

طبْل : بسکون با 

طبل : تلفظ مذکور نہیں 


طمطراق 

طُمطَراق : بفتحہ ٔ طا ئے ثا نی 

طُمطُراق : بضمہ ٔ طا ئے ثا نی 

طُمطُراق : بضمہ ٔ طا ئے ثا نی 

طُمطُراق : طُم ۔ طُ۔راق )


عائد

عاید: غلط املا و غلط تلفظ 


عجائب

عجایب : غلط املا و غلط تلفظ 


عرق 

عَرَق: میں را پر فتحہ کو عامیا نہ اور سکون کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے 

عَرَق: میں را پر فتحہ 

عَرَق: میں را پر فتحہ 

عَرَق: (عَ ۔رَ ۔ق) 

عِرق: رگ جڑ


عصمت 

عَِصمت: بکسر و بفتحہ ٔ اول 

عِصمت: بکسر ۂ عین 

عِصمت: بکسر ۂ عین 

عصمت : (عِص ۔مَت ) 


عفونت 

َعَفونت : بفتحۂ اول 

عُفُونت :بضمۃ الاولین 

عُفُونَت :  بضمۃ الاولین 

عُفُونَت :  بضمۃ الاولین 


عملہ 

عَمْلہ : بسکون میم 

عَمَلہ : بفتحۂ میم 

مذکور نہیں 

عملہ : ( عَم۔لَہ: عَ ۔ مَ ۔لہ) بسکو ن میم و بفتحہ ٔ میم دونوں مذکور ہے 


عنوان 

عَُنوان: بفتحہ ٔ و بضم عین 

عُِنوان: بکسرہ و بضمۂ عین 

عُنوان : بضمہ ٔ عین 

عنوان : (عُن۔وان) 


عقب

عَقَب : بفتحۃ الاولین 

عَقَب : بفتحۃ الاولین 

عَقِب : بفتحہ ٔ عین بکسر ۂ ق

عقب: تلفظ مذکور نہیں 


فراست 

فَراست: ف پر زبر دانائی کے معنی میں مر قوم ہے ، جبکہ اس تلفظ کا معنی ہے گھوڑوں کا ماہر ، دانائی کے معنی میں ف پر زیر ہے۔

فِراست: ف پر کسرہ۔ کسی شخص کی صورت دیکھ کر سیر ت معلوم کر لینا ۔

فِراست: بکسر ۂ ف 

فِراست : ( فَ ۔را۔ سَ ۔ ت) بکسرہ ٔ ف 


فرائض 

فرایض: غلط املا و غلط تلفظ 


فرشتہ 

فَرِشتہ : ف پر زبر اور ر پر زیر کو درست قرار دیا ہے جبکہ معاملہ بر عکس ہے ۔

فِرِشتہ :بکسرۃ الاولین 

فِرِشتہ :بکسرۃ الاولین 

فِرِشتہ ( فِ ۔ رِش۔ تہ) بکسر ۃ الاولین 


قطار 

قَطار : بفتحۂ ق ، عر بی میں ق پر کسرہ ہے 

ِقِطار :بکسرۂ ق

ِقِطار :بکسرۂ ق

قِطار : (قِ ۔ طا۔ر ) بکسرہ ٔ ق 


قطعہ 

قَِطعہ : بفتحہ و بکسر ۂ اول 

قِطعہ : بکسرۂ ق 

قَِطعہ :بفتحہ و بکسرۂ ق 

قِطْعہ : (قِط ۔عہ) بکسرہ ٔ ق


قماش

قِماش: بکسرہ ق مذکور ہے جس کے معنی بھانت بھانت اور تاش کا رنگ بتایا ہے ، دوسری لغتوں میں بضمۂ اول ہے جس کے معنی گھر کے سامان کے ہیں ۔

قُِماش: بکسرہ وبضمۂ اول

قُماش:بضمۂ اول، جمع اقمشہ 

قُماش: (قُ ۔ ما۔ش ) بضمہ ٔ ق


قندیل 

قَندیل : ق پر زبر مر قوم ہے 

قِندیل : ق پر زیر ہے 

قِندیل : ق پر زیر ہے 


قِندیل : (قَن۔ دیل) اندراج میں ق پر کسرہ ہے پر وضاحت میں ق پر فتحہ ہے 

کابک 

کابَک: بفتحہ ٔ بائے موحدہ ہے لکڑ ی کے بنے ہوے کبوتر کے گھر کو کہتے ہیں ، لیکن مجازا تمام پرندوں کے گھر کو کہتے ہیں ۔

کابک: بلا حر کت درج کر نے کے بعد بضمہ ب کودرست لکھا ہے ۔

کابُک: بضمہ ٔ ب 

کابُک: ( کا ۔ بُک ) بضمہ ٔ ب 


کورنش

کورنِش: اس کا تلفظ بواوِ مجہول لکھا ہے ، یہ تر کی لفظ ہے اس کی صحیح صورت kurnish ہے ، لیکن املائی صورت واو معدولہ کے ساتھ ہی ہے ، مجھے یہ ایک نیا لفظ ملا جس میں واو معدولہ ہے۔

کورنش:حر کات کے بغیر در ج کر نے کے بعد (کُرنش) کو صحیح لکھا ہے۔

کورنش : بضمہ کاف واو معدولہ 

کورنش ( کو ر ۔نش) تلفظ میں واو مصوتہ کے طور پر استعمال ہوا ہے لیکن وہیں تر کی تلفظ ذکر کیا ہے جو جس میں واوہ معدولہ ہے ۔


گوَیا

گوئیا : غلط املا و غلط تلفظ 


لبادہ 

لَبَادَہ : بفتحہ ٔ لام مذکور ہے اور فارسی لفظ بتایا ہے ۔ پلیٹس کی لغت ، فرہنگ عمید اور بہار عجم مین بضمۂ لام درج ہے 

لَبَادَہ : بفتحہ ٔ لام ۔

لَبَادَہ : بفتحہ ٔ لام ۔

لَبادہ : (لَ ۔ با۔ دہ ) بفتحۂ لام 


لحد 

لَحَد : بفتحۃ الاولین ، عر بی میں بسکون حائے حطی ہے ۔ وارث سرہندی نے اس کو عامیانہ قرار دیا ہے ۔

لَحَد : بفتحۃ الاولین 

لَحَد : بفتحۃ الاولین 

لَحَد: (لَ ۔حَ ۔د) بفتحہ ٔ لام 


لغایت 

لَغایت : بفتحۂ اول 

لغایت : تلفظ مذکور نہیں 

لِغایت : بکسر ۂ لام 

لَغایت : ( لَ ۔غا۔یَت ) بفتحہ لام 


مانند 

مانِند: بکسر ہ ٔ نو ن اول ، وارث سرہندی پہلے ن پر فتحہ کو صحیح ٹھہراتے ہیں 

مانَند:بفتحہ ٔ نون اول ( مانِند کو عامیانہ لکھا ہے )

مانَنْد: بفتحہ ٔ نون اول 

مانِند: (ما۔نِند) بکسرۂ نون اول


مائل 

مایَل: غلط املا و غلط تلفظ 


مباحثہ 

مباحِثہ: بکسرہ ٔ ہائے حطی 

مباحَثہ: بفتحہ ہائے حطی 

مباحَثہ: بفتحہ ہائے حطی 

مباحثہ : (مُبا ۔ حَ۔ثہ ) بفتحہ ہائے حطی 


متحد

متَّحَد : بفتحۂ ہائے حطی 

متَّحِد : بکسرۂ ہائے حطی 


متحمل 

مُتَحَمَّل : بفتحۂ میم 

مُتَحَمَِّل : بکسرہ ٔ میم ثانی 


متخلص

مُتَخَلَّص : بفتحۂ لام 

مُتَخَلِّص : بکسرۂ لام 


متدین 

مُتَدَیَّن: بفتحۂ دال 

مُتَدَیِّن: بکسرہ ٔ یائے تحتانی 


متشابہ 

مُتَشابَہ : بفتحہ با ئے موحدہ ، وارث سرہند ی یہاں پر ب پر کسرہ کو صحیح لکھتے ہیں 

مُتَشابَہ : بفتحہ با ئے موحدہ 


متصل

مُتَّصَل : بفتحۂ صاد مہملہ  

مُتَّصِل : بکسرہ ٔ صاد مہملہ  


متغیر

مُتَغَیّر :  بفتحہ یا 

مُتَغَِیّر : عربی کے لحاظ سے فاعل و مفعول دونوں مذکور ہے  


مجادلہ 

مُجَادْلہ : بسکو ن دال 

مُجَادَلہ : بفتحۂ دال 

مُجَادَلہ : بفتحۂ دال 

مجادلہ: (مُ ۔ جا ۔ دِ۔لہ )لڑائی 


مجاز 

مَجاز : میم پر زبر کے ساتھ اجازت دادہ کے معنی میں ہے جبکہ اس تلفظ سے حقیقت کے بر عکس کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، بضمہ ٔ میم اجازت دادہ کے معنی میں ہے ۔

مَجاز : میم پر زبر ، (حقیقت کے بر خلاف)

مَجاز : میم پر زبر ، (گذرنے کی جگہ حقیقت کی ضد)

مجاز : ( مَ ۔جا۔ز ) راہ گزرنے کی جگہ ،میم پر فتحہ ہے ۔ اجازت دادہ کے معنی کا لفظ مذکور نہیں 


مجاہدین 

مُجاہَدین : بفتحہ ہا ئے ہوز 

مُجاہِدین : بکسر ۂ ہا ئے ہوز 

مُجاہِدین : بکسر ۂ ہا ئے ہوز 

مجاہدین ۔ (مُ ۔جا۔ ہِ۔ دِین)


مداخلت 

مداخِلت : بکسرہ ٔ خ ، وارث سرہند ی خ پر فتحہ کو در ست کہا ہے 

مداخِلت : بکسرہ ٔ خ 

مداخِلت : بکسرہ ٔ خ 

مداخلت : (مُ ۔دا ۔ خَ۔ لَت)


مدح 

مَدَح : بفتحتین 

مَدح : دال پر سکون  

مَدْح : دال پر سکون  

مدح : تلفظ مذکور نہیں 

مسائل 

مسایَل : املا و تلفظ دونوں غلط 


مسر ت 

مُسرَّ ت: بضمۂ میم 

مَسرَّ ت: میم پر فتحہ 

مَسرَّ ت: میم پر فتحہ 

مُسر ت : (مُ ۔سَر۔رَت)


مشفق 

مُشْفَِق : بفتحہ و بکسر ۂ ف 

مُشْفِق : بکسر ۂ ف 

مُشْفِق : بکسر ۂ ف 

مشفق : (مُش۔ فِق)


مصافحہ 

مَصافَحہ : بفتحہ ٔ میم 

مُصافَحہ : بضمۂ میم و فتحہ ٔ فا

مُصافَحہ : بضمۂ میم و فتحہ ٔ فا

مصافحہ : (مُ ۔صا۔ فَ ۔حہ)


مضمحل 

مُضمَحَِل: بفتحہ و بکسرہ حائے حطی ، 

مُضمَحِل: بکسرہ حائے حطی ، 

مُضمَحِل:ح پر کسرہ اور لام میں تشدید 

مضمحل : ( مُض۔ مَ۔حِل) 


مضارع 

مضارَع : فتحہ را 

مضارِع : بکسر ہ ٔرا

مضارِع : بکسر ہ ٔرا

مضارع : (مُ ۔ضَا۔رِع)


معرفت  

مَعْرَفت: بفتحہ را مذکورہے 

مَعْرِفت: بکسرۂ را

مَعْرَفت: بکسرہ ٔرا

معر فت : (مَع۔ رِ۔فَت ) 


معنی 

معنی: کا تلفظ مانی بتا یا ہے 


مغفرت 

مَغْفَرَت: بفتحہ ٔ ف 

مَغْفِرت: بکسرۂ ف 

مَغْفِرت: بکسرۂ ف

مغفرت : مَغ۔ فِ۔رَت)


ممالک 

مُمالک : بضمۂ میم اول اور مُلک کی جمع بتایا ہے جبکہ درست بفتحۂ میم ہے اور وہ مملکت کی جمع ہے ۔ 

مَمالک :بفتحۂ اول مملکت کی جمع  

مَمالک :بفتحۂ اول مملکت کی جمع 

مَمالک: (مُ ۔ ما۔لِک) 


مناسبت 

مُناسِبَت : بکسرہ سین مر قوم 

مُناسَبَت :سین کے فتحہ کے ساتھ

مذکور نہیں 

مناسِبت : (مُ۔نا۔ سِ۔بَت)


منفرجہ 

مُنْفَرَجہ: بفتحۂ فا و را 

مُنْفِرَجہ: بکسرہ ٔ ف و بفتحۂ را

مُنْفرِجہ: بکسرہ ٔ را

مُنْفرِجہ: (مُن ۔ فَ۔رِ۔جَہ) 


منہدم 

مُنْہَدَم : بفتحہ دال 

مُنْہَدِم : بکسرۂ دال 

مُنْہَدِم : بکسرۂ دال 

مُنْہَدِم : (مُن۔ہَ۔دِم)


مواخذہ

مُوَاخِذہ: واو کے تلفظ کے ساتھ خ کا کسرہ درج ہے 

مُواخذہ: واومیں حر کت مذکور نہیں جبکہ میم میں ضمہ ہے 

مُواخذہ: ہمزہ مذکو ر نہیں 

مواخذہ : ( مُ۔ آ۔ خَ۔ذَہ) خ پر زبر ہے 


مؤثر 

مؤثَّر : بفتحہ ٔ ث

مؤثَِّر : ثائے مشدد پر کسرہ و فتحہ دونوں مذکور ہے عربی معنی کے لحاظ سے  

مؤثِّر : بکسر ۂ ثائے مشدد 

مؤثر : (مُو ۔اَث ۔ثَر)ث پر فتح بھی ہے اور معنی ہے ثاثیر کر نے والا 


موجودگی 

موجودْگی: بسکون دال معجمہ، وارث سرہند ی نے دا ل پر فتحہ کو درست لکھا ہے ۔

موجودگی: دال پر حر کت مذکور نہیں 

موجودگی : مذکور نہیں 

موجودگی :(مو۔جُود۔گی ) 


میت 

مَیَّت: بفتحۂ یائے تحتانی 

مَیِّت:بکسرہ یائے تحتانی 

مَیِّت:بکسرہ یائے تحتانی 

میت : (مَی۔ یَت ) 


نجابت 

نِجابت: بکسر ۂ نون 

نَجابت:فتحۂ نون

نَجابت:فتحۂ نون

نَجابت: (نَ ۔جا۔بَت)

نجات 

نِجات : بکسرہ نون 


نَجات : ( نَ ۔جا۔ت ) 

نشتر 

نَشْتَر: بفتحۂ نون درج ہے ۔ لیکن بکسرہ نو ن مستعمل ہے کیونکہ یہ نیش تر کا مخفف ہے ۔

نَشْتَر: بفتحۂ نون ، جبکہ اس بات کا ذکر ہے کہ یہ نیش تر کا مخفف ہے ۔

نِشْتَر: بکسرۂ نون  

نِشتر : ( نِش۔ تَر) نیشتر کا مخفف


نظامت 

نَِظامت : بفتحہ و بکسرہ اول 

نِظامت : بکسرہ اول 

نِظامت : بکسرہ اول 

نِظامت : (نِ۔ظا۔مَت


نقب 

نَقَب : بفتحۃ الاولین 

نَقْب : بسکون ق

نَقْب : بسکون ق

نَقْب : بسکون ق


نقص

نُقْص : بضمہ ٔ نون 

نَقْص : بفتحۂ اول

نَقْص : بفتحۂ اول

نَقْصْ : ن پر فتحہ 


نکر 

نَکْر : بسکون کاف ، وارث سرہندی نے درست بکسرہ کاف لکھا ہے 

نکر : مذکور نہیں  

نِکر : بکسرہ ٔ کاف ، عقلمند ، انجان ، چالاک ۔نُکُر : بضم الاولین تعجب انجام پن 

نکر : مذکور نہیں 


نمائش 

نُمایَش : املا و تلفظ دونوں غلط 


نوالہ 

نِوالہ : بکسرۂ نون مر قوم ہے ، پلیٹس نے بفتحہ ٔ نون درست لکھا ہے 

نَوالہ :بفتحہ ٔ نون 

نَِوالہ :بفتحہ و بکسرہ ٔ نون 

نوالہ : (نِ ۔وا۔لہ) لقمہ 


نہار 

نَِہار : بفتحہ و بکسرہ اول دونوں لکھا ہے ۔ 

نَہار :نون کے فتحہ کے ساتھ  

نَہار :نون کے فتحہ کے ساتھ جمع انہر ، بے کھا ہوا آدمی  

نہار : (نَ ۔ہار) 


واسطہ 

واسْطہ: بسکون سین تحریر ہے 

واسِطہ: سین کے کسرہ کے ساتھ

واسِطہ: سین کے کسرہ کے ساتھ

واسِطہ : (وا۔سِ ۔طہ )


وجہ 

وجَہ: بفتحہ ٔ جیم 

وجْہ: جیم کے سکون کے ساتھ 

وجْہ: جیم کے سکون کے ساتھ 

وجہ : 


وزن 

وَزَن : بفتحہ زائے منقوط 

وَزْن : بسکون زائے منقوط 

وَزْن : بسکون زائے منقوط 

وزن :(و۔زن)


ولادت 

وَلادت : بفتحہ ٔاول 

وِلادت : بکسرہ ٔاول 

وِلادت : بکسرہ ٔاول 

ولادت : ( وِ۔لا۔دت) 


مذکو رہ الفاظ جو تحریر کیے گئے ہیں یہ نمونہ از خروارے کی قبیل سے ہیں میں نے بس مثال کے طور پر کچھ لفظوںکو پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔ اس کے لیے فیلن کی ہندوستا نی - انگریزی ڈکشنری کو بنیا د بنا یا ہے ۔ اس ڈکشنر ی سے جتنے بھی الفاظ میں نے لیے ہیں ان تمام کے تلفظ کو بعد کے لغت نگاروںنے غلط ثابت کیا ہے جو ٹیبل میں دیکھنے سے واضح ہورہا ہے ۔اسی خانے میں پلیٹس کاذکر بھی کہیںکہیں اس وجہ سے آیا ہے کہ ان اندراجات کے تلفظ میں پلیٹس نے عوامی تلفظ کی بھی وضاحت کی ہے جس کا ذکر مناسب تھا ، جو کیا گیا۔ فرہنگ آصفیہ کے اندراجات میں بھی کئی جگہ غلطیا ں ہیں ۔ کیوں کہ مؤلف فرہنگ آصفیہ تدوین لغت کے معاملہ میں فیلن کے شاگر د کی حیثیت رکھتے ہیں جیسا کہ اس مضمون میں بھی اس جانب اشارہ کیا گیاہے ۔عامرہ اور فیر و زاللغات نے جہاں کہیں ان دونوں سے الگ تلفظ پیش کیا ہے اس پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ میں نے کسی میں بھی حتمی طور پر یہ نہیں لکھا ہے کہ یہ تلفظ درست ہے اور یہ غلط لیکن پلیٹس نے جہاں جہاں  جس تلفظ کو درست بتایا ہے اس کو فیلن کے کالم میں ذکر کیا اور وارث سرہندی نے ’ کتب لغت کا تحقیقی و لسانی جائزہ ‘ میں جس کوتلفظ کو صحیح لکھا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے اس کا ذکر کردیا ہے ۔

مذکورہ  بالا مندرجات پر جب غور سے نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جن لفظوں کے تلفظ میں اختلاف ہے وہ اکثر عر بی کے الفاظ ہیں جو اردو میں استعمال ہورہے ہیں خواہ معانی وہی ہوں یا بدلے ہوئے ۔تلفظ کی تبدیلی کے متعلق کئی ناقدین لغت نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کا مزاج اس تلفظ کو قبول نہیں کر پاتا ہے اس لیے تلفظ میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے ۔ یقینا یہ بات درست ہے یہ صرف اردو کے ہی ساتھ نہیں ہے بلکہ اکثر زبانوں کا حال یہ ہے کہ پہلے لہجہ مختلف ہوتا ہے پھر تلفظ مختلف ہوتا ہے اس کے بعد حر ف بھی بدل جاتے ہیں ۔جب حالات اس قسم کے رونما ہوجاتے ہیں اور اصل لفظ وتلفظ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے تب لغت کی جانب رجوع ہوتے ہیں اور اسی کو ترازو سمجھا جاتا ہے ۔ اردو لغتوں کا جہاں تک حال ہے تلفظ کے معاملے میں ننانوے فیصد درست ہیں فیلن چونکہ انگریز تھا اور اس نے عوام کی ہی زبان کو معیا ر بنایا تھا لیکن بعد میں جان ٹی پلیٹس نے ان کے غلط تلفظ کو اپنی لغت میں رد کیا اسی طر ح سے رشید حسن خاں املا و تلفظ کے معاملے میں کئی مقامات پر عوامی ہوئے لیکن بعد میں مولانا حفیظ الر حمان واصف دہلوی اور ڈاکٹر ابو محمد سحر کے علاوہ عامۃ الناس کے ایک مخصوص طبقے نے رشید حسن خاں کے مشوروں کو رد کیا ۔ اسی طریقے سے ابھی فرہنگ آصفیہ جس کو قومی کونسل نے تیار کیا ہے اس پر نظر ثانی جناب شمس الرحمان فاروقی کر رہے تھے اور آکسفورڈ کے ساتھ مل کر جو لغت تر تیب دی گئی ہے اس پر بھی ناقدین کی نظر جائے گی اور غلط تلفظ و املا کی تر دید ہوگی ۔ اگر چہ اردو کا عام و خاص قاری تلفظ کے معاملہ میں کہیں کہیں روایت کو تو ڑتا ہو ا نظرآتا ہے اور کہتا ہے کہ اردو کا یہی تلفظ ہے ہم یہی بولیں گے (مثلا ً جہنَّم کو جہنُّم بضم نون مشددج اور معنی کو مانی )لغت نگار ان سب کو ردکر دیتا اور اصل تلفظ کو ہی پیش کر تا ہے۔ سید بدرالحسن نے بھی حتی الامکان اصل تلفظ کو ہی پیش کیا ہے ۔ اس طریقہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو میں تلفظ کے سنگین مسائل نہیں پیدا ہوں گے اور وہی مختلف تلفظ رہیں گے جو اب بھی مختلف ہیں ۔یہ بھی خیال میں رہنا چاہیے کہ اردو میں فارسی اور عر بی کے تمام حروف تہجی شامل ہیں اور کچھ ہندی کے بھی ۔تو یہ خدشہ جاتا رہا کہ تلفظ میں تبدیل الحر ف بالحر ف کی صورت کبھی آئے گی جو ہندی میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ اردو کے حرو ف کے تلفظ کی ادائیگی صحیح طر یقہ سے نہیں کر پاتے ہیں ، دوسر ی صورت میں قلب الحر کات بالحر کات کی آتی ہے جو او پر کے ٹیبل میں کئی لفظوں میں دیکھنے کو ملی یعنی فتحہ کے مقام پر ضمہ یا کسرہ وغیرہ تو یہ مختلف ہیں اور مختلف فیہ رہیں گے اس پر اتفاق نہیں ہوسکتا البتہ اب اگر کوئی نئی بدعت شروع کر تا ہے تو قابل مؤاخذہ ہوگا جیسے اگر اب کوئی مُثبَت کو مَثبَت بولنے لگے تو وہ غلط ہوگا ، تیسر ی صورت ہے حسن ادائیگی یعنی لہجہ اگر آپ کا لہجہ قابل قبول ہے تو آپ کا تلفظ بھی قابل قبول ہوگا ورنہ لہجہ کے بدلنے سے تلفظ بھی نقد کے دائرہ میں آجا ئے گا مثال کے طو ر پر آپ کا لہجہ ہر یا نوی ، بنگالی یا کوئی اور نہ ہو ۔الغر ض تلفظ میں ان تینوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔


کتابیات 

اردو لغت کا تنقیدی جائزہ ، مسعود ہاشمی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان 

کتب لغت کا تحقیق و لسانی جائزہ، جلد اول،جابر علی سید،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستا ن  ۱۹۸۹

کتب لغت کا تحقیق و لسانی جائزہ ،جلد دوم،وارث سرہندی، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستا ن  ۱۹۸۶

کتب لغت کا تحقیق و لسانی جائزہ ،جلد سوم ، وارث سرہندی ، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستا ن  ۱۹۸۷

کتب لغت کا تحقیق و لسانی جائزہ ،جلد چہارم،اثر لکھنوی، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد پاکستا ن  ۱۹۸۷

لغت نگاری اصول و قواعد،ڈاکٹر نذیر آزاد،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی،۲۰۱۲

اردو لغات نگاری کا تنقیدی جائزہ ،ڈاکٹر نذیر آزاد،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی ۲۰۱۲

ڈکشنر ہندوسنانی انگریزی ، ڈنکن فاربس ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی 

اردو کلاسیکل ہندی اور انگریز ڈکشنری  ، جان ٹی پلیٹس ،اردو اکادمی دہلی 

اے نیو ہندوستانی انگلش ڈکشنری ،ایس ، ڈبلو، فیلن،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی 

فرہنگ آصفیہ،مولی سید احمد دہلوی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی 

فرہنگ عامرہ،عبد اللہ خاں خویشگی

جامع فیر وز اللغات،مولوی فیروز الدین،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی


’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...