Sunday 20 October 2019

حروف تہجی ، ایک آسان سوال کا مشکل جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم  

حروف تہجی ، ایک آسان سوال کا مشکل جواب 


تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جس نے تمام انسا نوں کی روح کو یکساں اور اشکال کو مختلف بنایا ۔ اسی طر ح سے تمام انسانوں کو نطق کی صلاحیت سے نوازا اورہر ایک کی آواز اور لہجے کو مختلف کیا ۔ 

دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں سب کی اہمیت مسلم ہے لیکن سب زبانیں مضبوط و مستحکم نہیں ۔زبانوں کے استحکام کے کئی اسباب ہوتے ہیں ان میں سے ایک سبب گرامربھی ہے ۔جو زبانوں کو حسن و خوبصورتی کے سانچے میں سموئے رکھتا ہے اور خارجی و داخلی خرابیوں سے مدافعت کی بھر پور قوت عطا کرتا ہے ۔قواعد یا گرا مر لکھی ہی جاتی ہے اس لیے کہ زبان کو حسن کی لڑی میں پرو کر بکھرنے سے روکا جائے ۔

مولوی عبدالحق کے جہاں دیگر کارنامے بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں وہیں ان کا ’’قواعد اردو ‘‘ اردو دنیا کے ہر گوشے میں  طلبہ و اساتذہ کے لیے نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہے ۔

مولوی عبدالحق کی یہ کتاب چار فصول اور ایک تحقیقی مقدمہ پر مشتمل ہے ۔مقدمہ میں انہوں نے کئی مقامات پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ’’ ایک زندہ زبان کے لیے قواعد کی چندا ں ضرورت نہیں ‘‘۔اب یہاں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زندہ زبان کہتے کسے ہیں ۔میر ے خیال میں زندہ کہتے ہی اسے ہیں جس میں مستقل حذف و اضافہ کا عمل جاری رہے اور جب اضافہ کا عمل جاری ہوگا تو لا محالہ وہ اپنا دائرہ ٔکار میں اضافہ کر تا رہے گا اور جب وہ اپنی وسعت میں ناہموار زمینوں کو سر کرے گا تو اس کو اس ناہمواری میں اپنا تشخص قائم رکھنے کے لیے اصول کی ضرورت محسوس ہوگی ۔ تاکہ وہ ہر ماحول اور ہر زمانے میں خود کو مجروح ہونے سے بچائے رکھے ۔

کوئی بھی زبان اپنا تشخص کن چیز وں سے بر قرارر کھتی ہے ، اسماء ، افعال یا حر وف سے یا تمام سے ؟۔ آپ کی رائے ہوگی شاید سبھی سے۔ اس سے متعلق مولوی عبدالحق لکھتے ہیں ’’ محض غیر زبانوں کے اسماء و صفات کے اضافے سے اس کے ہندی ہونے میں مطلق فر ق نہیں آسکتا ۔ مثلا آج کل بہت سے انگر یزی لفظ داخل ہوتے جاتے ہیں ۔ لیکن اس سے زبان کی اصلیت و ماہیت پر کچھ اثر نہیں پڑ سکتا ‘‘ (ص ۹) یہ ایک تجر باتی عمل ہے اور ہماری زبان میں یہ تجر بہ ہوچکا ہے ۔ آپ اس کیفیت کو پہلے دور میں جعفر زٹلی اور دوسرے دو ر میں اکبر الہ آبادی کے یہاں دیکھ سکتے ہیں ۔ دو نوں کے یہاں یہ تجر بے طنز کے دائرے میں سامنے آتے ہیں ۔ اگر یہی معاملہ آپ کو سنجیدہ تحر یر میں دیکھنے کو ملے تو سمجھ جائیے کہ زبان نے کر وٹ لینا شروع کردی ہے اور جلدہی اور ایک نئی زبان آپ کے دامن میں ’’ اردش ‘‘ کی شکل میں آنے والی ہے ۔اس لیے یہ ایک سنجیدہ امر ہے اور اس پر سنجیدگی سے غور کر نے کی ضرورت ہے ، نصاب سے لیکر صحافت تک ۔

نحو کی ابتدا کیونکر ہوئی اور اس فن کے ابتدائی افراد کو ن ہیں اس پر ہلکی سی روشنی ڈالنے کے بعد اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہماری اس کتاب سے پہلے اردو گرامر میں کن لوگوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ جن میں جان شوا کٹلر۱۷۱۲۔۱۷۰۸ء سے لے کر مولوی امام بخش صہبائی دہلوی تک کی کتابوں کو شمار کیا گیا ہے ۔گو کہ وہ تمام کتابیں چلن میں نہیں ہیں اور آرکائیز کا حصہ بن چکی ہیں ۔سوائے انشاء اللہ خاں انشاء کی ’’ دریائے لطافت ‘‘ کے جسے تاریخی اہمیت حاصل ہے ۔

سابق میں اردو گرامر پر درجن بھر کتابیں موجود ہونے کے باوجود مولوی عبدا لحق کو کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اس سے متعلق انہوں نے دو باتیں تحریر کی ہیں۔ ایک یہ کہ اردو زبا ن کا دائرہ وسیع ہوگیا ،غیراردو داں طبقہ بھی اس زبان کو خوب سیکھ رہے ہیں۔ دوسری یہ کہ اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں سب فارسی اور عربی کے تتبع میں لکھی گئی ہیں ۔ اس لیے میں نے یہ تحریر کر نے کا ارادہ کیا ۔ آگے مزید لکھتے ہیں کہ ’’ اردو زبان کی صرف و نحو لکھنے میں عربی زبان کا تتبع کسی طر ح بھی جائز نہیں ۔ کیو نکہ عربی سامی النسل ہے اور اردو آریائی ‘‘ (۲۱) مولوی عبدالحق کی اس کتاب اور اس اسٹیٹمنٹ کو سو سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک آریائی زبان کے مماثل گرامر اردو کو مل نہیں سکا ۔ اگر اس مر وجہ ڈگر سے ہٹنے کی کوشش کی بھی گئی تو انگریزیت کے مرید ہوگئے ۔ یا پھر اس کو آسان شکل میں پیش کر نے کے نام پر مزید پیچیدہ کتاب اس فن پر منظر عام پر آئی جیسے ( عصمت جاوید کی ’’ نئی اردو قواعد‘‘ )آخر ہم کس طور پر اس مر وجہ نحوی و صر فی تعلیم سے خلاصی چاہتے ہیں جب کہ۸۰؍ فی صد حر وف تہجی سے لیکر نحوی، صر فی و شعری اصطلاحات تک اسی زبان سے آئے ہیں ۔

فصل اول حر وف تہجی ، حر کات و سکنات ، حر وف شمسی و قمر ی پر مشتمل ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ سادہ آوازوں کے تحریر ی علامات میں لانے کا نام حرف ہے ۔ہجا میں حر و ف کی آواز اور ان کی حر کات و سکنات سے بحث کی جاتی ہے ‘‘ سادہ آواز کی قید سے مخلوط آواز سے آزاد ہوگئے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ مخلوط آواز کو حر ف میں شمار کر نے میں کہیں نہ کہیں سقم ہے اور وہ سقم واضح طور پر بر جموہن دتاتریہ کیفی کے یہاں ان الفاظ کے ساتھ نظر آتا ہے ’’ وہ تحریری شکلیں جو حد امکان تک آواز کی پوری نمائندگی کر یں اور ان میں مزید اختصار کی گنجائش نہ ہو۔ ان ہی کے مجموعے کو حرف تہجی کہتے ہیں ‘‘(کیفیہ ۳۶) ان کی اس تعریف سے بھی مخلوط آواز والے حر وف خارج ہوجاتے ہیں اور وہ حروف(ث ،ذ، ص ،ث ، ط وغیرہ) جن کو ہم ’ زندہ لاشیں ‘ کہتے ہیں وہ مکمل طور پر زندہ اور متحر ک ہوجاتے ہیں ۔’’حر و ف کے مجموعے کو ابجد کہتے ہیں ‘‘(ص۲۸)  تاریخ میں ا س پر بحثیں ہوئی ہیں ان سب سے صرف نظر کر تے ہوئے صر ف ایک سوال میرے ذہن میں جو آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اردو میں بھی ان حر وف کے مجموعے کو ابجد کہیں گے جب کہ اس میں اردو کا تو دور فارسی کا بھی ایک حر ف شامل نہیں ہے ۔اس لیے مجھے منا سب لگتا ہے کہ ہمیں ابجد سے کنارہ کش ہو تے ہوئے ’ تہجی ‘ استعمال کر نا چاہیے کیونکہ اس سے وہی مر اد ہو تے ہیں جن کا ہجا کیا جا سکے ۔ اس میں سب شامل ہوجائیں گے خواہ مخلو ط آواز والے ہوں یا سا دہ ۔ 

مولوی عبدالحق کے نزدیک اردو میں حر وف تہجی پچاس ہیں ۔اٹھائیس عر بی سے ، چار (پ، چ ، ژ، گ )فارسی سے اور تین خالص ہندوستانی سے ( ٹ ، ڈ، ڑ ) تو کل ہوئے پینتیس۔ واضح ہو کہ اس میں ہمزہ شامل نہیں ہے ۔اس کے بعد ہندی ( بھ، پھ، تھ ، ٹھ، جھ، چھ، دھ ، ڈھ ، رھ ، ڑھ ، کھ، گھ ، لھ، مھ، نھ) سے پندرہ۔ اس طر ح کل ہوئے پچاس ۔ ان میں سے تین ( ژ ، مھ ، نھ ) کم کر دیے جائیں تو دتاتریہ کیفی کے نزدیک سینتا لیس ہوتے ہیں ۔

یہ بات مسلم ہے کہ جن آوازوں کو مخلوط کہہ کر حر وف تہجی سے خارج کیا جاتا رہا ہے وہ اردو و ہندی میں باضابطہ ایک غیر مشترک آواز کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن معاملہ وہاں پیچیدہ ہو جا تا جب ان آوازوں کے لیے خالص ایک مکمل حر ف کا انتخاب عمل میں نہیں آپاتا ہے جیسے ٹ، ڈاور ڑ با ضابطہ جس حیثیت سے اکائی ہیں وہ بھ ،جھ اور گھ وغیرہ حروف کو نصیب نہیں ۔اور دتاتریہ کیفی جو لکھتے ہیں کہ ’’ مزید اختصار کی گنجائش نہ ہو ‘‘ وہ بھ تھ وغیرہ میں صادق نہیں آتا ہے کیونکہ یہ دو حروف سے مل کر ایک آواز کی نمائندگی کر تے ہیں ۔اگر حروف تہجی میں ان کے لیے باضابطہ کوئی علامت تخلیق کر تے ہیں تو کامل یقین ہے کہ اردو میں حروف تہجی کی تعداد کا پیچیدہ مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ جو اب ناممکن ہے ۔

 حر وف تہجی کے جو اشکال ہیں وہ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان میں صدیا ںاور قبیلوں کی کئی نسلیں گزریں ہیں تب جاکر موجودہ علامتیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ یہ علامتیں تو ایک ہی مفر د آواز کی نمائندگی کر تی ہیں لیکن ان کے ناموں سے سادہ آواز نہیں پیدا ہوتی ہے جیسے جیم اور لام وغیرہ ۔ یہ ایک بہت ہی اہم سوال مولوی عبدالحق نے قائم کیا ہے۔ اس کا جواب وہ خود اس انداز میں دیتے ہیں کہ’’ اس کی وجہ بلا شبہ یہ ہے کہ یہ اس زمانے کی یادگار ہیں جب کہ اس قسم کی تحریریں ایجاد نہیں ہوئی تھیں جو ہم آج کل استعمال کر تے ہیںبلکہ لوگ اپنے خیالات سے تصویریں بنا بنا کر ظاہر کرتے تھے ۔‘ ‘ یہ تو پہلے دور کا عمل تھا، دوسرے دور میں اس کے عمل سے ، پھر ممتاز خصائص سے ، پھر اس شے کے بولنے میں جو آوازیں پیدا ہوتی تھیں اس کو کسی تر کیب سے تحریر ی شکل میں لاتے تھے ، پھر یہی تصویریں مختلف ا صوات کی قائم مقام ہوگئیں ۔

یہ بات واضح ہوکہ مولوی عبدالحق ایک محقق تھے اور محقق بہت ہی محتاط انداز میں لفظوں کا استعمال کر تا ہے اس بحث میں پہلے وہ ’’ بلاشبہ ‘‘ کا لفظ استعمال کر تے ہیں اس کے بعد ’’ اسطر ح ب در حقیقت بیت ہے ‘‘ ان دونوں لفظوں سے جو دعویٰ سامنے آرہا ہے اس کی دلیل مجہول ہے اور حرو ف کے اشکال کو کسی مخصوص شکل کے ساتھ مناسبت قائم کرنا محض خیالی مواجہت ہے ۔ جس کو دیگر مصنفین نے بھی نقل کیا لیکن ’’ شاید، غالبا ً اور قیاس ہے کہ ‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ۔

ان کی طرز تحریر سے دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ حر وف تہجی کی جو مختصر تاریخ ہے اس سے انہوں نے چشم پوشی کرنے کی کوشش ہے ۔خدا ہی بہتر جانے ۔نیز جو ان کا اسٹیٹمنٹ ہے کہ اردو کو عربی کے تتبع میں بالکل بھی لانا جائز نہیں ہے اس کا بھی عکس ہو سکتا ہے ۔ حر وف تہجی کی مختصر کہانی یو ں ہے جس کو احمد زیات اپنی کتاب ’ تاریخ الادب العربی ‘ میں لکھتے ہیں ۔ خط فینقی سامی خطوط کا مصدر ہے ۔آرامی اور مُسندبھی اس سے مشتق ہیں ۔آرامی سے خط نبطی حوران میں مشتق ہوا اور سطرنحیلی سریانی عراق میں اور یہی دو خط ہیں جو خط عربی کے اصل ہیں ۔ نبطی سے نسخ نکلا اور سطر نحیلی سے کوفی۔ واضح ہو کہ قدیم مصری خط صرف ۲۲ ؍ حر وف ابجدی پر مشتمل تھا ( یعنی’’ ابجد ،ہوز ،حطی ،کلمن ،سعفص،قر شت‘‘ تک ) جس پر فینقیوں نے چا ر کا اضافہ کیا ۔ایک روایت یہ ہے کہ فینقی تک ۲۲؍ حروف تھے بعد کے نبطی اور سریانی نے اس پر چھ (ثخذ،ضظغ) کا اضافہ کیا ۔ یہ چھ حروف اپنے ہم شکل بے نقط حروف سے بنائے گئے ہیں ۔اس اٹھائیس کے مجموعے کو اسی مخصوص ترتیب کے ساتھ حروف ابجد کہا جاتا ہے ۔ حر وف کی یہ ترتیب سب سے قدیم ترتیب ہے ۔ بعد میں مخارج کے ا عتبار سے بھی مر تب کیا گیا تھا جیسا کہ خلیل بن احمد کی ’’ کتاب العین ‘‘ اور الازہری کی ’ تہذیب ‘‘ میں مرقوم ہے ۔ چوتھی صدی ہجری میں ’لا ‘ کا اضافہ کیا گیا(واضح رہے کہ شروع میں جو الف ہے وہ ہمیشہ ساکن ہونے کی صورت میں ہی الف ہے ورنہ وہ متحرک ہوتے ہی ہمزہ ہوجاتا ہے اس لیے عربی میں ہمزہ ہمیشہ سے الف کے مقام پر حروف ابجد میں شامل ہیں) پھر جب فارسی میں پہنچتا ہے تو وہاں چا ر (پ،چ، ژ،گ) اردو میں آنے کے بعدٹ،ڈ،ڑ کے اضافے سے پینتیس پہنچتی ہے جو اکثر کی زبان سے سوال کے جواب میں نکل جاتا ہے ۔ لیکن حروف کو مخلوط بنانے والے ’ھ‘ کو کون چھوڑ سکتا ہے ، یہی نہیں بلکہ ’ ے ‘ بھی ’ ی ‘ کے بعد تمام ابتدائی کتب میں حروف تہجی کے ساتھ اپنے آخری کڑی ہونے کا ثبوت دیتا رہتا ہے اب ہمزہ کے پیچیدہ مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے     کیونکہ الف سے وہ کام نہیں بن پا رہا ہے جو ہمزہ سے ہوجاتا ہے تو ہمزہ کے وجود کو انکار کرنا تقریبا ناممکن سا ہوگیا اور عربی کے تمام حروف تہجی کو اپنا چکے ہیں توارددو میں اس بیچارے چھوٹے سے حرف (ء) کو جس کا تلفظ ہم عربی کے الفاظ کے ساتھ اردو کے افعال و اسماء میں بھی بہت ہی زیادہ کرتے ہیںکیسے اس گروہ سے باہر کر سکتے ہیں، جبکہ یہ اپنے وجود کے لیے یہ نہ نقطے کا محتاج ہے او ر نہ ہی دو چشمی ہا کا بلکہ اردو والے تو اضافت اور حرکت کے لیے اس کا محتاج ہوتے ہیں ۔لہذا چند افراد کے سوا سب نے اس کو بھی شامل کرلیا ۔ تو اس طریقے سے کبھی تعداد چھتیس ہوجاتی ہے اور کبھی سینتیس۔(واضح رہے کہ دو چشمی ہا ’ھ‘ اور یاے مجہول ’ے ) کبھی بھی کسی لفظ کے شروع میں نہیں آتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں حر کت قول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اردو میں کوئی بھی لفظ ساکن الاول نہیں ہوتا ہے ۔کچھ ایسی ہی صورت حال الف کا بھی ہے جسے ہم جس پر ہم حرف اول کے بعد کبھی بھی حر کت میں نہیں لاسکتے وہ سا کن ہی رہتا ہے۔اب مخلوط حروف کی بات کریں تو مولوی عبدالحق کے نزدیک اس کی تعداد پندرہ ہے (بھ ، پھ ، تھ ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ)اور کل حروف تہجی کی تعداد ان کے نزدیک پچاس ہے تو گویا ان کے نزدیک اوپر کے پینتیس ہی حروف ہوئے باقی تین صرف بچوں کو شناخت کے لیے بتا دیے جاتے ہیں ۔دتاتریہ کیفی کے نزدیک بھی یہی ہیں لیکن وہ مخلوط میںسے تین (لھ ، مھ، نھ ) کم کرتے ہیں ۔ مسعود حسین خاں کے نزدیک ان میں ایک اور(رھ ) کم ہوجاتا ہے ۔شان الحق حقی کے نزدیک پچاس کے بعد ان تین ’’زھ، ژھ،وھ،‘‘ کا اضافہ ہوتا ہے اور مقتدرہ قومی زبان پاکستا  ن نے ’ں ‘ (نون غنہ) کا اضافہ کرکے اس کی تعداد چون کر دی ہے ۔ حروف تہجی کی تعدادمیں بے تحاشہ اضافہ انشاء اللہ خاں انشاء کے یہاں ہوتا ہے ۔ان سب اختلاف کا حل مجھے کہیں پڑھنے کو ملا ہے وہ اس طرح تھا کہ ہمارے یہاں آوازوں کی تعداد مختلف ہے اور حروف تہجی کی تعداد کسی کے نزدیک پینتیس ہے تو کسی کے نزدیک سینتیس اور انہیں میں سے بعض حرف کو بعض حرف کے ساتھ ملا کر ایک آواز کی نمائندگی کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے ۔اب شروع میں حرف تہجی کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس پر دوبارہ نظرڈالیں تو یہ بات دل کے قریب معلوم ہوگی۔ 

امیر حمزہ 

Friday 4 October 2019

کوثر چاند پوری

اردو زبان و ادب کی یہ مٹھاس رہی ہے کہ اس نے سب سے زیادہ اطبا کو متاثر کیا ہے اس لیے جو پیشے سے طبیب ہوئے وہ ادب کے مریض بھی ہوئے ۔ اگرسترہویں صدی سے طبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات سامنے آئے گی کہ اکثر اطبا نے اردو زبان و ادب میں کچھ نہ کچھ تعاون پیش کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ طبیبوں نے اپنے مطب کو مشاعرہ گاہ اور ادبی اجلاس گاہ بھی بنایا ۔یہ سلسلہ اب تک کئی شہر وں میں جاری ہے جہاں ماہانہ نشستوں میں طبیبوں کی نمائندگی مسلسل ہوتی رہتی ہے ۔ کوثر صاحب کا بھی تعلق طبابت سے تھا اور آزادی کے بعد افسرالاطبا کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ کوثر صاحب کے عہد کااگر مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگ عظیم سے لیکردوسری جنگ عظیم تک ادبی زرخیزی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ اس کے بعد جدید تہذیب کے پردے بھی کھلنے لگتے ہیں جہاں نثر و شاعری دونوں کر وٹیں بدلتے ہیں ۔شاعری کے نئے ابعاد طے ہوتے ہیں اور نثر کی نئی دنیا آباد ہوتی ہے، اس پوری صدی میں ادب اطفال بھی بہار سے خزاں کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔ اسی عہد میں کوثر صاحب نے اپنی ادبی خدمات سے ادبی دنیا کو اپنی جانب مائل کیا اور اخیر عمر تک ادب میںوہ مر کز بنے رہے ۔کوثر صاحب کی پیدائش ۰۰۹۱ ءمیں ہوئی ، عمر کا اکثر حصہ بھوپال میں گزرا، ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۶۹۱ ءمیں دہلی منتقل ہوگئے ،۳۱ جون ۰۹۹۱ءکو داعی ¿ اجل کو لبیک کہا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
کوثر صاحب کی کل نوے سالہ زندگی میں سترسالہ ادبی زندگی ہے جس میں انہوں نے نثر ی دنیامیں کمال حاصل کیا ۔ ان کی ان ہی ستر سالہ ادبی زندگی کی خدمات ،ذاتی حیات اور تخلیقی جہات کے تمام گوشوں کو اس مونو گراف میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف رشید انجم کی یہ کتاب چار بنیادی عناوین پرمشتمل ہے ۔ شخصیت و سوانح ، ادبی و تخلیقی سفر، تنقیدی محاکمہ اور جامع انتخاب ۔ شخصیت و سوانح کو بہت ہی جامع اور معلومات سے پر پیش کیا گیا ہے جس میں حسب و نسب، خاندانی پیشہ اور موصوف کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہ موصوف میں ادیبوں کی سی نزاکت اور طبیبوں جیسی لطافت تھی ۔اسی کے ذیل میں ابتدائی ادبی سفر کا ذکر بھی ہے کہ ادبی محفلوں میں شرکت کے باعث شاعری کی جانب ان کی طبیعت راغب ہوچکی تھی اور شعرگوئی میں شہرت بھوپال کی سرحدیں پارکر چکی تھیں۔ لیکن ادبی و تخلیقی سفر کے عنوان میں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ابھی وہ شعری سرمایہ اتنا بھی جمع نہیں کر سکے تھے کہ کوئی ایک شعری مجموعہ ہی منظر عام پر لایا جاسکے کہ نثری تخلیقات کی جانب مائل ہوگئے اور باضابطہ افسانوی دنیا میں ایک عہد گزارا۔ ۹۲۹۱ ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” دلگداز افسانے “ شائع ہوکر منظر عام پر آیا جس میں سو لہ افسانے تھے جن میں سے چند افسانوں پر مصنف کی مختصر رائے بھی ہے ۔ ۰۳۹۱ءمیں دوسرا افسانوی مجموعہ ” دنیا کی حور“ شائع ہوتا ہے ۔اس مجموعہ کے افسانوں پر مصنف کی کوئی زیادہ رائے نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پچھلے افسانوں سے یہ افسانے کافی بہتر ہیں ، اول میں نیاز فتح پوری کا عکس ہے تو دوسرے میں پریم چندکی طرح حقیقت پسندی کی جانب مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد ان کے دیگر سات افسانوی مجموعوں کا ذکر ہے ۔ جن پر گفتگو جدا جدا نہیں کی گئی ہے بلکہ اجتماعی تاثر ان افسانوی مجموعوں پر پیش کیا گیا ۔اس کے بعد مصنف کوثر صاحب کے ناولوں کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک ناول کے ذکر کے ساتھ بہت ہی مختصر فنی اور موضوعاتی گفتگو بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں ” سب کی بیوی ‘ کوثر صاحب کا وہ پہلا ناول ہے جسے ٹرننگ پوائنٹ کہا جاسکتا ہے “ ، ” اس ناول میں جنسیات پر ان کا قلم بے باک ہوا ہے “ ۔ دوسرے ناول ” اغوا“ کے بارے میں لکھتے ہیں ” پلاٹ قدرے کمزور ہے ۔ اس ناول میں کہیں کہیں واقعات میں روانی کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے ۔“ اس کے بعد سات اور ناولوں کا ذکر ہے ۔ جن میں سے مصنف ” مر جھائی کلیاں “ کو ثر صاحب کا اہم ناول مانتے ہیں اور ” پتھر کے گلاب“ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو شاہکار ناول کہا جاسکتا ہے ۔ ” محبت اور سلطنت “ میں کوثر صاحب کو ایک اعلیٰ اور منجھے ہوئے فنکار کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں ۔کوثر چاند پوری نے رپور تاژ نگاری میں بھی قدم رکھا تھا اور ” کارواں ہمارا “ ، ” سفر ارض غزل “ جیسے رپورتاژ لکھے ۔جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیںکہ یہ ” بلاخیز قلم کی روانی کے شاہکار مانے جاتے ہیں ، ان میںخیالات کی ندرت بھی ہے ،الفاظ کی طلسماتی قوت بھی ہے ، لسانی پیرایہ بھی اور فن کا منطقی اظہار بھی ہے ۔“ کوثر صاحب نے بچوں کے لیے بھی خوب لکھا اور بھوپال کے ادب اطفال کی تاریخ میں وہ واحد شخص نظر آتے ہیں جس نے بچوں کے لیے پچیس کتابیں (نثرمیں ) لکھیں جن کا ذکر مصنف نے اس مونوگراف میں بہت ہی مختصر اًکیا ہے ۔کوثر صاحب کی تنقید نگاری پر لکھی گئی چار کتابوں ” دیدہ ¿ بینا“ ،” جہانِ غالب “ ، ” فکر و شعور “ اور ” دانش و بینش “ کا بھی احاطہ کیاگیا ہے ۔کوثر صاحب فکر تونسوی کے ہمر عصر تھے اور ان سے مراسم بھی تھے جس کا ذکر اس کتاب میں بھی ہے، صر ف مر اسم ہی نہیں تھے بلکہ ان کے فن طنزو مزاح سے بھی وہ مرا سم رکھتے تھے جس پر ان کی پانچ کتابیں ” مسکراہٹیں “،” موج کوثر“، ”شیخ جی “،”نوک جھونک“اور ”خندہ دل“ منظر عام پر آئیںجس پر مصنف نے کچھ طنزیہ و مزاحیہ تحریر کے نمونے پیش کیے ہیں اور ان پر مختصر تجزیہ بھی ہے۔ سوانح نگاری پر بھی چار کتابیں ”بیرم خاں ترکمان“ ،” اطبائے عہد مغلیہ “ ،” حکیم اجمل خاں “ اور ” جام جم “ ہیں جن کا ذکر دیگر کتب کے مقابلے قدرے تفصیل سے ہوا ہے ۔اس کے بعد کوثر صاحب کی دیگر خدمات کا ذکر ہوا ہے اور جامع انتخاب بھی ہے جیسا کہ ہر مونوگراف میں ہوتا ہے ۔ اس کتاب کو مصنف نے جس محنت اور تگ ود و کے بعد پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اصناف سخن کی تعریف و ارتقا پر گفتگو کی ہے اگر اس کو حذف کر کے موصوف کی تخلیقات کے فن پرمزید گفتگو ہوجاتی تو زیادہ بہتر ہو تا ۔ تاہم یہ کونسل کی اہم اور عمدہ پیش کش ہے۔

نام کتاب کوثر چاند پوری (مونو گراف )
مصنف رشید انجم
سن اشاعت 2019
صفحات 150
قیمت 90 روپے
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر امیر حمزہ K12 ، حاجی کالونی ، غفار منزل ، جامعہ نگر ، نئی دہلی

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...