Thursday 25 March 2021

فراق گورکھپوری کی رباعی گوئی

 

فراق گورکھپوری کی رباعی گوئی

امیر حمزہ

فراق ؔ ارد ور رباعی کا ایک ایسا باب ہے جس میں داخل ہونے کے بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن ، احساسات و جما لیا ت ، نظر و فکر اور رنگ و بو میں نظر آتی ہے ۔فر اق نے رباعی کے باب میں ماضی کی تمام روایتوں کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنایا ہے ۔اس سے پہلے اردو رباعی ان الفاظ و تراکیب ، حسن و جمال اور تبسم سے محروم تھی ۔فراقؔ نے اپنی رباعیوں میں ہندوستانی عورتو ں کے حسن وادا کے مختلف روپ پیش کیا ہے ۔

فراق ؔ اپنی رباعیوں کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کے حسن و جمال کی جزئیات نگاری کی بھرپور عکاسی کر نے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کی رباعیوں میں جا بجا جسم کے مختلف حصوں اور ہندوستانی معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں ۔جیسے پنگھٹ پر گگریوں ک کا چھلکنا ، معصوم کنواریوں کا کھیتوں میں دوڑنا ،ساون میں جھولاجھولنا وغیرہ ۔

فراق نے کل پانچ سو انہتر (۵۶۹) رباعیاں کہی ہیں جن میں ’’روپ ‘‘ میں تین سو اکیاون (۳۵۱) ،روح کائنات میں اڑسٹھ(۶۸)، گلبانگ میں مادر ہند کے تحت اٹھانوے (۹۸) فکر یات کے عنوان کے تحت اکیاون(۵۱)اور متفر ق میں ایک رباعی موجود ہے ۔یہ تمام رباعیاں موضوع کے اعتبار سے صرف دو زمروں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں ۔ ایک زمرہ ان رباعیوں کا ہے جن میں محبوب کے لب و ر خسار اور اس کے خد و خال کی کیف آگیں تصویر یں ہیں اور دو سرے زمر ے میں ان رباعیوں کو رکھا جاتا ہے جن میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے جیسے پنگھٹ پر لڑکیوںکی گگر یاں ، معصوم لڑ کیوں کا کھیتوں میں دوڑنا ، ساجن کے جوگ میں مستا سا مکھڑا اور بیٹی کے سسرال جانے کا منظر وغیرہ ۔ہندوستانی معاشر ت کے ایسے خاکے اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں جن میں فراق ؔ کا تخیل ، ان کا جمالیاتی شعور اور ان کے طر ز ترسیل کا انوکھا رنگ نے جان ڈال دی ہے ۔

پنگھٹ پر گگریاں چھلکنے کا یہ رنگ

پانی ہچکولے لے کے بھر تا ہے تر نگ

کاندھوں پہ سر وں پہ دو نوں باہوں میں کلس

مد انکھڑ یوں میں سینوں میں بھر پور رنگ


ہودی پہ کھڑی کھلا رہی ہے چارہ

جوبن رس انکھڑیوں سے چھلکا چھلکا

کومل ہاتھوں سے ہے تھپکتی گردن

کس پیار سے گائے دیکھتی ہے مکھڑا


وہ گائے کا دوہنا، سہانی صبحیں

گر تی ہیں بھر ے تھن سے چمکتی دھاریں

گھٹنوں پہ کلس کا وہ کھنکنا کم کم

یا چٹکیوں سے پھوٹ رہیں ہیں کر نیں

 ہندو ستانی کلچر و ثقافت جہاں تک انکی شاعر ی میں ہے اسی متعلق فراقؔ’’روپ ‘‘ میں چند باتیں کے زیر عنوان رقم طراز ہیں :

’’جہاں تک ایسی شاعر ی کا تعلق ہے جسے ہم صحیح معنی میں ہندو ستا نی کہہ سکتے ہیں جس میں یہاں کی فضا کی گر می ہو، ہندوستان کی مٹی کی خوشبوہو، یہاں کی ہواؤں کی لچک ہو ، یہاں کے آکا ش سورج اور چاند ستاروں کا آئنہ بنے اور ان کو آئینہ دکھائے ۔یہ صفات اردو شاعر میں ابھی کم آئی ہیں ۔شاعر ی میں کوشش خواہ غزل ہو یا نظم یا رباعی محض اضطر اری چیزیں نہیں تھیں ۔ان کی کوششوں میں بھی ہندو ستان اور ہندو ستان کے کلچر کی تھر تھر اتی ہوئی زندہ رگوں کو چھو لینا چاہتا ہوں ۔،،

یہ فراق کا ایک ایسا تصور ہے جس سے فراق کی رباعیوں کو ایک قابل قدر تہذیبی حسیت عطا ہوئی ۔جس نے انہیں ہندوستانی تمدن ، گنگا جمنی تہذیب اور ہندو ستانی عورت کے جمالیاتی مظاہر کا تر جمان بنا دیا۔ ان کی رباعیوں میں ہندوستانی معاشرت کا آئینہ صاف نظر آتا ہے ۔ ان کی رباعیوں میں عورت کہیں محبوبہ ، کہیں شوخ لڑکی ، ، کہیں گر ہستن اور کہیں محض رفیقئہ حیات کی حیثیت سے ابھر تی ہے ۔

ڈھلکا آنچل دمکتے سینے پہ الگ

پلکوں کی اوٹ مسکراہٹ کی جھلک

وہ ماتھے کی کہکشاں و موتی بھر ی مانگ

وہ گود میں چاند سا ہمکتا بالک


آنگن میں بہاگنی نہا کے بیٹھی

رامائن زانو پر رکھی ہے کھلی

جاڑے کی سہانی دھوپ کھلے گیسو

پر چھائیں چمکتے صفحے پر پڑتی ہوئی

فراق ؔ کی رباعیوں کی مقبولیت کا راز یہ ہے کہ ان کی رباعیوں میں جمالیاتی ،تہذیبی اور جنسی عناصر جگہ جگہ نظر آتے ہیں جن سے قاری ان کی رباعیوں کے اسیر نظر آتے ہیں اورفراقؔ اردو کے وہ منفر د شاعر ہیں جنہوں نے اپنی رباعیوں کو ’’سنگھاررس ‘‘ کی رباعیوں سے تعبیر کیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنی رباعیوں میں حسن کومختلف زاویوں سے دیکھا اور پیش کیا ہے ، اس کی اداؤں کی دل نشینی کو محسوس کیا ہے ۔ان کی رباعیوں میں ’’وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن‘‘، ’’منڈلاتے ہوئے بادلوں کے سے گیسو‘‘،’’شفاف فضا کے ہوش اڑاتی ہوئی زلف‘‘اور ’’مڑتی ندی کی چال‘‘ حسن کی وہ مختلف کیفیات ہیں جنہیں پہلی بار رباعی کی لڑی میں پرویا گیا ہے ۔فراقؔ رباعی میں جتنا کھل کر پیش آئے ہیں وہ اتنا غزلوں اور نظموں میں بھی نہیں آئے ہیں۔ حسن کی تصویروں کو پیش کرنے میں فراق فراخدلی سے کام لیے ہیں ۔ان کی رباعیوں میں استعارات و کنایا ت اور تشبیہات کا خوبصورت ذخیر ہ نظر آتا ہے ۔فراق ؔ اپنے ان ذخیروں کے بدولت جب کسی چیز کی تعر یف کر تے ہیں تو مختلف پیر ائے سے کرتے چلے جاتے ہیں ۔جیساکہ گیسو کی تعریف ۔

باد ل کوئی آہستہ گرجتا ہے کہ زلف

برسات میں قصر شام سجتا ہے کہ زلف

منڈلاتی گھٹامیں جیسے ہاتھی جھومیں

کجلی بن میں ستار بجتا ہے کہ زلف


نکھر ی ہوئی رات جگمگاتی ہوئی زلف

تقدیر کے پیچ و خم دکھاتی ہوئی زلف

مدھم لے میں چھڑا ہے ساز ہستی

جیون سنگیت گنگناتی ہوئی زلف


راتیں برکھا کی تھر تھر اتی ہیں کہ زلف

تقدیریں پیح و تا ب کھاتی ہیں کہ زلف

پرچھائیاں کانپ کانپ جائیں جیسے

متوالی گھٹائیں گنگناتی ہیںکہ زلف


سنبل کے تروتازہ چمن ہیں زلفیں

بے صبح کی شب ہائے ختن ہیں زلفیں

خود خضر یہاں راہ بھٹک جاتے ہیں

ظلمات کے مہکے ہوئے بن ہیں زلفیں

محبوبہ کی آنکھوں کی تعریف مختلف جہتوں سے اور مختلف اوقات کے آنکھوں کی کیفیت کو مختلف پیر ائے میں بیان کر تے ہیں ۔ان کے محبوبہ کی آنکھیں تاروں کو لوریاں سناتی ہیں ،اس کی نشیلی آنکھیں راتوں کی جوانیاں ہیں، ان کے یہاں جب محبوبہ کی آنکھیں خلوت ناز میں جھکتی ہیں تو کامنی کے پھول برس جاتے ہیں ، محبوبہ کی رسیلی آنکھوں کی چمن دو شیزہ سحر معلوم ہوتی ہے ۔

چلمن میں مژہ کی گنگناتی آنکھیں

چھوتی کی دلہن سی کچھ لجاتی آنکھیں

جوبن رس کی سدھا لٹاتی ہر آن

پلکوں کی اوٹ مسکراتی آنکھیں


راتوں کی جوانیاں نشیلی آنکھیں

خنجر کی روانیاں کٹیلی آنکھیں

سنگیت کی سر حدپہ کھلنے والے

پھولوں کی کہانیاں رسیلی آنکھیں


دوشیزہ سحر رسیلی آنکھوں کی چمک

آئینہ صبح میں مناظر کی جھلک

جیسے پڑنے کو آئے آبگینوں پر چوٹ

شفاف فضا میں وہ نگاہوں کی کھنک

فراقؔ اپنی رباعیوں میں محبوب کا سراپا پیش کر تے ہوئے اس کی اداؤں ،حر کات و سکنات کو بھی بڑی دلکش انداز میں پیش کر تے ہیں ۔اس پیش کش میں محبوب کے نہ صر ف دلکش خدو خال اور اس کی شخصیت نمایا ں ہوتی ہے بلکہ محبوب کے حر کات و سکنات اس کے اٹھنے بیٹھنے سو نے جاگنے چلنے پھر نے کی بھی متحر ک تصویریں پیش کر تے ہیں ۔ان متحر ک تصویروں کی پیش کش میں خوبصورت سمعی وبصر ی پیکر وں کی مدد سے بڑی چابکد ستی سے اس میں رنگ آمیزی کر تے ہیں ۔اس وجہ سے ان کی رباعیوں میں محبوب اپنی ساری جلوہ سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ ابھر تا ہے او ر قاری کے ذہن میں ایک دیرپانقش چھوڑ دیتا ہے ۔

اٹھنے میں ہمالہ کی گھٹاؤں کا ابھار

انداز نششت چڑھتی ندی کااتار

رفتار میں مدھ بھر ی ہواؤں کی سنک

گفتار میں شبنم کی رسیلی جھنکار


بالوں میں خنک سیاہ راتیں ڈھلیں

تاروں کی شفق کی اوٹ شمعیں جلیں

تاروں کی سرکتی چھاؤں میں بستر سے

ایک جان بہار اٹھی ہے آنکھیں ملتیں


یہ نقرئی آواز یہ ترنم یہ خواب

تاروں میں پڑرہی ہے جیسے مضراب

لہجے میں یہ کھنک یہ رس یہ جھنکار

یا چاندی کی گھنٹیوں کا بجنا تہہ آب

فراقؔکی زبان میں ہمیں ہندی اور سنکر ت الفاظ بکثر ت ملتے ہیں ۔اصل میں ہم اردو شاعر ی میں فارسی الفاظ سننے کے عادی ہوچکے ہیں ایسے میں ہمیںجب ہندی کے الفاظ کچھ زیادہ سماعت سے ٹکر اتے ہیں تو ہمارے ذہن میں فوراً یہ ردعمل شر وع ہو جاتا ہے کہ انہوں نے ہندی اور سنسکر ت سے زیادہ راہ روی اختیار کی ہے ۔حالانکہ کچھ ایسی خاص بات نہیں ہے ان کے یہاں جہاں ایک طر ف لوچ ،دھج ، نیر ، سرگم، روپ ، دیوی، امر ت، کونپل ، کنچن ، جھرمٹ ، جیون ، مکھڑا ، سہاگ ، سنگیت ،چنچل اور درپن جیسے شیر یں اور سر یلے الفاظ ملتے ہیں تو وہیں ہمیں آئینہ نیلگوں ، گلنا ر ، شفق ، نقر ئی آواز ، رودجمن، شام ہستی، زندان حیات ، دوشیزہ ٔ سحر ، آئینہ صبح ،قوس قزح ، پیکر نازنین اورجان بہار جیسے خوبصورت فارسی تراکیب بھی جا بجا ان کی رباعیوں میں نگوں کے طرح جڑے ہوئے ہیں ۔

فراق ؔ کی رباعیوںکو جنسیت زدہ رباعی بھی کہا گیا ہے ۔حالانکہ انکے انہیں رباعیوں کو اقبال ماہر اس حیثیت سے تعبیر کر تے ہیں ۔

’’روپ ‘‘ کی رباعیوں میں فراق ؔنے ہزار ہا سال پرانی لیکن سدا سہاگ ہندو وجدان اور ہندو ثقافت کی نشاۃثانیہ کا ثبوت دیا ہے ۔ اگر ہم تمام اردو شاعر ی میں ہندو تصور حسن کو تلاش کر نا چاہیں تو اس تصور کے حقیقی کارنامے اور نمونے ہمیں رباعیوں میں ملیں گے ‘‘

اصل میں ان کی رباعیاں حسن و فطرت، اور انسانی حسن کی متنوع کیفیات اور رنگا رنگ تجر بات کی آئینہ دار ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں حسن و عشق کی مختلف کیفیات اور جنسی خوبصورتی کچھ زیادہ ہی نظر آتا ہے اوروہ رباعیاں جن میں جنسی میلان اور جنسی تجر بات کی عکاسی کی گئی ہے اس میں بہت بے باکی نظر آتی ہے ۔بالہوسی اس میں ہے یا نہیں ان کی اس تحر یر سے سمجھی جاسکتی ہے جس کو سیدہ جعفر نے محمد طفیل کو فراق کے ذریعے لکھے گئے ایک خط کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔

’’جب جنسی جذبات کسی شخص کی پور ی شخصیت میں حلول کر جائیں اور اس کے مستقل کر دار کا جز و بن جائیں اورجب جنسی خواہش کے مقابلے میں احساس جمال زیادہ بڑھ جائے اور بہت زیادہ گہرا ہوجائے تب جنسیت عشق کا مر تبہ کر لیتی ہے ۔‘‘

فراق ؔکی وہ رباعیاں جن میں جذبہ عشق کی مصوری توازن میں رہ کر کی گئی ہے وہ رباعیاں اردو شعر و ادب میں قیمتی اضافہ معلوم ہوتی ہیں اور اردو رباعی کے صنف میں ایک نئے رنگ و آہنگ کے راہ میں گامزن نظر آتی ہیں ۔ان رباعیوں کو پڑھنے کے بعد ہر ادب کے قاری کے ذہیں میں یہ احساس ابھر تا ہے کہ وہ اردو رباعی جو فارسی کے راہ پر گامز ن چلی آرہی تھی اس کو فراقؔنے اپنے فکر اور گر دو پیش کے تہذیبی رجحانات سے مزین کیا ہے

Wednesday 24 March 2021

تر قی پسند شاعری اور مولانا سعید احمد اکبر آباد ی


 تر قی پسند شاعری اور مولانا سعید احمد اکبر آباد ی

امیر حمزہ



’’ ہمیں حسن کا معیار تبدیل کر نا ہوگا ۔ ابھی تک اس کا معیار امیرا نہ اور عیش پرورانہ تھا ۔ ہمارا آرٹسٹ امراء کے دامن سے وابستہ رہنا چاہتا تھا ۔انھیں کی قدردانی پر ان کی ہستی قائم تھی اور انھیں کی خوشیوں اور رنجوں ، حسرتوں اور تمناؤں ، چشمکوں اور رقابتوں کی تشریح و تفسیر آرٹ کا مقصد تھا ، اس کی نگاہیں محل سراؤں اور بنگلوں کی طرف اٹھتی تھیں ، جھونپڑ ے اور کھنڈر اس کے التفات کے قابل نہ تھے ، انھیں وہ انسانیت کے دامن سے خارج سمجھتا تھا۔ آرٹ نام تھا محدود صورت پرستی کا ، الفاظ کی تر کیبوں کا خیالات کی بندشوں کا ، زندگی کا کوئی آئیڈیل نہیں زندگی کا کوئی اونچا مقصد نہیں ۔‘‘

’’جس ادب سے ہمارا ذوق صحیح بیدا ر نہ ہو، روحانی اور ذہنی تسکین نہ ملے ، ہم میں قوت و حرارت نہ پیدا ہو، ہمارا جذبہ ٔ حسن نہ جاگے ،جو ہم میں سچا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے سچا استقلال نہ پیدا کر ے وہ آج ہمارے لیے بیکا ر ۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔‘‘

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو آزادی کا جذبہ ہو ، حسن کا جوہر ہو تعمیر کی روح ہو ، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو ، جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور بے چینی پیدا کر ے ۔ سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی ۔‘‘

اوپر کے تینوں کے اقتباسات میں مشتر کہ طور پر جو عناصر کھل کر سامنے آتے ہیں وہ ہیں ( ۱) حسن کا معیار (۲) آرٹ کا محدود ہونا (۳) زندگی کا کوئی آئیڈیل نہیں (۴) ذوق سلیم ( ۵) تفکر وغیرہ ۔ ان عناصر کی کارفرمائی سے ترقی پسند ادب تشکیل پاتا ہے ۔

 اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ عناصر تر قی پسندتحریک کی تشکیل کے بعدادب میں درآتے ہیں یا پہلے سے پائے جاتے ہیں ۔ تو شاید تمام کا جواب ہوگا کہ ان میں سے کوئی بھی چیز نئی نہیں ہے ، سب قدیم ہیں، بلکہ کچھ توا لزامات ہیں اگر میں یہ کہوں کے یہ سارے عناصر ری پیکیجنگ کیے گئے ہیں اور اپنے سے قبل کے ادب کو عالمی شور وغوغا سے ناقص بتا نے کی پر زور کوشش کی گئی تو غلط نہیںہوگا۔ کیونکہ ترقی پسندی کے وقت تو وہ شجر ممنوعہ کی طرح پیش کیا گیا لیکن انہی کے علمبر داروں نے میر و غالب و اقبال پر اچھی تحریریں دنیائے ادب کو دیں ۔بقول سجاد ظہیر کہ جب فیض دہلی کے مناظرہ میں تقریر کر نے کے لیے اسٹیج پر آئے تو ’’ انھوں نے عالمانہ انداز میں بڑی متانت سے یہ ثابت کیا کہ تر قی پسند ادب میں کوئی نئی چیز نہیں ہے ‘‘ ۔

بات شروع کر تے ہیں حسن کے معیار سے ۔تویہ بنیادی بات جان لینی چاہیے کہ ذہن کے تین بنیادی دریچے ہوتے ہیں جس سے وہ خارجی و داخلی امور کی جانب فطری طور پر مائل ہوتا ہے ۔(۱) حق (۲) خیر (۳) جمال ۔

کوئی بھی خیال و تصور ان ہی تین میں سمایا ہوا ہوتا ہے ۔ کوئی بھی چیز حق ہے یا تو حق سے منسوب ۔ خیر کے بغیر کوئی بھی چیز قابل قبول نہیں ہوسکتی ، موجود تو ہوسکتی ہے لیکن قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے ۔جمال کے بغیر بھی کسی شے کا وجود ہوسکتا ہے لیکن تاثیر سے عاری ہوگا ۔

دنیا کے تمام علوم کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ حق کے بغیر کسی شے کا وجود محض اس بات کا علم دیتا ہے کہ یہ حق نہیں ہے ۔حق کے بغیر کوئی بھی چیز ذہن میں یا خارج میں نہیں ہوسکتی یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حق تو مادہ وجود ہے ۔تو پھر یہ بات طے ہوتی ہے کہ حق کے بغیر خیر بھی موجود نہیں اور جمال کو خیر کا ایک لازمی جزو کہہ سکتے ہیں ۔ یعنی اگر کوئی چیز آپ کے پاس خارج سے آتی ہے تو آپ کے ذہن کے یہ بنیا دی دریچے سب سے پہلے کھلتے ہیں کہ یہ حق ہے یا نہیں پھر اس میں خیر ہے یا نہیں اگر یہ دونوں ہیں تو پھر جمالیاتی کیفیت کا حامل ہے یا نہیں ۔اب اسی کو ہم پلٹ کر دیکھتے ہیں اور اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی چیز حسین ہے اور حق نہیں ہے تو پھر ذہن میں ایک قسم کا مزاحمت ابھر تا ہے اور یہ ایک قسم کی اصولی بات ہے کہ اگر کوئی چیز جمالیاتی شعور کا حامل ہے لیکن حق سے خالی ہے تو اسے صرف نظر کا حسن یا دیکھنے میں خوبصورت سمجھا جاتا ہے ۔اسی طریقے سے اخلاقی شعو ر (خیر ) کی بھی بات کی جاسکتی ہے ۔ اگر ہم کہیں خیر کی بات کر رہے ہیں تو اس میں بقیہ دنوں بنیادی امور کو بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ ان تمام کے ساتھ ہے یا نہیں اگر کوئی چیز بظاہر ہمیں اخلاقی شعور کی حامل لگ رہی ہے لیکن حق سے وہ ٹکرا رہی ہے اور قلب و نظر کو اپنی جمالیاتی شعو ر سے متاثر نہیں کر پا رہی ہے تو وہ بھی بظاہر خیر ہے اور بباطن کچھ اور ہے ۔ اگر یہ تینوں چیز ثابت ہوجاتی ہیں تو ہمارے اندر اس چیز کی کلی قبولیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس لیے جو بڑا شاعر ہوتا ہے اس کے یہاں جمالیاتی شعور کو اس کے مقصد اصلی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اور جو ادنی درجہ کا شاعر ہوتا ہے اس کے یہاں جمالیاتی شعور حق کے ساتھ نہ ہوکر محض ظاہر ی حسن کا عکاس بن کر رہ جاتا ہے ۔ الغرض حسن کے معیار بدلنے کا جو نعر ہ تر قی پسند وں کی جانب سے دیا گیا تھا وہ سب کو پتہ ہے کہ وہ بہت ہی محدود دائرہ کا تھا یعنی بنگلوں اور محل سراؤں کی جگہ جھونپڑیوں کی طرف حسن کی تلاش میں یا بیان میں نکلنا ۔ جمالیاتی شعور یا حسن کے معیار سے ہی بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ان کو تہہ دار ادب کی ضرورت تھی یااس ادب کی جس میں معانی اپنے روایتی اقدار و حسن کے خلاف محض مادہ پرستانہ اور ظاہر ی نعروں کے ساتھ عوام کی زبان چڑھ جائے ۔ وجہ یہی ہے کہ تر قی پسندی ایک عوامی تحر یک تھی جس نے سماج کو متاثر کیا بر عکس اس کے علیگڑھ تحر یک ایک سماجی تحر یک تھی جس نے ادب کو متاثر کیا ۔ اس لیے انہوں نے ادب کے عظیم روایتی سر مایے کو در کنار کر تے ہوئے اپنے سامنے کچھ نئے نعرے پیش کیے جس کا اثر یہ ہوا کہ عوام سے گفتگو کرنے کے لیے ادب کا سہارا لیا اور اس نے ادب کو بہت ہی متاثر کیا ۔

 یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جدید شاعری کی روایت تہذیب کی شکست سے خوش ہوکر پیدا ہوئی ہے ، اقبال کے دور میں مشرقی و اسلامی تہذیب شکست خوردگی سے دوچار ہوگئی تھی ، جس کے دو ردعمل بر صغیر کی مسلم اور شعری دنیا میں سامنے آئے ۔ ایک ردعمل نوحہ اور مرثیہ کی شکل میں نظر آیا جو اکبر الہ آبادی کی شاعری میں نظرآتا ہے اور دو سرا رجز کی صورت میں نظر آیا جو نئے تہذیبی بدلاؤ سے ٹکر ا جانا چاہتا تھا جس کی واحد مثال اقبال ہیں ۔ دوسری جماعت وہ تھی جو تہذیب کی اس شکست سے خوش تھی اور شکست دینے والی تہذیب کی جانب کشش میں مبتلا تھی لیکن ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ مغرب کے اندر نہیں بلکہ باہر سے بیٹھ کر محظوظ ہونے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ مغربی تہذیب ا ن کے لیے کوئی مزیدار چیز نظر آرہی تھی تو وہاں کی قدرو ں کو اپنی تخلیقات میں ڈھالنے کی کوشش ہورہی تھی لیکن ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا ان کی شعری تربیت روایتی تھی ، شعری نہ سہی معاشرتی تربیت تو روایتی و مشرقی تھی ہی اور مغربی تہذیب کو اپنے اندر داخل کیے بغیر ہی مغرب کی وکالت کر نے کا نتیجہ یہ نظر آیا کہ لغویت کے ساتھ ابہام بھی ادب میں در آیا ہے ۔ بلکہ جس تہذیب کے اسٹریکچرکے انہدام کے وہ حامی ہوئے اس کے باقیات ان میں باقی تھے ، خارج سے ختم ہوگئی تھی لیکن داخل سے نکل نہیں پائی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شعری تہذیب میں ہیئت سے لیکر مضامین تک میں ایک غیر واضح صورت نظر آتی ہے ۔اگر آپ ن م راشد ( اگر چہ یہ تر قی پسند شاعرنہیں ہیں ) کا نیا آدمی سے پہلے اور بعد کے ادب کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو ایک حد فاصل نظر آئے گا جیسا کہ راشد کے یہاں نظر آیا ہے کہ آدمی تو مشرق میں بھی نیا پیدا ہوگیا ہے لیکن دنیا نئی پیدا نہیں ہو پائی ہے۔ اسی غیر واضح تکنیکی صورت حال سے مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے اپنے مقالہ میںواقف کر انے کی کوشش کی ہے ۔

مولانا سعید احمد اکبرآبادی کا پہلا اعتراض نام کے سلسلے میں ہے ان کے نزدیک’’ ترقی پسند شاعری یا تر قی پسند ادب کی ترکیب اصولاً درست نہیں ہے کیونکہ پسند یا نا پسند کا سوال شعور و احساس سے ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ادب بذات خود شعور وا حساس نہیں رکھتا ‘‘ میرے خیال میں ان کا یہ اعتراض تو درست ہے لیکن اگر ہم دوسرے زاویے سے دیکھیں تو سوال کچھ ہلکا ہوجاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس تحر یک سے جڑنے والے تر قی پسند کہلائے اور ان کی تخلیقات ترقی پسند ادب ۔یعنی تر قی پسند لوگوں کا ادب ۔ساتھ ہی جب ترقی پسند کا عروج ہوا تو مغربی رجحانات کی وجہ سے وہاں کی شعری ہیئت کا بھی اردو میں تجر بہ کیا گیا جس کے نتیجے میں نظم معریٰ ، نثر ی نظم اور آزاد نظم وجود میںآئے ۔ان کا اس تعلق سے سوال یہ ہے کہ کلام کی تو دو ہی قسمیں ہوتی ہیں مو زوں ہے تو نظم و رنہ وہ نثرہے ۔ کلام میں وزن کے ساتھ معنوی خوبی ہے تبھی وہ شعر ہے ورنہ وہ محض ایک موزوں کلام ہے شعر نہیں ہے ۔اسی طر ح نظم میں اگر کوئی لفظی یا معنوی صناعی ہے تو وہ نثر انشا ء ہے ورنہ نثر عاری ہے ۔پھر نظم کے ساتھ نثر ، معریٰ یا آزاد لانا ویسے ہی ہے جیسے کوئی کہے لاہو ر کا ہمایوں مقبرہ یا دلی کا تاج محل ، ہاں اصطلاحات پر تو کوئی روک ٹوک نہیں ہے انفرادی طور پر وہ اپنی غزل کو قصیدہ کہے یا مرثیہ و مثنوی وہ تو اس کا شخصی اختیار ہے جیسے کوئی اپنی بلی کا نام کتا یا کتے کا نام لومڑی رکھ لے ۔ان کے اس اعتراض کوکسی حد تک درست ٹھہرا یا جا سکتا ہے لیکن اس ادبی دنیا میں بال سے بھی باریک صنفی امتیازات کے لیے اصطلاحات کی بھر مار ہے آپ خود ہی دیکھ لیں کہ اس اکیسویں صدی کے ابتدا ئی دو دہوں میں کتنے اصطلاحات وجود میں آچکے ہیں ۔ اسی طریقے سے ایک لفظ’’ شعریات ‘‘ ہے جو آج کی ادبی دنیا میں بہت ہی مستعمل ہے ۔ اس بات کا علم ہے کہ اس وزن پر جو بھی لفظ بنایا جاتا ہے اس میں اس کی داخلیت پر اثر زیادہ ہو تا ہے جیسے اقتصاد سے اقتصادیات، بلدیہ سے بلدیاتی ، خمر سے خمریات، معاش سے معاشیات ، سیاست سے سیاسیات اور ادب میں ادب سے ادبیات ، غالب سے غالبیات ، اقبال سے اقبالیات ، میر سے میریات وغیرہ ۔ اسی طر ح سے شعر سے شعریات ہے جو بالکل درست ہے لیکن شعریات کے ساتھ ناول، افسانہ ، داستان ، خاکہ ، انشائیہ اور سفر نا مہ جیسے نثر ی اصناف کو سابقہ اور لاحقہ کے طور پر لانا ویسے ہی ہے جیسے دلی کا تاج محل اور اگرہ کا ہمایوں مقبرہ ۔

سعید احمد اکبرآبادی نے تر قی پسند ادب میں محدود منشو پر زیادہ توجہ دینے کی سلسلے میں ردعمل کا اظہار کر تے ہوئے فکر سے بھر پور گفتگوکی ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’’ زندگی کے اہم مسائل کو بھوک ، غر یبی ، سماجی پستی اور سیاسی غلامی تک ہی محدود نہیں کر نا چاہیے ‘‘ کیونکہ زندگی تو خود ہی بے شمار پریشانیوں کا ایک وسیع و عرض میدا ن ہے جس میں محض مذکورہ پریشانیوں کا ذکر مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے بلکہ راحت و مسرت ، غم و خوشی ، رنج و الم ناکامی و مایوسی سے ہر وقت بر سر پیکار رہتی ہے ۔ جبکہ یہ عالمی مسائل ہوتے ہیں ، تو جب ادب عالمی ہوتا ہے تو ان کے مشمولات کو بھی ہمہ گیر اور عالمی ہونا چاہیے کس خاص زمرے کی نمائندگی کے لیے لکھنا محض زبر دستی ادب کو اس کی آمد کی صفت سے نکال کر آور د کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا ۔

ادب اصل میں ہوتا ہے کیا ؟ اس سوال کا جواب تو جدیدیت سے پہلے تک ہر ایک کی زبان میں یہی ہوتا تھا کہ ادب زندگی کا عکاس ہوتا ہے ۔ لہذا جو رنگ زندگی کاہوگا اس کا عکس ادب میں نظر آئے گا ۔اس حوالے سے اگر لفظیات و شعریات کی بات کی جائے تو مولانا کا خیال یو ں عیاں ہوتا ہے کہ:

’’مرزا مظہر جان ِ جاناں اور خواجہ میر درد اور حضرت امیر مینائی ایسے مقدس اور ثقہ حضرات بھی شاعر ی کے میدان میں قدم رنجہ فرماتے ہیں تو ان کو بھی عشق حقیقی کے واردات قلب اور عالمِ لاہوت کے سر ہانے ملکوتی کو بیان کر نے کے لیے وہی اس زمانے کی عام شاعرانہ بول چال کے مطابق گل و بلبل ر خسار و کاکل ، شمع و پر وانہ شیخ و بر ہمن اور رقیب و دشمن ایسی چیزوں کی آڑ لینی پڑتی ہے‘‘ یعنی مندرجہ بالا حضرات جب مروجہ محاورات و اسالیب زبان سے روگر دانی نہیں کر پاتے ہیں پھر تر قی پسند افرا د دقیانوسیت خیال کر کے ملا و بر ہمن کے سوا دیگر استعارات و تلمیحات جن کا تعلق مذہبی اساطیر سے ہوتا ہے ان سے صرف نظر کر نا ان کے نزدیک شاعری کی روایت میں ایک قسم کی خیانت ہے ۔ جیسا کہ ماقبل میں ذکر آیا کہ ان کا تعلق اس گروہ سے تھا جودوسری جنگ عظیم کے بعد مشرق میں ہوئی تبدیلیوں اور مغربی تہذیبی کی بالا دستی سے خوش تھے تو وہ جدید تہذیب کو خود میں داخل کیے بغیر اسلامی روایت پر حامل سرمایہ کی شعری روایت کے انحراف پر اتر آئے تھے تو اس رد عمل میں یہ چیز تو ہونا لازمی تھا لیکن فیض و مجروح ومخدوم محی الدین جیسے شاعرو ں کی غزلوں میں روایت کی پاسداری پائی جاتی ہے ۔ 

 ادب کاکوئی بھی رجحان خالی از علت کبھی نہیںہوا ہے ہمیشہ اس میں کچھ ایسے متحر ک عناصر شاعر و تخلیق کار کو نظر آئے کہ وہ اس متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد متاثرہ ممالک کے جو حالات ہو گئے تھے اس وقت وہی بادہ و صراحی و حسن کی شاعری کیسے انسانی نفس کو گوارہ ہوسکتا تھا اس لیے جدید موضوعات و مسائل جس کو سننے کے لیے عوام و خواص مشتاق تھے اس جانب تیز ی جانا پڑا اس کا احسا س سعید احمد اکبرآبادی کو بھی تھا وہ لکھتے ہیں ’’ پس آج کل ہماری شاعری او ر ادب میں جو رجحانا پائے جارہے ہیں وہ خالی از علت نہیں ہیں بلکہ نتیجہ ہیںان سیاسی ، تمدنی اور معاشرتی عوامل کاجو گذشتہ جنگ عظیم کے بعد سے ہندو ستان میں کارفرما رہے ہیں ۔‘‘ مو لانا کے یہاںعلت کا بیا ن اس طرح سامنے آتا ہے لیکن ساتھ ہی چند سطروں کے بعد اس کا معلول کس طور پر سامنے آچکا ہے اس کو بھی رقم کر تے ہیں کہ ’’ نتیجتاً مذہب اور پرانی روایات سے بیزاری،آزادی و طن کانام لیتے لیتے ہر قسم کی اخلاقی اور سماجی قیدو بند سے مکمل طورپر آزاد ہونے کا جذبہ(ہے )…جو ہمیں جدید ادب میں نظر آتا ہے ۔‘‘ مذکوہ بالا علت کا اس قسم کا معلول ان کے پورے مقالے (تر قی پسند شاعری ،برہان ،نئی دہلی ، مارچ۱۹۴۴) میں جگہ جگہ نظرآتا ہے ۔ 

آگے بڑھتے ہیں اس واقعہ کی جانب جو دلچسپ مناظر ہ کی شکل میں ترقی پسندو ں اور غیر ترقی پسندوںکے مابین واقع دہلی کے ٹاؤن ہال میں واقع ہوا ۔ اس مناظرہ کی تفصیلی روداد سجاد ظہیر نے اپنی کتاب روشنائی میں لکھی ہے ۔ واقعہ ۱۹۴۶ کا ہے جب سجاد ظہیر دہلی میں ہی تھے ان کے دوست مقیم الدین فاروقی اور قاضی احمد صاحب نے مخالفین تر قی پسند کو مناظرہ کا چیلینخ دیا جس کو قبول کر لیا گیا ۔ مخالفین کی طرف سے خواجہ محمد شفیع اور مولانا سعید احمد اکبرآبادی متعین ہوئے اور موافقین کی جانب سے سجاد ظہیر اور فیض احمد فیض ، صدر مناظرہ سر رضا علی قرار پائے ۔جس میں دونوں ترقی پسندی دہلی کے نہ تھے ، فیض لاہو ر سے اور سجاد ظہیر لکھنؤ سے تھے اور دنوں نے دہلی والوں کے خلاف دہلی میں ہی محاذقائم کیے ہوئے تھے ۔ جلسہ ( مناظرہ ) کی کارروائی سر رضا علی کی تقریر سے شروع ہوتا ہے ۔جسے سن کر سجاد ظہیر محسوس کر تے ہیں کہ موصوف ’’ جدید اردو ادب کے مطالعے میں حالی ، اکبر اور اقبال سے آگے نہیں بڑھے ہیں ۔ انہوں نے صدر کی حیثیت سے غیر جانبد ار رہنے کے بجائے مزاحیہ انداز میں ترقی پسند ادب پر چوٹیں کیں ۔ پھر مخالفین کی جانب سے تقریر ہوتی ہے خواجہ محمد شفیع کی جس میں وہ ترقی پسندو ں پر کافی چوٹیں کر تے ہیں ، فحاشی کا الزام لگاتے ہیں جس سے سجاد ظہیر کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ  دہلی کی ٹیٹھ اور پیار بھرے لہجے میں گالیا ں دے رہے ہیں ۔ اس کے بعد میرا جی اور ن م راشد کی نظموں کے چند ٹکڑ ے پڑھے جس پر انہوں نے قہقہ بٹورا ۔ان کے بعد فیض احمد تقریر کے لیے آئے اور انہوں نے بڑی متانت سے یہ ثابت کیا کہ ’’ ترقی پسند ادب میں کوئی نئی چیز نہیں ہے ۔ سماج میں تبدیلی اورارتقا کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی تبدیلی اور ترقی ہوتی ہے۔ اسے روکنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔‘‘ فیض کی یہ تقریر خاموشی سے سنی گئی نہ قہقہے لگے نہ تالیاں بجیں ۔ا ن کے بعد مولانا سعید احمد اکبرآبادی تقریر کرنے آتے ہیں اور وہ بھی خواجہ شفیع کی ہی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ سجاد ظہیر لکھتے ہیں ’’ قاضی سعید صاحب سے مجھے توقع تھی کہ ان کی تقریر ان کے رتبہ کے مطابق ٹھوس ا ور عالمانہ ہوگی اور اس سے کچھ سیکھ سکیںگے ۔ لیکن بد قسمتی سے انہوں نے دینی اور مذہبی نقطہ نظر سے ترقی پسند تحریک پر اعتراضات کیے ۔ الحاد ، لادینی ، بد اخلاقی پھیلانا ، ان کے نزدیک ترقی پسندوں کے یہی مقاصد تھے ۔‘‘ واضح رہے کہ یہ وہیں باتیں ہیں جن کا ذکر اوپر علت ومعلول کے طور پر آچکا ہے ۔ان کی تقریر کے بعد سجاد ظہیر کی تقریر ہوئی جہاں انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہ ہمارے مخالفین نے جو بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ ہماری تحریک موافق تو دور بلکہ سخت مخالف ہیں اور ہماری تحریک آپ عوام کی تحریک ہے جس میں ہمیں ان طاقتوں اور اداروں سے لڑنا اور ان کی مخالفت کرنا ہے جو آپ عوام کے دشمن ہیں ۔ رہی بات فحش گوئی کی تو وہ سعدی، حافظ ، میر و سودا کے سرمایہ کا جائزہ لیتے وقت بھی محسوس ہوسکتا ہے ۔ ’’ پاس ہے رنڈی ولے ہے ضعف باہ ‘‘ میر کے اس مصرع سے کیا میر فخش گوہوگئے ؟ ۔ ہمیں ترقی پسند ی کی مثالیں ان کی بہترین چیز لے کر پیش کرنا چاہیے ۔ خیر جلسہ صدر کی مختصر تقریر سے ختم ہوا اس کے بعد باضابطہ تعارف ہوا جس میں مخالفین نے کہا کہ ہم نے بہت سی باتیں از راہ مناظرہ کہہ دی تھی اس کو دل پر نہ لیا جائے ۔خیر…اس واقعہ کے چند دنوں کے بعد سعید احمد اکبرآبادی سے سجاد ظہیر کی ملاقات ندوۃ المصنفین سے ہوتی ہے جس میں ملاقات کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مناظرہ کے مقرر سے بالکل مختلف پایا ’’ انہیں ہماری تحریک سے کوئی اصولی اختلاف نہ تھا۔‘‘ یہ بات سعید احمد اکبرآبادی کی تحریروں سے بھی عیا ں ہو تی ہے کیونکہ ان کے اعتراضات میں اکثر مقامات پر ن م راشد اور میراجی ہی آتے ہیں او ر شاعری کے جدید فارمس سے وہ نالا ں نظر آتے ہیں جسے مہمل پر ہی محمول کرتے ہیں ۔


Saturday 20 March 2021

سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی : تعمیرذات سے تعمیر وطن تک

 سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی : تعمیرذات سے تعمیر وطن تک

امیر حمزہ قاسمی

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ کے بعد ملک عزیز سے نہ صر ف مسلمانو ںکے سیاسی نظام کا جنازہ نکلتا ہے بلکہ پرانا سماجی نظام اور پرانے نظریات وقت کے نئے تقاضوں کے سامنے سرنگوں ہوجاتے ہیں ۔ ہمارا قرون وسطیٰ کا سارا تہذیبی سرمایہ نیست و نابود ہوجاتا ہے ۔دہلی جو صدیوں تک علم و ہنر کا مرکز اور تہذیب وتمدن کا گہوارہ تھی اٹھارہ سو ستان کی تباہی کے بعد اس طر ح تباہ و برباد ہوجاتی ہے کہ اس سے زیادہ کی تباہی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے ۔پرانے لوگ جو بادشاہ کے رحم وکرم پرجی رہے تھے وہ یا تو غدر کا شکار ہوگئے یا پھر مملکت انگلیشیہ کے فرمانبردار ، گویا ایسی حالت تھی کہ کوئی سر اٹھانے والا نہیں تھا ۔دلی کے علمی و ادبی مراکزاجڑ چکے تھے ۔پرانے لوگ ماتم کناں تھے۔ ایسے وقت میں معاشرہ میں مبلغین اور واعظین کی پکڑ مضبوط تھی اور وہ لو گ جو فکر ولی اللہی سے منسلک تھے ان کی رگ میں انگریزوں سے جہاد کا خون دوڑ رہاتھا ۔اس مایوسانہ دور میں ہندکی آزادی کے بطل جلیل اور دہلوی تہذیب کے علمبردار ، جمعیۃ علماء ہند کے کھیون ہار اور خلافت تحریک کے سپہ سالا رمولانا احمد سعید دہلوی کی پیدائش ۵؍ دسمبر ۱۸۸۸ء کو حافظ نواب مرزا کے یہاں کوچہ ناہر خاں دریا گنج دہلی میں ہوتی ہے ۔

آپ کے والدمحتر م حافظ نواب مرزا زینت المساجد میں امامت کے منصب پر فائز تھے اور مکتب میں پڑھاتے بھی تھے ۔۱۹۰۸ء میں ان کا انتقال ہوا اور اپنے آبائی قبرستان چونسٹھ کھمبے میں دفن ہوئے ۔ وہ زمانہ صوفیوں کا تھا خواجہ میر در د اور خواجہ ناصر عندلیب کا در عوام سے لے کر خواص تک کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل تھا اسی عہد کے اہم صوفیا میں سحبان الہند کے دادا محتر م خواجہ نواب علی کا شمار ہوتا ہے ۔آپ کے خاندان کے متعلق لکھا گیا ہے بادشاہ اکبر نے آپ کے اجداد کو عرب سے کشمیر بلا یا تھا ۔ پھر شا ہجہاں کے زمانے میں کشمیر سے آگر ہ منتقل ہوئے اور کچھ عرصہ قیام کے بعد دہلی کے کشمیر ی کٹر ہ(غدر سے پہلے لال قلعہ کے سامنے پتھر والا کنواں کے سامنے آباد تھا ) میں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔آپ کے آباو اجداد مستقل ( اکبر سے بہادر شاہ ظفر تک ) مغل دربار سے وابستہ رہے اور قلعۂ معلی سے خواجہ زادہ مغل کا خطاب بھی ملا تھا۔

مولانا نے دو شادیاں کی تھیں ۔ پہلی اہلیہ کو چھوڑدیا تھا ان سے دو اولادتھیں جو عہد فطانت میں ہی فوت ہوگئیں۔ دوسری شادی صوفی حکیم ممتاز احمد ہاشمی کی بہن سے ہوئی جن سے مولانا کی آٹھ اولادیں ہوئیں۔ چار لڑکے اور چار لڑکیا ں ۔لڑکوں میں محمد سعید ، مظہر سعید ، محمود سعید اور حامد سعید ۔ لڑکیوں میں سعیدہ بیگم ، مسعودہ بیگم ، محمودہ بیگم ، اور فہمیدہ بیگم تھیں ۔ سب سے بڑے لڑکے مولانا محمد سعید میونسپل کونسلر کے ممبر اور دینی بکڈپو کے مالک تھے ۔

تعلیم 

آپ نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے اور مولوی عبدالمجید مصطفی آبادی سے حاصل کی اور شایدحفظ بھی انہی کے پاس کیا کیونکہ حفظ کی دستار بندی بازار مٹیا محل سے ہوئی ۔بارہ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر چکے تھے اس کے بعد وہ ہر سال ۱۹۵۸ء تک قرآن پاک تراویح میںسناتے رہے ۔ ان کی عمر کوئی سولہ یا سترہ برس کی رہی ہوگی کہ ان کی طبیعت وعظ گوئی کی جانب مائل ہوگئی۔ اس معاملہ میں شروع میں انہوں نے مولانا محمد حسین فقیر کا وعظ سنا پھر ان کے انتقال کے بعد مولانا عبدالرحمن راسخ اور مولانا محمد ابراہیم کا وعظ سنتے تھے ۔مولانا عبدالرحمن راسخ جو داغ دہلوی کے ہم عصر تھے اور حدیث ، فقہ و تصوف کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی بے مثال تھے دو دیوان یاد گار چھوڑے۔ تصوف اور شاعری کی دنیا میں ان کا اہم کارنامہ ’’ کتاب مرقوم ‘‘ شرح اردو مثنوی مولانائے روم ہے ۔ ان کا وعظ اردو بازار کی مسجد میں بعد نماز جمعہ ہوا کر تا تھا اب یہ مسجد مولانا احمد سعید کہلاتی ہے ۔

حلیہ 

مولانا کی شخصیت بہت ہی جاذب نظر تھی۔کہتے ہیں اگر عبدالحی تاباں کے زمانے میں ہوتے تو آپ کے حسن کا چرچہ قلعۂ معلی میں ہوتا ۔ اکثر محفلوں میں مولانا کا ذکر کچھ اس طر ح ہوتا کہ ’’ میاں اگر آدمی حسین ہو تو احمد سعید جیسا ہو ‘‘ لیکن آپ کا دور تو جنگ آزادی کا دور تھا جنگ میں حسن کا کیا کام لیکن وعظ کی محفلیں تو آپ کی وجہ سے سجتی تھیں اور آپ مردوں سے زیادہ عورتوں میں مقبول تھے ۔ آپ کا قلمی خاکہ حاجی انیس دہلوی نے کچھ اس طر ح کھینچا ہے :

’’ سرخ و سفید رنگ ، دمکتا ہوا چہرہ ، بلند و بالا قد ، چوڑا چکلا جسم ، لمبے لمبے ہاتھ ، جو چلتے وقت آگے کم اورپیچھے زیادہ جھولتے تھے ۔بڑی بڑی چمکدار آنکھیں جن میں دلی کی تہذیب اور اس کے عروج و زوال کی بے شمار جھلکیاں پنہاں تھیں ، پتلے پتلے یاقوتی ہونٹ ، اونچی ناک ، پیشانی پر علم و صداقت کا روشن آفتاب ، ناتراشیدہ سفید بھرواں داڑھی ، جس پر کبھی کبھی پان کے سرخ قطرے شبنم کی طرح رقصاں نظر آتے ، انداز گفتگو نہایت نرم و شیریں ، کبھی کبھی دوران گفتگو مصنوعی دانتوں سے ہوا نکل جاتی اوربتیسی باہر آگرتی ۔ بدن پر بنیان یا بنڈی اس پر لمبا کر تا اور ایک ڈھیلی ڈھالی واسکیٹ ، موسم سرما میں روئی کی دو صدریاں ، ایک آدھی آستین کی اور ایک پوری آستین کی گھٹنوں تک زیب تن کر تے ، گھر میں سلاہوا تہمد باہر جانا ہو تو چوڑی مو ری کا پاجامہ ، پیر میں موزے ، بغیر بند کا جوتا یا سلیم شاہی جوتی ، عربی چغے(چوغے) کے ساتھ سر پر دو پلی ٹوپی کے اوپر عربی رومال اس انداز سے بندھا ہوتا کہ دیکھ کر عرب مجاہدوں کی جلالت آنکھوں کے رو برو رقصاں ہوجاتی ۔‘‘ 

وعظ گوئی و مناظرہ کا آغاز 

آپ کی علمی قابلیت حفظ سے متجاوز نہ تھی اور غالباً لکھنا بھی نہیں آتا تھا لیکن باطنی جوہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا اور وعظ کی نکات اور مناظرہ کو سمجھنا تو دور بلکہ وہ عملی میدان میں اتر چکے تھے۔اس زمانہ میں لوگ گھروں میں وعظ اور میلاد شریف کی محفلیں منعقد کیا کرتے تھے تو شروع شروع میں مولانا کو ایسی ہی محفلوں میں بلا یا جاتا تھا بعد میں کوچہ چیلا ن کی مسجد میں (جو فی الحال مفتی کفایت اللہ مسجد کہلاتی ہے ) ہر جمعرات کو وعظ کہنا شروع کیااور یہ ان کی آمدنی کا ذریعہ بھی تھا۔ ایک وعظ کا دو روپیہ مل جاتا تھا ۔ باپ کا سایہ سر سے بچپن میں ہی اٹھ چکا تھااس لیے باضابطہ روزی روٹی کے لیے وہ تار کشی کا کام شروع کر چکے تھے ۔  

آپ جب مدرسہ حسینیہ میں زیر تعلیم تھے تواس وقت مدرسہ میں مولانا محمد ابراہیم اور مدرسہ حسین بخش میں مو لانا کرامت اللہ خاں کا وعظ ہوتا تھا ۔( مولانا کرامت اللہ خاں مو لانا قاسم نانوتویؒ کے شاگردوں میں سے تھے لیکن رضاخانیت کی جانب میلان تھا ) تو دونوں حضرات اپنے وعظ کی محفلوں میں اختلافی مسائل بیان کیا کر تے تھے اور ایک دوسرے کے خیالات کا رد کیا کر تے تھے ، تو اس زمانہ میں سماعِ موتیٰ کا مسئلہ عوام و خواص میں گرم تھا، خو ب بحث و مباحثہ ہوتا تھا۔ ایسے میں مولانااحمد سعید مولانا ابراہیم بنتے تھے اور صوفی حکیم ممتاز ہاشمی مولوی کرامت اللہ کا کردار ادا کرتے تھے ۔گویا یہیں سے ان کے مناظرہ کی تربیت شروع ہوئی ۔ مدرسہ حسینیہ میں حفظ کے بعد ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا تھا لیکن روزی روٹی کے لیے تار کشی اور وعظ گوئی کا سلسلہ جاری رہا ۔ اس زمانہ میں چاندنی چوک میں فوارہ کے سامنے عیسائی پادری اور ہندو پنڈت تبلیغی تقریر کیا کرتے تھے اس وقت مولانا کی عمر بیس بائیس برس کی رہی ہوگی تو وہ بھی کبھی کبھار تقریر کیا کر تے تھے ۔

عربی تعلیم 

مولانا جب فوارہ پر تقریر کیا کرتے تھے تو سامنے ہی نواب روشن الدولہ کی سنہری مسجد ہے اسی میں پہلے مدرسہ امینیہ قائم تھا جس کے صدر مدرس مفتی کفایت اللہ ؒ تھے ۔ان سے کسی نے مولانا احمد سعید کی تقریری صلاحیتوں کی تعریف کی تو مفتی صاحب نے مدرسہ کے ایک استاد مولانا محمد یٰسین سکندرآبادی کو اس بابت معلومات حاصل کرنے کو کہا ۔قاری صاحب وعظ میں شریک ہوتے ہی تھے اور مولانا احمد سعید کے متعلق ان کا خیال تھا کہ شاید وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں لیکن مفتی کفایت اللہ صاحب کا حکم تھا تو انہوں نے معلوم کیا۔ پہلی مر تبہ کوئی جواب نہیں ملا ، آخر کا ر اس کے بعد بھی وہ کئی مرتبہ پوچھتے رہے اور جواب نا میں ملتا رہا ۔ایک دن مولا نا احمد سعید نے دل کاحال کہہ ہی دیا کہ ’’ مولوی صاحب آپ یہ بات پوچھتے ہیں تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے ۔ کہیں پڑھا ہو تو بتائوں ، بھئی میں نے تو کہیں سے کچھ نہیں پڑھا البتہ پڑھنے کی آرزو ہے ‘‘ پھر بھی مولانا کو یقین نہیں آیا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب میل جول زیادہ ہوا تب یقین آیا کہ وہ انپڑھ ہیں۔پھر انہیں مشورہ دیا گیا کہ آپ مدرسہ امینیہ میں داخلہ لے لیجیے ۔مولانا نے کہا ’’ میں کیونکر پڑھ سکتا ہوں ، والد کے انتقال کے بعد گھر کا سارا بوجھ مجھ پر ہے ، دن بھر محنت کر تا ہوں تب جاکر کہیں گھر کا آذوقہ نصیب ہوتا ہے۔ ان حالات میں داخلہ لے کر پڑھنے کی فرصت کہاں ۔‘‘ مگر واعظ و مقرر احمد سعید کی قسمت میں پڑھنا نصیب تھا اس لیے شروع میں یہ سبیل نکالی کہ صبح کے وقت وہ مال تیا ر کر تے اور دو پہر کو چاندنی چوک کی دکانوں میں پہنچاتے اور شام کو سنہری مسجد میں عربی کی ابتدائی کتابیںمولانا محمد یٰسین سکندرآبادی سے پڑھا کرتے تھے ۔ایک سال میں جب عربی کی ابتدائی کتابیں ختم ہوئیں تو باضابطہ مدرسہ میں داخلہ لے لیا اور مفتی کفایت اللہؒ کے شاگر د خاص ہوئے ۔اس زمانہ میں درجہ بدرجہ کتابیں پڑھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے جتنی بھی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں سب کا ذکر سند میں ہوتا تھا ۔ بقول مو لانا حفیظ الرحماں واصف دہلوی ان کی سند میں درج ذیل کتابیں مذکور تھیں ۔

 تفسیر جلالین، تفسیر بیضاوی ، صحاح ستہ ، مشکوٰۃشریف، نخبۃ الفکر ، قدوری ، کنزالدقائق ، شرح وقایہ ، ہدایہ اولین ، ہدایہ آخرین ، اصول الشاشی، نورالانوار ، توضیح و تلویح، ایساغوجی، مرقاۃ ، شرح تہذیب، قطبی ، ملاحسن ، حمداللہ ، مناظرہ رشیدیہ ، ہدیہ سعیدیہ ، میبذی، مختصر المعانی ، مطول، شرح مائۃ عامل ، ہدایۃ النحو ، کافیہ ، شرح جامی ، مفیدالطالبین، نفحۃ الیمن ، قلیوبی، سبعہ معلقہ ، دیوان متنبی ۔ ان کتابو ں کی تدریس میں مفتی صاحب ؒ کے علاوہ مولانا محمد ضیاء الحق دیوبندی ، مو لانا محمد قاسم دیوبندی اور مولانا محمد سید انظار سہس پوری استادرہے ۔ فراغت کے بعد اسی مدرسہ میں معین مدرس ہوئے اور باضابطہ مدرس رہ کر کئی سال تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ۔

مدرسہ امینیہ میں داخلہ کے بعد تار کشی کا کام چھوٹ گیا تھا ، مختلف اوقات میں وعظ و تبلیغ کے نذرانوں سے گزر بسر ہورہی تھی۔ فراغت کے بعد وعظ کانذرانہ لینا بھی بند کر دیا تھا پھر روزگار کا سلسلہ فراش خانہ کی مسجدمیں تفسیر قرآن و ترجمہ قرآن سے شروع ہوا ، وہاں سے ماہانہ ساٹھ روپے مل جایا کر تے تھے ۔اسی درمیان نظام حیدرآباد سے ۱۲۵؍ روپے ماہانہ منصب بھی عطا ہوا جو کئی برس تک جاری رہا مگر جب آپ نے تحریک خلافت میں علانیہ حصہ لیا تو یہ منصب بھی بند ہوگیا ۔ پہلی مرتبہ ۱۹۲۱ء میں گرفتار ہوکر جیل گئے تو دہلی کے بعض متمول حضرات نے اہل و عیال کے لئے کچھ وظیفہ مقرر کر دیا۔

 بحیثیت مناظر و مبلغ 

تحر یک خلافت کے دور میں جب عدم تعاون کی تحریک زور و شور سے چل رہی تھی تو عین اسی زمانہ میں ہندوستان میں آپسی بٹوارے اور چپقلش کا نیا دور شروع ہوا جس کو شدھی تحریک نے بہت ہی زیادہ اچھالا۔ عیسائیوں سے تو مناظرے ہوہی رہے تھے اب ہندوؤں سے بھی ہونے لگے ۔ عیسائی تو خیر سات سمندر پار سے آئے تھے اور مشتر کہ کلچر میں ان کا عمل دخل کم تھا لیکن ہندو مسلمان جو ساتھ ساتھ ایک ہی بستی میں رہا کر تے تھے ان مناظر وں سے آپسی تفریق ہونا شروع ہوگئی تھی جس سے آزادی کی تحریک میں بھی بڑا خلل پڑا ۔سوامی شردھانند جو دو سال قبل جامع مسجد دہلی میں ہندوستان کی یکجہتی کے لیے تقریر کر تے ہیں وہیں ۱۹۲۲ ء میں شدھی تحریک کے اہم محرک کے طو ر پر نظر آتے ہیں اور اپنی تحریک ملکانوں کے علاقہ سے شروع کر تے ہیں اور ہزارہا ملکانوں کو مرتد کر دیتے ہیں ۔ابھی جمعیۃ کے قیام کے صرف ڈھائی تین برس ہی گزرے ہوں گے کہ اس کے کاندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے ۔ مفتی کفایت اللہ ؒ جمعیۃ اور مدرسہ امینیہ کی جانب سے سیکڑوں وفد مرتدین کے درمیان بھیجتے ہیں۔ پہلا وفد اچھنیرا کے مقام پر خود ہی مفتی کفایت اللہ صاحب لے کر جاتے ہیں ۔ ان وفود کے صدر مولا وحید حسن خاں ٹونکی، مولانا محمد عرفان ناظم جمعیۃ علماء ہندو مدیرالجمعیۃاور کبھی مولانا احمد سعید ہوا کر تے تھے ۔

ایک مرتبہ حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ کے پاس خبر پہنچی کہ فلاں گاؤں پورا کا پورا مرتد ہوگیا ہے۔ انہوں نے مولاناحمد سعید کو حکم دیا کہ فورا ً روانہ ہو جاؤ ۔ مولانا احمد سعید دل کے کمزور تھے ، بہت ہی ہچکچا رہے تھے مگر حضرت کے حکم کی وجہ سے روانہ ہونا پڑا ۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ آریوں نے انہیں یہ کہہ کرمرتد کرالیا کہ ’’ تمہارے باپ دادا سب ہندو تھے ۔ مسلمانوں نے آکر تم کو زبردستی مسلمان بنایا ہے اور تمہاری چوٹیاں کاٹیں۔‘‘ اس پر مولانا کی خوبصورت تقریر ملاحظہ فرمائیے جس سے آپ کو بھی اندازہ ہوجائے گا کہ انہیں سحبان الہند کیوں کہاجاتا تھا:

’’ آج اس گاؤں میں آکر اور ایک بہادر قوم کے سپوتوں سے مل کر میں بے انتہا خوش ہوا ہوں ۔ ملکانہ قوم دنیا کی چند بہادر قوموں میں سے ایک ہے ۔ یہ قوم ہندوستان کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ تمہارے باپ دادا نے ہمیشہ ہندوستان کی حفاظت کی ہے ۔ دشمنوں سے کبھی ہار نہیں مانی ہے ۔ اور بھئی ! مجھے ان لوگوں پر بڑی حیرت ہوتی ہے جو تمہارے باپ دادوں کو تمہارے منھ پر بزدل اور ڈر پوک کہتے ہیں اور تم جو ان سورماؤں کی اولاد ہو سنتے ہواور برا نہیں مانتے ہو۔ لوگ تمہیں آکر بہکاتے ہیں کہ تمہارے باپ دادوں کو مسلمانوں نے مار مار کر زبردستی مسلمان بنایا تھا اور ان کی گردنیں پکڑ پکڑ کر چوٹیاں کاٹ ڈالی تھیں ۔ کیا واقعی تمہارے باپ دادا ایسے ہی کمزور اور ڈرپوک تھے ۔ مجھے یقین نہیں آتا دیکھوبھئی ! یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں ۔دھوکہ دیتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تمہارے باپ دادا سے کوئی آنکھ بھی نہیں ملا سکتا تھا ۔وہ اسلام کو ایک اچھا اورسچا دین سمجھ کر اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے تھے ۔کیا اب تم اپنے سچے دین کو چھوڑ کر تمہارے باپ دادوں کی روحوں کو صدمہ نہیں پہنچارہے ہو ؟‘‘ 

کہتے ہیں تقریر ختم ہونے کے بعد ازسر نو لوگ اسلام میں داخل ہوگئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے جب آپ کے اندر اعلیٰ درجہ کی بلاغت اور شیریں بیانی پائی تو سحبان الہند کا خطاب دیا اور حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ؒ ہمیشہ آپ کو اعلیٰ حضرت کہہ کر خطاب فرمایا کرتے تھے ۔

اس زمانہ میں آریوں میں قدآور مناظر موجو د تھے۔ پنڈت رام چندر جی کا نہ صرف دہلی بلکہ ہندوستان بھر میں چرچا تھا ۔مو لانا نے ان سے بھی مناظرے کیے اور مولانا کی خطابت سب پر غالب رہی ۔مفتی کفایت اللہ بھی زبر دست مناظر تھے۔ اپنے زمانے میں انہوں نے قادیانیوں کے خلاف شاہجہاں پور سے ایک رسالہ ’’ البرہان ‘‘ بھی جاری کیا تھا،لیکن مولانا احمد سعید کو وہ مناظر کے روپ میں پیش کرتے اور خود معاون رہتے تھے ۔مو لانا کو شاید جوانی میں ہی اپنی شیر یں بیانی کی وجہ سے ’’ سحبان الہند ‘‘ کہا جانے لگا تھا ۔ مو لانا راسخ دہلوی کے شاگر دتھے تو زبان و ادب میں کھرے تھے مزید برآں یہ کہ وہ خود دہلی کے روڑے تھے اور کر خنداری زبان پر قدرت کاملہ حاصل تھی اس لیے ان کی تقریر اور محاوراتی زبان کے سامنے مخالف خود بخود پست ہوجاتا تھا۔ انہوں نے دہلی شہر میں کئی مناظرے پنڈت رام چندر جی سے کیے تواجنبیت کی بات ہی نہیں تھی، دونوں کاروباری تھے۔ مولانا تارکشی کا کام کر تے تھے اور پنڈت جی سنار تھے۔ تو ایک مناظرہ میں پنڈت جی کہتے ہیں : ’’مولوی جی یہ دلیل ہے دلیل چاندی یا تانبے کا تار نہیں جس کو آپ کھینچ تان کر بڑھا لیں اور اپنے مطلب کا بنا لیں ۔ یہ دلیل ٹس سے مس نہ ہوگی‘‘ مو لانا کہتے ہیں ’’میری دلیل برہانِ قطعی ہے یہ سونے کی ڈلی نہیں ہے یہ فولاد ہے یہ آپ کی کھٹ کھٹ سے نہیں پچکے گی ‘‘ ۔

ایک مناظرے میں وحی کے بالواسطہ و بلا واسطہ نازل ہونے پر گفتگو ہوتی ہے ۔مولانا مناظر ے میں کھل کر یہ بات کہاکرتے تھے کہ ’’جو کچھ ہے استاد کا فیض ہے ۔ میری تقریر میں زبان میری ہے اور دماغ استاد کا ہے۔‘‘ 

سیاسی و ملی خدمات 

۲۸؍دسمبر ۱۹۱۹ء کو امرتسر میں جمعیۃ کا تاسیسی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی نے کی ، اسی دن دو پہر کو دوسرا اجلاس مفتی کفایت اللہ کی صدارت میں منعقد ہوتا ہے ۔ اسی روز اول سے مولانا احمد سعید صاحب جمعیۃ کے ناظم عمومی مقرر کیے گئے اور ۱۹۴۰ء تک مسلسل وہ اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد وہ کل ہند جمعیۃ کے نائب صدر اور حلقہ دہلی کے صدر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد ۱۹۵۷ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ کے صدر بنائے گئے اور وفات تک اس پر فائز رہے ۔مدرسہ امینیہ میں جو مفتی صاحب کا کمرہ خاص تھا اسی میں شروع میں جمعیۃ کے تمام امور انجام پاتے رہے۔ ہندوستان بھر کے تمام علماء کی فہر ست کرنا اور ان کو مطلع کر نا ایک عظیم کام تھا جس کو ان دونوں اکابر نے بڑی عرق ریزی سے انجام دیا ۔اس پر آشوب دور میں جب مسالک کے شعلے بہت ہی تند وتیز تھے مسجدیں مسالک کے تحت تقسیم ہوچکی تھیں ایسے میں تمام علماء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دینا خداوند ِ قدوس وقضاو قدر نے مو لانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امر تسری، مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید کے لیے مختص کر رکھی تھی۔ اس کے بعد شہر شہر قریہ قریہ گھوم گھوم کر جمعیۃ کو روشناس کر انا، اس کی سیاسی ضرورت و اہمیت کو عوام کے ذہنوں میں جاگزیں کرانا، اس کو چلانے کے لیے مالی اعانت کی اپیل کرنا، لیڈروں سے سیاسی معاملات میں باتیں کرنا، دفتر کے پائی پائی کا حساب رکھنا، ساتھ ہی ہند وبیرون ِ ہند علماء سے خط و کتابت کر نا وغیرہ۔

تحریک خلافت کے ذیل میں جمعیۃ کا قیام عمل میں آیا جس سے ملک کے علماء جڑتے چلے گئے جس کے بعد ملک کی سیاست میں بہت ہی تیزی سے بھونچال آیا، رولٹ ایکٹ کی ناراضگی کا جواب کئی طریقوں سے دیا جا نے لگا، عدم تعاون تحریک کے ساتھ گاندھی جی میدان ِ آزادی میں آتے ہیںجس پر سب سے زیادہ مسلمان عمل پیرا ہوتے ہیں اور جیل بھرو تحریک میں بھی علماء پیش پیش رہتے ہیں۔ مولا نا احمد سعید ان تحریکا ت کے سلسلے میں پہلی مر تبہ اکتوبر ۱۹۲۱ء میں گر فتار ہوکر میاں والی جیل پہنچتے ہیں جہاں ایک سال کی سزا کاٹتے ہیں ۔ دوسری با ر ۱۹۳۰ء میں دہلی اور گجرات کی جیل میں دوسال کی سزا کاٹتے ہیں ۔تیسری بار ۱۹۳۲ء میں ایک سال کی سزا دہلی اور ملتان میں کاٹتے ہیں اور یہیں پر فتح الباری کے آخری حصہ کادرس اپنے استاد مفتی کفایت اللہ سے لی۔چوتھی بار ۱۹۴۰ء میں کچھ عرصہ کے لیے اعظم گڑھ میں قید کیے گئے۔پانچویں بار ۱۹۴۲ء کی تحریک آزادی میں تین سال کے لیے دلی، لاہور ، فیروز پور اور ملتان جیل میں نظر بند رہے ۔ اس موقع پر ان کے دولڑکے محمدسعید اور مظہر سعیدبھی جیلوں میں ساتھ ساتھ رہے ۔اس گرفتاری میں مولانا کے ہمراہ ڈاکٹر مختار احمد انصاری ، عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، بیرسٹر آصف علی، لالہ دیش بندھو گپتا ، لالہ جگل کشور کھنہ ، مولانا داؤد غزنوی، لالہ شنکر لال ، پنڈت نیکی رام شرما ، منشی عبدالقدیر ، سید جلال الدین اور حافظ فیاض احمد جیسے جانباز مجاہدین آزادی تھے ۔

۴۷ء کا بلوہ اور مولانا کی خدمات

تقسیم ہند کے موقع پر دہلی اور پنجاب کے مسلمانوں پر جو کچھ بھی بیتی اس مو قع پر مولانا احمد سعید دہلوی اور مو لانا حفظ الرحمان سیوہاروی نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ ہندوستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش ایک سنہری باب ہیں۔اس تعلق سے کئی کارنامے ’’ مختصر تذکرہ خدمات جمعیۃ ‘‘ میں مذکور ہیں ۔ملاواحدی جو اردو ادب کے ایک اہم نثر نگار گزرے ہیں وہ مولانا احمد سعید کے دوست بھی تھے وہ لکھتے ہیں: 

’’ ستمبر ۱۹۴۷ ء کی ایک بھیانک رات تھی ۔ کر فیو کے باوجود کسی نے کنڈی کھٹکھٹائی اور پکارا واحدی صاحب ! میں مکان کی دوسری چھت میںتھا جہاں مردانہ تھا ۔ میرے بڑے لڑکے مجتبیٰ واحدی نیچے اترے اور انھوں نے اطلاع دی کہ لالہ دیس راج ہیں ۔ دیس راج میونسپل کمیٹی کے ساتھی تھے ۔ علاقہ کا مسلمان ممبر میں تھا اور ہندو ممبر وہ ۔ میں نے مجتبیٰ سے کہا بلالو۔ دیس راج صاحب بولے آپ ہی آئیے ۔ خیر ! میں گیا تو متعدد موٹریں کھڑی تھیں ۔لالہ دیس راج نے کہا کہ یہ مسز کر پلانی ہیں صدر انڈین نیشنل کانگریس کی دھرم پتنی۔ یہ مسٹر شانتی سوروپ آہوجہ ہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ۔ مسزکر پلانی نے سوال کیا ’’ اس محلے میں تو امن ہے ؟‘‘ میں نے کہا ’’ ہاں اس محلے میں تو ابھی امن ہے مگر امن ٹوٹنے کا ہر آن امکان ہے ‘‘ ۔ مسٹر آہوجہ بولے ’’ مہاتما گاندھی کو اطلاع ملی کہ یہاں خطرہ محسوس کیا جارہا ہے ۔ آپ صاف صاف بتائیے کہ خطرہ کا ’’ وہم ‘‘ کیوں ہے ؟ مسز کر پلانی مہاتماجی سے کیا کہیں ؟ میں نے کہا ’’ برابر کے محلے زد میں آچکے ہیں اس وجہ سے اطمینان نہیں ہے ۔ مولانا احمد سعید صاحب کا گھر قریب ہے ان سے اور پوچھ لیجیے ۔ ممکن ہے کہ وہ کچھ اور زیادہ بتاسکیں ‘‘ چنانچہ مولانا سے پوچھا گیا ۔ انہوں نے بھی وہی فرمایا جو میں نے کہا تھا ۔ صرف اتنا اضافہ کر دیا کہ ’’ مسٹر آصف علی اور مفتی کفایت اللہ کا محلہ آپ کے انتظامات کا منتظر ہے ‘‘ ۔ آہوجہ صاحب نے کہا ’’آپ اور آپ کے ساتھی ڈاکٹر انصاری کی کوٹھی میں چلے جائیں ۔ وہ خالی ہے ۔ وہاں مطلب خطرہ نہیں رہے گا ۔ کوٹھی کی حفاظت محلے کی حفاظت کی نسبت آسان ہے ‘‘ ۔ مولانا نے فرمایا ’’ محض اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان پچانی کون سی اچھی بات ہے ۔ آپ بچا سکتے ہیں تو محلے کے نہیں شہر بھر کے مسلمانوں کو بچائیں آج کل ساتھی اورغیر ساتھی کا فرق محال ہے ۔‘‘ 

ایک دوسری جگہ ملا واحدی لکھتے ہیں: 

’’ ۱۹۴۷ء کے ہنگامے میں مولانا احمد سعید ، مولانا حفظ الرحمن ، حافظ عزیر حسن بقائی اور جعفری صاحب کا وفد روزانہ مولانا ابوالکلام آزاد ، پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی کے پاس جایا کر تا تھا جو تینوں کو بتایاکرتا تھا کہ مسلمانوں پر کل کیا گزری ۔ ایک دن گاندھی جی مسلمانوں کے پاس تشریف لے آئے ۔ کونے کونے کے مسلمان سمٹ کر مولانا احمد سعید کے علاقہ میں جمع ہوچکے تھے ۔ دلی اور محلے مسلمانوں سے تقریباً خالی تھے ۔ مہاتما جی کا جلسہ مسٹر آصف علی والے مکان کوچہ چیلان میں منعقد کیا ۔ مولانا احمد سعید نے تقریر شروع فرمائی۔ دوچار لفظ بولے ہوںگے کہ لفظوں کی جگہ آنسو بہنے لگے اور مولانا کی جگہ مولانا حفظ الرحمن نے تقریر کی تکمیل فرمائی ۔‘‘ 

الغرض دلی کے اجڑنے اور مسلمانوں پر جاں سوز مظالم کی داستانیں ہر جانب سے مولانا کے دل کو چیر رہی تھیں ۔ مولانا جان کوخطرے میں رکھ کر کوچہ چیلان سے نکلتے تھے اور سچیوالیہ تک جاتے اور سردار پٹیل کی ناراضگی کو مول لیتے ہوئے نیتاؤں سے مل کر مسلمانوں کی دردناک صورتحال کو بتاتے ۔ مولانا سیاست دانوں کی تمام باتوں ، مشوروں اور آفروں کو درکنار کرتے ہوئے پرانی دہلی میں ہی مسلمانوں کے ساتھ مقیم رہے اور کسی صورت بھی ذمہ داری سے مفر نہیں ہوئے ۔ان سب کے باوجود آخری عمر میں انہیں سیاسی شکست کا سامنا کر نا پڑا ۔۱۵ دسمبر ۱۹۵۸ کومولانا اور ڈاکٹر مرزا احمد علی کے درمیان راجیہ سبھا کے لیے مقابلہ ہوا جس میں آپ صرف دو ووٹ سے ہار گئے ۔ اس کے بعد وہ کہا کر تے تھے کہ چودھری برہم پرکاش نے الیکشن میں مجھے زبردستی پھنسا دیا جس کی وجہ سے یہ ذلت اٹھانی پڑی ۔

تقویٰ وامانت داری 

مولانا کی زندگی کی اٹھان ہی وعظ گوئی سے ہوئی تو آپ جان سکتے ہیں کہ وہ تقویٰ کے معاملے میں کس قدر محتاط رہے ہوں گے ۔ تو کل علی اللہ ان کی زندگی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اسی لیے انہوںنے کاروبار پر قناعت کی پھر تعلیم میں لگے تو وعظ و ذکر کی محفلوں میں ملنے والی رقم سے ہی گزارا کیا پھر جب فراشخانہ کی مسجد میں تر جمہ قرآن پاک و تفسیر سنانے لگے توزندگی چل نکلی۔ خلافت تحریک میں شامل ہونے کی وجہ سے جب نظام حیدرآباد نے ان کا وظیفہ بند کیا توذرا بھی نہیں گھبرائے اور مدرسہ امینیہ کے مدرس کے طور پر ہی خود کو کاربند رکھا ۔ جمعیۃ کے ناظم عمومی بننے کے بعد بھی مو لانا کا معمول تھا کہ وہ فراش خانہ کی مسجد سے قرآن پاک کاترجمہ کر کے جمعیۃ کے دفتر میں آتے تو اپنی جیب سے نکال کرپیسے دیتے اور آواز دے کر کہتے ’’ میاں عبدالحق چائے تو بنالو‘‘ ۔وہ دوپہر کو آفس میں ہی رہتے اور کھانا گھر سے منگواکر تناو ل فرماتے ۔

آزادیٔ وطن کے بعد مولانا چاہتے تو بہت سی سرکاری مراعات حاصل کر سکتے تھے ۔ مولانا آزاد اور پنڈت نہرو ان کے قریبی دوست تھے ۔ مگر ان کی طبیعت میں جو توکل تھا وہ اتنااعلیٰ تھا کہ کبھی بھی گوارہ نہیں کیا کہ جب مسلمانوں میںقلمدان تقسیم ہورہے تھے مولانا بھی کچھ کہتے ۔یہی نہیں بلکہ ایک بار پنڈت نہرو نے اپنے سکریٹری جان متھائی کو مولانا کے پاس بھیجا تھا کہ تین سو روپے ماہوار وظیفے کے کاغذات پر دستخط کر دیں لیکن مولانا نے انکار کر دیا ۔ مو لانا و دیگر اکابر کا موقف تھا کہ اپنے وطن عزیز کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنا ان کا مذہبی فریضہ تھا اور مذہبی فریضہ کی ادائیگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ۱۹۴۰ ء میں جونپور میں جمعیۃ کاسالانہ اجلاس عام ہوا ۔ اس کی مجلس استقبالیہ کے سربراہ مولانا علی اعلیٰ تھے (جو جماعت اہل حدیث کے رکن بھی تھے) یہ مو لانا کے دوستوں میں سے تھے ۔ اجلا س ختم ہونے کے بعد مصارف کے بل پورے نہیں ادا ہو پارہے تھے ۔ اس طرف مولا نا احمد سعید کی توجہ مبذول کرائی ۔اس وقت جمعیۃ کے فنڈ میں بہت ہی کمی تھی تو مولانا احمد سعید نے اپنی اہلیہ کے زیورات میں سے ایک دو چیزیں گروی رکھ کر بل کی ادائیگی کرائی تھی۔

 مولانا اور دہلوی تہذیب 

 مولانا احمد سعید دہلوی کو تہذیب دہلی کی آخر ی نشان کہا جائے تو شاید کم مضائقہ ہوگا ۔ انہوں نے جس وقت آنکھیں کھولیں تو انگریزوں کی ٹاپوں سے کان ٹکرائے اور ہلکی ونرم آواز کے بجائے سڑکوں پر موٹروں کی دوڑتی ہوئی آواز ٹکرائی لیکن حویلیاں اب بھی اپنی چہار دیواری میں اس تہذیب کو ایک طر ح سے سنجوئے ہوئے تھیں جسے ہم دہلوی تہذیب کہتے ہیں اور تقسیم کے بعد مولانا اس کی آخری نشانی کے طور پر یاد کیے گئے ۔ زبان و ادب کا معاملہ یہ تھا کہ دس سال کی عمر سے ہی بچوں کے مشاعرہ میں شرکت رہی ، زبان ایسی بامحاورہ پائی تھی کہ واعظ بے مثال کہلائے ، زبان میں مزاح کا پہلو غالب تھا کہ مناظرہ میں سامعین کو اپنی جانب کھنچ لیتے ، شاعری میں تو راسخ کے شاگرد تھے ہی البتہ نثر میں ملاواحدی کے بے تکلف دوست۔ الغرض دہلی زبان کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ یہاں سارے شہر کی زبان ایک نہیں رہی ہے بلکہ یہاں عورتوں کی ، مزدوروں کی ، کبوتر بازوں کی ، بازار کی اور کر خنداروں کی زبانیں الگ الگ رہی ہیں تو مولانا کی جو ہنسی ٹھٹھول کی محفلیں ہوتی تھیں وہاں ان سب کا بھر پور مظاہرہ ہوتا تھا ۔ ان کے مردانہ مکان میں ہر روز محفل سجتی تھی جو نصف شب تک جاری رہتی تھی ۔ اس میں ہر طبقہ و خیال کے لوگ موجود رہتے ۔ دانشوروں سے لے کر کر خنداروں تک آپ کی محفل میں ہوتے ۔آپ کے دوست و احباب میں غوری پہلوان تھا او ر پنڈت نہرو بھی ، گنڈے دار ،مزدور یونین کے صدر ، عطرفروش ، مرغے والے آپ کے احباب میںسے تھے ۔ آپ کی محفلوں کا ایک خوشہ چین ابھی بھی باحیات ہے او ر وہ پنڈت آنند کمار زتشی گلزار دہلوی ہیں ۔

تقسیم کے فساد کے بعددہلی کی تاریخ سے بہت ساری چیزیں مٹ رہی تھیں جن کو آپ رسومات بھی کہہ سکتے ہیں اور روایات بھی جیسے لال قلعہ کا مشاعرہ جو ماضی قریب میں چار پانچ سال پہلے تک لال قلعہ کے اندر ہوا کرتا تھا اب باہر ہوتا ہے ۔ اس مشاعر ہ کا چرا غ سلطنت مغلیہ کے ساتھ بجھ چکا تھا ۔ ۱۹۵۲ ء میں اس ادبی روایت کو دوبارہ قائم کر نے کا سہرا مولانا احمد سعید دہلوی کے ہی سر جاتا ہے ۔وہ اس پہلے مشاعرہ کے صدر بھی تھے۔ اس کے مہمان خصوصی پنڈت نہرو تھے اور شاعروں میں آج کے نمائندہ شاعر گلزار دہلوی بھی ۔مولانا صدر تھے اور مشاعر ہ کا صدر شاعرہی ہوتا ہے ۔ جوش پاکستان نہیں گئے تھے وہ بھی شریک مشاعرہ تھے ۔ اس زمانہ میں جو ش نے اپنی عادت کے موافق علماء اور مذہبی معاملات کے خلاف اشعار پڑھے تو مشاعر ہ میں ہنگامہ ہوگیا ۔ ہنگامہ کے پیش نظر مولانااٹھ کر چلے گئے اور اپنی غزل بسمل شاہجہاں پوری سے پڑھوائی ۔وہ غزل یہ ہے:

لوگو جب میت مری لے کر چلے 

میرے ارماں نوحہ گر بن کر چلے 

زندگی سے اپنی گھبرا کر چلے 

گھر سے آئے تھے پلٹ کر گھر چلے 

ایسے آنے سے نہ آنا خوب تھا

شام آئے شب سے پہلے گھر چلے 

تیرے صدقے اے شہ لطف و کر م

ہاتھ خالی آئے دامن بھر چلے 

ساقیاظاہر ہو یوں شانِ کر م 

میکدے سے جو چلے پی کر چلے 

مقصد اپنا ہوگیا پورا اسیرؔ

مرنے آئے تھے کسی پر مر چلے 

 اسی طریقے سے فسادات کے بعد دہلی میں تعزیہ داری کی رسم ختم ہوچکی تھی ۔ ۵۲۔۱۹۵۱میں دوبارہ نکلوانے میں انہوں نے ذاتی طور پر دلچسپی لی۔ اگر چہ مولانا رسوم پرستی کے خلاف تھے اور منبر پر ہوتے ان سب پر خوب تقریریں کر تے تھے مگر تنہائی میں جب کسی باشعور فرد کے ساتھ ہوتے تو ان کا انداز جدا ہوتا تھا وہ رسومات کو عقائد پر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتے تھے ۔بزرگوں کے مزارات اور صوفیا کے بر گزیدہ طبقے سے بڑی عقید ت تھی اور ان کے مزاج میں رنگارنگی غالبا  اسی وجہ سے تھی ۔جب کبھی اجمیر اپنے داماد اور بڑی لڑکی سے ملنے جاتے تو گھر سے درگاہ تک ننگے پاؤ ں حاضری کو جایا کر تے ۔ سلطان جی کی ستر ہویں میں رات کے آخری پہر میں اپنے بے تکلف ساتھیوں کے ساتھ چکر لگانا اپنے لیے ضروری جانتے ۔ مولانا اگر چہ خانقاہی نہیں تھے لیکن بزرگوں سے عقید ت دہلوی تہذیب کا ایک حصہ تھا ، تو جب بھی وہ اداس ہوتے اور انہیں رونے کا جی چاہتا تو کسی گانے والے (قوال )کو ساتھ لے کر خواجہ بختیار کاکی کے مزار پر حاضری دیتے۔ (یہاں سے ان کو گہری انسیت تھی ، ان کے استاد مفتی کفایت اللہ کو بھی تھی اسی لیے دونوں کی آخری آرام گاہ یہیں پر ہے ) 

درگاہ خواجہ نظام الدین سے انسیت کا ذکر کہیں نہیں ملتا البتہ خواجہ حسن نظامی اور ان کے گھرانے سے قریبی تعلقات تھے ۔ خواجہ صاحب کانگریسی نہیں تھے بلکہ ایک حدتک کانگریسیوں سے شدت کی پرخاش تھی پھر بھی جب کوچہ چیلان جاتے تو ملا واحدی ، آصف علی ، جعفری صاحب سے ملتے ہوئے مولانا احمد سعید سے ضرور ملتے اور کھانے و کھلانے کا دور چلتا ۔

تصانیف 

مولانا احمد سعید دہلوی نے اس عہد میں اپنی تقر یر وں سے الگ شناخت بنائی جب مو لانا ابوالکلام آزاد اور مو لانا محمد علی جوہر کی تقریروں سے ہند وستان گونج رہا تھا ایسے میں انہوں نے خود کو سحبان الہند ثابت کروایا ۔ان کی خطابت زبان و بیان اور شاعری کی وجہ سے پر جو ش ہوا کر تی تھی ۔ وعظ و نصیحت پر مغز اور اثر پذیر ہوتی ۔ آواز میں سوز تھا اس لیے حاضرین ہمہ تن گوش ہوکر ان کی باتیں سنتے اور اثر قبول کرتے ۔اسی طرح ان کی تحریریں بھی سلیس اورشگفتہ ہوتیں۔ وہ سیاست میں بھی سر گرم عمل تھے ، جمعیۃ کا بھی کام دیکھتے اور تدریس کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ان سب کے باوجود انہوں نے تقریباً بیس مذہبی و اصلاحی کتابیں لکھیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

(۱ ) جنت کی کنجی (۲) دوزخ کا کھٹکا  (۳) مشکل کشا (۴) خدا کی باتیں (۵) رسول کی باتیں (۶) دین کی باتیں (۷) پر دہ کی باتیں (۸) شوکت آرا بیگم  (۹) ازبلا (۱۰) جنت کی ضمانت ( ۱۱) ماہ رمضان (۱۲) صلوٰۃ و سلام (۱۳) عرش الٰہی کا سایہ (۱۴) تقاریر احمد سعید (۱۵) پہلی تقریر سیر ت (۱۶ ) دوسری تقریر سیرت (۱۷) رسول اللہ کے تیس معجزات (۱۸) مکاتیب احمد سعید (۱۹ ) ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں (۲۰) تفسیر کشف الرحمن ۔

آخری الذکر کارنامہ مولانا کا سب سے اہم اور وقیع علمی خدمت ہے ۔ اس کام کو انہوں نے اٹھارہ برس کی مسلسل محنت اور جانفشانی کے بعدمکمل کیا ۔ اس کی ابتدا ء انہوں نے ۱۹۳۸ء میں کی تھی جو ۱۹۵۶ ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچی ۔وفات کے بعد اس تفسیر کو ان کے لڑکے حافظ سعید نے ۱۹۶۲ء میں کشف الرحمان کے عنوان سے ندوۃ المصنفین سے شائع کرایا ۔اس تفسیر کو اس وقت کے کبار علماء نے دل کھول کر سراہا ۔ یہ تفسیر پاکستان سے بھی شائع ہوئی ۔انیس ہاشمی دہلوی کی اس تفسیر کی اشاعت کے متعلق کچھ الگ رائے ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:

 ’’دسمبر ۱۹۶۹ء میں جب کشف الرحمن کا نسخہ چھپ کر تیا ر ہوا تو مولانا کے بڑے بیٹے مولانا محمد سعید محروم اپنے والد کو یہ نسخہ دکھانے لائے تو مولانا نے اس نسخہ کو غور سے دیکھا ۔ یہ عصر کا وقت تھا اور مولانا نمازعصر سے فارغ ہوکر بیٹھے ہوئے تھے اسی روز مغرب کے بعد مولانا خالق حقیقی سے جاملے ۔ گویا مولانا کو انتظار تھا کہ کشف الرحمان کہ کشف الرحمان کا تیار شدہ نسخہ اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں اور وہ خدانے انہیں دکھا دیا ۔‘‘

 (ان کے علاوہ یہ بات مجھے کنہی اور صاحب کی تحریروں میں نہیں ملی اکثر نے وفات کے بعد کا ذکر کیا ہے) 

طباعت سے متعلق وہ ایک بات اور بیان کر تے ہیں کہ مولانا نے جب تفسیر کا کام مکمل کر لیا تو ان کے پاس پیسے نہیں تھے چنانچہ انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کو جنوبی افریقہ خط لکھا ۔ جن میں سے کسی صاحب نے مولانا کو قرض کے طور پر پچیس ہزار روپے دیے اور تفسیر کی طباعت کا کام مکمل ہوسکا ۔ انیس ہاشمی دہلوی کا یہ دعویٰ ممکن ہے کہ درست ہو لیکن گزشتہ صفحات میں تقویٰ و امانت داری کے ذیلی عنوان کے تحت میں جو باتیں لکھی گئی ہیں ان میں مجھے شک ہوتا ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ تفسیر وفات کے بعد ندوۃ المصنفین سے شائع ہوئی ہے پھر ایسی کیا ضرورت تھی (واللہ اعلم )

سفر آخرت 

 مولانا اپنی آخری زندگی میں کئی موذی امراض کے شکار ہوگئے تھے جیسے بواسیر، مسوں میں کھجلی ،گیس ، مستقل نزلہ ، سر دی لگنا اور راتوںکو نیند نہ آناوغیرہ ۔ ان حالات میں خیر یت پوچھنے والوںکو خود ہی کہا کرتے تھے کہ آخر زندگی کب تک ساتھ دے گی ، صبح ہوتی ہے تو شام کا بھروسہ نہیں اور شام ہوتی ہے تو صبح کا بھر وسہ نہیں ۔مذکورہ امراض کی معیت میں ۴؍ دسمبر ۱۹۵۹ ء کو مو لانا کی زندگی کا آخری دن تھا جب آپ نے اپنے معمولات کے مطابق دن بھر کے تمام کام انجام دیے اور مغرب کی نماز کے بعد بیت الخلا گئے ، واپس آکر بیٹھے اور ہاتھ میں اخبار لیے پھر ایک لڑکے کو جو اتفاق سے تنہا تھا بلائے اور کہے ’’ جابے محمد سعید کو بلا کر لا میری طبیعت خراب ہورہی ہے ‘‘ یہ سنتے لڑکا مولانا کے لڑکے کو بلانے گیا اور مو لانا بیٹھے ہی بیٹھے پلنگ کی عرض میں لیٹ گئے اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

موت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی ، آخر ی دیدار کے لیے ہجوم بڑھتا ہی چلا گیا ۔ پنڈت نہرو بھی اپنے بزرگ ساتھی کے دیدار کے لیے آئے اور دیر تک سرہانے کھڑے رہے ۔ دوسرے روز جنازہ مہرولی لے جا یا گیا جہاں مولانا نے اپنی زندگی میں ہی مفتی کفایت اللہ کے قریب اپنی آرام گاہ تیار کرلی تھی ۔ اگر مولا نا کی یہ جگہ مخصوص نہیں ہوتی تو وہ جامع مسجد کے سامنے مولانا آزاد کے قریب ہی دفن کیے جاتے ۔خیر مولا نا کو مہرولی میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی درگاہ کے باہر ظفر کے محل کے قریب حضرت مفتی کفایت اللہ ؒ کے دائیں جانب دفنا یا گیا ۔

جسم احمد سعید فانی تھا 

نام احمد سعید باقی ہے 


تحریک خلافت کے بانی مولانا عبد الباری فرنگی محلی

  

تحریک خلافت کے بانی مولانا عبد الباری فرنگی محلی

بقلم  :  امیر حمزہ

ریسرچ اسکالر شعبہ اردو ، دہلی یونی ورسٹی

اٹھارہویں صدی میں یوروپی اقوام کی بڑھتی نقل و حر کت نے پوری دنیا میں ایک سیاسی اور سماجی تبدیلی کی آہٹ دے دی تھی ۔ معرکۂ شر و باطل عالمی سطح پر شروع ہوچکا تھا۔ مسلم حکومتوں کے شعور ی زوال کے بعد انگر یزوں کی برسوں کی محنت تھی کہ مسلمانوں کی مر کزیت کو ختم کیا جائے، ان کی مضبوط حکومتوں کو پارہ پارہ کیا جائے، اس کے لیے چھوٹی چھوٹی طاقتوں کو مر کز کے مقابل میں لایا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اٹھارہویں صدی دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مصیبت کا پہاڑ بن کر سامنے آئی ۔ انگر یزعرصہ درا ز سے دو امور کے لیے بہت ہی زیادہ محنت کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کی مر کزیت کو ختم کیا جائے جس کے نتیجہ میں عظیم مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہوا اور دوسرا یہ کہ جزیرۃ العرب کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف کھڑا کیا جائے جس سے ایک عظیم سلطنت جو یوروپ ، ایشیا ، افریقہ اور بحر ابیض کے خطوں پر مشتمل تھی اس کا شیراز ہ بھی بیسویں صدی کے آتے آتے بکھر جائے ۔اس مقصد کو حاصل کر نے کے لیے ایک عرصہ سے انگریز کیمیاوی طریقوں سے اپنے چمڑے گندمی رنگ میں رنگ کر عرب کے مدرسوں اور مکانوں میں رہتے تھے تاکہ عربوں کی کمزوریوں کو معلوم کر سکیں اور تر کوں کے خلاف مکمل عرب کو اکسا سکیں اور ہوا بھی ایسا ہی۔ دنیا کے مسلمانوں کو سلطنت کے خاتمے کا افسوس کم بلکہ مسلمانوں کی مرکزیت کے خاتمے کا افسوس زیادہ ہوا ۔انگر یز جو عرب و عجم کے دیگر ممالک پر قابض تھے انہوں نے ملکی غلامی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ذہنی بیماری میں مبتلا کرنے کا کام تر کی کا شیرازہ بکھیر کر کیا ۔ جس سے تمام کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ مقامات مقدسہ کا کیا ہوگا ۔ اس چیز کو مولانا عبد الباری فرنگی محلی پہلے ہی بھانپ چکے تھے اور تحفظ خلافت کی تحریک اپنے تئیں شروع کر چکے تھے ۔

خلافت کمیٹی کے وجود میں آنے سے پہلے سے ہی ہند کے مسلمان تر کی کو لے کر بہت ہی فکر مند تھے ۔اپنے طور پر چندہ جمع کر کے تر کی کی جس سطح پر بھی امداد ممکن تھی کر رہے تھے ۔جنگ بلقان کے بعد بے چینی اور بڑھ گئی تھی اس وقت شیخ الہند کے کر دار کو سنہرے حروف میں لکھا جائے گا کیوں کہ حضرت چند طلبہ کے ساتھ تعلیم کو وقتی طور پر تر ک کر کے نکل گئے تھے ۔اس وقت لاکھوں کی امداد تر کی کو دی گئی جس کا حساب اخبار ’پیسہ ‘ لاہور میں چھپتا تھا ۔یہ سلسلہ چلتا رہا ادھر دوسری جانب مولانا قیام الدین فرنگی محلی نے انجمن خدام کعبہ قائم کرکے غور و فکر کے کئی دریچوں کو وا کر دیا تھا۔مذہبی وسیاسی طور پر مسلمانوں کی عالمی صورت حال پر گفتگو شروع ہوگئی تھی۔ ان تمام پہلو ؤںپر مذہبی پہلو سب سے زیادہ غالب تھا۔ اول بحث یہ تھی کہ اسلام میں مقامات مقدسہ کی کیااہمیت ہے؟ پھر بہت زور و شور سے یہ بات ہندوستان کی فضا میں گونجنے لگی کہ مسلمانوں کے لیے خلیفہ ہونا کتنا ضرور ی ہے ۔اسی آخر الذکر شرعی مسئلہ کو تحر یک خلافت کی اساس بنایا گیا جس کو ہندو ومسلمانوں نے ایک ہی اسٹیج سے بہت ہی زورو شور سے بلند کیا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم سے انگر یز کے قدم اکھڑنے لگے ۔

خلافت کی تحریک جب شروع ہوئی اس وقت مسلمانوں میں دینی ، مذہبی اور سیاسی شعور رکھنے والے چیدہ چیدہ علما موجود تھے ۔جیسے شیخ الہند محمود الحسن دیوبندی، شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ، امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد ، مفتی کفایت اللہ دہلوی ، مولا نا ابو الوفاء ثناء اللہ امر تسری ، مولانا سجاد بہاری، مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی ، مولانا سلیمان ندوی، مولانا عنایت اللہ فرنگی محلی ، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی، مولانا عبدالماجد بدایونی ، مو لانا سید محمد فاخر الہٰ آبادی ، مولانا احمد سعید ،مولانا داؤد غنوی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی، مشیر حسین قدوائی، ظفر الملک علوی ، حکیم اجمل خاں ، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا شوکت علی او رمولانا ظفر علی خاں وغیرہ تھے جن میں سے کچھ کا ذکر اب بھی گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے اورکچھ صرف تاریخ کی کتابوں اور وقت کے اخبارات تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ۔اس مضمون میں ہم تاریخ ِ آزادی ہند کا اہم موڑ تحریک خلافت اور اس کے اہم رہنما مولا نا قیام الدین عبدالباری فرنگی محلی پر گفتگو کر یں گے ۔

ہندو ستان غلامی کی زنجیر میں جکڑچکا تھا، انسانی اقدار بدل رہے تھے ،نئی تہذیب داخل ہور ہی تھی قدیم مشرقی تہذیب کی تشہیر انگریز غیر مہذب کے طور پر کر رہے تھے ۔تعلیم کا معیار بدل چکا تھا ،تعلیمی مراکز کے روپ بدل رہے تھے، علوم کا تعلق اب علم و معرفت سے ہٹ کر فن و حرفت کی جانب مائل ہوچکا تھا، جو خاندان صدیوں سے علوم پر مہارت رکھ رہا تھا وہ اب زوال پذیر ہور ہا تھا کیونکہ وقت ایسا آن پڑا تھا کہ اب علماء کتابی دنیا سے نکل کر ملی و سیاسی دنیا میں قدم رکھ چکے تھے ۔ ایسے وقت میں ہندوستان کی پیشانی پر فرنگی محل کا خاندان اپنی علمی صلاحیت کی وجہ سے آفتاب و ماہتاب کی مانند چمک رہا تھا جو مسلمانان ہندکی مذہبی و تہذیبی اقدار کا پیشوااور رشدو ہدایت کا مرکز تھا ، جہاں سے ملا نظام الدین اور بحر العلوم مولانا عبدالعلی جیسے متبحر عالم پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی زندگی کے صر ف بتیس بر س بسر کیے اور ہزاروں شاگر چھوڑگئے ، درسی و غیر درسی دسیوں کتابوں میں تاقیامت اپنا علمی حاشیہ رقم کر گئے ۔اسی فرنگی محل میں ایک ایسا چراغ رو شن ہوا جس نے آزادی ہند کی تاریخ میں مختلف تحریکات کو جنم دیا جن سے آگے چل کر ہند کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ، ساتھ ہی علم کاسمندر ، اخلاق ِ عالیہ اور فاضلہ سے مزین ، فکرو تدبر و بصیر ت سے معمور وہ چرا غ مولانا عبدالباری فرنگی محلی تھے۔ ہندوستانی سیاست اور آزادی کی تحریک میں ان کی قدرو قیمت کو جاننے کے لیے بہت سے واقعات آپ کی نظر سے گزریں گے لیکن انگر یزوں کے پاس جب خلافت تحریک کی نمائندگی کے لیے  مولانا سید سلیمان ندوی جاتے ہیں تو وہاں وہ کہتے ہیں کہ ’’ میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں ۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی صاحب نے جو لکھنؤکے فرنگی محل کے مشہور خاندان سے ہیں مجھ کو خاص طور پر اپنی نمائندگی کے لیے بھیجا ہے تا کہ میں بادشاہ سلامت کی حکومت پر واضح کر دوں کہ ہم لوگوں کے لیے یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ خالص ایک مذہبی معاملہ ہے ‘‘ ۔ اس اقتباس میں اس وقت انہوں نے اپنے اس قول سے یہ ثابت کرنا چاہا کہ اس خالص مذہبی مسئلہ کے لیے مذہبی معاملات میں کمال رکھنے والے گھرانہ فرنگی محل کے ایک فرد کی نمائندگی کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ ان کی باریک بنی اورد ور اندیشی سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اس وقت ان کی حیثیت صدر العلماء کی تھی جو کئی مقامات پر بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔

فر نگی محل اس زمانہ میںعلمی مرکز سے زیادہ اسلامی تحریکوں کا مرکز تھا ۔انیسویں صدی میں دنیا میں ملکوں کے نقشے جس طرح تبدیل ہور ہے تھے اور اتحادو اتفاق کا شیرازہ اتحادی وغیر اتحادی فوجیوں کے ذریعہ بکھر رہا تھا اس کے جو نتائج سامنے آئے اس کو مولانا عبدالباری فرنگی محلی پہلے ہی بھانپ چکے تھے جس سے بر سر پیکار ہونے کے لیے وہ عظیم منصوبہ بندی کے ساتھ ’’ انجمن خدام کعبہ ‘‘ کے بینر تلے علماء کو جمع کر تے ہیں ۔اس تحریک کا قیام دسمبر ۱۹۱۲ ء میں عمل میں آیا جس کے خادم الخدام مولانا منتخب ہوئے اور مولا ناشوکت علی، مسٹر مشیر حسین قدوائی معتمد منتخب ہوئے ساتھ ہی کئی علماء و زعماء ابتدائی ممبر بنے ۔اس تحریک کی ہندو ستان کی تاریخ میں اہمیت بایں وجہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پھرسے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی طاقت ملی اور کئی جلسے اور میٹنگیں منعقد ہونے لگیں جس سے بعد میں خلافت کمیٹی کے قیام میں آسانیاں ہوئیں بلکہ اگر یوں کہاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ اس تحر یک کو خلافت تحریک کی صورت میں وسعت حاصل ہوئی ۔

پہلی عالمی جنگ عظیم کے درمیان ہندوستان و دنیا میں بہت کچھ تبدیلیاں ہورہی تھیں، ہندوستان میں علماء کا گروہ اپنے طور پر سر گرم عمل تھا جہاں شر یعت محمدیہ کے مطابق حکومت کی کوئی نہ کوئی سبیل تلاش کی جارہی تھی جس کی مثال مولانا عبیداللہ سندھی کا افغانستان میں عارضی حکومت کو دیکھ سکتے ہیں جس کے لیے علماء کا ایک گروہ پوشیدہ طور پر اپنی کارکردگی میں لگا رہا جس کے لیے جماعت مخلصین کا بھی قیام عمل میں آیا ۔ ادھر عالمی طور پر ۱۹۱۴ ء میں ترکی عالمی جنگ میں شریک ہوا تو خلیفۃ المسلمین نے اعلان جہاد کر کے تمام دنیا کے مسلمانوں کو شرکت کے لیے حکم دیا جو گویا ترکی کی موت کے لیے خود ہی ایک فتویٰ ثابت ہوا۔ پھر چار سال تک جنگ میں تپنے کے بعد ۳۰ ؍اکتوبر ۱۹۱۸ء کو التوائے جنگ کے صلح نامہ پر دستخط ہوا ۔ ادھر ہندوستان میں تحریک ریشمی رومال افغانستان کو اس کے لیے میدان عمل بنانا ،اسی درمیان بر طانیہ کا بار بار ہندکے مسلمانوں کو دلاسہ دینا کہ ہمارا منشابالکل بھی یہ نہیں ہے کہ ہم مذہبی و مقدس مقامات کے ساتھ کچھ چھیڑچھاڑ کریں ( یہ بات تو صرف عوامکے لیے تھی ، جب اصل مقصد توخلافت اور مر کزیت کو ختم کرنا تھا ) مو لانا محمد علی جوہر کی نظر بندی کے بعد مولا نا کا مزید عالمی طور پر شہرت کی بلندی اور امت کے سپاہی کے طور پر مشہور ہونا ، مولانا ابوالکلام آزاد کاایک نیا چمکتا ہوا ستارہ بن کر ابھر نا ، اس کے بعد ہندو ستان میں رولٹ ایکٹ بل کا پاس ہوجانا جیسے واقعات رونما ہورہے تھے جس سے ہندوستانیوں کی جدوجہد میں اچھال آگیا۔۱۸؍ جنوری ۱۹۲۰ ء کو رولٹ بل شائع ہوا ، اس کا شائع ہوناتھا کہ تمام ہندوستان میں آگ لگ گئی ، سوائے چند طرفداران ِ حکومت کے، پوری قوم نے اسکے خلاف آواز بلندکی ، اس وقت کی تمام سیاسی جماعتیں اورلیڈران ایک رائے ہوگئے ۔ اس بل کا منشاتھا کہ ہندو ستانیوں کو ہرقسم کی آزادی سے محروم رکھا جائے ۔ ایسے میں مسلمانوں کے پاس مذہبی و سیاسی اسٹیج تھا ہی انہیں انگریزوںکے خلاف آواز اٹھا نے کا مزید موقع مل گیا اور اس کے بعد ہندوبھائی بھی ساتھ میں مل گئے ، پھر ہندو مسلم اتحاد کا دل افروز نظارہ روز بروز ہونے لگا جس کے نتیجے میںہندوستا ن صدائے اتحاد وانگریز دشمنی سے کو ہ آتش فشاں بن گیا، مسلمان سروں پر کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے اور علماء سیاسی مجلسوں میں اپنی بھر پورنمائندگی پیش کر نے لگے ۔ جگہ جگہ انگریزوں کے خلاف علماء کے جلسے منعقد ہونے لگے ،ہندو ستان کے کم و بیش تمام شہر اس سیاسی گھمسان کی چپیٹ میںآگئے کہیںزیادہ تو کہیںکم ، مغربی بنگال اورشہر کلکتہ اس معاملے میں مر کزی حیثیت کا حامل رہا کیونکہ ابھی انگریزی دارالخلافہ کے دہلی منتقل ہوئے کچھ ہی برس ہوئے تھے ، وہاں علمائے بنگال کا دوسرا سالانہ جلسہ جنوری ۱۹۱۹ء میں مولانا آزاد سبحانی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں دیگر علماء کے ساتھ مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی بھی خصوصی شرکت ہوئی جن کی حیثیت ہندوستان میں صدرالعلماء کی تھی ۔ اس برس ہندوستان کی تاریخ میں یکم مارچ ۱۹۱۹ء کو جلیانوالہ باغ کا دلخراش سانحہ پیش آتا ہے جو مزیدہندوستان کے آزادی کے متوالوں میں انگریزوں کے خلافت نفر ت اور جذبۂ حریت کو بھر دیتا ہے ۔ایسے میں ہندوستان کی سیاست میں گاندھی جی کا طلوع ہوتا ہے اور ہندومسلم اتحاد کی گاڑی انگریزوں کے خلاف چل نکلتی ہے جس کا سب سے زیاد اثر خلافت کے جلسوں میں نظرآیا ۔

اس زمانہ کی بہت سی باتیں تاریخ کے صفحات سے غائب ہوچکی ہیں، اخبارات کے ذخائر اب نہیں رہے اور نہ ہی تنظیموں کی میٹنگوں کی کاروائی کی کوئی روداد تاریخ کے صفحات میں رقم ہوسکی جس کی بنیادپر بہت ہی زیادہ ٹھوس بات کسی تاریخی واقعہ کے آغاز کے بارے میں کہی جائے ۔انجمن خدام کعبہ کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ دسمبر ۱۹۱۲ ء میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے گھر میں اس کا قیام عمل میں آیا لیکن خلافت تحر یک کے بارے میں حتمی بات کہیں لکھی ہوئی نہیں ملتی ہے ۔ انگلش میں لکھے گئے دو اہم تھیسس (The Khilafat Movement by syd mohd Riyaz)  اور(The khilafat movement religious symbolism political mobilization in india. by Raziya Nayab)  پر بھی نظر ڈالنے کے بعد کوئی حتمی تاریخ نکل کر سامنے نہیں آئی ۔ اس موضوع پر قاضی عدیل عباسی کی کتاب’’ تحریک خلافت ‘‘ بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کتاب میں وہ شاہ معین الدین ندوی کی کتاب ’’حیات سلیمان‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے اس کی تحقیقات میں بہت وقت صرف کیا کہ کوئی دستاویزی شہادت اس بات کی مل جائے کہ خلافت کمیٹی کب اور کہاں اور کس کی تحریک پر قائم ہوئی مگر افسوس ہے کہ مجھے اس میں ناکامی ہوئی ۔‘‘ (ص ۳۸) اس کے متعلق اپنی جدجہد کو بھی لکھا ہے کہ وہ فرنگی محل گئے اور ان سے بھی ملے جو مولانا کے حالات زندگی ترتیب دے رہے تھے ، ممبئی میں خلافت کمیٹی کے دفتر کودیکھا لیکن وہ مکمل اجڑ چکا تھا ، مولانا امتیازعلی عرشی سے بھی خط وکتابت کی ۔الغرض جتنا ممکن ہوسکا کیا لیکن کہیں سے کوئی اطمینا ن بخش جواب نہیں آیا،لیکن ساتھ ہی جو امکانات ہیں وہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آل انڈیا مسلم کانفرنس جو ۱۸ دسمبر ۱۹۱۹ء ( صفحہ ۹۵ ؍ میں ستمبر لکھا گیا ہے ) کو منعقد ہوئی تھی وہی کانفر نس خلافت کمیٹی میں تبدیل ہوگئی‘‘ (ص ۳۸) پھر وہ اس کا خود بھی رد کرتے ہیں کہ یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس میں ایک تجویز ممبئی کی خلافت کمیٹی کے شکریے کی منظور ہوئی تھی۔( اس لیے گمان ہے کہ اس کا آغاز کم و بیش دو سے تین سال قبل ہوا ہوگا)  اس کا ردخود ان کی اس تحریر سے ہوتا ہے جو کتاب کے صفحہ چالیس میں درج ہے کہ ’’ نومبر ۱۹۱۹ ء میں خلافت کانفرنس کے موقع پر تمام اقطاع ہند کی مقتدر جماعتیں دلی میں جمع ہوگئی تھیں ‘‘ (ص۴۰)لیکن ایک خلافت کانفرنس کا سراغ ملتا ہے جس کو انہوں نے دوسری خلافت کانفرنس لکھا ہے وہ لکھتے ہیں ’’ دوسری خلافت کانفر نس (دلی ) زیر صدارت مولوی فضل الحق کے سلسلہ میں ۲۴ نومبر ۱۹۱۹ء کہ متحدہ اجلاس کا حال اخبارات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔ خلافت کانفرنس کا اجلاس اپنی نوعیت کے لحاظ سے اہم ترین تھا ۔ کیونکہ اس خلافت کانفرنس میں صرف خلافت کے مسائل پر غور کر نے کے لیے مادر وطن کی دونوں قوموں کے قائم مقام جمع تھے ۔گاندھی جی ، سوامی شردھا نند، پنڈت کرشن کانت مالویہ ، ڈاکٹر ساورکر مسٹر شنکر لال ، مسٹر موہن جی وغیرہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ ‘‘ (ص ۱۵۴) اس میں صاف طور پر تحریر ہے کہ یہ دوسری خلافت کانفرنس تھی ساتھ ہی ان تمام باتوں کی تردید ہوجاتی ہے جو نومبر ۱۹۱۹ء میں پہلی خلافت کانفرنس کے متعلق لکھی گئی ہیں ۔ساتھ ہی ۱۷ ؍اکتوبر ۱۹۱۹ء کو جو خلافت تحریک کے ماتحت یو م دعا و جلسہ تجویز کیا گیا اس سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت کمیٹی بہت پہلے وجود میں آچکی تھی کیونکہ’’ فروری ۱۹۱۹ء کے ابتدائی ایام میں انجمن مؤید الاسلام فرنگی محل کا ایک جلسہ زیر صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محل میں منعقد ہو ا اس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ احکام اسلام کی رو سے بجز موجودہ سلطان ترکی کے کوئی دوسرا خلیفہ نہیں اور شریعت اسلامیہ کی رو سے خلافت کے باب میں امت محمدیہ کے سوا غیر مسلم کی رائے بے اثر ہے ، مسلمانوں نے جہاں کہیں اس بارے میں آواز بلند کی ہے وہ شریعت اسلامیہ کے بالکل مطابق ہے اور یہ جلسہ اس کی تائید کرتا ہے ‘‘ اس میں دو باتیں سامنے آتی ہیںایک یہ کہ خلافت کی بات فروری سے پہلے ہی سے ہورہی ہے اور اس تعلق سے جلسے بھی منعقد ہورہے تھے ۔ دوسری یہ کہ خلافت کے خلاف بھی بولنے والے پیدا ہوگئے تھے مطلب یہ کہ خلافت کی آوازمضبوطی کے ساتھ بلند ہورہی تھی ۔یہاں مسلم کانفرنس کا ذکر بھی ضروری ہے جس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے کی تھی ۔

۳۰ ؍ اکتوبر ۱۹۱۸؍ کو تر کی نے التوائے جنگ کے صلح نامہ پر دستخط کیے اور مئی ۲۰ ۱۹ ء میں تر کی کے سلسلے میں سیور ے کے مقام پر شرائط صلح نامہ نافذہونی تھی ، ابھی تر کی کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہوا تھا لیکن اتحادیوں نے تر کی کو آپس میں تقسیم کر نا شروع کر دیا تھا اور جنگ بندی کے باوجود انگر یزوں نے موصل کی طرف پیش قدمی شروع کردی تھی اور قسطنطنیہ پر غلبہ حاصل کر لیا تھا تو مسلمانوں میں بے چینی عام ہوگئی تھی ۔ تمام کی خواہش تھی کہ اس مسئلہ شرعی کے متعلق حکومت برطانیہ اور حکومت ہند کے نمائندوں کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جائے تاکہ لندن میں جو صلح کانفرنس کمیٹی امریکہ ، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل کام کررہی ہے اس پر اثر پڑے اور وہ فیصلہ ہو جو مسلمانوں کے جذبات سے ہم آہنگ ہو ۔اس کے لیے ملک بھر میں جلسے ہورہے تھے اس سلسلے میں لکھنؤ میں ایک عظیم الشان آل انڈیا مسلم کانفرنس ۱۸؍ ستمبر کو طلب کی گئی جس میں ہندو ستان کے گوشے گوشے سے ہر طبقہ کی نمائندگی کرنے والے علماء، زعماء ،سرمایہ داراور رسوخ دار شریک ہوئے اس کانفرنس کا داعی کوئی ایک نہیں تھا بلکہ تقریباً چالیس چالیس افراد تھے جن کا تعلق ملک کے مختلف گوشوں اور جماعتوں سے تھا ۔ اس وقت ملک کے مسلمانوں کی ذہنی کیفیت اور بے چینی کیسی تھی اس کا اندازہ کانفرنس کے اشتہار کے عنوان سے لگایا جاسکتا ہے ۔وہ کچھ اس طر ح ہے ۔’’مسلمانوں کی موت و حیات کا مسئلہ ‘‘ ۔ اشتہار میں موجود متن میں بھی مسلمانوں کو تر کی کے تئیں بہت ہی جوش دلا یا گیا ہے ۔ اس کے اصل صدر تو مسٹر ابراہیم جعفر تھے جو بروقت حاضرنہ ہوسکے تو مو لانا عبد الباری کا نام صدارت کے لیے پیش کیاگیا جو بالاتفاق منظور بھی ہوا ۔پھر بعد میں وہ آگئے تو صدارتی خطبہ کاکچھ حصہ انہوں نے ہی  پیش کیا  اور بقیہ مطبوعہ صدارتی خطبہ بانٹ دیا گیا۔ مولا نا عبدالباری نے صدر اوربیرونی مہان کا شکر یہ ادا کیا، صدرکانفرنس نے مولانا عبدالباری کا شکریہ ادا کیا ۔ اس کانفرنس میں خلافت کے قیام کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے بلکہ جو ریزولیوشن پاس ہوئے ہیںان سے پتہ چلتا ہے کہ ممبئی میں خلافت کمیٹی اپنا کام کررہی ہے تو اس کا شکریہ ادا کیا جائے (شاید زیادہ کام ترکی کے لیے مالی تعاون کا تھا )اسی کانفرنس میں یہ بھی ریزو لیوشن پاس ہوتا ہے کہ خلافت کے لیے ۱۷؍ اکتوبر بروز جمعہ ہندوستان بھر میں یو مِ دعا منایا جائے جس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں نے بھی شرکت کی ۔اس قسم کے جلسے و جلوس کئی بڑے بڑے شہروں میں منعقد کیے جارہے تھے اور یہ باضابطہ آل انڈیا مسلم کانفرنس کا دوسرا جلسہ تھا ، پہلا اجلاس مدراس میں سیٹھ یعقوب کی صدارت میں ۱۷؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو ہوا ، دوسرا لکھنؤ میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی صدارت میں اور تیسرا  ۲۲ ؍ ستمبر کو اور آخر میں ۲۲ ؍ نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں خلافت کانفرنس کے عنوان سے مولانا فضل حق کی صدارت میں ہوا ۔اس سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خلافت کے اجلاس کی تاریخ تحریک خلافت سے یکسر مختلف ہے کیونکہ تحریک خلافت پہلے ہی سے شروع ہوچکی تھی اور مختلف احتجاجی اجلاس اس کے لیے منعقدہورہے تھے لیکن باضابطہ خلافت کانفرنس نومبر ۱۹۱۹ء سے شروع ہوتی ہے ۔اس مسئلہ کے بعد تحریک خلافت کے بنیاد گزا ر مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی خدمات کی جانب رجوع ہوتے ہیں ۔ 

یہ بات واضح ہے کہ اس زمانہ میں فرنگی محل ہندوستان میں ملکی و عالمی سیاست کامرکز تھا اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی اس پورے میدا ن میں کلیدی حیثیت رکھتے تھے ۔نومبر ۱۹۱۹ ء میں خلافت کانفرنس کے موقع پر ہندوستا ن بھر کے نمائندے شریک ہوئے تھے جن میں رفاہی ومسلکی تنظیموں کے سربراہان کی کثیر تعداد میں شرکت ہوئی تھی ۔ کانفرنس کے بعد علمائے کرام کا ایک جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے کی ۔وہیں سے اس عظیم الشان جمعیۃ علماء ہند کاقیام عمل میں آیا ۔ اس زمانہ میں ہندو ستا ن کے بیدار مغز افرادمیںعلماء کا منصب حکومت سے لیکر عوام تک سب سے زیادہ تھا تو مولانا نے علماء کی باہمی مخالفت اور مسلکی و مذہبی نزاعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بقائے خلافت کے لیے اس عظیم الشان جماعت کی بنیادڈالی ۔ اگرچہ اس وقت کے علماء کے اذہان میں اس کو لیکر مختلف نظریات ہوں لیکن مولا نا عبدالباری کے ذہن میں جو بات تھی اس جماعت کے قیام کو لیکر وہ بالکل واضح تھی کہ اس شرعی مسئلہ خلافت میں ہند کے تمام علماء کو ایک نظریہ پر جمع کیا جاسکے ۔وہ علماء جو فروعی مسائل میں ایک دوسرے سے اتنے دور ہوگئے تھے کہ ایک دوسرے سے مناظرے تک ہوا کر تے تھے۔ مسجدیں  مسالک کے ساتھ پابند ہوگئی تھیں ایسے وقت میں پہلی مرتبہ مولانا عبدالباری کی کوششوں سے ایک جگہ مسئلہ خلافت کے لیے سر جو ڑ کر بیٹھنے والے علماء درج ذیل ہیں ۔

مولانا عبد الباری ، مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، پیر امام محمد سندھی، مولانا اسداللہ سندھی ، مولانا سید محمد فاخر الہ آبادی ، مولانا مولوی محمدانیس ، مولانا خواجہ نظام الدین ، مفتی کفایت اللہ ، مولانا محمد ابراہیم دربھنگہ ، مولانا خدا بخش مظفر پوری ، مولانا عبدالحکیم گیاوی، مولانا محمداکرام، مولانامنیرالزماں ، مولانا محمد صادق ، مولانا سید محمد داؤد ، مولانا سید محمد اسماعیل ، مولانا محمد عبداللہ اور مولانا آزادسبحانی ۔

  یہ علماء اپنی ذات میں خود ایک تنظیم کی حیثیت رکھتے تھے اور شرعی امور کی جزئیات میں آپسی اختلاف بھی تھا ۔ لیکن مولانا کی یہ صلاحیت تھی کہ انہوں نے سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مسئلہ خلافت پر امت مسلمہ کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر لائے ۔ مجھے جہاں تک لگتا ہے اسی تحریک کی دین ہے کہ تمام علماء اس مجلس میں جمعیۃ کے قیام کے لیے ایک آواز ہوتے ہیں جو اتحاد کی ملکی شکل تھی ۔  ملک میں خلافت کی ایسی ہوا چلی کہ اس وقت جو بھی جماعت قائم ہورہی تھی اس کے مقاصد میں سے اہم مقصد خلافت ہوتا تھا ۔ اسی کا اثر تھا کہ کانگر یس اس عہد میں مکمل طور پر دوسرے امور کے ساتھ خلافت کے لیے کام کر رہی تھی۔ جمعیۃ کاقیام تو خلافت تحریک کی شباب پرہوا ہی ہے ساتھ ہی مسلم لیگ اور کانگریس بھی اس معاملہ کو اپنے دامن میں نمایاں جگہ دے رہے تھے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ تحریک خلافت کے بعد ہی کانگریس میں جان آئی تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔مسلمان تر کی حکومت کو لیکر مکمل طور پر بیدار ہوچکے تھے، جگہ جگہ احتجاجی جلسے ہورہے تھے اور جلوس نکل رہے تھے ایسے وقت میں گاندھی جی ہندوستان کی سیاست میں داخل ہوتے ہیں اور ان کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ آزادی کی طاقت جو ٹکڑیوں میں بکھری ہوئی ہے اور اپنے اپنے علاقوں میں محدود ہے ان سب پر ہلکی سی توجہ دی جائے او ر سب کو یکجا کیا جائے چنانچہ گاندھی جی نے ان طاقتوں سے ملنا شروع کردیا ۔لکھنؤ میں مولانا عبدالباری سے فرنگی محل میں ملاقات ہوتی ہے اور تحریک خلافت میں بھر پور تعاون کی امید دلاتے ہیں تو جب اس معاملہ میں برادارن وطن کا سہارا ملا تو مسلمان کو بہت ہی زیادہ حوصلہ ملا اور مہاتما گاندھی باضابطہ دہلی کی خلافت کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ یہ جلسہ اگر چہ عملہ اور اراکین کا تھا لیکن گاندھی جی کی عظمت کی وجہ سے ان کی شرکت ہوئی اور ساتھ ہی کچھ ہندو برادران نے بھی نمائندگی کے طور پرشرکت کی ۔ اس کے بعد سے ہندوستان کے ہندو اور مسلمان ہر جلسہ میں برابر کے شریک رہے ۔

کانگر یس ،جمعیۃ اور خلافت کے اجلاس ایک ساتھ الگ الگ دن امر تسر میں منعقد ہوئے۔ مولا نا محمد علی جوہر ہندوستان بھر میں اپنی تحریروں اور جوشیلی تقریروں کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ ہندوستان کا پڑھا لکھا طبقہ ان کی تحر یروں کو اہمیت دینے لگا تھا اور حکومت کی ناز برداری کا تمغہ گلے سے اتر چکا تھا اور وہ ہندوستان کے متفقہ لیڈر بن چکے تھے ، امرتسر کے اجلاس میں کانگر یس کی طرف سے دعوت ملی تو بیتول جیل سے رہا ہوکر سیدھے اجلاس میں پہنچے ،حسب دستور و فطر ت طویل تقریر کی جو بے حد پراثر اور جذباتی تھی ، ان کے مزاج میں طویل تقریر تھی، ان کے بر عکس مولانا شوکت علی کا مزاج تھا ۔ اسی وجہ سے عام طور پر ان کو کم علم سمجھا جاتا تھا لیکن بڑے ذی ہوش اور لائق آدمی تھے ، تقریریں مختصر کرتے تھے۔ تنظیمی ڈھانچہ کو سنبھالنے میں ان کو مہارت تھی ۔ دونوں بھائی دوالگ مزاج کے حامل تھے محمد علی جوہر الجھتے بہت تھے حتٰی کہ گاندھی کو بھی جلدی خاطر میں نہیں لاتے تھے اور اورشوکت علی خاموش مزاج کے حامل تھے ۔ دونوں بھائی مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے مرید  تھے تو مولانا دونوں کی انفرادیت اور صلاحیت سے بھی واقف تھے ۔ محمد علی جوہر کی اہمیت اپنی جگہ مسلم تھی لیکن شوکت علی کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مولا نا عبد الباری فرنگی محلی نے خلافت کانفرنس کی صدرات کے لیے شوکت علی کا نام پیش کیا جس کی تائید مولا محمد داؤد غزنوی ، مولافضل الرحمان ایڈیٹر ’ اخوت ‘ ، ابوالقاسم کلکتہ، سیٹھ احمد حاجی صدیق کھتری اور مسٹر موسیٰ بال صاحب رنگون نے کی ۔ اس موقع پر انہوں نے بہت ہی مختصر تقریر کی جس کو چند سطروں میں لکھا جا سکتا ہے تقریر کے دو ہی حصے ہیں جس کا ایک حصہ یہ ہے : ’’ اگر آپ دنیوی اقتدار کے لیے خدا اور رسول کے احکام کو نظرانداز کرنے کے لیے تیا ر ہیں تو میرا اور آپ کا ساتھ نہیں ۔ اس وقت کام یہ ہے کہ تمام عالم جمع ہوکر احکام شرعی پر غور کر کے فیصلہ کرے کہ آپ کا فرض کیا ہے ۔ ریزولیوشن پاس کردینا کچھ مشکل کام نہیں ۔ میں نے ایک فقرہ اپنے بھائی معظم علی کو لکھا تھا جس پر مجھ سے سوال کیا گیا تھا وہ فقرہ ایسا تھا کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا جو ترکوں کی فتح کا خواہشمند نہ ہو ۔اس پر میں نے کہاکہ اس کا جواب دینے سے قبل میں ایک سوال کر تا ہوں کہ اگر ہمیں یہ مذہبی آزادی حاصل ہے تو ہر مسلمان یہ کہے گا اور اسے کہنے کا حق ہے ۔ ہمیں ملک معظم اور وائسرائے کے پاس وفد روانہ کرکے ان سے کہہ دینا چاہیے کہ اگر صورت حال یہی ہے تو ہمارے لیے دوصورتیں ہیں ۔ ہجرت یا جہاد۔ ہمارا وفد خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں جانا چاہیے جس میں معذرت کی جائے کہ ہم نے اپنے فرض کو پس پشت ڈالا ۔‘‘ ( ص ۱۲۵)

صدارتی تقریر کے اس حصہ میں دو باتیں بہت ہی واضح طور پر نظرآتی ہیں ایک ہجر ت اور دوسری جہاد ۔ تو اس زمانہ میں ہجرت کی بات بھی بہت تیزی سے چل رہی تھی اور غلط فہمی کی بنیادپر کثیر تعداد میںہندوستانی افغانستان کی جانب ہجرت بھی کی ۔اس کاذکر آگے آئے گا ۔ فی الوقت یہ بات آگے بڑھائی جاتی ہے کہ مولانا شوکت علی نے وفد کے روانہ کی بات کہی تو اس پر عمل در آمد شروع ہوجاتا ہے ۔

دہلی میں۲۰؍ جنور ی ۱۹۲۰ ء کو ایک جلسہ منعقد ہوتا ہے جس میں مسلم رہنماؤں کے ساتھ لوکمانیہ تلک ،لالہ لاجپت رائے او ربپن چندر پال جیسے چوٹی کے لیڈر جمع ہوئے اور خلافت کے مسئلہ پر آپسی گفت و شنید ہوئی جس میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا ۔ وفد کی بات بھی سامنے آئی تو اس میں طے پایا کہ وفد بھی لے جایا جائے ۔چنانچہ وفد مرتب کیا گیا اس کے صدر مولانا محمد علی جوہراور سکریٹری حسن محمد حیات منتخب ہوئے اور ارکان میں سید حسین ، مولانا سید سلیمان ندوی اور ابوالقاسم تھے ۔مولانا محمد علی جوہر نے ایک میموریل تیار کیا جس پر اس وقت کے اکابر رہنماؤں کے دستخط ہوئے ۔۲۲ ؍ فروری ۱۹۲۰ء کو وفد وینس پہنچا وہاں پہلے مسٹر فشر سے ان لوگوں کی ملاقات ہوئی ۔ مولانا محمد علی جوہر انگریزی زبان میں یکتا تھے ہی تو انہوں نے بہت ہی سے زور و شورسے اپنی بات رکھی اور مذہبی احکامات کاحوالہ دے کر ان کے سامنے دو مطالبے رکھے ۔

( ۱) خلافت ترکی کو بحال رکھا جائے ۔

(۲) مقامات مقدسہ یعنی مکہ ، مدینہ ، بیت المقدس اور تمام مقدس مزارات خلیفہ کی نگرانی میں ہونے چاہئیںجیسے کہ جنگ سے پہلے تھے ۔ پھر مسلمان بھی خوش ہوجائیں گے کہ ان کی وفاداری کے صلے میں جزیرۃ العرب اور مقامات مقدسہ کا احترام باقی رکھ کر خلافت کی پہلی جیسی پوزیشن قائم رہ گئی ۔

اس کے جواب میں مسٹر فشر نے ضابطہ اور پروٹوکول کے مطابق جواب دیا جس میں کچھ امید بھی دلائی اور کچھ ناامیدی بھی پیدا کی ۔ بالآخر وفد مسٹر لائیڈ جارج سے ملاقات کرنے میں کامیاب رہی ۔وہاں بھی مولانا محمد علی جوہر اپنی بات زورو شور سے کہتے رہے لیکن منطقی وجوہ سے جارج نے ہر بات کی تردید کی کیونکہ انگریز صدیوں سے جو محنت کر رہا تھا اس پر وہ کیسے کچھ برداشت کرتا۔ پھر اس وفد کو سرکار ی طور پر مطلع کر دیا گیا کہ :

’’(۱) تر کی کے ساتھ انہی اصولوں کے مطابق معاملہ کیا جائے گا جن کے مطابق دوسرے ممالک سے معاملہ کیا گیا ہے ۔اس معاملہ میں اس کے ساتھ کوئی تفریق روا نہیں رکھی جائے گی ۔

(۲) تر کی حکومت کو ترکی علاقوں پر حکومت کر نے کی اجازت حاصل ہوگی ۔

(۳) لیکن اسے اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ غیر ترکی علاقوں کو اپنے قبضے میں رکھے ۔‘‘ (شیخ الاسلام کی سیاسی ڈائری ، ج۲، ص ۱۱۳) 

اس کے بعد وفد نے مسٹر ایسکویتھ اور لیبر پارٹی کے ان ارکان سے ملاقات کی جنہوں نے اس طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی ۔غرضیکہ وہاں کوئی بات نہیں بنی تو برٹش عوام کو ہموار کرنے کے لیے عوامی میٹنگیں کیں اور جلسہ بھی کیے ۔ پیرس بھی گئے وہاں کے لوگوں کو بھی اپنے موقف سے آگاہ کیا ، جزیرۃ العرب بھی گئے وہاں کے لوگوں کو خلیفہ کے ماتحت لانے کے لیے ہموار کرتے رہے لیکن وہ زبان سے تو ہاں ہاںکہتے رہے لیکن دل سے اس لالچ کے ساتھ تھے جو انگریزوں نے الگ الگ ملک بنا کر دینے کو کہا تھا اور سب برطانیہ کے وظیفہ خوار نکلے ۔ 

 وفد کی برطانیہ روانگی سے خلافت کی ہوا ملک بھر میں زوروشور چل رہی تھی ۔ گاندھی جی تو شامل ہوہی گئے تھے اور خلافت ایک چھتنار در خت بن چکا تھا جس سے کئی تحریکیں اب رو نما ہونے والی تھی مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی برسوں کی محنت و قیادت اب بار آور ہونے والی تھی انہوں نے عوام و خواص کے دل میں انگریز کے خلاف اور شریعت کی پابند کا جو بیج بویا تھا وہ اب لہلہانے والا تھا ۔اور خلافت کے جلسوں سے یا یو ں کہہ لیں کے خلافت کے بینر تلے شروع ہونے والی تھی عدم تعاون کی تحریک ۔ گاندھی جی دہلی کے جلسے میں جب شریک ہوئے تو انہیں اس بات کا اندازہ بخوبی ہوگیا تھا کہ ابھی انگریزوں کی مخالفت میں سب سے آگے مسلم قوم ہے تو انہوں نے اس ایندھن کو بہت اچھی طرح استعمال کیا اورجب ۲۳ مارچ ۱۹۲۰ ء کو میر ٹھ کا خلافت کانفرنس بڑی دھوم دھام سے منعقد ہوئی تو پہلی مرتبہ گاندھی جی پبلک پلیٹ فارم پر آئے اور خلافت کے اسٹیج سے عدم تعاون کا پروگرام پیش کیا ۔جس میں دو بنیادی باتیں یہ تھیں ۔

(۱) تمام سرکاری خطابات اور سول عہدوں سے علاحدگی 

(۲) ٹیکس اور دوسرے سرکاری واجبات کی ادائیگی سے انکار 

گاندھی جی کی پیش کش کے بعد مولانا آزاد کی زبر دست تقریر ہوئی جس کی بنیا د پر اس پر پہل کرنے والے سب سے پہلے حکیم اجمل خاں تھے ۔ انہوں نے گویا حکومت کی جانب سب سے پہلاپتھر پھینکا اور ڈپٹی کمشنر کو خط لکھ کر تمام خطبات و تمغات واپس لوٹا دیے ۔ پانچ دن کے بعد ۲۸مارچ ۱۹۲۰ ء کو لاہور میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں وہ فوج اور پولیس کی ملازمت بھی تر ک کر نے کو کہتے ہیں ۔ گویا اب تین امور پر عدم تعاون کی تحر یک شروع ہوتی ہے ۔اس کے بعد فورا ً اپر یل کے پہلے ہفتے میں یو پی کے مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اجلاس ہوتا ہے تا کہ مسئلہ خلافت پر بر طانیہ پر دباؤ بنانے اور جد و جہد آزادی کے لیے عوام کو عدم تعاون کے لیے تیار کیا جا سکے ۔ چنانچہ علماء نے اس کام کے لیے کمر کس لی اور اعزاز واپس کر نے پر زبردست خراج تحسین پیش کر نے لگے ۔اس تحریک میں تو ہندوستان کے تمام مسالک کے علماء متحد تھے ساتھ ہی اس کے ماتحت جب عدم تعاون کی تحریک گاندھی جی کے ذریعے شروع ہوئی تو اس میں بھی فقہی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے اور ہندو ستان کے نو سو جید اور اہل راے علماء نے ترک تعاون کے حق میں فتویٰ دیا ۔ان میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے ۔مفتی کفایت اللہ ، مولانا احمد سعید دہلوی (دیوبندی ) ۔ مولانا ابوالوفاء ثنا ء اللہ امر تسری ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی ، مو لانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ، مو لانا عبدالحکیم گیا وی ( اہل حدیث )۔ مو لانا سید محمد فاخر بیخود الہ آبادی سجادہ نشین دائرہ شاہ اجمل ، مولا نا عبدالماجد بدایونی ( بریلوی ) مو لا عبدالباری فرنگی محلی اور مولاناابوالمحاسن سجا د بہا ری ( اعتدال پسند ) جیسے قدآور علماء نے فتویٰ دیا ۔اگر چہ کئی علما ء نے انفرادی طور پر مخالفت بھی کی لیکن مولانا احمد رضا خاں نے مخالفت میں بڑی سرگرمی دکھائی ۔ تحر یک کی مخالفت میں زبر دست مہم چلائی اور ہندؤں کے ساتھ مل کر استخلاص وطن کی جدو جہد میں ازروئے اسلام حرام قرار دیا ۔الغر ض تحریک خلافت کے لیے جو کچھ بھی معاون ہوتا اس کے لیے مولانا عبدالباری فرنگی محلی کمر بستہ رہتے جس کی ایک مثال یہ فتویٰ بھی ہے ۔

عدم تعاون کی تحریک اگر چہ خلافت کے اسٹیج سے شروع ہوئی لیکن اس کا دائرہ اتنا وسیع ہوا کہ اس سے انگریز سب سے زیادہ پریشان ہوئے ۔ اس تحریک میں گاندھی جی کی دعوت پر آزادی کامل کی جانب سر بکف دوڑنے والوں میں سیکڑوں غیر مسلم رہنما شریک ہوگئے ۔ ہزاروں طلبہ کالج سے اسٹرائک کر نے لگے اور ہزاروں کی تعداد میں الگ بھی ہوگئے ۔سر کاری نوکریوں سے افراد جدا ہونے لگے اور سر کاری اداروں اور اسکیموں کا بائیکا ٹ ہونے لگا ۔جس کافائدہ قوم کو یہ ملا کہ نئے نئے قومی ادارے وجود میں آنے لگے ۔کلکتہ میں نیشنل کالج قائم ہوا، بہار میںودیا پیٹھ بنا ۔ پٹنہ ، احمدآباد ،ممبئی ،بنارس اور دلی میں نیشنل کالج قائم ہوئے ، بنگال ، بہار اور گجرات میںنیشنل یونی ورسٹیاں عمل میں آئیں ۔اسکولوں کے بائیکاٹ اورقومی درس گاہوں کے قیام کی مہم جاری رکھی گئی اسی کڑی میں راجندر پر شاد کی کوششوں سے پٹنہ گیا روڈ پر ایک کالج قائم ہوا اور وہ خود اس کے پرنسپل مقرر ہوئے اور کئی اعلی صلاحیت کے پروفیسراستعفی دے کر اس کالج میں آگئے ۔

پٹنہ انجینئر نگ کالج سے صداقت آشر م کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے ۔ انجینئرنگ کالج کے تقریبا ۲۵۰؍ لڑکے تعلیم کو خیرآباد کہہ کر مسٹر مظہر الحق بیر سٹر کے پاس گئے اور وہیں سے صداقت آشرم کی بنیاد پڑی ۔ اورعلی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے جامعہ کی کہانی بھی کچھ اسی قسم کی ہے ۔ عدم تعاون کی تحریک زوروں پر تھی اور یونی ورسٹی سرکارکی امداد سے چل رہی تھی یہاں کئی مرتبہ ہنگامہ خیز حالا ت بنے کئی جلسے ہوئے مخالفت و موافقت پر تقریریں ہوتی رہیں با لآخرجب حالات یہاںتک پہنچے کہ مو لانا محمد علی جوہرنے ان طلبہ کو آواز دی جو ان کے ساتھ آناچاہتے تھے ۔ ان کو لے کر مولانا اولڈ بوائز لاج پہنچے( جو کالج کی ملکیت نہیں ہوتی ہے) لیکن وہاں سے بھی نکالے گئے پھر ’’ ڈیڑھ سو طلبہ اپنے سامانوں کو اپنے سروں پر اٹھائے محمد علی کی قیادت میں اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ درس گاہ سے باہر نکل گئے اور ایک نیشنل مسلم یونی ورسٹی (جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نام سے ) علی گڑھ میں قائم کردی گئی ۔اور وہیں مولانا محمد علی نے اقامت اختیار کرلی ۔ پہلے مولانا محمد علی خود پرنسپل تھے اور حسب عادب صبح سے شام تک تقریریں کیا کرتے تھے۔ بعدہ خواجہ عبدالحمید صاحب شیخ الجامعہ قرار دیے گئے ۔‘‘ اسی کڑی میں ندوہ بھی ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا ماہانہ ہزار روپے کا خرچ تھا جس میں سے پانچ سوروپے گورنمنٹ کی جانب سے ملتا تھا تو ندوہ نے یہ امداد لینے سے منع کردیا اس لیے اس کو صرف نواب بھوپال کے ہی امداد پر صبر کرنا پڑا ۔ اسی طریقے سے مدرسہ عالیہ کلکتہ سے ڈھائی سوطلبہ کو مولانا آزاد نے الگ کرالیا۔ ان کے لیے مسجد ناخدا میں ایک قومی مدرسہ قائم کیا گیا اور اس مدرسہ میں مولانا حسین احمد مدنی بطور استاد چارج لینے کو تیار تھے ۔یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ قصبات و شہروں میںبھی نیشنل کالج اور اسکول کھلنے لگے جو حکومتی تعاون کے محتاج نہیں ٹھہرے اور ترک موالات کی تحریک اپنے مقصدمیں آگے بڑھتی چلی گئی ۔

خلافت تحریک میں مو لانا عبدالباری فرنگی محلی اپنے شاگر د رشید مولانامحمد علی جوہر کوتحریک خلافت کے میدان کا مرد مجاہد بنا تے ہیں اور عوامی جذبات کی قدر کرتے ہوئے چاہتے ہیں کہ جلسے و جلوس آزادانہ طور پر نہ منعقد کیے جائیں بلکہ مرکزی خلافت کمیٹی سے اجازت لے کر کیے جائیںاور ہر جلسہ و میٹنگ میںمیری شرکت کو ضروری نہ سمجھیں۔ اس تعلق سے مولانا کاایک خط ہمدم میں اپریل ۱۹۲۰ ء کے آخر ی ہفتہ میں شائع ہوتا ہے ۔

’’ خلافت کانفرنسیں بقدر ضرورت ہوئیں اور ہوتی رہتی ہیں ۔ جہاں مسلمان ضرورت سمجھیں کریں اور بلا ضرورت محض دیکھا دیکھی ایسے کانفرنسوں کے انعقادکی اب ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ میری راے یہ ہے کہ مسلمان اس سلسلہ کو موقوف کریں ۔ خصوصاً بغیر اجازت سینٹرل کمیٹی ممبئی کے انعقاد کسی کانفرنس کا خلافت کے متعلق ہرگز مناسب نہیں ہے ۔ اور شرکت اس قسم کے جلسے کی اصولاً لازم نہیں ہے ۔ وقت کام کرنے کا ہے دوسروں پر اپنا بار نہ ڈالے ۔ اگر ملک کے کسی حصے میں ضرورت انعقاد کانفرنس کی ہو تو مقامی حضرات اس میں شرکت فرمائیں ۔ ایک دو مقرر و علماء باہر سے بھی بلا لیے جائیں ۔ مگر تمام مشاہیر کی دعوت بلا ضرورت قابل ترک ہے ۔میں نے اپنے متعلق فیصلہ کر لیا ہے کہ سوائے اس صورت کے میری شرکت سے معتد بہ فائدہ مقصود ہو محض نمائش کے لیے بلا رو رعایت جلسوں کی شرکت سے انکار کردوں گا … مجھ سے میرے احباب خواہش کر تے ہیں کہ میں سر بر آوردہ حضرات کو ان کی مرضی کے موافق تکلیف دوں ۔ اب تک اس خدمت کو انجام دیا ۔ اب اس قدر زائد یہ خدمت لی جانے لگی ہے کہ اس کے انجام دینے سے قاصر ہوں ۔ میری حالت یہ ہے کہ :

نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری را ہ لگ اپنی: تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہم بیزار بیٹھے ہیں 

(تحریک خلافت ،ص ۱۴۴) 

اس کے بعد کی سرگرمیاں ایسی رہیں کہ صرف اہم مقامات پر مولاناکی شرکت نظر آتی ہے جو ہمیں آگے بھی پڑھنے کو ملے گا ۔ 

  اوپرتحریروں مولانا شوکت علی کے خطبے میں ’ جہاد اور ہجرت ‘ کا ذکر آیا تھا ۔ وہ محض ایک ذکر نہیں تھا بلکہ اس مسئلہ پر تحریک عدم تعاون سے پہلے ہی یعنی ماہ فروری میں ہی اخبار ات و رسائل میں چھپنا اور فتاویٰ کا دور شروع ہوچکا تھا ۔ ۱۹۲۰ کے اوائل کا دور ہوتا ہے علی برادران کی مقبولیت آسمان کو چھورہی ہوتی ہے ، گاندھی جی میدان میں قدم جما رہے ہیں مولانا آزاد بھی یکم جنوری کو رانچی جیل سے رہا ہو جاتے ہیں اور وہ تیسری خلافت کانفرنس کلکتہ کے صدر منتخب ہوتے ہیں جہاں وہ مسئلہ خلافت پر بہت ہی مبسوط اور مدلل خطبہ پیش کرتے ہیں اور کانفرنس کے دوسرے دن اپنی اسکیم کی وہ بنیاد ڈالتے ہیں جس کا ذکرمولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ’’ذکر آزاد‘‘میں کرتے ہیں :

’’مولانا کی اسکیم کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند کو مذہب کی راہ سے منظم کیا جائے ۔ مسلمانوں کا ایک امام ہو اور امام کی اطاعت کو وہ اپنا دینی فریضہ سمجھیں ۔مسلمانوں میں یہ دعوت مقبو ل ہوسکتی ہے ۔اگر قرآن و حدیث سے انہیں بتادیا جائے کہ امام کے بغیر ان کی زندگی غیر اسلامی ہے او ر ان کی موت جاہلیت پر ہوگی ۔ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد امام کو مان لے تو امام ہندؤں سے معاہدہ کر کے انگریزوں پر جہاد کا اعلان کر دے اور ہندو مسلمانوں کی متحدہ قوت سے انگریزوں کو شکست دی جائے ۔مگر امام کو ن ہو؟ اس منصب کے لیے زیادہ سے زیادہ معتبر آدمی کو چننا ہوگا ایسے آدمی جو کسی قیمت پر دشمن کے ہاتھ نہ بک سکے ۔ ساتھ ہی امام کو ہوشمند اور حالات زمانہ سے کما حقہ واقف ہونا چاہیے ۔ ظاہر ہے مولانا اپنی ذات سے زیادہ کسے امامت کا اہل سمجھ سکتے تھے ۔ 

’’اس کے بعد طے پایا گیا کہ امامت کا مسئلہ پبلک میں لانے سے پہلے اندر اندر مولانا کی امامت کے لیے ملک بھر میں بیعت لینا شروع کر دیا جائے تاکہ جب یہ معاملہ سامنے آئے تو امامت کی بیعت واقعہ بن چکی ہو ۔ اس سے لوگوں میں رشک و رقابت کا سد باب ہوجائے گا اور مسلمان ایک امام پر متفق ہوکر ہندوستان کو غلامی سے نجات دلا سکیں گے ۔ ‘‘ 

اس کے بعد وہ بیعت و امامت کا خط تیار کر تے ہیں جس کے ذریعہ مولانا عبدالرزاق ملیح آباد کے دست پر بیعت کیا جاسکے ۔ پھر بیعت و امامت کا مکمل دور چلتا ہے جس میںان کا وہ فتویٰ بھی شامل ہے جس میں وہ ہجرت کی بات کہتے ہیں وہ فتویٰ تو طویل ہے لیکن ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں :

’’ تمام دلائل شرعیہ حالات حاضرہ مصالح مہمہ امت اور مقتضیات و مصالح پر نظر ڈالنے کے بعد پور ی بصیرت کے ساتھ اس اعتقاد پر مطمئن ہوگیا ہوں کہ مسلمانان ہند کے لیے بجز ہجرت کوئی چارہ شرعی نہیں ہے ۔ ان تمام مسلمانوں کے لیے جو اس وقت ہندوستا ن میں سب سے بڑا اسلامی عمل انجام دینا چاہیں ضروری ہے کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کر جائیں اور جو لوگ یکایک ہجرت نہیں کر سکتے وہ مستعد مہاجرین کی خدمت و اعانت اس طرح انجام دیں گویا وہ خود ہجرت کر رہے ہیں ‘‘  

یہ فتویٰ کے شروع کا حصہ ہے ۔ آپ سب کو اس بات کا علم ہے کہ مولا نا ابوالکلام آزاد کے نام سے پہلے امام الہند بھی لگا یا جاتا ہے ۔ اس کی کہانی بھی اسی فتوی سے شروع ہوتی ہے ۔ فتویٰ میں تحریر فرماتے ہیں :’’ اعمال ہجرت کا جو نمونہ اسوۂ حسنہ نبوت نے ہمارے لیے چھوڑا ہے وہ یہ ہے کہ ہجرت سے مقدم ہجرت کی بیعت ہے ۔ بغیر بیعت ہجرت نہیں کرنی چاہیے ۔ جو لوگ ہجرت کریں وہ ہجرت پر پہلے بیعت کرلیں۔‘‘ یعنی مولانا کے دل میں یہ بات چل رہی تھی کہ امامت کا منصب جو شاید اب تک کسی کے پاس نہیں ہے اور عوامی طور پر اس سے مضبوط ہوا جاسکتا ہے اس پر شاید انہوں نے ہجرت و امامت کو ایک ساتھ پیش کیا ۔ گویا یہ ہجرت کی بیعت بعد میں پہلے امامت کی بیعت تھی اور یوپی میں اس کے لیے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی تھے۔ اس تعلق سے قاضی عدیل عباسی لکھتے ہیں : 

’’ عام طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ ہجرت کا فتویٰ مولانا عبدالباری نے دیا تھا ۔ اس فتویٰ کی تمام تر ذمہ داری مولانا ابوالکلام آزاد پر ہے ۔ غلام رسول مہر نے مجھ سے کہا کہ پنجاب ، سندھ اور سرحد پر مولانا کا اثر رانچی کی نظر بندی سے پہلے اتنا گہرا تھا کہ جب وہ لاہور جاتے تھے تو ایک ایک لاکھ آدمی دور دراز سے جمع ہوتے تھے اور اتنی گرمجوشی سے نعرہ تکبیر بلند کر تے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پھٹ پڑے گا ۔ سندھ پر مولانا کا اثر ان کے خط مورخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۲۰ء سے بھی ظاہرہے جو انہوں نے مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کو بسلسلۂ تحریک امامت لکھا تھا‘‘ ۔ (ص ۱۳۴) 

مولاناکا یہ کام زور وشور سے جاری تھا کہ اسی بیچ جون میںشیخ الہند مالٹا کی قید سے چھوٹ کر آتے ہیں اور لکھنؤ تشریف لے جاتے ہیں وہاں مولانا عبدالباری کے یہاںقیام ہوتا ہے ۔ وہاں پر مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی ان دونوں بزرگوںسے ملنے جاتے ہیں اور مولانا ابو الکلام آزاد کے امام الہند بننے پر راضی کرنا چاہتے ہیں مگر دونوں بزرگ اس بات کو ٹال جاتے ہیں ۔اس متعلق مولا نا عبدالباری فرنگی محلی کی ایک تحریر عدیل عباسی نقل کر تے ہیں :

’’مولانا محمود حسن سے دریافت کیا تو وہ بھی اس بار (بات ) کے متحمل نظر نہیں آتے ۔ مو لانا ابو الکلام صاحب اسبق و آمادہ ہیں ۔ ان کی امامت سے مجھے استتکاف نہیں ہے بسرو چشم قبول کرنے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ تفریق جماعت کا اندیشہ نہ ہو ۔ مولانا تو اہل ہیں کسی نا اہل کو اکثر اہل اسلام قبول کر لیں گے تو وہ لوگ سب سے زیادہ اطاعت گزار وفرمانبردارمجھے پائیںگے ۔ اصل یہ ہے کہ یہ تحریک دیانتا ً میں اپنی سمت سے جاری کرنا نہیں چاہتا نہ کسی کو منتخب کر کے اس کے اعمال کا اپنے اوپر بار لینا چاہتا ہوں ۔ مسلمانوں کی جماعت کا تابع ہوں اس سے زائد مجھے اس تحریک سے تعرض نہیں ۔ والسلام ۔ بندہ فقیر عبدالباری ۔‘‘

اس تحریرسے بھی مولا نا اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور کہتے ہیں ’’ مولوی عبدالباری کاخط دیکھا ’ یار ما ایں دارد آں نیز ہم ‘ سر دست اس قصہ کو تہہ کیجیے اور کام کیے جائیے ۔ پنجاب ، سندھ ، بنگال میں تنظیم مکمل ہے ۔ لیکن بہت ہی زیادہ امامت پر بیعت لینے کے بعد بھی وہ ستمبر ۱۹۲۰ء میں تحریک امامت کو ختم کردیتے ہیں اور اس کی وجہ بھی وہ کہیںنہیں ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن اس متعلق مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اس طرح رقم طراز ہیں ۔

’’ لیکن مولانا محمد علی نہایت مستعد لیڈر تھے اور طوفانی طبیعت رکھتے تھے ۔ان کا اثر بڑی تیز ی سے بڑھ رہاتھا اور مولانا کی امامت ہی کے نہیںخو د مولانا کی ذات کے سخت مخالف تھے ۔ دونوں میں عمر بھر رقابت رہی ۔ قدرتی طور پرمولانا نے جو از حد معاملہ فہم اور ٹھنڈ ی طبیعت کے مالک تھے محسوس کرلیا کہ علی برادران سے تصادم مسلمانوں میں پھوٹ ڈال دے گا ۔ مسلمانوں کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی انہی برادران کے ساتھ تھا ۔ پھر فرنگی محل بھی مخالف تھا اور گو شیخ الہند کی طرف سے مخالفت نہ تھی مگر دیوبند کا طاقتور حلقہ بھی مو لانا کا طرفدار نہ تھا ۔ اس صورت میںمسئلہ امامت کا آخر تک پہنچانا دانشمندی کے خلاف تھا ‘‘ (تحریک خلافت ص ۱۳۰)

اب مولانا عبدا لباری کے فتویٰ کی جانب رجوع ہوتے ہیں جو انہوں نے ہجرت کے سلسلے میں دیا تھا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح مولانا نے از خود فتویٰ نہیں دیا تھا بلکہ ہجر ت کا ارادہ کرنے والاایک شخص غلام محمد عزیز امرت سری نے بذریعہ تار مولانا سے فتویٰ طلب کیا تھا تو مولانا نے حسب ذیل جواب دیا :

’’ ہجرت کے متعلق میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ تمام مسلمان جو اپنے (ضمیر قلب یا ایمان )کو مطمئن نہیں کرسکتے وہ اب اسلام کے مطابق عمل پیرا ہوں اور اس ملک سے ہجرت کر کے ایسے مقام پر چلے جائیں جہاں اسلام کی خدمت انجام دینا اور اسلامی قوانیں (شرع شریف) کے مطابق عمل کرنا بہتر طریق ممکن ہو ‘‘ ۔

مولانا آزاد اور مولانا فر نگی محلی کے فتویٰ میں آسمان زمین کا فرق ہے دونوں میں ہجرت کی بات ہے لیکن مولانا آزادکے یہاں اس قدر لازمی ہے کہ بجز اس کے کوئی چارہ نہیں نظر آتا ہے اور فرنگی محلی کے یہاں بھی ہجرت ہے لیکن وہ ہجرت کو فرض نہیں کہتے ہیں اور نہ ہی مجبور کرتے ہیں ۔ بنظر دیگر تمام افر ادبھی شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ اس زمانہ میں ہجرت کی بات اس شدت سے کی جارہی تھی کہ زبان در زبان دارالحرب کی بات ہورہی تھی اور دارالحرب سے ہجرت ضروری ہے اس پر عمل ہورہا تھا۔ ایسے میں کسی بھی انسان کا ضمیر یا قلب کیسے گوارہ کر تا کہ وہ امور شرعیہ کی انجام دہی میں ہندوستان میں مطمئن ہے ۔مولانا کا یہ فتویٰ شروع مئی ۱۹۲۰ء  میں چھپا جس پر بہت سے سوالات و جوابات بھی ہوئے جس پر مولا نا نے ایک وضاحت نامہ بھی ’’ مشرق ‘‘ گورکھپور کو روانہ کیا جو ۶؍ مئی ۱۹۲۰ء کو شائع ہوا۔وہ حسب ذیل ہے : 

 ’’فرنگی محل  ۲ شعبان  ۱۳۳۸ھ

مکر می دام مجدہ السلام علیکم

بعض حضرات نے مسائل ہجرت بذریعہ تار دریافت کیے ہیں اس کا جواب دے دیا گیا مگر مفصل نہیں ہے اس واسطے ان کی تفصیل عرض کر تا ہوں ۔امید ہے کہ شائع فرمادیجیے گا۔ 

ہجرت شرعاً دو طریقوں پر مستعمل ہے ۔ ایک ہجرت اوصاف سے دوسرے اوطان سے ۔

ہجرت اوصاف سے یہ ہے کہ ممنوعات شرعیہ کو چھوڑ دے اور اوامر کا پابند ہو ۔ یہ ہجرت ہمیشہ ہمیشہ تک مشروع ہے ۔

دوسری ہجرت اوطان سے ۔ یہ چند اقسام کی ہے ۔

۱۔ ہجرت مکہ سے حبشہ کی جانب دو مرتبہ ہوئی ۔ اس وقت جبکہ کوئی دار ِ اسلام نہ تھا تو دارِ شرک سے دارِ اہل کتاب کی جانب ہجرت ہوئی یا دارِ ظلم سے دارِ عدل کی جانب ۔ اور اگر نجاشی کا اسلام مان لیا جائے اور اصلِ حکم ِ دار بوجہ سلطان کے فرض کیا جائے تووہ بھی ہجرت دار ِ اسلام کی جانب ہوئی ۔

۲۔ ہجرت مکہ شریف سے جو اس وقت دارالحرب تھا مدینہ طیبہ کی جانب جو دارالاسلام تھا ۔ یہ ہجرت فرض تھی اور فتح مکہ کے بعد منسوخ ہوگئی ۔ یعنی جو ایمان لائے وہ ہجرت کرے تب تو تمام احکام میں مسلمانوں کا شریک ہے ورنہ نہیں ۔ یہاں تک توارث وغیرہ میں بھی حق نہیں ہوتا ۔ امام رازی کے مطابق یہ ہجرت اس وقت پھر فرض ہوجائے گی جب کہ مسلمانوں کی اگلی حالت لوٹ آئے اور سوائے ایک مامن کے کوئی نہ ہو ۔

۳۔ ہجرت بادیہ نشیں کی مدینہ طیبہ کی جانب ۔ یہ حقوق میں مساوات حاصل کر نے کے لیے ضروری تھی ۔ یہ بھی منسوخ ہوگئی بلکہ حکم ہوگیا کہ جہاں کوئی شخص پیدا ہوا اور اس مقام پر نماز وغیرہ ارکان اسلام ادا کر سکتا ہو تو اس کو ہجرت کی ضرورت نہیں ۔

۴۔ دار فسق سے دارِ عد ل و تقویٰ کی جانب ہجرت ۔ بلکہ اس زمین سے جہاں گناہوں کی کثرت ہو وہ خود مرتکب ہوں یا دوسرے یہ ہجرت مستحب ہے ۔

۵۔ دارِ حرب سے دارِ اسلام کی جانب ہجرت مستحب ہے اور بعض صورتوں میں واجب ہوجاتی ہے ۔ بلکہ توطن دارحرب میں بلا ضرورت شرعیہ حرام ہے۔ ہم لوگ ہندوستان کو دارالاسلام سمجھتے ہیں اور اعزاز دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت سے قیام کیے ہوئے ہیں ۔ اس واسطے ہجرت فرض نہیں جانتے ۔ بلکہ جب چارہ نہ ہو بجز اس کے کہ ہجرت کرے یا مبتلائے مصیبت رہے یا استرضا بالمعصیت کا ارتکاب ہو یا قیام وطن سے اس قدر خدمت نہ کرسکیں جتنی کہ باہر نکل کر کرسکتے ہیں تو ان صورتوں میں ہجرت مشروع ہے ۔ موجود ہ حالت میں ہندوستان سے اگر قابل و ذی استعداد لوگ کابل ہجر ت کریں یا محنتی و جفاکش لوگ ترک وطن کرکے وہاں جائیں تو امید ہے کہ اسلام کو فائدہ زائد حاصل ہوگا اور اپنے وطن عزیز کی بھی خدمت کریں گے ۔ احادیث سے آخر زمانہ میں شام کی جانب ہجرت کرنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ۔‘‘ 

اس پورے وضاحتی پیغام میں بھی ہجرت کے فقہی مسائل ہی بیان کیے گئے ہیں کہیں بھی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہندوستان سے ہجرت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ حوصلہ افزائی کی شکل میں لکھتے ہیں ’’موجود ہ حالت میں ہندوستان سے اگر قابل و ذی استعداد لوگ کابل ہجر ت کریں یا محنتی و جفا کش لوگ ترک وطن کرکے وہاں جائیں تو امید ہے کہ اسلام کو فائدہ زائد حاصل ہوگا اور اپنے وطن عزیز کی بھی خدمت کریں گے‘‘ ۔ جس قابل و ذی استعداد لوگوںسے ہجرت کی امید تھی وہ تو کیے نہیں بلکہ اکثر کم پڑھے لکھے لوگ ہی کیے جس پر ظفر احسن ایبک لکھتے ہیں ’’ امیر امان اللہ خاں کو امید تھی کہ ہماری جماعت کی طرح لکھے پڑھے ہندوستانی اس تحریک کے ذریعے افغانستان آئیں گے لیکن یہاں تو یہ ہوا کہ جتنے ان پڑھ کاشتکار تھے اس تحریک میں شریک ہوگئے ‘‘ الغر ض ہجرت کے مختلف فتووں کے بعد سادہ لوح مسلمانوں نے اپنے گھر اور کھیت آ دھے داموں فروخت کیے اور انجام ونتیجہ کو سوچے بغیر افغانستان کی جانب تقریبا ً اٹھارہ ہزارافرادروانہ ہوگئے جہاں مختلف مصائب کا سامنا کر نا پڑا ۔

ہجرت کی بات ہوگئی تو اب مختصراً بات کرتے ہیں جہاد پر ۔جب مولانا شوکت علی جہاد پر بات کر رہے تھے تو اس وقت شیخ الہند کے ما تحت مولانا عبیداللہ سندھی اپنا کام کررہے تھے اور ’مخلصین‘ کی جماعت پورے ہندوستان اور دیگر ممالک میں سر گرم تھے اور افغانستان ان کا میدان عمل تھا ۔ ان تمام باتوں سے اور شیخ الہند و مولانا سندھی کے پلان سے وہ واقف تھے اسی لیے وہ پہلے ہجرت کا لفظ استعمال کر تے ہیں جو افغانستان کی جانب ہونی تھی اور ہوئی بھی پھر جہاد کا جو افغانستا ن سے ہی ہورہاتھا ۔جس کا منصوبہ یہ تھا کہ ہندوستان کی سرحد سے باہر رہ کر ہندو ستان کی آزادی کے لیے افغانستانی اور قبائلی ہندوستان پر حملہ آور ہوجائیں اور ہندوستان کے اندر جو بہت سی خفیہ جماعتوں کے جو مراکز قائم تھے وہ جہاد کے لیے بیک دم کھڑے ہوئے جائیںاور ہندوستان کو آزاد کرالیا جائے۔ شواہدات سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے لیڈران کے ساتھ علی برادران بھی کچھ حد تک اس سے متاثر تھے جس کا ذکر وہ خطبہ میں کر گئے ۔ بلکہ بعد میں اس مسئلہ کو بہت ہی طول دیا گیا جس کو افغانی ہوا کے نام سے جانا گیا ۔ 

۱۹۱۹ء سے تحریک کی شروعات ہوتی ہے اور ۱۹۲۰ء میں عدم موالات کی تحریک زورپکڑتی ہے اور تحریک خلافت کا وفد انگلستا ن کو جاتا ہے ۔عدم موالات کی تحریک نے ہندو ستان میں انگریزوںکی جڑوں کو بالکل ہلا کر رکھ دیاتھا اس کڑی میں ہندو ستان میں انگریزی فوج کی ملازمت کو حرام قرار دیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اتحادی افواج میں ہندوستانیوں کی تعداد نہ کے برابر رہ گئی لیکن ترکی مکمل طور پر ٹوٹ چکا تھا پھر بھی ترکی نے یونان کے تینوںحملے کابھر پور جواب دیا اس زمانہ میں مصطفی خاں کے تدبر کا چرچہ عالمی پیمانہ پر ہورہاتھا جس کا اثر صلح نامہ سیورے کی ترمیم میں بھی نظر آیا۔ اس صلح نامہ کی رو سے تر کی کو میثاقِ ملی کی تقریباً کل شرطیں حاصل ہوگئیں ترکوں نے اپنے مطالبات مرتب کرنے میں کافی تدبر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا تھا اور ایسی چیزیں طلب نہ کی تھیں جو ناممکن الحصول ہوں ۔ اس فتح پر تحریک خلافت کے بہت ہی اثرات مرتب ہوئے جس میں سے ایک بڑی وجہ ہندوستان کی عام بغاوت تھی ۔ پورا ملک انگریز کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ ہندوستان کے سارے مسلمان سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اور گاندھی جی اپنی تمام تقریروں میں خلافت کو بنیادی حیثیت قرار دیے ہوئے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ خلافت مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے اور اس میں انگریزوں نے بے جامداخلت کی ہے اور ہمارے بھائی مسلمان آزردہ ہیں تو ہم کیسے مسرور رہ سکتے ہیں ۔اس لیے ہندوستان میں ’’ تحریک خلافت ‘‘ یہاں کے پرشور نعروں ، ہندو مسلمان اتحاد کے مناظر ، جیل خانوں کے پر کرنے کی تمناؤں ، اور گولی کھانے کی آرزؤں ، ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں کے اس متفقہ فیصلہ سے اسلام کو بچانے کی شکل صرف یہ ہے کہ ہندوستان سے انگریزوں کو اکھاڑ کر اس کی طاقت توڑدی جائے ۔ ان سب نے تر کان آل عثمانیہ کی بڑی سی بڑی امدد کی ۔ مسلمانوں نے طے کرلیا تھا کہ ہندوستان کو انگریزکے چنگل سے بہر حال آزاد کرایا جائے خواہ کچھ بھی ہو۔ یہ وجہ تھی کہ دنیا کے مسلمان کا ایک بڑا طبقہ جو ہندوستان میں تھا وہ انگریز سے سخت برہم تھا جس کا فائدہ ترکی کو ملا۔لیکن خلافت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی کہ نومبر ۱۹۲۲ ء کو مصطفی کمال نے ترکی کو ایک جمہوری ملک ہونے کا اعلان کیا اور سلطان وحید الدین کو معزول کردیا اور سلطان عبدالمجید خاں کو ان کی جگہ خلیفہ مقرر کر دیا گیا مگر ایک جمہوری ملک میں خلیفۃ المسلمین کا کیا کام۔پندرہ مہینہ کے بعد ۳؍ مارچ ۱۹۲۴ ء کو   نام نہاد خلافت کا خاتمہ مصطفی کمال پاشا نے کردیا اور ترکی دیگر حکومتوں اور سلطنتوں کی طرح ایک دنیا وی حکومت رہ گئی ، پاشا کے اس فیصلے سے ہندو ستان میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی جو مصطفی کمال پاشامسلمانوں کا ہیرو بن کر ابھر ا تھا اب لعن و طعن کا نشانہ بن گیا ۔ہندو ستانیوں کو بھی لعن و طعن کا شکار ہونا پڑا جو بھی خلافت کا طلبگار تھا اس کا حکومتی افراد و اخبارات نے خوب مذاق اڑایا گاندھی جی بھی اس کے زد میں آگئے تو انہوں نے ایک طویل مضمون لکھا کہ اس تحریک سے ہمیں کیا ملا ۔گاندھی جی لکھتے ہیں ’’ اگر میں کوئی پیغمبر ہوتا اور مجھے غیب کا علم دیا گیا ہوتا اور میں جانتا کہ تحریکِ خلافت کا یہ انجام ہوگا تب بھی میں خلافت کی تحریک میں اسی انہماک سے حصہ لیتا ۔ خلافت کی یہی تحریک ہے جس نے قوم کو بیداری عطا کی اب میں پھر اسے سونے نہیں دوںگا ‘‘ ۔ ان تمام عالمی مایوسیوں کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کا جوش و خروش بالکل قائم تھا ، خلافت کمیٹیاں اپنا کام کررہی تھیں ، جلسے ہورہے تھے جن میں احتجاج تھا اور اس بات کی بھی کوشش تھی کہ مصطفی کمال پاشا اپنا فیصلہ بدل لے ۔لیکن اب ان اجلاس کا کام صرف انگریزوں سے دشمنی کے لیے رہ گیا تھا تر کی کا واپس آنا پھر مقصد میں کامیاب نہ ہونا لاکھوں مسلمانوں کے لیے کر ب کا سبب بنا ہوا تھا خلافت کے ذمہ داران اورکارکنا ن ایسی تحریریں لکھ رہے تھے جن سے اب یہی احساس ہوتاہے کہ وہ خود کو تسلی دے رہے ہیں پھر بھی ان کی تحریک جاری رہی اور اب خلافت کے لیے حجاز کو میدان عمل بنا یا گیا۔ عر ب ممالک کے ترکی سے الگ ہوجانے کے بعد ہندو ستان کے علماء نے خلافت کے لیے ایک اور کوشش کی کہ اب حجاز میں خلافت قائم ہوجائے اور وہ دنیا کے مسلمانوں کی سربراہی قبول کر لے اس کے لیے خلافت کمیٹی نے ایک وفد مولانا سید سلیمان ندوی کی قیادت میں روانہ کیا جس میں تمام مسالک کے علماء تھے جو مکمل ہندو ستان کی نمائندگی کررہے تھے ۔لیکن شریف مکہ نے وفد کی اس تجویز کو کہ حجاز میں اسلامی جمہوری حکومت عالم اسلام کی رائے سے قائم ہو کو نامنظور کر دیا اور مزید آگے کی سفر کی اجازت نہیں دی ۔ اس کے بعد ہندوستان میں ایک لمبی بحث طرفداران شریف اور عبدالعزیز میں چلی جس میں خلافت کمیٹی بھی دو حصوں میں بٹ گئی ایک علی برادران کی اور دو سری طرف مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی جماعت تھی جن کے ساتھ مولانا عبدالماجد بدایونی اور مولانا نثار احمد کانپوری وغیرہ تھے جن کی ایما ء سے انجمن خدام الحرمین قائم ہوئی جس میں شیخ مشیر حسین قدوائی اور سید جالب دہلوی بھی شریک تھے ان لوگوں نے ایک عظیم الشان جلسہ رفاہ عام میں کیا اور دل کھول کر سلطان ابن سعود نشانہ میں لیا ۔ اس وقت علی برادران کی جماعت کو عوام سے بالکل بھی معاونت نہیں ملی یعنی جس محمد علی جوہر کی تقریر سننے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سامعین آتے تھے اس وقت ہزار بھی میسر نہیں ہوئے جس پر مو لانا ابو الکلام آزاد لکھتے ہیں ’’ تم جس تیزی سے دوڑ کر آتے ہواسی تیزی سے فرار بھی کر جاتے ہو، پس نہ تمہار ی تحسین کی کوئی قیمت ، تمہاری توہین کا کوئی وزن ، تم نہ دل رکھتے ہو نہ دماغ ، وساوس ہیں جنہیں افکار سمجھتے ہوخطرات ہیں جنہیں عزائم کہتے ہو ۔‘‘ الغرض خلافت تحریک اپنا دم توڑ چکی تھی محمد علی جوہر کی کوشش پھر بھی مستقل جاری تھی لیکن نئی حکومت میں اس قدر حوصلہ نہیں تھا کہ وہ خود کو اس کے لیے تیار کر سکے، کمیٹیاں قائم تھیں تواس کے اجلاس ہورہے تھے۔مو لا محمد علی جوہر کی وجہ سے اس خلافت کے چراغ میں اب بھی رمق باقی تھی لیکن چراغ جلا نے والے مولا فرنگی محلی ۱۹۲۶ء میں ہی دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔


’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...