Tuesday 3 December 2019

غزل اور فن غزل

 غزل اور فن غزل


موجودہ وقت میں اردو کے کہنہ مشق استاد شعراء میںظہیر غازی پوری کا اہم نام ہے ۔ان کی شناخت جہاں ایک شاعر کے طور پر ہے وہیں غزل کے اہم ناقد کے طور پر اردو دنیا میں مقبول و معروف ہیں ۔ان کے قلم سے اکثر تحریریں شاعری کی فنی باریکیوںپر اس بے استادی کے دور میں پختہ و ناپختہ شاعر کو متوجہ اور متنبہ کر نے کے لیے معرض وجود میں آتی رہتی ہیں ۔گو کہ وہ اردو کے پروفیشنل نقاد نہیں ہیں لیکن ان سب کے درمیان ایک مستحکم نظر یہ پیش کرنے والے کی شناخت رکھتے ہیں ۔وہ اکثر اپنی تحریر کو بہت ہی چانچ پر کھ کے بعد قارئین کے سامنے پیش کر تے ہیں ۔

مصنف کی زیر تبصرہ کتاب گیارہ عنوانات پر مشتمل ہے ۔سب سے پہلے’ جدید اردو غزل کا دوسرارخ ‘ میں جہاں وہ موجودہ غزل کی بہت ساری خوبیوں کو شمار کر واتے ہیں وہیں و ہ فنی طور  پر ناکام رہنے والوں پر بہت ہی نالاں نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں ’’ در اصل جد ید غزل سے ان لوگوں کو زیادہ نقصان پہنچاہے جو شعری اور فنی تقاضوں سے پوری طر ح واقفیت نہیں رکھتے ‘‘،’’ آج ابہام کو ہنر سمجھا جانے لگا ہے۔ بات صر ف ابہام تک محدود ہوتی تو زیادہ خطر ہ نہ تھا لیکن اب تو قوافی ، اوزان ، تعقید ، اور اضافت کے معمولی معائب بھی جا بجا اشعار میں مل جا تے ہیں اور بے ساختہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ‘‘ (ص۱۹)۔

اس کے بعد’’ غزل ایک جانب دارصنف سخن ‘‘ میں غزل کے اوصاف وخصائص کو شمار کرواتے ہوئے اس کی بھر پور وکالت کرتے ہیں اور’’نیم وحشی صنف شاعر ی میں‘ ‘ کلیم الدین احمد کے اس قول کا منطقی و فلسفی جواب دیتے ہیں ۔اسی کڑی کو وہ آگے ’’ صنف غزل میں مسلسل یلغار ‘‘ میں بڑھاتے ہیں ۔اس میں وہ ستیہ پال آنند کے مضمون ’’ کہی گئی یا بنائی گئی شاعری‘‘ جو ماہنامہ صریر کراچی میں شائع ہوا تھا پر سیر حاصل گفتگو کر تے ہیں ۔اپنی اس گفتگو میں وہ افتخارامام صدیقی، عزیر پریہار، مخمور سعیدی، مصور سبزواری، پروفیسر محمد حسن ، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی ، رام لعل ، ڈاکٹر اسلم حنیف ، برتپا ل سنگھ بیتاب ، جمیل فاطمی ،اندر موہن کیف وغیرہ کو ان کی تحریروں کے ساتھ شامل کر تے ہیں ۔اس پوری بحث میں جو بھی غزل میں یلغار کر تا ہے یا خواہش مند ہے اس کے لیے تسلی بخش جواب ہے ۔’’ نئی غزل میں تخلیقی لفظ و زبان ‘ ‘ پر بحث کر تے ہوئے مصنف نے لفظ و معنی اور موضوع پر بھی بحث کی ہے نیز موجودہ وقت کی شعری زبان کو ان عوامل کی باز گشت کہا ہے جو انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو کرید رہی ہے ۔عروضی و فنی معائب تحر یر کر تے ہوئے مصنف کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ جدید شاعروں میں اکثر یہ خامیاں کسی باریک بیں فن کار استاد شاعر سے تلمذ اختیار نہ کر نے اور مشورہ نہ لینے کی وجہ سے نظر آتی ہیں ۔ اس میں انہوں نے شعر کی جلی و خفی فنی کمیوں کو پیش کیا ہے جو اکثر عدم توجہی او رلا علمی میںشاعر سے سرزد ہوتی رہتی ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے جہاں کئی فنی خوبیوں اور کوتاہیوں کو بیان کیا ہے وہیں خصوصی طور پرایطا ء کا تفصیلی ذکر بھی ہے ۔ایطا ء جو شعر کی اصطلاح میں ایک غلطی کا نام ہے اس کی تفصیلی تعریف استاد شعر اء کی تحر یروں سے نقل کر تے ہیں پھر مصنف اس کی تمام فنی باریکیوں پر سیر حاصل بحث کر تے ہیں اور تمام بڑے شعراء کے کلام میں ایطائے جلی و خفی کو پاتے ہیں ۔ جس سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایطا ء کو ئی بڑا عیب نہیں ہے ۔اس کے بعدردیف و قوافی کے مسائل بھی تحر یر کر تے ہیں ۔

اخیر میں’’ غزل چہر ہ آئینہ در آئینہ ‘‘کے عنوان سے غزل کی تمام پرتوں کو مشہور ناقدین شعر کے حوالے سے اپنے خیالا ت و نظر یات کو مزین کر کے پیش کرتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب سے پہلے ان کی تین کتابیں تنقید کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہیں ۔ان میں سے خصوصاً ’’مطالعہ ٔ اقبال کے چند اہم پہلو‘اپنے موضوع میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ شاعر ی میں کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، رباعی کا بھی ایک مجموعہ ’’دعوت صد نشتر ‘‘1997 میں منظر عام پر آیا ۔

 الغر ض کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ کی طویل محنت ومشقت اور جانفشانی کے بعد اس کتاب کو مارکیٹ میں لایا گیا ہے جو یقینا شاعروں اور غزل شناس حضرات کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے ۔ہمیں امید ہے کہ ادب کے اس بے لوث خدمت گار کو مالک حقیقی سے بہترین اجر ملیگا۔

مصنف : ظہیرؔ غازی پوری 
صفحات :  160
قیمت:  200 روپے
سنہ اشاعت: 2015
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔6
مبصر: امیر حمزہ L-11/14 حاجی کالونی ،غفار منزل ، جامعہ نگر ،نئی دہلی ۔25

امعان نظر

امعان نظر

بدری محمد کا شمارہ موجودہ وقت میں بہار کے ادبی صحافت میں عمدہ نثر نگار کی حیثیت سے ہوتاہے ۔صحافتی مضامین کے علاوہ ان کے تنقیدی ، ادبی و نیم ادبی مضامین رسالوں کی زینت بنتے رہے ہیں نیز گاہے بگاہے ان کے تخلیقی ذہن نے موزوں مصر عے بھی وضع کیے ہیں جس کااچھا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ۲۰۱۱ء؁ میں ایک غزل کا مجموعہ ’’ بنت فنون کا رشتہ ‘‘ شائع ہوکر قبولیت عام حاصل کر چکا ہے ۔
زیر تبصر ہ کتاب مصنف کی دو سری کتاب ہے جو اپنی نوعیت میں اہمیت کی حامل ہے وہ اس طو ر پر کہ اب تک بہت ہی مشہور و غیر مشہور حضر ات کے تبصر ے کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، تا ہم ان میں تبصروں کا انتخاب اس طور پر نہیں جو انتخاب اس کتاب میں عمل میں لایا گیاہے ۔اس میں مصنف نے نہ کسی مصنف کی کتاب پر تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی کسی ناقد کی کتاب پر ، نہ شاعر کے شعری تخلیق پر اور نہ ہی افسانہ نویس کے افسانوی مجموعے پر ، نہ ہی کسی مزاح نگار کے خاکہ و انشائیہ اور طنز و مزاح کے مضامین پر اور نہ ہی کسی ڈارمہ نگار کے ڈراموں پر، نہ ہی سوانح نگار کے حقیت بیانی پر اور نہ ہی کسی سیاح کے سفر نامہ پر بلکہ یہ تمام تبصر ے ملک کے مشہور و معرو ف مجلات کے خصوصی شماروں پر ہیں جس میں ملک کے اعلی وادنی قلم کاروں کی تحریریں شامل ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے ملک کے ۱۱؍اہم مجلات کے ۲۴؍ خصوصی شماروں پر کیے گئے ان تبصر وں کو شامل کیا ہے جو قومی تنظیم ، پندار، راشٹریہ سہارا، سنگم اور فاروقی تنظیم میں شائع ہوچکے ہیں ۔ یہ تمام تبصر ے نہ تو مختصر ہیں اور نہ ہی طویل بلکہ متوازن ہیں ۔

تبصر ہ در اصل تنقید کی ہی ایک شاخ ہے جس میں تبصرہ نگار محض اس کتاب کو موضوع بناتا ہے جس پر وہ تبصر ہ کر رہا ہے نیز اس کے مشتملات پر روشنی ڈالتا ہے اور  قارئین کے سامنے خوش اسلو بی سے پیش کر نے کی کوشش کر تاہے تاکہ قارئین کی توجہ اس کتاب کی جانب متوجہ ہو ۔ ایسے تبصر ے اکثر رسائل و جرائد میں پڑھنے کو مل جاتے ہیں ۔کچھ تبصرے ایسے ہوتے ہیں جو تقابلی ہوتے ہیں ۔ وہ اس طور پر کہ جس کتاب پر وہ تبصر ہ کر رہے ہیں اس موضوع سے متعلق دو سری کتابوں پر بھی ان کی نظر رہتی ہے اور وہ اس چیز کو واضح کر نے کی کوشش کر تے ہیں کہ موجودہ کتاب ماقبل کی شائع شدہ کتابوں سے کس قدر مختلف ہے ، اس نئی کتاب میں کن کن نئی چیزوں کو شامل کیا گیاہے یا تخلیق میں کن کن نئی نظریات و مسائل کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تا ہم اس کتاب میں پہلے طر یقے کوہی اپنا یا گیا ہے ۔

اس کتاب میں زبان ادب ، ماہنامہ انشاء ، نیادور ، کتاب نما اور آج کل کے کئی نمبر وں کا تبصر ہ شامل ہے ۔اس کے علاوہ مصنف نے کئی دیگر ماہنا موں و سہ ماہی مجلات کے مضامین کو بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہے ، اس کے بعد ان تمام مضامین کے اہم نکات کوتبصر ہ میں شامل کر کے اس مضمون کی وسعت و محدودیت پر گفتگو کی ہے ۔ان تمام میں وہ صرف توصیفی پہلو کو ہی سامنے نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان میں غیر پختگی اور ڈھیلے پن کی جانب بھی اشارہ کرتے جاتے ہیں ۔جیسے حفیظ بنارسی نمبر پر لکھتے ہیں ’’ حفیظ بنارسی کو رسالے اور مشاعرے کا مقبول شاعر بتاتے ہوئے ان کے تر نم کی بار بار تعریف کی گئی ہے جب کہ تر نم شاعری کے لیے ضروری چیز نہیں ہے ۔اس سے شاعر سامع یا مشاعر ہ کو تو فائدہ پہنچ سکتا ہے شاعری کو نہیں ‘‘ ۔

اس میں شامل ایک اہم تبصر ہ ماہنامہ ’’ انشاء‘‘ کے گفتنی نمبر پر بھی ہے ۔ انشاء کا یہ نمبر ف س اعجاز کے اداریوں کا مجموعہ ہے ۔ اس میں انہوں نے ان کے اداریوں کی ستائش کی ہے ، وہیں اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ ان سے بھی اچھے اداریے لکھنے والے موجود ہیں اور رہے ہیں ۔ وہیں دو سری جانب یہ بھی لکھا ہے کہ دوسرے صحافیوں کے لیے اس میں تر غیب ہے کہ اداریے معیاری ہونے چاہیے ۔ کئی تبصرے ایسے ہیں کہ مصنف نے کہیں کچھ چھپانے کے لیے رکھا ہی نہیں بلکہ اپنی شستہ انداز تحریر اور دلکش اسلوب بیان میں تمام نکات و کمیاں کو گنا تے چلے گئے ہیں ، اور یہ بھی نہیں کہ صر ف بڑے پائے کے قلم کار کو ہی زیا دہ پیش کر نے کی کو شش کی ہے بلکہ ریسر چ اسکالر کی تحریروں پر بھی اپنی رائے سے نوازا ہے ۔

اس کتاب میں انہوںنے جن معیاری مجلات کو تبصرے کے لیے انتخاب کیا ہے وہ ان کی تنقیدی ذوق کی جانب اشارہ کرتا ہے ۔ پھر تمام تبصر و ں میں اپنی ایک محکم رائے سے نوازنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مصنف موجودہ دور کے تخلیقی و تنقیدی تحر یروں سے کس قد ر واقف ہیں ۔الغر ض یہ کتاب تبصر ے کے حوالہ سے اہم کتاب ہے جو معلوماتی بھی ہے اور تبصرہ نگار ی میں قدم رکھنے والوں کے لیے مشعل راہ بھی ۔ امید ہے کہ مصنف کی اس کتاب سے لوگ استفادہ کریں گے اور علمی حلقوں میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی ۔

مصنف بدری محمد
صفحات ۱۵۲
قیمت ۲۵۱
سن اشاعت ۲۰۱۵
ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی 
مبصر امیر حمزہ ،ریسرچ اسکالر : شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی ،دہلی 

شعرو نثر کی جمالیات

شعرو نثر کی جمالیات 


 کتاب کے اس نام سے آپ روشناس ہوئے تو فوراً آپ کے ذہن میں یہ بات گردش کرنی لگی ہوگی کہ یہ کتاب بھی ان ہی عناوین ، موضوعات اور نظر یات کا احاطہ کر رہی ہوگی۔ جو جمالیات کے عنوان پرلکھی گئیں پروفیسرشکیل الرحمان ، پروفیسر عتیق اللہ ، پروفیسر قاضی عبدالستار ، اصغر علی انجینئراور حقانی القاسمی وغیرہ کی کتابیں ہیں ، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں آپ کو ۳۲ ؍ شعرا و نثر نگاروں کی تخلیقات پر محض تاثر اتی اور محاسن کومرکوز نظر رکھ کر لکھے گئے تجزیاتی وتاثراتی مضامین ملتے ہیں ۔جن میں سے چند مضامین کی نوعیت کے بارے میں بھی آپ کو متعارف کر اتا چلوں ، اس کتاب کا پہلا مضمون غالب کی یکجہتی کے تصورات پر ہے جس میں انہوں نے قاری کے اذہان میں ان کی شاعری اور زندگی کے حوالے سے یہ سامنے لانے کی عمدہ کوشش کی ہے کہ غالب نے خود کو تمام رسوم وقیود سے آزاد رکھ کر انسانی فطرت کی زندگی کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے اور اسے جیا بھی ہے ۔ساتھ ہی مصنف نے ایک بہت ہی دلچسپ بات لکھی ہے جس پر شاید ہر قاری ضرور کچھ نہ کچھ سوچ کر اپنی رائے قائم کر ے گا۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اپنی تمام تر عظمت و بر گزیدگی کے باوجود بہ ہر حال یک رنگ شاعر ہیں ۔… جبکہ غالب کے ہاں ہمیں عشق بھی ملتا ہے ، در د کوشی بھی اور اپنی حالت زار نشاط نچوڑ لینے کا حوصلہ بھی ۔ یہ وہ خصوصیات ہیں ، جو غالب کو ایک آفاقی شاعر بنادیتی ہیں ۔‘‘ اس کے بعد دومضامین میر و غالب کے ہمعصر’ شمس گلاؤٹھوی ‘اور شاگرد دا غ ’سردار بہادر فریاد‘ کی شاعری پر ہے ۔ یہ دونوں اردو کے اہم ادوار میں اپنی شاعری کرتے ہیں لیکن بعد کے عام قارئین و طلبا کے لیے نہ ہی ان کا نام سامنے آتا ہے اور نہ ہی ان کی شاعری ،جس کو مصنف نے محاسن کے ساتھ پیش کیا ہے ۔اب شعری محاسن کے بعد پر یم چند کی نثر کی جانب آتے ہیں جہاں وہ ان کے فکشن کے محاسن کے بعد ’ پوس کی رات ‘ پر گفتگو کر تے ہیں ۔ کتاب کا یہاں تک سفر کر نے کے بعد واپس ابتدائیہ کی جانب لوٹتے ہیں جہاں ’’ سخنے چند ‘‘ کے عنوان کے تحت شاہ اجمل فاروق ندوی مصنف کے متعلق لکھتے ہیں ’’ آپ کو ان کے ہاں ہر دور کے فن کار وں پر تنقیدی مضامین ملیں گے ۔ غالب و مصحفی سے لے کر معاصر فن کا روں تک ، انہوں نے ہر اس فن کا ر کے فن پر گفتگو کی ہے ، جس کو کسی بھی ناحیے سے انہوں نے لائق اعتنا سمجھا ۔ ان کی تنقید کا ایسا نمایاں وصف ہے جو ہماری آج کی تنقید میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ‘‘ اس کو نقل کر نے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس میں تین دعوے کیے گئے ہیں ، پہلے تو ’’ ہر دور ‘‘ کا ذکر کیا پھر اس کوغالب و مصحفی سے ہمعصر تک میں خاص کردیا گیا ۔ دوسر ا جس نے بھی کچھ خاص لکھا تنقید کی، اسی کا اضافی جزو ہے کہ ایسا آج کے دور میں عموما ً نہیں کرتے ہیں ۔یقینا یہ تینوں باتیں ان کی اس کتاب میں مکمل طور پر صادق آتی ہیں ،کیونکہ ناقدین عموماً جگر پر لکھتے ہیں لیکن مانی جائسی اور مولانا محمد احمدپرتاب گڑھی کی شاعری پر کون لکھتا ہے ؟ مودودی کی نثر اور فیض کی شاعری پر مضامین آپ کی نظر سے ضرور گزریں گے، لیکن شرافت حسین رحیم آبادی کا ادب اطفال ، متین طارق کی اصلاحی شاعری اور حفیظ میرٹھی کا انقلابی رنگ کاغذوں میں کہاں جھلکتا ہے ۔اقبال کے رنگ میں شاعری کرنے والوں کی فہرست بہت ہی لمبی ہے لیکن مقالات میں پانچ سے دس پر ہی بس کردیا جاتا ہے تو ایسے میں اقبال کے پیرو کار عمر فاروق عاصم عثمانی کیسے سامنے آسکتے ہیں، جن پر مصنف نے روشنی ڈالی ہے ۔بہت ہی کم ایسے جدید اورموجودہ شاعر ہیں جن کی شاعری پر کچھ لکھا جاتا ہو سوائے ان کے شعری مجموعوں پر تبصرے کے ۔تو یہ طلسم بھی ان کے یہاں ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ ان کے یہاںشجاع خاور، پروفیسر وسیم بریلوی اور ڈاکٹر نواز دیوبندی ہیں تو ساتھ ہی تو بہت ہی زیادہ رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے مہدی پر تاب گڑھی او ر وقار مانوی بھی ہیں ۔انہوں نے جہاں اسلام فیصل کے دوہوں پر لکھا ہے وہیں طرب ضیائی کی رباعیوں پر بھی خامہ فرسائی کی ہے ۔ الغر ض جو دعوے ’’سخنے چند‘‘ کے مذکورہ اقتباس میں کیا گیا ہے اس پر عمل بھی نظر آتا ہے ۔عموماً زبانی طور پر ہر ادیب دعویٰ کر تا ہے کہ ہم گروہ بندی کے قائل نہیں ہیں ایسا ہی دعویٰ کچھ ان کی طرف سے بھی کیا گیا ہے اس لیے شاید انہوں نے شاید شاعروں کی شہر ت و اہمیت کا خیال کیے بغیر ان کی اہمیت کو اجاگر کر نے کی کوشش کی ہے ۔ ادب کے قاری اور ہم طلبا کے لیے ایک قابل غور دعویٰ یہ ہے کہ ’’ تابش مہدی اہل فن کے محاسن کو ابھارنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ موجودہ دور میں جب کہ کیڑے نکالنے ، ٹانگ گھسیٹنے اور خورد بین سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر کمیاں نکالنے کا نام تنقید پڑگیا ہے ، ایسے ماحول میں ڈاکٹر تابش مہدی کا تحسین آمیز یہ تنقیدی رویہ مزید اہمیت کا حامل ہوجاتا ۔ ‘‘ یہ بھی اس کتاب میں بجاہے کیونکہ کسی بھی معاصر کے فن کی کمیوں پر ایک حر ف بھی نہیں سوائے پہلے مضمون کے جس میں غالب کو آفاقی اور میر تقی میر کو یک رنگی شاعر کہا گیا ہے ۔

مصنف تابش مہدی 
صفحات ۲۸۸ 
قیمت ۳۰۰ روپے
سنۂ اشاعت ۲۰۱۹ء
ناشر ادبیات عالیہ اکادمی ،G5/A ، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ، نئی دہلی 
 تبصر ہ نگار امیر حمزہ 
L11/14 حاجی کالونی ، جامعہ نگر اوکھلا 

Thursday 28 November 2019

شمالی ہند میں اردو کی تر ویج وتر سیل کے امکانات


شمالی ہند میں اردو کی تر ویج وتر سیل کے امکانات


تر ویج باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنی رواج دینے کے ہوتے ہیں اور تر سیل بھی اسی باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنی پہنچانے کے ہوتے ہیں ۔ معانی مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اطلاق الگ الگ ہوتا ہے ، البتہ اکثر مقامات پر تر سیل تر ویج کے بعدردعمل کے طور پر نظر آتا ہے۔ ترویج جہاں اپنے معانی میں بسیط ہے وہیں تر سیل اپنے معنی میں یک گونہ محیط نظر آتا ہے ۔کسی چیز کو رواج دینا حکومت ، جماعت اور تنظیموں سے لیکر ایک فرد کی جانب سے بھی نظر آتا ہے ، اور اس کے دائرے میں نامعلوم افراد ہوتے ہیں ۔ رواج دینے والے جماعت کو اس چیز کا علم نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے اس مشن سے کون کو ن لوگ جڑ رہے ہیں اور ہمارا یہ پیغام کہاں کہاں تک پہنچ رہا ہے ۔مثلا حکومت کا صرف یہ اسٹیٹمنٹ کہ اردو زبان اس ملک کی بالکل جدید تر ین زبان ہے اور رابطہ کی زبان کے طور پر اسے ہم خوب استعمال کر سکتے ہیں ۔حکومت کا یہ اسٹیٹمنٹ محض ترویج کے دائرہ میں آئے گا ۔اب وہ اس کی تر سیل کے طور پر اسکو لوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرری اور کور س کے نفاذ کے لیے لائحہ عمل تیار کرے گا یہ تر سیل کے عمل کی جانب پہلا قدم ہوگا ، جب کلاس روم میں طلبہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اردو زبان سیکھیں گے تو یہ ترسیل ہوگا ۔ترسیل کا تعلق مر سل سے مر سل الہیم تک ہوتا ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ مر سل کلاس روم کا استاد ہی ہو۔ مر سل کے طور پر ہر وہ شخص یا ہر وہ چیز آجائے گی جس سے وہ اردو سیکھ رہا ہے ۔ اور تر ویج میں ہر وہ چیز آجائے گی جس سے وہ اردو کی جانب مائل ہورہا ہے ۔
عہد سر سید سے ہی اردو کچھ سیاسی اور مذہبی منافرت کی وجہ سے نشتر بن کر چبھنے لگا تھا اور وہ سلسلہ اب تک جاری ہے جس کا مرثیہ تقریبا ہم ہر محفل میں پڑھتے ہیں ۔لیکن اردو نے کبھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا البتہ کہیں ٹھہری ضرور ہے جیسے آزادی کے وقت اور ستر کی دہائی میں لیکن پھر بھی وہ اپنا قدم شوق والو ں کے ساتھ جاری رکھی اور اب تک جاری ہے ۔
موجودہ زمانے میں زبان کی ترویج و تر سیل کے بنیادی مراکزتعلیمی ادارے ، سر کاری دفاتر ، تجارتی مراکز، صحافت ، کارپورریٹ سیکٹر اور ان سب سے بالا تر سوشل میڈیا ہے ۔
زبان کے پھلنے اور پھولنے کی سب سے بڑ ی جگہ تعلیمی مراکز ہوتے ہیں شمالی ہندمیں اردو میڈیم کے تعلیمی مراکز ہزاروں کی تعداد میں ہیں جہاں سے موجودہ وقت میں لاکھوں اردو لکھنے اور پڑھنے والے تیار ہو رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹی تک پہنچ کر اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں جس سے اردو کا گمشدہ ماحول کچھ حد تک بحال ہوا ہے ۔ اس متعلق سب سے پہلے ہم دارالحکومت دہلی کا تجزیہ پیش کر تے ہیں ۔

دہلی

دہلی میں مسلم اکثریتی علاقہ صرف اور صر ف تین ہیں اور ان ہی علاقوں میں اردو میڈیم اسکولیں ہیں جن کی تعداد بہت ہی کم ہے البتہ ٹوٹل1024 اسکولوں میں سے صرف 256 اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے ۔ یہ وہ اسکول ہیں جو دلی ڈائرکٹوریٹ سے وابستہ ہیں ۔ لیکن اس کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میںایسے بھی پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکو ل ہیں جہاں مستقل اردو کی تعلیم ضمنی طور پر دی جاتی ہے ۔اس طر یقہ سے ہزاورں بچے ہیں جو سندی طور پر اردو پڑھتے ہیں ۔

دہلی میں اردو کے اتنے کثیر مواقع ہیں کہ مختلف الصفات حامل اردوداں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اس پیش نظر وہاں اردو کی جانب رغبت دیگر علاقائی زبانوں سے زیادہ نظر آتی ہے ۔اس کا اثر خاص طور سے ہمیں jnu اور DU میں نظر آتا ہے ۔جامعہ میں اس وجہ سے نہیں کہ وہاں اردو لازم ہے ۔ 

صرف دہلی یونی ور سٹی میں تقریبا ایک ہزرا طلبہ شعبہ اردو سے منسلک ہیں ۔200 ریسر چ میں ،120 ماسٹر میں 60 پی جی ڈپلوما میں ، اور 600 سے زائد بچے ڈپلومہ میں ہیں ۔یہ تعدا د چار سار پہلے صر ف اور صر ف 400 تک تھی ۔ا ن کے علاوہ دہلی یو نی ورسٹی سے منسلک 80 کا لج میں اردو کی تعلیم کی کیا صورت حال ہے وہ بالکل اس سے الگ ہے ۔ڈپلو ما میں جو طلبہ آتے ہیں اس میں نوے فیصد غیر مسلم طلبہ ہوتے ہیں جو بہت ہی شوق سے اردو سیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔

اس ڈپلومہ سے بظاہر ان کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کو ایک سر ٹیفکیٹ مل جاتاہے اور مہنگے مواصلاتی نظام میں ان کو بہت ہی زیادہ رخصت مل جاتی ہے جو اک اعتبار سے وہ اس کورس سے اچھا خاصہ پیسے کی بچت کر لیتے ہیں ۔دہلی میں جو بھی فردکالج سوسائٹی کو تر ک نہیں کر نا چاہتا ہے اس کے اند ر یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ خود کو کسی نہ کسی کورس سے ہمیشہ وابستہ رکھتا ہے ۔ اس صورت میں جہاں تمام زبانوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہیں اردو سب سے مر غوب ہونے کی وجہ سے اپنے پر وں کو زیادہ پھیلا لیتا ہے ۔

اعلی تعلیمی درجات میں زبانوں کی تر ویج کے لیے دہلی یونی ورسٹی نے ایک انوکھی پالیسی بنائی جو اردو کے لیے بہت ہی زیادہ سود مند ثابت ہورہی ہے ۔ وہ اس طور پر کہ پہلے یوں ہو تا تھا کہ ایم اے کی سطح پر عر بی یا فارسی میں سے کوئی ایک مضمون اردو والے اختیار کر تے تھے ۔دیگر ڈپارٹمنٹ کا تو علم نہیں ۔ لیکن اب یہ ہوا کہ آرٹس فیکلٹی میں جتنے بھی کو رسس ہیں وہ بلا کسی شر ط کے انہیں کسی دوسرے شعبہ سے وابستہ ہو ناہے جہاں آپ کو اپنے مضمون کے علاوہ کوئی دوسرا مضمو ن پڑھنا ہوگا اس سے اردو کو یہ فائدہ ہو ا کہ ہندی ، انگریزی ، سنسکرت ، بدھسٹ ، پنجابی، فرنچ اور اسپینش کے بچے اردو کی جانب بخوبی راغب ہوے ۔اور اردو اپنے روایتی حلقہ سے غیر روایتی حلقوں میں پڑھی جانے لگی ۔تر ویج کچھ بھی ہو البتہ تر سیل عمل میں آگئی ۔جامعہ میں یوں ہوا کہ جن بچو ں کا 10th یا +2 میں اردو نہیں تھا ان کے لیے ابتدائی اردو لازم کر دی گئی وہ پہلے دو سال کا ہوتا تھا اب صر ف ایک ہی سال کا محدود کر دیا گیا اور پہلے کی طر ح اصل مضمون کے ساتھ اس کا نمبر بھی نہیں جڑتا ہے۔ جے این یو میں یہی صورت حال گر یجویشن کی سطح پر پائی جاتی ہے جہاں غیر روایتی بچے اردو سیکھنے کے لیے ایک معتد بہ تعداد میں نظر آتے ہیں ۔پھر یہی بچے سر ٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کر کے اپنی صلاحیت میں اضافہ کر تے ہیں او ر یہ ا ن کے لیے سو ہان روح اس وقت ثابت ہوتا ہے جب وہ جر نلز م کی جانب قدم بڑھاتے ہیں تو اس میں ان کے لیے معاون اور مدد گار ہوتا ہے ۔

دہلی میں ایف ایم ریڈیو سننے کا کلچر بہت ہی عام ہے ، اور اس کی عام زبان بہار و یوپی کی طر ح ہندی متاثر زبان نہیں ہے بلکہ اردو کا سلیس استعمال ہے اور کوئی بھی ایسا ریڈیو جاکی نہیں ہوگا جو شاعری سے اپنے پرو گرا م کو خوبصورت نہیں بنا تا ہوگا ۔کیونکہ غائب سامعین کو خود کی جانب متوجہ کر نا میٹھی زبان اور شاعری سے ہی ہوتی ہے ۔ نوجوانوںکو اردو ماحول کی جانب راغب کر نے میں اردو ریڈیوکا خا صہ کر دار ہے ۔کوئی بھی ریڈیو اسٹیشن نہیں ہے جو خالص اردو میں کوئی نہ کوئی اپنا پروگرام نہ پیش کر تا ہو گا ، سر کار ی کے علاوہ پروائیویٹ اسٹیشنوں میں ریڈیو مر چی کا خصوصی ذکر کر نا مناسب ہوگا کیوں کہ انہوں نے اپنے خصوصی پروگر ام میں منٹو کو اہم مقام دیا اور ”ایک پرانی کہانی سعادت حسن منٹو“ کی سریز پیش کی جس کی ایک کہانی کو ہندی ٹی وی جرنلزم کے جانے مانے جرنلسٹ رویش کمار نے بھی پیش کیا تھا ۔ ایف ایم ریڈیو میں اردو شاعری کو اچھے انداز میں بارہا پیش کرنے کا سہرا آرجے سائمہ کے سر جاتا ہے انہوں نے ہی منٹو کی کہانیوں کو اپنی آواز میں پیش کیا جس کا اثر یہ نظر آیا کہ گذشتہ بک فیر میں چیتن بھگت اپنی جگہ پر لیکن سب زیادہ جن کی کہانیوں کی مانگ تھی وہ منٹو کی کہانیا ں تھیں ۔

گزشتہ تین برسو ں میں دہلی میں بڑے بڑے اردو کے میلے لگے جن میں سب سے نمایا ں جشن ریختہ ہے ۔ جشن ریختہ کی جو تھیم رہی ہے وہ یہ رہی کہ انہوں نے اردو سے منسلک آرٹسٹوں کو نمایاں جگہ دیا اور وہ یو تھ کے لیے سب سے زیا دہ جاذب رہا ۔۵۱۰۲ میں جب ضیاءمحی الدین جیسے بڑے ادا کار تشریف لائے تھے اس میلہ میں ۰۸ فیصد غیر روایتی اردو سے محبت رکھنے والے طبقہ کو دیکھ کر دل کو یہ احسا س ہوا کہ ذوق شوق کسی طور پر بھی غیر روایتی اردو داں طبقہ میں ارد و سے محبت کے تئیں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔بس ضر ورت ہے تو اس کے تر ویج کی، جو اس وقت نظر آئی اور یہ تر ویج کا بہت بڑا پلیٹ فار م ہے۔ پھر اس طر ز کے کئی پروگرام ہوئے جس میں سے ایک جشن ادب ہے جو سال میں دو مرتبہ ہوتا ہے یہ آج کل جامعہ ہمدرد میں منعقد ہوتا ہے اور ساہتیہ آج تک بھی ہے جس میں اردو کو بھی ایک گوشہ ملا اور اردو کے فن کار اس میں شر یک ہوئے اور وہاں سے اردو کی تر ویج غیر اردو دا طبقہ میں نظر آئی ۔

اتر پردیش 

سرکاری اعداو شمار کے مطابق اتر پردیش کی اردو آبادی تقریبا دو کروڑ پر مشتمل ہے اور اردوپر ستم ظریفی یہ ہے کہ اتر پردیش میں ہائی اسکول کا امتحان اردو سے شاید ہی آزادی کے بعد کسی نے نہیں دیا ہو۔ البتہ جو نئیر ہائی اسکو ل کا امتحان دینے کا انتظام موجو تھا مگر اردو میڈیم سے جونیئر ہائی اسکو ل کے امتحانات دینے والوں کی تعداد تقریبا صفر رہی ہے ۔ گویا حکومتی سطح پر وہاں اردو سے امتحان دینے کی طر ف کوئی بھی توجہ نہیں ہے۔ یہاں پر ایک اقتباس اطہر فاروقی کا نقل کر نا مناسب ہوگا ” در اصل جسے اردو ذریعہ تعلیم کہا جاتاہے ، اتر پر دیش کے عام اردو داں حضر ات تو دور خود اساتذہ کے ذہن میں اس کا انتہائی مجہول تصور ہے ، جو اسکول اردو کے ذریعہ جونیئر اسکو ل کا امتحان دلا تے تھے وہ ہندی کی نصابی کتب ہی کے ذریعہ ہی در س دیتے تھے اور اردو کی تعلیم آج بھی صرف ایک اختیاری مضمون کی ہے ۔ اتر پردیش میں نہ تو اردو ذریعہ تعلیم کی کتب موجود ہیں اور نہ ہی اردو کے ذریعہ دیگر مضامین کا در س دینے کی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ “ ۔ یہ ہوئی ان کی بات ۔ تو کیا اردو معدوم ہوگئی اتر پردیش میں ۔ ہاں یہ یقینی بات ہے کہ اردو میڈیم اسکول وہاں نہیں ہیں ۔ لیکن پھر بھی دنیا کی بڑی اردو آبادی وہا ں موجود ہے ۔ مشر قی یوپی میں تقر یباً ہر مدرسہ میں پر ائمر ی اسکو ل کا راواج ہے جن کا الحاق نیم سر کاری مسلم اداروں سے ہے یا الہ آباد بورڈ یا عربی فارسی مدرسہ بورڈ سے ہے ۔ جب عر بی فارسی مدرسہ بورڈبنا تو ہزاروں کی تعداد میں ارد وکالج بشکل مدرسہ اس سے ملحق ہوئے ۔ اور پرائمری اور جونیر سکینڈری اسکول وجود میں آئے ۔ پرائمری اسکول میں پانچو یں کلاس تک ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو ہی ہوتی ہے کچھ چھٹی کلاس سے بدل لیتے ہیں اور ہندی ذریعہ تعلیم رکھتے ہیں کیونکہ اساتذہ ہند ی کے ہوتے ہیں اور شاید و بایدہی کوئی ادارہ ہوگا جو اردو ذریعہ تعلیم رکھتا ہوگا۔ پانچویں کلاس کے بعد بچوں کے سامنے تین راہیں کھلتی ہیں دو مدرسہ (حفظ و فارسی ) کی اور ایک اسکول کی ۔ جو طلبہ اسکول چلے جاتے ہیں ان کی اردو تعلیم وہیں منقطع ہوجاتی ہے اور مدرسہ جانے والے صر ف ماحول کی وجہ سے اردو سے جڑے رہتے ہیں ۔ مغربی یوپی کی صورت حال بالکل الگ ہے شہر کے جو مسلم نیم سرکاری ادارے ہیں وہاں تو اردو بڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ پورے مغر بی یوپی کے دیہی علاقوں میں کہیں بھی اردو کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی اس علاقہ کی زبان اردو ہے اور ہر مسلم بچہ اردو جانتا ہے وہ اسطر ح کے مغربی یوپی کے ہر مسلم آبادی میں مدرسے موجود ہیں جہاں اردو کی تعلیم کسی بھی مضمون میں نہیں دی جاتی ہے صر ف تعلیم الاسلا م اور دینی تعلیم کا رسالہ ہی پڑھایا جاتا ہے ۔اب سر کاری سطح پر پیچیدگیا ںکیا پیدا ہوتی ہے وہ دیکھیے ۔ وہ سمپل سی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی سر کاری تعلیمی ادارے میں بطور اردو طالب علم کے رجسٹر ڈ نہیں ہورہے ۔ گویا سرکاری سطح پر اردو سیکھنے والو ں کی تعداد صفر ہی ہے ( مولوی ،ادیب ، کامل ، گریجویشن اور ماسٹر س کو چھوڑ کر ) 

بہار 

بہار ہندوستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں اردو کی حالت شمالی ہند میں اطمینان بخش ہے ۔ جب اردو کی حالت بہتر ہے تو اردو ذریعہ تعلیم کی حالت بھی بہتر ہے ۔بہار میں اردو کی تر قی کی اہم وجہ متوسط طبقہ کا جذباتی حد تک اردو سے لگاو ¿ اور دینی مدارس میں ان کے بچو ں کو دی جانے والی ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم بزبان اردو ہی ہے ۔ بہار میں چونکہ کوئی علاقائی زبان اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ مذہبی تعلیم کے حصول کا جزوی ذریعہ بن سکے اس لیے وہاں مسلمانوں کا ایک اپنی زبان کے حساب سے اردو زبان مظبوط زبان بنی ہوئی ہے ۔

بہار میں تقریبا ً پچاس ہزرا سے زائد طلبہ جونیئر ہائی اسکول بورڈ کا امتحان اردو کے ذریعہ دیتے ہیں ۔ بہار میں ۳۲۱ ایسے کالج ہیں جن میں اردو تعلیم کا نظم و نسق موجود ہے اور پچاس ہائی اسکول ایسے ہیں جو اردو کو ذریعہ تعلیم میں فوقیت دیتے ہیں ۔ بہار میں اردو کی تر قی میں اہم رو ل وہاں کے مدارس نے دیا ہے ۔ بہار حکومت نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی اسناد کو بہار میں دوسرے رجسٹرڈ اداروں اور یونیو رسٹیوں کے ڈگریوں کے مساوی تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ بہار ہی نہیں بلکہ دلی کی تینوں بڑی یونیورسٹیوں میں ان کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔مجموعی طور پر بہار میں اردوزبان کی صورت حال بہتر ہے لیکن بد نظمی کی شکار ضرور ہے ۔ ادب کی صور تحال بھی دو سرے صوبو ں سے قدرے بہتر ہے ۔
تقریبا یہی صورت حال جھارکھنڈ کی ہے لیکن اردو اساتذہ کی عدم تقرری اس میں مستقل گر اوٹ کا سبب بن رہی ہے ۔

مغر بی بنگال 

اردو کی تر ویج کے بہت ہی زیادہ امکانا ت مغر بی بنگال میں ہیں ۔ وہاں ابتدائی تعلیم کے متعلق حکومت کی اصولی پالیسی یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم صرف مادری زبان میں ہوگی ۔اسی مقصد کے پیش نظر وہاں سر کاری اداروں میں تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے اور اقلیتی فر قوں کے اداروں کو بھی اسی بنیاد پر وہاں پر رجسٹر ڈ کیا جاتا ہے ۔مغربی بنگال میں اردو ذریعہ تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ اردو آبادی کی موجو تعداد کے مناسبت سے اسکو لوں کا نہ ہونا ہے ۔کئی مقامات پر تو دس سے بیس ہزار کی آبادی میں بھی صرف ایک اسکو ل موجود ہے ۔سر کار کی پالیسی کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے اسکول کے رجسٹریشن کی بنیاد آبادی کی تعداد کو نہیں بناتی اور تمام اقلیتی فرقوں کو ایک ہی تناسب میں پر ائمری اسکولوں کی سہولت دیتی ہے ۔ اس کا فائدہ عیسائی اور دوسرے چھوٹے اقلیتی فر قوں کو بہت زیادہ ہوتاہے اور مسلم نہ صرف گھاٹے میں رہتے ہیں بلکہ ان کے اور دوسرے اقلیتوں کے درمیان ترقی اور تنزلی کا فرق بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔

مغربی بنگال میں مہاجر اردو طبقہ آسنسول ، کولکاتہ ، بردوان اور جلپائی گوڑی میں آباد ہے ۔ مخلوط اردو آبادی ، مرشدآباد ، مالدہ، ۴۲پرگنہ ، کٹوا، بیربھوم ، پرولیا اور عظیم گنج وغیرہ میں ہیں ان تمام مقامات میں اردو آبادی کے ساتھ اردو اسکولس بھی موجود ہیں مگر وہ کسی صورت بھی آبادی کا احاطہ نہیں کر پارہے ہیں۔ ارد و کے فروغ میں وہاں سب سے بڑی رکاوٹ اردو ماحول اور اردو کلچر کا نہ ہونا ہے ، وہاں بھی اردو کا فر وغ مذہبی لٹریچراور مذہبی اداروں سے زیادہ ہے ، بنگال میں ایک ایساطبقہ بھی ہے جو صر ف اردو بولتی ہے لیکن تعلیم و تعلم کار واج اردو میں نہیں ہے یہ تعداد بہت ہی زیادہ ہے ،وہاں بس ایک رہنما کی ضرورت ہے جس سے طبقہ مکمل اردو سے روشناس ہوسکتے ہیں ۔ وہاں اردو ثقافتی پروگرام کی بہت ہی ضرورت ہے جو اردو کی تر ویج ترسیل میں بہت ہی زیادہ معاون و مددگار ہوگا ۔

کچھ ایسے ہی حالات اڑیسہ کے بھی ہیں البتہ وہاںبھی اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن تر ویج و تر سیل کے حالات و اسباب مفقود ہیں

تر سیل کے امکانا ت ضر ور پیدا ہو نگے پہلے تر ویج کے امکانات پیدا کر نے ہوںگے ۔ اس کے لیے ہمیں خو د بیدا ر ہو نا ہوگا اور جو غیر سر کاری ادارے NGO تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں ان سب کو اس پر دھیان دینے کی ضر ورت ہے ۔ اسکو ل میں داخلہ کے وقت ہی تمام والدین کو یہ بتا نا ہوگا کہ آپ کے بچے کے لیے ارد و کا نظم و نسق سر کار کی جانب سے موجودہے اور جن اسکو لوں میں تھرڈ لینگویج کا خانہ ہے وہاں ان کے لیے اردو ہی فِل کر وائیں ۔

سب بڑی پر یشا نی اس وقت پیدا ہوتی ہے جہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ اردو زبان ختم ہورہی ہے ۔ یہ وہی وقت ہے جب طلبہ پانچویں کلاس کے بعد اردو ماحول سے غیر اردو ماحول میں پہنچتے ہیں جہاں آہستہ آہستہ وہ اردو سے اجنبی بنتا چلا جاتاہے اس دور ا ن وہ خود کو کیسے اردو کے دھارے سے باندھے رکھے اس کے لے غور کر نے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سوائے ایک یو نی ورسٹی کے کوئی بھی ہندو ستان کی یونی ورسٹی نہیں ہے جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہی ہو ۔ ہم اردو کے لیے اکثر مولوی صاحبان اور مسجدو مدرسہ پر موقوف ہوتے ہیں گھر میں کم ازکم کچھ بھی ماحول اردو کا ملے تو وہ اردو کی جانب راغب ہوں ۔ اب پھر ترویج و تر سیل کی جانب لوٹتے ہیں تر ویج کے معنی شوق پیدا کر نا یا شو ق کی جانب رغبت دلانا اور تر سیل کا معنی ان کے شوق کو پورا کر نا ہے 

اردو کا قاری کہتا ہے : مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
 اردو کہتی ہے : وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی ایک بات اچھی ہے مرے ہر جائی کی 

Sunday 20 October 2019

حروف تہجی ، ایک آسان سوال کا مشکل جواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم  

حروف تہجی ، ایک آسان سوال کا مشکل جواب 


تمام تعریفیں اس خدا کے لیے ہیں جس نے تمام انسا نوں کی روح کو یکساں اور اشکال کو مختلف بنایا ۔ اسی طر ح سے تمام انسانوں کو نطق کی صلاحیت سے نوازا اورہر ایک کی آواز اور لہجے کو مختلف کیا ۔ 

دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں سب کی اہمیت مسلم ہے لیکن سب زبانیں مضبوط و مستحکم نہیں ۔زبانوں کے استحکام کے کئی اسباب ہوتے ہیں ان میں سے ایک سبب گرامربھی ہے ۔جو زبانوں کو حسن و خوبصورتی کے سانچے میں سموئے رکھتا ہے اور خارجی و داخلی خرابیوں سے مدافعت کی بھر پور قوت عطا کرتا ہے ۔قواعد یا گرا مر لکھی ہی جاتی ہے اس لیے کہ زبان کو حسن کی لڑی میں پرو کر بکھرنے سے روکا جائے ۔

مولوی عبدالحق کے جہاں دیگر کارنامے بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں وہیں ان کا ’’قواعد اردو ‘‘ اردو دنیا کے ہر گوشے میں  طلبہ و اساتذہ کے لیے نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ہے ۔

مولوی عبدالحق کی یہ کتاب چار فصول اور ایک تحقیقی مقدمہ پر مشتمل ہے ۔مقدمہ میں انہوں نے کئی مقامات پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ’’ ایک زندہ زبان کے لیے قواعد کی چندا ں ضرورت نہیں ‘‘۔اب یہاں ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زندہ زبان کہتے کسے ہیں ۔میر ے خیال میں زندہ کہتے ہی اسے ہیں جس میں مستقل حذف و اضافہ کا عمل جاری رہے اور جب اضافہ کا عمل جاری ہوگا تو لا محالہ وہ اپنا دائرہ ٔکار میں اضافہ کر تا رہے گا اور جب وہ اپنی وسعت میں ناہموار زمینوں کو سر کرے گا تو اس کو اس ناہمواری میں اپنا تشخص قائم رکھنے کے لیے اصول کی ضرورت محسوس ہوگی ۔ تاکہ وہ ہر ماحول اور ہر زمانے میں خود کو مجروح ہونے سے بچائے رکھے ۔

کوئی بھی زبان اپنا تشخص کن چیز وں سے بر قرارر کھتی ہے ، اسماء ، افعال یا حر وف سے یا تمام سے ؟۔ آپ کی رائے ہوگی شاید سبھی سے۔ اس سے متعلق مولوی عبدالحق لکھتے ہیں ’’ محض غیر زبانوں کے اسماء و صفات کے اضافے سے اس کے ہندی ہونے میں مطلق فر ق نہیں آسکتا ۔ مثلا آج کل بہت سے انگر یزی لفظ داخل ہوتے جاتے ہیں ۔ لیکن اس سے زبان کی اصلیت و ماہیت پر کچھ اثر نہیں پڑ سکتا ‘‘ (ص ۹) یہ ایک تجر باتی عمل ہے اور ہماری زبان میں یہ تجر بہ ہوچکا ہے ۔ آپ اس کیفیت کو پہلے دور میں جعفر زٹلی اور دوسرے دو ر میں اکبر الہ آبادی کے یہاں دیکھ سکتے ہیں ۔ دو نوں کے یہاں یہ تجر بے طنز کے دائرے میں سامنے آتے ہیں ۔ اگر یہی معاملہ آپ کو سنجیدہ تحر یر میں دیکھنے کو ملے تو سمجھ جائیے کہ زبان نے کر وٹ لینا شروع کردی ہے اور جلدہی اور ایک نئی زبان آپ کے دامن میں ’’ اردش ‘‘ کی شکل میں آنے والی ہے ۔اس لیے یہ ایک سنجیدہ امر ہے اور اس پر سنجیدگی سے غور کر نے کی ضرورت ہے ، نصاب سے لیکر صحافت تک ۔

نحو کی ابتدا کیونکر ہوئی اور اس فن کے ابتدائی افراد کو ن ہیں اس پر ہلکی سی روشنی ڈالنے کے بعد اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ ہماری اس کتاب سے پہلے اردو گرامر میں کن لوگوں نے کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ جن میں جان شوا کٹلر۱۷۱۲۔۱۷۰۸ء سے لے کر مولوی امام بخش صہبائی دہلوی تک کی کتابوں کو شمار کیا گیا ہے ۔گو کہ وہ تمام کتابیں چلن میں نہیں ہیں اور آرکائیز کا حصہ بن چکی ہیں ۔سوائے انشاء اللہ خاں انشاء کی ’’ دریائے لطافت ‘‘ کے جسے تاریخی اہمیت حاصل ہے ۔

سابق میں اردو گرامر پر درجن بھر کتابیں موجود ہونے کے باوجود مولوی عبدا لحق کو کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اس سے متعلق انہوں نے دو باتیں تحریر کی ہیں۔ ایک یہ کہ اردو زبا ن کا دائرہ وسیع ہوگیا ،غیراردو داں طبقہ بھی اس زبان کو خوب سیکھ رہے ہیں۔ دوسری یہ کہ اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں سب فارسی اور عربی کے تتبع میں لکھی گئی ہیں ۔ اس لیے میں نے یہ تحریر کر نے کا ارادہ کیا ۔ آگے مزید لکھتے ہیں کہ ’’ اردو زبان کی صرف و نحو لکھنے میں عربی زبان کا تتبع کسی طر ح بھی جائز نہیں ۔ کیو نکہ عربی سامی النسل ہے اور اردو آریائی ‘‘ (۲۱) مولوی عبدالحق کی اس کتاب اور اس اسٹیٹمنٹ کو سو سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک آریائی زبان کے مماثل گرامر اردو کو مل نہیں سکا ۔ اگر اس مر وجہ ڈگر سے ہٹنے کی کوشش کی بھی گئی تو انگریزیت کے مرید ہوگئے ۔ یا پھر اس کو آسان شکل میں پیش کر نے کے نام پر مزید پیچیدہ کتاب اس فن پر منظر عام پر آئی جیسے ( عصمت جاوید کی ’’ نئی اردو قواعد‘‘ )آخر ہم کس طور پر اس مر وجہ نحوی و صر فی تعلیم سے خلاصی چاہتے ہیں جب کہ۸۰؍ فی صد حر وف تہجی سے لیکر نحوی، صر فی و شعری اصطلاحات تک اسی زبان سے آئے ہیں ۔

فصل اول حر وف تہجی ، حر کات و سکنات ، حر وف شمسی و قمر ی پر مشتمل ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ سادہ آوازوں کے تحریر ی علامات میں لانے کا نام حرف ہے ۔ہجا میں حر و ف کی آواز اور ان کی حر کات و سکنات سے بحث کی جاتی ہے ‘‘ سادہ آواز کی قید سے مخلوط آواز سے آزاد ہوگئے۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ مخلوط آواز کو حر ف میں شمار کر نے میں کہیں نہ کہیں سقم ہے اور وہ سقم واضح طور پر بر جموہن دتاتریہ کیفی کے یہاں ان الفاظ کے ساتھ نظر آتا ہے ’’ وہ تحریری شکلیں جو حد امکان تک آواز کی پوری نمائندگی کر یں اور ان میں مزید اختصار کی گنجائش نہ ہو۔ ان ہی کے مجموعے کو حرف تہجی کہتے ہیں ‘‘(کیفیہ ۳۶) ان کی اس تعریف سے بھی مخلوط آواز والے حر وف خارج ہوجاتے ہیں اور وہ حروف(ث ،ذ، ص ،ث ، ط وغیرہ) جن کو ہم ’ زندہ لاشیں ‘ کہتے ہیں وہ مکمل طور پر زندہ اور متحر ک ہوجاتے ہیں ۔’’حر و ف کے مجموعے کو ابجد کہتے ہیں ‘‘(ص۲۸)  تاریخ میں ا س پر بحثیں ہوئی ہیں ان سب سے صرف نظر کر تے ہوئے صر ف ایک سوال میرے ذہن میں جو آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا اردو میں بھی ان حر وف کے مجموعے کو ابجد کہیں گے جب کہ اس میں اردو کا تو دور فارسی کا بھی ایک حر ف شامل نہیں ہے ۔اس لیے مجھے منا سب لگتا ہے کہ ہمیں ابجد سے کنارہ کش ہو تے ہوئے ’ تہجی ‘ استعمال کر نا چاہیے کیونکہ اس سے وہی مر اد ہو تے ہیں جن کا ہجا کیا جا سکے ۔ اس میں سب شامل ہوجائیں گے خواہ مخلو ط آواز والے ہوں یا سا دہ ۔ 

مولوی عبدالحق کے نزدیک اردو میں حر وف تہجی پچاس ہیں ۔اٹھائیس عر بی سے ، چار (پ، چ ، ژ، گ )فارسی سے اور تین خالص ہندوستانی سے ( ٹ ، ڈ، ڑ ) تو کل ہوئے پینتیس۔ واضح ہو کہ اس میں ہمزہ شامل نہیں ہے ۔اس کے بعد ہندی ( بھ، پھ، تھ ، ٹھ، جھ، چھ، دھ ، ڈھ ، رھ ، ڑھ ، کھ، گھ ، لھ، مھ، نھ) سے پندرہ۔ اس طر ح کل ہوئے پچاس ۔ ان میں سے تین ( ژ ، مھ ، نھ ) کم کر دیے جائیں تو دتاتریہ کیفی کے نزدیک سینتا لیس ہوتے ہیں ۔

یہ بات مسلم ہے کہ جن آوازوں کو مخلوط کہہ کر حر وف تہجی سے خارج کیا جاتا رہا ہے وہ اردو و ہندی میں باضابطہ ایک غیر مشترک آواز کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن معاملہ وہاں پیچیدہ ہو جا تا جب ان آوازوں کے لیے خالص ایک مکمل حر ف کا انتخاب عمل میں نہیں آپاتا ہے جیسے ٹ، ڈاور ڑ با ضابطہ جس حیثیت سے اکائی ہیں وہ بھ ،جھ اور گھ وغیرہ حروف کو نصیب نہیں ۔اور دتاتریہ کیفی جو لکھتے ہیں کہ ’’ مزید اختصار کی گنجائش نہ ہو ‘‘ وہ بھ تھ وغیرہ میں صادق نہیں آتا ہے کیونکہ یہ دو حروف سے مل کر ایک آواز کی نمائندگی کر تے ہیں ۔اگر حروف تہجی میں ان کے لیے باضابطہ کوئی علامت تخلیق کر تے ہیں تو کامل یقین ہے کہ اردو میں حروف تہجی کی تعداد کا پیچیدہ مسئلہ حل ہوجائے گا ۔ جو اب ناممکن ہے ۔

 حر وف تہجی کے جو اشکال ہیں وہ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان میں صدیا ںاور قبیلوں کی کئی نسلیں گزریں ہیں تب جاکر موجودہ علامتیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔ یہ علامتیں تو ایک ہی مفر د آواز کی نمائندگی کر تی ہیں لیکن ان کے ناموں سے سادہ آواز نہیں پیدا ہوتی ہے جیسے جیم اور لام وغیرہ ۔ یہ ایک بہت ہی اہم سوال مولوی عبدالحق نے قائم کیا ہے۔ اس کا جواب وہ خود اس انداز میں دیتے ہیں کہ’’ اس کی وجہ بلا شبہ یہ ہے کہ یہ اس زمانے کی یادگار ہیں جب کہ اس قسم کی تحریریں ایجاد نہیں ہوئی تھیں جو ہم آج کل استعمال کر تے ہیںبلکہ لوگ اپنے خیالات سے تصویریں بنا بنا کر ظاہر کرتے تھے ۔‘ ‘ یہ تو پہلے دور کا عمل تھا، دوسرے دور میں اس کے عمل سے ، پھر ممتاز خصائص سے ، پھر اس شے کے بولنے میں جو آوازیں پیدا ہوتی تھیں اس کو کسی تر کیب سے تحریر ی شکل میں لاتے تھے ، پھر یہی تصویریں مختلف ا صوات کی قائم مقام ہوگئیں ۔

یہ بات واضح ہوکہ مولوی عبدالحق ایک محقق تھے اور محقق بہت ہی محتاط انداز میں لفظوں کا استعمال کر تا ہے اس بحث میں پہلے وہ ’’ بلاشبہ ‘‘ کا لفظ استعمال کر تے ہیں اس کے بعد ’’ اسطر ح ب در حقیقت بیت ہے ‘‘ ان دونوں لفظوں سے جو دعویٰ سامنے آرہا ہے اس کی دلیل مجہول ہے اور حرو ف کے اشکال کو کسی مخصوص شکل کے ساتھ مناسبت قائم کرنا محض خیالی مواجہت ہے ۔ جس کو دیگر مصنفین نے بھی نقل کیا لیکن ’’ شاید، غالبا ً اور قیاس ہے کہ ‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ۔

ان کی طرز تحریر سے دانستہ یا نادانستہ طور پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ حر وف تہجی کی جو مختصر تاریخ ہے اس سے انہوں نے چشم پوشی کرنے کی کوشش ہے ۔خدا ہی بہتر جانے ۔نیز جو ان کا اسٹیٹمنٹ ہے کہ اردو کو عربی کے تتبع میں بالکل بھی لانا جائز نہیں ہے اس کا بھی عکس ہو سکتا ہے ۔ حر وف تہجی کی مختصر کہانی یو ں ہے جس کو احمد زیات اپنی کتاب ’ تاریخ الادب العربی ‘ میں لکھتے ہیں ۔ خط فینقی سامی خطوط کا مصدر ہے ۔آرامی اور مُسندبھی اس سے مشتق ہیں ۔آرامی سے خط نبطی حوران میں مشتق ہوا اور سطرنحیلی سریانی عراق میں اور یہی دو خط ہیں جو خط عربی کے اصل ہیں ۔ نبطی سے نسخ نکلا اور سطر نحیلی سے کوفی۔ واضح ہو کہ قدیم مصری خط صرف ۲۲ ؍ حر وف ابجدی پر مشتمل تھا ( یعنی’’ ابجد ،ہوز ،حطی ،کلمن ،سعفص،قر شت‘‘ تک ) جس پر فینقیوں نے چا ر کا اضافہ کیا ۔ایک روایت یہ ہے کہ فینقی تک ۲۲؍ حروف تھے بعد کے نبطی اور سریانی نے اس پر چھ (ثخذ،ضظغ) کا اضافہ کیا ۔ یہ چھ حروف اپنے ہم شکل بے نقط حروف سے بنائے گئے ہیں ۔اس اٹھائیس کے مجموعے کو اسی مخصوص ترتیب کے ساتھ حروف ابجد کہا جاتا ہے ۔ حر وف کی یہ ترتیب سب سے قدیم ترتیب ہے ۔ بعد میں مخارج کے ا عتبار سے بھی مر تب کیا گیا تھا جیسا کہ خلیل بن احمد کی ’’ کتاب العین ‘‘ اور الازہری کی ’ تہذیب ‘‘ میں مرقوم ہے ۔ چوتھی صدی ہجری میں ’لا ‘ کا اضافہ کیا گیا(واضح رہے کہ شروع میں جو الف ہے وہ ہمیشہ ساکن ہونے کی صورت میں ہی الف ہے ورنہ وہ متحرک ہوتے ہی ہمزہ ہوجاتا ہے اس لیے عربی میں ہمزہ ہمیشہ سے الف کے مقام پر حروف ابجد میں شامل ہیں) پھر جب فارسی میں پہنچتا ہے تو وہاں چا ر (پ،چ، ژ،گ) اردو میں آنے کے بعدٹ،ڈ،ڑ کے اضافے سے پینتیس پہنچتی ہے جو اکثر کی زبان سے سوال کے جواب میں نکل جاتا ہے ۔ لیکن حروف کو مخلوط بنانے والے ’ھ‘ کو کون چھوڑ سکتا ہے ، یہی نہیں بلکہ ’ ے ‘ بھی ’ ی ‘ کے بعد تمام ابتدائی کتب میں حروف تہجی کے ساتھ اپنے آخری کڑی ہونے کا ثبوت دیتا رہتا ہے اب ہمزہ کے پیچیدہ مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے     کیونکہ الف سے وہ کام نہیں بن پا رہا ہے جو ہمزہ سے ہوجاتا ہے تو ہمزہ کے وجود کو انکار کرنا تقریبا ناممکن سا ہوگیا اور عربی کے تمام حروف تہجی کو اپنا چکے ہیں توارددو میں اس بیچارے چھوٹے سے حرف (ء) کو جس کا تلفظ ہم عربی کے الفاظ کے ساتھ اردو کے افعال و اسماء میں بھی بہت ہی زیادہ کرتے ہیںکیسے اس گروہ سے باہر کر سکتے ہیں، جبکہ یہ اپنے وجود کے لیے یہ نہ نقطے کا محتاج ہے او ر نہ ہی دو چشمی ہا کا بلکہ اردو والے تو اضافت اور حرکت کے لیے اس کا محتاج ہوتے ہیں ۔لہذا چند افراد کے سوا سب نے اس کو بھی شامل کرلیا ۔ تو اس طریقے سے کبھی تعداد چھتیس ہوجاتی ہے اور کبھی سینتیس۔(واضح رہے کہ دو چشمی ہا ’ھ‘ اور یاے مجہول ’ے ) کبھی بھی کسی لفظ کے شروع میں نہیں آتے ہیں کیونکہ ان دونوں میں حر کت قول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور اردو میں کوئی بھی لفظ ساکن الاول نہیں ہوتا ہے ۔کچھ ایسی ہی صورت حال الف کا بھی ہے جسے ہم جس پر ہم حرف اول کے بعد کبھی بھی حر کت میں نہیں لاسکتے وہ سا کن ہی رہتا ہے۔اب مخلوط حروف کی بات کریں تو مولوی عبدالحق کے نزدیک اس کی تعداد پندرہ ہے (بھ ، پھ ، تھ ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ، نھ)اور کل حروف تہجی کی تعداد ان کے نزدیک پچاس ہے تو گویا ان کے نزدیک اوپر کے پینتیس ہی حروف ہوئے باقی تین صرف بچوں کو شناخت کے لیے بتا دیے جاتے ہیں ۔دتاتریہ کیفی کے نزدیک بھی یہی ہیں لیکن وہ مخلوط میںسے تین (لھ ، مھ، نھ ) کم کرتے ہیں ۔ مسعود حسین خاں کے نزدیک ان میں ایک اور(رھ ) کم ہوجاتا ہے ۔شان الحق حقی کے نزدیک پچاس کے بعد ان تین ’’زھ، ژھ،وھ،‘‘ کا اضافہ ہوتا ہے اور مقتدرہ قومی زبان پاکستا  ن نے ’ں ‘ (نون غنہ) کا اضافہ کرکے اس کی تعداد چون کر دی ہے ۔ حروف تہجی کی تعدادمیں بے تحاشہ اضافہ انشاء اللہ خاں انشاء کے یہاں ہوتا ہے ۔ان سب اختلاف کا حل مجھے کہیں پڑھنے کو ملا ہے وہ اس طرح تھا کہ ہمارے یہاں آوازوں کی تعداد مختلف ہے اور حروف تہجی کی تعداد کسی کے نزدیک پینتیس ہے تو کسی کے نزدیک سینتیس اور انہیں میں سے بعض حرف کو بعض حرف کے ساتھ ملا کر ایک آواز کی نمائندگی کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے ۔اب شروع میں حرف تہجی کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس پر دوبارہ نظرڈالیں تو یہ بات دل کے قریب معلوم ہوگی۔ 

امیر حمزہ 

Friday 4 October 2019

کوثر چاند پوری

اردو زبان و ادب کی یہ مٹھاس رہی ہے کہ اس نے سب سے زیادہ اطبا کو متاثر کیا ہے اس لیے جو پیشے سے طبیب ہوئے وہ ادب کے مریض بھی ہوئے ۔ اگرسترہویں صدی سے طبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات سامنے آئے گی کہ اکثر اطبا نے اردو زبان و ادب میں کچھ نہ کچھ تعاون پیش کیا ہے اور یہی نہیں بلکہ طبیبوں نے اپنے مطب کو مشاعرہ گاہ اور ادبی اجلاس گاہ بھی بنایا ۔یہ سلسلہ اب تک کئی شہر وں میں جاری ہے جہاں ماہانہ نشستوں میں طبیبوں کی نمائندگی مسلسل ہوتی رہتی ہے ۔ کوثر صاحب کا بھی تعلق طبابت سے تھا اور آزادی کے بعد افسرالاطبا کے عہدہ پر بھی فائز رہے ۔ کوثر صاحب کے عہد کااگر مطالعہ کیا جائے تو پہلی جنگ عظیم سے لیکردوسری جنگ عظیم تک ادبی زرخیزی کا زمانہ نظر آتا ہے۔ اس کے بعد جدید تہذیب کے پردے بھی کھلنے لگتے ہیں جہاں نثر و شاعری دونوں کر وٹیں بدلتے ہیں ۔شاعری کے نئے ابعاد طے ہوتے ہیں اور نثر کی نئی دنیا آباد ہوتی ہے، اس پوری صدی میں ادب اطفال بھی بہار سے خزاں کی جانب مائل ہوجاتا ہے ۔ اسی عہد میں کوثر صاحب نے اپنی ادبی خدمات سے ادبی دنیا کو اپنی جانب مائل کیا اور اخیر عمر تک ادب میںوہ مر کز بنے رہے ۔کوثر صاحب کی پیدائش ۰۰۹۱ ءمیں ہوئی ، عمر کا اکثر حصہ بھوپال میں گزرا، ریٹائرمنٹ کے بعد ۲۶۹۱ ءمیں دہلی منتقل ہوگئے ،۳۱ جون ۰۹۹۱ءکو داعی ¿ اجل کو لبیک کہا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔
کوثر صاحب کی کل نوے سالہ زندگی میں سترسالہ ادبی زندگی ہے جس میں انہوں نے نثر ی دنیامیں کمال حاصل کیا ۔ ان کی ان ہی ستر سالہ ادبی زندگی کی خدمات ،ذاتی حیات اور تخلیقی جہات کے تمام گوشوں کو اس مونو گراف میں پیش کیا گیا ہے۔ مصنف رشید انجم کی یہ کتاب چار بنیادی عناوین پرمشتمل ہے ۔ شخصیت و سوانح ، ادبی و تخلیقی سفر، تنقیدی محاکمہ اور جامع انتخاب ۔ شخصیت و سوانح کو بہت ہی جامع اور معلومات سے پر پیش کیا گیا ہے جس میں حسب و نسب، خاندانی پیشہ اور موصوف کے اخلاق و عادات پر روشنی ڈالی گئی ہے ، کہ موصوف میں ادیبوں کی سی نزاکت اور طبیبوں جیسی لطافت تھی ۔اسی کے ذیل میں ابتدائی ادبی سفر کا ذکر بھی ہے کہ ادبی محفلوں میں شرکت کے باعث شاعری کی جانب ان کی طبیعت راغب ہوچکی تھی اور شعرگوئی میں شہرت بھوپال کی سرحدیں پارکر چکی تھیں۔ لیکن ادبی و تخلیقی سفر کے عنوان میں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ابھی وہ شعری سرمایہ اتنا بھی جمع نہیں کر سکے تھے کہ کوئی ایک شعری مجموعہ ہی منظر عام پر لایا جاسکے کہ نثری تخلیقات کی جانب مائل ہوگئے اور باضابطہ افسانوی دنیا میں ایک عہد گزارا۔ ۹۲۹۱ ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ” دلگداز افسانے “ شائع ہوکر منظر عام پر آیا جس میں سو لہ افسانے تھے جن میں سے چند افسانوں پر مصنف کی مختصر رائے بھی ہے ۔ ۰۳۹۱ءمیں دوسرا افسانوی مجموعہ ” دنیا کی حور“ شائع ہوتا ہے ۔اس مجموعہ کے افسانوں پر مصنف کی کوئی زیادہ رائے نہیں ہے بلکہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پچھلے افسانوں سے یہ افسانے کافی بہتر ہیں ، اول میں نیاز فتح پوری کا عکس ہے تو دوسرے میں پریم چندکی طرح حقیقت پسندی کی جانب مائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔اس کے بعد ان کے دیگر سات افسانوی مجموعوں کا ذکر ہے ۔ جن پر گفتگو جدا جدا نہیں کی گئی ہے بلکہ اجتماعی تاثر ان افسانوی مجموعوں پر پیش کیا گیا ۔اس کے بعد مصنف کوثر صاحب کے ناولوں کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک ناول کے ذکر کے ساتھ بہت ہی مختصر فنی اور موضوعاتی گفتگو بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں ” سب کی بیوی ‘ کوثر صاحب کا وہ پہلا ناول ہے جسے ٹرننگ پوائنٹ کہا جاسکتا ہے “ ، ” اس ناول میں جنسیات پر ان کا قلم بے باک ہوا ہے “ ۔ دوسرے ناول ” اغوا“ کے بارے میں لکھتے ہیں ” پلاٹ قدرے کمزور ہے ۔ اس ناول میں کہیں کہیں واقعات میں روانی کی کمی بھی محسوس ہوتی ہے ۔“ اس کے بعد سات اور ناولوں کا ذکر ہے ۔ جن میں سے مصنف ” مر جھائی کلیاں “ کو ثر صاحب کا اہم ناول مانتے ہیں اور ” پتھر کے گلاب“ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کو شاہکار ناول کہا جاسکتا ہے ۔ ” محبت اور سلطنت “ میں کوثر صاحب کو ایک اعلیٰ اور منجھے ہوئے فنکار کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں ۔کوثر چاند پوری نے رپور تاژ نگاری میں بھی قدم رکھا تھا اور ” کارواں ہمارا “ ، ” سفر ارض غزل “ جیسے رپورتاژ لکھے ۔جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیںکہ یہ ” بلاخیز قلم کی روانی کے شاہکار مانے جاتے ہیں ، ان میںخیالات کی ندرت بھی ہے ،الفاظ کی طلسماتی قوت بھی ہے ، لسانی پیرایہ بھی اور فن کا منطقی اظہار بھی ہے ۔“ کوثر صاحب نے بچوں کے لیے بھی خوب لکھا اور بھوپال کے ادب اطفال کی تاریخ میں وہ واحد شخص نظر آتے ہیں جس نے بچوں کے لیے پچیس کتابیں (نثرمیں ) لکھیں جن کا ذکر مصنف نے اس مونوگراف میں بہت ہی مختصر اًکیا ہے ۔کوثر صاحب کی تنقید نگاری پر لکھی گئی چار کتابوں ” دیدہ ¿ بینا“ ،” جہانِ غالب “ ، ” فکر و شعور “ اور ” دانش و بینش “ کا بھی احاطہ کیاگیا ہے ۔کوثر صاحب فکر تونسوی کے ہمر عصر تھے اور ان سے مراسم بھی تھے جس کا ذکر اس کتاب میں بھی ہے، صر ف مر اسم ہی نہیں تھے بلکہ ان کے فن طنزو مزاح سے بھی وہ مرا سم رکھتے تھے جس پر ان کی پانچ کتابیں ” مسکراہٹیں “،” موج کوثر“، ”شیخ جی “،”نوک جھونک“اور ”خندہ دل“ منظر عام پر آئیںجس پر مصنف نے کچھ طنزیہ و مزاحیہ تحریر کے نمونے پیش کیے ہیں اور ان پر مختصر تجزیہ بھی ہے۔ سوانح نگاری پر بھی چار کتابیں ”بیرم خاں ترکمان“ ،” اطبائے عہد مغلیہ “ ،” حکیم اجمل خاں “ اور ” جام جم “ ہیں جن کا ذکر دیگر کتب کے مقابلے قدرے تفصیل سے ہوا ہے ۔اس کے بعد کوثر صاحب کی دیگر خدمات کا ذکر ہوا ہے اور جامع انتخاب بھی ہے جیسا کہ ہر مونوگراف میں ہوتا ہے ۔ اس کتاب کو مصنف نے جس محنت اور تگ ود و کے بعد پیش کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اصناف سخن کی تعریف و ارتقا پر گفتگو کی ہے اگر اس کو حذف کر کے موصوف کی تخلیقات کے فن پرمزید گفتگو ہوجاتی تو زیادہ بہتر ہو تا ۔ تاہم یہ کونسل کی اہم اور عمدہ پیش کش ہے۔

نام کتاب کوثر چاند پوری (مونو گراف )
مصنف رشید انجم
سن اشاعت 2019
صفحات 150
قیمت 90 روپے
ناشر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی
مبصر امیر حمزہ K12 ، حاجی کالونی ، غفار منزل ، جامعہ نگر ، نئی دہلی

Thursday 11 July 2019

فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد

فکشن کے غیرمقلد نقاد ابوبکرعباد 

  کتاب کے انتساب میں جب کوئی محتر م استاد یا بزرگ دانشور کا نام نہ ہو اور تقریظ و بیک کور کی تحر یریں کسی بڑے یا بہت ہی معزز سمجھے جانے والے شخصیات سے نہ لکھوائی گئی ہوں بلکہ ان سب کے لیے نئی نئی کونپلوں کو منتخب کیا گیا ہو تو یہیں سے سمجھ جائیے کہ تقلید سے پرے کی کہانی شروع ہوچکی ہے ۔فہر ست کے مقام پر ” سلیقہ “ نظر آئے گا جس کے ذیل میں ”محسوسات “ میں ریسر چ اسکا لر شہناز رحمن کے احساسات کو اور ’ تلخیات“ میں مصنف کی کتاب لکھنے کے درمیان کی تلخی کو محسوس کر سکتے ہیں ۔اپنی بات کوتلخیات کے عنوان سے قلم بند کرنے میں یقینا شکایتیں پوشیدہ ہیں خواہ وہ ایک ہی رو میں بہنے والی تنقید سے ہویا ایک ہی تجزیہ ، فکر و فلسفہ کو گھسیٹنے والے ناقدین سے ۔مدھم لہجے سے شروع کی گئی بات آہستہ آہستہ تلخی اختیا ر کر تی چلی جاتی ہے اور وہاں جوشیلی شکل اختیار کر جاتی ہے جہاں طلبہ کے حقوق کی پامالی پر بات ہوتی ہے ۔ بات سے جب بات آگے بڑھتی ہے تو مصنف کی ذات سے متعلق ریشہ دوانیوں کا بھی ذکر آتا ہے جو عمو ماً کئی مضامین کو زیر تحریر لاتے ہوئے ان کے ذہن و دماغ کو جکڑ رہی ہوں گی اور فکرکی شائستگی میں نا شائستگی کا عنصر در آرہا ہوگا لیکن مصنف نے بہت حد تک ان تمام پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہیں مدھم تو کہیں گفتگو کی لو کو تیز کیا ہے جس کا عکس آپ کو مضامین میں بھی کہیں کہیں دیکھنے کو ملے گا ۔

 کتاب کو تین حصو ں میں منقسم کیا گیا ہے جن میں سے دو ’ تنقید و تبحیث ‘ تفعیل کے وزن پر ہیں لیکن تجزیہ کے لیے ’تفعلہ‘ پر ہی صبر کر نا پڑا ہے ۔ تنقید کے تحت گیا رہ مضامین ہیں ۔پہلا مضمون" پریم چند کے دلت افسانوں کی قرات اوربین السطور" ہے ۔اس میں، پریم چند کے کئی افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے. سب کا عکس آپ اس اقتباس میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں . ” آخری بات یہ کہ یہ افسانہ ( گھاس والی ) بھی پریم چند کے بہت سے افسانوں کی طرح حقیقت کی کھردری عکاسی سے کہیں زیادہ تصورات کی بنائی ہوئی پینٹنگ معلوم ہوتا ہے “۔ آپ مصنف کے اس قول سے کس حد تک اتفاق کر تے ہیں اس کے لیے آپ کو بین المتونیت سے واپس جا کر پھر متن کے صفحات پر نظریں ٹکانی ہوں گی ۔” اردو افسانے کی خاتون اول - رشید جہاں “ میں آپ جہانِ افسانہ کی کئی جدتوں اور سنتوں کورشید جہاں سے منسوب پائیں گے اور ناقدین افسانہ پر بھی محاکماتی تنقید کی جھلک دیکھنے کو ملے گی ۔” فکشن کا بازیگر : کر شن چندر “ اپنے اندر بہت ہی کشش رکھتا ہے ، ہر ایک پیرا گراف آپ کو اپنی جانب مائل کر ے گا ۔ساتھ میں آپ کو کر شن چندر کے افسانوں میں شعور کی رو، سر رئیلزم ، ایکسر یشنزم ، مو نو لاگ ، غائب مخاطب ،ملفوظات ، سہ ابعادی اور کیر یکٹر اسکیچ سے روشناس ہو ں گے۔ ساتھ ہی مضمون کے آخر میں مصنف لکھتے ہیں ” کاش وہ الفاظ کا کفایت شعارانہ استعمال کرتے اور فن کے نازک اور حساس گل بو ٹوں کو نظریے کی تیز دھوپ کے بجائے اس کی نرم چاندنی میں پروان چڑھا نے کی کوشش کر تے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کے افسانوی ادب کے گلستاں کی بہار دو چند نہ ہوتی “ ۔ ” آخری کوشش والے : حیات اللہ انصاری “ والے مضمون میں ان کی تمام کوششوں اور کاوشو ں کو جو یہ کہہ کر ختم کر دیا جاتا ہے کہ انہوں نے پریم چند کی تقلید کی کوشش کی ہے . اس متعلق مصنف کا عدم تقلید ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ” اسے پریم چند کی تقلید یوں نہیں کہہ سکتے کہ ان کر داروں میں ایک نوع کی واقعیت ، جرا ت ، فہم اور بغاوت نمایاں ہے ۔ ہاں تسلسل یا تجدید کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس میں پر یم چند والی مثالی حقیقت کافی حد تک مفقود اور واقعی صداقت زیادہ نکھری صورت میں موجود ہے “ ۔موصوف میں مثالی حقیقت کے بجائے واقعی صداقت کتنی ہے اس کی تفصیل بھی ان افسانوں کے حوالے سے پڑھنے کو ملے گی ۔” منٹو کی ایک اور قرات “ میں آپ کو منٹو کی نئی دنیا میں لے جائیں گے ۔ جہاں آپ منٹو کی انانیت ، اس کی فن کا ری ، نفسیاتی گرہیں ، فطر ت کا فلسفہ ، بشریت اور شکست و فتح کی نئی تعبیروں سے آپ اپنی فکر کو مہمیز کریں گے ۔” بیدی ، عورت ، جنس اور نفسیات “ اس مضمون میں بہت ہی خاموشی اور اسلوب کا پر سکون ماحول ملے گا ۔بیس صفحہ کے اس مضمون میں آپ کو نئی قرا ت کی جانب کھینچیں گے اور نہ ہی بین السطور اور بین المتونیت میں محصور کرنے کی کوشش کر یں گے بلکہ مذکورہ بالا تینوں عناصر جزئیات کے ساتھ پڑھنے کو ملتا ہے ۔” ممتاز شیریں کا افسانوی طریقہ کار “ مصنف کی ممتاز شیریں پر باضابطہ ایک مکمل کتاب ہے لیکن اس میں تنقیدی مباحث زیادہ ہیں اور اس مضمون میں صر ف افسانوں پر گفتگو کی گئی ہے ۔کتاب میں دو ہی مضمون ہیں جو بہت ہی خصوصیت کے حامل ہیں ایک یہ اور دوسرا جدید اردو افسانے کی شعریات وہ بایں معنی کہ ان ہی دونوں مضامین میں با ضابطہ حواشی ہیں ۔” عصمت چغتائی کے افسانوں کے حوالے سے ایک اور تحریر “ میں لحاف سے باہر معاشرہ کی چادر میں عصمت و عفت کی کہانیوں کے راز ملیں گے ۔ ” ترقی پسندوں کا پہلا درویش : خواجہ احمد عباس“ میں اس درویش کا افسانوی مملکت کتنا مالا مال ہے اس کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔”علی سردار جعفری کا جہان افسانہ “ میں جو خیالات مصنف کے پریم چند کے متعلق ہیں تقریباً وہی نظر یات یہاں بھی پیش کر تے ہیں ۔ لکھتے ہیں” سردار جعفری کے افسانوں کے مطالعہ سے جو باتیں نمایاں طور پر سامنے آتی ہیں وہ یہ کہ افسانہ نگار غریبوں کی معاشرت اور اس کی نفسیات سے پوری طر ح واقف تو نہیں لیکن بہر حال ہمدردی رکھتا ہے ، اور یہ ہمدردی غریبوں سے غریبوں والی نہیں بلکہ وہ ہمدردی ہے جو غریبوں کو زمینداروں سے حاصل ہوتی ہے “ ۔باب تنقید کا آخری مضمون ” منحرف روایت کا فکشن نگار : پروفیسر محمد حسن “ ہے ۔مضمون میں فکشن اور فکشن نگار تو مکمل طور پر ہے لیکن انحرافیت کم کم ۔

 دوسرا حصہ تبحیث کا ہے جس میں سات مضامین ہیں ۔ پہلا مضمون ” افسانہ ،تخلیقیت اور ارتقائے خیال “ ہے ۔ارتقائے خیال کے لیے پانچ در س ملیں گے واقعہ ، بیان ، زمان و مکان ، بیان میں افعال کا استعمال اور وقت کا صورتحال کی تبدیلی ۔ اور بھی بہت کچھ ہیں لیکن فی الحال ان ہی پانچ کی تفصیل کے لیے مضمون کی تلا ش میں لگ جائیے۔ ” تر قی پسند افسانے کی جمالیات “ میں قدیم روایات پر طنز، سماجی نظام میں تبدیلی کی کوشش ، غربت اور جنس کی جمالیات سے رو برو ہو نے کا موقع مل سکتا ہے بشرط مطالعہ ۔ ” جدید اردو افسانے کی شعریات“ اس مضمون کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں” واضح رہے کہ جدید یت یا جدید حسیت اسلوب کا نہیں رویے کا نام ہے ۔ اسلوب کو جدید تصور کر نا یوں درست نہیں کہ ایک مارکسی یا ترقی پسند روایتی افسانہ نگار قدیم اور روایتی اسلوب میں افسانہ لکھ سکتا ہے ........... لہذا جدید افسانہ کے سلسلے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ صر ف علامتی انداز میں لکھا ہوا افسانہ ہی جدید ہے “ ۔ اس مضمون میں آپ مصنف موصوف کو وارث علوی اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان خوبصورت مباحثوں میں پائیں گے ۔” ہم عصر افسانہ ، افسانہ نگار ، ناقد اور قاری“ میں آپ خو د کو کسی نہ کسی مقام پر محسوس کریں گے اور افسانہ کی نئی جہت کی جانب نئے چشمے کے سراغ ملیں گے ۔ ” اردو ناول کی تہذیبی جہات اور چند اہم کردار “ میں نئے پرانے تقریبا بیس ناول کے اہم کر دراوں کا تہذیبی پس منظر پڑھنے کو ملے گا ۔” اردو افسانہ ہمارے عہد میں“ میں بقول نورین اسی (٨٠) کی دہائی والے ہی نظر آئیں گے۔” اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اردو ناول“ موضوع ہیئت فکر و فلسفہ اور سمت و رفتار پر خو بصورت و جامع مضمون ہے. 

تیسرا حصہ تجزیہ پر مشتمل ہے ۔ جس میں دو مضامین ہیں پہلا ” کفن کا متن اور تعبیر کی غلطیاں “ اس میں’ کفن' میں موجود تضادات کا انکشاف کر تے نظر آتے ہیں ساتھ میں اعتراف نامہ بھی دیکھیں” اعتراف کر نا چاہیے کہ ’ کفن ‘ میں حقیقت نگاری کے حوالہ سے ایک آدھ جھول موجود ہے ، یہ پریم چند کے دوسرے افسانوں کی سی مثالیت پسندی سے پاک ہو نے کے باوجود سماجی حقیقت نگاری کی کسوٹی پر صد فی صد کھرا نہیں اترتا ۔ تا ہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپنے موضوع اور فن کے اعتبار سے یہ بے حد خوبصورت اور عمدہ افسانہ ہے “ ۔ ” شہزادہ : نفسیاتی پیچیدگی اور انوکھی تکنیک کا افسانہ“ میں کر شن چندر کے افسانہ ” شہزادہ “ کا تجزیاتی مطالعہ نفسیاتی اعتبار سے مضمون کے آخر تک کہانی کے ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں گے اور انو کھی تکنیک کے متعلق اقتباس ملاحظہ فرمائیں ” یہ ایکسپریشنز م ( اظہاریت ) کی تکنیک ہے جو ظاہر ہے Streem of conciousness سے مختلف ہے ۔ چاہیں تو اسے باطن نگاری بھی کہہ سکتے ہیں ۔اس میں ذہن میں خاص قسم کے تصورات خلق کر تا ہے ۔جو دیکھنے والوں کو حقیقی دنیا سے دور لے جاتے ہیں “ ۔ الحاصل اس پورے کتاب میں فکشن کی جس تنقید سے آپ زیادہ روبرو ہوں گے وہ ” بین المتونیت “ ہے۔ 

230 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف 200 ہے ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہا س سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔

Wednesday 10 July 2019

منٹو کے نادر خطوط

 منٹو کے نادر خطوط 

تحقیق و تر تیب فاروق اعظم قاسمی 

امیر حمزہ

تلاش و جستجو انسانی فطرت کا خاصہ ہوتا ہے ۔ جس جس میدان میں مسلسل تلاش و جستجو کو برو ئے کار لایا گیا ہے اس میدان میں تر قی دیکھنے کو ملی ہے ۔ جس طر ح سے تحقیق و تجر بات سے دنیا نئی مناز ل طے کر رہی ہے اسی طر یقے سے ہم ادب میں بھی مسلسل تحقیقات سے بلند ی کی جانب گامزن ہیں ۔منٹو اگر چہ پچھلی صدی کا اردو کے اول درجہ کا افسانہ نگار ہے لیکن اس کی بھی کئی چیزیں ہیں جواب تک پر دۂ خفا میں ہیں ۔مثلاًکئی ایسے نام سامنے آتے ہیں جس کو اس نے خطوط لکھے۔ لیکن وہ اب تک ہمارے ادب کا سر مایہ نہیں بن سکے تھے ۔ جن میں سے کچھ کو فاروق اعظم قاسمی نے بہت ہی محنت اور جفاکشی سے ارد وادب کے حوالہ کیا ہے جن کی تعداد 33 ہے ۔ ان نادر خطوط کو جس تحقیق و تلاش کے بعد سامنے لایا گیا ہے وہ ہمیں فن تحقیق کوسکھلا تی ہے اور اس جانب بھی اشارہ دیتی ہے کہ ایک سرا کے ملنے سے دو سرے سر ے کیسے کھلتے جاتے ہیں ۔

منٹو کے خطو ط کے متعلق موصوف نے پانچویں کڑی پیش کی ہے ۔ ان سے قبل 1962ء ، 1969 اور 1991 میں احمد ندیم قاسمی منٹو کے خطوط کی جمع و تر تیب کرچکے ہیں ۔ ان کے بعد اسلم پر ویز نے 2012 میں ان کے خطوط کو مر تب کیا ۔ جس میں انہوں نے قدیم تر تیب سے محض بارہ خطوط کا اضافہ کیا ۔فاروق اعظم قاسمی نے جب سندی تحقیق میں داخلہ لیا تو انہوں نے ’’ منٹو کے خطوط ندیم کے نام‘‘ کے موضوع کاانتخاب کیا۔انہوں نے اپنی تحقیق تو مکمل کی ہی ساتھ ہی ان کی کھوجی طبیعت نے 33 مزید خطو ط سے اردو دنیا کو متعارف کر ایا ۔ اب تک منٹو کے خطو ط سے متعلق یہ پانچویں تحقیق ہے ۔یہ تحقیق بالکل بھی آخری تحقیق نہیں کہی جاسکتی ۔ کیونکہ اب بھی کئی ناموی کی جانب اشارے ملتے ہیں جن کو منٹو نے خطوط لکھے ہیں لیکن ان خطوط تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے ۔

کتا ب کے شروع میں تقریبا 12 صفحات پر مشتمل تحقیق مقدمہ ہے ۔ واقعی یہ مقدمہ اتنا تحقیقی ہے کہ اکثر پیر اگراف میں نئی نئی تحقیقات ان کے خطوط کے متعلق پیش کی گئی ہیں۔ مقدمہ میں انہوں نے سب سے پہلے سابقہ تحقیق کہ منٹو نے سب سے پہلا خط 1937میں لکھا ، اس کو اپنی تحقیق سے مستر د کر دیا اور اپنی تحقیق انہوں نے یہ پیش کی کہ منٹو کا پہلا خط 13ستمبر 1933 کا ہے جو مولانا حامد علی خاں کے نام ہے ۔ اس خط کو بھی موصوف نے اس کتاب میں شامل کیا ہے ۔اسی خط کے متن ’’ از راہ عنایت اپنے گرا می ناموں میں مجھے مکر می اور محترمی ایسے الفاظ سے یا د نہ فر مایا کریں‘‘ سے اشارہ ہورہا ہے کہ اس سے پہلے بھی مولانا حامد علی خاں اور منٹو کے درمیان مراسلت ہوچکی ہے ۔ 

اس کتاب میں آٹھ لوگوں کے نام خطوط ہیں ۔ مولانا حامد علی خاں کے نام 14 ، مصطفی خاں کے نام 5، اپنی بڑی بہن ناصر ہ اقبال کے نام 4، والدہ کے نام 2، مجید امجد اور اختر الایمان کے نام ایک ایک خط ہیں ۔ ان کے علاوہ دو عمومی خطوط ہیں ایک رائیلٹی سے متعلق اور ایک مختلف فیہ افسانہ سے متعلق ہے جو انگریزی میں ہے ۔

موصوف نے مقدمہ میں اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ اسلم پرویز نے جب 2012 میں ان کے خطوط کو جمع کیا تو اس میں انہوں نے بارہ نئے ناموں کا اضافہ کیا ۔ ان کے خطوط کا سراغ تو نہیں لگ سکا البتہ جن ذرائع سے ان ناموں کا پتہ چلتا ہے اس کابھی ذکر نہیں ہے ۔لیکن فاروق اعظم قاسمی ان بارہ ناموں کے علاوہ مزید 19 اسماء کا ذکر کرتے ہیں او ر ان خطوط کے سراغ کا بھی ذکر کر تے ہیں ۔

محقق نے جن خطوط کو تلاش کر کے اس کتاب میں جمع کیا ہے ان خطوط کا تعلق ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی بھی ہے ۔ ان خطوط سے منٹو کے ابتدائی حالات کے بہت سے گوشے روشن ہوتے ہیں ۔ممبئی آنے سے قبل کی زند گی پر سے پردہ اٹھتا ہے ۔ نیز مولانا حامد علی خاں سے متعلق جو خطوط ہیں وہ بہت ہی دلچسپ ہیں ۔ان خطوط میں منٹو اپنی فلم شناسی کا ثبوت پیش کر تے ہیںاور مولانا کے تئیں جو عقیدت و محبت تھی اس کا بھی احساس کر اتے ہیں ۔جن جن کے نام مکتوب ہیں موصوف نے ان کااجمالی تعارف ان کے خطوط سے پہلے پیش کیا ہے اور ان کے خطوط کے اخیر میں حوالہ پیش کیا ہے کہ محقق کو یہ خطوط کہاں سے ملے ۔خطوط میں مذکورہ اشخاص بطور خاص اہل خانہ کا اشاریہ بھی مصنف نے پیش کیا ہے ۔

امید ہے کہ ہمیشہ کی طر ح یہ کتاب بھی مطبوعات کونسل میں سے اہم کتاب ثابت ہوگی اور اس کتاب سے یقینا منٹو کے متعلق تحقیقات کے نئے دریچے روشن ہوں گے ۔مبا رکبا د پیش کر تا ہوں خصوصی طور فاروق اعظم قاسمی صاحب کوکہ انہوں نے اس کتاب سے نئی نسل کی نمائندگی کی اور ثابت کیا کہ ارد و میں نئی نسل سے بہت ساری امیدیں وابستہ کی جانی چاہیے ۔ 

صفحات  62
قیمت  55 روپے 
ناشر  قومی کونسل بر ائے فروغ اردو زبان

تنقیدی دریچہ

 تنقیدی دریچہ 

محمد وصی اللہ حسینی 

تبصر ہ نگار:امیر حمزہ 

دریچہ ایک ادبی اور خوبصورت لفظ ہے ۔البتہ کام وہی لیا جاتا ہے جو کھڑکی سے لیا جاتا ہے نیز دونوں مترادف لفظ بھی ہیں ۔ کہتے ہیں کہ مترادفات بھی کمال کے ہوتے ہیں ، کہیں کہیں معنی بالکل تضاد کے دے جاتے ہیں جیسے کسی لڑکے کا  نام ’ نور عالم ‘ ہے ۔ عالم اور جہاں کے معنی تو ایک ہی ہے لیکن ان سے کہیے کہ جناب آپ اپنا نام’ نور جہاں‘ بھی تو رکھ سکتے تھے ۔ لیکن اس کا رد عمل کیا ہوگا وہ آپ سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ تو بات یوں ہی مترادف سے نکل آئی ۔
کہتے ہیں کہ دریچہ سے جھانکنا اور دریچہ میں نظر ڈالنا دونوں چیز یں بے ادبی سے گز ر کر بری عادتوں میں چلی جاتی ہیں ۔البتہ دریچو ں کے فوائد سے حکماء سے لیکر ادبا تک کسی کو انکار نہیں ہے ،کیابوڑھے ،کیا بچے اور کیا جوان سب اس کے دیوانے نظر آتے ہیں توچلیے ہم بھی دیوانگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی چٹخنی کو کھو لتے ہیں اور تنقیدی دنیا کی سیر کرتے ہیں ۔

اس تنقید عمارت میں بائیس چھوٹے بڑے اور متوسط دریچے ( مضامین ) ہیں ۔پہلا مضمون ’ وحیدالدین سلیم کی علمی و ادبی خدمات ‘ ہے ۔ عنوان میں لفظ علمی پر کچھ دیر کے لیے رکا پھر مضمون پڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ علمی ہی سے سمجھ جانا چاہیے کہ لفظ مولانا کنہی وجوہات کی بنا پر عنوان میں ایڈجسٹ نہیں ہوسکا ،لیکن علمی اور ادبی مشمولات کو بہت خوبصورتی سے مصنف نے ایڈجسٹ کیا ہے، جو یقینا مزید کی جستجو پیدا کر تا ہے ۔مصنف کا خیال ملاحظہ ہو ’’ راقم کے خیال میں اگر ان کے تبحر علمی و ادبی کارناموں کو الگ کر دیا جائے تب بھی ارد و ادب میں ان کے ’مقام بلند ‘ کے لیے یہی کافی ہے کہ مولانا حالی جیسے شاعر و ناقد ان کے تبحر علمی کے قائل تھے ۔ سر سید جیسے نابغہ ٔ رو زگار نے ان کو اپنا لٹریری اسٹنٹ منتحب کیا تھا اور بابائے اردو مولوی عبدالحق جیسے زبان داں نے عثمانیہ یو نی ورسٹی کے دارالتر جمہ میں وضع اصطلاحات و الفاظ سازی جیسا اہم کام سپر د کیا تھا ‘‘ ۔

’’علامہ سید سلیمان ندوی کے شعری کمالات ‘‘ میں جس قدر کمالات کو تنقید کے دریچہ میں رکھا گیا ہے کہ مضمون پڑھنے کے بعد دل میں جو خیال آیا وہ پیش ہے ’’ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بطور شاعر کم اور بطور نثر نگار زیادہ شہر ت پائی ،جبکہ نثر ی دنیا میں شاید وہ اس مقام کو نہیں پہنچ سکے جتنا اس عہد میں دوسرے تنقید نگاروں کے حصہ میں آیا ‘‘ ۔ گویاان کے شعری دریچے کو ناقدین نے زیادہ کھولنے کی کوشش نہیں کی جیسا کہ فاضل مصنف اپنے اس مضمون میں اشارہ کر تے نظر آتے ہیں ۔

’’ جنگ آزادی کے جانباز سپاہی : قاضی عدیل عباسی ‘‘ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے ، روانی کمال کی ہے ۔ آپ پڑھتے چلے جائیں گے اور مجاہد آزادی کے جہد مسلسل پر رشک کر تے چلے جائیںگے ۔

’’ مجاہد آزادی مو لوی جعفر علی نقوی‘‘ جن کا شمار اٹھا رہ سو ستاون کے اہم مجاہدین میں ہوتا ہے ان کے جملہ خدمات پر ایک جامع مضمون ہے ۔ 

’’ علی بر ادران کی شخصیت سازی میں بی اماں کا کر دار ‘‘ یہ مختصر سا مضمون وسعت کے اعتبار سے کر دار سے زیادہ بی اماں کی قربانیوں کی جھلک زیادہ پیش کر تا ہے ۔

’’ کیفی اعظمی اچھے شاعر ،بڑے انسا ن ‘‘ میں اچھے شاعر سے زیادہ ایک اچھے انسان کے طور پر کیفی اعظمی کو پیش کر نے کی اچھی کو شش کی گئی ہے ۔

’’ جا ں نثا ر اختر کا شعری پس منظر‘‘ اس مختصر سے مضمون میں جاں نثار کے شعر ی پس منظر تک پہنچتے پہنچتے زندگی کا پس منظر آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔ان کا شعر ی پس منظر جس میں ’’ گھر آنگن ‘ ‘ کی طر ف میلان میں مجبو ریاں نظر آتی ہیں وہ نظر آئیں گے لیکن شاعری کا نمونہ پیش کر نے کی مجبو ریاں آپ سے پوشیدہ رہیںگی ۔

’’ شکیل بدایونی : ایک رومانی شاعر ‘‘ کے دریچہ سے تنقید کی ایک جھلک ملاحظہ فر مائیں ’’ شکیل بدایونی نے شاعری میں اپنا الگ راستہ اختیار کیا ، اپنے دور کے تینوں رجحانوں میں سے کسی کے اسیر نہیں ہوئے ۔ نہ تو انہوں نے نئے نئے تجر بوں پر توجہ دی ، نہ تر قی پسندی کی وردی پہنی اور نہ ہی جگر مرا د آبادی کی اندھی تقلید کی ۔ بلکہ وہ غزل کے حامیوں سے اس بات سے متفق تھے کہ غزل میں بھی سماجی شعور اور نئے طر ز کی گنجا ئش ممکن ہے ‘‘ ۔ اس مضمون میں رومانی شاعری کے علاوہ شکیل کے یہاں کیا کیا ہے وہ بھی پڑھنے کو ملے گا ۔ ساتھ ہی تحر یکات و رجحانات کے موسم میں کسی کے خریدار و طر فدار نہ ہونے پر بھی زور ہے ۔

’’ کنور مہندرسنگھ بیدی سحر : جامع صفات شخصیت ‘‘ ایک اچھا خراج عقیدت سے بھر پور تاثراتی مضمون ہے ۔

’’ ولی انصاری کی غزلوں کا رنگ اور انداز فکر ‘‘ اس کتاب میں شامل ایک طویل تحقیقی مضمون ہے جس میں مصنف نے کھل کر اپنے اشہب قلم کو رفتا ر دی ہے ۔

’’ خمار بارہ بنکوی (تغزل سے تقد س تک )‘‘ اس مضمون میں آپ کو خمار کے رومانوی رنگ کے تین وجوہات پڑھنے کو ملیں گے ،ساتھ ہی خمار کی شاعری کا عہد بعد اور موضوع بہ موضع اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔

’’ کلام والی کے فکر ی و فنی ابعاد ‘‘ میں مصنف نے بہت ہی سنجیدگی سے والی آسی کی ’ یاس ‘ اور ’ آس ‘ دونوں کو پیش کیا ہے ۔

’’ زندگی اور انسانیت کا رزمیہ نگار ، ڈاکٹر اختر بستوی‘‘ سب سے زیادہ حوالہ جات سے مزین مضمون نہیں !بلکہ مقالہ ہے ۔اس مضمون میں انسانیت سے لیکر شاعریت اور شعر یت تک سب کچھ دریچہ میں سجا نے کی عمدہ کو شش کی گئی ہے ۔

’’ شاطر حکیمی کی نعتیہ شاعر ی‘‘ اس مضمون کو پڑھا پھر پڑھا پھر ایک دن کے وقفہ کے بعد پڑھا اور تحقیق ، تنقید ، تجزیہ و تبصر ہ کے مابین الجھ کر بصارت بصیرت تک کی تر سیل اور بصیرت آؤٹ پٹ دینے میں ناکام رہی ۔لیکن آپ جب مطالعہ کر یں گے تو سب کچھ مل سکتا ہے ۔

’’ملک زادہ منظور احمد کا جہان تنقید ‘‘ اتنا وسیع ہے کہ اس کے لیے ایک ہی مضمون میں جہان تنقید کو سمیٹنا ممکن نہیں۔  اس لیے قلم کی سیاحت کے لیے ایک ہی شہر (کتاب ) ’’ شہر سخن ‘‘ کا انتحاب کیا ۔جس میں شامل ۲۶ چھو ٹے بڑے شہریو ں ( شعرا ء) کے متعلق دلچسپ اقتباسات پڑھنے کو ملیں گے ۔

’’ ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی اور اردو ناولٹ ‘‘ میں ناول اور ناولٹ کے مابین جتنی وضاحتیں ڈاکٹر وضاحت حسین رضوی نے کی ہیں ان کی توضیحات مصنف کے قلم سے پڑھنے کو ملیں گی ۔

’’ غزل سرائی کی نئی ادا : جنیوارائے‘‘ اس مضمون کا تعارف اس کی ضمنی سرخی ہی پیش کر رہی ہے ’ شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو‘۔ 

’’ جنگ آزادی میں بستی کے مسلمانوں کا حصہ ‘‘ کتاب کے دیگر مضامین کی طر ح یہ بھی ایک اہم تحقیقی و تعارفی مضمون ہے ۔ اس موضوع پر کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ تا ہم اس مضمون کے مطالعہ کے بعد آپ قلیل سے کثیر کی جانب ضرور راغب ہوں گے۔ اس مضمون میں ضلع بستی کے صرف چھ عظیم مجاہد کا ذکر مختصر طور پر پیش کیا گیا ہے ۔

’’ دانش محل : کتابوں کا تاج محل‘‘ اس مضمون کو پڑھ کر یقینا آپ کے دل میں خواہش اس علم و دانش کے تاج محل سے فیضیاب ہونے کی ہوگی ۔اقتباس ملاحظہ فرمائیں ’’ دانش محل ایک ادار ہ ہی نہیں ایک تہذیب کا نام ہے ۔ قدیم فن تعمیر پر مشتمل ایک کشادہ اور ہال نما وسیع و عر یض اس دکان میں کتابیں ریک میں بڑے سلیقے سے رکھی گئیں ہیں ۔ کتابوں کی ریک کے اوپر دیواروں میں عظیم علماء ، ادبا ء ، شعراء اور دانشوروں کی تصویر آویزا ں ہیں ۔... . اس سلیقہ مندی اور تزئین کاری سے دکان کا منظر انتہائی حسین نظر آتا ہے ‘‘ 

’’ اردو زبان و ادب میں خواتین کا حصہ ‘‘ یہ مطلقا ایک تعارفی مضمون ہے جس میں تعارف سے پرے صر ف اسما پر صبر کر نا پڑے گا ۔’’ صنعت غیر منقوط ‘‘ میں ہادی عالم اور داعی اسلام سے پرے کی بھی دنیا نظر آئے گی ۔  الغرض کتاب نئے موضوضات بر محیظ ہے جسکا مطالعہ یقینا فائدے سے خالی نہیں ہوگا ۔

صفحات : ۲۱۶
قیمت : ۱۳۳
ناشر : محمد وصی اللہ حسینی ، ۴؍۶۳ ، شتر خانہ ادے گنج ،لکھنؤ ، ۲۲۶۰۰۱


Tuesday 9 July 2019

سیدعبدالفتاح اشر ف گلشن آبادی اور قصیدہ بر دہ

سیدعبدالفتاح اشرف گلشن آبادی اور قصیدہ بردہ 

ڈاکٹر سعیدہ اختر پٹیل 

امیر حمزہ 

سبعہ معلقہ کے بعدعربی زبان کے دوقصید ے ایسے مشہور ہوئے کہ اب تک اس قسم کا قصید ہ دوبارہ وجود میں نہیں آیا ، ایک قصیدہ کعب بن زہیر کا (بانَت سُعاد ) اور دوسرا قصیدہ امام بوصیری کا ۔ دو نوں قصیدے ،قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔دونوںنعتیہ قصیدے ہیں اور دونوں کے زمانۂ تخلیق میں چھ صدی کا فاصلہ ہے ۔یہ قصیدے اتنے مقبول ہوئے کہ ان کے تراجم دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوے ۔ اردو میں امام بوصیری کے قصیدہ کا تر جمہ اشر ف گلشن آبادی نے کیا ہے ۔یہ کتاب سید عبدالفتاح اشر ف گلشن آبادی اور ان کے ترجمہ قصید بر د ہ پر ہے ۔

مصنفہ تحقیقی مزاج کی حامل ہیں جن کا تعلق تحقیقی ادارہ انجمن اسلام اردو ریسر چ انسٹی ٹیوٹ ممبئی سے ہے ۔اس کتاب سے پہلے ان کے کئی تحقیقی مقالات منظر عام پر آچکے ہیں جن میں سے ’’ مہاراشٹر کی اردو مثنویاں ‘‘ ،’’ اردو ڈرامہ کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ‘‘ اور ایک ٹیم ورک کے طور پر ’’ فارسی ادب بعہدمراٹھا حکمراں ‘‘ ۔ اسی طر ح سے ایک عمدہ تحقیقی کام اس تصنیف کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے ۔

مصنفہ نے دو مختلف تحقیقی موضوعات کو ایک ہی کتاب میں پیش کیا ہے۔ سید عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبا دی مستقل ایک تحقیق کا موضوع ہے اور اس موضوع کو مصنفہ نے بہت ہی خوبصور تی سے نصف کتاب میں بسط و تفصیل سے پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔موصوف سے متعلق شروع کے چار عناوین میں ان کی ذاتی زندگی سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔پانچو یں عنوا ن میں سید عبدالفتاح کی تالیف و تصانیف کو پیش کیا ہے ۔ یہ ایک مکمل تحقیقی دستاویز ہے ۔ ان کی کتابوں کے تعلق سے جو تحقیق ہے کہ انہوں نے کتنی کتابیں یاد گار چھوڑی ہیں ان سب کو دلائل سے پیش کیا ہے۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ کتابیں ان کی جانب منسوب کی گئی ہیں لیکن مصنفہ محتر مہ میمونہ دلوی کی تحقیق کہ انہوں نے ۳۲  یادگار تصانیف لکھیں ہیں اس جانب مائل نظر آتی ہیں ۔ اسی مضمون میں کن کن لائبریریوں میں موصوف کی کون کون سی کتب موجود ہیں ان کامختصر تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ کتابوں کی جلدوں کی تعداد اور دیوان کے مشمولات پر بھی بحث شامل مضمون ہے ۔ اس مضمون سے انداز ہ ہوتا ہے کہ موصوف اپنے وقت کے بہت جید عالم تھے ان کی کتابیں جہاں اس وقت کے تعلیمی ادارے میں داخل تھیں وہیں انہوں نے فتاوی بھی تر تیب دیے اور شاعری کا دیوا ن بھی یادگار چھوڑا ، لسانیا ت میں عمدہ گر فت کے ساتھ تاریخ میں بھی دستر س رکھتے تھے ۔ الغرض انہوں نے معقولات اور منقولات کے جملہ علوم پر کتابیں لکھیں ہے ۔ 

مندرجہ بالا کے علاوہ ایک یادگار کارنامہ قصیدہ بر دہ کا منظوم تر جمہ ہے ۔ جس تر جمہ نے انہیں وہ شہر ت عطا کی جو ان کو دوسری تصنیفات سے حاصل نہیں ہوئیں ۔ قصیدہ بردہ عربی میں کئی لکھے گئے لیکن شہر ت صر ف دو کو ہی ملی ایک کعب بن زہیر کی ’’بانت سعاد‘‘ اور دوسرا امام محمد بن سعید بوصیری کے ’’قصیدہ بر دہ‘‘ کو ۔ کعب بن زہیر کے قصیدہ کو سن کر حضور نے ان کو اپنی چادر اوڑھائی تھی اور وہ چادر خلفاء بنی عباس تک صحیح سالم رہی۔ اس کے بعد اس متعلق تاریخ میں کوئی حتمی بات نہیںملتی ہے ۔ اسی طر یقے سے امام بوصیر ی کے خواب میں حضور آئے اور ان کو چادر پیش کیا ۔ اس اعتبار سے ان قصید وں کو قصیدہ بر د ہ کہا جاتا ہے ۔ مصنفہ نے جہاں ان چیزوں کو پیش کیا ہے وہاں ہلکی سی چوک ہوئی ہے ۔ وہ یہ کہ کعب بن زہیر کے نام میں کہیں کہیں زہیر بن کعب لکھا گیا اور دوسرے مضمون کے آخرمیں لکھتی ہیں ’’ امام بوصیر ی کو عطا کر دہ ردائے رحمت بوصیر ی کے بعد کن ہاتھوں میں پہنچی اور اب کہاں ہے اس کی جستجو و تلاش جاری ہے ‘‘ (ص۸۲) ۔ان کو تو چادر خواب میں عطا ہوئی تھی ۔ پھر کن ہاتھوں میں پہنچنے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟۔

’’قصیدہ کی شرحیں اور تر جمے‘‘ میں انہوں نے دنیا میں کی گئی تر اجم کا ذکر کیا اور اردو تر اجم کا خصوصی ذکر ہے ۔ایک مختصر مضمون علامہ اقبال اور امام بوصیری کے تعلق سے بھی ہے ۔ایک اہم عنوان ’’شر ح قصیدہ بر دہ شریف ‘‘ ہے ۔ اس عنوان کے تحت ۱۲ سے زیادہ صفحات پر مشتمل قصیدہ بر دہ شر یف کو صرف ۶ صفحات میں پیش کیا گیا ہے ، میرے خیال سے مصنفہ سے چوک ہوگئی۔ شاید خلا صہ پیش کر نا چا ہتی تھیں جیسا کہ پیش بھی کیا ہے لیکن شر ح لکھا گیا اس میں قصیدہ بردہ کے دسو ں باب کا خلاصہ ہے ،نہ کہیں لفظی بحث ہے اور نہ ہی معنوی بحث ، نہ ہی تعلیقہ کے تحت آنے والے اسماء و مقامات کا تعارف ہے بلکہ ایک عمومی تجزیہ ہے قصیدہ بردہ پر ۔ اس کتاب کا سب سے اہم تنقیدی جزو میر ے نزدیک ’ ’دایوان اشر ف الاشعار‘ ‘ ہے ۔ اس میں مصنف نے ان کے دیوان کا جزوی مطالعہ اور قصیدہ بر دہ (تر جمہ ) کا کلی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ ہر ایک باب کے عربی اشعار کے ساتھ اردو اشعار کا موازنہ بھی پیش کیا گیاہے اور اس پر اپنی تنقیدی نظر بھی ڈالی ہے ۔ موصوف کے قصید ہ گوئی کے تعلق سے مصنفہ لکھتی ہیں ’’ وہ محمد رفیع سودا کی طرح مزاجاًقصیدے کے شاعر تھے ۔ ان کے اشعار پُر زور اور پُر شکوہ الفاظ سے مملو ہیں۔ لیکن طنطنہ خیز نہیں ہیں‘‘ (ص ۱۱۴) ۔ یقینایہ خصوصیت اس کتاب میں شامل قصیدہ بر دہ میں نظر آتی ہے ۔ اس کے بعد امام بوصیری کا عربی قصیدہ بر د ہ ، پھر مولوی عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبادی کا اردو قصید ہ شاملِ کتاب ہے ۔

الغر ض مصنفہ نے ایک عمدہ تحقیق سید عبدالفتاح اور ان کے قصید ہ کے تعلق سے پیش کیا ہے اس کے لیے وہ بہت ہی مبارکباد کی مستحق ہیں اور ساتھ ہی پر وفیسر عبدالستا ر دلوی بھی جن کا پر مغز مقدمہ شامل کتاب ہے اور انجمن اسلام کابھی جو اتنے عمدہ تحقیقی کام انجام دے رہی ہے۔

صفحات  ۲۰۰
قیمت  ۲۰۰
ناشر  انجمن اسلام اردو ریسر چ انسٹی ٹیوٹ ، ممبئی 

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...