Tuesday 3 December 2019

غزل اور فن غزل

 غزل اور فن غزل


موجودہ وقت میں اردو کے کہنہ مشق استاد شعراء میںظہیر غازی پوری کا اہم نام ہے ۔ان کی شناخت جہاں ایک شاعر کے طور پر ہے وہیں غزل کے اہم ناقد کے طور پر اردو دنیا میں مقبول و معروف ہیں ۔ان کے قلم سے اکثر تحریریں شاعری کی فنی باریکیوںپر اس بے استادی کے دور میں پختہ و ناپختہ شاعر کو متوجہ اور متنبہ کر نے کے لیے معرض وجود میں آتی رہتی ہیں ۔گو کہ وہ اردو کے پروفیشنل نقاد نہیں ہیں لیکن ان سب کے درمیان ایک مستحکم نظر یہ پیش کرنے والے کی شناخت رکھتے ہیں ۔وہ اکثر اپنی تحریر کو بہت ہی چانچ پر کھ کے بعد قارئین کے سامنے پیش کر تے ہیں ۔

مصنف کی زیر تبصرہ کتاب گیارہ عنوانات پر مشتمل ہے ۔سب سے پہلے’ جدید اردو غزل کا دوسرارخ ‘ میں جہاں وہ موجودہ غزل کی بہت ساری خوبیوں کو شمار کر واتے ہیں وہیں و ہ فنی طور  پر ناکام رہنے والوں پر بہت ہی نالاں نظر آتے ہیں۔ لکھتے ہیں ’’ در اصل جد ید غزل سے ان لوگوں کو زیادہ نقصان پہنچاہے جو شعری اور فنی تقاضوں سے پوری طر ح واقفیت نہیں رکھتے ‘‘،’’ آج ابہام کو ہنر سمجھا جانے لگا ہے۔ بات صر ف ابہام تک محدود ہوتی تو زیادہ خطر ہ نہ تھا لیکن اب تو قوافی ، اوزان ، تعقید ، اور اضافت کے معمولی معائب بھی جا بجا اشعار میں مل جا تے ہیں اور بے ساختہ ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے ‘‘ (ص۱۹)۔

اس کے بعد’’ غزل ایک جانب دارصنف سخن ‘‘ میں غزل کے اوصاف وخصائص کو شمار کرواتے ہوئے اس کی بھر پور وکالت کرتے ہیں اور’’نیم وحشی صنف شاعر ی میں‘ ‘ کلیم الدین احمد کے اس قول کا منطقی و فلسفی جواب دیتے ہیں ۔اسی کڑی کو وہ آگے ’’ صنف غزل میں مسلسل یلغار ‘‘ میں بڑھاتے ہیں ۔اس میں وہ ستیہ پال آنند کے مضمون ’’ کہی گئی یا بنائی گئی شاعری‘‘ جو ماہنامہ صریر کراچی میں شائع ہوا تھا پر سیر حاصل گفتگو کر تے ہیں ۔اپنی اس گفتگو میں وہ افتخارامام صدیقی، عزیر پریہار، مخمور سعیدی، مصور سبزواری، پروفیسر محمد حسن ، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی ، رام لعل ، ڈاکٹر اسلم حنیف ، برتپا ل سنگھ بیتاب ، جمیل فاطمی ،اندر موہن کیف وغیرہ کو ان کی تحریروں کے ساتھ شامل کر تے ہیں ۔اس پوری بحث میں جو بھی غزل میں یلغار کر تا ہے یا خواہش مند ہے اس کے لیے تسلی بخش جواب ہے ۔’’ نئی غزل میں تخلیقی لفظ و زبان ‘ ‘ پر بحث کر تے ہوئے مصنف نے لفظ و معنی اور موضوع پر بھی بحث کی ہے نیز موجودہ وقت کی شعری زبان کو ان عوامل کی باز گشت کہا ہے جو انسان کے ظاہر و باطن دونوں کو کرید رہی ہے ۔عروضی و فنی معائب تحر یر کر تے ہوئے مصنف کا تاثر یہ ہوتا ہے کہ جدید شاعروں میں اکثر یہ خامیاں کسی باریک بیں فن کار استاد شاعر سے تلمذ اختیار نہ کر نے اور مشورہ نہ لینے کی وجہ سے نظر آتی ہیں ۔ اس میں انہوں نے شعر کی جلی و خفی فنی کمیوں کو پیش کیا ہے جو اکثر عدم توجہی او رلا علمی میںشاعر سے سرزد ہوتی رہتی ہیں ۔

اس کتاب میں مصنف نے جہاں کئی فنی خوبیوں اور کوتاہیوں کو بیان کیا ہے وہیں خصوصی طور پرایطا ء کا تفصیلی ذکر بھی ہے ۔ایطا ء جو شعر کی اصطلاح میں ایک غلطی کا نام ہے اس کی تفصیلی تعریف استاد شعر اء کی تحر یروں سے نقل کر تے ہیں پھر مصنف اس کی تمام فنی باریکیوں پر سیر حاصل بحث کر تے ہیں اور تمام بڑے شعراء کے کلام میں ایطائے جلی و خفی کو پاتے ہیں ۔ جس سے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایطا ء کو ئی بڑا عیب نہیں ہے ۔اس کے بعدردیف و قوافی کے مسائل بھی تحر یر کر تے ہیں ۔

اخیر میں’’ غزل چہر ہ آئینہ در آئینہ ‘‘کے عنوان سے غزل کی تمام پرتوں کو مشہور ناقدین شعر کے حوالے سے اپنے خیالا ت و نظر یات کو مزین کر کے پیش کرتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب سے پہلے ان کی تین کتابیں تنقید کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکی ہیں ۔ان میں سے خصوصاً ’’مطالعہ ٔ اقبال کے چند اہم پہلو‘اپنے موضوع میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ شاعر ی میں کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ، رباعی کا بھی ایک مجموعہ ’’دعوت صد نشتر ‘‘1997 میں منظر عام پر آیا ۔

 الغر ض کتاب کے مطالعہ کے بعد قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک عرصہ کی طویل محنت ومشقت اور جانفشانی کے بعد اس کتاب کو مارکیٹ میں لایا گیا ہے جو یقینا شاعروں اور غزل شناس حضرات کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے ۔ہمیں امید ہے کہ ادب کے اس بے لوث خدمت گار کو مالک حقیقی سے بہترین اجر ملیگا۔

مصنف : ظہیرؔ غازی پوری 
صفحات :  160
قیمت:  200 روپے
سنہ اشاعت: 2015
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۔6
مبصر: امیر حمزہ L-11/14 حاجی کالونی ،غفار منزل ، جامعہ نگر ،نئی دہلی ۔25

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...