Showing posts with label تبصرے. Show all posts
Showing posts with label تبصرے. Show all posts

Thursday 8 December 2022

رباعیات رباب رشیدی

  نام کتاب رباعیات 

نام شاعر رباب رشیدی ( سلمان احمد )

سن اشاعت ۲۰۲۰

صفحات ۲۲۴

 قیمت ۳۰۰ روپے

ملنے کا پتہ رباب رشیدی ، ۱۲۶ ؍تازی خانہ ، امین آباد، لکھنؤ، یوپی ۔۲۶۶۰۱۸

 اردو کے ادبی حلقوں کے لیے رباب رشیدی کوئی نیا نام نہیں ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابر سفید ‘‘ ۱۹۸۴میں شائع ہوا ، اس کے بعد حمد و نعت کے مجموعے بھی منظر عام پر آتے رہے ۔ لیکن وہ خود ہی اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ شروع سے ہی غیر محسوس طور پررباعی سے منسلک رہے لیکن کبھی اس جانب تو جہ نہیں کی اس لیے رباعیاں منتشر تھیں ۔ اب جاکر انہوں نے رباعیاں جمع کیں اور سادگی کے ساتھ ’’رباعیات ‘‘ کے نام سے شائع بھی کیں ۔ اکیسویں صدی کے اِن دو دہوں کی بات کی جائے تو رباعی گوئی کا رجحان بڑھا ہے اور ساتھ ہی رباعیات کے مجموعے شائع کرانے کا بھی ۔ ایسے میں رباعی کے متعلق یہ خوبصورت فضا بھی تیار ہوئی کہ اب رباعی اردو کے ادبی ماحول میں اجنبی صنف سخن کے طور پر نہیں جانی جاتی ہے اور نہ ہی قدیم ذیلی اصناف میں اس کوگردانا جاتا ہے بلکہ موجودہ وقت کی بات کی جائے تو ہر ادبی شہر میں اردو رباعی گو شعرا مل جائیں گے ۔ رباب رشیدی صاحب کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور لکھنوکی ادبی و شعری روایت سے کون واقف نہیں ۔رباعی کی عمدہ روایت لکھنؤ سے منسوب ہے ، رباعی کے بڑے بڑے شعرا لکھنؤ سے وابستہ رہے ہیں اسی روایت کے علَم کو رباب رشیدی سنبھالے ہوئے ہیں ۔ 

 ان کے پیش لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے رباعیات کو زیادہ سنجیدگی سے لیا بھی ہے اور نہیں بھی ،رباعیوں کی اہمیت ان کے یہاں بایں طور پر نظر آتی ہے کہ اپنے پہلے شعر ی مجموعہ ’’ ابر سفید ‘‘ کا دیباچہ انہوں نے رباعی میں لکھا ۔جس سے رباعی کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ رباعیات میں دیباچہ لکھنا فاروقی کی اتباع میں ہے ،یہ کتاب بھی وہ فاروقی کو ہی معنون کرتے ہیں ، فاروقی نے جس طرح اپنے پہلے شعر ی مجموعہ کا دیبا چہ دو رباعیوں میں لکھا ہے ان ہی کی اتباع رباب رشیدی بھی کرتے ہیں لیکن صرف دو رباعیوں سے نہیں بلکہ اٹھارہ رباعیوں سے ۔ اس کے بعد انہوں نے رباعی گوئی کی جانب زیادہ دلچسپی نہیں لی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رباعی گوشعرا میں ان کا نام بہت ہی کم رقم ہوتا ہے ۔لیکن اس مجموعے سے ماضی کا خلا پن دور ہوکر اردو رباعی کی دنیا میں ایک نئی آواز بھی سنائی دے گی ۔ رباعی کی یہ آوازروایتی آواز سے بہت ہی زیادہ مختلف نظر آتی ہے ۔اس مجموعے میں کل چار سو چالیس رباعیاں ہیں ۔ ساری رباعیاں ایک ترتیب سے ہیں ۔عموما رباعیوں کو عناوین کے تحت ذکر کیا جاتا ہے لیکن شروع کی آٹھ رباعیاں بغیر کسی عنوان کے حمد ونعت اور دعا جیسے مضامین کی حامل ہیں ۔ اس کے بعد شہر آشوب کا عنوان درج ہے جس کے بعد پورے مجموعے کی رباعیاں ہیں جن کی تعداد ۴۳۲ہیں ۔ ایسے میں ہم یہی سمجھیں کہ جو شہرآشوب قصائد میں ہوا کرتا تھا وہ ان کی رباعیوں میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن جب موضوعات کی جانب توجہ دیتے ہیںتو تنہائی، حوصلہ، موجودہ حالات ، قیادت ، شہر لکھنؤ ،تہذیب ، فطرت ، رواداری ، مروت ، حدسے تجاوز کے بعد کی کیفیت ، نغمہ، یاد ماضی، دباؤ، حالات ، تلاشِ ذات ، لاچاری، امنگ ، تمناؤں کا ٹوٹنا، روانی و دیگر موضوعات کی حامل رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان موضوعات کو بغور دیکھیں تو یقینا انہوں نے شہرآشوب ہی رقم کیے ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں اصلاح ہے اور نہ صوفیانہ فلسفے کی چھاپ بلکہ موجودہ وقت کی شاعری کی چھاپ مکمل طور پر نظرآتی ہے ۔ ہر صفحہ میںانہوں نے دو رباعیوں کو رکھا ہے ۔ رباعیاں یا تو دو سطروں میں لکھی جاتی ہیں یا چار سطروں میں ، لیکن ان کی رباعیاں دو اشعار کی صورت میں پانچ سطروں میں ہیں جن میں بیچ کی سطراشعار میں فاصلہ کے لیے ہے ۔ اس طریقے سے رباعی لکھنے کا طریقہ پہلی مرتبہ اسی کتاب میں نظرآتا ہے ۔ رباعی کے لیے یہ بات اہم ہوتی ہے کہ اس کے چاروں مصرعے دو دو مصرعے کا شعر بن کر نہ رہ جائے بلکہ چاروں ایک اکائی صورت میں آپس میں مر بوط ہوں ایسے میں مشاہدہ بھی رہا ہے کہ غزل کے شعرا جب رباعیاں رقم کرتے ہیں توان کی رباعیوں میں غزل کے اشعار کی سی کیفیت پائی جاتی ہے جو رباعی میں فنی سقم کی کیفیت کو لاتا ہے ۔ الغرض رباعیاں کہنا اگرچہ مشکل فن ہے ساتھ ہی رباعی کے مزاج کے ساتھ رباعیاں کہنا اوربھی مشکل فن ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو میں رباعی گو شاعر انگلیوں پر گنے جاتے ہیں ۔ اب اس مجموعے سے ادبی حلقوں میں رباب رشیدی کا رباعی گو شاعر ہونا کتنا مؤثر ثابت ہوتا ہے وہ ناقدین کی تحریروں اور عمومی مقبولیت سے بھی ثابت ہوگا ۔ ان کی ایک عمدہ رباعی ملاحظہ ہو: 

 کچھ یوں ہی نہیں ہے کج کلاہی اپنی 

صد شکر روش ہے خانقاہی اپنی 

سچ بات ہے لیکن وہ برا مانیں گے 

منظر سے بڑی ہے خوش نگاہی اپنی 

 امیر حمزہ 

مدرسہ محلہ نوادہ ، ہزاری باغ ،جھارکھنڈ


Tuesday 9 July 2019

سیدعبدالفتاح اشر ف گلشن آبادی اور قصیدہ بر دہ

سیدعبدالفتاح اشرف گلشن آبادی اور قصیدہ بردہ 

ڈاکٹر سعیدہ اختر پٹیل 

امیر حمزہ 

سبعہ معلقہ کے بعدعربی زبان کے دوقصید ے ایسے مشہور ہوئے کہ اب تک اس قسم کا قصید ہ دوبارہ وجود میں نہیں آیا ، ایک قصیدہ کعب بن زہیر کا (بانَت سُعاد ) اور دوسرا قصیدہ امام بوصیری کا ۔ دو نوں قصیدے ،قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔دونوںنعتیہ قصیدے ہیں اور دونوں کے زمانۂ تخلیق میں چھ صدی کا فاصلہ ہے ۔یہ قصیدے اتنے مقبول ہوئے کہ ان کے تراجم دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوے ۔ اردو میں امام بوصیری کے قصیدہ کا تر جمہ اشر ف گلشن آبادی نے کیا ہے ۔یہ کتاب سید عبدالفتاح اشر ف گلشن آبادی اور ان کے ترجمہ قصید بر د ہ پر ہے ۔

مصنفہ تحقیقی مزاج کی حامل ہیں جن کا تعلق تحقیقی ادارہ انجمن اسلام اردو ریسر چ انسٹی ٹیوٹ ممبئی سے ہے ۔اس کتاب سے پہلے ان کے کئی تحقیقی مقالات منظر عام پر آچکے ہیں جن میں سے ’’ مہاراشٹر کی اردو مثنویاں ‘‘ ،’’ اردو ڈرامہ کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ‘‘ اور ایک ٹیم ورک کے طور پر ’’ فارسی ادب بعہدمراٹھا حکمراں ‘‘ ۔ اسی طر ح سے ایک عمدہ تحقیقی کام اس تصنیف کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے ۔

مصنفہ نے دو مختلف تحقیقی موضوعات کو ایک ہی کتاب میں پیش کیا ہے۔ سید عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبا دی مستقل ایک تحقیق کا موضوع ہے اور اس موضوع کو مصنفہ نے بہت ہی خوبصور تی سے نصف کتاب میں بسط و تفصیل سے پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔موصوف سے متعلق شروع کے چار عناوین میں ان کی ذاتی زندگی سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔پانچو یں عنوا ن میں سید عبدالفتاح کی تالیف و تصانیف کو پیش کیا ہے ۔ یہ ایک مکمل تحقیقی دستاویز ہے ۔ ان کی کتابوں کے تعلق سے جو تحقیق ہے کہ انہوں نے کتنی کتابیں یاد گار چھوڑی ہیں ان سب کو دلائل سے پیش کیا ہے۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ کتابیں ان کی جانب منسوب کی گئی ہیں لیکن مصنفہ محتر مہ میمونہ دلوی کی تحقیق کہ انہوں نے ۳۲  یادگار تصانیف لکھیں ہیں اس جانب مائل نظر آتی ہیں ۔ اسی مضمون میں کن کن لائبریریوں میں موصوف کی کون کون سی کتب موجود ہیں ان کامختصر تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ کتابوں کی جلدوں کی تعداد اور دیوان کے مشمولات پر بھی بحث شامل مضمون ہے ۔ اس مضمون سے انداز ہ ہوتا ہے کہ موصوف اپنے وقت کے بہت جید عالم تھے ان کی کتابیں جہاں اس وقت کے تعلیمی ادارے میں داخل تھیں وہیں انہوں نے فتاوی بھی تر تیب دیے اور شاعری کا دیوا ن بھی یادگار چھوڑا ، لسانیا ت میں عمدہ گر فت کے ساتھ تاریخ میں بھی دستر س رکھتے تھے ۔ الغرض انہوں نے معقولات اور منقولات کے جملہ علوم پر کتابیں لکھیں ہے ۔ 

مندرجہ بالا کے علاوہ ایک یادگار کارنامہ قصیدہ بر دہ کا منظوم تر جمہ ہے ۔ جس تر جمہ نے انہیں وہ شہر ت عطا کی جو ان کو دوسری تصنیفات سے حاصل نہیں ہوئیں ۔ قصیدہ بردہ عربی میں کئی لکھے گئے لیکن شہر ت صر ف دو کو ہی ملی ایک کعب بن زہیر کی ’’بانت سعاد‘‘ اور دوسرا امام محمد بن سعید بوصیری کے ’’قصیدہ بر دہ‘‘ کو ۔ کعب بن زہیر کے قصیدہ کو سن کر حضور نے ان کو اپنی چادر اوڑھائی تھی اور وہ چادر خلفاء بنی عباس تک صحیح سالم رہی۔ اس کے بعد اس متعلق تاریخ میں کوئی حتمی بات نہیںملتی ہے ۔ اسی طر یقے سے امام بوصیر ی کے خواب میں حضور آئے اور ان کو چادر پیش کیا ۔ اس اعتبار سے ان قصید وں کو قصیدہ بر د ہ کہا جاتا ہے ۔ مصنفہ نے جہاں ان چیزوں کو پیش کیا ہے وہاں ہلکی سی چوک ہوئی ہے ۔ وہ یہ کہ کعب بن زہیر کے نام میں کہیں کہیں زہیر بن کعب لکھا گیا اور دوسرے مضمون کے آخرمیں لکھتی ہیں ’’ امام بوصیر ی کو عطا کر دہ ردائے رحمت بوصیر ی کے بعد کن ہاتھوں میں پہنچی اور اب کہاں ہے اس کی جستجو و تلاش جاری ہے ‘‘ (ص۸۲) ۔ان کو تو چادر خواب میں عطا ہوئی تھی ۔ پھر کن ہاتھوں میں پہنچنے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟۔

’’قصیدہ کی شرحیں اور تر جمے‘‘ میں انہوں نے دنیا میں کی گئی تر اجم کا ذکر کیا اور اردو تر اجم کا خصوصی ذکر ہے ۔ایک مختصر مضمون علامہ اقبال اور امام بوصیری کے تعلق سے بھی ہے ۔ایک اہم عنوان ’’شر ح قصیدہ بر دہ شریف ‘‘ ہے ۔ اس عنوان کے تحت ۱۲ سے زیادہ صفحات پر مشتمل قصیدہ بر دہ شر یف کو صرف ۶ صفحات میں پیش کیا گیا ہے ، میرے خیال سے مصنفہ سے چوک ہوگئی۔ شاید خلا صہ پیش کر نا چا ہتی تھیں جیسا کہ پیش بھی کیا ہے لیکن شر ح لکھا گیا اس میں قصیدہ بردہ کے دسو ں باب کا خلاصہ ہے ،نہ کہیں لفظی بحث ہے اور نہ ہی معنوی بحث ، نہ ہی تعلیقہ کے تحت آنے والے اسماء و مقامات کا تعارف ہے بلکہ ایک عمومی تجزیہ ہے قصیدہ بردہ پر ۔ اس کتاب کا سب سے اہم تنقیدی جزو میر ے نزدیک ’ ’دایوان اشر ف الاشعار‘ ‘ ہے ۔ اس میں مصنف نے ان کے دیوان کا جزوی مطالعہ اور قصیدہ بر دہ (تر جمہ ) کا کلی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ ہر ایک باب کے عربی اشعار کے ساتھ اردو اشعار کا موازنہ بھی پیش کیا گیاہے اور اس پر اپنی تنقیدی نظر بھی ڈالی ہے ۔ موصوف کے قصید ہ گوئی کے تعلق سے مصنفہ لکھتی ہیں ’’ وہ محمد رفیع سودا کی طرح مزاجاًقصیدے کے شاعر تھے ۔ ان کے اشعار پُر زور اور پُر شکوہ الفاظ سے مملو ہیں۔ لیکن طنطنہ خیز نہیں ہیں‘‘ (ص ۱۱۴) ۔ یقینایہ خصوصیت اس کتاب میں شامل قصیدہ بر دہ میں نظر آتی ہے ۔ اس کے بعد امام بوصیری کا عربی قصیدہ بر د ہ ، پھر مولوی عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبادی کا اردو قصید ہ شاملِ کتاب ہے ۔

الغر ض مصنفہ نے ایک عمدہ تحقیق سید عبدالفتاح اور ان کے قصید ہ کے تعلق سے پیش کیا ہے اس کے لیے وہ بہت ہی مبارکباد کی مستحق ہیں اور ساتھ ہی پر وفیسر عبدالستا ر دلوی بھی جن کا پر مغز مقدمہ شامل کتاب ہے اور انجمن اسلام کابھی جو اتنے عمدہ تحقیقی کام انجام دے رہی ہے۔

صفحات  ۲۰۰
قیمت  ۲۰۰
ناشر  انجمن اسلام اردو ریسر چ انسٹی ٹیوٹ ، ممبئی 

Monday 8 July 2019

ِ خیمہ ٔ احباب سے آگے

ِ  خیمہ ٔ احباب سے آگے 

مصنف ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی 

 تعارف  امیر حمزہ

ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی کی شناخت عصر حاضر میں ایک اہم ناقد کے طور پر ہوتی ہے ۔ ان کا شمار جنوبی ہند میں سکونت پذیر صف اول کے جدید تنقید نگار وں میں ہوتا ہے ۔ ان کی تنقید نگاری سے فن تنقید میں بحث و مباحث کے نئے باب روشن ہو تے نظرآتے ہیں ۔ موصوف نے شعر ی و نثری اصناف ادب کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایاہے جس کی ادبی حلقہ میں خاطر خواہ پذیرائی ہوئی ہے ۔ انہوں نے جہاںمختلف موضوعات پر لکھا وہیں زیر تبصرہ کتاب کے مشمولات سے یہ باور ہوتا ہے کہ ان کا خاص میدان شاعری ہے ۔موصوف کی مقال جیسی عمدہ کتاب اس سے قبل ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنا نے میں کامیاب رہی ہے۔ موصوف کی کتاب میں شامل اکثر مضامین اہم اور معتبر جر یدہ میں شائع شدہ یا سمینار میں پیش کر دہ ہو تے ہیں۔ 

آفاق عالم صدیقی کاتنقیدی انداز اپنے معاصرین میں جداگانہ ہے ۔ وہ تنقید میں جدت نگاری کی جانب گامزن نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے مضامین میں گفتگو کا نیا بیج اور فکر کا نیا دریچہ وا کر نے کی کوشش کر تے نظر آتے ہیں جیسا کہ اس کتاب کے کئی مضامین اس پر دال ہیں ۔

 کتاب کا پہلا مضمون ’ تحقیق اور تحقیقی مقالہ‘ ہے ،یہ مضمون سادگی سے تحر یر کیا گیاہے ۔اس میں انہوںنے کسی بھی دانشور کے خیال و نظر یہ کو اقتباس میں پیش کر کے جر ح کرنے کی اور نہ ہی اپنی بات کو مدلل طور پر پیش کر نے کے لیے اقتباسات لانے کی کوشش کی ہے ۔ بلکہ اپنی باتوں کو خوبصورت انداز میں پیش کر تے چلے گئے ہیں ۔ بہر حال یہ مضمون کسی بھی مقالہ کو صورت تحریر میں لانے کے لیے ایک عمدہ گائڈلائن ہے ۔ 

’ دوہا تدریس و تنقید‘ کتاب کا دوسرا اہم مضمون ہے ۔ مضمون کے شروع میں تدریس کے آرٹ کو پیش کیا گیا ہے پھر دوہا بطور صنف کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے ۔دوہے کی روایت اور سفر پر گفتگو کر تے ہوئے لکھتے ہیں ’’ ....... جمیل الدین عالی نظم و غزل کے بھی اچھے شاعر سمجھے جاتے تھے ، مگر انہیں جو مقبولیت دوہو ں کی وجہ سے ملی غالبا وہ تمام عمر غزل کہتے تب بھی ایسی مقبو لیت نہیں مل پاتی ۔ یہیں سے اردو میں دوہے کہنے کی روایت مستحکم ہوئی اور عالی جی اردو دوہے کے بانی کے نام سے یاد کیے جانے لگے ۔‘‘ (ص ۳۳) مصنف کا یہ جملہ کہ’’ اردو میں دوہے کے بانی قرار دیے گئے‘‘ ۔ یہاں بانی سے شاید مصنف کی مراد نشاۃ ثانیہ کا محر ک ہے نہ کہ حقیقی بانی ۔ کیونکہ جمیل الدین عالی سے قبل ایک لمبی فہرست ہے جو اردو کے شاعر تھے اور دوہے بھی کہے جس کو خاور چودھری کی کتاب ’’ اردو دوہے کا ارتقائی سفر ‘ ‘ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔اسی مضمون میں وہ لکھتے ہیں ’’ جمیل الدین عالی کے بعد تو گویا دوہا اردو کی پسندیدہ صنف شاعری بن گیا ‘‘ (ص ۳۴) کیا یہ حقیقت ہے کہ جمیل الدین عالی کے بعد ہر طر ف دوہا کے چرچے ہونے لگے ؟ غزل ، نظم ، آزاد نظم، نثری نظم ، نظم معریٰ ،رباعی اور قطعات پس پشت چلے گئے ؟ میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ہاں دوہے بکثر ت جرائد میں پڑھنے کو ملنے لگے یہ سچ ہے ۔ پسندیدہ صنف شاعری بننا انفرادی طور پر کہہ سکتے ہیں لیکن ا جتماعی طور پرمناسب بات معلوم نہیں ہوتی ۔  بہر حال اس مضمون میں مصنف نے دوہا تدریس کے متعلق سات نکات پیش کیے ہیں ، تمہید ، اعلان مدعا، استحضار ، تفہیم اشعار ، استحسان دوہا، دوہا خوانی اور اعادہ۔ نیز اس کا بھی بخوبی ذکر ہے کہ دوہا کی تدریس کیونکر دیگر اصناف کی تدریس سے مختلف ہے ۔ الغر ض یہ مضمون ، تحقیق، تنقیدی، تجزیاتی اور تدریسی اعتبار سے بہت ہی اہم ہے۔

’نئی غزل ایک مطالعہ‘  یہ مضمون صر ف کسی خاص عہد ، تحریک اور رجحان کا احاطہ کر تا ہوا نظر نہیں آتا ہے بلکہ مضمون جدید غزل کے بانیین اصغر ، فانی ، جگر اور حسر ت و فراق سے موجود ہ عہد تک کے اہم غزل گو شعراء پر محیط ہے ۔ ترقی پسند شعرا میںفیض ، مجاز ، جذبی ، ساحر، مخدو م اور مجرو ح کا ذکر کر تے ہوئے تر قی پسندی پر اپنا نظریہ اس انداز میں پیش کر تے ہیں کہ ’’ تر قی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کے اسلوب ، لہجے اور موضوعات میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ مگر موضوعات کی تکر ار اور رویے کے ٹھوس پن نے اس سفر کو بہت طویل نہیں ہونے دیا اور جلدہی دوسری سمت کا سفرشروع ہوگیا ‘‘ (ص۴۹) ۔ جدید شاعری کے سر مایے میں جن شعرا نے قابل قدر اضافہ کیا ان میں سے خورشید احمد جامی ، مظہر امام، پر کاش فکری ، شہر یار ، کمار پاشی، نشتر خانقاہی ، صدیق مجیبی، لطف الرحمن ، شاذتمکنت ، شکیب جلالی، حسن نعیم ، بمل کرشن اشک ، شہزاد احمد ، سلیم احمد اور سلطان اخترکا ذکر ہے ۔یہ گفتگویہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ جدیدیت کے زیر سایہ جوشاعری پروان چڑھی اس پر بھی بہت ہی عمدہ بحث پڑھنے کو ملتی ہے اور غزل کے رنگ و آہنگ میں کس طر ح شا عر نے کچھ نیا پیش کر نے کی کوشش کی ہے یا نظر آتی ہے اس کا بھی بخوبی احاطہ کیا گیا ہے جس کا ذکر تفصیل طلب ہوگا ۔ 

’اکیسویں صدی میں نثر ی نظم‘ ۴۵ ؍صفحات پر مشتمل ایک طویل مقا لہ ہے ۔ اردو میں نثر ی نظم کی شروعات ساٹھ کی دہائی سے ہوتی ہے۔ جدیدیت کے دور میں اس کو بہت فروغ ملا اس کے بعد اس صنف میں فن ، موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے کئی موڑ آئے ہیںلیکن آفاق عالم صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ اس صنف کے ردو قبول اور صنفی اعتبار سے اس کے اختصاص پر گفتگو سے زیادہ ضر وری ہے کہ اب اس کے سرمایے پر گفتگو کی جائے اور نثر ی نظم کے شعرا اور نظموں دونوں کا جائزہ پیش کیا جائے۔ انہوں نے اس مضمون میں  اکیسویں صدی میں نثر ی نظم کی تاریخ بیان کر نے کے ساتھ ساتھ جائزہ بھی لیاہے جن میں خورشیدالاسلام ، منیر نیازی، افتخار جالب، سلیم الرحمان ، باقر مہدی، زبیر رضوی ، شہر یا ر، لطف الرحمان، محمد حسن ، نعمان شوق ، احتشام اختر، ایس ایم عقیل ، شمیم قاسمی ،عذارا عباس ، احمد ہمیش، پرو فیسر صادق، حمید سہر وردی، صلاح الدین محمد ثر وت حسین ، اصغر ندیم سید کے علاوہ درجنوں شاعر ہیں جو نثر ی نظم کی مشاطگی میں لگے ہوئے ہیں ۔مصنف نے تمام شعرا کے کلام پر گفتگو کرنے کے ساتھ ان کی نظموں پر بھی اچھی بحث کی ہے۔یہ مضمون کسی بھی ریسر چ اسکا لر کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔

’ اسی (۸۰) کے بعد کے شاعروں کا ایک اور انتخاب ‘ اس مضمون میں مصنف نے اس بات کو پیش کر نے کی کوشش کی ہے کہ اسی(۸۰) کے بعد کی شاعری غزل کے حوالہ سے کس قدر مختلف ہے اور وہ شاعر جو جدیدیت سے کسی قدر بھی متاثر نہیں تھے ان کی شاعری کا رنگ کیا ہے ۔  اس مضمون میں مصنف نے پروفیسر کو ثر مظہری کی کتاب ’ جواز و انتخاب ‘ کا بھی بخوبی ذکر کیا ہے کہ اس کتاب نے’’ کئی شعرا کو خصوصی و عمومی مطالعے کی مرکزی فضا کا حصہ بنایا اور ان کی شناخت کی راہیں ہموار کیں ‘‘ ۔ اس مضمون میں ارشد عبدا لحمید ، اقبال خسرو ، اکر م نقاش ، تفضیل احمد ، راشد طراز ، نعمان شوق، ساجد حمید ، خورشید طلب ،عذرا پروین، شارق کیفی، جاوید ندیم ، فراغ روہوی  اور کبیر اجمل وغیرہ کا ذکر ہے ۔ 

آفاق عالم صدیقی ایک زمانہ سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں اس لیے وہ تدریس کے مسائل و جزئیات کو بطر یق احسن پیش کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تدریس کے سلسلے میں ان کا اہم مضموں ’ اردو زبان و ادب کی تدریس ، شامل کتاب ہے ۔ یہ مضمون جزئیاتی طور پر دوہا تدریس و تنقید سے مماثلت رکھتا ہے نیز اس سے بہت حدتک مختلف اس لحاظ سے ہے کہ اس میں زبان کی تدریس کے کئی اہم نکات بیان کیے گئے ہیں جو اساتذہ کے لیے بھی بہت مفید ہے اور خاص طور سے ادب کے قاری کے لیے بھی۔

’نئی غزل کے چند اہم غیر مسلم شعرا‘ اس مضمون میں مصنف نے اردو کے قدیم غیر مسلم شاعروں کو فہرست میں شامل نہیں کیا ہے جیسا کے عنوان سے بھی ظاہر ہے ۔ اصل میں ہندی اردو قضیہ کا معاملہ قیام فورٹ ولیم کالج سے ہی شروع ہوگیا تھا مزید یہ مسئلہ سیاست کے ہاتھوں میں آگیا جس پر آزادی سے قبل ہنوز سیاست جاری ہے ۔ ’نئی غزل ‘ سے مصنف کا اس جانب بھی اشارہ ہے کہ تمام تر ناموافق حالات کے باجود اردو شعری سرمایہ میں غیر مسلم شعراء کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور آج بھی کئی غیر مسلم شاعر گیسوئے اردو کی مشاطگی میں لگے ہوئے ہیں اور اردو شاعری میں وہ اپنا منفر د مقام بھی رکھتے ہیں جیسے گلزراین ( گلزرا دہلوی اور گلزار فلمی نغمہ نگار)۔ اس مضمون میں پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی سے لے کرموجودہ وقت کے اہم شاعر خوشبیر سنگھ شاد تک کی شاعری پر مختصرا ًگفتگو کی گئی ہے۔

’بچوں کاادب ---ہم عصر صورت حال ‘  اس مضمون میں ادب اطفال کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کر تے ہوئے مصنف نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے ماضی کی تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے معاصر صورتحا ل کو پیش کیا ہے اور بچوں کی نشونما اور ان کی فکر ی قوت کو نظر میں رکھتے ہوئے ارد و میں موجودہ ادب اطفال پر غیر مطمئن نظر آتے ہیں ۔لکھتے ہیں ’’ اکیسویں صدی کے جو بڑے واقعات اور امکانی وقوعے ، مسائل اور فنٹاسیز ہیں جو ذہن اور انسا ن کی بڑی جستیں اور اختراعات ہیں۔ جو سائنس اور ٹکنالوجی کی بڑی عطیات اور آزمائشیں ہیں ۔ ان کے تخلیقی اور علمی بیان سے اردو ادب اطفال کا سرمایہ بالکل خالی ہے ‘‘(ص۲۰۹) پھر انہوں نے اخلاقیات پر گفتگو کی ہے کہ سائنسی ایجادات کے عہد میں ادب اطفال ان کے ایجادات کے ساتھ کس قدر تعمیر اخلاقیات کا ضامن ہو سکتا ہے ۔ان تمام کے علاوہ انہوں نے کئی اور اہم چیزوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ الغر ض ہمعصر صورت حال میں آپ کوادب اطفال میں فقدان سے روبرو کروائیں گے ساتھ ہی مضمون میں ہم عصر ادیبوں کے ذکر کابھی فقدان نظر آتا ہے ۔

’اذکار کا اداریہ اور اسی کے بعد کے قلمکار ‘ اس مضمون کو ہم احتسابی اور جواب احتساب دونوں کہہ سکتے ہیں ۔اصل میں مصنف نے اس مضمون میں اذکا رکے جس اداریہ کا تجزیہ پیش کیا ہے وہ اذکار کے انتیسویں شمارہ کا اداریہ ہے جس کو اکرم نقاش نے تحریر کیا ہے۔ اس میں اکر م نقاش نے موجودہ ادب اور ادیبوں پر احتسابی نظر ڈالی ہے اسی کو آفاق عالم صدیقی نے اپنے اندازسے سترہ صفحات پر طویل مضمون کی صورت میں پیش کیا ہے اور ان کے تمام شکوک و شبہات کو ختم کر نے کی کوشش کی ہے ۔اذکار کے اداریہ میں اکر م نقاش پانچ سوالات قائم کرتے ہیں (۱)یہ نسل سمت نما کے بغیر محو سفر ہے (۲)یہ نسل اپنے تخلیقی وفور کا ثبوت کیوں نہیں دیتی؟ ( ۳) یہ ادبی عرصہ کسی ادبی ہلچل کا احساس کیوں نہیں دلا تا ؟ (۴)آج کا ادیب اپنی انفرادیت کے اثبات پر اصرار کیوں نہیں کر تا ؟ (۵)اور اسے اپنے شناخت کے استحکام میں اور کتنا وقت درکار ہے ؟۔ان تمام سوالات کے جوابات آفاق عالم صدیقی نے جس خوش اسلوبی سے مدلل انداز میں پیش کیا ہے وہ لائق تحسین اور قابل مطالعہ بھی ہے ۔ 

’’جنوبی ہند کا موجودہ ادبی منظر نامہ ‘‘ یہ کتاب کا آخری مضمون ہے ۔ ایک عہد ایسا تھا جب شمال و جنوب کے ادب میں تفریق اور دوری پائی جاتی تھی ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کے زمانے سے بُعد قُر ب میں بدلنا شروع ہوگئی لیکن اس کی رفتار تیز نہیں تھی، جب تر قی پسند تحر یک وجود میں آئی تو جنوب نے اس تحریک کے توسط سے کئی لاثانی اور غیر فانی ادیب دیے ۔ اب شاید علاقائی سطح پر کسی کوکسی پر تفوق حاصل نہیں ہے اور ادب کے منظر نامہ میں سب یکساں نظر آتے ہیں کیونکہ اب زبان و آہنگ میں ایک ہی رنگ نظرآتا ہے اور قواعد میں جو تفریق تھی وہ صرف بولنے کی حد تک رہ گئی ہے ،لکھنے میں نہیں ۔ اس مضمون میں تر قی پسندتحریک سے لیکر موجود ہ وقت تک ادب کے تمام گوشو ں میں جنوبی ہند نے جو خدمات انجام دیں ہیں اس کا ذکر اجمالا کیاگیا ہے ۔

خلاصہ کلام ’خیمہ ٔ احباب سے آگے ‘ایک ایسی کتاب ہے جواگر چہ کسی خا ص موضوع پر مشمولات کو آپ کے سامنے نہیں پیش کر تی ہے لیکن مصنف نے عنوانات پر قلم اٹھا یاکما حقہ انصاف کر نے کی کوشش کی ہے ۔ خواہ وہ دوہے سے متعلق ہو، نئی غزل ہو، نثر ی نظم ہویا ادب اطفال یہ تمام مضامین کتاب کو یقینا عظمت بخشتے ہیں ۔ امید ہے کہ مصنف مستقبل میں مزید فکر ی پرواز سے اردو کو نوازیںگے ۔

امیر حمزہ 
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو دہلی یو نی ورسٹی دہلی 

صفحات : ۲۴۸
قیمت : ۳۰۰
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 

Sunday 28 October 2018

عربی ادبیات کے اردو تراجم

دنیا میں کون سی زبان ترجمے کے اعتبار سے فوقیت حاصل کر تی ہے وہ عہد عہد کی بات ہوتی ہے.جیسے آج کے دور میں جب انگریز ی بادشاہت کا تاج پہنی ہوئی ہے ایسا ہی ایک وقت تھا جب عربی لسان العالم سمجھی جاتی تھی تو اس وقت عربی زبان سے دیگر زبانوں میں خوب ترجمے ہو ئے اور ابھی بھی قدیم کتب سے کافی ہورہے ہیں یا استفادہ کیا جا رہا ہے. لیکن جب اردو میں تراجم کی نمبر شماری کی جاتی ہے تو اس کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے جیسا کہ مصنف موصوف ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی کتاب کے ابتدا ئی صفحات میں جس کو آپ مقدمہ سمجھ سکتے ہیں جو ”قطرہ “ کے عنوان سے ہے اس میں لکھتے ہیں ”اردو میں تراجم کی جو فہرست تیار کی جاتی ہے، اس میں غیر متعلقہ زبانوں کے تر جموں کا نمایاں اور جلی حروف میں تذکر ہ ہوتا ہے ، مگر عربی اردو ترجموں کا باب جانے انجانے گول کر دیا جاتا ہے ۔ حالاں کہ اردو میں ابتدائی زمانے میں جو تر جمے ہوئے ہیں وہ انگر یزی سے نہیں ، عربی فارسی سے ہوئے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ وضاحتی کتابیات اور فہارس کتب میں بھی عربی ترجموں کے حوالے سے ڈنڈی ماری گئی ہے “ ۔موصوف اس ناانصافی سے اتنے نالاں ہیں کہ کتاب میں کئی مقامات پر ان کی گفتگو اور تحریر کا یہ اسلوب پڑھنے کو ملتا ہے ۔

کتاب کو مصنف نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ اگر یہ تقسیم نہ کر تے تب بھی کتاب اتنی ہی معنی دار ہوتی جتنی تقسیم پر ہے. دراصل یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ سندی تحقیق کا جو اسلو ب تحریر و پیش کش ہوتا ہے وہ باب وار ہوتا ہے اور اس میں بھرتی کی چیز یں بھی ہوتی ہیں یا سمجھ لیا جاتا ہے کہ پہلے ، دوسرے اور تیسرے باب میں تمہیدات ہی ہوں گی اور آخر ی باب میں جا کر معنی مطلوب پر بات کی گئی ہوگی وہ بھی شا ید تکر ار سے پر ہو لیکن موصوف پہلے باب کے متعلق لکھتے ہیں ” یہ باب گر چہ بھر تی والے عنوان سے موسوم ہے ، مگر ہم نے جس تناظر میں گفتگو کی ہے اس کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسری کتابوں کے اس جیسے باب سے اس کی مشابہت و مجانست نہیں ۔“ اور وہ اس لیے نہیں کہ پہلے باب میں ترجمہ کا فن اور خصائص و امتیاز کے تحت ” تر جمہ کا تصور و تنا ظر“ اور ” تعریف و تقسیم“ پیش کر تے ہیں ۔جس میں مصنف موصوف کا نظر یہ کچھ یوں ہے” اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سی کتابوں کا اصل متن عوام اور قارئین میں اتنا مقبول نہیں ہوا جتنی مقبولیت اس کے تر جمہ کو ملی۔اس لیے بعض تر جموں کو اصل متن سے بھی بہتر ، دلچسپ اور مؤثر قرار دیا گیاہے “ مثال آپ کے سامنے کلیلہ و دمنہ ، باغ و بہاراور گلزار نسیم کی شکل میں موجود ہے ۔اس باب کے دوسرے جز ” تر جمہ : تعریف اور تقسیم“ میں مصنف نے تعریف بھی خوب پیش کی ہے اور تقسیم سے بھی روشناس کرایا ہے ، لیکن خود مصنف کی شرکت تعریف و تقسیم میں نظرنہیں آتی ہے البتہ تجزیے میں انہوں نے بھر پور کلام کر نے کی کوشش کی ہے جس کے لب لبا ب میں یہی لکھا جاسکتا ہے جو مصنف نے لکھا ہے کہ ” تر جمے میں اگر دونوں زبانوں کی لطافت بر قرار نہ رہے ، توترجمہ ادھورا اور یبوست زدہ معلوم ہوتا ہے جس سے قاری کی آنکھوں کا رشتہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا ۔“

دوسرا باب ” عربی اردو ترجمہ نگاری : سمت و رفتار “ ہے ۔ یہ باب آزادی سے پہلے شاہ رفیع الدین سے شروع ہوتا ہے اور آزاد ی کے بعد مولانا محمد تقی عثمانی پرختم ہوجاتا ہے ۔ تیسرا باب ” عربی ادبیات کے اردو تراجم “ پر ہے ۔ اس باب کے بھی دو حصے ہیں پہلا حصہ شعری تراجم پر ہے جس میں قدیم دواوین سے لے کر جدیدشعری مجموعوں تک کا ذکر ہے ،جس کی تعداد صر ف دس ہے ۔اس کم تعداد پر افسوس ہوتا ہے اساتذہ شروحات (لفظ بہ لفظ تر جمہ )پر زیادہ متوجہ ہوئے اور ترجمہ نگاری کی جانب توجہ نہیں دی. اگر اسی میں تھوڑی سی محنت اور کرتے تو ابھی اردو میں شعری تراجم کا عظیم ذخیر ہ ہوتا ۔ گزشتہ دنوں ناصرہ شرما کی ایک کتاب چھ جلدوں میں ” ادب میں بائیں پسلی“ نظر سے گزری. اس میں ایک جلد مکمل عرب خواتین کی شاعری پر ہے جن میں سے اکثر کا تعلق انیسویں اور بیسویں صدی سے  ہے ۔ جس میں ان کی شاعری کے ترجمے کوبھی پیش کیا گیاہے لیکن افسوس کہ زبان اردو اور رسم الخط دیونا گری ہے جسے ہم ہندی ہی کہہ سکتے ہیں ۔دوسرا حصہ نثری تراجم پر ہے جس میں سیرت و سوانح کے تحت سیر ت اور سوانحی کتب کا جو ترجمہ اردو زبان میں ہوا ہے ان تما م کا تعارف و تجزیہ ہے ۔ان میں سے اکثر کتابیں سیرت اور سوانح صحابہ اور کبار علما ءپر ہیں لیکن آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ان میں سے ایک کتاب مولانا ابو الکلام آزاد پر بھی ہے جو عربی میں ” ابوالکلام آزاد : المصلح الدینی فی الہند“کے نام سے شائع ہوئی تھی جس کا اردو ترجمہ 1989ءمیں نجم الدین شکیب ندوی نے ” مولانا ابو الکلام آزاد : ایک مفکر ایک رہنما“ کے نام سے کیا ۔خو د نوشت میں صرف پانچ کتابیں ہیں جن کا تر جمہ اردو میں ہوا ہے ۔داستان و حکایت جس کا تعلق عربی سے گہرا رہا ہے لیکن جب تر جمہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اردو میں صرف الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ کے ہی ترجمے سامنے آتے ہیں جن کے مترجمیں اردو میں کئی ہیں ۔ناول اور ناولٹ کے بیس تراجم کا تعارف ہے. ان تر اجم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عربی ناولوں کے تئیں اردو میں دلچسپی ہے جس کا اظہار ان تر اجم سے ہورہا ہے جن کا ذکر مصنف موصوف نے کیا ہے۔ اس کے بعد عربی کے پانچ مشہور ڈراموں کے اردو تراجم کا ذکرہے جن میں سے تو فیق الحکیم کے تین ڈراموں (سلیمان الحکیم ، اہل الکہف اور شہرزاد ) کا تر جمہ پر وفیسر اسلم اصلاحی نے ہی کیا ہے ۔(ابھی حال ہی میں ” اہل الکہف “ کے نام سے ڈاکٹر احمد القاضی نے پروفیسر ابن کنول کے پچیس افسانوں کا تر جمہ عربی میں کیا )۔قصہ اور افسانے میں سے سولہ مجموعوں کا یااردو میں سولہ کتابیں ترجمہ کی شکل میں موجود ہیں ان میں سے تمام جدید افسانے ہیں سوائے مقامات حریری کے ۔ مجھے لگتا ہے کہ مقامات کے جتنے بھی ترجمے ہوئے ہیں وہ سب درسی ضروریات کی بنا پرہوئے ہیں جہاں لفظوں کے تراجم پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور لفظی پیچیدگیوں کے حل پر توجہ صرف کی گئی ہے کیونکہ مقاما ت کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ لفظی پیچیدگیوں والی کتاب ہے تو شاید کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔سفر نامے سے چار ہیں جن میں سے دو( سفر نامہ ابن بطوطہ ، سفر نامہ ابن جبیر) کا تعلق قدیم اور دو (ہندو ستان کا سفر ، ہندوستا ن میری نظر میں ) کا تعلق جدید سفر ناموں سے ہے۔ تنقید میں سے صرف چارکتابیں ہیں ۔ شاعری کے بعد اگر عربی میں دیکھا جائے تو تنقید کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے لیکن افسوس مصنف کو ہے اورمجھے بھی کہ صرف چا رکتابوں ( ادب الجاہلی ، تنقیدا ت طہ حسین ، عربی تنقید کا سفر، میزان نقد ) کا اردو میں تر جمہ ہوسکا ہے ۔ قدامہ بن جعفر ، ابن قتیبہ ، ابن سلام الجمحی ، عبدالقاہر جر جانی، جاحظ ، ابن المعتز ، ابن رشیق القیروانی اور اندلسی دو ر کے عظیم قلمکاروں کی عظیم خدمات اردو میں تر جمہ کی منتظر ہیں جبکہ ان ہی تمام کو مغرب نے اپنا کر criticsm کا بادشا ہ بنا ہوا ہے ۔ گزشتہ دنوں جب میں نظریہ ” معنی المعنی “ کو تلاش کر رہا تھا تو رچرڈ عبدالقاہر سے سیرابی حاصل کر تا ہوا نظر آیا ۔ تنقیدی تہیں جو اب آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں ان میں سے اکثر کا ذکر آپ کو مذکورہ با لا کے یہاں پڑھنے کو ملے گا۔ جس کو اب تک ہم مغرب کی دریافت سمجھتے آئے ہیں یا مغرب کے توسط سے پڑھ رہے ہیں ہوسکتا ہے اس کا عکس آپ کو ان کے یہاں دیکھنے کو ملے کیونکہ اردو والے تو انگریز ی سے استفادہ کرکے کسی نظریہ کے امام تو بن جاتے ہیں لیکن وہی انگر یزی والا اس کو کہاں سے کشید کر رہا ہے اس جانب تو جہ نہیں دیتے ہیں ۔

ادبی تاریخ میں بھی چار کتابیں ہیں اس کے بعد متفرقات جو کتاب کا آخری حصہ ہے اس میں دس کتابیں بلاغت ، انشائیہ ، خطوط، کارٹون اور لطائف پر ہیں ۔
اس طر ح سے240 صفحات پر مشتمل کتاب تمام ہوتی ہے.

جناب رکیے کچھ خوبصورت زبان سے بھی مستفید تو ہوتے جائیے
حقانی القاسمی لکھتے ہیں ” اس موضوع کے وسیلہ سے انہوں نے غیر ممسوس منطقہ کی سیاحت کی ہے اور ایک ایسی اجڑی ہوئی کائنات کو آباد کیا ہے جس میں بہاروں کے بہت سے امکانات پوشیدہ ہیں ۔ انہوں نے عالمی افکارو اقدار سے شناسائی اور بین ثقافتی تر ابط و تعامل کی ایک حسین صورت تلاش کی ہے ۔“
اب آپ بھی حسین و جمیل خیابان کی سیاحت میں نکل جائیں.

امیر حمزہ، دہلی یونیورسٹی

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...