Sunday 28 October 2018

عربی ادبیات کے اردو تراجم

دنیا میں کون سی زبان ترجمے کے اعتبار سے فوقیت حاصل کر تی ہے وہ عہد عہد کی بات ہوتی ہے.جیسے آج کے دور میں جب انگریز ی بادشاہت کا تاج پہنی ہوئی ہے ایسا ہی ایک وقت تھا جب عربی لسان العالم سمجھی جاتی تھی تو اس وقت عربی زبان سے دیگر زبانوں میں خوب ترجمے ہو ئے اور ابھی بھی قدیم کتب سے کافی ہورہے ہیں یا استفادہ کیا جا رہا ہے. لیکن جب اردو میں تراجم کی نمبر شماری کی جاتی ہے تو اس کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے جیسا کہ مصنف موصوف ڈاکٹر ابرار احمد اجراوی کتاب کے ابتدا ئی صفحات میں جس کو آپ مقدمہ سمجھ سکتے ہیں جو ”قطرہ “ کے عنوان سے ہے اس میں لکھتے ہیں ”اردو میں تراجم کی جو فہرست تیار کی جاتی ہے، اس میں غیر متعلقہ زبانوں کے تر جموں کا نمایاں اور جلی حروف میں تذکر ہ ہوتا ہے ، مگر عربی اردو ترجموں کا باب جانے انجانے گول کر دیا جاتا ہے ۔ حالاں کہ اردو میں ابتدائی زمانے میں جو تر جمے ہوئے ہیں وہ انگر یزی سے نہیں ، عربی فارسی سے ہوئے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ وضاحتی کتابیات اور فہارس کتب میں بھی عربی ترجموں کے حوالے سے ڈنڈی ماری گئی ہے “ ۔موصوف اس ناانصافی سے اتنے نالاں ہیں کہ کتاب میں کئی مقامات پر ان کی گفتگو اور تحریر کا یہ اسلوب پڑھنے کو ملتا ہے ۔

کتاب کو مصنف نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ اگر یہ تقسیم نہ کر تے تب بھی کتاب اتنی ہی معنی دار ہوتی جتنی تقسیم پر ہے. دراصل یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ سندی تحقیق کا جو اسلو ب تحریر و پیش کش ہوتا ہے وہ باب وار ہوتا ہے اور اس میں بھرتی کی چیز یں بھی ہوتی ہیں یا سمجھ لیا جاتا ہے کہ پہلے ، دوسرے اور تیسرے باب میں تمہیدات ہی ہوں گی اور آخر ی باب میں جا کر معنی مطلوب پر بات کی گئی ہوگی وہ بھی شا ید تکر ار سے پر ہو لیکن موصوف پہلے باب کے متعلق لکھتے ہیں ” یہ باب گر چہ بھر تی والے عنوان سے موسوم ہے ، مگر ہم نے جس تناظر میں گفتگو کی ہے اس کے سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسری کتابوں کے اس جیسے باب سے اس کی مشابہت و مجانست نہیں ۔“ اور وہ اس لیے نہیں کہ پہلے باب میں ترجمہ کا فن اور خصائص و امتیاز کے تحت ” تر جمہ کا تصور و تنا ظر“ اور ” تعریف و تقسیم“ پیش کر تے ہیں ۔جس میں مصنف موصوف کا نظر یہ کچھ یوں ہے” اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سی کتابوں کا اصل متن عوام اور قارئین میں اتنا مقبول نہیں ہوا جتنی مقبولیت اس کے تر جمہ کو ملی۔اس لیے بعض تر جموں کو اصل متن سے بھی بہتر ، دلچسپ اور مؤثر قرار دیا گیاہے “ مثال آپ کے سامنے کلیلہ و دمنہ ، باغ و بہاراور گلزار نسیم کی شکل میں موجود ہے ۔اس باب کے دوسرے جز ” تر جمہ : تعریف اور تقسیم“ میں مصنف نے تعریف بھی خوب پیش کی ہے اور تقسیم سے بھی روشناس کرایا ہے ، لیکن خود مصنف کی شرکت تعریف و تقسیم میں نظرنہیں آتی ہے البتہ تجزیے میں انہوں نے بھر پور کلام کر نے کی کوشش کی ہے جس کے لب لبا ب میں یہی لکھا جاسکتا ہے جو مصنف نے لکھا ہے کہ ” تر جمے میں اگر دونوں زبانوں کی لطافت بر قرار نہ رہے ، توترجمہ ادھورا اور یبوست زدہ معلوم ہوتا ہے جس سے قاری کی آنکھوں کا رشتہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا ۔“

دوسرا باب ” عربی اردو ترجمہ نگاری : سمت و رفتار “ ہے ۔ یہ باب آزادی سے پہلے شاہ رفیع الدین سے شروع ہوتا ہے اور آزاد ی کے بعد مولانا محمد تقی عثمانی پرختم ہوجاتا ہے ۔ تیسرا باب ” عربی ادبیات کے اردو تراجم “ پر ہے ۔ اس باب کے بھی دو حصے ہیں پہلا حصہ شعری تراجم پر ہے جس میں قدیم دواوین سے لے کر جدیدشعری مجموعوں تک کا ذکر ہے ،جس کی تعداد صر ف دس ہے ۔اس کم تعداد پر افسوس ہوتا ہے اساتذہ شروحات (لفظ بہ لفظ تر جمہ )پر زیادہ متوجہ ہوئے اور ترجمہ نگاری کی جانب توجہ نہیں دی. اگر اسی میں تھوڑی سی محنت اور کرتے تو ابھی اردو میں شعری تراجم کا عظیم ذخیر ہ ہوتا ۔ گزشتہ دنوں ناصرہ شرما کی ایک کتاب چھ جلدوں میں ” ادب میں بائیں پسلی“ نظر سے گزری. اس میں ایک جلد مکمل عرب خواتین کی شاعری پر ہے جن میں سے اکثر کا تعلق انیسویں اور بیسویں صدی سے  ہے ۔ جس میں ان کی شاعری کے ترجمے کوبھی پیش کیا گیاہے لیکن افسوس کہ زبان اردو اور رسم الخط دیونا گری ہے جسے ہم ہندی ہی کہہ سکتے ہیں ۔دوسرا حصہ نثری تراجم پر ہے جس میں سیرت و سوانح کے تحت سیر ت اور سوانحی کتب کا جو ترجمہ اردو زبان میں ہوا ہے ان تما م کا تعارف و تجزیہ ہے ۔ان میں سے اکثر کتابیں سیرت اور سوانح صحابہ اور کبار علما ءپر ہیں لیکن آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ ان میں سے ایک کتاب مولانا ابو الکلام آزاد پر بھی ہے جو عربی میں ” ابوالکلام آزاد : المصلح الدینی فی الہند“کے نام سے شائع ہوئی تھی جس کا اردو ترجمہ 1989ءمیں نجم الدین شکیب ندوی نے ” مولانا ابو الکلام آزاد : ایک مفکر ایک رہنما“ کے نام سے کیا ۔خو د نوشت میں صرف پانچ کتابیں ہیں جن کا تر جمہ اردو میں ہوا ہے ۔داستان و حکایت جس کا تعلق عربی سے گہرا رہا ہے لیکن جب تر جمہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اردو میں صرف الف لیلہ اور کلیلہ و دمنہ کے ہی ترجمے سامنے آتے ہیں جن کے مترجمیں اردو میں کئی ہیں ۔ناول اور ناولٹ کے بیس تراجم کا تعارف ہے. ان تر اجم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عربی ناولوں کے تئیں اردو میں دلچسپی ہے جس کا اظہار ان تر اجم سے ہورہا ہے جن کا ذکر مصنف موصوف نے کیا ہے۔ اس کے بعد عربی کے پانچ مشہور ڈراموں کے اردو تراجم کا ذکرہے جن میں سے تو فیق الحکیم کے تین ڈراموں (سلیمان الحکیم ، اہل الکہف اور شہرزاد ) کا تر جمہ پر وفیسر اسلم اصلاحی نے ہی کیا ہے ۔(ابھی حال ہی میں ” اہل الکہف “ کے نام سے ڈاکٹر احمد القاضی نے پروفیسر ابن کنول کے پچیس افسانوں کا تر جمہ عربی میں کیا )۔قصہ اور افسانے میں سے سولہ مجموعوں کا یااردو میں سولہ کتابیں ترجمہ کی شکل میں موجود ہیں ان میں سے تمام جدید افسانے ہیں سوائے مقامات حریری کے ۔ مجھے لگتا ہے کہ مقامات کے جتنے بھی ترجمے ہوئے ہیں وہ سب درسی ضروریات کی بنا پرہوئے ہیں جہاں لفظوں کے تراجم پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور لفظی پیچیدگیوں کے حل پر توجہ صرف کی گئی ہے کیونکہ مقاما ت کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ یہ لفظی پیچیدگیوں والی کتاب ہے تو شاید کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔سفر نامے سے چار ہیں جن میں سے دو( سفر نامہ ابن بطوطہ ، سفر نامہ ابن جبیر) کا تعلق قدیم اور دو (ہندو ستان کا سفر ، ہندوستا ن میری نظر میں ) کا تعلق جدید سفر ناموں سے ہے۔ تنقید میں سے صرف چارکتابیں ہیں ۔ شاعری کے بعد اگر عربی میں دیکھا جائے تو تنقید کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے لیکن افسوس مصنف کو ہے اورمجھے بھی کہ صرف چا رکتابوں ( ادب الجاہلی ، تنقیدا ت طہ حسین ، عربی تنقید کا سفر، میزان نقد ) کا اردو میں تر جمہ ہوسکا ہے ۔ قدامہ بن جعفر ، ابن قتیبہ ، ابن سلام الجمحی ، عبدالقاہر جر جانی، جاحظ ، ابن المعتز ، ابن رشیق القیروانی اور اندلسی دو ر کے عظیم قلمکاروں کی عظیم خدمات اردو میں تر جمہ کی منتظر ہیں جبکہ ان ہی تمام کو مغرب نے اپنا کر criticsm کا بادشا ہ بنا ہوا ہے ۔ گزشتہ دنوں جب میں نظریہ ” معنی المعنی “ کو تلاش کر رہا تھا تو رچرڈ عبدالقاہر سے سیرابی حاصل کر تا ہوا نظر آیا ۔ تنقیدی تہیں جو اب آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہیں ان میں سے اکثر کا ذکر آپ کو مذکورہ با لا کے یہاں پڑھنے کو ملے گا۔ جس کو اب تک ہم مغرب کی دریافت سمجھتے آئے ہیں یا مغرب کے توسط سے پڑھ رہے ہیں ہوسکتا ہے اس کا عکس آپ کو ان کے یہاں دیکھنے کو ملے کیونکہ اردو والے تو انگریز ی سے استفادہ کرکے کسی نظریہ کے امام تو بن جاتے ہیں لیکن وہی انگر یزی والا اس کو کہاں سے کشید کر رہا ہے اس جانب تو جہ نہیں دیتے ہیں ۔

ادبی تاریخ میں بھی چار کتابیں ہیں اس کے بعد متفرقات جو کتاب کا آخری حصہ ہے اس میں دس کتابیں بلاغت ، انشائیہ ، خطوط، کارٹون اور لطائف پر ہیں ۔
اس طر ح سے240 صفحات پر مشتمل کتاب تمام ہوتی ہے.

جناب رکیے کچھ خوبصورت زبان سے بھی مستفید تو ہوتے جائیے
حقانی القاسمی لکھتے ہیں ” اس موضوع کے وسیلہ سے انہوں نے غیر ممسوس منطقہ کی سیاحت کی ہے اور ایک ایسی اجڑی ہوئی کائنات کو آباد کیا ہے جس میں بہاروں کے بہت سے امکانات پوشیدہ ہیں ۔ انہوں نے عالمی افکارو اقدار سے شناسائی اور بین ثقافتی تر ابط و تعامل کی ایک حسین صورت تلاش کی ہے ۔“
اب آپ بھی حسین و جمیل خیابان کی سیاحت میں نکل جائیں.

امیر حمزہ، دہلی یونیورسٹی

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...