Sunday 23 June 2019

جبل پور میں اردو






 جبل پور میں اردو 

امیر حمزہ

اردو زبان کی یہ شان رہی ہے کہ اس نے شہر و وقصبات کو فتح کر نا سیکھا ۔ جب مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹا رہا تھا تب اردو اپنا چراغ کئی شہروں اور نوابوں کے دربار میں روشن کر رہی تھی ۔دکن سے جب ادبی تاریخ میں تنزلی آتی ہے تو اردو دہلی کی سلطنت پر اپنا جادو دکھاتی ہے ، جب زبان و ادب شہر کے فصیل میں اپنا قدم رکھتی ہے تو قلعہ معلی میں شاعری کی نئی روش قائم ہوجاتی ہے پھر شہر اردو شاعری کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ سترہویں صدی میں جب دہلی اجڑتی ہے تو لکھنو کا ادبی محفل شباب پر آتا ہے ۔اس طریقے سے جب ملک کے حالات خراب ہوتے گئے تو شعراء نے چھوٹے چھوٹے شہر وں وقصبات کی جانب سفرکر نا شروع کیا جہاں نوابین کے بدولت ادب کی محفلیں منعقد ہونے لگیں اور زبان و ادب اس شہر میں اپنی نئی تاریخ رقم کر نے لگی ۔ اس زبان کی ایک تاریخ یہ رہی ہے کہ اس نے خود کو علاقائی سطح پر محدود نہیں کیا بلکہ جہاں جہاں بھی اردو طبقہ کا ہجرت ہوا یا گزر ہوا وہاں انہوںنے اردو کا شجر لگا یا اسی کا ثمرہ جبل پور میں اردو بھی ہے ۔بقول مصنف اس شہر میں اردو کی آمد مسلم فوجیوں کی آمد سے منسلک ہے ۔رانی درگاوتی کی شکست (۱۵۶۴ء ) کے بعد منڈلا حکومت میں اس شہر میں مسلم افسروں کی آمد و رفت زیادہ ہوگئی اور آبادی بھی بڑھنے لگی ۔پھر انگر یزوکے دور میں ثقافتی ، تعلیمی اور تہذیبی لحاظ سے بہت ہی تبدیلیاں واقع ہوئی تو مسلمانوں نے جدید نظام تعلیم سے متاثر ہوکر ۱۶ستمبر ۱۸۷۶ء کو انجمن اسلامیہ ٹرسٹ قائم کرکے پرائمری ، مڈل اور ہائی اسکول قائم کیے جہاں سے اس شہر میں اردو نے اپنی ترقی کے منازل طے کیے ۔

اس کتاب میں مصنف نے جبل پور کی تاریخ کو بیان کر تے ہوئے اردو کا ارتقائی سفر کے ساتھ جبل پور کا ادبی ماحول بھی پیش کیا ہے ۔جس میں انہوں نے گارساں دتاسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ انیسویں صدی کے نصف آخر میں شہر میں تین ادبی محفلیں قائم تھیں اس کے بعدکی ایک صدی میں اردو کے سیکڑوں شاعر پیدا ہوئے ۔ اس کتاب میں صرف ۱۹۵۶ ء تک کا ذکر ہے جبکہ کتاب ۲۰۱۸ ء میں منظر عام پر آئی ہے تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے اس متعلق مصنف لکھتے ہیں کہ جب ہم نے ناگپور ، کامٹی اور برابر کی علمی و تمدنی تاریخ دیکھی تو ’’ میرے دل میں فوراً یہ خیال پیدا ہوا کہ جبل پور اور ناگپور کے مابین تو ۱۹۶۵ ء تک گہرے سیاسی ، سماجی ، لسانی اور ثقافتی تعلقات رہے ہیں ۔یہاں بھی ہمیشہ خوشگوار ادبی ماحول رہا ہے ۔ پھر یہاں کے کسی دانشور نے اس کی تاریخ کیوںمر تب نہیں کی ۔ جبل پور یونی ورسٹی میں اس موضوع پر تحقیق کیوں نہیں کرائی گئی ۔ چنانچہ میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ اس موضوع کے سلسلے میں خود تحقیق کروں گا ۔‘‘

کتاب کی ترتیب اس طرح ہے ۔ محبان اردو کے عنوان سے انہوںنے قدیم ۱۰؍ شعرائے جبل پورکا سرسری ذکر کیا ہے ۔ اس کے بعد بہتر (۷۲)  خادمین اردو کا ذکر کیا ہے جن میں سے چار غیر مسلم بھی ہیں ۔ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہوںنے خود جبل پور کی جانب ہجرت کی تھی یا خاندان کے ماتحت آئے تھے ۔ اکثر کا تعلق شعری دنیا سے ہے ۔ کیوں نہ ہوآخرانیسویں صدی کا آخری عشرہ اور بیسویں صدی کے ابتدائی عہد تک اردو میں کثیر مقدار میں شاعر ہی موجود تھے فن شاعری میں قسم قسم کے تجربے کر رہے تھے ۔ساتھ ہی پروفیسر محمد حنیف انصاری اور پروفیسرعبدالباقی جبل پور میں اپنی ادبی خدمات انجام دے رہے تھے ۔پروفیسر عبدالباقی کی کوششوں سے ہر بر س ایک مشاعر ہ جبل پور میں منعقد ہونے لگا جس میں فنا نظامی کانپوری ، اختر گوالیاری اور اختر نظمی وغیرہ کی شرکت ہوا کر تی تھی ۔ 

اس کے بعد ’گلشن کے مہکتے پھول‘ کے عنوان کے تحت ۲۶  افراد کا اجمالی ذکر ہے ۔ اس حصہ کے متعلق لکھتے ہیں ’’ اس کتاب کی تالیف کے دوران مجلہ نذر غالب (۱۹۶۹ء) ، مجلہ گلش ادب (۱۹۲۸ء) ، مجلہ نذرنظامی (۱۹۹۴ء ) اور مجموعہ عکس کہکشاں سے بعض ایسے شعرا کا کلام بھی حاصل ہوا ہے جن کی زندگی کے تفصیلی حالات کافی کوششوں کے باوجود فراہم نہیں ہوسکے ۔‘‘ اس کے بعد انہوںنے مدار س اور اسکول کی تعداد یہ ذکر کیا ہے کہ آزادی کے وقت ۲۶ سرکاری کے پرائمری اسکول تھے جن کی تعداد اب صرف ۱۸ ہے ۔ انے کے علاوہ کئی پرائیویٹ ادارے ہیں جہاں اردی کی تعلیم دی جاتی ہے جن میں سب سے نمایاں خدمت انجمن اسلامیہ کی ہے ۔تین مطبع او ر تقریبا ً دس رسالے اور اخبارات تھے جو جبل پور سے شائع ہورہے تھے ۔الغرض یہ کتاب جبل میں اردو تاریخ کے متعلق ایک دستاویز ہے ۔ مصنف فیرو وز کمال نے ۱۹۵۶ء کے بعد کی تاریخ کو بھی احاطہ تحریر میں لانے کا بھی ذکر کیا ہے۔
صفحات ۳۲۰
قیمت ۲۵۰ روپے
ملنے کا پتہ اشفاق کمال، کمال کمپیوٹرس ، گوہل پور ، جبل پور ۔۴۸۰۰۰۲  مدھیہ پردیش 


Wednesday 19 June 2019

محمد ہاشم قدوائی افکار و جہات

ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی افکار و جہات 



 مسلم دانشوروں کی وہ جماعت جنہوں نے خلافت تحریک سے اسلامی سیاست یا ہندمیں مسلم سیاست کے رہنما کے طور پر ابھر ے ان میں مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابو الکلام آزام اور علی برادران تھے جو ہندی کی پیشانی میں قومی و بین الاقوامی سطح پر ابھرے تھے ۔اس تحر یک نے علاقائی سطح پر بھی رہنما پیدا کیے جن میں مولانا عبد الماجد دریابادی بھی تھے ۔ ان کی شناخت اگر چہ عالم ،مفسر قرآن ور انشاء پرداز کے طور پر ہوئی لیکن وہ خلافت تحر یک کے سرگرم رہنما بھی تھے ۔ مولانا کے گھر میں اسی سیاسی ماحول میں ہاشم قدوائی کی پیدا ئش ہوتی ہے جوبعد میں چل کر کانگریس کے سر گرم رکن سے لیکر راجیہ سبھا کے عہدہ تک کا سفر طے کر تے ہیں ۔ہا شم قدوائی صاحب کا تعلق کانگر یس کے اس طبقہ سے تھا جن کے لیے کانگر یس ایک نظر یہ تھا نہ کہ محض ایک سیاسی پارٹی ۔جیسا کہ انہوں نے ایک انٹر ویو میں بھی کہاہے کہ آزادی سے پہلے اور اب کے کانگر یس میں واضح فرق یہ ہے کہ پہلے پڑھے لکھے پارٹی میں تھے اب موقع پرست لوگ آتے جارہے ہیں ۔ موصوف کا تعلق زمانہ طالب علمی سے آخر ی عمر تک علی گڑ ھ مسلم یو نی ورسٹی سے رہا ہے وہ پولٹیکل سائنس کے استاد تھے انہوں نے علیگڑھ میں علمی ، تہذیبی و ثقافتی نشیب و فراز کوبغور دیکھااور محسوس کیا ہے وہ جدید نسل کی بے تہذیبی سے بہت ہی زیادہ نالاں بھی رہے اس کے لیے یو نی ورسٹی کے ایک چانسلر اور شعبہ دینیا ت کی نا کامی قر ار دیتے ہیں ۔ وہ یو نی ورسٹی کو سیر سید کی خوابوں کی تہذیب کی نظر سے دیکھنے کے خواہشمند رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے اس کئی وائس چانسلروں کی خدمات کو سر ا ہا بھی ہے ۔اس کتاب میں ان کی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، ادبی اور علمی زندگی سے متعلق ستر ہ (۱۷) مضامین ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹر سلیم قدوائی نے شامل کیے ہیں ۔پہلا مضمون مولانا سید رابع حسنی ندوی کا ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی کی تر بیت  مولانا دریابادی کے زیر سایہ پر مختصر اً لکھا ہے ۔ پر وفیسر ریا ض الرحمن شیر وانی ان سے متعلق کئی یادو ں کوجمع کر تے ہیں ۔موصوف کے چھوٹے بھائی عبد العلیم قداوائی ’’ تلخی غم کہی نہیں جاتی‘‘ میں ساتھ ساتھ گزرا بچپن اور بعد کے تعلقات کو بہت ہی غمناک انداز میں بیان کر تے ہیں ۔ ڈاکٹرہاشم قدوائی کا تعلق مطالعہ سے بہت ہی گہرا تھا وہ اردواور انگریزی میں ایک درجن سے زائد کتابیں انہوں نے لکھی جن میںسے سیاسیات پر لکھی کتابیں کئی یونی ورسٹیز میں داخل در س بھی ہیں ۔مکتوبات ماجدی کو سات جلدوں میں مر تب بھی کیا ان کے علاوہ ان کے تبصرے بہت ہی اہمیت کے حامل ہوئے ہیں مطالعہ وسیع ہونے کی وجہ سے انہوں نے تبصرو ں میں انصاف سے کام لیا ہے بلکہ کچھ تبصرے تو مصنف کے لیے مصیبت بن گئے لیکن موصوف اپنی تحریروں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ان تمام کا ذکر مرتب ڈاکٹر سلیم قدوائی نے ’’ اورقلم رک گیا ‘‘ میں کیا ہے ۔خواجہ محمد شاہدنے بطور استاد محتر م ان کی زندگی کو پیش کیا ہے ۔مفتی محمد عطاء الرحمن قاسمی نے عظیم محقق اور مؤرخ کے طور ان کا تعارف کرایا ہے ۔احمد مشکور صاحب نے سیاسی اور ادبی زندگی کو اپنے زاویے سے دیکھا ہے ۔مظفر حسین سید ان کے کئی صفات حمیدہ کو پیش کیا ہے جن کو انہوں نے بنظر خود دیکھا ۔اسعد فیصل کا مضمون دیگر مضامین سے ہٹ کر ہے وہ اس طور پر کہ تاثر اتی نہ ہوکر علمی طور پر ان کی صحافتی زندگی کو پیش کیا ہے وہ بھی محض ان مضامین کی روشنی میں جو دس روزہ ’’ جمہور ‘‘ علی گڑھ میں شائع ہوئے ۔ یہ مضامین پچاس سے ساٹھ کی دہائی میں لکھے گئے ہیں ۔ان مضامین کے زیر اثر اسعد فیصل لکھتے ہیں ’’ آزادی کے فوراً بعد جن چند ہندوستانی نو جوانو مسلم دانشوروں نے مسلم سیاست اور اقلیتوں کے حقوق پر خون جگر سے لکھا ان میں ہاشم قدوائی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ البتہ ہماری قوم اس سچی اور کھری شخصیت کی قدر و قیمت پہچاننے میں قاصر رہی ۔‘‘ 
اس کتاب میں شامل تمام تحریروں میںسے اہم انٹر ویو ہے جسے محمد عارف اقبال ( ایڈیٹر اردو بک ریویو ) نے لیا ہے ۔ اس انٹر ویو میں ان کی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ جس میں بچپنا ہے ، آزادی ہے ، آزادی کے بعد ہے ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہے ، راجیہ سبھا ہے اور مسلم قیادت اور مسائل بھی ہیں ۔ ’’ ایک نیشنلسٹ مسلمان کی چشم کشا سوانح ‘‘ (مصنف : ہاشم قدوائی ) پر بھی ایک تفصیلی مضمون محمد عارف اقبال کا شامل کتاب ہے ۔ الغرض یہ کتا ب بہت ہی جامع ہے لیکن پھر بھی تشنگی کااحساس ہوتا ہے کہ ان کی علمی کارناموں پر مضامین نہیں ہیں اور بھی بہت کچھ ہوسکتا تھا لیکن بقول مر تب ’’ طویل انتظار اور یا د دہانیوں کے باوجود جب مضامین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا تو نتیجے کے طور پر یہ فیصلہ کر نا پڑا کہ جتنے بھی مضامین موصول ہوئے ہیں ان پر ہی اکتفا کیا جائے ۔

مر تب  ڈاکٹر سلیم قدوائی 
اشاعت  ٢٠١٨ 
صفحات  ۱۰۶
قیمت  ۲۰۰روپے


 ناشر  اپلائڈ بکس ، ۱۰؍ ۱۷۳۹(ذیلی منزل ) نیو کوہِ نور ہوٹل ، پٹودی ہاؤس ، دریا گنج ، نئی دہلی ۔۲
امیر حمزہ 
 L-11 حاجی کالونی ،جامعہ نگر ، نئی دہلی 



’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...