Wednesday 19 June 2019

محمد ہاشم قدوائی افکار و جہات

ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی افکار و جہات 



 مسلم دانشوروں کی وہ جماعت جنہوں نے خلافت تحریک سے اسلامی سیاست یا ہندمیں مسلم سیاست کے رہنما کے طور پر ابھر ے ان میں مو لا نا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا ابو الکلام آزام اور علی برادران تھے جو ہندی کی پیشانی میں قومی و بین الاقوامی سطح پر ابھرے تھے ۔اس تحر یک نے علاقائی سطح پر بھی رہنما پیدا کیے جن میں مولانا عبد الماجد دریابادی بھی تھے ۔ ان کی شناخت اگر چہ عالم ،مفسر قرآن ور انشاء پرداز کے طور پر ہوئی لیکن وہ خلافت تحر یک کے سرگرم رہنما بھی تھے ۔ مولانا کے گھر میں اسی سیاسی ماحول میں ہاشم قدوائی کی پیدا ئش ہوتی ہے جوبعد میں چل کر کانگریس کے سر گرم رکن سے لیکر راجیہ سبھا کے عہدہ تک کا سفر طے کر تے ہیں ۔ہا شم قدوائی صاحب کا تعلق کانگر یس کے اس طبقہ سے تھا جن کے لیے کانگر یس ایک نظر یہ تھا نہ کہ محض ایک سیاسی پارٹی ۔جیسا کہ انہوں نے ایک انٹر ویو میں بھی کہاہے کہ آزادی سے پہلے اور اب کے کانگر یس میں واضح فرق یہ ہے کہ پہلے پڑھے لکھے پارٹی میں تھے اب موقع پرست لوگ آتے جارہے ہیں ۔ موصوف کا تعلق زمانہ طالب علمی سے آخر ی عمر تک علی گڑ ھ مسلم یو نی ورسٹی سے رہا ہے وہ پولٹیکل سائنس کے استاد تھے انہوں نے علیگڑھ میں علمی ، تہذیبی و ثقافتی نشیب و فراز کوبغور دیکھااور محسوس کیا ہے وہ جدید نسل کی بے تہذیبی سے بہت ہی زیادہ نالاں بھی رہے اس کے لیے یو نی ورسٹی کے ایک چانسلر اور شعبہ دینیا ت کی نا کامی قر ار دیتے ہیں ۔ وہ یو نی ورسٹی کو سیر سید کی خوابوں کی تہذیب کی نظر سے دیکھنے کے خواہشمند رہے ہیں جس کے لیے انہوں نے اس کئی وائس چانسلروں کی خدمات کو سر ا ہا بھی ہے ۔اس کتاب میں ان کی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ، ادبی اور علمی زندگی سے متعلق ستر ہ (۱۷) مضامین ان کے فرزند ارجمند ڈاکٹر سلیم قدوائی نے شامل کیے ہیں ۔پہلا مضمون مولانا سید رابع حسنی ندوی کا ہے جس میں انہوں نے ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی کی تر بیت  مولانا دریابادی کے زیر سایہ پر مختصر اً لکھا ہے ۔ پر وفیسر ریا ض الرحمن شیر وانی ان سے متعلق کئی یادو ں کوجمع کر تے ہیں ۔موصوف کے چھوٹے بھائی عبد العلیم قداوائی ’’ تلخی غم کہی نہیں جاتی‘‘ میں ساتھ ساتھ گزرا بچپن اور بعد کے تعلقات کو بہت ہی غمناک انداز میں بیان کر تے ہیں ۔ ڈاکٹرہاشم قدوائی کا تعلق مطالعہ سے بہت ہی گہرا تھا وہ اردواور انگریزی میں ایک درجن سے زائد کتابیں انہوں نے لکھی جن میںسے سیاسیات پر لکھی کتابیں کئی یونی ورسٹیز میں داخل در س بھی ہیں ۔مکتوبات ماجدی کو سات جلدوں میں مر تب بھی کیا ان کے علاوہ ان کے تبصرے بہت ہی اہمیت کے حامل ہوئے ہیں مطالعہ وسیع ہونے کی وجہ سے انہوں نے تبصرو ں میں انصاف سے کام لیا ہے بلکہ کچھ تبصرے تو مصنف کے لیے مصیبت بن گئے لیکن موصوف اپنی تحریروں سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ان تمام کا ذکر مرتب ڈاکٹر سلیم قدوائی نے ’’ اورقلم رک گیا ‘‘ میں کیا ہے ۔خواجہ محمد شاہدنے بطور استاد محتر م ان کی زندگی کو پیش کیا ہے ۔مفتی محمد عطاء الرحمن قاسمی نے عظیم محقق اور مؤرخ کے طور ان کا تعارف کرایا ہے ۔احمد مشکور صاحب نے سیاسی اور ادبی زندگی کو اپنے زاویے سے دیکھا ہے ۔مظفر حسین سید ان کے کئی صفات حمیدہ کو پیش کیا ہے جن کو انہوں نے بنظر خود دیکھا ۔اسعد فیصل کا مضمون دیگر مضامین سے ہٹ کر ہے وہ اس طور پر کہ تاثر اتی نہ ہوکر علمی طور پر ان کی صحافتی زندگی کو پیش کیا ہے وہ بھی محض ان مضامین کی روشنی میں جو دس روزہ ’’ جمہور ‘‘ علی گڑھ میں شائع ہوئے ۔ یہ مضامین پچاس سے ساٹھ کی دہائی میں لکھے گئے ہیں ۔ان مضامین کے زیر اثر اسعد فیصل لکھتے ہیں ’’ آزادی کے فوراً بعد جن چند ہندوستانی نو جوانو مسلم دانشوروں نے مسلم سیاست اور اقلیتوں کے حقوق پر خون جگر سے لکھا ان میں ہاشم قدوائی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ البتہ ہماری قوم اس سچی اور کھری شخصیت کی قدر و قیمت پہچاننے میں قاصر رہی ۔‘‘ 
اس کتاب میں شامل تمام تحریروں میںسے اہم انٹر ویو ہے جسے محمد عارف اقبال ( ایڈیٹر اردو بک ریویو ) نے لیا ہے ۔ اس انٹر ویو میں ان کی زندگی کے تمام گوشوں سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں ۔ جس میں بچپنا ہے ، آزادی ہے ، آزادی کے بعد ہے ، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ہے ، راجیہ سبھا ہے اور مسلم قیادت اور مسائل بھی ہیں ۔ ’’ ایک نیشنلسٹ مسلمان کی چشم کشا سوانح ‘‘ (مصنف : ہاشم قدوائی ) پر بھی ایک تفصیلی مضمون محمد عارف اقبال کا شامل کتاب ہے ۔ الغرض یہ کتا ب بہت ہی جامع ہے لیکن پھر بھی تشنگی کااحساس ہوتا ہے کہ ان کی علمی کارناموں پر مضامین نہیں ہیں اور بھی بہت کچھ ہوسکتا تھا لیکن بقول مر تب ’’ طویل انتظار اور یا د دہانیوں کے باوجود جب مضامین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوسکا تو نتیجے کے طور پر یہ فیصلہ کر نا پڑا کہ جتنے بھی مضامین موصول ہوئے ہیں ان پر ہی اکتفا کیا جائے ۔

مر تب  ڈاکٹر سلیم قدوائی 
اشاعت  ٢٠١٨ 
صفحات  ۱۰۶
قیمت  ۲۰۰روپے


 ناشر  اپلائڈ بکس ، ۱۰؍ ۱۷۳۹(ذیلی منزل ) نیو کوہِ نور ہوٹل ، پٹودی ہاؤس ، دریا گنج ، نئی دہلی ۔۲
امیر حمزہ 
 L-11 حاجی کالونی ،جامعہ نگر ، نئی دہلی 



No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...