Friday 23 November 2018

فکرو نظر

نام کتاب  فکرو نظر(تنقیدی و تحقیقی مضامین)
مصنف    حنیف نجمی
اشاعت. 2018
صفحات. 276
قیمت.  275
ناشر. روز ورڈ بکس ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی
بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آرہی ہیں جو فکر کو مہمیز کرے اور اس سے نظر کو بالیدگی عطا ہو. حنیف نجمی صاحب کی یہ کتاب  پہلی ہی نظر میں کسی بھی سنجیدہ قاری کو اپنی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ اس کتاب میں تین اہم ایسے مضامین ہیں جن میں سے دو کا پلاٹ صرف ایک بیت پر قائم کیا گیا ہے اور ایک تحقیقی مضمون صرف ایک مقولہ پرمرکوز ہے.
کتاب کی فہرست پر جب نظر پڑی تو نادر مضامین کا گلدستہ نظر آیا، جس میں ادب کی روح اور فلسفے کا خمیر ہے. اساطیری فنٹاسی ہے اور تازہ واردان ادب کے ادب پر تنقیدی نظر بھی ہے. اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کلام کی جو معطر روح اردو میں سمائی ہوئی ہے وہ مضامین میں بھی شیر وشکر ہوگئے ہیں، جو کسی بھی سنجیدہ قاری کو کلاسیکیت روح سے روشناس کراتاہے اور لفظ و معنی کے بے پناہ روموز سے بکھیرتا ہے.
کتاب کا پہلا مضمون"صنف غزل اور بین المتونیت" ہے جسے خسرو کی ایک بیت کے حوالے رقم کیا گیا ہے. مضمون کی شروعات مضامین میں اخذ و استفادہ کی بحث سے کی گئی ہے. جس کو انہوں نے بین المتونیت کے دائرے میں پیش کیا ہے جس کے دلائل کے طور پر  سنسکرت اور فارسی شعریات کو بھی پیش کیا ہے. خسرو کے خصوصی بیت پر جو مضمون قائم یے وہ بیت کچھ اس طرح ہے
اے گل چوں آمدی ز زمیں گو چگونہ اند
آں روئے ہا کہ در تہہ گرد فنا شدند
ساتھ میں مصنف کا دعویٰ بھی ہے کہ "غزل صحیح معنی میں بین المتونی صنف سخن ہے. اخذ و استفادہ اس کی شعریات کا مسلمہ اصول ہے." مصنف مذکورہ بیت کے مضمون کو بیدل و سودا سے لیکر مخمور سعیدی کی شاعری میں نشاندہی کرتے ہوئے پھر واپس سعدی و خیام کی جانب لوٹ جاتے ہیں اس طرح سے اپنے دعویٰ کےدلائل پیش کرتے چلے جاتے ہیں جو قاری کے ذہن میں بھی گھر کرتا چلا جاتا ہے.
دوسرے مضمون کا عنوان" غالب کی ایک بیت "ہے. فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے"در بلا بودن بہ از بیم بلا" اس پر بے تکلف کا اضافہ کر کے عرفی کے ایک شعر سے اکتساب کرتے ہیں، غالب کی بیت کچھ اسطرح ہے.
بے تکلف در بلا بودن بہ از بیم بلا
قعر دریا سلسبیل و روئے دریا آتش است
اور عرفی کا بیت کچھ اس طرح ہے
ہم سمندر باش و ہم ماہی کہ در جیحون عشق
روئے دریا سلسبیل و قعر دریا آتش است
مذکورہ اشعار سے مصنف معانی کے گرہ کھولتے چلےجاتے ہیں، معانی کے دعویٰ کی دلیل اشعار سے پیش کرتے جاتے ہیں اور ایک دلچسپ مضمون بنتا چلا جاتا ہے
مرزا منوہر توسنی جو مصنف کی تحقیق میں فارسی کا سب سے پہلا غیر مسلم شاعر تھا، ایک طویل تحقیقی مضمون ہے جس میں توسنی کی شخصیت ادب اور مقبولیت کا جامع انداز میں مدلل احاطہ کیا گیا ہے.
"کلام خسرو میں گریہ" غزل کے مضامین اور مضامین کے اختراع سے مضمون شروع ہوتا ہے جس میں گریہ کے مضمون کو جن نئے نئے انداز سے خسرو نے پیش کیا ہے اس کی کہکشاں انہوں نے یہاں پیش کردی ہے.
"ملک الشعراء فیضی : ایک تجزیاتی مطالعہ" کتاب میں شامل سب سے طویل تحقیقی مقالہ ہے جو تقریباً پچھتر صفحات پر مشتمل ہے. اگر چہ مصنف نے عنوان میں تجزیاتی مطالعہ لکھا ہے لیکن یہ مکمل تحقیقاتی مقالہ ہے جس کی شروعات اکبر کے دور میں علماء کبار کے ذکر کے بعد عہدِ اکبری میں فارسی ادب کی حسین تاریخ کا زریں مطالعہ بھی پیش کیا گیا ہے. فیضی کا درجہ اکبر کے یہاں، فیضی کے تصانیف و تراجم، مذہب اور فیضی کی شاعری کا مطالعہ تفصیلی طور پر شامل مضمون ہے. ایک بات جو اس کتاب میں بہت ہی اہم ہے وہ یہ ہے کہ مصنف نے اشعار پر جو گفتگو پیش کی ہے ان میں وہ لفظی تشریح و تعبیر سے دور ہوکر معنویاتی سطح پر کئی پرتوں کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں
کتاب کے ابتدائی مضامین سے ہی اس بات کی امید تھی کہ ادبی معرکہ کا ذکر ضرور ہوگا اور وہ اس مضمون "فیضی کا ایک مقولہ" میں دیکھنے کو مل گیا. مضمون تو فیضی کے ایک مقولہ"سخن فہمی عالم بالا معلوم شد" پر مرکوز ہے.  عالم بالا کی لغوی معنوی اور ادبی تشریح کے بعد موقعہ ورودِ مقولہ پر پہنچتے ہیں. پھر یہ مصرع ہے یا مقولہ اس پر جو ادبی معرکہ شمس الرحمن فاروقی اور گوپی چند نارنگ کے مابین پیش آیا اس کا. ذکر کرتے ہیں، درمیان معرکہ زار علامی بھی آتے ہیں.
قارون کا قصہ جس کا تعلق محض مذہبی کتب سے ہے اس کے کئی پہلوؤں کی وضاحت مصنف نے ایک مضمون میں کی ہے. مصنف تو بظاہر مفسر نہیں ہیں لیکن قرآن کے ساتھ دیگر مذاہب کی کتاب میں قارون کا ذکر جس نوعیت کے ساتھ آیا ہے ان تمام پر اپنی عمیق نگاہ ڈالتے ہوئے کئی اہم پہلوؤں کی جو وضاحت کی ہے اس سے منصف کی علمی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتا ہے.
"شیخ احمد جام کی ایک بیت" کتاب میں شامل صرف بیت پر ہی مرکوز دوسرا مضمون ہے. شاعری کہتے کسے ہیں اس کیفیت کے ادراک کی تفصیل سے مضمون شروع ہوتا ہے پھر مشائخ چشت کے سماع سے متعلق ذوق و شعور کو پیش کیا گیا ہے. پھر کئی صفحات کے بعد شیخ احمد جام کی وہ بیت آتی ہے جس کو سن کر شیخ قطب الدین چار راتیں عالم تحیر میں ہوتے ہیں اور پانچویں شب جان جان آفریں کے سپرد کردیتے ہیں. وہ بیت یہ ہے
کشتگان خنجر تسلیم را
ہر زماں از غیب جان دیگر است
اس پورے مضمون میں اگرچہ تصوف کی فضا قائم ہے لیکن اصل میں انہوں نے شاعری کی روح کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو چیزے دیگر ہے.
اس کے بعد "تخلیق شعر کا الہامی تصور. شعر حافظ کے خصوصی حوالے سے" ہے. ماقبل کے مضمون سے یہ مضمون تدریجا آگے بڑھا ہے اور بات شعر کے الہامی ہونے تک پہنچ گئی ہے. ایک طویل گفتگو طوطی پر ہے جس میں ہی مضمون نگار نے صفت الہام کو عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے..
"رومی کی ایک بیت" کتاب میں کلاسیکیت پر شامل آخری مضمون اور بیتِ واحد پر مرکوز رہ کر لکھا جانے والا بھی آخری مضمون ہے. "آفتاب آمد دلیل آفتاب است" یہ اگرچہ رومی کی ایک بیت ہے لیکن مقولہ کے طور پر مشہور ہوگیا ہے اور ساتھ ہی فن منطق میں بدیہی کی مثال بھی ہے. مصنف نگار نے اسی بیت سے بات شروع کی ہے اور اسی پر مرکوز رہ کر کئی قیمتی ضمنی باتیں بھی بتائی ہیں اور  دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس مصرع میں اور اس کے سوا تقریباً تیس اشعار میں آفتاب سے مراد رومی کے پیر و مرشد شمس تبریز ہیں لیکن گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ دیگر کتب سماوی و شعرا کے یہاں "آفتاب" کا لفظ باری تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے. اس مضمون کے بعد چار مختصر مضامین ہیں جن میں سے ایک امام غزالی کی حیات اور تین جدید شعرا سعید الظفر وسیم، اقبال خلش اور کرامت علی کرامت کی شعری و فکری جہات پر ہے. اس کتاب کے مطالعہ کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کا مکمل مطالعہ اس کتاب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی قاری کو مطالعہ کی دعوت دیتی ہے.
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...