Tuesday 27 December 2022

2022 کااردو زبان و ادب

 ۲۰۲۲ کااردو زبان و ادب 

ڈاکٹرامیرحمزہ 

ادب و زبان کے حوالے سے اس سال نے ہمیں بہت کچھ دیا تو ہم بہت کچھ لے بھی لیا ہے ، بلا کسی تمہید کے اطراف و جوانب کا جائزہ لیتے ہیں۔

 شروع کرتے سب سے پہلے صحافت سے کیونکہ ۲۰۲۲ صحا فت کی دو صدی کے جشن کے طور پر منایا گیا ۔ ہندو ستان کے مختلف شہر وں میں اعلی درجے کے سمینا ر منعقد کیے گئے ۔جس میں اردو صحافت کے نشیب و فراز پر گفتگو ہوئی ۔ بزم صدف انٹرنیشنل کے تحت پٹنہ ، کلکتہ اور حیدرآباد میں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ور سٹی کے زیر اہتمام یونی ورسٹی کیمپس میں، خلافت ہاؤس ممبئی میں، غالب اکیڈمی دہلی اور بنگال میںبھی صحافت کے دو سو سالہ جشن پر خوب جشن ہوا ۔ اس میں ایک جشن بہت اعلی پیمانہ پر ملک کی بڑی ہستیوں کی شرکت کے ساتھ سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کی نگرانی میں منعقد ہوا ۔ اب سال گز رنے والا ہے ایسے میں صحافت کے موجودہ منظر نا مے پر غور کریں توRNI کے مطابق 2015-16 میں 5,17,75,006 اردو اخبارات کی کاپیوں کی سر کولیشن کا دعویٰ کیا گیا تھا جو بتدریج سا بقہ تین برسوں سے بڑھ رہا تھا لیکن 20120-21 میں سرکلیشن کا دعویٰ 2,61,14,412 کا ہی ہے ۔ تقریبا پچاس فیصد گراوٹ کی وجہ شاید کورونا رہی ہو کیونکہ بہت سارے اخبارات دم ٹوڑچکے تھے ۔ لیکن جو اخبارا بڑے پیمانے پر مختلف شہروں سے شائع ہورہے ہیں ان کے ایڈیشن پر بات کریں تو کوئی نیا ایڈیشن کہیں سے نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی اردو میں کسی عمدہ اخبار کی ابتدا کی خبر ملتی ہے ۔ قومی کونسل کی جانب سے جاری کردہ ایک فہرست کے مطابق ہندوستان میں 81 اردو اخبارات نکل رہے ہیں، ان میں سے 20 دہلی سے ہی شائع ہوتے ہیں ۔ صحافت کی نظر سے 2022 کو اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ UNI کی سروس بند کر دی گئی ۔ ہاں پور ٹلس میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بات کی جائے تو ٹیلی ویژن میں اردو اپنا پیر سمیٹ رہی  ہے سوائے ای ٹی وی اردو ، ای ٹی وی بھارت کے ۔ ڈی ، ڈی اردو میں صر ایک بلیٹں جارہا ہے ۔ ریڈیو کی سروس کورونا سے پہلے اکیس گھنٹے سے زائد تھی اور آج صرف دس گھنٹوں میں سمٹ کررہ گئی ہے جس کی وجہ سے اردو کے بہت سارے پروگرام بھی ختم ہوگئے ۔ اردو مجلس کا پرو گرام بھی ایک دو گھنٹے پر ہی محصور ہوکر رہ گیا ہے ، ٹوڈا پور کا نیشنل چینل کورنا سے پہلے ہی بند ہوچکا ہے ۔ہفتہ واری رسائل تو اب نکل ہی نہیں رہے ہیں ، گھریلوڈائجسٹ جو بہت ہی اہتمام کے  ساتھ شائع ہوا کرتے تھے وہ بھی کورنا کے بعداس بر س منظر عام پر آنے کی ہمت نہیں کرسکے ۔

 ادبی صحافت کی بات کی جائے تو دلی کے سرکاری ماہناموں کے علاوہ اردو ادب کی نمائندگی کرنے والے دیگر ماہناموں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔ کورونا کے بعد اس بر س سہ ماہی رسالوں کی کارکردگی بہتر دیکھنے کو ملی جن میں عالمی فلک ، ثالث ، دربھنگہ ٹائمز ، مژگاں ، اردو جرنل پٹنہ ،جہان اردو ، نیاورق ،تمثیل نو، دیدبان ، ساغرادب ، اثبات ، انتساب ، استفسار ، امروز ، رہروان ادب ، انشا ، فکر و تحریر ،تکمیل ، تفہیم،جدید فکرو فن، عالمی ادبستان و دیگر نے خوب محنت کی۔سر کاری میں، فکرو تحقیق، ادب و ثقافت ،زبان و ادب، روح ادب ، شیرازہ ، ہندوستانی زبان، بھاشا سنگم ، فروغ ادب وغیرہ نکل رہے ہیں۔ شروع کے چند یقینا اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیںو دیگر خصوصی نمبرات کی وجہ سے ادب کی خدمت بخوبی اداکررہے ہیں۔ غیر سرکا ری ماہناموں میں ’’پیش رفت ‘‘ و ’’تریاق ‘‘کی اچھی پیش رفت دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ماہنامہ شاعر اس بر س چرا غ سحر ی کی شکل اختیار کرگیا۔ 

صحافت کے اس یاد گار سال میں صحافت پر’’اردو صحافت دو صدی کا احتساب ‘‘(صفدر امام قادر ی ) کتابیات صحافت ( محمد ذاکر حسین ) اردو صحافت تجزیاتی اور لسانی ڈسکور س (محمد جہانگیر وارثی و صباح الدین احمد ) مغربی بنگال میں اردو صحافت (محمد شکیل اختر ) جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز، جی ڈی چند کی نادر صحافتی تحریریں (سہیل انجم ) منظر عام پر آئے ۔

اب کتابوں کی دنیا کی بات کریں تواس سال فکشن پر زیادہ چرچے ہوئے ۔ اسے گزشتہ چندبرسوں کی محنت کا ثمرہ بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ ناول کی فضا مستقل ہموار کی گئی جس کے نتیجے میں ناول کے جدید قاری اور ناقد بھی سامنے آئے، ساتھ ہی ناول تنقید کی نئی زبان بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔یقینا قاری کی پہلی پسند اس سال ناول رہی کیونکہ جس چیز کے چرچے زیادہ ہوں گے عوام میں بھی وہی زیادہ جگہ بنائے گی اسی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں جو ناول لکھے گئے تھے ان پر اس سال گفتگو بھی زیادہ ہوئی جس پر پرو فیسر کوثر مظہر ی اور ڈاکٹر امتیاز علیمی کی ’’ نیا ناول نیا تناظر ‘‘ اور انتخاب حمید کی ’’ ارو کے نئے ناول صنفی و جمالیاتی منطق ‘‘ سال کے شروع میں منظر عام پر آئے جو ناول مذاکرات میں مزید معاون ثابت ہوئے ۔ناول کی دنیا میں خالد جاوید نئے انداز و موضوعات کی وجہ سے پہلے سے نمایاں تھے جے سی بی ایوارڈ نے خالد جاوید کے ساتھ اردو ناولوں کو بھی ممتاز کیا ۔اس بر س کی چند قابل ذکر کتابیںدرج ذیل ہیں ۔

ناول ارسلان اور بہزاد(خالدجاوید) نصف صدی کا قصہ ( سیدمحمد اشرف ) سسٹم (عبدالصمد) شہر ذات (شاہد اختر )  صفر کی تو ہین ، جو کر (اشعر نجمی ) زندیق ( رحمن عباس) ڈھولی ڈگڑوڈوم( غیاث الرحمن سید) درد کا چاند بجھ گیا (ڈاکٹر اعظم ) نئی نسل سے حمیرا عالیہ کا ناول ’’ محصور پرندوں کا آسمان‘‘۔ افسانے  تشبیہ میں تقلیب کا بیا نیہ ( نورین علی حق ) کر ب نا تمام ( شاہین نظر )راستے خاموش ہیں (مکرم نیاز )۔شاعریکٹھ پتلی کا خواب (صادق ) دو کنارے ( سرور ساجد ) بار زیاں ( یعقوب یا ور ) قر ض جاں (عدیل زیدی) قسط (صابر ) دختر نیل (ولا جمال العسیلی)دھوپ چھاؤں کا رقص (شبانہ عشرت )عشق دوبارہ ہوسکتا ہے (رخشاں ہاشمی )

 خود نوشتہندوستانی سیاست اور میری زندگی (محسنہ قدوائی ) نہ ابتدا کی خبر ہے نہ (شارب ردولوی ) دیکھ لی دنیا ہم نے (غضنفر ) طفل برہنہ پا کا عروج ( جلیس احمد خاں ترین ) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور میری داستان حیات (الما لطیف شمسی) 

 تنقید  غالب : دنیائے معانی کا مطالعہ (انیس اشفاق )اکبر الہ آبادی شخصیت اور عہد،مخاطبت ،باقیات سہیل عظیم آباد ی ، دھوپ چھاؤں(ارتضیٰ کریم) گمشدہ معانی کی تلاش (سر ور رالہدی ) معاصر ارد ادب میں نئے تخلیقی رویے (صدیق الرحمن قدوائی)ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری (یعقوب یاور ) 

شاداں فاروقی حیات و خدمات (مجیر آزاد )جدید اردو افسانے کا فکر ی و فنی منظر نامہ (حیدر علی )

غالب کا خود منتحب فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ (بیدار بخت ) غالب اور عالمی انسانی قدریں (ادریس احمد )جدیدیت اور غزل ( معید رشید ی) اردو ناول نظر ی و عملی تنقید ( سفینہ بیگم ) شعرائے کرناٹک (انوپما پول)تحقیق و تدوین تعلیمی سفرنا مے ، (شمس بدایونی )رشید حسن خاں اور شمس بدایونی کا ادبی رشتہ ، مقالات رشید حسن خاں، رشید حسن خاں اور اردو محققین(ٹی آر رینا )کلیات مکتوبات سر سید (عطا خورشید) اثرات شبلی دو جلد ( محمد الیاس اعظمی) رفقائے سر سید ( افتخار عالم خاں ) رباعی تحقیق (امیر حمزہ ) مقالات طارق (طارق جمیل )اردو املا مسائل اور مباحث ( ابرا ہیم افسر ) غبار فکر (اجے مالوی )بچوں کی کتابیں تعارف و تذکرہ ( عطا عابدی) خاکے  جنھیں میں نے دیکھا جنھیں میں نے جانا (شمع افروز زیدی ) کیسے کیسے آسماں (فاروق اعظم قاسمی )رہ و رسم آشنائی (اطہر صدیقی )۔ترجمیکی بات کی جائے تو یہ بر س ترجمہ کے لیے بہت ہی اچھا رہا ہے ہر فن کی کتابوں کا اردو میں تر جمہ کی جانب رجحان بڑھا ہے ساتھ ہی چند پبلیشر ایسے بھی ہیں جو تراجم کو شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیںچند تر جمہ شدہ کتابیں یہ ہیں۔ مغموم صنوبر ، زہراب نیل ، گاڈ فادر ، ڈاکٹر زاگو، جہنم ، سسیلیانو، آخری ڈان، اومیرتا ، فلسفہ جے کرشن مورتی ( یعقوب یاور )کشمیر نامہ ، ہندوستانی مسلمان اور نشاط ثانیہ (عبدالسمیع )گواڑ (نوشاد منظر )مسلم یو نی ورسٹی کے قیام کی مہم ( عبد الصبور قدوائی )کھر ونچ (متھن کمار ) ۔متفرقات جہان علی گڑھ (راحت ابرار )چار کھونٹ (ابن کنول)ممبئی کی بزم علمیہ ( عبدالستار دلوی )مقالات ابن احمد نقوی (سہیل انجم ) ۔

اس سال شخصیات پر زیادہ کتابیں نظر نہیں آتی ہیں البتہ پر وفیسر صادق کی شخصیت و فن پر چند کتابیں اسی سال نظر سے گزری ہیں۔ صادق کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری (اسرا فاطمہ ) صادق کے تحقیقی مضامین (شا ہینہ تبسم ) صادق کے تنقیدی مضامین ( ارشاد احمد ) صادق کے ہندی مضامین (ابراہیم افسر ) صادق دکن دیس میں (عبدالقادر ) اصناف ادب اور صادق ( انتخاب حمید ) 

یقینا ہزار کے قریب کتابیں اس سال شائع ہوئی ہوں گی جن میں سب تک رسائی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی سب کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔ 

اشاعتی دنیا کی بات کی جائے تو سبھی کے علم میں ہے کہ ادبی کتابوں کے اشاعتی مرکز دہلی ہے ۔ ملک بھر کے ادیبوں کی کتابیں یہاں سے شائع ہوتی رہتی ہیں گزشتہ بر س قومی کونسل نے 303 مسودات کو منظور کیا تھا یقینا ان میں سے زیادہ تر دہلی سے ہی شائع ہوئے ہوں گے اور یہ بھی گمان ہے کہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤ س نے ہی زیادہ کتابیں چھاپی ہوںگی ۔عرشیہ نے صرف اس سال تقریبا چالیس سے پچاس نئے ٹائٹل شائع کیے ہیں ۔ایم آر پبلی کیشن کریٹواسٹار ، 30۔ مر کزی پبلی کیشنز60، عذرا بک ٹریڈر س نے 32 ، عبارت پبلیکیشن جو اسی سال اسٹیبلش ہوا ہے اس نے پندرہ ادبی کتابیں شائع کی ہیں۔ بڑے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی بات کی جائے تو کونسل سے زیادہ تر کتابیں ری پرنٹ ہوئی ہیں البتہ چند نئی کتابیں بھی آئیں ہیں ، اردو اکادمی دہلی نے کوئی نیا ٹائٹل نہیں چھاپا ، اردو گھر نے دس سے کم ہی نئی کتابیں شائع کی ہیں ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے بھی تقریبا دس نئی کتابیں چھاپیں ۔

جشن دہلی میں دو جشن ہوا کرتے تھے ، جشن ریختہ کی جانب کشش یقینا اردو کی کشش ہے جسے میں نے جشن میں موجود حاشیائی آوازوں سے محسوس کیا ہے ، اردو اکیڈمی کا اردو وراثت میلہ منعقد نہیں ہوا ،قومی کونسل کا عالمی سمینا ر بھی کو رونا کے بعد نہیں ہوسکا ہے ، ادرو گھر کا سمینا ر کئی برسوں سے نہیں ہوا ۔ 

وفیات کا ذکرو ں تو ابرار کرتپوری،ابراہیم اشک،اشرف استھانوی ،اظہار عثمانی،پروفیسر گوپی چند نارنگ،پروفیسرمینیجر پانڈے،پروفیسر اسلم آزاد،پروفیسر اصغر عباس،پروفیسر جعفر رضا

پروفیسر حسین الحق،پروفیسر خورشید سمیع،پروفیسر عطیہ نشاط خان،حیدر بیابانی،خالد عابدی،ڈاکٹر کمار پانی پتی ،ڈاکٹر نادر علی خاں،ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی،کرامت علی کرامت، متین اچل پور ی ،مظفر حسین سید،مولانسیم شاہ قیصر،برقی اعظمی جیسی شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں ۔

ریسر چ اسکالر س کی دنیا کی بات کی جائے تو ہر سال تقریبا دو سو اردو کے طلبہ ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کرتے ہیں یہ تعداد یقینا قابل تحسین ہے۔ طلبہ کے عمدہ مضامین اور کتابیں بھی منظر عام پر آرہی ہیں ، اس برس کے عالمی ریسرچ اسکالرز سمینار غالب انسٹی ٹیوٹ میں یہ دیکھنے کو ملا کہ سابقہ کے مقابلے عمدہ مقالات کے ساتھ اچھے طلبہ کی شرکت تھی ۔ سب سے زیادہ سوال ریڈر شپ پر آتا ہے اوراس کا پیمانہ کتاب کی فروختگی ہے۔ اس کا جواب بھی یقینا ان ہی کے پاس ہے کیونکہ جب طلبہ فوٹو کاپی سے در س حاصل کریںگے تو کتاب سے دلچسپی کہاں قائم ہوگی اور نوٹ پر منحصر رہیںگے تو کتاب کی قرأت کی جانب کہاں راغب ہوںگے ۔ سوال کا جواب ہمارے پاس ہے اردو کی ترقی ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے جو چیزیں (نوٹ ، فوٹی کاپی ، پی ڈی ایف )سم قاتل ہیں ہم انہی کو فروغ دیے جارہیں ۔





Wednesday 21 December 2022

کردار نگاری و اقسام کردار kirdar nigari wa aqsam e kirdar

 کردار نگاری و اقسام کردار 

امیر حمزہ ، دہلی 


کردار افسانوی ادب میں روح کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جہاں تک کردار سفر کرتا ہے افسانوی ادب بھی سفر کرتا رہتا ہے ۔ داستا ن ہو یا ناول ، ڈرامہ ہو یا افسانہ ، داستانوی مثنوی ہو یا منظوم قصے یا ہر وہ ادب جہاں قصے کا عمل دخل ہے وہاں کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ کسی بھی قصہ کے کر دار عموما انسا ن ہی ہوتے ہیں، جانداروں کے کردار بھی قدیم و جدید افسانوں میں نمایاں طور پرپڑھنے کو ملتے ہیں ،غیر جاندار کرداروں سے بھی اب افسانوی دنیا مجہول نہیں، لیکن مؤخر الذکر دونوں یا تو علامات کے طور پر سامنے آتے ہیں یا پھر انسانی کرداروں کے بدل کے طور پر ۔البتہ جانداروں کے جزوی کردار اپنی اصل ہیئت میں سامنے آتے رہتے ہیں ۔ 

کردار نگاری اپنے وسیع مفہوم میں نہ صرف ناول بلکہ ادب کے دیگر اصناف میں بھی پائی جاتی ہے ، تاریخ ، سیرت ، سوانح ، خود نوشت، خاکہ ، انشائیہ ، ڈرامہ ،افسانہ ، نظم ، مثنوی ، مرثیہ اور داستان میں کردا ر موجود ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی کردار نگاری کی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ناول کی کردار نگار ی سامنے آتی ہے کیونکہ یہاں کردار اپنا مکمل عکس پیش کرتا ہے۔ اس اعتبار سے کردار نگاری میں ادب کی کوئی دوسری صنف ناول کا مقابلہ نہیںکرسکتی ۔ کیونکہ ناول کے کردار گہرے مشاہدے ، تجربے اور فنی تکمیل کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔

کر دار نگار ی کسی عمومی فرد یا بطور فرد استعمال ہونے والے کردار میں خصلت نگاری کا فن ہے ، جس میں ناول نگار افرادِ قصہ کے ایک فرد میں مخصوص عادات و اطواراور خصائل و طبیعت پیدا کرتا ہے تاکہ اس کی ہستی دیگر سے منفرد ہوجائے اور اگر اسے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرنا ہے تو پھر اس کی خصلت کی تراش و خراش میں مزید محنت کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے جملہ افراد ِقصہ میں نمایاں ہوجائے اور ادب میں عرصہ دراز تک منفرد رہ سکے۔ ایسے میں کامیاب کردار نگار وہی بن پاتا ہے جس کے پاس گہرے مشاہدے اور بھرپور تجربے کے ساتھ وفور علم بھی ہو ، نیز اسلوب پیش کش میں نمایاںلسانی صلاحیت بھی رکھتا ہو تاکہ قاری پر وہ گراں نہ گزرے ۔ یعنی کردار نگار اشخاص قصہ کی طبیعت ، سرشت ، عادا ت و اطوار میں ایسی امتیازی خصوصیات پیدا کردیتا ہے جس سے وہ مکمل معاشرہ کا فرد لگے اور ممیز خصوصیات کی وجہ سے امتیازی کردار کا حامل ہو جائے ۔ 

کردار کے حقیقی معنی سے ہم سب واقف ہیں لیکن یہ لفظ فکشن کی دنیا میں ہمیشہ مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چند لفظوں سے کردار کے بارے میں فکشن سے پرے جانے کی کوشش کر تے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز(جانداروغیر جاندار) اپنے لیے لفظ کردار تک اس وقت پہنچ پاتی ہے جب وہ منفرد خصوصیات اور ممیز علامات کی حامل ہوجائیں۔ فکشن کے منضبط ہونے سے پہلے سے ہی لفظ کردار اپنے ممتاز معنی میں مستعمل ملتا ہے ،  کردار جب قوموں کے ساتھ لکھا ملتا ہے تووہاں قوم کی کوئی نمایاں خصوصیت مراد ہوتی ہے ۔ الغرض لفظ کردار کا استعمال کسی ممتازصفت و علامت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ کردارجب اجتماعیت سے انفراد یت کی جانب سفر ہوا انفرادیت کے لیے مستعمل ہونے لگا ۔ اب عالم یہ ہے کہ اجتماعیت کے لیے کردار کا استعمال نہ ہوکر زیادہ تر انفرادیت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ یہ کردا ر کے معنی میں ہی پوشیدہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نقطہ پر مرکوز ہو خوا ہ وہ نقطہ کثیر (فرد، مقام ) پر محیط ہو یا قلیل پر ۔ اس کو درج ذیل دو تعریفوں سے سمجھتے ہیں :

’’ ایک شخصیت جسے کسی ناول نگار یا ڈرامہ نگار نے نمایاں اوصاف و خصائص بخش دیے ہوں ۔ ‘‘

’’کسی چیز کی ممیز خصوصیات اور خصوصا کسی فرد بشر کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف ، ان اوصاف کا مجموعہ جو اسے شخص کی حیثیت سے ممیزکریں ‘‘ 

پہلی تعریف میں شخصیت ہے جو عمومیت سے ہمیشہ ممتاز ہوتی ہے کیونکہ وہ نمایا ں اوصاف و خصوصیات کی مالک ہوتی ہے ۔ اس کو کہانی کا ر تخلیق کرتا ہے ۔ دو سری تعریف میں لفظ ’چیز ‘ میں جاندار و غیر جاندار سب داخل ہوجاتے ہیں پھر اس کو مخصوص کرتے ہیں ’’ممیز ‘‘ سے ، مزید مخصوص کرتے ہیں فرد بشر سے ، اب اس اختصاص میں بھی اخلاقی و ذہنی اوصاف سے ۔ گویا کردار اختصاص پر مرکوز ہوتا جاتا ہے اور یہ ایک پیرامڈ کی صورت میں اختتام کو پہنچتا ہے تب جاکر کوئی کردار تیار ہوتا ہے ۔ یہاں ذہن میں ایک سوال تو ابھرے گا کہ اردو کے اکثر ناولوں میں وہ کرادا ر اپنائے گئے ہیں جو شخصیت کے مالک نہیں ہوتے ہیں۔ سوال بالکل بجاہے لیکن یہاں شخصیت عرف عام سے مختلف نظر آتی ہے۔ فکشن میں ہم کوئی بھی عام کردار اٹھاتے ہیں جو نمایاں خصوصیات کی وجہ سے اپنے گروہ ، قبیلہ یا جماعت کی نمائندگی کرتا ہے پھر تخلیق کار کی قوت متخیلہ اس میں اختصاص کی کیفیت پیدا کرکے شخصیت( بمعنی ممتاز )کے خانے میں لے جاتا ہے ۔ 

کردار حقیقی ہو یا افسانوی دونو ںمیں کردار کی تعمیر کے لیے شخصیت کی تعمیر سے گہرا ربط ہوتا ہے اور شخصیت ظاہر و باطن دونوںکا نام ہوتاہے توکردار میں بھی ظاہر و باطن دونوں کی عکاسی کی حتی الامکان کو شش کی جاتی ہے۔ بلکہ فکشن میں کردار کو باطنی جذبات( مہیجات و رجحانات ، اشتہا ؤ تمنا ، تصورو فکر، فریب کاری ، منافقت اور ابن الوقتی ودیگر) سے ہی سینچا جاتا ہے اور ان سب کو اطورا کا نام دیا جاتا ہے ۔ الغرض یہاں سے معکوسی ترتیب دیکھیں تو اطوار سے شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اور شخصیت سے کردار وجود میں آتا ہے جس کو اس کے افعال وجذبات کی نمائندگی کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے ۔ 

ہر انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں جو تاریخ اور فکشن سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں ۔ قابل مشاہدہ باتیں تاریخ کے لیے مواد ہوتے ہیں ۔ تاریخ سے آگے جذبات سے متعلق باتیں ، خواب ،مسرت ،غم و یاس، خود کلامی ، عشق و محبت و دیگر جس کے اظہار میں شرم و اخلاق حائل ہوتے ہیں ، انسانی فطرت کے اسی پہلو کو تاریخ سے آگے بڑھ کر ناول نگار پیش کرتا ہے ۔  اس کردار سازی میں وہ شخصیت سے قریب ہوکر اس شخصیت کو کردار کے سانچے میں پیش کرتا ہے تب جاکر فکشن کا کردار تیار ہوتا ہے ۔ 

و تاریخی اور تخلیقی کردار میں سب سے نمایاں فرق یہیں سے سامنے آتا ہے ۔ ظاہر ی افعال و اعمال جو واقعات کی سطح پر عوام الناس کے سامنے آجاتے ہیں اور زندگی کے کردار ہوتے ہیں ۔ یعنی اگرکوئی کردار زندگی کے حقیقی کردار سے ہو بہو مل رہا ہے تو وہ ناول کا نہ ہو کر تذکر ہ کا ثابت ہوگا اور تذکرہ تاریخ ہے جس کی بنیاد واقعات پرہے ۔ واقعات کی ہی کسی ایک کڑی کو پکڑ کر تخلیق کار اپنی قوت متخیلہ سے وہ ساری چیزیں پیش کرتا ہے جس سے کردار کو حقیقی کردار سے الگ کرکے فکشن کا کردار بناتا ہے۔ اس کردار سازی میں وہ کتنا کردار کے اندر اتر پاتا ہے یہ اس کے قوت متخیلہ سے ہی ہوتا ہے ۔ کوئی تخلیق کار جب کسی کردار کو تراشتا ہے تو وہ اس کردار کے ذہن کو خود میں نہیں داخل کرتا ہے بلکہ اپنے ذہن سے کردار کو اپنے مطابق ڈھا لتا ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کردار اگر مختلف تخلیق کار کے یہاں وجود میں آیا ہے تو ہر ایک نے اپنے تخیل سے ہی اس میں رنگ بھر ا ہے ۔ ایسے میں کردار کو پڑھنے او ر سمجھنے کے انداز بھی الگ ہوجاتے ہیں ۔ اگر کوئی کردار جانا پہچانا ہے اور حقیقی زندگی میں اسے جانتے بھی ہیں لیکن روز مرہ کی زندگی میں اس کی شخصیت نمایاں نہیں ہے۔ ایسے میں تخلیق کار اس عمومی کردار کے کسی ایک حقیقی واقعہ کو لیکر اس کے داخل و خار ج کو ہر قاری کے لیے آئینہ کی طرح صاف و شفاف بنا کر پیش کر دیتا ہے ۔ بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے اس کے داخلی اور خارجی زندگی کے راز سر بستہ کو نہاں نہیں بلکہ عیاں کرتا ہے ۔ جبکہ خارجی زندگی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے کیونکہ زندگی کی اہم شرائط میں سے ایک رازدار ی ہے جو ناول نگار اس پردہ کو چاک کردیتا ہے اور جذبات و احساسات کی وسیع دنیا قاری کے لیے تخلیق کردیتا ہے ۔پھرقاری ناول کی دنیا اور حقیقی دنیا کو دیکھتا ہے تو ناول نگار کے کردار تراشی کا قائل ہوجاتا ہے ۔ 

ای ایم فار سٹر(Edward Morgan Forster  ) کے نظریہ کے مطابق ناول نگار کسی بھی کردار کی پیدائش ،غذا ،نیند،محبت اورموت  پر محیط زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ناول حقیقت یا حقیقت نما کو پیش کرنے کا فن کہلاتا ہے ، تخلیق میں صرف ناول کو ہی مختص کرکے کردا ر پر بات کی جائے تو ناول نگار کسی بھی کردار میں وہی پیش کرتا ہے جو ناول نگار کے ذہن میں اسٹور ہوتاہے یعنی وہ اپنی وسیع معلومات و مشاہدات کی دنیا سے ہی چیزوں کو چن کر لاتا ہے اور انہیں کرداروں کے ساتھ منطبق کر کے پیش کردیتا ہے۔ اب زندگی کے ہر ایک عنصر پر بات کر تے ہیں ۔

پیدائش ۔ اس متعلق تخلیق کار سائنسی طور پر معلومات تو رکھتا ہے لیکن تجرباتی طور پر کچھ بھی نہیں جانتا، کیو نکہ یہ اس وقت عمل میں آتا ہے جن کے تجربات ذہن میں محفوظ نہیں ہوتے ۔ اگر کردار میں ماں ہے تو وہ زچگی کی کیفیات کی ترجمانی کرسکتی ہے ، اگر معالج ہے تو وہ زچہ کی کیفیات اور بچہ کی صورت کی ترجمانی کرسکتی ہے ، لیکن تخلیق کار خو د اس عالم رنگ و بومیں آنے کی صورت کو بیان نہیں کرسکتا ہے کیونکہ وہ چیزیں ذہن میں کبھی بھی محفوظ نہیں ہوئی ہیں ۔ اس لیے ہر تخلیق کار ان جذبات کی عکاسی میں ناکام رہتا ہے اور بقول ای ایم فورسٹر ایسے کردار کو پیش کرنے میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے پارسل سے بھیچا گیا ہو ۔  کچھی یہی کیفیات موت کی ہے جس میں ناول نگار ایک ایسی تصوراتی دنیا کی تعمیر کرتا ہے۔

حصول غذا: یہ پیدائش سے موت تک جاری رہتا ہے لیکن ناول نگار کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ کسی بھی کردار کی زندگی کے اس حصہ پر مکمل توجہ دے ۔عمومی زندگی میں جو بات کہی جاتی ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا ہے، اس کی کامیاب عکاسی اردو ناولوں میں بہت ہی زیادہ ملتی ہے ۔ ہزاروں کہانیاں اور سیکڑوں ناول حصول غذا کی جد و جہد پر لکھی گئی ہیں ،جس طر ح سے غذا کے حصول کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں اسی اعتبار سے سیکڑ و ں الگ الگ کردا ر اس موضوع پر سامنے آتے ہیں ۔ 

زندگی کا چوتھا جزو اعظم نیند ہے ، عالم تنہائی میں گزارے اوقات سے بھی زیادہ وقت نیند کا ہوتا ہے۔ نیند میں ہر کوئی ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاںاسے اپنے بارے میں بھی کچھ نہیں پتہ ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی خواب کی صورت میں جن چیزوں سے رو برو ہوتا ہے وہ اس کی سوچ کے مطابق ایک معتد بہ وقفے پر محیط ہوتا ہے لیکن جاگنے کے بعد اس دنیا کے دھندلے نقوش ہی بتا پاتا ہے۔ عالم خواب میں جن مناظر سے گزرتا ہے اس کی عکاسی تو کرسکتا ہے لیکن خواب کی دنیا کے جذبات کی عکاسی سے وہ قاصر رہتا ۔ یعنی وہاں وہ افعال روئیہ کی تشریح کرسکتا ہے لیکن جذبات کی مکمل عکاسی سے عاری ہوگا ۔ نیند کے حصہ کو بیا ن کرنے کے بعد ای ایم فارسٹر کہتے ہیں کہ نیند زندگی کے ایک بڑے حصہ پر محیط ہوتی ہے جس طرح تاریخ اس حصہ کو کبھی پیش نہیں کرتی ہے تو کیا افسانوی ادب بھی وہی رجحان اختیار کرتا ہے یعنی فکشن نگار کیا کسی کی نیند میں گزری ہوئی زندگی کو پیش کر پاتا ہے ۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ ذہن میں چلتا رہتا ہے وہ نیند میں بھی بشکل خواب کچھ نہ کچھ دیکھتا رہتا ہے ۔ کبھی وہ بھی نہ ہوکر ایک اساطیری دنیا میں ہوتا ہے ۔ جس کی عکاسی مشکل ہوتی ہے جبکہ وہ فرد ایک مخصوص جذبات کے ساتہ اس اسطوری دنیا کا مسافر ہوتا ہے ۔ 

محبت یہ ایک ایسا لفظ ہے جو جذبات کے پورے مجموعے کو احاطہ کرتا ہے اور وسیع و بسیط تجربے کی نمائندگی کرتا ہے جس سے ہر انسان گزرتا ہے۔ فکشن کی دنیا کے لیے یہ سب سے اہم عنصر ہے کیونکہ باقی عناصر کا تعلق قابل مشاہدہ عمل سے ہوتا ہے جو تاریخ میں بھی رقم ہوجاتی ہیں لیکن محبت جو تمام جذبات کی نمائندگی کرتا ہے اس کی عکاسی فکشن میں ہی ممکن ہوپاتی ہے ۔ جنسی محبت کی تمام کیفیات، دو ستوں کی محبت ، خدا کی محبت ، وطن کی محبت ،کچھ حاصل کرنے کا دھن ، ثابت کرنے کا جنون ، زندگی جینے میں ہر قسم کی دشواریوں کو برداشت کر خوشی پانے کا جتن الغرض تمام اعمال کے مخفی جذبات کی عکاسی کے لیے ایک کردار کو کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے جن کے لیے تخلیق کار اپنی پوری قوتِ تخلیق صرف کرتا ہے تب جا کر ایک تخلیق نمایاں کردار کے ساتھ اپنی شناخت بنا پاتی ہے ۔ 

موت دنیا میں فلسفیوں نے بہت ہی زیادہ جس حقیقت کو اپنے فلسفے میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے وہ مو ت ہے ۔اس کو سب سے زیادہ مشاہدہ کے تجربہ پر بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں ناول نگار موت طاری ہونے سے زیادہ موت طاری کرنے کے فن سے واقف ہوتا ہے۔ اس میں بھی کر دار کے جذبات کی عکاسی مکمل طور پر ہوتی ہے کبھی کبھی تخلیق کار کردار کو موت کے قریب لے جاتا ہے پھر کہانی میں واپس لا کر نئی کہانی شروع کردیتا ہے ، یہ تو کہانی کی مانگ پر منحصر ہے یہاں اس عنصر کا اصل معاملہ موت کے جذبات کی عکاسی ہے ، جس تجربے سے کوئی بھی نہیں گزرا ہوتا ہے، پھر بھی مشاہدہ کی بنا پر اس کی عکاسی کردی جاتی ہے ۔ ایسا معقول بھی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تمام مخلوقات ارضی موت کے وقت کا مشاہدہ تو کرسکتی ہیںلیکن محسوس نہیں کرسکتی، الغرض پیدا ئش و موت دو نوں کے جذبات کی عکاسی سے تخلیق کار عاجز ہوتا ہے اور مشاہدہ کے عمل سے جذبات کے رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کرتاہے۔ 

مذکورہ بالا عناصر میں ناول نگار کردار کے اخلاق ، عادات و حرکات میں کتنی ہی قطعیت سے کام لے پھر بھی اس کی عکاسی کو افسانوی ماحول میں ذہنی تخلیق اور خیالی دنیا کی اپج ہی کہا جاتا ہے اور وہ کردار فرضی یا حقیقت کا عکس لیے ہوئے ایسا امر ہوجاتا ہے کہ آپ آس پاس میں تلاش کریں تو اس جیسا ملنا محال ہوگا ۔

کردار دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن سے ہم خارجی دنیا میں متعارف ہوتے ہیں لیکن اپنی بصیرت و بصارت سے وہ چیز نہیں دیکھ پاتے ہیں جو تخلیق کار اپنی تخلیق میں نمایا ں کرکے پیش کردیتا ہے ۔ یہ کردار دو طرح سے ہمار ے ذہن میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ غائبین اس کو حقیقت مان لیتے ہیں اور حاضرین اس میں ان خصوصیات کو تلاش کرنے لگتے ہیں جس کا ذکر کردار کی تخلیق میں کیا گیا ہے ۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ قاری کا ذہن ہی بتا سکتا ہے ۔ دوسرے کردار وہ ہوتے ہیں جو خارجی دنیا کے نہیں بلکہ وہ مکمل طور پر تخلیق کا ر کی اپج ہوتے ہیں لیکن اس کی تراش و خراش مکمل طور پر خارجی دنیا کے فرد پر کی جاتی ہے جس کا اثر قاری پر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آس پڑوس میں ویسے کردار کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ، اس میں تلاش عموم بھی ہوتا ہے اور تلاش خصوص بھی ۔تو کردار کی یہ دوسری قسم زیادہ پائیدار ہوتا ہے پہلی سے ۔ کیونکہ یہ وقت کے ساتھ سیال ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خصلت کی وجہ سے ہر عہدمیں وہ کردار سامنے آتے رہتا ہے ، جبکہ معلوم کردار میں فنکار ایک مردہ کردار کو زندہ کردیتا ہے جس کو اپنے وقت کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے ۔

ناولو ں میں کرداروں کو کب پیش کیا جائے اور کب انہیں پلاٹ سے غائب کردیا جائے یہ تو قصہ اورپلاٹ کے تقاضے پر منحصر ہوتا ہے لیکن اکثر  مرکزی کردار شروع سے آخر تک چلتے رہتے ہیں اور انہی کرداروں کے خصائل کی عمدہ پیش کش ہوتی ہے ۔قصہ میںمرکزی کرداروں کو اتارنے میں بہت محنت کر نی پڑتی ہے، ناول کے پلاٹ کو مضبوطی سے تھامنا ہوتا ہے۔ اسی اعتبار سے ان کرداروں کو جب ناول سے خارج کیا جاتا ہے تووہ لمحہ قاری کے ذہن کو پڑھنے کا ہوتا ہے اور فن کے معراج کا بھی ۔ 

جہاں تک حاشیائی کرداروں کی بات ہے وہ اکثر پورے ناول پر نہیں رہتے ہیں بلکہ واقعات کے اعتبار سے آتے ہیں ایک دو جملے میں ان کا تعارف ہوتا ہے اور اپنا عمل کر کے چلے بھی جاتے ہیں ، ان حاشیائی کرداروں میں سے اگر کوئی کردار قاری کو دلچسپ لگ جاتا ہے تو پھر وہ وقفہ وقفہ سے اس کی آمد کا انتظار کرتا رہتا ہے ایسے کردار پلاٹ سے اچانک غائب نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ ثانوی کردار کے اعتبار سے لمبا سفر طے کرتے ہیں۔ کچھ کردار بہت ہی مختصر سے عمل کیے لیے آتے ہیں انہیں ناول نگار قصہ سے خاموشی سے اس طرح غائب کردیتا ہے کہ قاری کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ اس عمل کو عبدالقادر سرو ری نے قصہ نگاری کا کمال قرار دیا ہے ۔ 

اب اس جانب رخ کرتے ہیں کہ ناول کے قاری کیسے کیسے افراد ہوتے ہیں ۔ 

 اول نفس قصہ : جنہیں صرف قصے سے دلچسپی ہوتی ہے وہ قصہ کے نشیب و فراز سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یہ پاپولر لٹریچر والے زیادہ ہوتے ہیں جہاں وہ رومان کے ساتھ بہترین قصے پسند کرتے ہیں ۔

 دوم زبان و اسلوب :ایک طویل عرصہ ناول کے قارئین کا وہ گزرا ہے جو زبان سے زیا دہ دلچسپی رکھتے تھے اور عمدہ زبان و اسلوب کے لیے ناول پڑھا کرتے تھے ۔ اس زمرے میں رزمیہ اور جاسوسی ناول آتے ہیں جن کی اشاعت بہت زیادہ ہوئی ہے اور اب تک ان کے قارئین کی تعداد میں زیادہ کمی نہیں آئی ہے ۔ 

 سوم فلسفہ حیات : یہ متذکرہ بالاسے منفر د ہوتے ہیں ،یہ قصہ اور نہ ہی زبان کے لیے ناول پڑھتے ہیں بلکہ ناول میںبے پناہ فلسفوں کی تلاش اور زند گی کے ہزرا رنگ کو سمجھنے کے لیے ناول سے دلچسپی کرتے ہیں ۔

چہارم : تخلیق کار کا مطالعہ: مذکورہ بالا تینوں زمروں میں ناول نگار اپنے مکمل تجربوں اور علم کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ہر کردار میں اس کی موجودگی محض اتفاقی نہیں بلکہ اکتسابی ہوتی ہے ۔یہ اکتسابی نوعیت آپ کو ہر کردار میں نظر آئے گا جس کے ذریعہ قاری تخلیق کار کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس صورتحال میں قاری حاشیائی کردار کو چھوڑ کر مرکزی کردار کو مجسم پڑھتا ہے اور اس کو اپنے تجربے اور علم میں تولنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں اسے محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے اپنے علم و تجر بے کی بساط پر کس طر ح سے ایک کردار کے مختلف شیڈس کو پیش کیا ہے اور کن جہات سے رو گردانی کی ہے ۔ 

فکشن میں کردار عموماً دو طرح سے سامنے آتے ہیں اول تدریج اور دوم مستقیم ۔ تدریج میں وہ کردار آتے ہیں جو غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ منزل کی جانب بڑھنے لگتے ہیں اگر کوئی کردار بدی کی جانب جارہا ہے تو حیات اصلی کے مطابق وہ چلتا ہی رہتا ہے اور قاری غیر محسوس طریقے سے اس میں سفر کرتا رہتا ہے ، اگر مستقیم ہوتا ہے تو کسی بھی مرکزی کردار میں اچانک تبدیلی رونما ہوجاتی ہے خواہ وہ کسی حادثہ کی ہی بنا پر کیوں نہ ہو قاری اس کردار کو وہیں سمجھ لیتا ہے کہ یہ کردار مرچکا ہے ۔ ناولوں میں پیچیدہ اور سپاٹ کردار دونوں ہوتے ہیں ۔ آج کل عموماً مرکزی کرداروں میں بتدریج زندگی چلتی رہتی ہے جہاں نشیب و فراز کا گزر ہوتا ہے لیکن ثانوی کردار اکثر سپاٹ ہوتے ہیں ،اگر کسی کردار کا داخلہ بدکے مظاہرہ کے ساتھ ہوا ہے تو کچھ دیر ساتھ چلنے کے بعد اس کا اخرا ج بھی اسی کیفیت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہکذا بالعکس ۔ 

کرداروں کے اقسام 

مرکزی کردار

کسی بھی کہانی میں شروع سے لے کر آخر تک ایک کردار ایسا ہوتا ہے جس پر پلاٹ مرکوز ہوتا ہے اور ساری کہانیاں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔  حرکت و عمل سے وہ فعال کردار ادا کررہا ہوتاہے۔ فنی نقطہ نظر سے اُسے مرکزی کردار کہا جاتاہے۔ عموما مرکزی کردار میں زندگی کے کئی رنگوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ مرکزی کردار ناول میں زیادہ دیر تک منظر سے غائب نہیں رہ سکتا ہے ، جو ناول باب وار لکھے جاتے ہیں ان میں بھی ہر باب میں وہ کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتا ہے خواہ اس باب کا مرکزی کردار کوئی او ر ہی ہو ۔

ثانوی کردار

کوئی بھی کہانی صرف ایک فرد کو سامنے رکھ کر نہیں لکھی جاتی اور نہ ہی صرف ایک فرد پر کہانیاں مکمل ہوتی ہیں ، اگر ایسا ہے تو اس کی جزئیات اور تفصیلات مکمل طور پر کھل کر سامنے نہیں آسکتیں۔کردار کا دوسرا اور مکمل رخ دیکھنے کے لیے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ ثانوی کرداروں کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ اکثر ثانوی کردار، مرکزی کرداروں سے تعلق رکھتے ہوئے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جہاں مرکزی کردار کئی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے وہیں پر ثانوی کردار بھی مرکزی کردار سے مختلف نہیں ہوتے بلکہ مرکزی کردار کی معاونت کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔

ذیلی کردار

مرکزی اور ثانوی کرداروں کے ساتھ ذیلی کردار بھی کسی کہانی کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔یہ مرکزی اورثانوی کرداروں کے درمیان نظرآتے ہیں۔ اس قسم کے کرداروں کا عمل ضمنی سا ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی افسانے میں مرکزی اور ثانوی کرداروں کی معاونت کرتے نظر آئیں گے۔ یہ مختصر سے وقت کے لیے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔موقع محل کی مناسبت سے ان کو پیش کیا جاتا ہے جو اپنے وجود کا احساس دلاتے ہوئے کبھی دیر تک اور کبھی وقتی طورپر سامنے آتے ہیں۔ ذیلی کہانی میں ہمیشہ کے لیے نہیں دکھائی دیتے ہیں بلکہ کسی بھی صورت حال میں وقتی طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔

کرداروں کے صفات 

سپاٹ کردار

کسی بھی ناول یا کہانی میں شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسی فطرت رکھنے اور یکساں حرکت کرنے والے کردار کو سپاٹ کردار کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے کرداروں میں انہونی حالات نہیں پائے جاتے۔ ان میں کسی خاص صورت حال میں کسی خاص رد عمل کی بجائے طے شدہ رد عمل کی ہی توقع کی جاتی ہے یعنی ان میں اپنے طور پر خاص رد عمل ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی ہے۔

اکہرے کردار

کسی ناول کا ایسا کردار جس پر صرف ایک ہی رویہ یاطرز عمل کی گہری چھاپ ہو،اکہر ا کردار کہلاتا ہے۔ یہ پوری کہانی میں ایک ہی انداز میں حرکت و عمل کرتے نظر آئیں گے۔ ان سے صرف ایک جیسے رد عمل اور طرز عمل کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ ناول میں کسی خاص طرز فکر، سوچ یا طبقے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔(یہ ذیلی کردار میں ہوتے ہیں ) 

مرکب کردار

ایک سے زائد رویوں اور طرز عمل کے حامل کردار مرکب کردار کہلاتے ہیں۔عام طور پر مرکب کردار بہت کم پائے جاتے ہیں۔ مرکب کردار دو متضاد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی کردار کسی خاص واقعہ میں ایسا طرز عمل پیش کرے جن سے ان کی شخصیت میں تضاد سامنے آتا ہے جبکہ وہ اس طرز عمل کے صفات کا حامل نہیں ہوتا ہے ۔(یہ مرکزی اور ذیلی دونوں میں ہوسکتے ہیں ) 

مجہول کردار

ایسے کردار جو اپنے اعمال و افعال میں کسی قدر جھول رکھتے ہیں اور اس سے دیگر کرداروں کے تاثر میں بھی فرق آنے لگتا ہے ایسے کردار کمزور طرز عمل کی وجہ سے مجہول کردار کہلاتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہوتے ہیں جو کسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے دوران ہی ختم ہوجائیں، ان کا شمار مجہول کرداروں میں کیا جاتا ہے۔(یہ مرکزی اور ثانوی دونوں کردار ہوسکتے ہیں )

محدود یا عارضی کردار

محدود کردار وقتی اور عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جو کہانی میں صورت حال کے مطابق وقتی طور پر  کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ یہ خاص مواقع پر سامنے آتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی ناول میں مخصوص مناظر میں کئی محدود کردار سامنے لائے جاتے ہیں۔

نقلی کردار

جب تخلیق کار کسی خاص گروہ(مذہبی، لسانی، علاقائی،سیاسی) یا فرقہ پرست کا کردار تخلیق کرتاہے تو اس کا انداز متعصبانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ تعصبانہ رویے کی وجہ سے کردار زندگی کی حقیقت سے دور رہ جاتا ہے اور ایسا کردار نقلی کردار کہلاتا ہے۔ (مرکزی ؍ذیلی)

پیچیدہ کردار

پیچیدہ شخصیت کے حامل اور نہ سمجھ آنے والی باطنی کیفیات کے حامل کردار پیچیدہ کردار کہلاتے ہیں۔ایسے کرداروں کی سوچ، فکر، طرز عمل اور حرکات وسکنات کسی نہ کسی نفسیاتی پیچیدگی کی مرہون منت ہوتی ہیں، وہ کردار قاری کی پکڑمیں جلدی نہیں آتے ہیں ۔(مرکزی ؍ثانوی)

مزاحیہ کردار

کسی بھی افسانے، قصے کہانی میں ہنسنے ہنسانے والے کردار مزاحیہ کردار کہلاتے ہیں۔ یہ عام طور پر دل بہلانے کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح کے کردار ہنسی مذاق سے کسی بھی فن پارے میں مزاح کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔(مرکزی ؍ثانوی)

اخلا قی و اصلاحی کردار

اس طرح کے کردار مقصدیت کے تابع ہوتے ہیں اور تخلیق کا ر ان کے ذریعے اچھائی و برائی کے اصلاحی پہلوؤں کو قارئین کے سامنے لاتاہے۔ مولوی نذیر احمدکے مشہور کردار نصوح اور ابن الوقت اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ (مرکزی)

رومانوی کردار، تخلیقی کردار

ایسے کردار ناول کی مجموعی فضا اور واقعاتی اتار چڑھاؤ کے مطابق ہی ہوتے ہیں مگر ان میں تخیلاتی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ایسے کردار جذباتیت کا شکار ہوتے ہیں۔ حسن و عشق کے معاملات کوہی دنیاوی زندگی کا حاصل اور مقصد سمجھتے ہیں۔(مرکزی )

صنفی کردار

خالق نے انسانوںکو بلحاظ صنف جوڑے کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ مرد اور عورت اس کے دو روپ ہیں۔بلحاظ صنف اور جنس اگر درجہ بندی کی جائے تو ہمیں مردانہ اور نسوانی کردار کسی بھی ناول میں ملتے ہیں۔ جس طرح کسی ناول کامرکزی کردار بے شمار خوبیوں کا حامل ہوتا ہے اور جدوجہد  سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح نسوانی کرداروں میں بھی ان خوبیوں کا پایا جانا اشد ضروری ہوتاہے۔(مرکزی ؍ثانوی )

باغی کردار

برصغیر کی سماجی اور معاشرتی زندگی پر کئی طرح کے نظام حاوی رہے ہیں ،نیز مختلف مذاہب کی تقسیم، ذات، پات، نسل خاندان اور طبقاتی امتیازات نے پوری طرح اس معاشرے کو اپنی جکڑ میں لے رکھا تھا ۔ ان حالات میں اردو افسانے کی ابتداء و ارتقاہوئی تو معاشرے میں مذہبی، سیاسی، لسانی اور سماجی بغاوت ایک فطری امر اور جذبہ تھا جسکی گہری چھاپ ہمیں اردو ناول میں بھی ملتی ہے۔ اردو ناول میں بہت سے ایسے کردا ر ہمیں نظر آتے ہیں جنہوں نے معاشرے کے بالادست طبقے سے بغاوت کیا اور باغی کہلائے۔ان کردار وں کا ظہور ہنوز جاری ہے جو کئی طرح کی سماجی اور معاشی جکڑ بندیوں کو توڑ کر سامنے آتے ہیں ، ایسے باغی کردار کے حامل کہانیاں مقبول بھی ہوتی ہیں یہ صنفی امتیاز سے الگ ہوتے ہیں ۔(مرکزی ؍ثانوی )

Thursday 8 December 2022

رباعیات رباب رشیدی

  نام کتاب رباعیات 

نام شاعر رباب رشیدی ( سلمان احمد )

سن اشاعت ۲۰۲۰

صفحات ۲۲۴

 قیمت ۳۰۰ روپے

ملنے کا پتہ رباب رشیدی ، ۱۲۶ ؍تازی خانہ ، امین آباد، لکھنؤ، یوپی ۔۲۶۶۰۱۸

 اردو کے ادبی حلقوں کے لیے رباب رشیدی کوئی نیا نام نہیں ہے ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابر سفید ‘‘ ۱۹۸۴میں شائع ہوا ، اس کے بعد حمد و نعت کے مجموعے بھی منظر عام پر آتے رہے ۔ لیکن وہ خود ہی اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ شروع سے ہی غیر محسوس طور پررباعی سے منسلک رہے لیکن کبھی اس جانب تو جہ نہیں کی اس لیے رباعیاں منتشر تھیں ۔ اب جاکر انہوں نے رباعیاں جمع کیں اور سادگی کے ساتھ ’’رباعیات ‘‘ کے نام سے شائع بھی کیں ۔ اکیسویں صدی کے اِن دو دہوں کی بات کی جائے تو رباعی گوئی کا رجحان بڑھا ہے اور ساتھ ہی رباعیات کے مجموعے شائع کرانے کا بھی ۔ ایسے میں رباعی کے متعلق یہ خوبصورت فضا بھی تیار ہوئی کہ اب رباعی اردو کے ادبی ماحول میں اجنبی صنف سخن کے طور پر نہیں جانی جاتی ہے اور نہ ہی قدیم ذیلی اصناف میں اس کوگردانا جاتا ہے بلکہ موجودہ وقت کی بات کی جائے تو ہر ادبی شہر میں اردو رباعی گو شعرا مل جائیں گے ۔ رباب رشیدی صاحب کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور لکھنوکی ادبی و شعری روایت سے کون واقف نہیں ۔رباعی کی عمدہ روایت لکھنؤ سے منسوب ہے ، رباعی کے بڑے بڑے شعرا لکھنؤ سے وابستہ رہے ہیں اسی روایت کے علَم کو رباب رشیدی سنبھالے ہوئے ہیں ۔ 

 ان کے پیش لفظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے رباعیات کو زیادہ سنجیدگی سے لیا بھی ہے اور نہیں بھی ،رباعیوں کی اہمیت ان کے یہاں بایں طور پر نظر آتی ہے کہ اپنے پہلے شعر ی مجموعہ ’’ ابر سفید ‘‘ کا دیباچہ انہوں نے رباعی میں لکھا ۔جس سے رباعی کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔ رباعیات میں دیباچہ لکھنا فاروقی کی اتباع میں ہے ،یہ کتاب بھی وہ فاروقی کو ہی معنون کرتے ہیں ، فاروقی نے جس طرح اپنے پہلے شعر ی مجموعہ کا دیبا چہ دو رباعیوں میں لکھا ہے ان ہی کی اتباع رباب رشیدی بھی کرتے ہیں لیکن صرف دو رباعیوں سے نہیں بلکہ اٹھارہ رباعیوں سے ۔ اس کے بعد انہوں نے رباعی گوئی کی جانب زیادہ دلچسپی نہیں لی ۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رباعی گوشعرا میں ان کا نام بہت ہی کم رقم ہوتا ہے ۔لیکن اس مجموعے سے ماضی کا خلا پن دور ہوکر اردو رباعی کی دنیا میں ایک نئی آواز بھی سنائی دے گی ۔ رباعی کی یہ آوازروایتی آواز سے بہت ہی زیادہ مختلف نظر آتی ہے ۔اس مجموعے میں کل چار سو چالیس رباعیاں ہیں ۔ ساری رباعیاں ایک ترتیب سے ہیں ۔عموما رباعیوں کو عناوین کے تحت ذکر کیا جاتا ہے لیکن شروع کی آٹھ رباعیاں بغیر کسی عنوان کے حمد ونعت اور دعا جیسے مضامین کی حامل ہیں ۔ اس کے بعد شہر آشوب کا عنوان درج ہے جس کے بعد پورے مجموعے کی رباعیاں ہیں جن کی تعداد ۴۳۲ہیں ۔ ایسے میں ہم یہی سمجھیں کہ جو شہرآشوب قصائد میں ہوا کرتا تھا وہ ان کی رباعیوں میں پایا جاتا ہے ۔ لیکن جب موضوعات کی جانب توجہ دیتے ہیںتو تنہائی، حوصلہ، موجودہ حالات ، قیادت ، شہر لکھنؤ ،تہذیب ، فطرت ، رواداری ، مروت ، حدسے تجاوز کے بعد کی کیفیت ، نغمہ، یاد ماضی، دباؤ، حالات ، تلاشِ ذات ، لاچاری، امنگ ، تمناؤں کا ٹوٹنا، روانی و دیگر موضوعات کی حامل رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان موضوعات کو بغور دیکھیں تو یقینا انہوں نے شہرآشوب ہی رقم کیے ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں اصلاح ہے اور نہ صوفیانہ فلسفے کی چھاپ بلکہ موجودہ وقت کی شاعری کی چھاپ مکمل طور پر نظرآتی ہے ۔ ہر صفحہ میںانہوں نے دو رباعیوں کو رکھا ہے ۔ رباعیاں یا تو دو سطروں میں لکھی جاتی ہیں یا چار سطروں میں ، لیکن ان کی رباعیاں دو اشعار کی صورت میں پانچ سطروں میں ہیں جن میں بیچ کی سطراشعار میں فاصلہ کے لیے ہے ۔ اس طریقے سے رباعی لکھنے کا طریقہ پہلی مرتبہ اسی کتاب میں نظرآتا ہے ۔ رباعی کے لیے یہ بات اہم ہوتی ہے کہ اس کے چاروں مصرعے دو دو مصرعے کا شعر بن کر نہ رہ جائے بلکہ چاروں ایک اکائی صورت میں آپس میں مر بوط ہوں ایسے میں مشاہدہ بھی رہا ہے کہ غزل کے شعرا جب رباعیاں رقم کرتے ہیں توان کی رباعیوں میں غزل کے اشعار کی سی کیفیت پائی جاتی ہے جو رباعی میں فنی سقم کی کیفیت کو لاتا ہے ۔ الغرض رباعیاں کہنا اگرچہ مشکل فن ہے ساتھ ہی رباعی کے مزاج کے ساتھ رباعیاں کہنا اوربھی مشکل فن ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اردو میں رباعی گو شاعر انگلیوں پر گنے جاتے ہیں ۔ اب اس مجموعے سے ادبی حلقوں میں رباب رشیدی کا رباعی گو شاعر ہونا کتنا مؤثر ثابت ہوتا ہے وہ ناقدین کی تحریروں اور عمومی مقبولیت سے بھی ثابت ہوگا ۔ ان کی ایک عمدہ رباعی ملاحظہ ہو: 

 کچھ یوں ہی نہیں ہے کج کلاہی اپنی 

صد شکر روش ہے خانقاہی اپنی 

سچ بات ہے لیکن وہ برا مانیں گے 

منظر سے بڑی ہے خوش نگاہی اپنی 

 امیر حمزہ 

مدرسہ محلہ نوادہ ، ہزاری باغ ،جھارکھنڈ


متین اچل پوری کا ماحولیاتی ادب

 

متین اچل پوری کا ماحولیاتی ادب 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

 مدرسہ محلہ ،نوادہ ، ہزاریباغ ، جھارکھنڈ


ادب اطفال ادب کا ایک ایسا گوشہ ہے جس کے خدمتگار بہت ہی خاموشی سے نئی نسل کے لیے بہترین اور عمدہ ادب تخلیق کر تے ہیں اور اکثر گوشہ نشیں بھی رہتے ہیں انہیں میں سے ایک متین اچل پوری تھے جنہوں نے عمدہ بچوں کے لیے عمدہ ادب یاد گار چھوڑا ہے ۔ گزشتہ چار دہائیوں میں انہوں نے ایک متوازن رفتار میں بچوں کے لیے کئی کتابیں تحریر کیں اور سنجیدہ مصنفین میں اپنا نام شمار کروایا ۔ آپ کا نام محمد متین تھا 18 جنوری 1950 کواچل پور ضلع امراؤتی مہاراشٹر میں پیدا ہوئے ۔ وہیں ایم اے اور بی ایڈ تک کی تعلیم سنت گاڈگے بابا یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ شروع میں پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھایا پھر 1990 میں سرکاری اسکول وابستہ ہوئے اور 2007 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔گزشتہ دو برسوں سے طبیعت میں نشیب و فراز جاری تھا کہ 17 اکتوبر 2022 کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ 

زمانہ طالب علمی (1970)سے ہی ادب کی جانب مائل ہوگئے تھے شروع میں شاعری میں قلم آزمایا پھر جلدہی ادب اطفال کی جانب مائل ہوگئے اور تاعمر اسی میں جیتے رہے ۔ متین اچل پور چونکہ ایک مدرس تھے اور ادیبِ اطفال بھی تھے اس لیے انہوں نے بچوں کی نفسیات کو بخوبی سمجھا اورا پنی تحریروں میں برتا بھی ۔ انہوں نے بچوں کے لیے جدید موضوعات پر مبنی نظمیں تحریر کیں ساتھ ہی نثر میں کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ۔وہ اپنی عمدہ خدمات کے لیے کئی مرتبہ اعزاز ات سے نوازے بھی گئے ۔ صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے بہترین استاد ایوار ڈ 1990 میں ہی حاصل کیا اس کے علاوہ ملکی و صوبائی سطح پر دیگر 7 اعزازات و انعامات سے بھی نوازے گئے ۔ ان کے شائع شدہ تصانیف کی تعداد 16 ہیں ۔ جبکہ زیر طبع کتب کی تعداد 10 ہیں ۔ ان کی یہ قیمتی کتابیں اردو ادب میں انہیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں لیکن اس بھی بڑا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ مہاراشٹرا و تلنگانہ کی درسی کتب میں ان کی نظمیں شامل ہیں ۔ ادب میں ان کے خدمات شش جہات ہیں لیکن یہاں صرف ماحول کے مو ضوع پر لکھی گئی نظموں سے گفتگوہے ۔ 

 ہماری نظر میں ماحول اور ماحولیات دو شاخ نہیں بلکہ باضابطہ الگ الگ چیزیں ہیں جس کو ہم منطق کی اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں کہ دونوں میں تباین کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہم نے دو شاخ صرف ڈاکٹر مولا بخش کی موافقت میں لکھ دی ہیں بلکہ ان کے یہاں اس لفظ ماحولیات میں اتنی وسعت ہے کہ اس کے دائرے میں ماحول، فضا، منظر ، فطرت ، ثقافت ، رہن سہن کے طور طریقے، مقامیت اور دیہی جمالیات بھی آجاتے ہیں ۔پروفیسر عتیق اللہ صاحب نے اس کو بہت ہی جامع و مانع انداز میں پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’حیاتیات کی وہ شاخ جس کے تحت اجسام نامیہ کے ایک دوسرے سے تعلق کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ‘‘  اس کی تعریف ہم اپنے الفاظ میں کچھ اس انداز میں کر سکتے ہیں کہ ماحولیات وہ نامیاتی عناصر ہے جن کا تعلق ہمارے حواسہ ٔ خمسۂ ظاہر ہ سے ہے۔ جس میں ماحول و مناظر سے نہیں بلکہ ان میں کثافت کی وجوہات ، اس کے نقصانا ت اور اس کے بچاؤ کی تدابیر پر بات کر تے ہیں ۔ ماحولیات پر تنقید کے نام سے چند مضامین لکھے جاچکے ہیں لیکن ماحولیاتی ادب کا اردو میں ابھی تک کوئی خاص ذکر نہیں ملتا ۔ پوری دنیا جن وجوہات سے تباہی کے دہا نے پر کھڑی ہے، ہزاروں بیداری ریلیاں نکالی جاتی ہیں ،لاکھوں کی تعداد میں پمفلیٹ چھپتے ہیں، اربوں روپے اشتہارات میں خرچ ہوتے ہیں لیکن ان موضوعات کو لیکر ادب کا دامن خالی نظر آتا ہے چہ جائے کہ ادب اطفال کی بات کی جائے ۔

 ادب اطفال میں ابتداء ہی سے منظر نگاری اور فطری چیزوں کو پیش کر نے کا رجحان زیادہ رہا ہے ۔ اس میں وہاں سو رج کی بات کی جاتی ہے تو چندا ماما بھی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں ۔ سردی،گرمی ، برسات سے جیسے مضامین سے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں تو وہیں پرندے اور جانور بھی ان کے مخصوص اور  دلچسپی کے سامان ہوتے ہیں ۔ سائنس کی دنیا سے دلچسپی پیدا کر نے کے لیے سائنسی مضامین کو دلچسپ انداز میں پیش کیے جانے لگا ہے جس کے تحت جنرل نالج بھی اس میں شامل ہے ۔ ان سب میں ماحول کاعنصر تو نمایاں نظر آتا ہے لیکن اب لامتناہی وسائل نے جس طرح سے فطرت اور حیوانی زندگی کو متاثر کیا ہے اس پر لکھنے والے کم ملتے ہیں۔ صرف اتنا لکھ دیا جاتا ہے کہ ہزاروں سا ل پہلے سب سے بڑا جانور ڈائنا سور پایا جاتا تھا جس کی مختلف خصوصیات کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے ۔ یا یوں کے کسی زمانے میں ہمارے شہر کے چاروں طرف خوبصورت باغات اور جنگلات ہوا کر تے تھے جہاں ہمارے راجہ یا بادشاہ آرام کیا کرتے تھے اور شکار بھی کھیلتے تھے ۔ اٹھلاتی ہوئی اوربل کھاتی ہوئی ندیاں بھی بہتی تھیں ، جن میں مچھلیاں مچلتی رہتی تھی ، شہر کے لوگ مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسی کہانیاں تو خوب پڑھنے کو ملیں گی لیکن ان کے ختم ہونے سے ہماری زندگی میں کیا اثر ہوا یسی کہانیاں آپ کو پڑھنے کو نہیں ملیں گی ۔ اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے متین اچل پور ی ایک رہنما کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے بچوں کے لیے ماحولیات پر ’’ ہم ماحول کے رکھوالے ‘‘ اور ’’ ماحول نامہ ‘‘ جیسی کتابیں لکھیں جن میں انہوں نے بچوں کی قدرت سے محبت اور کثافت و آلودگی سے دور رہنے کے لیے کئی نظمیں لکھیں ہیں ۔ درخت کی کہانی ، جنگل کی کہانی ، باغ کی کہانی جیسے عنوانا ت بہت ملیں گے لیکن شجر کاری جیسے موضوعات پر نظمیں لکھنے کو ایوینٹ کی شاعری کہہ دیاجاتا ہے جو وقتی تناظر میں آتا ہے اور پھر منظر سے غائب ہوجاتا ہے ۔ایسے میں میر تقی میر کی ’’ مرغوں کی لڑائی‘‘ اور نظیر اکبرآبادی کی ’’ پودنے گڑھ پنکھ کی لڑائی ‘‘ کو کیا کہیں گے جو موضوعاتی طور پر وقت کے ساتھ متر وک، جس کی کمنٹری ا ور اصطلاحات بھی اب ہندوستان سے معدوم ہوچکے ہیں ۔ الغرض نئے نئے موضوعات سامنے آتے رہتے ہیں اور فن کار اپنی فن کاری سے ان موضوعات کو بچوں کے سامنے پیش کر تا ہے۔ ’ درخت راہوں کے ‘ نظم کا ایک شعر آپ کو بھی سوچنے کو مجبور کر دے گا کہ اس میں کہیں بھی وقتی تناظر نہیں ہے بلکہ ایک ابد ی و ازلی پیغام نظر آتا ہے ۔

 یہ سیکھو سائے میں ان کے رہ کر 

کہ چھاؤ ںدینا ہے دھوپ سہہ کر 

لفظ ’’ سہ کر ‘‘ سے یہا ں بہت سی مشکلات کی جانب اشارہ ہوسکتا ہے، مثلا ہمیں مشکلات کو سہہ کر اس عالمی گاؤ ں کو چھاؤں دینا ہے جہاں ہوا بھی اچھی اور فضا بھی بہتر ہو، جس کے سائے سے شہر کو گرم بھٹی ہونے سے بچایا جائے یعنی مستقبل کی چھاؤں کے لیے ابھی ہمیں بہت کچھ سہنا ہوگا۔

بچوں کے نصابات میں جب سے سائنس آئی ہے تب سے سائنسی ادب کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے جس کی وقت حاضر میں کئی حضرات نمائندگی بھی کر رہے ہیں جن میں اہم نام محمد خلیل کا ہے ۔ماہنامہ سائنس بچوں میں سائنسی شعور و دلچسپی پیدا کرنے کے لیے امیرا نہ کرادار ادا کر رہا ہے۔ اس میگزین میں شمسی، آبی اور فضائی توانائی سے متعلق لکھا جاتا ہے اور اس کے فوائد بھی بچوں کے لیے دلچسپی کے باعث بنتے ہیں لیکن متین اچل پور ی نے اس کو اپنی کئی نظموں میں پیش کیا ہے جیسے ’ سورج کی توانا ئی‘،’آگ کا سفر‘ ،’ انمول آبی گھر‘اور ’’ پھرکی اور پون چکی ‘‘ وغیرہ۔ سورج کی توانائی میں انہوں نے سولر جہاز کا خصوصی طور سے ذکر کیا ہے ۔ اس سے بچوں کے ذہن میں کئی معلوماتی سوال ابھر تے ہیں مثلاً سولر اسے کیوں کہتے ہیں ؟کو ن سا جہاز اس سے چلتا ہے؟ اس کے بعد بچوں کے اندر معصومانہ سوال ابھر تا ہے کہ جہاز تو اڑتا ہے تو یہ دوسرا جہاز ہوگا ، پھر بلا واسطہ سورج سے کیسے چلے گا وغیرہ وغیرہ ۔ ان ابھر تے سوالات سے بچوں کے تخیل کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے ۔ اسی طریقہ سے ’’آگ کا سفر ‘‘ ہے جس میں چنگاری ، آگ ، لکڑی، کوئلہ ، مٹی کا تیل اور اب رسوئی گیس لیکن ان سب کے لیے ہمیں کہیں نہ کہیں معدنیات کا سہارا لینا پڑرہا تھا تو مصنف مکمل طور پر معدنیات اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ’’شمسی چولہا ‘‘ کو بچوں سے متعارف کر واتے ہیں ۔ اس نظم سے دو شعر ملاحظہ ہو :

جب بڑھی آبادی یہ عالم ہوا 

ہر توانائی کا ذریعہ کم ہوا

بنتے بنتے بن گیا ہے آج کل 

شمسی چولھا آگ کا نعم البدل

اس کے بعد فضائی توانائی پر ’’ پھر کی اور پون چکی ‘‘ بھی ہے جس میں بچوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ بجلی جیسی توانا ئی کو ہم جس طر ح سورج اور پانی سے حاصل کرتے ہیں اسی طر ح بجلی کو ہم ہوا سے بھی حاصل کر سکتے ہیں جس کا استعمال بہت ہی مفید ہے اور صاف ستھری فضا کی تشکیل میں ہمارے لیے بہت ہی معاون ہے ، کیونکہ ہم جب ماحولیات کی بات کر تے ہیں تو سب سے پہلے ایندھن کی بات ہوتی ہے جس پر متین اچل پوری نے بچوں کے لیے خوبصورت نظمیں لکھیں ۔ اس نظم سے تین شعر :

کھیل تھا صبح و شام کاغذکا 

لے کے لوہا مقام کاغذکا 

خوب اونچا اٹھا ہے شان کے ساتھ

باتیں کر تا ہے آسمان کے ساتھ

کیا ہوا کے تھپیڑے سہتی ہے 

بجلی تیار کر تی رہتی ہے 

ہم جب ادب اطفال میں موضوعات کی بات کر تے ہیں تو اس میں دنیا کے تمام موضوعات نہیں سما سکتے ، بچوں کا ذہن کلچر، زبان ، تہذیب اور معاشرتی گفتگو کا متمنی نہیں ہوتا، وہ خانگی رشتے پر کہانیا ں سننا نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ مسائل پر توجہ دیتے ہیں بلکہ ظرافت و مسکراہٹ ان کی فطرت میں ہے جس  سے وہ مر حلہ وار کسی بھی چیز میں دلچسپی لیتے ہیں ۔وہ ہمارے ماحولیاتی مسائل پر کچھ بھی نہیں پڑھنا چاہیں گے۔ البتہ ان کو معلوماتی اور ماحولیاتی مسائل کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی پسند ہے ان کو یہ پسند ہے کہ جنگل کے فوائد کیا ہیں یہ نہیں پسند کہ جنگلوں کو برباد کر نے میں ہماری پالیسی کا کتنا دخل ہے ۔ انہیں بہتی ، جھومتی اور اٹھلاتی ندیوں پر نظمیں اور کہانیاں پسند ہیں نا کہ ان کے سوکھنے کی وجوہات پر ۔ پانی پر ہمارے یہاں بہت ہی زیادہ سلوگن بنائے گئے ہیں۔  بڑے بڑے سائن بورڈ جو شہر کی شان ہوتے ہیں اس میں آبی تحفظ پر شہر اپنی باطنی کہانی کو پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ ان بورڈ  پر بچوں کی نظر پڑتی ہے اور بڑوں کی بھی ،سب کو سلوگن بھی یا د ہوجاتے ہیں لیکن ذہن میں اتارنے کا کام توادب کرتا ہے جس پر متین اچل پور ی کی نظر پڑی اور انہوں نے آبی تحفظ کو خصوصی طور پر اپنی نظموں میں پیش کیا ۔اس سلسلے میں ان کی ایک انمول نظم ’’انمول آبی گھر ‘‘گلیشئر سے متعلق بچوں کو سوچنے پر مجبور کر نے والی خوبصورت نظم ہے جس میں بچوں کو بنیادی طو ر پر تین باتیں بتائی گئی ہیں کہ یہ گلیشیر (آبی ذخائر) کیا ہوتے ہیں ، اس کے فوائد انسانی زندگی کے لیے کیا ہیں اور اب ایندھن کے بے جا استعمال سے ان گلیشئر کے پگھلنے سے نقصانات ہیں ۔ وہ نظم میں پیش کر تے :

 دنیا کی تپش کے بڑھنے سے

تیزی سے یہ پارہ چڑھنے سے 

یہ بر ف کی ویرانے پگھلیں

بڑھتی ہے سمندر کی سطحیں

پر بت یہ روا ں ہوجانے سے

پانی کا زیاں ہوجانے سے 

سیلاب نرالے آتے ہیں

خوشیوں کو بہا لے جاتے ہیں

پانی کو سنبھالے رکھنا ہے

راہوں میں اجالے رکھنا ہے

اس کے بعد ’’پانی کی فریاد ‘‘ ایک اثر انداز اور پر سوز نظم ہے جس میں پانی کو ہی ایک کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔اس میں پانی بچوں سے ہی اپنے تحفظ کے لیے سوال کرتا ہے ، اپنے اوپر بیت رہی مصیبتوں کو بتا تا ہے ، جابر و ظالم کی نشاندہی کر تا ہے ، اپنی پرانی خصوصیات و کیفیات کو بتاتا ہے اور آخر میں التجابھی کرتا ہے کہ خدا کی مخلوق پر رحم کر و ورنہ آسمان والا خفا ہو جائے گا ۔اس نظم کا پہلا بند ملا حظہ فرمائیں : 

اب اپنے ماحول کو بچانے ، قدم اٹھاؤ قلم اٹھا ؤ

یہ ہم سے گھبراکے بولا پانی ، مجھے بچاؤ، مجھے بچاؤ

دھواں اگلتے یہ کارخانے 

کثافتوں کی یہ حکمرانی 

میں دق زدہ اک مر یض جیسا

ہوئی ہے دشوار زندگانی 

اس طریقے سے ’’ساگر کی حیرانی‘‘ نظم بھی ہے جس میں سمندر کی کثافت کو پیش کیا گیا ہے ۔ جس میں سمندرمیں بسنے والی پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے ۔ ہم انسانوں نے سمندر کو تو مسخر کر لیا لیکن اس سے اس پوری آبی کائنات کو خطر ہ لاحق ہوگیا ہے جس کو خدا نے ہمارے لیے بنا یا ہے ۔ہم اس میں شہر جتنے بڑے بڑے جہاز اتار دیتے ہیں جس سے آبی دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ اگر اس میںکچھ ناگہانی حادثہ ہوجائے تو جو کاربن ڈائی اکسائڈ ہمارے لیے زہر ہوتا ہے وہی تیل کی شکل میں اس دنیا کو تباہ کر دیتا ہے چنانچہ متین اچل پوری لکھتے ہیں :

پانی پر ہے تیل یہ کیسا 

انسانوںکاکھیل یہ کیسا 

ساحل کی سب گہما گہمی 

کچھ دن سے ہے سہمی سہمی 

خطرہ لاحق انسانوں کو 

سارے آبی حیوانوں کو 

خطرے میں ساحل کی زمین ہے 

چڑیوں کو بھی چین نہیں ہے 

آبی تحفظ کی جانب راغب کر نے والی ان کی ایک نظم ’’پانی بچاؤ‘‘ ہے ۔ اس میں وہ بہت ہی فن کاری سے ہر طبقہ کے بچوں کو شامل کر لیتے ہیں کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رئیس بچوں کے ذہن میں مالی فراوانی کی وجہ کسی چیز کی کمی نہ ہونا ان کے لیے آسان ہوتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ خدا کی جانب سے انمول نعمت ہے اور اس نعمت کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی ہے ۔ جس طرح سے صاف ہوا سب کے لیے برابر ہے اسی طریقے سے پانی بھی سب کے لیے یکساں ہے ۔بچوں کی ہی زبانی وہ کہتے ہیں :

چاہے کچن ہو یا کارخانہ 

ہوٹل ہو چاہے بھٹیار خانہ 

نیچا ہو چاہے اونچا گھرانہ 

کپڑے ہو دھونا چاہے نہاؤ

پانی بچاؤ ، پانی بچاؤ

  یہ وہ موضوعات تھے جن کے لیے دنیا پریشان ہے ۔ متین اچل پوری نے ان موضوعات کے علاوہ ماحولیات سے متعلق کئی اہم مضمون بچوں کے لیے بچوں کی سہل زبان میں بغیر کسی فکر و فلسفہ کے پیش کیے ہیں ۔ جیسے جب سر مایہ داری ختم ہوئی اور زمیندار طبقہ زمینداری کی فضا سے نکل کرشہر وں میں قدم رکھنے لگا ،گاؤں اور قصبات کی کوٹھیاں شہر کے فلیٹوں میں تبدیل ہوگئی، آنگن سے دور دور تک کا نظارہ صرف بالکنی کے نظاروں میں محصور ہوکر رہ گیا اور اجناس دینے والا ہاتھ لینے والا بن گیا۔ اس قسم کی بات ’’ نیاماحول نامہ‘‘میں متین اچل پوری کر تے ہیں جس کا پہلا بند کچھ اس طر ح ہے : 

گملوں سے اب کام چلا نا ہے یارو

آنگن کو گلزار بنانا ہے یارو

آنگن کا بٹوارہ ہوا تو کیاغم ہے 

دوبارہ ،سہ بارہ ہوا تو کیا غم ہے 

اب رشتوں کا مول بڑھانا ہے یارو

آنگن کو گلزاربنانا ہے یاروں 

اس نظم میں غزل کا المیہ پن نہیں ہے بلکہ بچوں میںہلکی سی فکر کے بعد نئے ماحول میں جینے کے لیے حوصلہ ہے ۔الغر ض اس طر ح کی کئی نظمیں ہیں جن میں وہ بچوں کو نئے در پیش ماحو ل میں ماحول ساز بچہ بننے کا سبق دیتے ہیں ۔ ایسی نظمیں ضرور لکھی جاتی ہوں گی، ہر زبان میں ہوتی ہوں گی لیکن اردو جس نے قدم سے قدم ملا کر چلنا سیکھنا ہے جہاں اس نے ادب عالیہ میں عالمی زبانوں میں اپنی اعلی شناخت میر ، غالب ، اقبال ،پریم چند، منٹو، عصمت اور قرۃ العین حید ر سے بنائی وہیں ہمارے ادب اطفال کے ادیبوں کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ گاہے بگاہے عالمی مسائل سے بچوں کو آگاہ کر اتے رہیں ، جہاں ہم اخلاقیات میں ان سے ہرہئیت و لہجہ میں مخاطب ہوتے ہیں وہیں زندگی کے بنیادی وسائل میں صر ف سائنس تک ہی محدو د ہونا کافی نہیں ہے بلکہ متین اچل پوری نے جس جانب قدم اٹھا یاہے اس جانب نثر ی تحریروں میں بھی ادیبوں کو آگے آنا ہوگا تاکہ جس تبدیلی کے ہم خواہشمند ہیں وہ تبدیلی جلد از جلد آسکے ۔

اس کے علاوہ ان کی دو کتابیں اور ہیں جن کا تعلق ما حول سے ہے ۔ ایک ’’ماحول کی خوشبو ‘‘ اور دوسری ’’ ماحول نا مہ ‘‘ لیکن یہ دونوں کتابیں ’’ ہم ماحول کے رکھوالے ‘‘ سے مختلف ہیں ۔ ’’ ماحول نا مہ ‘‘ بیاسی صفحات پر مشتمل ہے جس میں اڑتیس نظمیں ہیں ۔ان نظموں میں رنگینی اور بوقلمونی نظر آتی ہے۔ جہاں فطرت کی عکاسی ہے وہیں دیگر اخلاقی باتیں بھی ہیں۔ ساتھ ہی کچھ ایسی نظمیں ہیں جن سے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی دعوت ملتی ہے اور انسانوں کو سبق عبر ت بھی دیتی ہے کہ گئے دنوں کو یاد کریں جب ہم ماحول کے لیے ظالم و جابر نہیں بنے تھے ۔ اس کتاب میں ان کی ایک نظم ’’ اپنا ماحول اپنی جنت ‘‘ میں صاف لفظوں میں یہی پیغام ہے کہ ہماری جنت ہمارا ماحول ہے ۔ ہم ماحول کے تحفظ کی بات کریں گے تو اپنی جنت ارضی کے تحفظ کی بات کریںگے ۔ اس نظم کا ایک شعربہت ہی معنی خیز ہے : 

کریں ہم بے زبانوں سے محبت 

 پرندوں کے ٹھکانوں سے محبت 

اس شعر کا آخری مصرع تحفظِ ماحولیات کے ایک بڑ ے حصہ کو اپنے دائرے میں لے رہا ہے ۔ پرندوں کی کئی نسلیں اگرچہ جنگلوں میں رہتی ہیں تاہم آبادی میںرہنے والے پرندے بہت ہی کم ہوتے جارہے ہیں۔ جو پرندے ہمار گھر کے آنگن کے پیڑ میں گھونسلے بنا کر رہتے تھے  انہیں اب پنجر وں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جس سے سائنسی طور بہت ہی نقصان ہو ا کہ وہ پرندے جو حشرات الارض کو ہماری فضاسے دور کرتے تھے اب ہم نے ان ہی پرندوں کو خود سے دور کردیا ہے جس کا سبق متین اچل پور ی بچوں کو ادب کے ذریعے پیش کر رہے ہیں ۔ 

بچوں کے لیے نئے موضوعات کی کمی بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ دنیا میں جتنی بھی چیزیں وقو ع پذیر ہورہی ہیں خواہ وہ فطری ہوں یا غیر فطری ، ایجادات ہوں یا نئے مقامات کی سیر ۔یہ وہ سارے موضوعات ہیں جن سے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ انہیں میں سے سائنس سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ایک اہم موضوع ’اوزون‘ ہے جس پر مصنف کی ایک نظم ’’ ہوا ، اوزون اور زمین ‘‘ ہے ۔کسی بھی ایک نظم سے بچے مکمل طور پر اوزون سے واقف نہیں ہوسکتے لیکن تین اشیا( تعریف اچھائی اور برائی) کا اظہار شاعر ضرور کردیتا ہے جن کو بچوں کی نظموں میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اس نظم میں بھی تعریف اور اچھائیوں کا ذکر ہے ساتھ ہی بیداری بھی ہے جنہیں ان تین اشعار میں محسوس کر سکتے ہیں ۔

تہوں سے لگا قوس اوزون ہے بڑے کا م کا بھائی وہ زون ہے 

 بنفشی شعاعوں سے ہم کو بچائے یہ سمجھو بلاؤں سے ہم کو بچائے 

مگر آج اوزون خطرے میں ہے محافظ ہے جو زون خطرے میںہے 

ہمار یہاں اردو میں سائنسی موضوعات پر بہت سی تحریر یں لکھی گئی ہیں ۔ ہیئیت کے اعتبار سے ان کا زیادہ تعلق نثر ی تحریروں سے رہا ہے لیکن نظم کے پیرائے میں بچوں کے لیے بہت کم تحریریں ملتی ہیں جن کی خلا یہاں پُر ہوتی ہوئی نظرآتی ہے ۔ اگر صرف اردو دنیا کی بات کی جائے تو ابھی سائنس فکشن ہمارے یہاں اپنی جگہ نہیں بنا سکا ہے۔ بچوں میں صرف معلومات عامہ تک ہی اس کی رسائی ہی اچھی ہے لیکن سائنس کو ادب کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے والے بہت ہی کم ہیں ۔ 

گلوبل وارمنگ پر ان کی ایک کہانی ’’ جنگل کی پگڈنڈی ‘‘ ہے ۔ یہ ایک مکالماتی کہانی ہے جو سڑک اور پگڈنڈی کے بیچ چلتی ہے ۔ اس کہانی میں سڑک کے دکھ درد میں پگڈنڈی مکمل شامل ہوتی ہے لیکن سڑک کے مقدر میں جو ہونا ہے وہ تو مزید سے مزید تر ہوتا جارہا ہے ۔ دو مکالمے ملاحظہ فرمائیں 

’’پگڈنڈی :گرمی کی شدّت سے یوں جو تمہارا بدن جل رہا ہے۔چھوٹا منہ بڑی بات، میرا بس چلے تو جنگل کی صاف ، ٹھنڈی تازہ ہوا تمھارے نام لکھ دوں۔ گائوں کا تالاب لاکر تمہارے لبوں سے لگا دوں۔

سڑک : آہ ٹھنڈے ، میٹھے پانی کے ایسے کٹورے اور جنگل کی وہ انمول ہوا میرے نصیب میں کہاں۔(پگڈنڈی کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے)

بہن! تم بڑی خو ش نصیب ہو۔دھنک تمہاری اوڑھنی ۔۔۔، شفق تمہارا گھونگھٹ ۔۔۔اور بادل تمہارا کاجل۔۔۔میرے نصیب میں تو یہی سیاہ ماتمی لباس ہے جس میں سورج کی تیز کرنیں آگ لگا دیتی ہیں۔‘‘

نثر ی کہانی اور شاعری میں تاثر اتی اعتبار سے دو الگ الگ چیزیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک یہ کہ شاعری پڑھنے کے بعد ذہن میں فرحت و انبساط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور جب شاعری اعلیٰ درجے کی ہو اور اس کے معانی بڑے وسیع پیمانے پر کھل کر سامنے آتے ہوں تو قاری کا ذہن بہتر معنوی غذا کے ساتھ خوش ہوجاتا ہے ۔ لیکن کہانی کا معاملہ کچھ الگ ہوتا ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کہانی ختم ہونے کے بعد انسا ن کا ذہن فکر و سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کہانی کے کسی نہ کسی کردار کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جس کو اس کہانی میں محسوس کیا جاسکتا ہے جو بچوں کو سڑک کی ہمدردی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کئی کہانیاں اور نظمیں ہیں جو اس موضوع پر سنجیدگی سے بچوں کو غورو فکر کی دعوت دیتی ہیں ۔




Thursday 28 July 2022

اٹھارہ سو ستاون کی بغاوت میں اردو اخبارات کا کردار

 1857 کی بغاوت میں اردو اخبارات کا کردار 

ڈاکٹر امیر حمزہ 



 اٹھارہویں صدی کے نصف اول سے ہی ہندوستان میں بیرونی در اندازی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ایک طرف نادر شاہ اور احمدشاہ ابدالی کے حملے تھے تو دوسری جانب مشرقی ساحل سے مغربی تاجر ین کی یورش تھی ۔یہیںسے ہندوستانیوں کی زندگی اور ہندوستان کا ماحول بدلنا شروع ہوگیا تھا ۔ عوامی زندگی میں احتجاجی گفتگو شروع ہو گئی تھی ، مغل حکومت لگاتار کمزور ہوتی جارہی تھی اور انگریز مستقل اپنا قدم مضبوط کرتا جارہاتھا جس سے ظاہر ی و باطنی بغاوتوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا ۔ عوامی زندگی میں اس کا اثر آنا لازمی تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ شروع سے ہی اردو شاعری میں احتجا ج کی لو نظر آنے لگتی ہے ۔ اس احتجاج کو دو حصو ں میں تقسیم کیا جاسکتاہے۔ اول 1857 تک اور دوم 1857 تا 1947 ۔ اول الذکر محض احتجاجی ادب میں شمار ہوتا ہے، دوم میں آزادی کی جدو جہد شامل ہوجاتی ہے ۔ انیسویں صدی کی ابتدا ہی سے ادب کی مر وجہ اصناف میں احتجاج ملنے لگتا ہے۔ وہ احتجاج اندرونی و بیرونی دونوں طاقتوں کے لیے ہوتا ہے ۔ اس روایت نے اردو میں شہر آشوب کو فروغ دیا ، جس کے موضوعات بدحالی ہی ہوتے تھے جس میں بباطن احتجاج کی لے تیز ہوتی تھی ۔ انیسویں صدی کی دودہائی بعد جب اخبارات کا سلسلہ شروع ہوا تو اس میں سیاسی گرفتاریاں ، مقدمات اور سزا کی روداد تفصیل سے شائع ہوتی ہیں جس سے اس زمانہ کی صحافتی خدمات کا پتہ چلتا ہے کہ انگریزوں کی سرپرستی میں رہتے ہو ئے اورآزاد رہ کر بھی اخبارات نے کس طرح سے ہندوستانیوں کو پہلی جنگ آزادی 1857 کے لیے ابھارا ۔ 

1823 تا 1857 کے اردو اخبارات کی بات کی جائے تو اس عہد میں کل 122 اخبارا ت کے شائع ہونے کا ریکارڈ ملتا ہے، جن میں سے کم و بیش چالیس اخبارات اردو کے ملتے ہیں ۔ اردو کا پہلا اخبار’ جام جہاں نما‘کلکتہ ، مو لوی محمد باقر کا دہلی اردو اخبار ، سرسید احمد خاں کے بڑے بھائی سید محمد خاں کا سید الاخبار ، دہلی سے ہی ’’صادق الاخبار‘‘ نام سے دو اخبار جاری ہوئے، ایک کے مالک سید جمیل الدین خاں تھے اور دوسرے کے ایڈیٹر شیخ خدا بخش ، جوشاید مالک بھی رہے ہوں ۔ دہلی ہی سے مولوی کریم الدین کا’’ کریم الاخبار‘‘ اور رسالہ ’’ گلِ رعنا ‘‘ 1845 ۔لاہور سے کوہِ نور ، مرزا پور سے خیر خواہ ہند ، دہلی سے قران السعدین۔1847 میں آگرے سے ’’ اسعدالاخبار‘‘، 1849میں قطب الاخبار ،۔1849 میں میرٹھ سے ’’مفتاح الاخبار‘‘  ایڈیٹرمحبوب علی۔ 1849 میںبنارس سے ’’باغ و بہار ‘‘ ایڈیٹر سید اشرف علی ۔ 1849 میں اندور سے ’’ مالوہ اخبار‘‘ بہ ادارت دھر م نارائن جیسے اہم اخبار جاری ہوئے ۔ ان اخبارات میں سب کی کہانی الگ الگ ہے لیکن ان اخبارات کا کارنامہ یہ رہا ہے کہ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے لیے انہوں نے مکمل طور پر ماحول بنایا ۔ان کے پاس نہ وسائل تھے اور نہ ہی مکمل طور پر آزاد رہ کر لکھنے کی اجازت حاصل تھی ،اس کے باوجود بڑی جرات و بے باکی سے عوامی شعور کو بیدار کیا اور انگریزوں سے آزادی کی روح بیدار کی ۔

اس عہد کے اخبارات میں دہلی اردو اخبار کا کارنامہ سب سے زیادہ نمایاں نظرآتا ہے کیونکہ ملک کی آزادی کے لیے جس صحافی نے اپنی جان قربان کی وہ دہلی اردو اخبار کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر تھے ،ساتھ ہی شہادت کا یہ اعزاز اردو کو ہی حاصل ہوا ۔1857 تک یہ اخبار تقریباً اپنی بیس سالہ زندگی طے کرچکا تھا جس میں بہت ہی زیادہ متوازن رہ کر مولوی محمد باقر نے صحافتی خدمات انجام دیں ۔ مولوی محمد باقر کا تعلق قلعہ سے تھا اور قلعہ والوں میں محتر م بھی تھے ۔ غالب ، مومن ، ذو ق و شیفتہ بھی اس اخبار کے قدر دانوں میں تھے۔ انگر یزوں کے دبدبہ سے ہر خاص و عام خائف تھا تو لازمی تھا ایک صحافی اور مؤقر شہر ی بھی اپنے جذبات کا اظہار کرے اور اپنے قلم سے سلاح کا کام لے۔ جب 10 مئی کو میرٹھ سے بغاوت ہوئی اوروہاں سے سپاہی 11 مئی کو دہلی پہنچے اور پوری دہلی شورش و ہنگامے کی لپیٹ میں آگئی ، مغلیہ حکومت کا علامتی چراغ بھی بجھ گیا ۔ ایسے حالات میں ایک ہفتہ بعد جب دہلی اردو اخبار کا شمار ہ منظر عام پرآتا ہے تو وہ ایک بدلا ہوا مجاہد آزادی کا اخبار نظر آتا ہے ۔ شہ سر خی میں انقلاب کی خبر کا عنوان ہوتا ہے ’’ قل فاعتبروایا اولی الابصار‘‘ اس کے بعد عربی میں ایک مکمل خطبہ آٹھ کتابی سطر و ں کے برابر ہے جس میں خدا کی قہاریت و غفاریت کا بھی ذکر ہے پھر ڈیڑھ صفحات پر خبر سے پہلے ایک جوشیلی تحریر موجود ہے ، جبکہ دہلی اردو اخبار کے 1940 کے شماروں میں کسی بھی خبر پر خطبہ نظرنہیں آتا ، جس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ بغاوت کی خبر کو کن جذبات سے پیش کررہے تھے۔ اس زمانہ میں اداریہ لکھنے کا رواج نہیں تھا خبر کے شر وع میں ہی مدیر کچھ رد عمل کا اظہار کردیا کرتا تھا ، اس خبر کے شروع میں انگریزوں کو مخاطب کر تے ہوئے لکھتے ہیں ’’ وہ حکام ظاہر الاستحکام جن کے استقلال حکومت و انتظام کے زوال کا نہ ان کو خیال تھا اور نہ کسی غفال کو وہم و گمان کبھی آسکتا تھا ایک طرفۃ العین میں وہ نمایاں ہوگیا۔ ‘‘ اس تمہید کے بعد 11 مئی کی بغاوت کی پوری تفصیل دی گئی ہے جو کتاب کے کئی صفحات پر مشتمل ہے ۔ خبر ایسی جزئیات نگاری سے لکھی گئی ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔بغاوت کی خبروں کا یہ انداز 24 مئی کے شمارے میں بھی جاری رہا ۔ جس میں مولوی محمد حسین آزاد کی نظم ’’ تاریخ انقلاب عبر ت افزا ‘‘ بھی چھپتی ہے ۔ اس کے بعد دو شمارے اور شائع ہوتے ہیں، پھر 12 جولائی سے بہادر شاہ ظفر کی مناسبت سے اس کا نا م ’’اخبار الظفر‘‘ ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ بغاوت کے بعد مولوی محمد باقر مکمل طور پر بہادر شاہ ظفر کے ساتھ آزادی کی لڑائی میں شریک ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے معاون کے طور پر سرگرم رہتے ہیں، جس میں مال گزار ی کے خزانے کو بہ حفاظت لانے کی خوشی میں بہادر شاہ ظفر نے ان کے اخبار کا نام اخبار الظفرکردیا تھا ۔ اس نام سے دس ہی شمارے نکلے تھے کہ مولوی محمد باقر نے 16 ستمبر کو جام شہادت نوش فرمائی ۔

 دہلی اردو اخبار کے بعد ’’سید الاخبار ‘‘ (جاری 1837 )کو دہلی کا مؤقر اخبار مانا جاتا ہے ۔ مالک تو سرسید کے بڑے بھائی سید محمد خاں تھے لیکن اس کے ایڈیٹر مولوی عبدالغفور کو بنایا گیا، کیونکہ سید محمدخاں سر کاری ملازم تھے، لازم ہے کہ سرکار میں رہتے ہوئے وہ سرکار کے خلاف لکھنے سے رہے اس لیے انہوںنے ایڈیٹر منتخب کیا ۔ مولوی عبدالغفور کا تعلق قانون داں حضرات سے اچھا تھا اس لیے ان کا یہ اخبار وکیلوں میں بھی مقبول تھا ۔ یہ1848 تک جاری رہا ۔ 1846 میں بھائی کے انتقال کے بعد سرسید نے ہی ذمہ داری سنبھالی اور بقول حالی ’’ سید الاخبار کا اہتمام برائے نام ایک اور شخص کے سپر د تھا ، مگر زیادہ تر سرسیدخود اس کے مضامین لکھا کرتے تھے ۔ ‘‘ اخبار کا مزاج کیا تھا وہ آپ سر سید کی بصیرت سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیںبلکہ تہذیب الاخلاق کی جھلک اس اخبار میں دیکھ سکتے ہیں جس میں سماجی اور تاریخی مواد شائع ہوتا تھا ۔ 

بنارس سے 1852 میں بابوکاشی داس متر ’’ آفتاب ہند ‘‘ ہفتہ واری اخبار جاری کرتے ہیں ۔اس اخبا ر کی بھی کوئی الگ خصوصیت نہیں تھی ۔کمپنی کے ساتھ بھی تھااور ہندوستانی ہونے کا فرض بھی ادا کرتا ، اس لیے انگر یزی حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ آتا تو اس کو کام میں ضرور لاتا ۔ یہ  عام خبر وں میں نہیں بلکہ ان خبروں میں ہوتا جہاں معاملہ ہندوستانیوں او رانگریز وں کے مابین ہوتا جیسے شکاری انگریز کی گولی سے ایک ہندوستانی مر گیا۔ عدالت نے اس پر انگریز کو صرف ایک سال کی قید محض کی سزا دی جس پر رپورٹنگ کرتے ہوئے اخبار خبر کے اخیر میں لکھتا ہے ’’ صاحب جج بہاد ر نے ان کے حق میں یہ حکم صادر فرمایا کہ تین مدعا علیہ رہائی پاویں و مسٹر مسلی صاحب ایک برس تک بلا محنت مقید رہے اور مجر م کو یہ تسلی دی گئی ہے تم کو قید میں کچھ تکلیف نہ ہوگی سیر کتب بخوبی کیا کرو۔……اس کو عدالت شاہی کہتے ہیں کہ جس میں جانِ رعایا جاوے اور داد خواہ داد نہ پاوے …اگر کسی ہندوستانی سے ایسا جرم سرزد ہوتا تو بے شک سزا کو پہنچتا …‘‘ اخبارکے آخری دوجملے ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف بھڑکانے میں معاون ہورہے ہیں جو اخبارات وقتاً فوقتا لکھتے رہے ۔ 

اس عہد میں کئی ایسے اخبارات نکلے جن کے مالکان انگریز تھے یا بظاہر وہ اخبارات انگر یز حامی تھے لیکن ان اخبارات نے بھی انگر یزوں کے خلاف ہندوستانی عوام کو بھڑکانے میں مدد کی ۔ جیسے اردو کا پہلا اخبار ’ ’ جام جہاں نما ‘‘ جسے انگریزوں نے اپنے مفاد کے لیے نکالا تھا ۔ یہ اخبار کبھی ارد و اور کبھی فارسی میں نکلتا رہا۔ اس اخبارمیں وطن دوستی کے گہرے جذبات پر مواد شائع ہونے لگا۔ مزید یہ کہ اس اخبار نے پنجاب کی سکھ ریاست پر انگریزوں کے حملے کے ارادہ کی خبر کو بہت پہلے شائع کردیا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ ہندوستانیوں میں مزید بے چینی پھیلی اور انگریزوں سے تنفر بھی بڑھا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ اخبار مشکل سے چھ برس پورا کرسکا اور بند ہوگیا ۔ انگریزوں کی سر پرستی میں نکلنے والا ایک اخبار ’’ کوہ ِ نور‘‘ بھی تھا جو 14 جنور ی 1850 کو لاہور سے شائع ہوا ۔ اس کے مالک ہرسکھ رائے تھے ۔یہ مجاہدین آزادی کی پکڑ دھکڑ ، املاک کی ضبطی ، مکانوں کے انہدام ، مقدمات نیز سزاؤں کی خبریں بڑی تفصیل سے شائع کرتا تھا ۔ اس کابھی اثر الٹا ہو ا کہ انگریز دشمنی کی چنگاری کو مزید بھڑکایا گیا۔ ’’ کوہ نور ‘ ‘ کے مالک ہر سکھ رائے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اخبارکی پالیسی سے اس قدر بیزار ہوئے کہ علاحدگی اختیار کرلی اور اپنا الگ سے اخبار نکالا جس میں بہت ہی شدت سے انگریزوں کی مخالفت کی اور گرفتار کرلیے گئے ۔1851 میں سیالکوٹ سے ’’ریاض الاخبار ‘‘ نکلنا شروع ہوا ۔ اس کے مالک منشی دیوان چند تھے جنہیں انگریزوں کی حمایت حاصل تھی ۔ مذکورہ اخبار کے علاوہ انہوں نے چشمۂ فیض ، خورشید عالم ، ہمائے بے بہا، نور ً علیٰ نور اور وکٹوریہ پیپر بھی جاری کیا ۔ ان سب کے نام سے ہی ظاہر ہورہا ہے کہ انہیں انگریزوں کی حمایت حاصل تھی ، لیکن قارئین کا نتیجہ انگریز مخالف کے طور پر سامنے آتا تھا۔ پنجاب سے ایک اخبار ’پنجاب پنج ‘ مولوی کریم الدین سنبھلی نے جاری کیا تھا۔ یہ رومن رسم الخط میں شائع ہوتاتھا ۔ اخبار کے ایک شمارہ میں انہو ں نے انگریز کی سرپرستی کا اظہار بھی کیا ہے جو کچھ اس طر ح ہے ’’ انہیں ایک شریف ، سخن پر وراور نہایت فیاض حاکم کی امداد حاصل ہے ‘‘ ۔ اخبار ات کے علاوہ اس زمانے میں کئی رسائل بھی نکلے جن میں ایک ’’خیر خواہ ہند ‘‘ ہے جو 1837 میں مرزا پور، بنارس سے جاری ہوا تھا ۔ اس کے ایڈیٹر ایک پادری آر ، سی ماتھر تھے ۔اس میں عیسائی تبلیغ کے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے ۔ غدر سے پہلے ان اخبار ات کا رول دیگر کے مساوی تھا یعنی انگر یزوں کے خلاف کچھ بھی ہاتھ لگ جاتا تو اس سے ہندوستانیوں کے دل میں نفرت پیدا کرنے کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے اور بظاہر کمپنی کے طرفدار وں میں بھی شمار ہوتے تھے ۔ الغرض اس قسم کے اور بھی کئی اخبارات ہوںگے جنہیں انگریزوں کی سرپرستی حاصل رہی ہوگی لیکن قارئین کے مد نظر وہ بھی خبر وں کو اس طرح پیش کرتے تھے کہ جس سے انگریز دشمنی میں اضافہ ہی ہو ۔عتیق صدیقی اس عہد کے اخبارات اور خبر وں کے متعلق اپنی کتاب ’’ہندوستانی اخبار نویسی کمپنی کے عہدمیں ‘‘ میں لکھتے ہیں : 

 ’’ 1857 کے اوائل کے ہندوستانی اخباروں میں عموماً اور اردو اخبارات میں خصوصاًانگریزوں اور ایرانیوں کی خبریں اس کثرت سے شائع ہوتی تھیں کہ جس کا کوئی حد و حساب نہیں تھا ۔ان خبروں کا مواد اور ان کے پیش کرنے کا انداز اعلانیہ انتہائی انگریز دشمنانہ ہوتا تھا ۔‘‘ 

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: 

’’ہندوستانی اخبار نویسی کی ابتدائی تاریخ کا اگر (بہ) غائر مطالعہ کیا جائے ، تو معلوم ہوگا کہ ہندوستانی اخبار نویسی کا مزاج ابتدا ہی سے باغیانہ تھا ۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہندوستانیوں نے فارسی ،بنگلہ ، اردو ، ہندی اور انگریزی اخبار جاری کرنا شروع کیے ۔ یہ سیدھے سادے معصوم سے اصلاحی اخبار ہوتے تھے ۔ ان میں خبر یں بھی ہوتی تھیں مگر بظاہر غیر سیاسی قسم کی ۔ لیکن ان کے انداز بیا ن اور ان کے مواد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کی گہرائی میں غم و غصے کے دبے ہوئے طوفان نظر آئیں گے ۔‘‘ 

 اٹھار ہویں صدی کی آخری دہائی اور اخبارات نکلنے سے پہلے ہی سے انگریزوں کے خلاف ماحول بن چکا تھا ، لیکن انگریزوں نے اپنے موافق ماحول سازی کے لیے اخبارات جاری کیے جس کے خریدار وہ خو د ہوا کرتے تھے اور کچھ معزز افراد ، اس سے ماحول تو بنا نہیں بلکہ کمپنی کی خبر وں سے کمپنی کے خلاف ہی ماحول بنتا گیا۔ جب اخبار ات کا اضافہ ہوا اور عام ہندوستانی خرید کر پڑھنے لگے تب اخبار کی نوعیت بدلنے لگتی ہے اور  ہندوستانی نمائندگی غالب آجاتی ہے ، جس کی پاداش میں مالکان پر طرح طرح کے ستم ڈھائے جاتے ہیں جن میں سے ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کا ذکر ہوچکا ہے ، دیگر چند اخبار ات کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے ۔

’’صادق الاخبار‘‘ دہلی سے شائع ہوتا تھا جس کے مدیر مولوی جمیل الدین تھے ۔ اس اخبار کا مقصد ہی جنگ آزادی کی بھر پور حمایت تھی جس کے ضمن میں انگریزوں کے خلاف تحریریں شائع ہوتی تھیں ۔ جس میں اشاروں کنایوں میں انگریزوں کو نیست و نابود کرنے کی ترغیب بھی ہوتی تھی ۔حب الوطنی کے معاملہ میں اس قدر متشدد تھے کہ انگریزوں سے ذرہ برابر بھی ہمدردی گوا را نہیں کرتے ، انہی رویوں کے باعث وہ عتاب کا شکار ہوئے اور گرفتار کرلیے گئے۔ تین سال قید کی سزا کاٹی نیز جائیداد بھی ضبط کرلی گئی ۔ 

’’گلشن نو بہار‘‘ عبدالقادر کی ادارت میں کلکتہ سے شائع ہوتا تھا ۔ یہ اگرچہ فارسی میں تھا لیکن اس میں اردو میں بھی خبریںشائع ہوتی تھیں ۔مدیر نے اخبار ایکٹ کی خلاف ورزی کر تے ہوئے باغیانہ مضامین چھاپنا شروع کردیے ، اودھ جب انگریزوں کے قبضہ میں آگیا اس کے بعد جو حالات اودھ کے ہوئے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ۔انگر یزوں نے کارروائی کی ،اخبار بند کروا دیا اور چھاپہ خانہ بھی ضبط کرلیا گیا ۔ 

منشی نولکشور کے ’’اودھ اخبار ‘‘ کا ذکر بھی ناگزیر ہوگا جنہوں نے اردو صحافت کو نئی راہ دی ۔ یہ اخبار بظاہر انگریز دشمنی میں تو شامل نہیں تھا لیکن خبروں میں جب بھی موقع ملتا توکوئی رعایت نہیں کرتا تھا ۔ اس اخبار نے انگر یز سر کار کی بد انتظامیوں پر کھل کر نکتہ چینی کی ، نوابوں اور بادشاہوں کی عیاشیوں کے خلاف بھی لکھا ، گویا کہ اس نے معاشرتی اورسیاسی شعور پیدا کیا ۔انگریز دشمنی کا یہ حال تھا کہ انگریزوں کو آستین کا سانپ لکھتا ۔ مجاہدین آزادی کی خبروں کو تفصیل سے شائع کرتاجیسے اندور کے مجاہد آزادی سعادت خاں ، پونہ کے مجاہدآزادی رام پرشاد،رام پور کے مجاہد آزادی نیاز احمد اور امیر خاں کی گرفتاری، چلائے گئے مقدمات ، قید با صعوبت اور پھانسی کی سزا کی خبروں کو تفصیل سے شائع کرتا جن سے عوام میں انگریزوں کے خلاف بے چینی مزید بڑھتی ۔

لکھنؤ سے ایک فارسی اخبار ’’ سلطان الاخبار‘‘ 1835 میںرجب علی سر و ر (صاحب فسانۂ عجائب نہیں ) کی ادارت میں شائع ہوا ، اس اخبار کا ذکر کرنا مناسب ہوگا ، کیونکہ اس کا رویہ اس زمانے کے دیگر فارسی اخباروں کے بالکل بر عکس تھا ۔ اکثر فارسی اخبار سرکار انگلشیہ کی پالیسیوں پر عمل در آمد کرتے تھے، لیکن اس نے شروع سے ہی علَم ِ بغاوت بلند ۔ اپنے پہلے شمارہ میں چھوٹی بڑی اٹھارہ خبر یں شائع کرتا ہے ، جس میں دوسری خبر ’’ خبر عدالت صدر کلکتہ ‘‘ ہے ، جس سے اٹھارہویں صدی کے انگر یزوں کی وحشیانہ جنسی کرتوت کی شرمنا ک داستان پڑھنے کو ملتی ہے اور انگریزوں کی ناانصافی کی عبر ت انگیز مثال بھی ہے ۔ یہ خبر چھاپنا یقینا بڑی ہمت کا کام تھا ۔رجب علی سرور کا یہ رویہ بعد کے شماروں میں بھی ملتا ہے جہاں وہ انگر یز و ں کے ذہنی و جسمانی ظلم و ستم کو بیان کرتے ہیں ۔ ان کے متعلق عتیق صدیقی لکھتے ہیں :

’’ رجب علی لکھنوی پر زور قلم کے مالک تھے ۔ لیکن ان کو فکرو نظر کی وہ بلندی نہیں ملی تھی جو رام موہن رائے کے حصے میں آئی تھی ۔ وہ کھلی دوستی اور کھلی دشمنی کے کے قائل تھے ۔ وہ خود تو حسینی نسب تھے ،لیکن قلم کا انداز چنگیزی تھا ۔‘‘ 

اس عہد میں بر صغیر سے اردو اخبارات جاری ہوئے ، جنوب میں اردو اخبارات کا مرکز مدراس رہا ۔ وہاں سے اردو کا پہلا اخبار ’’ اعظم الاخبار ‘‘ 1848 میں جاری ہوا ۔یہ اخبار مسلمانوں میں دینی تعلیم کے ساتھ جدید علوم کی تعلیم کو بھی ضروری قرار دیتا ہے ، جس سے مسلمانوں کی معیشت مضبوط ہوسکے ۔ مدراس سے ہی ایک ہفتہ وار اخبار ’’ تیسیر الاخبار‘‘ 1849 میں جاری ہوتا ہے جس کے مالک حکیم عبدا لباسط عشقؔ تھے ۔ دیگر اخباروں کی طرح اس کا بھی پہلا کالم انگریزوں کی خبروں کے لیے مختص ہوتا تھا ۔ 1849 میں ’’آفتاب عالم تاب ‘‘ اور 1852 میں ’’ جامع الاخبار ‘‘ ہفتہ واری جاری ہوتے تھے ۔ ان اخبارات سے انگریزوں کی مداخلت اور ہندوستانیوں کے ساتھ معاملات کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ 

غدر کے سال کے اخبارات کے متعلق عتیق صدیقی لکھتے ہیں:’’ اس وقت ہمارے سامنے 1857 کے ، جنوری سے ستمبر تک کے ، مختلف اردو اخباروں کے جستہ جستہ شمارے ہیں ۔ ان کے پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے آسمان پر 1857 کے اوائل ہی سے بغاوت کے بادل جمع ہونے لگے تھے اورساتھ ہمارے اخباروں کا لہجہ تلخ حد تک تند و تیز ہونے لگا تھا ۔ ‘‘ 

الغرض اخبارات کی اس چھوٹی سی جماعت نے وہ بھر پورقربانی دی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے ، انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ آزادی کا بگل بجانا ان ہی کا کارنامہ تھا۔ دیگر زبانوں کے اخبارات کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اردو اخبارات ذہن و دل کی تشکیل میں پیش پیش رہے ۔ کیونکہ اردو کا مزاج ہی دیگر ہے ۔بقول ظ ۔انصاری :

 ’’ مزاج اس زبان کا بہر حال سوداوی ہے اسے گرمی جلدی چڑھتی ہے اور موسم بھی گرم ہو (کسی سیاسی یا ہنگامی مسئلے پر)تو اس کے بدن سے پسینے کے فوارے اور بھپکے چھوٹتے ہیں ۔ …گرم مزاجوں کو اس زبان کی صحافت راس آئی ہے ۔ آتی ہی ہے ۔ جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو کا منظر ہماری زبان کی صحافت میں الٹا چل رہا ہے ۔ یہاں اخبار کے میدان کارزار میں توپ نکالی جاتی ہے ۔‘‘ 


 Dr Amir Hamzah



Thursday 3 March 2022

امان حید ر اپنی غزل کے آئینے میں

 ’’جو ہوش کھودے بس ایسی غزل کہی جائے ‘‘

امان حید ر اپنی غزل کے آئینے میں 


شاعری اظہار کا سب سے موثر ذریعہ ہوتا ہے، اگر دنیا کی قدیم سے قدیم تر لسانی اظہار کی بات کی جائے تو آپ کو تاریخی طور پر بھی یہی بات معلوم ہوگی کہ وہ شاعری ہی ہے۔ دنیا کا قدیم ترین ترین رزمیہ مہابھارت بھی شاعری کے فورم میں ہی سامنے آتی ہے بلکہ دنیا کی قدیم ترین زبان سنسکر ت کا سرمایہ شاعری میں ہی ہے ۔مصر و بابل روما و یو نا ن کے قدیم سے قدیم نمونے بھی شاعری میں ملتے ہیں۔ شاعر ی کے بارے میں ہم توبہتر جانتے ہیں کہ عرب کو اپنی زبان پر اپنی شاعری کی وجہ سے ناز تھا ، اسی وجہ سے وہ خود کو عرب اور دیگر کو عجم کہتے تھے ۔ لیکن زبان کا یہ معجزہ قرآن کے نزول کے بعد مکمل ہوگیا ۔ اس کے بعد زبان ان ہی فصاحت و بلاغت کی وسیع دنیا میں سیر کرنے لگی اور شاعری ہمیشہ اپنے ماضی کے پیمانے پر تولی جانے لگی ۔ شاعری کو باضابطہ ایک زبان تصور کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ موسیقی کی زبان بھی ہوتی ہے ۔ دونوں کے امتزاج سے جو فضا تیار ہوتی ہے اس سے دنیا کا ہر فرد مستفید ہوتا ہے خواہ وہ اس کی زبان ہو یا نہ ہو ۔ کہاجاتا ہے کہ دنیا میں اگر صرف ایک ہی زبان ہوتی تو وہ شاعری کی زبان ہوتی ۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ تقریبا ہر زبان کی ابتدا شاعری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اسی طریقے سے شروع میں ہر ماں اپنے بچوں کو شاعری میں ہی لوری سناتی ہے ۔ الغرض شاعری ایک اسلوب اور صرف رائم کا ہی نام نہیں ہے بلکہ خوشی و غمی ، دوری و قربت میں زبان سے جو بے ساختہ موزوں الفاظ نکلتے ہیں وہ شاعری کے فارم میں جاکر مکمل ہوتا ہے۔ 

دوسری بات یہ کہ شاعری تاثر کی زبان ہے ۔ نثر میں انسان بہت کچھ لکھتا اور بولتا رہتا ہے لیکن سامع وقاری پر جو تاثر شاعری دیتی ہے وہ نثر کبھی نہیں کرسکتی ہے ایسا عمومی طور پر کہاجاتا ہے لیکن جب امان حید ر کی شاعری لطف اندوز ہوتے ہیں تو بہت ہی زیادہ احساس ہوتا ہے کہ موصوف نے اپنی خوشیوں اور اضطرابیوں کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں پیش کیا ہے ۔ 

گھر سے جب دور ہوتے ہیں تو جسمانی طور پر وہ دوسری جگہ ہوتے ہیں لیکن شعوری طورپر ان ہی گلیوں میں سیر کرتے رہتے ہیں جہاں ان کا بچپن گزرا ہے اور جہاں ان کا ابتدائی عشق پروان چڑھتا ہے ۔ وہی لمحات ہوتے ہیں جس میں شاعراپنی شعری دنیا تلاش کرتا ہے اور موثر انداز میں ہر ایک کو اپنے جذبات کا ساتھی بنالیتا ہے جیسا کہ اختر الایمان کی لازوال نظم ’’ ایک لڑکا ‘‘ ناسٹلجیا کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے ویسے ہی کئی ایسی غزلیں ہیں جہاں امان حیدر اپنی ناسٹلجیا کو پیش کر تے ہیں ۔مثال کے طور پریہ شعر دیکھیے جس میں شاعر ٹین ایج یا اس سے پہلے کی زندگی کو محسوس کررہا ہے ۔ جہاں ساتھیوں کے بے تکلف نام کان سننے کو ترس گئے ہیں ، جہاں تکلف ومروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ غزل کا مطلع ہے : 

نام سے مجھے بچپن کے پکارے کوئی 

کا ش لوٹادے مجھے کھوئے نظارے کوئی 

ایسا شعر کیا کوئی وطن میں رہنے والا شاعر کہہ سکتا ہے ۔ ممکن ہے ، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کیوںکہ غریب الدیار میں ماضی کا جو احساس ہوتا ہے وہ گاؤں گھر میں بہت ہی کم محسوس ہوپاتا ہے ۔اسی غزل کا مقطع بھی ملاحظہ فرمائیں : 

میں ہوں پردیس میں اور ماں میر ی گھر پر ہے امان ؔ

چاہتا ہوں کہ نظر میری اتارے کوئی 

مہجری ادب کا یہ خوبصور ت شعر ہوسکتا ہے ۔ ہر کسی کو متاثر کرتا ہے ۔ شاعری میں تاثر سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے جہاں بات دل سے نکلتی ہے اور سامع کے دل میں بس جاتی ہے ۔ ایسے میں شعر کو خوبصورت اور پر اثر بنانے کے لیے کسی ایسے احساس کا اظہار ہوتا ہے جس کا تعلق ہرکسی سے ہو ۔ 

وہاں میرابھی ہے اک آشیانہ

جہاں بس آنا جانا ہوگیا ہے

مذکورہ بالا شعر جس کیفیت کو بیان کررہا ہے اس سے ہر مہاجر واقف ہے ۔ پور ی زندگی پردیس میں گزارنے کو مجبور ہوتے ہیں اور کب آبائی وطن غریب الدیا ر لگنے لگتا ہے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے اور پھر مہاجر ہمیشہ کے لیے مہاجر ہی ہوجاتا ہے ۔ بچے اس ماحول میں ایڈجسٹ کر جاتے ہیں لیکن گاؤں گھر سے لاتعلق خاندان سے لاتعلقی کو پیدا کر دیتی ہے اورفرد بالکل فرد ہو کر رہ جاتا ہے ، نہ اصل باقی رہتا ہے اور نہ خاندان کی چھاؤں کا تصور رہتا ہے ایسے غریب الدیاری ہی زندگی کا لاحقہ بن کر رہ جاتا ہے جس کو مذکورہ بالا شعر میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

پیدل چل کرہم تو بس اسٹاپ پہ آتے تھے

وہاں پہ آکر تم سے ملنا اچھا لگتا تھا

تم تو نہیں ہو صرف تمہاری یادیں باقی ہیں

کبھی تمہارے خط کو پڑھنا اچھا لگتا تھا

مذکورہ بالا دونوں شعر ایک ہی غزل سے ہیں پہلے دونوں شعر کے ماحول پر غورکریں تو آپ کو احساس ہو گا ایک معمولی زندگی میں کتنی غیر معمولی چیزیں تھیں ، جہاں چھل کپٹ اور ہوس کا دور دور تک شائبہ نہیں تھا وہا ں تو صرف ایک محسوساتی اور حسی رشتے کی ڈور میں بندھا ہوتا تھا ۔ اب نہ وہ احساسات ہیں اور نہ ہی جذبات ۔ 

مہجری شاعری کے بعد اردو پر ذیل کے دو شعر وں کا ذکر مناسب معلوم ہوا کیونکہ ہندو پاک میں رہنے والوں کو تو یہ گھر و بازار کی زبان لگتی ہے لیکن جب اپنے ملک سے باہر دیار غیر میں جانا ہوتا ہے اور وہاں تر سیلی زبان کا جو انتخاب ہوتا ہے خصوصا بر صغیر والوں کے لیے تو یہی اردو ہوتی ہے ، پھر جاکر ان کو اس زبان کی شیرینی او ر عالمیت کا احساس ہوتا ہے تب جاکر شاعر کی زبان سے ایسے شعر ادا ہوتے ہیں ۔

میں لوگوں کے سکون دل کی خاطر شعر کہتا ہوں

یہ اردو ہے کہ جو ذہنوں میں خوشبو چھوڑ جاتی ہے


ساری دنیا میں ہے یہ دیکھیے اردو کا کمال

 وہ مِرا ہوگیا جس جس نے سنا ہے مجھ کو

خشو نت سنگھ کا مشہور مقولہ اردو کے حوالے سے ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر عشق کرنا ہے تو اردو سیکھ لو یا پھر اگر اردو سیکھنا ہے تو عشق کرلو۔ یہ مقولہ یوں ہی منظر عام پر نہیں آیا بلکہ اردو پر چار صدی گزر نے کے بعد عوام نے نتیجہ اخذ کیا اس سے یہ محسوس ہوا کہ اردو شاعری نے عشق کے اظہار میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور عوام نے اردو شاعری کو ہاتھوں ہاتھ لیانیز عوامی طور پر اس کی بہت ہی زیادہ مقبولیت بھی ہوئی ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ اردو ڈرامہ کے زوال کے بعد جب فلمی دنیا کی چمک سامنے آئی تو عشقیہ اظہار کہیں یا پھر مطلقاً ڈ ائیلاگ کی بات کریں تو اسی زبان کو اپنا یا گیا اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ہند وستان میں آج بھی غیر اردو داں کو جب کسی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اردو جانتا ہے تو فورا سوال ہوتا ہے کہ آپ تو شاعری بھی جانتے ہوں گے ، پھر کچھ شعر سنادیجئے ۔ گویا پورے ماحول میں یہ نظریہ سرایت کرچکا ہے کہ اردو شاعری کی زبان ہے اور شاعر ی محبت کی زبان ہوتی ہے تو گویا اردو محبت کی زبان ہوئی ۔ اردو میں شاعری ہو اور محبت کا اظہا ر نہ ہو تو پھر بیجا ہوگا ۔ یقینا محبت سے عاری شاعری کی گئی ہیں لیکن ان میں بھی کہیں نہ کہیں ہدف سے محبت کا اظہار ملتا ہے ۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ایسی غزلیں کہی گئی ہیں جن کا تعلق عوام سے نہ کہ برابر تھا اور وہ پزل ہو کر رہ گیا تھا لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ اردو کے مزاج سے ہٹ رہے ہیں تو پھر موضوعاتی سطح پر ہر قسم کی غزلیں کہی جانے لگیں ، دنیا بھر کے مضامین شامل کیے جانے لگے ساتھ ہی عشقیہ مضامین میں نئے نئے احساسات کے اظہار کے لیے عمدہ شاعری کی جانے لگی ۔ مشاعر ہ میں عشق و محبت اور طنز و مزاح کی شاعری پر داد وصولے جانے لگے اور اردو پھر سے عوام کے سر چڑھ کر بولنے لگی۔ غزل کے بارے میں امان حید ر کا کیا نظریہ ہے وہ ان کی مندرجہ ذیل غزل سے ظاہر ہوتا ہے ۔ 

جو ہوش کھودے بس ایسی غزل کہی جائے

غزل کے شہرمیں ویسی غزل کہی جائے

تلاش کرتا ہوں الفاظ اُن کے جیسے ہی

ہے فکر ان کی ہی جیسی غزل کہی جائے

جناب میر کی غزلیں بھی یاد آنے لگیں

پھر ان کے حسن پہ ایسی غزل کہی جائے

یوں ان کے لب  پہ ہنسی آئے شاعرانہ سی

کچھ اس طرح سے بھی میٹھی غزل کہی جائے

تمہارے آنے سے دل باغ باغ ہونے لگا

تمہی بتاؤ کہ کیسی غزل کہی جائے

امانؔ نفرتیں پھیلی ہیں ساری دنیا میں

کہ اب تو درد کو سہتی غزل کہی جائے

مندرجہ بالا غزل کا ہر مصرع کہہ رہا ہے کہ اردو شاعری میں غزل کا مزاج کیا تھا اور ہر شاعر کیسی غزلیں کہنا چاہتا ہے ۔غزل کا اسلوب کیا ہو،ماحول کیا ہو، تغزل کا معیار کیا ہو،تاثر کیسا ہو الغرض غزل کی جو شناخت ہے اسی پر قائم رہنے کو ہی امان حید ر ترجیح دیتے ہیں ۔

اس پورے مجموعے کی ہر غزل اور گیت کے مطالعہ سے یہی احساس ہوتا ہے کہ موصوف نے بہت ہی کم لکھا ہے لیکن جو بھی لکھا ہے پختہ اور بہترین کے دائرے میں آتا ہے ، ایسا احساس نہیں ہوتا ہے کہ آورد کو برتا گیا ہے بلکہ آمد کی مکمل کیفیت نظر آتی ہے جس سے ان کے اشعار میں روانی کا پتہ چلتا ہے ۔ امید کہ ان کی یہ شعری کاوش قبولیت سے سرفراز ہوں ۔

امیرحمزہ 

دہلی 


دہلی میں ادب اطفال کے اشاعتی مراکز

 دہلی میں ادب اطفال کے اشاعتی مراکز 

 امیر حمزہ 


  یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں تخلیق کا کوئی ادارہ نہیں ہوتا جہا ں تخلیق کار پیدا کیے جاتے ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہی ادارہ مینوفیکچر ہوتا اور سپلائر بھی۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکا کہ کمپنیو ں کی طرح اشاعتی اداروں کے نام سے کتابیں بک رہی ہوں بلکہ ہمیشہ تخلیق کار کے نام سے ہی کتابیں بازار میں دستیاب ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ادیبوں کو شناخت دینے میں اشاعتی اداروں کا اہم کردار رہا ہے۔ گویا اپنے فن کو پیش کرنے کا یہ عمدہ پلیٹ فارم انہیں ملا ہوا ہے۔ اگر کسی ادیب کی کوئی کتاب ایک چھوٹے سے ادارے نے شائع کی اور وہ فورا ًمالی اعتبار سے کامیاب ہوگیا تو پھر اسی ادارے کی فرمائش ہو تی تھی کہ اب آپ دوسری کتاب کی تیاری میں لگ جائیں۔ اسی طریقے سے کئی ادیب شہر ت کی بلندیوں تک پہنچ گئے جن کے بارے میں ہم بخوبی جانتے ہیں۔ سلسلہ وار تحریریں لکھنے والوں کے نام اس فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جن کی تحریریں اشاعتی اداروں کے پلیٹ فارم سے کثیرافراد تک پہنچیں اورانہوں نے اپنے حلقہ کو وسیع تر بھی کیا۔

کچھ ایساہی معاملہ ادب اطفال کا بھی ہے کہ چنندہ اداروں نے اپنے مخصوص ادیبوں کو تھام لیا اور ان کی کتابوں سے انہیں بہت منافع حاصل ہوا ، نتیجتاً وہ ادارے ان کی کتابوں کی وجہ اور ادیب ان اشاعتی اداروں کے ذریعے پہچانے گئے۔ اس کے لیے مثال کے طورپر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی کو پیش کر نا چاہوں گا جس نے مائل خیرآبادی اور افضل حسین کی کتابیں شائع کیں۔ اسی طریقہ سے بچوں کی درسی کتابیں شائع کرنے والے پرائیویٹ میں الجمعیۃ ہے جو اپنی ہی کتابوں پر منجمد ہوکر رہ گئی۔ لیکن باضابطہ جس ادارے نے ادب اطفال کو فروغ دیا اور اس نے کئی ادیب بھی پیدا کیے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مکتبہ جامعہ لمیٹد ہے۔ اس ادارے کا قیام ہی ڈاکٹر ذاکر حسین نے بچوں میں کتابوں کے فروغ کے لیے کیا تھا، جس میں سب کی ذمہ دار ی بھی طے ہوگئی تھی کہ کون کیا لکھے گا۔ یعنی انہوں نے باضابطہ ایک تجربہ گاہ بنایا ساتھ ہی اشاعت کا مرکز بھی۔
 خیر یہ تو تکنیکی بات ہوئی کہ کون کس تکنیک پر عمل کرتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بچوں کا ادب کیسے فروغ پاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دہلی ہندوستان کا مرکز رہا ہے اور سیاحتی اعتبار سے جامع مسجد جہاں پر ہندوستان بھر سے لوگ آتے ہیں اور یہاں کی چیزوں سے ان کی نظر یں ٹکراتی ہیں جہاں اردو بازار بھی تھا اب بازار ہے لیکن اردو نہیں۔ ایک زمانہ میں صرف پرانی دہلی میں 210 اور نئی دہلی میں 225 ایسے کتب خانے تھے جو اردو کی کتابیں بیچتے تھے۔ لیکن ان کے زوال کا معا ملہ یقینا سپلا ئی کا نہ ہونا ہے۔ اُس زمانے کی بچوں کے لیے لکھی گئی تحریرو ں کی بات کریں تو بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں جو کہانیوں اور نظموں پر مشتمل تھیں۔ ان کو الگ سے شائع نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس کمی کو اس وقت کے رسالے پورا کررہے تھے جس میں شمع گروپ کا ’کھلونا‘ سب سے مشہور تھا۔ وہ رسالہ عام اردو گھروں کی ضرورت کو پوری کردیتا تھا ،باقی دیگر جتنے بھی ادارے تھے، سب مذہبی اور نیم مذہبی کتابوں کی اشاعت میں لگے ہوئے تھے کیونکہ ان کی مارکیٹنگ اچھی تھی۔ ایسے میں ادب اطفال کے اعتبار سے وہی ادارے معتبر ہوئے جنہوں نے بچوں کے لیے کتابیں شائع کیں اور اپنے لیے تجارت کا ذریعہ بھی پیدا کیا لیکن ایسے ادارے بہت ہی کم نظرآتے ہیں۔ البتہ ابھی جو چنندہ ادارے ہیں اور ان کے یہاں بچوں کے لیے خصوصی طور پر کتابیں شائع ہوتی ہیں ان متحرک و فعال اداروں میں قومی کونسل ، نیشنل بک ٹر سٹ ، اردو اکادمی دہلی ، مکتبہ جامعہ ، الحسنات، نرالی دنیا اور مر کزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ہیں۔
بچوں کی کتابوں کی دو دھارائیں بہتی ہیں ایک مذہبی اور دوسری غیر مذہبی۔ دونوں کے اشاعتی اداروں کے معاملات بھی الگ  الگ ہیں۔ جو غیر مذہبی کتابیں شائع کرتے ہیں وہ عموماً سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ہیں۔ سرکاری اداروں میں مراعات ملنے کے باوجود عام کتابوں کی قیمت کم نہیں ہوپاتی ہے جبکہ نجی پبلشرزجو زیادہ تر مذہبی کتابیں شائع کرتے ہیں، وہ کم قیمت پر کتابوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ایسے میں ادب اطفال کا کتنا فروغ ممکن ہے وہ آپ سمجھ سکتے ہیں۔
اردو اکادمی دہلی،دہلی کا قدیم ترین ادارہ ہے، جہاں عمدہ طباعت کے ساتھ ’ماہنامہ امنگ‘ پابندی سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی جملہ 185 طباعتوں میں سے صرف 12 کتابیں ادب اطفال کی ہیں۔ جب کہ پبلی کیشن ڈویژن کا اردو سیکشن بہت مختصر ہے لیکن وہاں بھی 100 سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں پھر بھی 10 سے زیادکتابیں بچوں کے لیے ہیں۔
قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو ، ہندوستان کی سطح پر اپنا ایک منظم اشاعتی ڈھانچہ رکھتا ہے۔ اس نے تقریباً ہر فن پر کتابیں شائع کی ہیں جن میں سے ترجمہ اور غیر ترجمہ دونو ں ہیں۔ جدید کیٹلاگ کے مطابق کل 1381 ٹائٹل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے یہاں ادب اطفال کا ایک بہترین گوشہ ہے، جس میں قسم قسم کی کتابیں شامل ہیں لیکن ادب اطفال کے کل ٹائٹل کی تعداد 354 ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ باعتبار فروختگی اس سیکشن کا سرکو لیشن زیادہ ہے اور باعتبار موضوعات پورے ہندوستان میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ لیکن کل سرکو لیشن کی بات کی جائے تو ہندوستان کے دیگر اداروں میں اس کی بچوں کی کتابیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کونسل ہی بتاسکتی ہے۔البتہ ’بچوں کی دنیا‘ کا سرکلوشین پچاس ہزارتجاوز ہوجاتا ہے جو قابل تعریف ہے۔
 اب آتے ہیں ’نیشنل بک ٹر سٹ‘ پر جو ہندوستا ن کا معتبر اشاعتی ادارہ ہے جہاں سے ہندوستان کی تقریباً ہر زبان میں کتابیں شائع ہوتی ہیں، اس کے موجودہ کیٹلاگ کے مطابق 422 اردو کے ٹائٹل چھپے ہیں، جن میں سے تقریبا ً 350 کتابیں بچوں کے لیے ہیں۔ اتفاق سے اکثرکتابیں ترجمہ شدہ ہیں۔ یہ کتابیں شائع تو ہوچکی ہیں لیکن دیگر تجارتی مراکز پر بالکل بھی نظر نہیں آتی ہیں۔
 ’مکتبہ جامعہ‘ ہندوستان کا قدیم ترین اشاعتی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے ایک لمبا سفر طے کیاہے، اس کی دو ذیلی شاخیں بھی ہیں، جو اب کسمپر سی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ادارے نے اب تک تقریباً 6000 ٹائٹلس چھا پےہیں، اس ادارے کو ’یونیسکو‘ کی جانب سے پریس بھی ملا جو ’لبرٹی پریس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن ایک عرصے سے یہ بند پڑا ہوا ہے۔ اس ادارہ کی بوانہ میں اپنی زمین بھی ہے۔ ایک زمانہ میں اپنی نشریات کی وجہ سے بہت ہی زیادہ فائدہ میں چلنے والا ادارہ، اب خود بوجھ سا بن گیاہے۔ پروفیسر خالد محمود کے زمانے میں قومی کونسل سے ایک قرار داد کے مطابق نشاة ثانیہ کی کیفیت نظر آئی مگر اب پھر اس کی وہی حالت ہے۔ ا ن چھ ہزارکتابوں میں ایک اندازے کے مطابق نصف کتابیں تو بچوں کے لیے ہی ہوںگی ،مگر اب شاید ہی ان کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہو۔
 نجی اداروں میں ’فرید بک ڈپو‘ نے اب تک گیارہ ہزار ٹائٹلس شائع کیے ہیں، ایک اندازہ کے مطابق ان کے یہاں بھی بچوں کی کتابیں ہزاروں میں ہوں گی لیکن ان میں سے اکثر کا تعلق مذہبیات سے ہے۔ ہزاروں تاریخی اور اسلامی کتابیں اس ادارہ نے بچوں کے لیے شائع کی ہیں۔ مگران کی فائل کاپیاں بھی ان کے پاس اب نہیں ہوں گی جس سے ان مصنّفین کا پتہ لگا یا جائے۔اس ادارے کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ گاؤں دیہات میں جو جلسے ہوتے ہیں یا چھوٹے شہروں میں جو کتب خانے ہوتے ہیں، ان کو یہ کتاب سپلائی کرتے ہیں اور ہر موضوع پر انھیں سستی سے سستی کتابیں دستیاب کراتے ہیں۔ اس طرح دور دراز علاقوں میں ان کی کتابیں پہنچ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس ادارے نے ’جیبی کتابیں‘ بھی بہت زیادہ شائع کی ہیں جس کا فائدہ یہ ہوا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے کتابوں کی جانب راغب بھی ہوئے۔ الغرض اس ارادے نے مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے لحاظ سے اپنی تجارت کارخ تبدیل کیا، جس کے سبب مشہورمصنفین کے علاوہ غیرمشہورمصنّفین کی تصنیفات تک عام قاری کی رسائی ہوسکی ۔
 ’ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس‘بہت ہی بڑا ادارہ ہے اور دہلی میں اس کا دفتر سب سے عالیشان ہے لیکن ’بحق ناشر‘ والی کتابیں اس کے پاس بہت ہی کم ہیں۔ اکثر کتابیں ’بحق مصنف‘ والی ہیں۔ اس سے سمجھ سکتے ہیں، اس کی اولیت کتاب کی نشرو اشاعت نہیں بلکہ طباعت ہے۔اس کا ایک ذیلی مکتبہ بھی ہے، جس کے تحت وہ بچوں کی ادبی اور دیگر مذہبی کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔
 ’اسلامک بک سروس‘ ایک مشہور ادارہ ہے، جہاں سے صرف اسلامی کتابیں نشر کی جاتی ہیں۔ان کتابوں میں بالغین کے علاوہ کچھ کتابیں بچوں کے لیے بھی ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اس کی کتابیں منظم طریقے سے پہنچتی ہیں۔مگراسے بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے والے ادارے کی شناخت حاصل نہیں ہے۔

آج کل ’الحسنات‘ (دہلی) کی کتابوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔پاپولرموضوعات پر کتابیں شائع کرنا اس کی اوّلیت ہے۔ بچوں کے لیے قسم قسم کی اسلامی و ادبی کتابیں شائع کرکے یہ ادارہ اپنی شناخت بنارہا ہے۔ ایک ٹیم ورک کی طرح کام کرنے کی وجہ سے اسے جاذب نظر اورخوب صورت کتابیں شائع کرنے میں نہ صرف مددملتی ہے بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہاہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی ایسے ادارے ہیں جو انفرادی طور پر بچوں کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ان میں ایک قابل ذکرنام ’ہنی بُکس‘ کاہے۔ اب تک یہاں سے آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔


 


’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...