Thursday 3 March 2022

امان حید ر اپنی غزل کے آئینے میں

 ’’جو ہوش کھودے بس ایسی غزل کہی جائے ‘‘

امان حید ر اپنی غزل کے آئینے میں 


شاعری اظہار کا سب سے موثر ذریعہ ہوتا ہے، اگر دنیا کی قدیم سے قدیم تر لسانی اظہار کی بات کی جائے تو آپ کو تاریخی طور پر بھی یہی بات معلوم ہوگی کہ وہ شاعری ہی ہے۔ دنیا کا قدیم ترین ترین رزمیہ مہابھارت بھی شاعری کے فورم میں ہی سامنے آتی ہے بلکہ دنیا کی قدیم ترین زبان سنسکر ت کا سرمایہ شاعری میں ہی ہے ۔مصر و بابل روما و یو نا ن کے قدیم سے قدیم نمونے بھی شاعری میں ملتے ہیں۔ شاعر ی کے بارے میں ہم توبہتر جانتے ہیں کہ عرب کو اپنی زبان پر اپنی شاعری کی وجہ سے ناز تھا ، اسی وجہ سے وہ خود کو عرب اور دیگر کو عجم کہتے تھے ۔ لیکن زبان کا یہ معجزہ قرآن کے نزول کے بعد مکمل ہوگیا ۔ اس کے بعد زبان ان ہی فصاحت و بلاغت کی وسیع دنیا میں سیر کرنے لگی اور شاعری ہمیشہ اپنے ماضی کے پیمانے پر تولی جانے لگی ۔ شاعری کو باضابطہ ایک زبان تصور کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ موسیقی کی زبان بھی ہوتی ہے ۔ دونوں کے امتزاج سے جو فضا تیار ہوتی ہے اس سے دنیا کا ہر فرد مستفید ہوتا ہے خواہ وہ اس کی زبان ہو یا نہ ہو ۔ کہاجاتا ہے کہ دنیا میں اگر صرف ایک ہی زبان ہوتی تو وہ شاعری کی زبان ہوتی ۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ تقریبا ہر زبان کی ابتدا شاعری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اسی طریقے سے شروع میں ہر ماں اپنے بچوں کو شاعری میں ہی لوری سناتی ہے ۔ الغرض شاعری ایک اسلوب اور صرف رائم کا ہی نام نہیں ہے بلکہ خوشی و غمی ، دوری و قربت میں زبان سے جو بے ساختہ موزوں الفاظ نکلتے ہیں وہ شاعری کے فارم میں جاکر مکمل ہوتا ہے۔ 

دوسری بات یہ کہ شاعری تاثر کی زبان ہے ۔ نثر میں انسان بہت کچھ لکھتا اور بولتا رہتا ہے لیکن سامع وقاری پر جو تاثر شاعری دیتی ہے وہ نثر کبھی نہیں کرسکتی ہے ایسا عمومی طور پر کہاجاتا ہے لیکن جب امان حید ر کی شاعری لطف اندوز ہوتے ہیں تو بہت ہی زیادہ احساس ہوتا ہے کہ موصوف نے اپنی خوشیوں اور اضطرابیوں کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں پیش کیا ہے ۔ 

گھر سے جب دور ہوتے ہیں تو جسمانی طور پر وہ دوسری جگہ ہوتے ہیں لیکن شعوری طورپر ان ہی گلیوں میں سیر کرتے رہتے ہیں جہاں ان کا بچپن گزرا ہے اور جہاں ان کا ابتدائی عشق پروان چڑھتا ہے ۔ وہی لمحات ہوتے ہیں جس میں شاعراپنی شعری دنیا تلاش کرتا ہے اور موثر انداز میں ہر ایک کو اپنے جذبات کا ساتھی بنالیتا ہے جیسا کہ اختر الایمان کی لازوال نظم ’’ ایک لڑکا ‘‘ ناسٹلجیا کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے ویسے ہی کئی ایسی غزلیں ہیں جہاں امان حیدر اپنی ناسٹلجیا کو پیش کر تے ہیں ۔مثال کے طور پریہ شعر دیکھیے جس میں شاعر ٹین ایج یا اس سے پہلے کی زندگی کو محسوس کررہا ہے ۔ جہاں ساتھیوں کے بے تکلف نام کان سننے کو ترس گئے ہیں ، جہاں تکلف ومروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ غزل کا مطلع ہے : 

نام سے مجھے بچپن کے پکارے کوئی 

کا ش لوٹادے مجھے کھوئے نظارے کوئی 

ایسا شعر کیا کوئی وطن میں رہنے والا شاعر کہہ سکتا ہے ۔ ممکن ہے ، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کیوںکہ غریب الدیار میں ماضی کا جو احساس ہوتا ہے وہ گاؤں گھر میں بہت ہی کم محسوس ہوپاتا ہے ۔اسی غزل کا مقطع بھی ملاحظہ فرمائیں : 

میں ہوں پردیس میں اور ماں میر ی گھر پر ہے امان ؔ

چاہتا ہوں کہ نظر میری اتارے کوئی 

مہجری ادب کا یہ خوبصور ت شعر ہوسکتا ہے ۔ ہر کسی کو متاثر کرتا ہے ۔ شاعری میں تاثر سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے جہاں بات دل سے نکلتی ہے اور سامع کے دل میں بس جاتی ہے ۔ ایسے میں شعر کو خوبصورت اور پر اثر بنانے کے لیے کسی ایسے احساس کا اظہار ہوتا ہے جس کا تعلق ہرکسی سے ہو ۔ 

وہاں میرابھی ہے اک آشیانہ

جہاں بس آنا جانا ہوگیا ہے

مذکورہ بالا شعر جس کیفیت کو بیان کررہا ہے اس سے ہر مہاجر واقف ہے ۔ پور ی زندگی پردیس میں گزارنے کو مجبور ہوتے ہیں اور کب آبائی وطن غریب الدیا ر لگنے لگتا ہے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے اور پھر مہاجر ہمیشہ کے لیے مہاجر ہی ہوجاتا ہے ۔ بچے اس ماحول میں ایڈجسٹ کر جاتے ہیں لیکن گاؤں گھر سے لاتعلق خاندان سے لاتعلقی کو پیدا کر دیتی ہے اورفرد بالکل فرد ہو کر رہ جاتا ہے ، نہ اصل باقی رہتا ہے اور نہ خاندان کی چھاؤں کا تصور رہتا ہے ایسے غریب الدیاری ہی زندگی کا لاحقہ بن کر رہ جاتا ہے جس کو مذکورہ بالا شعر میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

پیدل چل کرہم تو بس اسٹاپ پہ آتے تھے

وہاں پہ آکر تم سے ملنا اچھا لگتا تھا

تم تو نہیں ہو صرف تمہاری یادیں باقی ہیں

کبھی تمہارے خط کو پڑھنا اچھا لگتا تھا

مذکورہ بالا دونوں شعر ایک ہی غزل سے ہیں پہلے دونوں شعر کے ماحول پر غورکریں تو آپ کو احساس ہو گا ایک معمولی زندگی میں کتنی غیر معمولی چیزیں تھیں ، جہاں چھل کپٹ اور ہوس کا دور دور تک شائبہ نہیں تھا وہا ں تو صرف ایک محسوساتی اور حسی رشتے کی ڈور میں بندھا ہوتا تھا ۔ اب نہ وہ احساسات ہیں اور نہ ہی جذبات ۔ 

مہجری شاعری کے بعد اردو پر ذیل کے دو شعر وں کا ذکر مناسب معلوم ہوا کیونکہ ہندو پاک میں رہنے والوں کو تو یہ گھر و بازار کی زبان لگتی ہے لیکن جب اپنے ملک سے باہر دیار غیر میں جانا ہوتا ہے اور وہاں تر سیلی زبان کا جو انتخاب ہوتا ہے خصوصا بر صغیر والوں کے لیے تو یہی اردو ہوتی ہے ، پھر جاکر ان کو اس زبان کی شیرینی او ر عالمیت کا احساس ہوتا ہے تب جاکر شاعر کی زبان سے ایسے شعر ادا ہوتے ہیں ۔

میں لوگوں کے سکون دل کی خاطر شعر کہتا ہوں

یہ اردو ہے کہ جو ذہنوں میں خوشبو چھوڑ جاتی ہے


ساری دنیا میں ہے یہ دیکھیے اردو کا کمال

 وہ مِرا ہوگیا جس جس نے سنا ہے مجھ کو

خشو نت سنگھ کا مشہور مقولہ اردو کے حوالے سے ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر عشق کرنا ہے تو اردو سیکھ لو یا پھر اگر اردو سیکھنا ہے تو عشق کرلو۔ یہ مقولہ یوں ہی منظر عام پر نہیں آیا بلکہ اردو پر چار صدی گزر نے کے بعد عوام نے نتیجہ اخذ کیا اس سے یہ محسوس ہوا کہ اردو شاعری نے عشق کے اظہار میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور عوام نے اردو شاعری کو ہاتھوں ہاتھ لیانیز عوامی طور پر اس کی بہت ہی زیادہ مقبولیت بھی ہوئی ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ اردو ڈرامہ کے زوال کے بعد جب فلمی دنیا کی چمک سامنے آئی تو عشقیہ اظہار کہیں یا پھر مطلقاً ڈ ائیلاگ کی بات کریں تو اسی زبان کو اپنا یا گیا اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ہند وستان میں آج بھی غیر اردو داں کو جب کسی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اردو جانتا ہے تو فورا سوال ہوتا ہے کہ آپ تو شاعری بھی جانتے ہوں گے ، پھر کچھ شعر سنادیجئے ۔ گویا پورے ماحول میں یہ نظریہ سرایت کرچکا ہے کہ اردو شاعری کی زبان ہے اور شاعر ی محبت کی زبان ہوتی ہے تو گویا اردو محبت کی زبان ہوئی ۔ اردو میں شاعری ہو اور محبت کا اظہا ر نہ ہو تو پھر بیجا ہوگا ۔ یقینا محبت سے عاری شاعری کی گئی ہیں لیکن ان میں بھی کہیں نہ کہیں ہدف سے محبت کا اظہار ملتا ہے ۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ایسی غزلیں کہی گئی ہیں جن کا تعلق عوام سے نہ کہ برابر تھا اور وہ پزل ہو کر رہ گیا تھا لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ اردو کے مزاج سے ہٹ رہے ہیں تو پھر موضوعاتی سطح پر ہر قسم کی غزلیں کہی جانے لگیں ، دنیا بھر کے مضامین شامل کیے جانے لگے ساتھ ہی عشقیہ مضامین میں نئے نئے احساسات کے اظہار کے لیے عمدہ شاعری کی جانے لگی ۔ مشاعر ہ میں عشق و محبت اور طنز و مزاح کی شاعری پر داد وصولے جانے لگے اور اردو پھر سے عوام کے سر چڑھ کر بولنے لگی۔ غزل کے بارے میں امان حید ر کا کیا نظریہ ہے وہ ان کی مندرجہ ذیل غزل سے ظاہر ہوتا ہے ۔ 

جو ہوش کھودے بس ایسی غزل کہی جائے

غزل کے شہرمیں ویسی غزل کہی جائے

تلاش کرتا ہوں الفاظ اُن کے جیسے ہی

ہے فکر ان کی ہی جیسی غزل کہی جائے

جناب میر کی غزلیں بھی یاد آنے لگیں

پھر ان کے حسن پہ ایسی غزل کہی جائے

یوں ان کے لب  پہ ہنسی آئے شاعرانہ سی

کچھ اس طرح سے بھی میٹھی غزل کہی جائے

تمہارے آنے سے دل باغ باغ ہونے لگا

تمہی بتاؤ کہ کیسی غزل کہی جائے

امانؔ نفرتیں پھیلی ہیں ساری دنیا میں

کہ اب تو درد کو سہتی غزل کہی جائے

مندرجہ بالا غزل کا ہر مصرع کہہ رہا ہے کہ اردو شاعری میں غزل کا مزاج کیا تھا اور ہر شاعر کیسی غزلیں کہنا چاہتا ہے ۔غزل کا اسلوب کیا ہو،ماحول کیا ہو، تغزل کا معیار کیا ہو،تاثر کیسا ہو الغرض غزل کی جو شناخت ہے اسی پر قائم رہنے کو ہی امان حید ر ترجیح دیتے ہیں ۔

اس پورے مجموعے کی ہر غزل اور گیت کے مطالعہ سے یہی احساس ہوتا ہے کہ موصوف نے بہت ہی کم لکھا ہے لیکن جو بھی لکھا ہے پختہ اور بہترین کے دائرے میں آتا ہے ، ایسا احساس نہیں ہوتا ہے کہ آورد کو برتا گیا ہے بلکہ آمد کی مکمل کیفیت نظر آتی ہے جس سے ان کے اشعار میں روانی کا پتہ چلتا ہے ۔ امید کہ ان کی یہ شعری کاوش قبولیت سے سرفراز ہوں ۔

امیرحمزہ 

دہلی 


No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...