Thursday 3 March 2022

فاروقی رباعیاں

 فاروقی رباعیاں 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

ameerhamzah033@gmail.com

غالب انسٹی ٹیوٹ میں دوبرس قبل دہلی کی تاریخی عمارتوں پر ایک سمینار ہورہا تھا اس وقت آخر میں بطور حاصل کلام ایک جملہ فضا میں آیا اور چھاگیا کہ ’’ مغلیہ عمارتیں محض عمارتیں نہیں ہیں بلکہ ان کی انفرادیت وعظمت ہی ان کو مغلیہ بناتی ہے۔‘‘ یہ بات ہربنس مکھیا نے کہی تھی یا کسی اور نے وہ مجھے اب یاد نہیں لیکن یہ جملہ ایسا چھایا کہ مغلیہ کی انفرادیت صرف عمارتوں ہی میں نہیں بلکہ تمام اشیا میں ظاہر ہوجاتی ہے ۔کچھ ایسا ہی معاملہ شمس الرحمن فاروقی کا ہے کہ ان کی انفرادیت صرف تنقید ، تحقیق ، فکشن یا شاعری میں ہی نظرنہیں آتی ہے بلکہ ان کا قلم جس صنف کے لیے بھی اٹھتا ہے وہ منفر د ہوجاتی ہے ۔ جب وہ تنقید کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو اپنی انفرادیت آپ قائم ہوجاتی ہے ، جب فکشن میں آتے ہیں تو وہاں بھی وقت پر غالب ہوجاتے ہیں ۔ یہی صورتحال شاعری کی ہے کہ اس میں بھی دیگر اصناف کی طرح اپنی انفرادیت خود بخود قائم ہوجاتی ہے ۔

 لیکن ان سب میں بھی ایک فطری عمل یہ وجود پاتا ہے کہ کئی زاویوں سے شناخت بنانے والے ہمہ جہت فردیا شخصیت کی شناخت کسی ایک غالب جہت کی وجہ سے غالب ہوجاتی ہے اور دیگر جہات پس پردہ چلی جاتی ہیں۔ یہی کیفیت فاروقی صاحب کے یہاں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ جب بھی ان کا نام ذہن میں آتا ہے تو ان کے تنقیدی نگارشات و تصورات لامتناہی کے طور پر سامنے آتے ہیں ، خاص کر شعر شور انگیز کے حوالے سے ۔ گویا ان کی بنیا دی شناختوں میں سے ناقد کی شناخت سب سے زیادہ غالب رہی ۔اس کے بعد فکشن نگاری میں وہ ناول نگار کے حوالے سے زیادہ جانے جاتے ہیں ۔ پھر شاعر کے طور پر ان کی خدمات کا ذکر آتا ہے ۔ اس ترتیب کو میں نے یوں ہی قائم نہیں کیا بلکہ فاروقی صاحب کی خدمات پر لکھی گئی تحریروں کا بغور جائزہ لیںگے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ سب سے زیادہ فلاں عنصر پر، پھر فلاں پرپھر جاکر شاعری پر ہیں۔ یعنی بطور شاعر ان کی شناخت تیسرے نمبر پر ہی آتی ہے ۔ یہ صرف ان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہر ایک بڑے فنکار کے ساتھ ہوتا ہے کہ جملہ نمایا ں عناصر میں سے کوئی ایک ہی ایسا عنصر ہوتا ہے جس پر سب کی نظر سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔

 شمس الرحمن فاروقی نے اگر چہ شروع میں فکشن کی جانب توجہ کی اور ایک فرضی نام سے تحریریں منظر عام پر آتی رہیں ۔ ان تحریروں پر لوگوں کوشک ہوا تو وہ شک ہی میں رہ گئیں کیونکہ جب راز کھلا تو ان مشکوک تحریروں کی اہمیت فاروقی صاحب کی مقبولیت کے ساتھ منطبق نہیں ہو پائی ۔ یہ معاملہ بھی صرف انہیں کے ساتھ نہیں رہا بلکہ ہر عظیم و مشہور شخصیت کے ساتھ لاحق رہا کہ ان کے نام سے لکھی گئیں فرضی تحریروں کو وہ مقام نہیں ملا جو اصل نام کی تحریروں کو حاصل ہوا۔ الغرض تحریروں کی قد روقیمت شخصیت کے ساتھ ہی نظر آتی ہے خواہ کیسی بھی ہو ۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے تنقید کے میدان میں قدم رکھا تب فاروقی کی فاروقیت نکھر کر سامنے آگئی ۔ اگر چہ وہ خود کو خلیل الرحمن اعظمی کا پیرو کار بتاتے رہے لیکن ان کی انفرادیت نے مرعوبیت کوکہیں بھی پنپنے نہیں دیا۔

 فا روقی اپنی راہ الگ ہی منتخب کرتے ہیں ۔ شاعری کی روایتی روش کو دوش پر رکھ کر اپنے وسیع مطالعہ سے کائناتِ لفظ و معانی کے عمل کو اپنے ذہن سے گوندھتے ہیں اور ان کو نئے ڈھب سے نئے اشکال و معانی میں قید کردیتے ہیں ۔ تخلیق میں وہ نئے معانی تشکیل کرنے کے کھیون ہار کے طور پر سامنے آتے ہیں جس میں شاعری و فکشن دونوں شامل ہیں ۔ فکشن میں افسانہ کا رنگ جدا ہوتا ہے جبکہ ناول کی وسعت میں وہ رنگ پھیکا نظر آتا ہے ۔شاعری میں آزاد ونثری نظم کا رنگ جدا ہوتا ہے اور غزلوں کا دیگر ۔ لیکن اگر خالص فاروقی کی تخلیقات کی بات کی جائے تو شاعری میں وہ بطور رباعی گو ، فکشن میں بطور ناول نگار اور تنقید میں شعر شور انگیزکی بناء پر منفرد نظر آتے ہیں ۔ ان انفرادی وجوہات کو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی ایک کلیہ ہی کسی کو نکھارنے میں معاون ہوتا ہے ۔ یہی یہاں پر صادق آتا ہے کہ شاعر میں وہ بطور رباعی گو اپنی انفرادیت آپ قائم کرتے ہیں کیونکہ ’’ چار سمت کا دریا ‘‘ ایک مکمل رباعیوں کا مجموعہ ہے اسی لیے فاروقی صاحب ایک مطلق شاعر سے زیادہ رباعی گوشاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں نظمیں ، غزلیں اور رباعیاں بھی ہیں لیکن وہ ان سے ایک مخصوص نظم و غزل کے شاعر کے طور پر سامنے نہیں آتے ہیں جیسا کہ رباعی کے ایک مکمل مجموعے سے ان کی شناخت ہوتی ہے ۔ 

فاروقی کی رباعیاں اس عہد میں سامنے آتی ہیں جب جو ش و فراق کی رباعیاں فضا میں چھائی ہوئی تھیں اور جدیدیت کا رجحان بھی اپنی جگہ برقرار تھا ایسے میں واضح طور پر سوال تو رہا ہوگا کہ شاعری میں غزل و نظم پر تو اس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں لیکن رباعی میں بھی یہ ممکن ہے کیا ؟ جس کی خصوصیت و فضا تصوف و اصلاح اور ترسیل ہے ۔ ایسے میں رباعی کے مزاج کو بدلنا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں فاروقی صاحب کی زیرکی کو محسوس کیجیے کہ انہوں نے اردو میں سب سے مشکل سمجھی جانے والی صنف سخن رباعی کو ہی ریاضی کا مرکز بنایا اور اپنے اولین شعری مجموعہ ’’گنج سو ختہ ‘‘ (۱۹۶۹) میں مناجات کے بعد رباعی ہی پیش نہیںکرتے بلکہ دیباچہ بھی رباعی ہی میں ہو تا ہے ۔ہمیں تو یہ معلوم ہی ہے کہ دیباچہ کیا چیز ہوتی ہے اور اس میں عموماً کیسی چیزیں لکھی جاتی ہیںلیکن اس کے اصول منزل من السماء بھی نہیں ہیں جو اسی پر چلا جائے بلکہ انسا ن نئے طریقے بھی وضع کرلیتا ہے تو اس دیباچہ کو ایک نئے انداز کا دیباچہ سمجھ لیں جو دو رباعیوں پر مشتمل ہے ۔ عموماًدیباچہ اظہار کے تمام روشن دریچوں کے ساتھ سامنے آتا ہے تاکہ مصنف کا قاری تک واضح پیغام پہنچ سکے ۔ لیکن دیبا چہ کی دونوں رباعیو ںمیں ان کا لہجہ اظہار کا نہیں بلکہ اخفا کا ہے ۔ اس پر جواب بھی فوراً ذہن میں آئے گا کہ جدیدیت کی شاعری میں اظہار کہاں ہے ، وہاں تو اخفاہی اخفا ہے ۔ تو یہاں آپ یہ سمجھ لیںکہ یہ ان کی شاعری کا فنی دیباچہ ہے جس میںانہوں نے اپنی شاعری کا عکس ان دو رباعیو ںمیں پیش کردیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

ہیں زخم صدا کہ جگمگاتے ہوئے باغ 

کالی لمبی ندی پہ روشن ہیں چراغ 

کوندی ہے منجمد فضا میں دیکھو

الفاظ کی تلوار معطر بے داغ 


ہر آگ کو نذر خس و خاشاک کروں 

ہر سیل کو برباد سر خاک کروں 

اے شیشہ آہنگ میں معنی کی شراب

کہہ دے تجھے کس درجہ میں بے باک کروں 

مذکورہ بالا دونوں رباعیوں میں اگر موضوع کو گرفت کرنے کی کوشش کریں تو پہلی رباعی کے پہلے مصرع میں ’’زخمِ صدا ‘‘ اور آخری مصرع میں ’ ’ الفاظ کی تلوار‘‘ سے مطابقت پیدا کرکے اس پوری رباعی کو ایک لڑی میں پروسکتے ہیں اور یہ معنی بحسن و خوبی اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کا یہ شعری مجموعہ مجروح آوازوں کا جگمگاتا ہوا باغ ہے جن کے الفاظ تلوار ہیں لیکن خوشبو دار اور بے داغ بھی ہیں ۔ 

اب دوسری رباعی کی جانب رخ کرتے ہیں تو اس میں احساس ہوگا کہ پہلی رباعی سے انہو ں نے جو سفر الفاظ سے شروع کیا تھا وہ اس رباعی میں معانی پر پہنچتا ہے اور یہاں پر شیشہ آہنگ کی ترکیب بہت ہی معنی خیز ہے ۔ آہنگ جو فضا میں قائم ہوتا ہے وہ شیشہ کی کیفیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس میں معنی کی شراب کو پیش کر تے ہیں جس کے چھلکنے کی کیفیت کسی سے مخفی نہیں ہے جو معانی کے ساتھ بھی لازم ہے ، اب آگے دیکھیے کہ معنی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ بتا تجھے کس درجہ بے باک کروں ۔اب غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ و معانی کے اس امتزاج سے ان کا دیبا چہ مکمل ہوتا ہے ۔

 ’’ گنج سوختہ ‘‘ میں مذکورہ بالا دونوں رباعیو ںسے پہلے ایک دعائیہ رباعی بھی ہے ۔


اک آتش سیال سے بھر دے مجھ کو

اک جشن خیال کی خبر دے مجھ کو 

اے موجِ فلک میں سر اٹھانے والے! 

کٹ جائے تو روشن ہو ، وہ سر دے مجھ کو 

اس دعائیہ رباعی کو جب فاروقی صاحب کی ذات سے دیکھتے ہیں تو ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ آتش سیال اور جشن خیال سے وہ مالا مال تھے ، آخر ی مصرع کی دعا ان کی شروع سے ہی مقبول رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو دنیا میں ان کی موجودگی میں بھی کوئی ایسا نہ تھا جن کی روشنی ان کے سامنے ان سے زیادہ ہو، خدا نے ان کو اس معاملے میں یکتا اور فرد فرید رکھا تھا ۔ اس مجموعے میں دو رباعیاں اور بھی ہیں ، ان میں ایک رباعی غیر خصی ہے ۔ رباعی کی بحث میں خصی اور غیر خصی کی اصطلاح بار بار آتی ہے ، اس کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ جورباعی جتنی قدیم ہو گی وہ غیر خصی ہوگی یعنی اس کے چاروںمصرعوں میں ردیف و قافیہ ہوگا ۔ لیکن ہر زمانے میں اردو وفارسی میں غیر خصی رباعیاں لکھی گئی ہیں ، جوش وفراق کے یہاں بھی ایسی رباعیاں ملتی ہیں ۔ فاروقی کی غیر خصی رباعی ملاحظہ فرمائیں :

اسرار کے دریائوں کا پانی ہے یہ رات 

مردار سمندر کی روانی ہے یہ رات 

بچپن کی سنی کوئی کہانی ہے یہ رات 

خوشبو سے بھر ی رات کی رانی ہے یہ رات 

 موضوعاتی طور پر اس رباعی میں رات کو انہو ں نے کئی انداز میں ایکسپلور کیا ہے کہ رات کو جس جس زاویے سے سوچیں وہ منطبق ہوتی ہے ،رات کے سحر کی وسعت ہر ایک پر عیاں نہیں ہوپاتی ، اس کے اندر سمانے والے رازہائے سربستہ سے پر دہ اٹھنا نا ممکنات میں سے ہے ، یہ ایک تصوراتی دنیا ہے جس کی ایک جھلک بچپن میں کہانی کی شکل میں ہمیں ملتی ہے۔ ان تصورات کی تصدیق سے پرے بس اتنا محسوس کریں کہ یہ جنس غیر مرئی ہے یعنی خوشبو سے بھر ی رات کی رانی ہے یہ رات ۔ 

ا س کے بعد ان کی رباعیوں کا مجموعہ’’ چار سمت کا دریا‘‘ کی جانب رخ کرتے ہیں جس میں رباعیوں کا رنگ دیگر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس میںفاروقی صاحب کا رنگ اتنا بھی واضح نہیں ہے جتنا ’’ گنج سوختہ ‘‘ میں ہے بلکہ کچھ اور دبیز رنگ ہے ۔ اس میں دیباچہ رباعی ہی میں ہے لیکن فاروقی صاحب کی نہیں بلکہ مرزا اسداللہ خاں غالب کی ایک فارسی رباعی اور EUGENIO MONTALE کا ایک اقتباس ہے ۔ یعنی یہاں انہوں نے اپنی جانب سے دیباچہ میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے ۔ 

اس مجموعہ میں کل پچھتر رباعیاں ہیں اور تمام رباعیاں جدیدیت کی فضا سے بوجھل ہیں ۔ اس کی پہلی ہی رباعی اس جانب غماز ہے کہ ہم زمین یعنی بحر کے غلام ہیں اور ہمیں اس پر لگے رہنا ہے اور اتفاق سے دوسری رباعی وہ ہے جس کا ذکر گنج سوختہ کے دیباچہ میں ہے ۔ فاروقی صاحب کو اگرچہ جدیدیت کا امام کہا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنی تخلیقی دنیا میں سفر کر تے ہیں تو مکمل طور پر روایت کے پاسدا ر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعہ کی تیسری رباعی میں اپنی بے تاب دعاؤں میں اثر مانگ رہے ہیں ، چوتھی ، پانچویں اور چھٹی رباعی بھی دعا سے تعلق رکھتی ہے ۔ 

کنجشک کو چیتے سا جگر دے دینا 

گل برگ کو بجلی کا ثمر دے دینا 

ہے سہل تجھے مگر ہے سب سے آساں 

بے تاب دعاؤں میں اثر دے دینا 

 کیا خوبصورت دعا ہے کہ پہلے کے دونوں مصرعو ں میں خدا کی قدرت کا ذکر ہے اور تیسرے مصرع میں لسانی خصوصیت مابین سہل و آساں کے بعد بے تاب دعاؤں میں اثر چاہنا ۔ 

نویں نمبر پر ہی وہ رباعی ہے جس سے اس مجموعہ کا نام ماخوذہے ۔ ذیل میں وہ رباعی ملاحظہ فرمائیں : 

تجھ سا نہیں دنیا میں کوئی تنہا آ 

امڈا ہے چار سمت کا دریا آ

یہ نیم شبی گنجان اتنی کب تھی 

مٹنے کو ہے تیری آواز پا آ 

اس رباعی کو موضوعاتی سطح پر کس خانہ میں رکھا جائے اس کے لیے واضح طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ، ایک زاویہ سے دیکھتے ہیں تو یہ ذات باری تعالیٰ سے ایک فریاد کے طور پر سامنے آتی ہے اور آخر ی مصرع کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ فراق کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور تنہائی کے خوف سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ پہلے مصرع میں جملہ خبر یہ و جملہ امر کے مابین سکتہ اختیار کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے مصرع میں ہے تو لفظ ’تنہا‘ سے کیا مرا د انہوں نے لی ہے یہ ہم پر واضح نہیں ہوتا۔ دوسرے مصرع میں لفظ ’ کا ‘ کا استعمال ’آ‘ کو استعانت سے خارج کردیتا ہے اور ہم سفر ی میں لے آتا ہے جس کا احساس چوتھے مصرع کے ’آ‘ سے بھی ہوتا ہے ۔ ’’ چار سمت کا دریا ‘‘ کو دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ رباعی کے لیے ہے جو چار مصرعو ں کے لیے بطور علامت ہے ۔ اس صورت میں لفظ ’ کا ‘ کو ہمیں ’ والا‘ کے معنی میں دیکھنا ہوگا یعنی چار سمتوں والا دریا ۔انہوں نے نام بھی یہی رکھا ہے تو ہمیں اس معنی سے قریب بھی ہونا پڑے گا ۔ لیکن رباعی کی جو فنی خاصیت ہوتی ہے متحد المعنی ہونا وہ اس سے مختلف ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ خیر چار سمت کا دریا میں مرکز الی الاجتما ع تو ممکن نہیں البتہ مرکز من الاجتماع کی حیثیت تسلیم کی جاسکتی ہے ۔ خیر یہ ان کی جدت ہے کہ ہمیں ہر مقا م و مصرع میں بعید سے بعید تر مفہوم کی جانب جانا پڑتا ہے ۔ 

 رباعی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا آخر ی مصرع بہت ہی پر اثر ہونا چاہیے یعنی ’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ والی کیفیت اس میں ہونی چاہیے اور ایسی کیفیت فارسی کی رباعیوں میں بخوبی پائی جاتی ہے ۔اس کیفیت کو فاروقی صاحب اس طور پرحاصل کر تے ہیں کہ آخر ی مصرع وہ فارسی کا لاتے ہیں جس سے یقینا ا س رباعی کی اہمیت اور قدر و قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس قسم کی ایک رباعی ملاحظہ ہو :

میں وقت کا بندی تھا رہائی کا ہے غم 

زنجیر شکستگی ہے صوت ماتم 

تھی بند سلاسل میں بھی ذلت لیکن 

آن درد دیگر کہ خنداں خوردم 

یعنی وہ ایک دوسرا درد تھا جسے میں نے ہنستے ہوئے پی لیا ۔ اس طریقے کے دیگر ان کے فارسی مصرعے کچھ اس طرح ہیں :

ع ’’در آتش سرد خفتہ بیند مرا‘‘

ع ’’بازندگی خویش چسا کردم من‘‘ 

ع  ’’صدہا ست سخن کہ کس بہ نا کس گوید‘‘

ع  ’’گلشن نہ دمد از خود یا را ں چہ کنند‘‘

ان تمام مصرعوں کوپڑھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس پنچ لائن کی رباعی کے چوتھے مصرعے میں ضرورت ہوتی ہے وہ فارسی کے ان چوتھے مصرعوں سے بخوبی مل جاتی ہے ۔ چوتھے مصرعے کی ایک اور خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ محاورہ بننے کی طاقت رکھتا ہو جو یہاں نظر بھی آرہا ہے ۔

 فاروقی صاحب کی رباعیو ں کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ جدیدیت کی دبیز چادر بچھی ہوئی ہے اور ہر مصرع میں ایک قسم کی علامت سے آپ کو سابقہ پڑے گا ۔ مثال کے طور پر دو رباعیاں ملاحظہ ہوں : 

کس خوف کا داغ ماہ وادید میں ہے 

کیا آنکھ ہے جو محاذ خورشید میں ہے 

کیسی ہے نسیم وہم اڑے ہیں چہرے 

کس سانپ کی آمد شب تجدید میں ہے 

 

دریا، دریا میں ناؤ کاغذ کا مکاں 

گردن، گردن آب گہر میں طوفاں 

کوئل، کوئل کی کوک پھولوں میں پھوار

آنکھیں، آنکھوں میں درد رفتہ لرزاں 

فاروقی صاحب نے جیسا کہ شروع میں لکھا تھا کہ میں تو بحر(اوزان) کا مزدو ر ہوں یعنی شاعری میرا کام ہے ، تو اس میں وہ کئی فنی تجر بے بھی کرتے ہیں جیسے مرزا دبیر کی طرح صنعت مہملہ و منقوطہ میں رباعیاں پیش کرتے ہیں ۔ فاروقی کی رباعیوں میں بادل، آنکھ، بر ق مسکن، نیلی بجلی، کالی آندھی ، وسعت افلاک ، بر گ ، رات، نیلا کہرا، نیلا آسمان ، جنگل، گنبدِ افلاک ، سرِ شب، گہرا نیلا رنگ ، رمِ شب، گھنے خواب ، بکھرے خواب ، حبس بھرے خواب ، نیل فلک ، جوئے خوںاور نیلم جیسے الفاظ نظر آتے ہیں جن کا تعلق علامات سے بھی ہے ۔ 

 فار وقی صاحب کے دوسرے شعر ی مجموعہ ’’ سبز اندر سبز‘‘ میں بائیس رباعیاں ہیں ۔ ان میں کچھ رباعیاں مکرربھی ہیں ، جیسے گنج سوختہ کی رباعیاں ،چار سمت کی دریا میں ہیں اسی طریقے سے ’’ سبز اندر سبز ‘ میں بھی ماقبل کے شعری مجموعوں سے رباعیاں رقم کی گئی ہیں ۔ اس شعر ی مجموعہ سے بھی بطور نمونہ ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں : 

گہراہوں لوٹ آؤں میں نے پوچھا 

دیکھا ہے بھول جاؤں میں نے پوچھا

ان آنکھوں کو کھولے ہوئے ہے پنجہ شیر

آنکھوں کو چھوڑ آؤں میں نے پوچھا 

 اب رخ کرتے ہیں ’’آسماں محراب ‘‘ کی جانب اس میں دیگر اصناف سخن کے ساتھ ان کی رباعیاں بھی ہیں ۔ اس مجموعہ میں انہوں نے رباعیوں کو عناوین کے تحت بھی تقسیم کیا ہے ۔ پہلی رباعی کسی عنوان کے تحت نہیں ہے لیکن اِ س رباعی کا رنگ دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو رنگ گنج سوختہ اور چارسمت کا دریا میں اپنا یا گیا ہے وہ اس میں نہیں ہے ۔ رباعی کچھ اس طرح ہے :

سرگوشی تیری سر بازار سنوں 

جنگل کی زبانی تیرا اقرار سنوں 

تو گہری ناگن سے خموشی میں مجھے 

اک بار بلائے تو میں سوبار سنوں 

اس رباعی میں مخاطب کی کیفیت کا اظہار ہے اور شاعر ہی مخاطب ہے ۔ شدت و تڑپ کس ذات کے لیے ہے وہ مخفی ہے ۔ اس اخفا کو ہم بین المتونی جدیدیت کی اخفائی صفت میں شمار کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد سات تضمینی رباعیاں پیش کی گئی ہیں اور وہ ساتوں رباعیاں شیخ فخر الدین عراقی، شیخ فرید الدین عطار، استاد ابوالفرج رونی، شیخ ابوسعید ابو الخیر ، مو لانا صوفی مازندرانی ، میرزا عبدالقادر بیدل اور ایک نامعلوم کی رباعی پر ہے ۔ پہلی رباعی جو عراقی کی ہے اس میں دو اردو مصرعے فاروقی کے ہیں اور فارسی کے آخر کے دونوں مصرعے عراقی کے ہیں ۔ دوسری رباعی عطار کی ہے جن میں دو مصرعے اردو اور دو فارسی میں ہیں ، چوتھا مصرع عطار کا ہے جو ان کی رباعی کا تیسرا مصرع ہے ۔ تیسری رباعی نامعلوم کی ہے اس میں بھی دومصرعے اردو کے ہیں اور دو فارسی کے ۔ اسی طریقے سے بقیہ تضمینات میں بھی دو مصرعے اردو کے اور دو فارسی کے ہیں ۔

 تضمینی رباعیو ںکے بعد ایک ایک رباعی’ ’ رباعی ۲۰۰۱‘‘ کے عنوان سے ہے جب کہ کتاب ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی۔اس کے بعد چار لالچ بھری رباعیاں ہیں اور اتفاق سے چاروں میں عناوین بھی ہیں ۔نشان کی چار سمتیں ، رنگ کے چار رنگ،لوائح اربعہ اور مسیحائے شوق ان کے عناوین ہیں ۔ مسیحائے شوق کی رباعی دیکھیں : 

خار آہن ہوں برگ زر ہوجاؤں 

سوکھی کھیتی ہوں چشم تر ہوجاؤں

ہلکا سا ترے پاؤں پہ یہ چوٹ کا داغ

میں چھولوں اس کو تو امر ہوجاؤں 

اس رباعی کو اگرچہ انہوں نے لالچ بھری میں رکھا ہے لیکن آپ غور سے دیکھیں تو تمنا ئی رباعیاں زیادہ محسوس ہوںگی۔ خیر!

اس کے بعد جہاں ہم پہنچتے ہیں وہ ہے فاروقی کی پکی عمر کی رباعیاں ، آخر فاروقی صاحب کو ان رباعیو ںمیں پکی عمر کا عنوان لگانے کی ضرورت کیوں پڑی یہ سوال خواہ زیر بحث نہ آئے لیکن اس میں انہوں نے جس قسم کی رباعیاں پیش کی ہیں اس سے آپ سوچ سکتے ہیں کہ جدیدیت کے بہاؤ میں انہوں نے ’’چار سمت کا دریا ‘‘ میںجس نوعیت کی رباعیاں پیش کی ہیں یقینا وہ رباعی کے مزاج کی حامل نہیں ہیں بلکہ ان میں ظاہر ی طور پر ہر مصرع ایک الگ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور چاروں مصرعوں سے ایک ہی کیفیت تو نظر آجاتی ہے لیکن چاروں مصرعوں کے امتزاج سے کوئی ایک پیغام دیا جارہا ہویہ نظرنہیں آتا ۔ تمام رباعیوں کے تمام مصرعے علامت کی دبیز چادر کے تلے دبے ہوئے ہیں ، جب کہ پکی عمر کی رباعیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی رنگت کچھ اور نظر آتی ہے :

جو عقل کے جھانسے میں نہ آئے وہ ہے دل 

جو من مانی کرتا جائے وہ ہے دل 

اک بوند گنہ پر سو قلزم روئے 

پھر ناکردہ پر پچھتائے وہ ہے دل


شیطان کسی طرح یہ مرتا ہی نہیں

بندے سے نہ مالک سے ڈرتا ہی نہیں 

گم نامی و ذلت کے بھی غاروں سے عمیق

دل ایسا جہنم ہے کہ بھرتا ہی نہیں 

ان رباعیوں کو پڑھنے کے بعد آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ یہ تو فاروقی صاحب کا رنگ نہیں ہے ۔ یہ تو کسی ناصح اور صوفی شاعر کا کلام محسوس ہورہا ہے ۔ لیکن آپ کو معلوم ہوگا کہ رباعی نے سب سے زیادہ اپنے اندر اسی رنگ کو پایا ہے ۔ رباعی کا یہ رنگ آپ کو درد ، انیس و دبیر ، حالی و اکبر ، شاد، یگانہ ، رواں اور جوش کے یہاں بھی ملے گا ۔اب مضمون کے آخر میں یہاں پر پروفیسر ابو بکر عباد کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کر نا چاہوں گا : 

’’ اپنے ہم عصروںمیں فاروقی صاحب تنہا قابل رباعی گو شاعر کی شناخت رکھتے ہیں ۔ رباعیوں میں بھی ان کی فنی مہارت اور قادرالکلامی حد درجہ نمایاں ہے ۔ انھوں نے بیشتر مروجہ اوزان پر رباعیاں کہی ہیں اور فارسی کے اساتذہ شعرا کے دودو مصرعو ں پر اردو کے دودو مصرعے لگاکر رباعی کو ایک نئی تضمینی شان سے روشناس کرایا ہے ۔ فاروقی صاحب کی رباعیوں کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ ان میں گہرا ابہام اور دبیز اسرار ہوتا ہے ۔ ایسا شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی رباعیوں میں اخلاقی اور فلسفیانہ مضامین کے ساتھ ساتھ بالعموم اس میں وہ اپنا ایک جدید فکری رنگ بھی شامل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رباعی کا آہنگ اور اس سے قاری کی روایتی انسیت قدرے مختلف معلوم ہونے لگتی ہے ، سو اسے بھی تعمیر ی جدت سے تعبیر کرنا چاہیے ۔ لالچ بھری رباعیاں اور پکی عمر کی رباعیاں اس کی عمدہ مثالیں ہیں ۔‘‘

 استادمحتر م کی اس تحریر سے کلی اتفاق ممکن نہیں ہے ۔ اول یہ کہ فاروقی صاحب اپنی زندگی میں بھی قابل رباعی گو شاعر کی حیثیت سے کل شناخت نہیں حاصل کرپائے تھے ، البتہ فاروقی صاحب عروض داں تھے اور رباعی کا ان مجموعہ تھا اور اس عہد میں انہوں نے رباعیاں کہی ہیں جب اردو میں رباعی کے شاعر خال خال ہی پائے جاتے تھے لیکن فاروقی صاحب اپنی ہی رباعیوں کی وجہ سے یہ شناخت نہیں حاصل کر پائے اس کی وجہ اردو رباعیوں کے مزاج ومنہاج سے پرے ان کی رباعیوں کا ہونا ہے جو موضوعاتی و فنی طور پر بھی روایتی و جدید موضوعات کی شاعری میں مقبول نہ ہوسکی ۔ استاد محترم کی اس بات سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں کہ فاروقی صاحب کی رباعیوں میںگہرا ابہام اور دبیز اسرار ہوتا ہے ۔ اس لفظ اسر ار کو ان رباعیوں کی زبان ولفظیات کو دیکھتے ہوئے پُر اسرا ر پر محمول کریں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔ ا ن کے یہاں اخلاقی مضامین یہی پکی عمر کی رباعیو ں میں ہے اور فلسفیانہ مضامین تو نہیں البتہ فلسفیانہ رنگ ہے ، مطلب زبان فلسفیانہ ہے ، وہ اس طرح کہ ماقبل کے مجموعوں میں جو رباعیاں پیش ہوئی ہیں وہ مضامین سے عاری ہیں۔ وہ اس طور پر کہ ہر مصرع اپنے اندر ہی مکمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے ، جہاں رنگ ، عکس اور تصور کا گزر ہے نہ کہ ماقبل کے مصرع سے مل کر آخر ی مصر ع بہت پتے کی بات کہہ رہا ہے ۔ الغرض فاروقی صاحب کی رباعیاں بالکل منفر د نوعیت کی حامل ہیں جو یقینا اردو رباعیات کے مزاج و منہاج سے بہت مختلف ہے ۔ 

 شروع کے پیرا گراف میں میں نے ایک بات لکھی تھی کہ فاروقی صاحب کی جملہ تحریریں اپنے اندر مکمل انفرادیت رکھتی ہیں، وہ آپ رباعیوں کے حوالے سے بھی سمجھ چکے ہوں گے ۔


No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...