Thursday 3 March 2022

شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعی

 شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعی 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جو اپنے وجود سے لیکر اب تک سب سے زیادہ مذہب سے قریب رہی ہے ۔ فارسی زبان میں جب رباعی کی شروعات ہوئی تو اس وقت اسلام پور ے خطہ میں پھیل چکا تھا اور مذہبی تعلیمات ومعاملا ت داخل و خارج زندگی میں پوری طر ح سرایت کر چکی تھی۔ اب تک کا تحقیق شدہ قول یہی ہے کہ رباعی کی شروعات تیسری صدی ہجر ی میں ہوئی تا ہم جب پانچویں صدی ہجر ی میں خیام اس صنف سخن کو اپنا تا ہے اور اس کو کمال تک پہنچاتا ہے تو وہ اس میں موضوعات کے اعتبار سے سب سے زیادہ فلسفہ زندگی کو جگہ دیتا ہے اور خدا سے فلسفیانہ اندازمیں تعر یف کے ساتھ مناجات بھی کر تا ہے ۔رباعی ہی وہ صنف سخن رہی ہے جو خانقاہوں میں سب سے زیادہ پلی بڑھی ۔بلکہ جس جس معاشر ے میں رباعی پلی بڑ ھی اس معاشر ے کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی ۔ صوفیائے کر ام کی محفلوں میںرہی تو حمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی ۔فارسی کے کئی رباعی گو شعرا کی صحبت میںجب پہنچی تو حکمت وفلسفہ کے آب حیات سے سر شار ہوئی ، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس کی پاکیزہ خیالی اور بلندی مضامین ، اکبر و حالی کی اصلاحی پاسداری ، امجد کا حکمت وفلسفہ ، جو ش میں الفاظ کے دبدبہ الفاظ و مناظر فطرت ، فر اق کی جمالیا ت و سنگھار رسسے اس نے اپنے آپ کو  خوب سنوارا۔اسی کو ڈاکٹر سلام سندیلوی نے ان الفاظ میں کہا ہے ۔

’’ولی کی معرفت نے ، میر کے عشق نے ، درد کے تصوف نے ، غالب کی معنی آفرینی نے ، انیس و دبیر اور رشید کے رثائی خیالات نے ، حالی واکبر کی اصلاحیات نے، جوش کی انقلابیت نے اور فراق کی سنگھار رس نے رباعی کو ایک سنجید ہ لب و لہجہ عطا کیا ۔ان حضرات کی رباعیات میں گہری سنجیدگی اور عمیق تفکر کی فضا پائی جاتی ہے ۔‘‘ 

( اردو رباعیات، سلام سندیلوی، ص ۵۷۵)ۙ

اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیاہے اور ان کی عکاسی کی ہے ۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودمخصوص موضوعات میں پابند نہیں کیا ۔رباعی میں اگر چہ اخلاقی ،مذہبی ، اصلاحی ، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ رہے ہیں لیکن دیگر تمام ممکنہ موضوعات رباعی میں پائے جاتے ہیں۔رباعی میں یہ لچک رہی ہے کہ وہ جس طر ح سے ہر زمانہ میں زندہ رہی اسی طر یقے سے موضوعات کو قبول کرنے میں کبھی بھی کوتا ہ دست نہیں رہی ۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ نئے موضوعات کے آنے کی وجہ سے پرانے موضوعات سر دبستہ میں چلے گئے ہوں بلکہ تمام موضوعا ت نئے رنگ و ڈھنگ میںشعرا کی مشق کی زینت بنتے رہے ہیں اور حمد ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی قدیم اور فرسودہ نہیں ہوسکتا ۔ حمد کے متعلق علما ء کیا کہتے ہیں ہلکی سی نظر اس پر ڈالتے ہیں ۔

 نووی کہتے ہیں ’’خدا تعالی کی ذات و صفات اور ان کے افعال کو زبان سے بیان کر نا حمد کہلاتا ہے ۔ اللہ تعالی کی تعریف کر نا ان کے انعامات کے اوپر شکر کہلاتا ہے ۔ اس طر یقے سے ان کے نزدیک ہر شکر حمد کے دائرہ میں آجاتا ہے اور حمد شکر کے دائر ے میں نہیں ہے آتا ہے ۔ حمد کا ضد ذم ہے اور شکر کا ضد کفر ہو تا ہے‘‘ ۔

ابن حیان کہتے ہیں ’’حمد اللہ تعالی کی تعر یف بیان کر نا ہے صرف زبان کے ذریعہ سے ۔ اور لسان کے علاوہ جن چیزوں سے ان کی بزرگی کا اظہار کیا جائے گا وہ حمد نہیں بلکہ شکر یہ کہلائے گا ۔‘‘ 

امام رازی کہتے ہیں ۔’’حمد : اللہ تعالی کی تعریف بیان کر نا ہے ہرنعمت پر خواہ وہ نعمت تعر یف بیان کر نے والے تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو ۔ اور شکر اللہ تعالی کی انعامات پر تعر یف بیان کر نا اس طور پر کہ وہ انعامات تعر یف بیان کر نے والے اور شکر ادا کر نے والے تک پہنچے ہوں ۔ 

حمد میں محبت اور عظمت میں محمود کی تعر یف بیان کر نا ہے ۔ یعنی جس میں محبت اور عظمت کا عنصر موجود ہو حمد کہلاتا ہے 

شکر میں محض تعر یف بیان کر نا ہوتا ہے خواہ دل میں عظمت ہو یا نہ ہو ۔‘‘(تر جمہ از معجم الشامل )

الغر ض لغوی اعتبار سے حمد مطلقاً زبانی تعریف کو کہتے ہیں خواہ وہ نثر میں ہو یا شعرمیں۔ اس طریقہ سے حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو او رخدا کی ذات اور صفات کا اس طر ح ذکر کیا جائے کہ اس میں اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہو اور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے قلبی تعلق بھی ظاہر ہوتا ہو۔ خواہ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہویا انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے ۔اس میں کائنات کی وسعتوں کے ذریعے رب کی بڑائی کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا اظہار ہو۔ سب حمد کے دائرہ میں آتا ہے ۔ اللہ نے قرآن میں ہی ذکر کر دیا ہے کہ’ ’ اللہ ہر دن ایک نئی شان میں نظر آتا ہے ‘‘ اسی طر ح سے بندے کے اندر بھی یہ صفت ودیعت کی ہے کہ اس کی بھی حالت ہمہ وقت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔لسانی طور پر بھی جب کسی سے بات کر تا ہے تو ہر وقت الگ الگ لہجہ اپنا تا ہے اگر لہجہ الگ الگ نہیں بھی اپنا سکا تو انداز الگ الگ ہو تاہے اور خدا کی تعریف میں جب رطب اللسان ہوتا ہے تو نئے نئے طر یقے اورلفظیات سے اس کی تعریف کرتا ہے ۔ اسی طر یقے سے ابھی جب شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعیوں پرنظر ڈالیں گے تو اس میں بھی تنوع نظرآئے گا ۔

رباعی کا تعلق کبھی بھی موضوعاتی پابندیوں سے نہیں رہا ہے ۔ شروع سے ہی اس صنف سخن نے اپنے اندر علم و حکمت ، فلسفہ و حسن اور اصلاح و تصوف کے موضوعات کے ساتھ دیگر موضوعات کو بھی اپنے دامن میں بہت خوبصورتی سے سجائے رکھا ہے ۔ ساتھ ہی صوفیائے کرام نے خدا کی ذات و صفات کو سب سے زیادہ رباعیوں میں ہی بیان کیا ہے ۔ رباعی کی ابتدا سے لے کر اب تک تقریبا تمام رباعی گو شعرا کے یہاں حمدیہ رباعیاں مل جاتی ہیں ۔ اس کورباعی کی خوش نصیبی کہہ لیں کہ کئی شعرا اپنے شعری مجموعوں کی شروعات رباعی اور وہ بھی حمدیہ رباعی سے کرتے ہیں ۔ 

 روایت کی پاسداری کرتے ہوئے شمیم انجم وارثی نے بھی حمدیہ رباعیاں کہی ہیں ۔یہاں ان کی حمدیہ رباعیوں کا جائزہ لیں گے اس سے پہلے ان کے متعلق کچھ ر قم کرتا چلوں ۔جب میں اپنا ایم فل کا مقالہ رباعیوں پر لکھ رہا تھا تب ان کا رباعیوں کا دیوان ’’ورق ورق شمیم ‘‘ سے متعارف ہوا ۔ میں بھی ادب میں نووارد تھا اس لیے میں بہت کچھ نہیں جانتا تھا، وقت گزرتا گیا اور ان کو مختلف پلیٹ فارم پرپڑھتا رہا کہ اسی در میان گزشتہ برس ان کی رباعیوں کا دوسرا مجموعہ ’’ قطرہ قطرہ مشک ‘‘ سے بھی روشناس ہوا ۔ پھر جب دونوں کتاب کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا تب معلوم ہوا کہ موصوف ارد و رباعیوں کی سیاحی بہت عرصے سے کررہے ہیں لیکن ان کا دیوان بہت بعد میں منظر عام پر آیا اور ان سے قبل بنگال کے کئی شعرا کے مجموعے سامنے آگئے ۔ رباعیوں سے قبل دیگر اصناف میں ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ اتفاق سے ان کا پہلا شعری مجموعہ نعت پر تھا اور تادم تحریر جو آخری مجموعہ ہے وہ بھی مدحیہ اصناف پر ہے ۔ سب سے پہلے ’’ورق ورق شمیم ‘‘ کی رباعیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس میں انہوں نے کیسی حمدیہ رباعیا ں کہی ہیں ۔واضح رہے کہ متذکرہ بالا کتاب بصورت دیوان ہے، اس لیے اس میں موضوعاتی ترتیب نہیں ہے توجب مکمل دیوان پر نظر ڈالتے ہیں تو درج ذیل رباعیاں سامنے آتی ہیں جنہیں متذکرہ بالا تعریفات کے سانچے میں مدحیہ میں رکھ سکتے ہیں ۔ 

تیرا ہے فلک ، تیری زمیں ہے یارب 

قدرت پہ تیری عین یقیں ہے یارب 

ہے ناز جبیں سائی مجھے جس کے حضور 

وہ تیرے سوا کوئی نہیں ہے یارب


جو فصل بہاراں پہ چڑھی ہے رنگت 

جو قلب گل تر میں بسی ہے نکہت

حکمت نہیں انسان کی اس میں کوئی 

یہ کار عجوبہ ہے خدا کی قدرت 


ہے تو ہی ازل اور ابد یا اللہ 

ہے تو ہی احد ا ور صمد یا اللہ 

مجھ سے ہو تری حمد و ثنا نا ممکن

معلوم ہے مجھ کو مری حد یا اللہ 


ہر گوشہ عالم میں دھمک تیری ہے 

 ہر پھول کی سانسوں میں مہک تیر ی ہے 

ہر سو ہے ضیا بار ی ترے جلووں کی 

مہر و مہ انجم میں چمک تیر ی ہے


میں قطرہ ہوں اور لطف کا دریا تو ہے

ہر منزل مقصود کا رستہ تو ہے 

کس منہ سے حمد کروں تری ربِّ کریم

میں بندہ ناچیز ہوں مولا تو ہے 


پھولوں میں بسی ہے جو مہک تیر ی ہے 

لاریب! ستاروں میں چمک تیری ہے 

پوشیدہ ہر اک شئے میں ہے جلوہ تیرا

ہر دل میں جو اٹھتی ہے کسک تیری ہے 

 ان رباعیوں کے علاوہ اور بھی کئی رباعیاں تھیں جن کے شروع کے مصرعوں میں حمدیہ عناصر تھے اور چوتھا مصرع دعائیہ تھا توانہیں یہاں میں نے شامل نہیں کیا ۔ ان چھ رباعیو ں پر نظر ڈالیں تو پہلی میں ربوبیت ، دوسری میں خلاقیت ، تیسر ی میں عجز عن الحمد ، چوتھی میں وحدۃ الشہود ، پانچویں میں وحدۃ الوجود ، ایصال الی المطلوب اور عجز عن الحمدبھی ہے ۔ آخری رباعی پر نظر ڈالیں تو وہ بھی وحد ۃالشہود کی شہادت دے رہی ہے ۔ ان رباعیوں سے حمد کے طریقوں پر نظر پڑتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر خدا کی حمد میں کس صفت کو سب سے زیاد ہ سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے۔ حمد کا یہ بھی خوبصورت طریقہ رہا ہے کہ اس کی ذات کی تعریف کے لیے ہم عاجز ہیں جس کا ذکر خدا نے خود ہی قرآن پاک میں کیا ہے’’ قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ‘‘(سمندر کور وشنائی تسلیم کرلیں تب بھی خدا کی تعریف مکمل نہیں ہوپائے گی اور سمندر خشک ہوجائے گا) اسی عجز کو خوبصورت انداز میں بیان کرنا بھی حمد کے دائرے میں آتا ہے ۔ اب ان رباعیوں کے آخر ی مصرع پر نظر ڈالیں جن سے رباعی کی عمدگی کا پیمانہ طے ہوتا ہے کیونکہ رباعی میں آخر ی مصرع جتنا جاندار و شاندار ہوتا ہے رباعی بھی اسی معیار کی ہوتی ہے ۔ آخر ی مصرع مکمل ایک اکائی کی کیفیت کا طلبگار ہوتا ہے جس کے بعدوہ ضرب المثل بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔یہ رباعی کی عمدہ سے عمدہ ترین ہونے کی نشانی ہے ، ظاہر ہے یہ تمام رباعیوں میں ممکن نہیں اور نہ ہی تمام شاعروں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اس کیفیت کو مد نظر رکھ کر رباعیاں کہیں۔ البتہ فارسی رباعی گوئی میں یہ صفت غالب تھی جس کا نتیجہ ہے کہ عمومی تلاش سے بھی فارسی کے مصرع ضرب المثل کی صورت میں مل جاتے ہیں ۔ اردو میں اس کیفیت کی جانب توجہ ہی نہیں دی گئی ساتھ ہی شہر ت کی بات ہے کہ یہاں غزل کے مصرعوں کو جو شہرت ملی وہ دیگر اصناف کے مصرعوں کو نہیں مل سکی ۔ موصوف کے درج ذیل مصرعوں پر نظرڈالیں   

ع ہے اور حسینوں میں کہاں حسن نمک

ع ہم ان پہ فقط مرتے رہیں گے کب تک 

ع ایمان پہ مر تا ہے خدا کا عاشق 

ع مٹتا نہیں دشمن کے مٹانے سے عشق 

 ایسے اور کئی مصرعے مل جائیں گے جو یقینا ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جس شعر ی معاشرہ میں ہم جی رہے ہیں اس میں ایسی قسمت ہر کسی کو نہیں ملتی لیکن فن تو بہر حال فن ہے کبھی نہ کبھی تو اس جانب تو جہ دی جائے گی اور وہ اس وقت توجہ دی جائے گی جب عمدہ رباعیوں کا انتخاب ہوگا تو اس وقت موضوعات سے زیادہ اس عنصر پر توجہ دی جائے گی کہ کون سی رباعی کی کیفیت ’’از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘والی ہے ۔ 

  حمدیہ رباعی کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ’’قطرہ قطرہ مشک ‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں جو 2021 کے آخر ی مہینوں میں منظر عام پر آئی ہے ۔ یہ رباعیوں کا مجموعہ ہے جس میں تقدیسی رباعیاں پیش کی گئی ہیں ۔ان تقدیسی رباعیات میں حمدیہ ، نعتیہ اور منقبتیہ رباعیاں ہیں ۔ منقبت میں حضرت علی ؓ، حضر ت فاطمہ ؓ، حضرت امام حسن ؓ، حضرت امام حسین ؓ، حضرت عباس ، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت صابر کلیر ی ، حضرت سید اشر ف جہانگیر سمنانی ، حافظ وارث علی شاہ ، حضرت حاجی علی شاہ ،حضرت بو علی شاہ قلندر، حضور غوث بنگالہ ، حضرت نظام الدین اولیا ، حضرت امیر خسرو ، حضرت بیدم شاہ وارثی ، دیوانہ شاہ وارثی ، امام احمد رضا خاں و دیگر کئی اور بزرگان دین اس میں شامل ہیں ۔ 

حمدیہ رباعیات کی تعداد چھتیس ہے ۔اس میں انہوں نے تنوع لانے کی کوشش کی ہے ۔ زیادہ تر رباعیاں دعا سے تعلق رکھتی ہیں ۔ حمد و دعا لاز م و ملزوم کی صورت میں اکثر مقامات پر سامنے آتے ہیں ۔ اس میں پہلے دوسرے اور تیسرے مصرعے میں خدا کی حمد ہوتی ہے اور چوتھے مصرعے میں دعا ۔ بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو :

قرآن ہے انعام ترا رب کریم 

پر نور ہے پیغام ترا رب کریم 

جس وقت مری روح بدن سے نکلے 

ہونٹوں پہ رہے نام ترا رب کریم 

شروع کے دونوں مصرعے شکریہ کے ہیں جنہیں حمد کے زمرے میں بھی رکھا جاتا ہے تیسرا مصرع گریز کی بہترین صفت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور چوتھے مصرع میں دعا ہے ۔ بطور فن یہ ایک خوبصورت رباعی ہے ۔ بطور حمد بھی انہوں نے ذات خداوندی کی صفات کو پیش کیا ہے ۔حمد کے زمرے میں ہی انہوں نے ایک خوبصورت رباعی تحریر کی ہے جو حسن تعلیل کی سی کیفیت کے ساتھ سامنے آتی ہے :

 کلیوں کی زبان پر ہے سدا یا اللہ 

پھولوں نے بصد شوق پڑھا یا اللہ 

لاریب !ہواؤں نے لیا ہے بوسہ 

جب ریت پہ لہروں نے لکھا یا اللہ 

 حمدیہ رباعیات میں شمیم انجم وارثی نے اچھی کوشش کی ہے ۔ واضح رہے کہ تصوف سے حمدکا رشتہ بہت ہی قر یب کا رہا ہے ، کلاسیکی شاعری میں خدا کی ذات و صفات کو لے کر عمدہ شاعری کی گئی ہے ۔ واقعی میں اردو شاعری میں اس جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی بلکہ بقول پروفیسر مقبول احمد مقبولؔ:

’’تقدیسی شاعری کو بعض ناقدین کم نگاہی سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی شاعری میں عام طور پر کہنے کے لیے کچھ نہیں زیادہ ہوتا نہیں ۔ وہی بندھے ٹکے خیالات ہوتے ہیں جن میں عقیدت و احترام کا عنصر غالب رہتا ہے ۔ گویا یہ فضائے محدود ہے جس میں مرغ تخیل کو پرواز کا کوئی زیادہ موقع نہیں مل پاتا ۔ اسی لیے شاعری کے امکانات بھی کم اور بہت کم ہوتے ہیں ۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہر زمانے میں اور ہر زبان میں ایسی شاعری لکھی ، پڑھی اور سنی جاتی رہی ہے ۔ ‘‘

یہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر تقدیسی شاعری کی جانب بہت ہی کم تو جہ دی گئی ہے لیکن کلاسیکی شاعری کی جانب تو جہ کریںگے جو صوفیہ کے رنگ میں رنگی ہوتی تھی تو ان میں آپ کو احساس ہوگا کہ حمد کی تمام جزئیا ت کو سمیٹتے ہوئے کس قدر عمدہ شاعری کی گئی ہے خواہ وہ دیگر کسی بھی اصناف میں ہوں ۔ آخر میںڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی کے ایک اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ، موصوف لکھتے ہیں : 

’’ شمیم انجم زندگی کے کسی مخصوص نظر یے کے حامی نہیں ہیں ۔ ان کی رباعیات میں خارجیت کی کار فر مائی زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات مخصوص فضا اور محدود دائرے میں گردش کر تی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ شمیم انجم نے زندگی کا مطالعہ و مشاہدہ کھلی آنکھوں سے کیا ہے ۔ اس لیے زندگی کے محبوب و مخصوص مناظر و مظاہر کا اظہار ان کے یہاں پایا جاتا ہے ۔‘‘ 

متذکرہ بالا پانچوں جملے ادبیت سے معمور ہیں ، پہلے جملے میں ادبی نظر یے میں جانبداری کی نفی ہے ، جو اب شاید و باید ہی کسی نئے تخلیق کار کے یہاں پائی جاتی ہو ، البتہ مسلکی و مذہبی نظر یے کا عکس تخلیقات میں جھلک ہی جاتا ہے ، خو اہ فکشن ہویا شاعری ۔ دوسرے جملے میں خارجیت کی بات ہے جو اب تقریباً تمام کے یہاں پائی جاتی ہے ۔ تیسرے جملے میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس سے قبل کا تفصیلیہ جملے کے طور پر درج ہے جس میں انہو ں نے مخصوص فضا اور محدود دائرے کی بات کی ہے اس اختصاص و تحدید کا اطلاق یقینا ’’ قطرہ قطرہ مشک ‘‘ کی فضا پر ہے اور اس فضا پر یقینا ماضی میں جو شاعر ی کی گئی ہے اس کا تعلق خارجیت سے نہیں بلکہ داخلیت سے ہوتا تھا ۔آخر کے دونوں جملے بھی ان کی شاعری کو محدود فضاسے نکال رہے ہیں اور ان کی شاعری میں جو حسن و عشق کے موضوعات پائے جاتے ہیں ان کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔الغرض موصوف کی رباعیات کی بات کی جائے تو انہوں نے نئے موضوعات کو بہتر انداز میں پیش کر نے کی عمدہ کو شش کی ہے ۔ موجودہ وقت میں جو بھی شعرا رباعی گوئی کی جانب مائل ہیںان میں کوئی اعلیٰ اور نہ کوئی ادنیٰ ہے ۔ تمام کے یہاں ایک جیسے ہی موضوعات پائے جاتے ہیں ، البتہ شمیم انجم وارثی کا اختصاص ہے کہ انہوں نے تقدیسی شاعری میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دی ہے جو وقت حاضر میں ان کا امتیاز ہے ۔




No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...