Thursday 3 March 2022

شہزادہ پرویز عالم


 شہزادہ پرویز عالم


یہ میری بد قسمتی تھی کہ ڈاکٹر اقبال برکی سے اس کتاب سے پہلے کسی قسم کی بھی شناسائی نہیں تھی ۔ انہوں نے نہیں معلوم کہاں سے میرا نمبر حاصل کیا اور واٹس ایپ کے ذریعہ میرا حالیہ پتہ دریافت کیا ، تب بھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ کون صاحب ہیں اور کیوں میرا پتہ دریافت کررہے ہیں ۔ خیر جب ان کی یہ تینوں کتابیں مجھ تک پہنچی تو خوشی ہوئی ۔ جب اس میں بچوں کا ناول ’’شہزادہ پرویز عالم ‘‘ دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی ۔ بچوں کی کہانیاں لکھنے والے ادیبوں کی کثر ت ہے لیکن بچوں کے لیے ناول لکھنے والوں کی تعدا د شاید دس تک بھی نہیں پہنچتی ہو ۔ کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام نے خارجی مطالعے کو بچوں کے نظام الاوقات سے بالکل خارج کر دیا ہے اور دلچسپی نے کچھ اور راہ اختیار کرلی ہے ۔ حقیقت ہے کہ اب بہت ہی کم ادب بچوں کے لیے لکھا جارہا بلکہ بچوں کا ادیب بننے کے لیے بچوں کا ادب لکھا جارہا ہے ۔ صاف سی بات ہے مسئلہ قاری کا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب قاری ملکی سطح پر ملتے تھے ۔ ابھی اگر صرف مالیگاؤں کی بات کی جائے تو وہاں تقریبا ًبیس ایسے افراد مل جائیں گے جو بچوں کا ادب لکھ رہے ہوں گے لیکن اگر بچوں کے درمیان ان تخلیق کاروں کے بارے میں معلوم کیا جائے تو جواب صفر میں آئے گا ۔ بچوں کی بات الگ گزشتہ سال ہی میر ی کتاب( ادب اطفا ل ۔ ادب اور ادیب) پر شکایت کرتے ہوئے ایک صاحب نے یہ کہا کہ اس کتاب میں مالیگاؤ ں کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اور انہوں نے دو تین کتابوں اورمقالات کا ذکر کیا جن میں باضابطہ مالیگاؤں میں ادب اطفال پر خصوصی اور کافی تحریریں موجود ہ ہیں۔ ساتھ ہی انہوںنے اپنے طور پر مالیگاؤ ں کے دس اہم ادیبوں کا ذکر کیا جن میں اتفاق سے ڈاکٹر اقبال برکی کا نام شامل نہیں تھا جب کہ صرف بچوں پر ان کی تقریباً پندرہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں پھر بھی ان کا نام نہ ہونا اب مجھے باعث تعجب لگا ۔
خیر یہ ان کی آپسی بات ہے ۔
کتاب ملنے کے دو دن بعد کل جب یہ کتاب پڑھنا شروع کیا تو دلچسپ کہانی کے باعث پڑھتا ہی چلا گیا ہے اور اس 128 صفحات کو عصر سے رات سونے تک وقفہ وقفہ سے پڑ ھ کرجب مکمل کیا تو خاصہ سرو ر اور سکون ملا، یہی اس کتاب اور ادب کی کامیابی ہے کہ وہ آپ پر کوئی تاثر چھوڑجاتی ہے اور تھکاتی نہیں ہے ۔( زبانی سطح پر آج مجھ پر ایک انکشاف یہ ہوا کہ گزشتہ زمانے میں دلی اور لکھنؤ کی زبان ہوتی تھی لیکن آج اکیسویں صدی میں یونیورسٹیوں کی نثر ی زبان بھی کچھ اسی قسم کی ہے ، جہاں ایک مشہور یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ایسی نثر لکھتے ہیں جس کے ہر جملے میں خشک نظر یے نظر آتے ہیں ، حتی کہ تعزیتی تعزیتی پیغام میں بھی تجریدیت ، علمیت اور جرمن عربیت کی بنت سے چاشنی سے خالی تحریر لکھ جاتے ہیں اور اس میں انہیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ معاون حروف کا معاون افعال سے رشتہ غلط مقام پر قائم ہورہا ہے ۔ وہ اردومیں عربی زدہ زبان کے خلاف رہے ہیں لیکن عربی الفاظ کو دُم بُرید کر کے وہ اپنے لیے نئے اسلوب کی دنیا تلاشتے ہیں ۔ اس کاسابقہ تو ابھی پڑا لیکن سرا تلاش کرنے کے لیے دماغ پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ یونیورسٹی کے کورس میں بطور ریفرینس بک اسی یونی ورسٹی کے ایک فاضل کی کتاب داخل تھی باوجود تمام کوشش کے ایک صفحہ کیا ایک پیرا گراف بھی نہیں پڑھاگیا۔وہی حال اب بھی جاری ہے ) جب آپ عمدہ زبان پڑھیں گے تو وہ آپ کو تھکائے گی نہیں بلکہ فرحت بخشے گی ، ساتھ ہی ان کے یہاں جملے رواں دواں ملیں گے ۔ اسی وجہ سے آپ کو زبان سیکھنے کے لیے انشاپردازوں کی کتابوں کی جانب رہنمائی کی جائے گی ۔ جہاں زبان کی چاشنی آپ کو بھر پور انداز میں ملے گی ۔ )ناول نگاروں کی طرح بیچ بیچ میں اپنی کھوپڑ ی سے زبر دستی فلسفہ نما جملوں کو داخل کر نے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ اسلوب بالکل سادہ اور دلچسپ ہے زبان بالکل عام ہے جو ساتویں کلاس کا بچہ آسانی سے سمجھ سکے ۔
کہانی کا مکمل حصہ تو نہیں لیکن کچھ حصہ مافوق الفطری عناصر پرمشتمل ہے جو بچوں کوبہت زیادہ لبھاتی ہے ۔ شروع میں تخلیق کار نے اپنی بات شامل کر نے کی ایک مقام پر کوشش کی لیکن فوراً ہی کہانی پر واپس آگئے ۔ پھر آگے کہیں ایسا دیکھنے کو نہیں ملا ۔ بچوں کو باندھے رکھنے والاکر دار بدصورت لڑ کی کا کردار ہے ۔ خوبصورت شہزادے کی کہانی میں کسی مقصد کا حصول نہیں ہے بلکہ مقصد تو اس لڑکی کی کہانی میں ہے جس کے حصول میں قاری بھی لگا رہتا ہے ۔ایک زبر دست کمال اقبال برکی اس کتاب میں یہ نظر آئی کہ انہوں نے قاری کو کسی کردار کا ہمدرد بنانے کی کوشش نہیں کی جو عموما غیر شعوری طور پر فن کا ر کرجاتے ہیں کہ قاری کرجاتے ہیں بلکہ یہ ان کا ہنر بھی ہے کہ ساری توانائی کسی ایک کردار کو سنوارنے میں صرف کردیتے ہیں پھر قاری سے پوچھتے ہیں کو آپ کو کون ساکردار اچھا لگا ، ایسے میں قاری کے پاس ایک ہی کردار کے علاوہ دوسرے کردار کی گنجائش بھی نہیں بچتی ہے ۔ خیر ! کہانیوں میں ٹارگیٹ کا ذکر کرجانا قاری پر قابو پانے کا ایک خوبصورت حربہ ہے ، جو اس طرح بھی نہ کیا جائے کہ خبر بن جائے اور نہ اس طرح کیا جائے کہ قاری پر منشا ء کا اظہار بھی نہ ہوسکے ۔ کہانی میں زبان بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ بیانیہ ( یہ لفظ میں شاید پہلی مر تبہ استعمال کررہاہوں ) میں قاری پر کہانی میں موجود ہونے کی کیفیت طاری کرنے کے لیے ہمیشہ حال کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ جس سے قاری ’’ ہوتا تھا ‘‘ سے نکل کر ’ہوا ‘ اور ’ہوتا ہے‘ میں آجائے ۔ جیسے ماضی کے اظہار کے لیے آپ دوجملے لکھیں گے ایک بہت پرانے زمانے کی بات ہے دو سرا بہت پرانے زمانے کی بات تھی ۔لا محالہ پہلے سے قاری اٹیچ ہوجائے گا اور دوسرے سے نہیں ہوپائے گا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر مقام پر آپ ایسا معاملہ کریں بلکہ متن کی جہری قرات سے آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ کی زبان پر کیا اچھا لگ رہا ہے ۔
پر وف ریڈر کے پیشہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھ میں ایک خراب عادت یہ آن پڑی ہے کہ حرف بحرف پوری تحریر پڑھتا ہو ں اور قلم زد بھی کرتا جاتا ہوں، اس کتاب میں بھی کئی مقام پر عطف میں کوتاہی نظر آئی ، جہاں کا ما سے خوبصورتی آتی وہاں حرف عطف اور وصل کے استعمال نے کچھ اچھا نہیں کیا ۔ جملوں میں لفظ ’’ تھا‘‘ کئی مقام پر زائد نظر آیا ، ایسی چند اور چیز یںد یکھنے کو ملیں جن پرغور کیا جاسکتا ہے لیکن کہانی کے پلاٹ ، ارتقا ء اور اختتام پر کوئی کلام نہیں ۔ اس کتاب سے احساس ہوا کہ یقینا آپ ایک عمدہ کہانی کار ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...