Thursday 3 March 2022

دہلی میں ادب اطفال کے اشاعتی مراکز

 دہلی میں ادب اطفال کے اشاعتی مراکز 

 امیر حمزہ 


  یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں تخلیق کا کوئی ادارہ نہیں ہوتا جہا ں تخلیق کار پیدا کیے جاتے ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہی ادارہ مینوفیکچر ہوتا اور سپلائر بھی۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکا کہ کمپنیو ں کی طرح اشاعتی اداروں کے نام سے کتابیں بک رہی ہوں بلکہ ہمیشہ تخلیق کار کے نام سے ہی کتابیں بازار میں دستیاب ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ادیبوں کو شناخت دینے میں اشاعتی اداروں کا اہم کردار رہا ہے۔ گویا اپنے فن کو پیش کرنے کا یہ عمدہ پلیٹ فارم انہیں ملا ہوا ہے۔ اگر کسی ادیب کی کوئی کتاب ایک چھوٹے سے ادارے نے شائع کی اور وہ فورا ًمالی اعتبار سے کامیاب ہوگیا تو پھر اسی ادارے کی فرمائش ہو تی تھی کہ اب آپ دوسری کتاب کی تیاری میں لگ جائیں۔ اسی طریقے سے کئی ادیب شہر ت کی بلندیوں تک پہنچ گئے جن کے بارے میں ہم بخوبی جانتے ہیں۔ سلسلہ وار تحریریں لکھنے والوں کے نام اس فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جن کی تحریریں اشاعتی اداروں کے پلیٹ فارم سے کثیرافراد تک پہنچیں اورانہوں نے اپنے حلقہ کو وسیع تر بھی کیا۔

کچھ ایساہی معاملہ ادب اطفال کا بھی ہے کہ چنندہ اداروں نے اپنے مخصوص ادیبوں کو تھام لیا اور ان کی کتابوں سے انہیں بہت منافع حاصل ہوا ، نتیجتاً وہ ادارے ان کی کتابوں کی وجہ اور ادیب ان اشاعتی اداروں کے ذریعے پہچانے گئے۔ اس کے لیے مثال کے طورپر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی کو پیش کر نا چاہوں گا جس نے مائل خیرآبادی اور افضل حسین کی کتابیں شائع کیں۔ اسی طریقہ سے بچوں کی درسی کتابیں شائع کرنے والے پرائیویٹ میں الجمعیۃ ہے جو اپنی ہی کتابوں پر منجمد ہوکر رہ گئی۔ لیکن باضابطہ جس ادارے نے ادب اطفال کو فروغ دیا اور اس نے کئی ادیب بھی پیدا کیے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مکتبہ جامعہ لمیٹد ہے۔ اس ادارے کا قیام ہی ڈاکٹر ذاکر حسین نے بچوں میں کتابوں کے فروغ کے لیے کیا تھا، جس میں سب کی ذمہ دار ی بھی طے ہوگئی تھی کہ کون کیا لکھے گا۔ یعنی انہوں نے باضابطہ ایک تجربہ گاہ بنایا ساتھ ہی اشاعت کا مرکز بھی۔
 خیر یہ تو تکنیکی بات ہوئی کہ کون کس تکنیک پر عمل کرتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بچوں کا ادب کیسے فروغ پاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دہلی ہندوستان کا مرکز رہا ہے اور سیاحتی اعتبار سے جامع مسجد جہاں پر ہندوستان بھر سے لوگ آتے ہیں اور یہاں کی چیزوں سے ان کی نظر یں ٹکراتی ہیں جہاں اردو بازار بھی تھا اب بازار ہے لیکن اردو نہیں۔ ایک زمانہ میں صرف پرانی دہلی میں 210 اور نئی دہلی میں 225 ایسے کتب خانے تھے جو اردو کی کتابیں بیچتے تھے۔ لیکن ان کے زوال کا معا ملہ یقینا سپلا ئی کا نہ ہونا ہے۔ اُس زمانے کی بچوں کے لیے لکھی گئی تحریرو ں کی بات کریں تو بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں جو کہانیوں اور نظموں پر مشتمل تھیں۔ ان کو الگ سے شائع نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس کمی کو اس وقت کے رسالے پورا کررہے تھے جس میں شمع گروپ کا ’کھلونا‘ سب سے مشہور تھا۔ وہ رسالہ عام اردو گھروں کی ضرورت کو پوری کردیتا تھا ،باقی دیگر جتنے بھی ادارے تھے، سب مذہبی اور نیم مذہبی کتابوں کی اشاعت میں لگے ہوئے تھے کیونکہ ان کی مارکیٹنگ اچھی تھی۔ ایسے میں ادب اطفال کے اعتبار سے وہی ادارے معتبر ہوئے جنہوں نے بچوں کے لیے کتابیں شائع کیں اور اپنے لیے تجارت کا ذریعہ بھی پیدا کیا لیکن ایسے ادارے بہت ہی کم نظرآتے ہیں۔ البتہ ابھی جو چنندہ ادارے ہیں اور ان کے یہاں بچوں کے لیے خصوصی طور پر کتابیں شائع ہوتی ہیں ان متحرک و فعال اداروں میں قومی کونسل ، نیشنل بک ٹر سٹ ، اردو اکادمی دہلی ، مکتبہ جامعہ ، الحسنات، نرالی دنیا اور مر کزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ہیں۔
بچوں کی کتابوں کی دو دھارائیں بہتی ہیں ایک مذہبی اور دوسری غیر مذہبی۔ دونوں کے اشاعتی اداروں کے معاملات بھی الگ  الگ ہیں۔ جو غیر مذہبی کتابیں شائع کرتے ہیں وہ عموماً سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ہیں۔ سرکاری اداروں میں مراعات ملنے کے باوجود عام کتابوں کی قیمت کم نہیں ہوپاتی ہے جبکہ نجی پبلشرزجو زیادہ تر مذہبی کتابیں شائع کرتے ہیں، وہ کم قیمت پر کتابوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ایسے میں ادب اطفال کا کتنا فروغ ممکن ہے وہ آپ سمجھ سکتے ہیں۔
اردو اکادمی دہلی،دہلی کا قدیم ترین ادارہ ہے، جہاں عمدہ طباعت کے ساتھ ’ماہنامہ امنگ‘ پابندی سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی جملہ 185 طباعتوں میں سے صرف 12 کتابیں ادب اطفال کی ہیں۔ جب کہ پبلی کیشن ڈویژن کا اردو سیکشن بہت مختصر ہے لیکن وہاں بھی 100 سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں پھر بھی 10 سے زیادکتابیں بچوں کے لیے ہیں۔
قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو ، ہندوستان کی سطح پر اپنا ایک منظم اشاعتی ڈھانچہ رکھتا ہے۔ اس نے تقریباً ہر فن پر کتابیں شائع کی ہیں جن میں سے ترجمہ اور غیر ترجمہ دونو ں ہیں۔ جدید کیٹلاگ کے مطابق کل 1381 ٹائٹل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے یہاں ادب اطفال کا ایک بہترین گوشہ ہے، جس میں قسم قسم کی کتابیں شامل ہیں لیکن ادب اطفال کے کل ٹائٹل کی تعداد 354 ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ باعتبار فروختگی اس سیکشن کا سرکو لیشن زیادہ ہے اور باعتبار موضوعات پورے ہندوستان میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ لیکن کل سرکو لیشن کی بات کی جائے تو ہندوستان کے دیگر اداروں میں اس کی بچوں کی کتابیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کونسل ہی بتاسکتی ہے۔البتہ ’بچوں کی دنیا‘ کا سرکلوشین پچاس ہزارتجاوز ہوجاتا ہے جو قابل تعریف ہے۔
 اب آتے ہیں ’نیشنل بک ٹر سٹ‘ پر جو ہندوستا ن کا معتبر اشاعتی ادارہ ہے جہاں سے ہندوستان کی تقریباً ہر زبان میں کتابیں شائع ہوتی ہیں، اس کے موجودہ کیٹلاگ کے مطابق 422 اردو کے ٹائٹل چھپے ہیں، جن میں سے تقریبا ً 350 کتابیں بچوں کے لیے ہیں۔ اتفاق سے اکثرکتابیں ترجمہ شدہ ہیں۔ یہ کتابیں شائع تو ہوچکی ہیں لیکن دیگر تجارتی مراکز پر بالکل بھی نظر نہیں آتی ہیں۔
 ’مکتبہ جامعہ‘ ہندوستان کا قدیم ترین اشاعتی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے ایک لمبا سفر طے کیاہے، اس کی دو ذیلی شاخیں بھی ہیں، جو اب کسمپر سی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ادارے نے اب تک تقریباً 6000 ٹائٹلس چھا پےہیں، اس ادارے کو ’یونیسکو‘ کی جانب سے پریس بھی ملا جو ’لبرٹی پریس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن ایک عرصے سے یہ بند پڑا ہوا ہے۔ اس ادارہ کی بوانہ میں اپنی زمین بھی ہے۔ ایک زمانہ میں اپنی نشریات کی وجہ سے بہت ہی زیادہ فائدہ میں چلنے والا ادارہ، اب خود بوجھ سا بن گیاہے۔ پروفیسر خالد محمود کے زمانے میں قومی کونسل سے ایک قرار داد کے مطابق نشاة ثانیہ کی کیفیت نظر آئی مگر اب پھر اس کی وہی حالت ہے۔ ا ن چھ ہزارکتابوں میں ایک اندازے کے مطابق نصف کتابیں تو بچوں کے لیے ہی ہوںگی ،مگر اب شاید ہی ان کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہو۔
 نجی اداروں میں ’فرید بک ڈپو‘ نے اب تک گیارہ ہزار ٹائٹلس شائع کیے ہیں، ایک اندازہ کے مطابق ان کے یہاں بھی بچوں کی کتابیں ہزاروں میں ہوں گی لیکن ان میں سے اکثر کا تعلق مذہبیات سے ہے۔ ہزاروں تاریخی اور اسلامی کتابیں اس ادارہ نے بچوں کے لیے شائع کی ہیں۔ مگران کی فائل کاپیاں بھی ان کے پاس اب نہیں ہوں گی جس سے ان مصنّفین کا پتہ لگا یا جائے۔اس ادارے کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ گاؤں دیہات میں جو جلسے ہوتے ہیں یا چھوٹے شہروں میں جو کتب خانے ہوتے ہیں، ان کو یہ کتاب سپلائی کرتے ہیں اور ہر موضوع پر انھیں سستی سے سستی کتابیں دستیاب کراتے ہیں۔ اس طرح دور دراز علاقوں میں ان کی کتابیں پہنچ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس ادارے نے ’جیبی کتابیں‘ بھی بہت زیادہ شائع کی ہیں جس کا فائدہ یہ ہوا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے کتابوں کی جانب راغب بھی ہوئے۔ الغرض اس ارادے نے مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے لحاظ سے اپنی تجارت کارخ تبدیل کیا، جس کے سبب مشہورمصنفین کے علاوہ غیرمشہورمصنّفین کی تصنیفات تک عام قاری کی رسائی ہوسکی ۔
 ’ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس‘بہت ہی بڑا ادارہ ہے اور دہلی میں اس کا دفتر سب سے عالیشان ہے لیکن ’بحق ناشر‘ والی کتابیں اس کے پاس بہت ہی کم ہیں۔ اکثر کتابیں ’بحق مصنف‘ والی ہیں۔ اس سے سمجھ سکتے ہیں، اس کی اولیت کتاب کی نشرو اشاعت نہیں بلکہ طباعت ہے۔اس کا ایک ذیلی مکتبہ بھی ہے، جس کے تحت وہ بچوں کی ادبی اور دیگر مذہبی کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔
 ’اسلامک بک سروس‘ ایک مشہور ادارہ ہے، جہاں سے صرف اسلامی کتابیں نشر کی جاتی ہیں۔ان کتابوں میں بالغین کے علاوہ کچھ کتابیں بچوں کے لیے بھی ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اس کی کتابیں منظم طریقے سے پہنچتی ہیں۔مگراسے بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے والے ادارے کی شناخت حاصل نہیں ہے۔

آج کل ’الحسنات‘ (دہلی) کی کتابوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔پاپولرموضوعات پر کتابیں شائع کرنا اس کی اوّلیت ہے۔ بچوں کے لیے قسم قسم کی اسلامی و ادبی کتابیں شائع کرکے یہ ادارہ اپنی شناخت بنارہا ہے۔ ایک ٹیم ورک کی طرح کام کرنے کی وجہ سے اسے جاذب نظر اورخوب صورت کتابیں شائع کرنے میں نہ صرف مددملتی ہے بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہاہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی ایسے ادارے ہیں جو انفرادی طور پر بچوں کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ان میں ایک قابل ذکرنام ’ہنی بُکس‘ کاہے۔ اب تک یہاں سے آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔


 


No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...