یائے مجہول: لفظ ، حرف یا علامت
ڈاکٹر امیر حمزہ
جس طرح کوئی زبان اچانک وجود میں نہیں آتی ہے اسی طرح سے کسی بھی زبان کا رسم الخط بھی اچانک وجود میں نہیںآتا ۔ پہلے زبان اپنا تشکیلی دور طے کرتی ہے ، اسی دورمیں وہ کسی رسم الخط میں ڈھلنا ہونا شروع ہوتی ہے اور اسی تشکیلی دور میں حروف تہجی کی بھی تشکیل شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ کسی بھی زبان میں لازمی نہیں کہ وہ زبان جن اصوات کی نمائندگی کرتی ہے اس کے حروف تہجی بھی انہی اصوات کی نمائندگی کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیے جائیں ۔ ایک ہی صوت کے لیے کئی حروف بنتے ہیں یابن سکتے ہیں ، جبکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی صوت کے لیے کوئی ایک تنہا حرف بھی نہیں ملتا تو اس کے لیے مرکب حروف کی مدد لینی پڑتی ہے ۔یہ کہانی ہر زبان کی ہے ۔ اردو میں بھی یہی صورت حال ہے جہاں حروف تہجی کی دنیا الگ اور اصوات کی دنیا الگ ہے ۔ اردو زبان کی یہ خوش نصیبی رہی ہے کہ اسے اکثر حروف عربی اور فارسی سے مل گئے ۔ عربی سے ا، اب ، ت ، ث ، ج ، ح ، خ ،د ، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، ک، ل، م ، ن ، و، ہ، ی۔ اٹھائیس حروف عربی سے مل گئے۔ فارسی سے چار حروف پ، چ ، ژاور گ مل گئے ۔ ہمزہ مختلف فیہ ہے ،لیکن میں اسے حر وف تہجی میں شکلا و صوتاً دونوں اعتبار سے شامل مانتا ہوں، تو کل تینتیس حروف تو ماقبل کی زبانوں سے ہی مل گئے ۔ باقی تین حروف ہم نے تین مقامی آوازوں کے لیے ٹ، ڈاورڑ تشکیل دیے۔ کل ہوگئے چھتیس حروف تہجی ۔ اب بھی ایک حرف باقی ہے جو ’ے‘ ہے ،یہ ہمارے یہاں بہت بعد میں ابتدائی قواعد کی کتابوں میں شامل ہوا ۔بقول محمد انصاراللہ
’’یاے معرو ف اور مجہول کا مسئلہ بھی عربی اورفارسی میں اس طور پر نہیں ہے جس طرح اردو میں ہے ۔ انیسویں صدی کے وسط تک اردو میں بھی ان کو الگ الگ حرف کی حیثیت حاصل نہ تھی البتہ قرائن اس بات کے ملتے ہیں کہ اُس وقت اِن دونوں میں فرق کا احساس عام طور سے پیدا ہوچکا تھا ۔اُس صدی کے ربع ثالث میں ان کوالگ الگ حرف کی حیثیت حاصل ہوگیی تھی ۔‘‘(اردو کے حروف تہجی ، محمد انصاراللہ ، 1972 ،ص:36)
اس اقتباس سے واضح ہورہا ہے کہ 1860-70 میں اسے حروف تہجی کے طور استعمال میں لایا گیا ۔ لیکن میں جس بحث کی جانب بڑھ رہا ہوں وہ کچھ مختلف ہے ، میں اس سوال کوحل کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ جب تمام حروف صوتی طور مصمت ہوتے ہیں اور ہرحروف کی اپنی الگ اور منفر دشناخت ہوتی ہے تو یائے مجہول کس شناخت کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہے اور جب وہ اپنی شناخت میں گم ہو جاتی ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یائے مجہول بطور حرف تہجی کوئی حرف ہے ، بطور لفظ کوئی لفظ ہے یا بطورعلامت کوئی حرکت ہے ؟ ان تینون کی بنیادی باتیں پہلے جان لیتے ہیں ۔ لفظ وہ ہوتا ہے جو اپنے اندر معنی رکھتا ہے ، جیسے آنا سے آ بھی ایک لفظ ہے ۔ حرکت زبر زیر اور پیش کو کہتے ہیں یہ کسی نہ کسی حرف پر ہی آتی ہیں یہ تنہا کبھی بھی عمل نہیں کرتیں ۔ علامت اس میں جزم ، مد، کھڑا زبر اور کھڑی زیر الٹا پیش اور تنوین وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بھی کسی نہ کسی حرف پر ہی آتے ہیں ۔ ان سے یہ واضح ہوگیا کہ حر کات اور علامات حرف پر ہی آتی ہیں ۔
اس بحث کی جانب بڑھنے کی وجہ یہ ہوئی کہ جب اردو کے مختلف دانشوروں کے یہاں ’ ے‘ پرمختلف تجربات دیکھے تو مجھے تشویش ہوئی کہ ضرور کسی زمانے میں اس پر آفت آئی ہوگی۔ اس لیے ’ے ‘ اپنی شناخت کے لیے آج بھی پر یشان حال ہے۔اس مسئلہ کی تلاش کے لیے سب سے پہلے بچوں کے قاعدے کی تقریبا پندرہ کتابوں پر نظر ڈالی تو سبھی جگہ پریہ اپنی شکل میں’ے‘ ی کے بعد موجود ہے ۔ہمارے یہاں کے جتنے بھی لسانی علماء گزرے ہیں اتفاق سے ان سبھی کے یہاں یہ حروف تہجی میں شامل ہے ۔کسی نے بھی اسے حروف تہجی سے خارج نہیں کیا ہے ۔ لیکن میری پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب اسے حرف، لفظ اور علامت (حرکت )تینوں صورتوں میں مختلف مقامات پر مستعمل پایا۔ حرف کے طور پر آپ جانتے ہی ہیں جیسے آئے ، گئے وغیرہ میں ’ے ‘ہے۔
بطور لفظ اس کا استعمال اب تک کہیں بھی میری نظر سے نہیں گزرا تھا لیکن ظفرکمالی نے اپنی رباعیوں کے دیوان میں خطاب کے لیے ’اے ‘ لفظ/ حرف مخاطب کے لیے صرف ’ ے ‘ لکھا ہے ۔’’ے موت بتاوفات کیا ہوتی ہے ‘‘ (خاک جستجو، ظفرکمالی ، عرشیہ پلی کیشنز،ص:231) اب تک میری دانست کے مطابق اردو کا سب سے چوٹا لفظ ’ ’آ‘ ‘ تھا ۔ (اگرچہ مہذب زبان میں آؤ، آئیے اور آئیں استعمال ہوتا ہے )لیکن یہ ’ ے‘ میرے لیے سراسرچونکانے والا معاملہ تھا کہ اسے بطور لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے ۔
یائے مجہول حرف کے طور پر جس طرح استعمال ہوتا ہے اس تعلق سے ہم سبھی جانتے ہیں ۔یعنی جب ہمیں آئے، گئے ، جیسے ، کے لیے اور کیلے لکھنا بولنا ہوتا ہے تو ہم یائے مجہول استعمال کر تے ہیں۔ سبھی میں یائے مجہول بطور شکل واضح طور پر نظر آتی ہے لیکن آخری مثال ’کیلے ‘ میں دو یائے مجہول لفظاً ہیں مگر شکلاً ایک ہی نظر آتی ہے ۔ یہاں پر یہی دھیان میں رکھنا ہے کہ ایک ہی لفظ میں دو یائے مجہول استعمال ہوئی ہیں لیکن پہلے کی شکل محض’ ی‘ کی ہے جبکہ دوسرے میں یائے مجہول ہی ہے۔یہاں واو کی طرح ایک ہی شکل مجہول و معروف دونوں کے لیے مستعمل نظر آرہی ہے ۔
یائے مجہول علامت اضافت کے طور پر بھی مستعمل ہوتا ہے اور یہ ان لفظوں میں آتا ہے جن کے آخر میں الف ہواو ر اس لفظ میں اضافت کی ضرورت پیش آجائے تو درمیان میں یائے مجہول لکھتے ہیں جیسے ، رہنمائے دکن‘ تو اس تعلق سے اکابرین ادب کے کیا نظر یات ہیں اس پر نظر ڈالتے ہیں :
غالب یائے تحتانی کے سلسلے میں مرزا تفتہ کو ایک خط میں تین قاعدے لکھتے ہیں، جن میں سے پہلا وہ یائے مجہول ہے جو جزو لفظ ہے۔ جب کہ دوسرا وہ ہے جو اضافت میں استعما ل ہوتا ہے۔ اسی میں وہ یائے مجہول کی حقیقت بیان کرتے ہیں میں یہاں وہی حصہ پیش کرنا چاہوں گا ۔ غالب لکھتے ہیں:
(ب) دوسری یا تحتانی مضاف ہے۔ صرف اضافت کا کسرہ ہے۔ ہمزہ وہاں بھی منحل ہے، جیسے آسیاے چرخ یا آشناے قدیم - توصیفی، اضافی، بیانی، کسی طرح کا کسرہ ہو ہمزہ نہیں چاہتا۔ فداے تو شوم، رہنماے تو شوم، یہ بھی اسی قبیل سے ہے۔‘‘ (بحوالہ ، حروف تہجی : تشکیل و ردتشکیل ، صباح الدین احمد ،ص: ۸۔عرشیہ پلی کیشنز ، دہلی )
اس اقتباس میں ایک جملہ ’’ صرف اضافت کا کسرہ ہے ‘‘ بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔یہا ں غالب صاف لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ اضافت میں یائے مجہول محض کسرہ کے مقام پر فائز ہے ۔ لیکن سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ جب حرکات کا اطلاق حرف کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے تو پھر یہاں یائے مجہول اگر اضافت کا کسرہ ہے تو وہ کسرہ کس حرف کا ہے ؟ یا اسے قدیم املا پر محمول کریں جہاں پر پیش کے لیے کہیں کہیں واو لکھا جاتا تھا۔ اگر ایسا ہے تواس کے لیے بھی ماقبل میں کوئی حرف درکار ہوگا۔ جیسے اُس کا قدیم املا اوس تھا جس میں واو الف کے تابع تھا ۔ایسے میں اس یائے مجہول کو کس کے تابع رکھیں گے ۔
اردو لغت بورڈ کا فیصلہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ یائے مجہول پر کس نوعیت کا تجربہ روا رکھتے ہیں :
’’(ک) الف یا واؤ پر ختم ہونے والے عربی اور فارسی الفاظ کے مضاف ہونے کی حالت میں جو بڑی ’ے‘ علامت اضافت کے طور پر آتی ہے اس پر ہمزہ نہیں بنایا گیا، جیسے: ’ابتداے کار‘،’عدوے حق‘،’ سراے فانی‘، ’جوے خوں‘ وغیرہ۔‘‘(اردو لغت ، تاریخی اصول پر ،ترقی اردو بورڈ کراچی ، ص: ذ)۔
یہاں انھوں نے صاف لکھ دیا کہ ’ے ‘ علامت اضافت طور پر آتی ہے ۔ گویا یہ علامت ہے ۔ لیکن اردو میں تو علامت اضاف صرف اور صرف زیر ہی ہے اور یہ بھی ہم نے بعینہ فارسی سے لیا ہے ، پھر یہ فیصلہ کب صادر ہوا کہ اردو میں زیر کے علاوہ یائے مجہول بھی علامت اضافت ہے ۔ ہاں ہمارے یہاں جملوں کے لیے حرف علامت کا ، کے اور کی ہیں۔
گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :
’’ اگر مضاف کے آخر میں الف، واویا یائے مجہول ہے تو اضافت ئے سے ظاہر کرنی چاہیے: صدائے دل، نوائے ادب‘‘ (املا نامہ ۸۶: )
یہاں ہمزہ اور یائے مجہول دونوں علامت اضافت کے لیے استعمال ہورہے ۔آخر کیوں ؟ دو حرف ایک ہی کام کے لیے کیوں استعمال کیے جائیں ؟پھر یہ سوچنا ہوگا کہ یہاں کون سا حرف ہے اور علامت اضافت کے متبادل کے طور پر کسے استعمال کیا گیا ہے ۔ اس سے ہمارا سوال تو قائم ہوتا ہے، لیکن اس سوال کا جواب گوپی چند نارنگ اسی کتاب کے اسی صفحہ پر کچھ یوں دیتے ہیں: ’’ اگر مضاف کے آخر میں ہائے خفی ہے تو اضافت ہمزہ سے ظاہر کرنی چاہیے : خانۂ خدا ، جذبہ ٔ دل ‘‘ ۔ ان دونوں سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ دونوں میں قدر مشترک ہمزہ ہے تویہاں معلوم ہوا کے اضافت کا عمل ہمزہ سے ہورہا ہے ۔ گویا اس سے یہ واضح ہو تا ہے کہ یائے مجہول اور ہائے خفی علامت اضافت نہیں ہیں ۔
اردو املا کے مسائل کا حل میں غلام رسول املا کے مسائل کا سوال و جواب کے انداز میں تحریر فرماتے ہوئے گیارہواں سوال اس طرح قائم کرتے ہیں.
سوال: آیا اضافت کے وقت ان الفاظ کے بعد جن کے آخر میں الف یا واد ہے، بڑی (ے) کے بغیر ہمزہ لکھنا چاہیے؟ مثلاً: داناے روزگار، خوے دوست، علماے کرام (واضح رہے کہ اکثر اہل علم عربی کے ان الفاظ میں جن میں ہمزہ پایا جاتا ہے، ہمزہ کے نیچے کسرہ دے دیتے ہیں۔ جیسے: علماء کرام، ابتداء آفرینش وغیرہ)۔
جواب : ایسے الفاظ، جن کے آخر میں الف یا و او آئے، ان کو اضافت کی صورت میں ہمزے کے ساتھ بڑی (ے) بڑھا کر لکھنا چاہیے۔ اس کے برخلاف جو عمل ہے وہ بے قاعدہ ہے۔ صحیح املایوں ہے، جیسے: دانائے روزگار، خوئے دوست علمائے کرام اور ابتدائے آفرینش وغیرہ۔ (بحوالہ ، حروف تہجی : تشکیل و ردتشکیل ، صباح الدین احمد ،ص:۳۰۔عرشیہ پلی کیشنز، دہلی)
محولہ بالا عبارت میں قوسین میں جو عبارت لکھی ہوئی ہے وہ عربی علما کے طبقے کے املا کی نمائندگی کرتی ہے ۔انھوں نے یہاں عربی علما محض اختصاص کے لیے لکھا ہے جب کہ جس زمانے میں غلام رسول اپنی کتاب لکھ رہے ہیں وہی لوگ فارسی علما بھی تھے اور جس طریقے سے آج کے زمانے میں ترسیلی زبان اردو ہے ، اس زمانے میں کسی حد تک فارسی تھی تو وہ فارسی علمابھی تھے ۔ یقینا فارسی میں اضافت میں ہمزہ اور ے ساتھ لکھنے کا رواج رہا ہے لیکن علما نے چند میں اختصاص بھی رکھا تھا جہاں اضافت ہمزہ کے نیچے صرف زیر سے اداکی جاتی ہے اور’ ابتداء زمانہ‘ آج بھی مستعمل ملتا ہے ، علماء کرام و ابتداء زمانہ جیسی بہت سی تراکیب ایسی ہی لکھی جاتی ہیں ۔ مجھے جہاں تک سمجھ میں آتا ہے کہ جیسے آج کل جہلا اضافت میں جشن اردو کو ’ جشنے اردو ‘ لکھنے لگے ہیں ویسے ہی یائے مجہول کی شروعات ہوئی ہوگی جو اب مستند ہوچکی ہے ۔ لیکن خیال رہے کہ یہاں بھی اضافت ہمز پر ہی عمل میں آرہا ہے خواہ وہ زیر سے ہویا ’ے ‘ سے ۔
یائے مجہول کے استعمال میں رشید حسن خاں کی راے کچھ اس طر ح ہے :
’’ جب ایسے لفظ مضاف یا موصوف ہوں ، اس صورت میں بھی ہمزہ نہیں آسکتا ۔ جس طرح زندگی کی یاے معرو ف پر اضافت کا زیر آتا ہے اور ’’زندگیِ ‘‘ پڑھا جاتاہے ، اس طرح راے کی یاے مجہول مکسور فر ض کر لی جائے گی ،ہمزہ نہ یاے معروف پر آئے گا نہ یا ے مجہول پر ۔ ہاں، اس یاے مجہول کے آگے زیر لگانے کی ضرورت نہیں ۔ جیسے راے عالی ، براے خدا…‘ ‘ (اردو املا، ص : ۴۰۶)
اس پورے اقتباس میں اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ یائے معروف میں اضافت کے لیے زیر کا حکم ہے اور مجہول میں یائے مجہول کو زیر فرض کرلینے کو کہا جارہا ہے ۔یعنی اضافت کی علامت زیر ہی ہے اور زیر حرکت ہے ، حرکات حرف میں عمل کرتی ہیں پھر معروف میں ی پر عمل کررہا ہے اور مجہول کو اگر زیر ہی فرض کرلیتے ہیں تو وہ پھر وہ زیر کس حرف پر لگا ہوا ہے ۔ یہ ایک تکنیکی سوال تو قائم ہو ہی ہورہا ہے ۔
یائے مجہول پر عمل در آمد میں شمس الرحمن فاروقی کا نظریہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے:
’’جن لفظوں کے آخر میں الف ہے، ان کے لیے علامت اضافت بڑی ے ہے۔ اس بڑی ے پر ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس سے کام بڑھتا ہے اور کوئی خاص مطلب حاصل نہیں ہوتا۔ آج کل چوں کہ دونوں طرح رائج ہے (یعنی بڑی ے سے بلا ہمزہ بھی لکھتے ہیں اور مع ہمزہ بھی لکھتے ہیں)، اس لیے دونوں صورتیں درست ہیں۔ لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ پوری عبارت میں اس التزام کو برقرار رکھا جائے۔ یہ غلط ہے کہ کہیں بڑی ے بلا ہمزہ لکھیں اور کہیں مع ہمزہ لکھیں۔ لہذا یہ دونوں صورتیں درست ہیں لیکن پوری تحریر میں ایک ہی طرز کی پابندی کریں‘‘ (سہ ماہی اردو ادب ، اپر یل ۲۰۱۶)
فاروقی صاحب صرف روایت کی بات کرر ہے ہیں کوئی قاعدہ ٔکلیہ نہ نافذ کررہے ہیں اور نہ ہی اس جانب اشارہ کررہے ہیں ۔
یہاں تک کے اقتباسات سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ ہمارے اکابرین زبان و ادب نے یائے مجہول کو حالت اضافت میں محض علامت اضافت کے طور پر ہی دیکھا ہے ۔ اس بات سے میں بھی متفق ہوں کہ یہ علامت اضافت کے بدل کے طور پر کام کر تا ہے اور ہم سبھی جانتے ہیں کہ علامت اضافت زیر ہی ہے زیر کے سوا ہمارے یہاں اردو کے لیے کا کے اور کی علامت اضافت ہیں۔ علامت اضافت زیر کی اسی وقت ضرورت پڑتی ہے جب ہم جملو ں کو فارسی ترکیب کے اعتبار سے برتتے ہیں ۔ تو زیر محض ایک حرکت ہو تی ہے اور حرکت ہمیشہ حروف پر عمل کرتی ہے ، لیکن ماقبل کے سارے مقامات پر جہاں بھی یائے مجہول کو علامت اضافت ماناگیا ہے اس پر کون سی حرکت ہے جو عمل میںآرہی ہے ، آپ کہیں گے کوئی بھی حرکت نہیں ہے کیونکہ وہ تو خود ہی حرکت کے مقام پر قائم ہے ۔ بالکل بات درست ہے ۔ اب سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ جب ہم نے اسے حرکت مان ہی لیا ہے تو پھر کون سا حرف ہے جس پر حرکت عمل میں آرہی ہے ۔ ماقبل کا الف(داناے روزگار ) اور واو (بوے گل ) پر تو حرکت ہے ہی نہیں، پھر یائے مجہول بطور حرکت کس پر قائم ہے ؟ کسی پر بھی نہیں ۔ چلیے اب یائے مجہول کو حرف مان لیتے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر یہ علامت کی صف میں کیوں قائم رہے گا ۔ کیا کوئی حرف ہے جو بطور علامت استعمال ہوتا ہے ؟ چلو ہم اسے حرف مان ہی لیتے ہیں تو ضرور اس پر حرکت عمل پیرا ہوگی کیونکہ الف سے لے کر ی تک سبھی حرف حرکت قبول کرتے ہیں الف ، واو اور یا بھی بطور مصمتہ تینوں حرکت قبول کرتے ہیں ، ایسے میں اگر ہم یائے مجہول کو حرف مان لیتے ہیں تو ضرور یہ بھی حرکت قبول کرے گی ۔ اب آپ ہی بتائیں کہ یائے مجہول پر کہیں زبر زیر یا پیش دیکھا ہے ۔ پھر یہ کو ن سا حرف تہجی ہے جو حرکت ہی قبول نہیں کرتا ہے جبکہ ہمزہ جسے بہت سارے ہمارے پیش رو حرف تہجی ماننے کو تیار نہیں وہ تینوں حرکت قبول کرتا ہے ۔ ماقبل کے تمام مثالوں میں جہاں بھی یائے مجہول پر ہمزہ قائم ہے وہاں وہ زائد نہیں ہے بلکہ ایک حرف کے طور پر اپنی موجودگی درج کرارہا ہے اور اس کے نیچے یائے مجہول بطور حرکت زیر کا کام کررہا ہے ۔ اس لیے الف یا واو کے بعد اضافت میں ہمزہ پر زیر اصل ہے اب وہ زیر (اضافت کے موقعوںپر) ’ے ‘ سے بدل گیا ہے ۔
اب ایک نئی بحث کی جانب بڑھتے ہیں جس تعلق سے مجھے کہیں بھی پڑھنے کو نہیں ملا وہ یہ ہے کہ اردو کے حروف تہجی کی فطری حرکت کیا ہے ۔ آپ اس کو دوسری زبانوں کے مقابلے میں دیکھیں گے تو پائیں گے کہ جس طرح عربی و فارسی کے حروف کی کوئی فطری حرکت نہیں ہے اسی طرح اردو کی بھی نہیں ہے ۔ یہی حال انگریزی کا بھی ہے۔ وہاںبھی حرکات کی ادائیگی واویل سے کی جاتی ہے لیکن دیوناگری میں حروف تہجی کی فطری حرکت آپ کو دیکھنے کو ملتی ہے جیسے قلم لکھیں گے تو آپ کو ق اور نہ ہی ل کے لیے کسی ماترا کی ضرورت ہوگی جب کہ مِلن میں آپ کو م کے لیے چھوٹی ماترا کی ضرورت پڑے گی ۔ اسی طریقے سے پین کے لیے ہم ی لکھتے ہیں جو ’ے‘ کی مصوتہ کی نمائندگی کرتا ہے ۔ یہاں تو آپ سمجھ رہے ہیں کہ اردو میں کسی بھی حرف کی کوئی فطری آواز نہیں ہے لیکن ’ے‘ کو ایک ایسا حرف مانا جارہا ہے جس کی فطری کیفیت ادائیگی(مصوتہ) بھی ہے اور وہ ’اے ‘ ہے ۔نیز آپ کو معلوم ہے کہ مصوتہ کی شناخت و ادائیگی حرکات اورحروف علت سے ہوتی ہے اور اردو میں حروف علت’ ’ ا، و، ی ‘‘ ہیں ۔الف کی دو کیفیت ہیں ، امن ، آم۔ واو کی تین آوازیں ہیں ، دو، دوڑ، دور۔ ی کی بھی تین آوازیں ہیں عینک ، ایڑ ی ، اینٹ ۔تینوں میں ی درمیانی حرف ہیں اگر آخری حرف کے طور پر دیکھیں تو اس کی صورت یوں بنتی ہے ’ درپَے، کیلے ‘ تو پھر یہ دوحرف نہیں بلکہ ایک ہی ہوئے جن کی مختلف مقامات میں مختلف شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد انصار اللہ اپنی کتاب ’’ اردو کے حروف تہجی میں ‘ یائے مجہول کو انیسویں صدی کے وسط میں استعمال میں لایا گیا حروف تہجی تسلیم کرتے ہیں۔ اسی کتاب میں جب وہ ہندی کے بالمقابل ماتراؤں کا ذکر کرتے ہیں تو ’اِے اور اَے ‘ کو بھی شمار کرتے ہیں ۔ان تمام مباحث کے بعد ’ے‘ کواگر ہم نو ن غنہ کی نوعیت میں لائیں تو زیادہ واضح ہوجائے گا کہ آخری لفظ میں نون غنہ اپنی الگ شکل رکھتا ہے اور درمیان میں ن ہوتا ہے ۔ باکل یہی حال ’ے ‘ کا ہے کہ درمیان میں ی سے بدل جاتی ہے اور آخر میں اپنی ایک الگ شکل رکھتی ہے ۔ میرے خیال میں جس طرح نون غنہ کوئی حر ف نہیں صرف ایک کیفیت صوت کی نمائندگی کرتا ہے اسی طرح ’ ے ‘ بھی کوئی حرف نہیں ہے بلکہ محض ایک کیفیت صوت کی عکاسی کرنے والی صورت ہے جو مجہو ل زیر ِطویل و زیر خفیف کی نمائندگی کرتی ہے ۔
No comments:
Post a Comment