نام کتاب : چارباغ (مجموعہ ٔ رباعیات)
شاعر :ظفر انصاری ظفرؔ - صفحات :۱۶۸ - اشاعت: ۲۰۲۳- ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
مبصر : ڈاکٹر امیر حمزہ
ڈاکٹر ظفر انصاری ظفرؔ ایک عرصے سے در س وتدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہ ان چنندہ افراد میں سے ہیں جو تخلیقی جوہر سے بھی مزین ہیں ۔ شاعری ان کا تخلیقی میدان ہے اب تک ان کے سات شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں، اس سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ بسیار گو اور زود گو بھی ہیں ۔ درس و تدریس میں تنقید کی دنیا سے وابستہ ہونے کے باوجود جہاں کمیت سے زیادہ کیفیت کو فوقیت دی جاتی ہے پھربھی انہوںنے اپنے لیے تخلیقی وفور میں کوئی کمی نہیںآنے دی نیز رباعی جیسی اہم صنف سخن میں مشق کی اور ایک مجموعہ بھی شائع ہوا ۔ اس صنف سخن کو اکثر ادیب اور شعرا نے بہت ہی پیچیدہ سمجھا ہے، جوش تو عمر پیغمبر ی کی باتیں کرتے ہیں لیکن اکیسویں صدی میں کئی نوعمر و تازہ کار ایسے شعرا ملے جو رباعی میں اپنی پہچان بنارہے ہیں، بلکہ ان کا پہلا مجموعہ بھی رباعی کا ہی ہے۔ ایسے میں کہاجاسکتا ہے کہ رباعی کا شمار آج کے دور میں مشکل اصناف میں نہیں ہوتا ۔ غزلوں کے بعد ظفر انصاری نے رباعی کی جانب بالقصد ارادہ کیا ۔ اس کتاب کے حرف تشکر میں انہوں نے خود ہی لکھا ہے کہ کورونا کے دور میں رباعی کے فن سے آگاہی حاصل کی اور رباعیاں بھی تخلیق کیں، صرف تین سال کی مدت میں ان کا یہ رباعیوں کا مجموعہ شائع بھی ہوا ۔ کتاب کے دونوں فلیپ میں ڈاکٹر جاوید رحمانی کی تاثراتی تحریر ہے۔ مجموعے کے شروع میں بطور تقریظ ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی کی ایک تنقیدی تحریر بعنوان ’’ باغ رباعی کا دیدہ ور شاعر : ظفر انصاری ظفر ‘‘ اس مجموعے کی اہمیت میں اضافہ کررہا ہے ۔اس مضمون میں انھوں نے ’چار باغ ‘ پر جو رائے قائم کی ہے وہ کچھ اس طرح ہے ’’ چار باغ ظفر انصاری کی رباعیات کا اولین نقش ہے جس کے محتویات دلکش اور پرکشش ہیں۔ رباعیات میں مختلف و متفرق نوعیت کے شعور و آگہی کو کچھ اس طرح ہم آمیز کیا ہے کہ یہ رباعیاں فکرو احساس ، تہذیبی و ثقافتی وراثت اور تخلیقی وژن کی نمائندگی کرتی نظرآتی ہیں ۔ انہوں نے ذات و کائنات کے بیشتر تجربات کو اپنی رباعیات کا حصہ بنایا ہے ۔ادب و فلسفہ ، سیاست و حکمت ، اخلاق و ایثار رومان و حکمت ، ساقی و شراب ، مذہب و تصوف اور حمد و نعت وغیر ہ جیسے موضوعات کو …شعری فراست و دانائی ا ظہار یہ بنا دیا ہے ۔ سادگی و پر کاری اور جوش و جذبہ دونوں کی عکاسی کی ہے ۔ سر شاری و مستی کے ساتھ ساتھ بے ساختگی کی کیفیت بھی جا بجا نظرآتی ہے ۔ ‘‘ اس کے علاوہ بھی اس مجموعے میں شامل رباعیوں کے متعلق کئی باتیں تحریر کی گئی ہیں ۔ اگر عاصم شہنواز شبلی کے مذکورہ بالادعوں پر استشہادی گفتگو کی جائے تو یہ تبصرہ نہ ہوکر ایک طویل مقالہ ہوجائے گا ۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ کتاب میں شامل ایسی تحریریں کتاب یا فن پارہ کی اہمیت و افادیت میں اضافہ کرتی ہیں ۔ اب نفس متن پر نظر ڈالتے ہیں ۔شروع میں راویت کے مطابق حمدیہ رباعیات ہیں جس میں خدائے بزرگ و برتر کی شان کریمی ، شان رحیمی اور دعا بھی ہے ۔ پھر نعتیہ رباعیاں ہیں اس میں حدیث کا مضمون اور دیگر نعتیہ مضامین بھی ہیں ۔ نعتیہ رباعیوں کی تعداد حمدیہ رباعیوںسے کافی زیادہ ہے ۔ اس کے بعد منقبتی رباعیات میں صدیق اکبر پر دورباعیاں ، عمر و عثمان پر ایک ایک رباعی ، حضرت علی پر کئی رباعیاں ، امیر معاویہ پر دورباعیاں حضرت عائشہ اور حضر ت حسین پر بھی رباعیاں ہیں ۔ ان سب پر کوئی عنوان نہیں ہے، اسی وجہ سے ایک ہی موضوع کی رباعیاں مختلف مقامات پر بھی نظر آجاتی ہیں ۔ان موضوعات کے بعد جو رباعی رقم ہے وہ کچھ اس طرح ہے :
کچھ لطف نہ باقی زندگانی میں ہے
دل مضمحل اس دار ِ فانی میں ہے
کر سکتا نہیں جس کو بیاں میں تجھ سے
وہ حال مرا عہدگرانی میں ہے
مذکورہ بالا رباعی عام موضوعات پر پہلی رباعی ہے جو یاسیت کی کیفیت سے بھرپور ہے لیکن اس کے بعد امید کی فضا قائم کرتے ہیں اور کئی عمدہ رباعیاں یکے بعد دیگرے پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ یہاں میں ایک اور رباعی نقل کرنا چاہتا ہوں جو عمومی موضوعات کی دوسری رباعی ہے اور ایک انوکھے موضوع پرہے ۔ رباعی ملاحظہ فرمائیں:
یہ قصہ غم ناک سنانے دے اسے
یہ زخم تمنا تو دکھانے دے اسے
اے موت ! تجھے اتنی بھی جلدی کیا ہے
رک ، بہر عیادت ذرا آنے دے اسے
موضوعات پر نظرڈالتے ہیں تواس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں وسعت کے ساتھ تازگی اور حسن بھی نظر آتاہے ۔ حسن و عشق میں سراپا نگاری کے ساتھ جزئیات کی عکاسی بھی خوب ملتی ہے ۔ محبوبہ کا ستم ہے تو اس کی عنایات کا ذکر بھی ہے ۔بدلتی ہوئی انسانی فطرت ہے تو ماں کی بے محابہ محبت بھی ہے ۔ خوبصورت امیجری دیکھنے کو ملتی ہے تو محبوبہ کی پرستم آنکھیں بھی نظر آتی ہیں ۔روز بروز بگڑتے ہوئے حالات ہیں تو عدلیہ کا موجودہ رویہ بھی نظر آتا ہے ۔تہذیب کی نمائندگی ہے تو کہیں کہیں فلسفہ کی عکاسی بھی نظر آتی ہے ۔ الغرض اس ’ چار باغ ‘ میں موضوعا ت کی کہکشاں نظرآتی ہے جو یقینا رباعی کے لیے خوش کن ہے۔ اس کا دوسرا حصہ شخصی رباعیات پر مشتمل ہے ۔چند برسوں سے اس جانب زیادہ رغبت دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ کہاجا تا ہے کہ شخصی رباعیات تخلیق کرنا ایک مشکل امر ہوتا ہے ۔لیکن یہ بھی سبھی کے علم میں ہے کہ رباعی وہی اچھی ہوتی ہے جس میں صرف ایک ہی موضوع کی عکاسی کی گئی ہو ۔ رباعی خاکہ نگاری کا نام نہیں بلکہ کسی ایک نکتہ کو بیان کرنے کا نام ہے ۔ عمدہ رباعیوں کے خالق ظفر انصاری ظفر یقینا مبارکباد کے حقدار ہیں کہ وہ اس صنف خاص سے اردو ادب کو سیراب کررہے ہیں۔ اگر وہ اسی جانب مزید سنجیدگی سے سوچیں تو یقینا نتائج بہت ہی عمدہ ہوں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعے میں املا نے مجھے خاصا پریشان کیا ، اکثر مقامات پر مرکب الفاظ کو مفرد بناکر (توڑ کر ) لکھا گیا ہے ۔ جب کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی رباعی میں دو مرکب الفاظ میں سے ایک کو توڑکر تو دوسرے کو مرکب لکھا گیا ہے۔ جبکہ مرکب لفظ کہتے ہی اسے ہیں جو دو لفظوں سے مل کر بنا ہو۔ دوسرا یہ کہ اگر موضوعات کے اعتبار سے اس مجموعے کو ترتیب دیتے تو معنویت میں مزید اضافہ ہوتا ۔
No comments:
Post a Comment