Friday 17 December 2021

مرکب افعال امدادی افعال

مرکب افعال امدادی افعال

اردو زبان میں افعال کا ایک سمند ر ہے اور اسماء کا بھی، اسی طر ح سے ہماری اس پیاری زبان میں صفات بھی لا محدود ہیں۔ تواس میں آپ واقف ہوں گے کہ کبھی کبھی کوئی فعل دوسرے فعل کی مدد سے نیا معنی پیدا کر تا ہے اور اس دوسرے فعل کو امدادی فعل کے طور پر جانا جا تا ہے اور کبھی فعل کے ساتھ اسم یا صفت کے آجانے سے نئے معنی پیدا ہوجاتے ہیں تو ایسے میں ان افعال کو فعل مرکب کہتے ہیں ۔

اردو زبان میں ’’ ہونا ‘‘ ایک مصدر ہے جس سے کئی افعال نکلتے ہیں ۔اسی طریقے سے ’’ آنا ‘‘ مصدر سے کئی افعال بنتے ہیں تو دونوں کو ملا کر’ آیا ہو، گیا ہو ‘ مرکب افعال بنے ۔ ’ہونا ‘ کا ’ہو ‘مر کب افعال میںبہت ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے آیا ہو ، گیا ہو، پڑھا ہو، کھایا ہو، بیمار ہوا ہو ، سوگیا ہو ، چل دیا ہو وغیرہ۔ ان تمام مرکب افعال میں احتمالِ خفیف کی کیفیت پائی جارہی ہے جو مستقل فعل احتمالی سے کسی قدر کم ہے ۔

اسی طریقے سے ’دینا ‘ اور ’لینا ‘ ایسے مصدر ہیں جو اپنی مکمل صورت میں افعال کے ساتھ آتے ہیں اور کچھ نئے معنی پیدا کر تے ہیں جیسے اتار دنیا ، کتاب لے لینا، بچا لینا ،خر چ کر دینا وغیرہ ۔ ان افعال کے معنی میں ایک خصوصی زور یا تاکید نظر آتی ہے اور قربت کا اظہا ربھی ہوتا ہے جیسے بلا لینا ، سن لینا اور دکھا لینا وغیرہ۔

’’جانا‘‘ ایک مصدر ہے جس سے کئی افعال نکلتے ہیں اورمعاون فعل کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے ۔ جس کے ساتھ یہ فعل آتا ہے اس کا شمار مر کب افعال میں ہو جاتا ہے جیسے آجانا ، چلے جانا ، بکھر جانا اور ٹوٹ جانا ، مل جانا ، نکل جانا، اچھل جانا اور کودجانا وغیرہ یہ اکثر فعل لازم کے ساتھ آیا ہے ۔اسی طریقے سے آنا کا استعمال بھی فعل لاز م کے ساتھ نظر آتا ہے جیسے بن آنا ، بنا آنا ، بھاگ آنا اور دوڑ آنا وغیرہ ۔

کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو غصے کی حالت میں بہت ہی زیادہ استعمال ہوتے ہیں ان میں سے ایک لفظ ’ ڈالنا ‘ ہے ۔ جس کے لغوی معنی تو آپ جانتے ہی ہوں گے اور اس کا استعمال بھی کچھ اس طرح ہوتا ہے جیسے پانی ڈالنا ، پردہ ڈالنا وغیرہ ۔ لیکن غصے کی حالت میں اس کو افعال کے ساتھ اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے مار ڈالنا ، کاٹ ڈالنا ، مسل ڈالنا ، چیر ڈالنا وغیرہ  ۔اسی معنی کے لیے ’’ ڈالنا ‘‘ کے بجائے ’’ دینا‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے جیسے چیر دینا ،مسل دینا ، پیٹ دینا وغیرہ ۔

کہیں آپ نے حالِ استمر اری پڑھا ہوگا اگر نہیں پڑھا ہوتومر کبات فعل میں اس کی ایک شکل ’ رہنا ‘میں نظر آتی ہے جیسے بیٹھے رہنا ، بیٹھ رہنا ، سو رہنا ، بولتے رہنا ، پڑھتے رہنا وغیرہ اس میں حالِ استمراری کی کیفیت نظر آتی ہے ۔لیکن کبھی کبھی ختم ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے نظر جاتی رہی ، طاقت جاتی رہی ، قوت گویائی جاتی رہی وغیرہ لیکن اس میں دو افعال’ جانا‘ اور ’ رہنا ‘ کا استعمال ہوا ہے ۔

پڑنا کا استعمال مر کب افعال کی صورت میں اچانک اور اتفاق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے لڑپڑنا، گر پڑنا، ٹوٹ پڑنا ، کھانے میں ٹوٹ پڑنا وغیرہ اسم کے ساتھ اس کا استعما ل یوں ہوتا ہے جیسے قحط پڑنا ، بیمار پڑنا وغیرہ ۔

’’بیٹھنا ‘‘ایک باضابطہ فعل ہے لیکن اس کا استعمال کسی دوسرے فعل کے ساتھ جب آتا ہے تو اس میں جبر کی سی کیفیت آجاتی ہے جیسے لڑبیٹھنا ، پیسے دبا بیٹھنا ، چڑھ بیٹھنا وغیرہ ۔بیٹھنا کو اس طرح بھی استعمال کر تے ہیں جیسے پوچھ بیٹھا ، کر بیٹھا ، مار بیٹھا وغیرہ ۔اٹھنا بھی انہیں معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے لڑاٹھا ، جھگڑاٹھا، بو ل اٹھا، بلبلا اٹھا ، پھڑک اٹھا، جھلا اٹھا وغیرہ ۔پڑنا کا بھی استعمال انہیں چیزوں میں ہوتا ہے اور دوسری مثالیں جیسے بر س پڑا ، بن پڑا، آپڑا  وغیرہ۔ نکلنا سے لفظ نکلا بھی انہیں معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسے آ نکلا ، بہہ نکلا ، پھوٹ نکلا وغیرہ ۔ ان تمام میں کسی کام کے دفعتاًہونے کا علم ہورہا ہے ۔

فعل کے شروع میں اگر’آ‘ یا ’جا‘ استعمال ہورہا ہے تو اس کے معنی میں کسی کام کے دفعتاً ہونے کا اضافہ ہوجاتا ہے جیسے جا پڑنا ، آپڑنا ، آنکلنا وغیرہ ۔ جا پڑنا میں ایک معنی یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انسان کہیں گیا اور وہاں سے ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے جب تک کہ مقصد کو حاصل نہ کرلے ، اسی طر یقے سے لگ پڑنا ہے۔

فعل حال کے بارے میں آپ نے پڑھا ہوگا کہ اس میں کسی کام کے ہونے کی خبر دی جاتی ہے جیسے حامد کام کر رہا ہے ۔ لیکن اس میں’ لگنا ‘کا اضافہ کر دیا جائے تو اس بات کی بھی اطلاع ملتی ہے کہ کوئی کام بس ابھی ابھی شروع ہوا ہے ۔جیسے کام کر نے لگا ، کھانے لگا ، نہانے لگا،پڑھنے لگا ۔ محاورے میں اس کے معنی لزوم کے ہیں جیسے ’’ وہ تو گلے آ لگا‘‘ او ر اگر ’لگنا ‘ کا مصدر بدلتا ہے اور ماضی کے بجائے حال یا مضارع کا استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی بھی اسی حساب سے بدلنے لگتے ہیں ، جیسے جب وہ باتیں کر نے لگتا ہے تو پھول جھڑنے لگتے ہیں ، جب وہ بولنے لگتا ہے تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ ان دونوں مثالوں میں کام کے تسلسل کا پتہ چلتا ہے ۔ لگنا میں احسا س و گمان کے معانی بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جیسے مجھے ایسا لگا کہ بارش ہورہی ہے ، اب بس سے سفر بھار ی لگنے لگا ہے۔

لگنا سے جیسے حال میں کام کے شروع ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو ایسے ہی صیغہ ’’چاہتا ‘‘کسی فعل کے بعد لایا جائے تو مستقبل قریب میں کسی کام کے ہونے کی خبر دیتا ہے جیسے ، محمود آیا چاہتا ہے ، اب کام مکمل ہوا چاہتا ہے ۔

کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل 
چراغ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں

چاہنا ہے کا اصل استعمال تو خواہش کے اظہار کے لیے ہوتا ہے :

جیسے علامہ اقبال کے اس شعر میں 
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں 
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

اوپر میں جو معنی مستقبل قریب کے لیے’’ چاہتا ہے ‘‘ سے پیدا کیا چاہتا ہے ، وہی معنی مصدر کے الف کو یا ئے مجہول سے بدلنے اور اس کے بعد ’کے‘،’کو‘ اور ’ہونا ‘ کے اضافہ سے ہوتا ہے ، جیسے اوپر کی مثال میں ’’ کھایا چاہتا ہے ‘‘ اور اب کی مثال میں ’’ کھانے کو ہے ، جانے کو ہے ، آنے کو ہے ، وغیرہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔

چاہنا مصدر سے چاہیے بھی بہت ہی زیادہ بطور امدادی فعل کے استعمال ہوتا ہے ۔ جس کے معنی میں کسی اخلاقی معاملہ یا ذمہ داری کی جانب توجہ دلا نے کے آتے ہیں ، جیسے ذمہ داری کے لیے: آپ کو بات کر نی چاہیے ۔تمھیں غالب سے مل لینا چاہیے تھا ۔اخلاقی ذمہ داری کے لیے جیسے ہمیں سب کے ساتھ اچھا برتاؤ کر ناچاہیے ۔

لفظ ’ لے‘ جب معاون فعل کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی میں کسی شخص یا شے کا بھی لزو م آتاہے ۔ جیسے لے بھاگا ، چیل چوزہ لے اڑا، راجو سونو کو بزنس میں لے ڈوبا وغیرہ ۔

لفظ ’ دے ‘ بھی فعل کے شروع میں کسی بھی کام میں زور پیدا کرنے کے لیے آتا ہے جیسے ، دے مارا ، دے پٹکا ، دے گھونسا دے تھپڑ وغیرہ ۔
لفظ ’ رہا‘ بطور امدادی فعل جب استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی میں یہ بات پوشیدہ ہوتی ہے کہ کسی کام کے کرنے میں دشواریاں آرہی تھیں لیکن مکمل کر لیا گیا ہے۔ جیسے دلی جا کر کے رہا ، مکان بنا کر کے رہا ، وہ اسے ہرا کر کے رہا وغیرہ ۔

اسی طریقے لفظ ’رکھا‘ جو بطور امدادی فعل استعمال ہو کر نئے نئے معانی پیدا کر تا ہے جیسے : مالک مجھے کام پر لگا رکھا ہے ، میں رکھا کا استعمال عدم رضامندی کو ظاہر کرتا ہے اور جیسے ’ فلا ں نے میرا مال دبارکھا ہے ۔اس نے مجھے سمجھا رکھا ہے ، یعنی پہلے ہی سے سکھا پڑھا کر کے تیار کر لیا ہے کسی کام کے کرنے یا نہ کر نے کے لیے ۔اسی طریقے سے تاکید پیدا کر نے کے لیے جیسے سن رکھو، دیکھ رکھو وغیرہ ۔ان تمام کے علاوہ کئی الفاظ اور بھی ہیں جن کو آپ اپنی روزمرہ گفتگو میں استعما ل کر تے ہیں

متعدی و تعدیہ

 متعدی و تعدیہ 


فعل لازم کو فعل متعدی کیسے بنایاجاتا ہے فعل لازم وہ فعل ہوتا ہے جس میں جملہ فعل اور فاعل سے پورا ہوجاتا ہے جیسے حامد گیا، امی آئیں، بھائی بیٹھا فوجی دوڑا، چور بھاگا پولیس آئی وغیرہ۔

فعل متعدی وہ فعل ہوتا ہے جس کو فاعل اور مفعول دونوں کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ جملہ فعل ،فاعل اور مفعول سے مکمل ہوتا ہو۔جیسے بشریٰ نے کتاب پڑھی، حامد نے خط لکھا، ثانیہ نے کمپیوٹر سیکھا وغیرہ تو ان سب مثالوں میں کتاب، خط اور کمپیوٹر مفعول ہیں۔یہ عمومی بات تھی اس کے بعد جاننے کی بات یہ ہے کہ مفعول کے لحاظ متعدی کی تین قسمیں ہیں ۔ اول یہ کہ جس میں مفعول صرف ایک ہی ہو جیسے زیدنے بلی کو مارا ۔ دوم جس میں دو مفعول ہو ں جیسے صبا نے اقرا کو کتاب دی ۔ اس مثال میں اقرا اور کتاب مفعول ہیں ۔سوم یہ کے جس میں مفعول کی تعداد تین ہو جیسے حامد نے زاہد سے عادل کو کتاب بھجوائی ۔

لیکن ہم اب جو چیز لکھنے جارہے ہیں وہ اوپر کی تعریف سے بالکل مختلف ہے کیونکہ ہم ان افعال کو پہچانیں گے جو بذات خود متعدی ہوں گے۔یعنی اس کو متعدی سمجھنے کے لیے فعل، فاعل اور مفعول کی ضرورت ہمیں محسوس نہیں ہوگی۔

اب ہم رخ کرتے ہیں اس بات کی جانب کہ کیسے فعل لازم فعل متعدی بنتا ہے ۔یہ بات ذہن میں رہے کہ اکثر افعال جو فعل لازم ہوتے ہیں وہ فعل متعدی بھی ہوتے ہیں اور وہ فعل لازم سے ہی بنتے ہیں۔

ایک عام قاعدہ یہ ہے کہ فعل لازم کے مادہ کے آگے (جیسے چلنا کا مادہ چل) الف بڑھایا جائے جیسے چلنا سے چلانا، پکڑنا سے پکڑانا، پڑھنا سے پڑھانا، دوڑنا سے دوڑانا، تڑپنا سے تڑپانااور کرنا سے کرانا وغیرہ۔

کبھی مادہ فعل کے آخری حرف سے پہلے الف لگا کر متعدی بنایا جاتا ہے جیسے اترنا سے اتارنا، بگڑنا سے بگاڑنا وغیرہ۔ 

کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں کہ اس کی متعدی اگر بنائی جائے تو پہلے حرف کی حرکت کو اس کے موافق حرف علت سے بدل دیتے ہیں (حرف علت تین ہیں الف، واو،یا) جیسے مرنا سے مارنا، ٹلنا سے ٹالنا، تھمنا سے تھامنا، مڑنا سے موڑنا، نچڑنا سے نچوڑنا، کھلنا سے کھولنا، چرنا سے چیرناوغیرہ۔ 

اس کے برعکس کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جس میں فعل کے دوسرے حرف کو حذف کر دیا جاتا ہے اور دو حرف کے بعد واو یا الف کا اضافہ کیا جاتا ہے جیسے بھاگنا سے بھگانا، بھیگنا سے بھگونا، جاگنا سے جگانا، توڑنا سے تڑانا(مثال بکری رسی تڑا کر بھاگ گئی) سیکھنا سے سکھانا، دیکھنا سے دکھانا وغیرہ۔ اسی نوعیت  کے کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جن میں واو الف کا اضافہ کیا جاتا ہے جیسے پاٹنا سے پٹوانا، ڈالنا سے ڈلوانا، ڈانٹنا سے ڈنٹوانا، تاکنا سے تکوانا وغیرہ 

کچھ افعال ایسے ہوتے ہیں جن کے متعدی بناتے وقت ٹ ڑ سے بدل جاتا ہے جیسے ٹوٹنا سے توڑنا، پھوٹنا سے پھوڑنا، پھٹنا سے پھاڑنا، پھڑوانا ،جھٹکنا سے جھاڑنا وغیرہ۔

اگر کوئی مصدر چار حرفی ہو اور اس کا دوسرا حرف حرف علت ہو تو ایسے میں اس حرف کو حذف کرکے (لا) کا اضافہ کرتے ہیں جیسے رونا سے رلانا، کھانا سے کھلانا، سونا سے سلانا دھونا سے دھلانا، نہانا میں تیسرا حرف علت کا ہے تو یہاں بھی حذف کرکے نہلانا ہوگا۔

کبھی افعال میں امداد ی افعال لانے سے بھی متعدی بنتا ہے جیسے جانا سے لے جانا ، بھاگنا سے لے بھاگاوغیرہ ۔

افعال کی نفی

افعال کی نفی

 آپ نے حر وف کی قسموں میںسے ایک قسم حرف نفی بھی پڑھا ہوگا ۔ نفی کے معنی انکار کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کے نہ کر نے یا نہ ہونے کا علم اس حرف سے ہو اور جس فعل کے شروع میں یہ حر ف آتا ہے اس کوفعل نفی کہتے ہیں ۔جیسے حامد نہیں ہے ، اس نے آج پڑھائی نہیں کی ۔ ان دونوں جملوں میں نہ ہونے اور پڑھائی نہ کر نے کی خبر معلوم ہورہی ہے گویا یہ دونوں جملے نفی کے جملے ہیں ۔اس سے پہلے جتنی بھی گردانیں آپ نے پڑھیں وہ سب معروف و مجہول کی تھیں اور وہ سب مثبت گردانیں تھیں۔ اس شمارے میں صرف افعال نفی کا ذکر ہوگا ۔ افعال فعل کی جمع ہے اور فعل کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ اس سے کسی کام کے ہونے یا کر نے کا علم ہوتا ہے ۔جیسے حامد آیا توآنا فعل ہوا جس سے حامد کا آنا معلوم ہوا ۔ اس کو ہم فعل نفی بنائیںگے تو ہم کہیں گے ’’ حامد نہیں آیا ‘‘ ۔ آیا جو فعل ہے اس کے شروع میں ’نہیں ‘ لگانے سے یہ فعل نفی ہوگیا ۔

ایک قاعدہ کلیہ یا در کھیں کہ کسی بھی فعل کے شروع میں ’نہ یا نہیں‘ لگا نے سے وہ فعل نفی ہوجاتا ہے ، چا ہے وہ فعل ماضی ، فعل حال یا فعل مستقل ہو ۔ فعل ماضی کی مثال حامد کتاب نہیں پڑھا ، فعل حال : امی کھانا نہیں پکا رہی ہیں ، فعل مستقبل : ابو مارکیٹ نہیں جارہے ہیں ، فعل تمنائی: کاش وہ نہیں آتا ، فعل احتمالی : شاید وہ نہ آئے وغیرہ ۔یہاں آپ نے تمنائی میں ’نہیں ‘ اور احتمالی میں’ نہ ‘ پڑھا ۔یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھر رہا ہوگا کہ ’ نہ ‘ اور ’ نہیں ‘ کا استعمال ایک ہی ہے یا دونوں کے استعمال میں کچھ فرق بھی ہے ۔ تو یہ بات جان لیں کہ اکثر مقام پر دونوں کے استعمال میں فرق پایا جا تا ہے۔ البتہ کہیں کہیں دونوں کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔جس طریقے سے اوپر ماضی کے مثال میں ’’ نہ ‘‘ کا استعمال ہوا ہے اسی طریقے سے ماضی شر طیہ میں بھی ’’ نہ ‘‘ کا استعمال ہوتا ہے جیسے اگر وہ ٹیم میں کھیلتا تو اچھا نہ کھیلتا ۔ اسی طریقے سے فعل مضارع کے شر طیہ میں بھی ’ نہ ‘ استعمال ہوتا ہے جیسے اگر وہ نہ کھائے تو میں کیا کروں ۔یہ دونوں جملے شرطیہ ہیں ۔ جملے کی قسموں میں سے آپ نے جملہ شرطیہ پڑھا ہی ہوگا کہ اس میں ایک جملے کے دو جز ہوتے ہیں ایک شرط اور ایک جزا ۔شر ط مطلب جس میں کسی چیز کے کر نے یا نہیں کر نے کی شرط رکھی جاتی ہے ۔ جزا میں اس شر ط کا بدلہ ہوتا ہے جیسے اگر وہ کھاتا تو نہ پچا پاتا ۔ اس میں اگر وہ کھاتا شرط ہے اور نہ پچا پا تا جزا ہے ۔ یہاں پر جملہ شر طیہ کے لانے کا مقصد یہ تھا کہ اگر جملہ شر طیہ کے جزا میں نفی لایا جائے تو وہاں بطور حر ف نفی ’نہ ‘ لانا زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔

فعل امر کی نفی ’ نہ ‘ اور ’ مت ‘ دونوں لگا نے سے ہوتا ہے جیسے نہ کر مت کر ۔ماضی مطلق میں اکثر مقام پر ’ نہیں ‘ ہی استعمال ہوتا ہے لیکن بعض مقام پر ’ نہ ‘ بھی لکھا اور بولا جاتا ہے جیسے مرزا غالب کا ایک مصرع ’ ’جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار ‘ ‘ یہاں پر ’نہ‘ استعمال ہوا ہے۔ لیکن اکثر مقام پر نہیں آیا ، نہیں پڑھا، نہیں کھایا ، نہیں سویا وغیرہ استعمال ہوتا ہے ۔فعل احتمالی میں بھی دنوں استعمال ہوتے ہیں جیسے (ماضی ) شاید وہ نہیں آیا ہو (مستقبل ) شاید وہ نہ آئے یا جیسے وہ آیا ہو اور ہماری نظر نہ پڑی ہو وغیرہ ۔فعل مستقبل کی نفی بنانے کے لیے بھی ’نہیں ‘ آتا ہے ۔لیکن اس میں فعل کے بعد ’ کا ، کے ، کی ‘ کا استعمال ہوتا ہے جیسے وہ نہیں آئے گا ، میں نہیں آؤں گا ، ہم نہیں آئیں گے ۔ وہ نہیں آنے کی ، میں نہیں آنے کا ، ہم نہیں آنے کے ۔اس میں’ کا ، کے ، کی‘ متکلم صرف تاکید کے لیے استعمال کر نا چاہتا ہے ۔

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...