Thursday 26 March 2020

اردو رباعی میں حمد


اردو رباعی میں حمد 

امیر حمزہ 
شعبہ اردو دہلی یو نی ورسٹی دہلی 

رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جو اپنے وجود سے لیکر اب تک سب سے زیادہ مذہب سے قریب رہی ہے۔ فارسی زبان میں جب رباعی کی شروعات ہوئی تو اس وقت اسلام پور ے خطہ میں پھیل چکا تھا اور مذہبی تعلیمات ومعاملا ت داخلی زندگی اور خارجی زندگی میں پور ی طر ح سرایت کر چکی تھی۔ اب تک کا تحقیق شدہ قول یہی ہے کہ رباعی کی شروعات تیسری صدی ہجر ی میں ہوئی تا ہم جب پانچویں صدی ہجر ی میں خیام نے اس صنف سخن کو اپناتا ہے تو اس کو کمال تک پہنچاتا ہے اور موضوعات کے اعتبار سے سب سے زیادہ فلسفہ زندگی کو جگہ دیتا ہے نیز خدا سے فلسفیانہ اندازمیں تعر یف کے ساتھ مناجات بھی کر تا ہے۔رباعی ہی وہ صنف سخن رہی ہے جو خانقاہوں میں سب سے زیادہ پلی بڑھی۔بلکہ جس جس معاشر ے میں پلی بڑ ھی اس معاشر ے کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی۔ صوفیاء کر ام کی محفلوں میں رہی توحمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی۔فارسی کے اہم رباعی گو کی صحبت میں جب پہنچی تو حکمت وفلسفہ کے آب حیات سے سر شار ہوئی، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس و دبیر کی پاکیزہ خیالی وبلندی مضامین، اکبر و حالی کی اصلاحی پاسداری، امجد کا حکمت وفلسفہ، جو ش کا دبدبہئ الفاظ اور مناظر فطرت، فر اق کی جمالیا ت و سنگھار رسسے رباعی نے اپنے آپ کو  خوب سنوارا۔اسی کو ڈاکٹر سلام سندیلوی اس طر ح لکھتے ہیں۔

”ولی کی معرفت نے، میر کے عشق نے، درد کے تصوف نے، غالب کی معنی آفرینی نے، انیس و دبیر اور رشید کے رثائی خیالات نے،حالی واکبر کی اصلاحیات نے، جوش کی انقلابیت نے اور فراق کی سنگھار رس نے رباعی کو ایک سنجید ہ لب و لہجہ عطا کیا۔ان حضرات کی رباعیات میں گہری سنجیدگی اور عمیق تفکر کی فضا پائی جاتی ہے۔“ 
(اردو رباعیات، سلام سندیلوی، ص ۵۷۵)

اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیاہے اور ان کی عکاسی کی ہے۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودومخصوص موضوعات میں پابند نہیں کیا ہے۔رباعی میں اگر چہ اخلاقی،مذہبی، اصلاحی، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ رہے ہیں لیکن دو سرے موضوعات کا خاطر خواہ ذخیرہ بھی اردو رباعی میں موجود ہے۔موضوعات رباعی کے تعلق سے اب تک یہ بہت زیادہ لکھا جاتا رہا ہے کہ رباعی کے موضوعات حمد و مناجات اور اخلاق و فلسفہ کثر ت سے رہے ہیں یہ حقیقت ہے۔ لیکن رباعی میں ہمیشہ یہ لچک رہی ہے کہ وہ جس زمانہ میں بھی پروان چڑھی اس زمانہ کے موضوعات کو قبول کرنے میں کبھی بھی کوتا ہ دست نہیں رہی۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ نئے موضوعات کے آنے کی وجہ سے پرانے موضوعات سر دبستہ میں چلے گئے ہوں۔ رباعی کے موضوعات میں سے حمد ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی قدیم اور فرسودہ نہیں ہوسکتا۔ حمد کے متعلق علما ء کیا کہتے ہیں ایک نظر ان پربھی ڈالتے ہیں۔

 نووی کہتے ہیں ”خدا تعالی کی ذات و صفات اور ان کے افعال کو زبان سے بیان کر نا حمد کہلاتا ہے۔ اللہ تعالی کی تعریف کر نا ان کے انعامات کے اوپرتعریف کر نا شکر کہلاتا ہے۔ اس طر یقے سے ان کے نزدیک ہر شکر حمد کے دائرہ میں آجاتا ہے اور حمد شکر کے دائر میں نہیں آتا ہے۔ حمد کا ضد ذم ہے اور شکر کا ضد کفر ہو تا ہے“۔

ابن حیان کہتے ہیں ”حمد اللہ تعالی کی تعر یف بیان کر نا ہے صرف زبان کے ذریعہ سے۔ اور زبان کے علاوہ جن چیزوں سے ان کی بزرگی کا اظہار کیا جائے گا وہ حمد نہیں بلکہ شکر یہ کہلائے گا۔“ 

امام رازی کہتے ہیں۔”حمد اللہ تعالی کی تعریف بیان کر نا ہے ہرنعمت پر خواہ وہ نعمت تعر یف بیان کر نے والے تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو۔ اور شکر اللہ تعالی کی انعامات پر تعر یف بیان کر نا اس طور پر کہ وہ انعامات تعر یف بیان کر نے والے اور شکر ادا کر نے والے تک پہنچا ہو۔ 

حمد میں محبت اور عظمت کے ساتھ محمود کی تعر یف بیان کر نا ہے۔ یعنی حمد میں محبت اور عظمت کا عنصر موجود ہوتو حمد کہلاتا ہے شکر میں محض تعر یف بیان کر نا ہوتا ہے خواہ دل میں عظمت ہو یا نہ ہو۔“(تر جمہ از معجم الشامل)

الغر ض لغوی اعتبار سے حمد مطلقا زبانی تعریف کو کہتے ہیں خواہ وہ نثر میں ہو یا شعرمیں۔ اس طریقہ سے حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو او رخدا کی ذات اور صفات کا اس طر ح ذکر کیا جائے کہ اس میں اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہواور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے قلبی تعلق ظاہر ہوتا ہو۔ خواہ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہویا انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے،اس میں کائنات کی وسعتوں کے ذریعے رب کی بڑائی کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا اظہار ہو۔ سب حمد کے دائرہ میں آتا ہے۔جس طر یقہ سے اللہ نے قرآن میں ہی ذکر کر دیا ہے کہ ’اللہ ہر دن ایک نئی شان میں نظر آتا ہے“ اسی طر ح سے بندے کے اندر بھی یہ صفت ودیعت کی ہے کہ اس کی بھی حالت ہمہ وقت ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔لسانی طور پر بھی جب کسی سے بات کر تا ہے تو ہر وقت الگ الگ لہجہ اپنا تا ہے اگر لہجہ الگ الگ نہیں بھی اپنا سکا تو انداز جداگانہ ہو تاہے اسی طریقے سے خدا کی تعریف میں جب رطب اللسان ہوتا ہے تووہ نئے نئے طر یقے  اورلفظیات سے اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے۔ اسی طر یقے سے جب ہم حمدیہ رباعیات کا مطالعہ کر تے ہیں تو اس میں بہت ہی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔

رباعی کا تعلق جیسا کہ کسی ایک موضوع سے نہیں رہا ہے تمام موضوعات میں اس صنف سخن نے اپنی خدمات انجام دی ہیں پھر بھی رباعی ہی نے خدا کی ذات و صفا ت کو سب سے زیادہ اپنے اندر سمویا ہے۔ 

دکنی دور میں ہمیں حمدیہ عناصررباعی میں دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اس موضوع کو بالا دستی حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ وہاں عشقیہ رباعیوں کا چلن زیادہ نظرآتا ہے۔شمالی ہند کے تقریبا ً تمام قدیم شعرا نے اردو رباعیات تخلیق کی ہیں ان کے یہاں حمدیہ رباعیاں بھی نظرآتی ہیں لیکن انہوں نے رباعی کی جانب بہت ہی کم توجہ دی بلکہ مر ثیہ قصیدہ اور مثنوی سے بھی کم پھر بھی ان کے یہاں رباعی میں حمد بخوبی نظر آتاہے۔ ارد و میں رباعی کو سب سے زیادہ شہرت کے بام پر انیس و دبیر نے پہنچایا۔ انہوں نے جس طریقے سے مرثیہ کو بلندی تک پہنچایا اسی طریقے سے رباعی کو بھی ہر قسم کی ترقی سے نوازا۔ان دونوں شاعروں نے رباعی میں حمد کو بہت ہی اہتمام سے پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں حمدیہ رباعیات دو قسم کی پائی جاتی ہیں ایک وہ جس میں معر فت، حقیقت اور وحدانیت کا رنگ جھلکتا ہے، دو سر ی وہ رباعیاں جس میں صفات خداوندی میں سے رزاقی، قہاری،ستاری، جود و کر م اور عدل و انصاف کا ذکر ہے۔اس سلسلے میں انیس و دبیر کی ایک ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں۔
(میر انیس)
گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے بلبل کی زبان پر گفتگو تیری ہے 
ہر رنگ میں جلوہ ہے تیری قدرت کا جس پھول کو سونگھتا ہو ں بو تیری ہے  
(دبیر)
پروانے کو دھن، شمع کو لو تیری ہے عالم میں ہر اک کو تگ و دو تیری ہے 
مصباح و نجوم و آفتاب مہتاب جس نور کو دیکھتا ہوں ضوتیری ہے 

اس پورے عہد میں انیس ودبیر مو من وامیر و داغ و رشید کے یہاں جہاں رباعی خوب پروان چڑھی وہیں اپنے مخصوص پیرائے سے نکل کر مختلف موضوعات میں ڈھلتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔اس دور میں رباعی کادائرہ وسیع ہوا اس طور پر کہ رباعی میں انیس کی جزئیات نگاری، دبیر کی زبان وبیان کی بلندی، مومن کا حسین پیکر، امیر مینائی کی نکتہ بیانی، داغ کی خاکہ نگاری، آسی کا تصوف اور رشید کے یہاں پیر ی کا منظر نظر آتا ہے۔

جدید دور میں جہاں انگریزی کا رواج عام ہوا۔وہیں انگر یزی تعلیم کے توسط سے اردو شاعری میں کئی تجر بات ہوئے۔حسن وعشق کے موضوعات سے نکل کر نیچر ل شاعر ی وجو د میں آئی۔غزل کو تما م جذبات کی تر سیل اور سبھی موضوعات کی تر جمانی کے لیے ناکافی سمجھا گیا تو شعر ا نظم کی طر ف متوجہ ہوئے اور اردو نظم کی آبیار ی میں لگ گئے۔ ایسے موقع میں نظم کی سی ہیئت رکھنے والی صنف رباعی کی جانب بھی لوگوں کی توجہ گئی۔بقول فرمان فتح پوری:

”چونکہ زمانہ افرا تفری، سیاسی کشمکش، معاشی بحران، اور ذہنی الجھنوں کا تھا۔اس لیے جو تسلسل خیال، وحد ت فکر اور فنی ٹھہر اؤ نظم کے لیے مطلوب تھا،وہ پوری طر ح میسر نہیں آیا۔نتیجۃً علامہ اقبال کے علاوہ کسی کے یہاں فنی نقطہئ نظر سے نظم میں وہ تر فع پیدا نہ ہوسکا جو اردو غزل کا طر ہ امتیاز ہے۔ لو گ بین بین راستہ تلاش کر نے لگے۔ اور حالی واکبر کے زیر اثر اس پس افتادہ صنف کی طر ف رجوع ہوئے جس میں غزل کی غنائیت اور نظم کی سی وسعت دونوں کی گنجائش تھی میری مر اد رباعی سے ہے۔“(ڈاکٹر فرمان فتح پوری،ارد رباعی کا فنی ارتقاء ص ۲۰۱)

اس عہد میں رباعی کی جانب متوجہ ہو نے کہ اسباب ناقدین نے الگ الگ بیان کیے ہیں۔ایک جگہ ڈاکٹر سلام سندیلوی نقل کرتے ہیں کہ انیس و دبیر کی رباعیوں کی مقبولیت کی وجہ ہی بعد میں رباعی کی جانب توجہ کا سبب بنی۔اور ایک جگہ رباعی کی جانب تو جہ معاشی بد حالی کو قرار دے رہے ہیں:

”دور جدید کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسلامی حکومتوں اور ہندوستانی ریاستوں کی زوال کی وجہ سے عوام کی بھی مالی حالت بگڑ گئی اس لیے وہ فکر معاش میں سرگرداں رہنے لگے۔ایسی صورت میں طویل نظمیں کہنے سے قاصر تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مختصر افسانوں، رباعیات، کو تر قی ہوئی کیونکہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اپنے 
ذوق کی تسکین کر لیا کرتے تھے۔“(سلام سندیلوی، اردو رباعیات ص ۷۶۲)

اس بات کا علم سبھی کو ہے کہ جدید شاعر ی میں رباعی اردو کے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ دکن سے ہی اردو میں رباعی کی روایت چلی آرہی تھی اور انیس و دبیر نے اردو رباعی کو بلندی تک پہنچایا۔حالانکہ یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ انیس ودبیر کی رباعیات کا اثر کم نہیں ہو ا تھا اس لیے رباعیات کی جانب توجہ کا مبذول ہونا قابل اعتنا بات ہوسکتی ہے۔رہی بات ڈاکٹر سلام سندیلوی کی کہ معاش اور تنگئی وقت کی وجہ سے رباعی کی جانب لوگوں کی توجہ گئی۔ تو کیا رباعی غزل سے اتنی مختصر ہے جیسے داستان کے مقابلے میں افسانے ہیں؟ یہ بات اس وقت ممکن ہوتی جب ہم مثنوی سے غزل یا رباعی کی جانب جاتے۔ جبکہ رباعی اور غزل بہت ساری چیزوں میں ایک دوسرے کے مماثل نظر آتے ہیں بلکہ رباعی غزل سے بھی بھاری پڑ جاتی ہے محدود وزن اور فکرکی پیش کش میں۔ غزل کا ہر بیت فکرکے معاملے میں آزاد رہتا ہے جبکہ رباعی میں فکرکوتین مصرعوں میں پھیلا کر کے پوری طاقت کے ساتھ چوتھے مصرع میں بند کرنا ہوتا۔پھر رباعی میں آسانی کہاں؟

ایک بات ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جس دور کی بات ہورہی ہے اس دور میں خصوصاً رباعی کی جانب تو جہ نہیں کی گئی بلکہ وہ دور ہی ایسا دور رہا ہے کہ اس عہد میں ہر اعتبار سے اردو میں وسعت ہوئی ہے۔اس دور میں نئے نئے اصناف سخن وجود میں آئے اسی دور میں نظم تر قی کی بلندیوں تک اقبال پہنچا رہے ہیں اور رباعی میں نظم کی ایک کیفیت موجو د ہے جہاں موضوع مصر عوں میں نہیں سمٹتا ہے بلکہ پورے میں پھیلا کر بیان کیا جاتا ہے۔اور یہ مزاج رباعی کے لیے بھی راس آیا اس اعتبار سے رباعی اس عہد کے مزاج کا ہم آہنگ ہوا جہاں رباعی کو پہلے سے کچھ زیادہ پھیلنے کا موقع ملا اور حالی و اکبر کے بعد فانی، جوش، فراق، امجد، رواں و یگا نہ وغیر ہ نے رباعی کو اس جد ید عہد میں تر قی کی راہ میں گامزن کیا۔

مولانا الطاف حسین حالی کا اردو رباعی کے متعلق ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ رباعی جو انیس و دو بیر کے زمانے میں صرف مجلس عزا میں اپنا جوہر بکھیر رہے تھی اور مضامین کر بلا سے بھر پور تھی۔ اس کو مولانا الطاف حسین حالی نے اس خاص مجلس سے نکالا اور عام مضامین کی سادگی سے رباعی کو مزین کیا۔ اس کا نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ رباعی مشاعر وں میں جگہ پانے لگی۔حالی نے رباعی میں جہاں تمام موضوعات کو اپنا یا ہے وہیں اصلاحی نکتوں اور تعمیری کاموں کے ساتھ ساتھ حمدیہ رباعیاں بھی کہی ہیں۔ان کی رباعیاں داخلی اور خارجی تمام مضامین کو سمیٹے ہوئے ہے۔چند حمدیہ رباعیات درج ذیل ہیں۔

کانٹا ہے ہر ایک جگر میں اٹکا تیرا حلقہ ہے ہر اک گوش میں لٹکا تیرا
مانا نہیں جس نے تجھ کو، جانا ہے ضرور بھٹکے ہوئے دل میں بھی ہے کھٹکا تیرا

ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا آتش پہ مغاں نے راگ گایا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے انکار کسی سے نہ بن آیا تیرا

مٹی سے، ہوا سے، آتش و آب سے یہاں کیا کیا نہ ہوئے بشر پہ اسرار عیاں 
پر، تیرے خزانے ہیں ازل سے اب تک گنجینہئ غیب میں اسی طرح نہاں 

اکبر ایک ایسا شاعر ہے جو ہمیشہ اپنی ایک الگ شناخت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔حالی اور اکبر کے مقصد شاعری میں تساوی ہو سکتی ہے لیکن انداز بیان میں صاف تبا ین جھلکتا ہے۔انہوں نے شاعر ی میں ایک نئی طر ز ایجا د کی اور اپنی شاعر ی کو اصلاحی و مقصدی رجحانات کے تابع بنا دیا۔یہی مقصد حالی کا بھی تھا لیکن اکبر نے اردو رباعی کو نیا اسلوب اور ایک نیاطرز بیان دیا۔اکبر اپنی رباعیوں میں وعظ ونصیحت اور اصلاح و اخلاق کی باتیں تو کر تے ہیں لیکن یہ کسی کے سماع میں ذرہ برابر بھی بار نہیں گذرتا بلکہ طنز و ظرافت کے لباس میں اصلا ح کا آب حیات پیش کر تے ہیں۔حالی نے اسی چیز کو متانت و سنجید گی سے پیش کیااور اکبر نے شوخی و ظر افت سے۔ رباعی پر جہا ں اصلاح و اخلاق اور تصوف کی مہر ثبت ہوچکی تھی اکبر نے وہیں اپنے ایک خاص مزاج، چلبلے پن، شوخی و ظرا فت سے اردو رباعی میں مزاح نگاری کی نئی روایت ڈالی۔ان کی حمدیہ رباعیاں بھی منفر د انداز میں نظرآتی ہیں۔

امجدمجید حیدرآبادی بیسویں صدی کے رباعی گویوں میں حق سے زیادہ اور حد سے زیادہ شہر ت پانے والے رباعی گو ہیں۔امجد کی شہر ت اور قدرت اور منزلت کا یہ حال تھا کہ گر امی جالند ھری کے زبان سے یہ رباعی اداہوتی ہے۔

امجد بہ رباعی است فرد امجد کلک امجد، کلید گنج سرمد
گفتم کہ بود جواب سر مد امروز روح سر مد بگفت امجد امجد

اس وجہ سے امجد کو سر مد کا دوسرا روپ کہا جاتا ہے اور زندہ سر مد بھی کہا گیا۔یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہے کہ امجد کو سر مد کا لقب خوب زیب دیتا ہے۔ 

امجد حیدرآبادی پہلے شاعر ہیں جنہوں نے شعوری طور پر رباعی کی جانب توجہ کی اور ان کی توجہ اتنی بڑھی کہ وہ نظمیں بھی رباعی کے اوزان میں کہنے لگے۔ امجد نے خوب رباعیاں کہیں ہیں ان کی رباعیوں پر بھی بہت کچھ لکھا گیا، ان کی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی مستقل لکھا جارہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کچھ رباعیا ں اس معیار کی ہیں کہ فارسی رباعیوں کے مقابلہ میں لائی جاسکتی ہیں اور اردو کی اعلیٰ رباعیات میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ان کی رباعیوں میں حمدیہ رباعیوں کی تعداد کافی ہے، فلسفہئ تصوف میں وحد ۃالشہودکو انہوں نے اپنی رباعیوں میں بہت ہی زیادہ پیش کیا ہے۔ رباعیات امجد کے حصہ اول سے پہلی رباعی ملاحظہ فرمائیں جو حمدیہ ہے۔
واجب ہی کو ہے دوام باقی فانی قیوم کو ہے قیام باقی فانی 
کہنے کو زمین و آسمان سب کچھ ہے باقی ہے اسی کا نام باقی فانی 

غم سے ترے اپنا دل نہ کیوں شاد کروں جب تو ستنا ہے، کیوں نہ فریاد کروں 
میں یاد کروں تو، تو مجھے یاد کرے تو یاد کرے تو میں نہ کیوں یاد کروں 

ہر گام پہ چکرا کے گر ا جاتا ہوں نقشِ کفِ پابن کے مٹا جاتا ہوں 
تو بھی تو سنبھال میرے دینے والے میں بار امانت میں دبا جاتا ہوں 

فراق ؔ ارد ور رباعی کا ایک ایسا باب ہے جس میں داخل ہونے کے بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن، احساسات و جما لیا ت، نظر و فکر اور رنگ و بو میں نظر آتی ہے۔فر اق نے رباعی کے باب میں ماضی کی تمام روایتوں کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنایا ہے۔فراق ؔ اپنی رباعیوں کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کے حسن و جمال اور جزئیات نگاری کی بھرعکاسی کر نے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کی رباعیوں میں جا بجا جسم کی مختلف حصوں اور ہندوستان و معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں۔

ان کی رباعیاں موضوع کے اعتبار سے صرف دو زمروں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں۔ ایک زمرہ ان رباعیوں کا ہے جن میں محبوب کے لب و ر خسار اور اس کے خد و خال کی کیف آگیں تصویر یں ہیں اور دو سرے زمر ے میں ان رباعیوں کو رکھا جاتا ہے جن میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے جیسے پنگھٹ پرگگر یاں بھرنا، معصوم لڑ کیوں کا کھیتوں میں دوڑنا، ساجن کے جوگ میں مستا نا سا مکھڑا اور بیٹی کے سسرال جانے کا منظر وغیرہ۔ ان کی رباعیوں میں ہندوستانی معاشر ت کے ایسے خاکے اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں جن میں فراق ؔ کی تخیل، جمالیاتی شعور اور طر ز تر سیل نے جان ڈال دی ہے۔ ان تمام کے باوجود انہوں نے حمدیہ رباعی نہیں کہی۔

جوش ملیح آبادی
اردو رباعی گو شعرا میں جو ش کا نمایاں مقام اس وجہ سے نہیں ہیں کہ انہوں نے باعتبار کمیت زیادہ رباعیاں کہیں ہیں بلکہ بلحاظ کیفیت بھی ان کی رباعیوں کی کسی دو سر ے رباعی گو کی اچھی رباعیوں سے زیاد ہ ہے۔جو ش غزل کے بجائے نظم کے شاعر تھے اور رباعی بھی مختصر نظم کے مماثل ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اس کی طر ف ایک خاص توجہ دی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رباعی گوئی انہوں نے دوسرے شاعر وں کی طرح تکلفاً نہیں اپنائی تھی بلکہ رباعی کہنا ان کے فطر ت کا ایک جز بن گیا تھا جس کو وہ بہت ہی خو بصورتی کے ساتھ بر تتے چلے گئے۔ نظم اور رباعی کو وہ ایک ساتھ لیکر چلتے رہے سوائے اولین مجموعہئ کلام روح ادب کے ان کے ہر مجموعہئ کلام میں رباعیات موجو د ہیں۔اس کے علاوہ ان کے تین مستقل رباعیات کے مجموعے ہیں، جنوں حکمت، سموم وصبااور قطر ہ و قلزم۔  جو ش کو اگر چہ ایک اچھا نظم گو شاعر مانا جاتے ہے لیکن جتنا اچھا وہ نظم گو شاعر ہیں اسی کے مقابل کے وہ رباعی گو شاعر بھی ہیں۔

جو ش ؔ کی شاعر ی کو عموما ًتین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، شباب، انقلاب اور فطر ت لیکن جب ہم ان کی رباعیوں کی جانب توجہ کر تے ہیں تو اردو کے خیام کا علَم(صرف خمری رباعیوں کی وجہ سے) ان کے ہاتھ میں نظر آتا ہے اور وہ شاعر شراب بھی نظر آتے ہیں۔جو ش کبھی ایک نظر یے پر قائم نہیں رہے، حسن و عشق کے نغمے گائے، انقلاب کے پر چم لہر ائے، امن انصاف اور مساوات کے سفیر بنے، فطر ت کی حسین تصویر کشی کی اور جام شراب بھی چھلکائے۔ ان کے نظریات میں بہت ہی تضاد نظر آتا ہے وہ خدا کا مذاق اڑاتا ہے اس کے رسو ل کی تعریف بھی کر تا ہے، درود بھیجتا ہے اور نواسۂ رسول پر مرثیہ بھی کہتا ہے۔ کبھی غر یبوں کی حمایت کر تا ہے تو کبھی اس کا مذاق بھی اڑاتا ہے اور نفرت بھی کر تا ہے۔کبھی جاگیر دارانہ نظام ان کے سر پر چڑ ھ کر بولتا ہے تو کبھی اشتراکیت کے نشے میں مزدو روں کے ساتھ چلنے لگتا ہے۔جو ش کو اس تضاد کا علم بخوبی تھا اور اس کا اظہار بھی کر تا ہے۔

جھکتا ہوں کبھی ریگ رواں کی جانب اڑتا ہوں کبھی کاہکشاں کی جانب
مجھ میں دو دل ہیں ایک مائل بہ زمیں اور ایک کارخ ہے آسمان کی جانب

 منہ شرم سے ڈھانپتی ہے عقلِ انساں               تھرتھراتی ہے، کانپتی ہے عقلِ انساں 
تحقیق کی منزلیں عیاذاً با للہ                ہر گام پہ ہانپتی ہے عقلِ انساں 

اے خالقِ امرِ خیرو صانعِ شر                    تجھ پر ہی تو ہے مدارِ افعالِ بشر
ہر ہجو کے تیر کا ہدف ہے تری ذات                     ہر مدح کی تان ٹوٹتی ہے تجھ پر

حمدیہ رباعی میں خدا کی صفات کا ذکر بخوبی کر تے ہیں لیکن ساتھ میں شکایت بھی بھر پور کرتے ہیں۔ان کے یہاں حمد سے زیادہ شکایت نظر آتی ہے وہ جگہ جگہ پر اللہ سے روٹھتے ہیں، الجھتے ہیں، نا راض ہوتے ہیں، امید کر تے ہیں اور مایوس بھی ہوتے ہیں۔ وہ غر ور بھی کر تے ہیں اور رحم کی درخواست بھی کرتے ہیں۔غر ض یہ کہ وہ حمد کے ساتھ شکایت بھی کر تے ہیں، اس قسم کی ایک رباعی ملاحظہ ہو۔
جس وقت جھکتی ہے مناظر کی جبیں راسخ ہوتا ہے ذات باری کا یقیں 
کر تا ہوں جب انسان کی تباہی پہ نظر دل پوچھنے لگتا ہے خدا ہے کہ نہیں   

جو ش و فراق کے بعد اردو رباعی کی دنیا میں مزید وسعت آئی جن میں سے کئی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے خالص رباعی گوئی میں شہر ت حاصل کی جیسے جگت موہن لال رواں، ناوک حمزہ پوری، علقمہ شبلی، کوثر صدیقی، طہور منصو ری نگاہ اور عادل اسیر ہ وغیرہ۔ ان کے علا وہ کئی ایسے شعر اء ہیں جنہوں نے غزل کے ساتھ رباعی میں اپنی مضبوط شناخت قائم کی ان میں سے فر ید پر بتی، ظہیر غازی پور، اصغر ویلوری،شاہ حسین نہر ی،قمر سیوانی، ظفر کمالی، حافظ کر ناٹکی، اکر م نقاش، فراغ روہوی، التفات امجدی، عادل حیات اور عبدالمتین جامی وغیرہ ہیں۔ان تمام سے الگ ایک بہت ہی بڑی شخصیت ہے جنہوں نے رباعیاں کہی ہیں اور ان کی رباعیاں مقبول بھی ہوئی ہیں وہ ہیں شمس الرحمن فارقی۔ موصوف نے اپنی رباعیوں میں جدیدیت کو مکمل برتا ہے جن کے وہ روح روا ں بھی رہے۔الغرض موجودہ عہد میں رباعی بطور ایک شعری صنف سخن بہت ہی مقبول صنف ہے۔ یہ ملک کے کسی ایک ہی حصہ میں نہیں کہی جارہی ہے بلکہ رباعی کے شاعر آپ کو ملک کے اکثر حصہ میں مل جائیں گے۔جن میں سے چند کا ذکر اجمالا کیا جاتا۔

 رباعی میں حمد ونعت جیسے پاکیزہ موضوعا ت کثرت سے استعمال ہونے کی وجہ سے یہ احساس ہوتا ہوگا کہ اس میں کوئی نئی بات کہنے کو نہیں رہ گئی ہے بلکہ انداز جداگانہ ہوگا اور کہنے کو وہی باتیں ہوں گی لیکن جس خدا کے جہاں کی ساری چیزوں کا احصا ء ایک انسان نہیں کر سکتا تو ان کی حمدو ثنا کا حق کہاں ادا ہوسکتا ہے۔اس وجہ سے حمد وثنا میں نئے اسلوب اخذ کر نے میں رباعی کے اسلوب میں تازہ کاری بہت ہی زیاد ہ لائی گئی ہے ظہیر غازی پوری اپنی وسیع النظری کے سب اس ازلی موضوع کوتخلیقیت کا اعلی پیرہن اس طر ح عطا کر تے ہیں کہ ان کی حمدیہ اور نعتیہ رباعی افق کے نئے منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ایک رباعی اس سلسلہ کی ملاحظہ ہو۔

’لا‘ میں بھی جھلکتا ہے اسی کا جلوہ ’کن‘ میں بھی دمکتا ہے اسی کا جلوہ 
آنکھوں میں مقید جو کبھی ہو نہ سکا ہر شیئ میں چمکتا ہے اسی کا جلوہ 

فرید پر بتی نے اپنی رباعیوں میں حمد و نعت، اخلاق و حکمت، تصوف، حسن و عشق، عصر حاضر وغیر ہ جیسے موضو عات کا احاطہ کیا ہے۔ یہ وہ ظاہر ی موضوعات ہیں جو ان کی رباعیو ں میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی رباعیوں کے گہرے مطالعہ کے بعد جو پہلا تأثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعر ی کی عمارت ذاتی تخلیقی توانائی اور اظہار کا جذبہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ ان کی رباعیوں میں ایک الگ اندا ز بیان اور حسن ہے جس میں ایک توانا نظام فکر نظر آتا ہے جو عموما دوسرے رباعی گو کے یہاں بہت کم پایا جاتا ہے۔ان کی رباعیوں میں ایک توانا نظام فکر پایاجاتا ہے اور اپنی رباعیوں میں ایک منفر د لب و لہجہ اور شیر ینی و نغمگی کو پیش کر تے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی رباعیاں قاری کے اثر میں اپنا ایک اثر چھوڑ جاتی ہیں۔

فرید پر بتی روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید مضامین کو بھی رباعیوں میں پیش کیا ہے جس کو لوگ صرف غزلوں میں ہی پیش کر رہے تھے۔ انہوں نے جہاں صوفیانہ اور اخلاقی مضامیں پر اظہار خیال کیا ہے وہیں حسن وعشق کے موضوعات کو برتا ہے اور عصر ی حسیت سے اپنی رباعیوں کو ہم آہنگ کیا ہے۔ ان کے یہاں حمدیہ رباعی تمام مجموعوں میں بطور تبر ک نظر آتی ہیں۔ تمام رباعی کے مجموعے میں وہ خدا کی تعر یف وثنا ضر ور کر تے ہیں خواہ ایک ہی رباعی سے ہی کیوں نہ ہو۔اس کے بعد نعتیہ رباعی بھی پیش کر تے ہی اس طر ح سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی رباعیوں کو ایک منفر د آہنگ عطا کیا وہیں وہ موضوعات میں مذہبی موضوعات سے منھ نہیں پھیر ے ان کی حمدیہ رباعیاں ملاحظہ ہوں۔

یکتا بھی یگانہ بھی مشہود و مآل یکتا ئی میں تحلیل ہوا عزو جلال 
حیران تفکر ہے تحمل نگرا ں دریا میں غر ق ہوا مرا جام سفال

سمجھو کہ لگاؤ گے فقط رٹ میری پاؤ گے چہار سمت آہٹ میری 
جب تجھ پہ کمالات کھلیں گے میرے سجدوں سے سجا دو گے چوکھٹ میری 

پہلی رباعی میں انہوں نے معنوی گہرائی کو جس طر ح سے پیش کیا ہے ایسی مثالیں اردو رباعی میں بہت ہی کمی ملتی ہیں۔ عموما اکثر رباعی گو سادگی کے ساتھ خدا کی تعریف پیش کر دیتے ہیں کوئی بھی اس طر حی کی معنوی دریا میں غوطہ لگانے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس معاملہ میں فرید پربتی بالکل یکتا ہیں۔

اصغر ویلوری جن کا تعلق صوبہ تمل ناڈو کے شہرویلور سے ہے ان کے یہاں حمدیہ رباعیات ان کے مجموعوں میں بکھر ے ہوے ہیں نیز ایک مکمل رباعیو ں کا مجموعہ ”حمدیہ رباعیات“ سے بھی موسوم ہے۔ حمدیہ رباعیوں میں اللہ کی عظمت، اس کی وحدت، اس کی عطا وبخشش، ذات باری کا وجود، اس کا معرفت اور اس کا تاابد قائم رہنا اور اس طر ح کے دیگر حقیقتوں کابیان اور اس کا اعتراف ان کی رباعیوں میں کثرت سے ملتا ہے۔انداز بیان منفر د اور دلکش ہونے کی وجہ سے ان کی رباعیاں حسین اور موثربھی نظر آتی ہیں۔

جلوے تیرے ہر شے میں نظر آتے ہیں ذرے بھی نگاہوں میں چمک جاتے ہیں 
جز تیرے ہمیں کچھ نہیں آتا ہے نظر ہم تیری محبت کے قسم کھاتے ہیں 

پنہاں ہے گل و خار میں قدرت تیری وحدت تری حکمت تری عظمت تری 
دیدار سے قاصر ہیں یہ آنکھیں ورنہ ہر شکل میں موجود ہے صورت تیری 

ان رباعیوں میں صرف اللہ کی عظمت و جلال، اس کے وجود اور اس کی عبادت کا ہی ذکر نہیں بلکہ یہاں اس کی رحمت، نیکی کر نے اور عبدیت کی بھی تلقین ہے۔

ناوک حمزہ پور ی ایک صوفی تعلیم یافتہ گھر انے سے تعلق رکھتے ہیں اگر چہ ان کی تعلیم باظابطہ طور پر کسی خانقاہ یا مدرسہ میں نہیں ہوئی پھر بھی ان کی تربیت والدین نے دینی ماحول میں کی اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کر ایا۔ جب وہ شاعری کی جانب مائل ہوئے تو ان کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ذاتی طوری پر شاعروں کو رباعی گوئی کی جانب تر غیب دی جس سے اَسی کی دہائی میں رباعی کا ایک خوبصورت ماحول پیدا ہوا۔انہوں نے اپنی رباعیوں میں عظمت خداوندی، عشق رسول، اتباع سنت، حب اہل بیت، غم حسین، بزر گان دین سے وابستگی، اخلاق و حکمت، تصوف اور مخالفت شر ک جیسے مذہبی موضوعات کو کثر ت سے اپنا یا ہے۔ان کی رباعیوں کے متعلق گیان چند جین لکھتے ہیں:

”ان کی بیشتر رباعیوں کا تعلق ایمان سے ہے۔ یعنی وہ حالی اور اقبال کا امتزاج ہیں۔ وہ بھولے سے بہی رندی و شہبازی کے طلسمات سراب کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ میرا خیال ہے کہ اس تلقین میں ان کا پایہ بلند ہے اور یہ انہیں زیب دیتا ہے۔“
(رباعی کا آبر و۔ناوک حمزہ پوری، مرتب ڈاکٹر محمد آفتا ب اشرف، ص، ۷۴) 

پھیلا ہے دو عالم میں اجالا تیرا کونین کی ہر شے میں ہے جلوہ تیرا
ہے مختلف النوع ہرایک چیز مگر ہر شئے سے جھلکتا ہے سراپا تیرا 

اگر چہ یہ رباعی فلسفہ تصوف سے وحدۃ الشہود کا حامل ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہو یا وحدۃ الشہود کا دونوں میں خدا کی حمد وثنا ہوتی ہے۔

طہور منصوری نگاہ ؔ کے یہاں حمدیہ ونعتیہ رباعی خصوصی طور پر نہیں پائی جاتی ہیں اور نہ ہی  انہوں نے کسی بھی 
رباعی کوموضوعات کے تحت منقسم کیا ہے  بلکہ تمام رباعیوں کوسودوزیاں، منظر نامہ اور زمینی جمالیات کے عنوان کے تحت ”گلابوں کے چراغ“میں پیش کیا ہے ان کی ایک حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو۔

ہر سانس بہر حال ترے دم سے ہے سنگیت کا سرتال ترے دم سے ہے 
یہ چاند کی رعنائی یہ تاروں کا جمال سورج کا یہ اقبال ترے دم سے ہے 

فراغ روہوی کے یہاں حمدیہ و نعتیہ رباعیاں ایک معتد بہٰ صورت میں نظر آتی ہیں۔ ان کی رباعی کا مجموعہ ”جنو ں خواب“ میں وحدانیت، تو صیف و نعت کی رباعیاں بکھر ی ہوئی نظر آتی ہیں۔چند حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو:

میں خوبیئ اظہار کہاں سے لاؤں میں طاقت گفتار کہاں سے لاؤں 
جس سے ہو تری حمد و ثنا لامحدود لفظوں کا وہ انبار کہاں سے لاؤں 

نظروں سے نہاں رہ کے بھی ظاہر ہے خدا کیا کیا نہ کر شمات میں ماہر ہے خدا
انسان کی شہ رگ کے قریب رہتے ہوئے انسان کے افکار سے باہر ہے خدا

 فراغ اپنی رباعیوں میں خدا کی تعریف اس سادگی کا ساتھ کر تے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں کہ جن الفاظ سے تیری ذات کی تعریف کی جائے۔پھر دوسر ی رباعی میں نحن اقرب من حبل الورید (ہم اس کے شہ رگ سے بھی قریب ہیں)قرآ ن کی اس آیت کو اپنی رباعی میں خدا کی تعریف کے طور پر بیان کر تے ہیں۔کئی دیگر رباعیوں میں نظام عالم کو بیان کر تے ہیں اور ایک لاچاری کے ساتھ خدا سے دعا بھی مانگتے ہیں۔گو یا ان کی حمدیہ رباعی میں حمد کے کئی رنگ نظر آتے ہیں جہاں سادگی کے ساتھ بالکل عام فہم الفاظ میں خدا کی حمد وثنا نظر آتی ہے۔

حافظ کر ناٹکی کا تعلق اسلامیات سے گہر ا ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں اخلاقیات کا عنصر جو ادب اطفال سے شر وع ہوتا ہے وہ رباعی جیسے عشقیہ، خمریہ اور فلسفیانہ مزاج رکھنے والی صنف سخن میں بھی قائم رہتا ہے۔ان کی رباعیوں میں جتنے بھی اصلاحی مضامیں ہو سکتے تھے سب کے سب مذہبی مضامین کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ان کی رباعیوں میں توحید،نعت، عرفان ذات، انسان دو ستی، حسن اخلاق،دینی، فقہی، تبلیغی، روحانی اور سماجی ہر طر ح کے مضامین کو پیش کیا ہے۔ان تمام کے باوجود ان کے یہاں باظابطہ حمدیہ رباعیات کا ایک مجموعہ”رباعیات حافظ حصہ سوم“ ہے جس میں رباعیوں کی تعداد تقریبا ایک پانچ سو ہے۔ 

سب پیڑ قلم بن کے جو ڈھل بھی جائیں 
اور دریا سیاہی میں بد ل بھی جائیں 
تب بھی نہیں تعریف خدا کی ممکن
پتھر سے زبانیں جو نکل بھی جائیں                                                                                                                      
خدا کی حمدوثنامذکورہ بالا رباعی میں اپنے انداز میں نہیں بلکہ خود خدا کے انداز میں کر تے ہیں۔”قل لو کان البحر مداداً لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مدداً“کہ خدا کی تعریف تب بھی ممکن نہیں جب سارے سمند ر کے پانی کو روشنائی اور سارے درختوں کو قلم بنا دیا جائے۔حمدو ثنا کا یہ انداز قرآن میں اچھوتے انداز میں بیان ہوتا ہی ہے۔ شاعر نے بھی اسکو اپنے لفظوں میں اچھوتے انداز میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے خدا کی تعر یف مختلف انداز میں بیان کی ہے اور خصوصا ً وحدانیت ذات باری پر خصوصی توجہ دی ہے۔

عادل حیات کی رباعیوں میں حمدیہ رباعی کی تعداد ان کے رباعیوں کے مجموعے ”شہر رباعی“ میں کئی ہیں اور سب کا انداز جدا گانہ ہے۔ وہ کس رباعی میں خالص خدا کی تعر یف کر تے ہیں تو کسی رباعی میں تعریف کے ساتھ دعا، مدد، استغفار وغیر ہ بھی شامل ہے بلکہ ایک رباعی میں تو خدا سے شکایت بھی ہے کہ کچھ مر دود لوگ زندہ ہیں اور مجھ جیسا آدمی زندہ ہوکر بھی تری دنیا میں مر دگی کی زند گی گزار رہا ہے وغیرہ۔ ان کی ایک حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو۔

ہر پھول کی خوشبو میں بہاروں میں وہی سورج کی چمک چاند ستا روں میں وہی
ہر چیز اسی کی ہے ثنا خواں ہے عادل ہے تیرے کنایوں میں اشاروں میں وہی 

التفات امجد ی وقت حاضر کے نوجوان رباعی گو شاعر ہیں انہوں نے رباعی گوئی میں ان اس معنی کر بھی انفرادیت حاصل ہے کہ انہوں نے کثیر تعداد میں بچو ں کے لیے بھی رباعیاں کہی ہیں۔ موصوف کی تر بیت خانقاہوں میں ہوئی باوجو د اس کے وہ  حمدیہ، نعتیہ اور منقبیتہ رباعیات کے جانب رسما ً ہی جاتے ہیں اور ان مضامین کو اخلاق و اصلاح کے دائر ے میں پیش کر تے نظر آتے ہیں شاید وہ کتاب کے شر وع میں ان رواجی مضامین کو تحریر کر نے سے مفر نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ فرار اس کے رسمی ہونے سے ہوتے ہیں۔حمدو ثنا میں ان کی یہ رباعی ملاحظہ ہو۔

حیران و پریشان کے بس میں ہی نہیں نادان ہے نادان کے بس میں ہی نہیں 
ممکن ہی نہیں اس سے خدا کی توصیف یہ کام تو انسان کے بس میں ہی نہیں 

شاعر کے دنوں مجموعے ”چکنے پات“ اور ”چار محراب“ ایک میں ساقی نامہ اور ایک میں خمر یات کے تحت کئی رباعیاں پیش کی گئی۔جس میں اکثر رباعیوں میں ساقی سے خطاب کیا گیا ہے لیکن یہ ساقی کوئی جانا مانا ایک خاص شکل و صورت والا نہیں ہے  بلکہ کہیں یہ انسانی محبوب ہے تو کہیں مر شد کامل، کہیں مغنی، کہیں سیاست دان، کہیں ساقی کوثر (محمدؐ)اور کہیں رب کائنات۔

الغر ض موجودہ دور میں جہاں رباعی گو شعرا کی تعدا د کثیر مقدار میں ہے وہیں موضوعات میں رباعی نے اپنے تمام قدیم موضوعات پر قائم رہتے ہوئے جدید موضوعات کو بھی تیزی سے اپنا یا ہے۔قدیم زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ جو بھی کتاب لکھنا شرع کر تا، دیوان مر تب کر تا، داستا ن لکھتا، قصید ہ یا مر ثیہ ومثنوی تخلیق کر تا سب کی شروعات حمد سے ہوتی تھی۔ میر ے خیال میں شاید مغربی اصناف خصوصا ناول و افسانہ کے چلن کے بعد یہ صفت تیز ی سے غائب ہوئی لیکن جب موجودہ رباعی گو شعرا کے مجموعوں کا مطالعہ کر تے ہیں تو اب خصوصیت کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اکثر شاعروں کے یہاں شروع کی کئی

 رباعیاں حمدیہ رباعیاں ہوتی ہیں۔ اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حمد جیسا با وقا ر اور پاکیزہ موضوع رباعی میں اب بھی اسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے جیسا کہ پہلے پایا جاتا تھا۔

Tuesday 24 March 2020

’’ صلاح الدین ایوبی‘‘ایک رزمیہ ناول

(قاضی عبدالستارایک کامیاب ناول نگار تھے وہ اردو کے معروف فکشن نگار اور پدم شری اعزاز یافتہ تھے ۔  وہ عہد حاضر کے ممتاز ، معتبر اور معمار فکشن ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی تخلیقی قوت کے مالک تھے جن کی عظمت کا اعتراف ان کے معاصرین کرتے ہیں۔ 8فروری 1933 میں سیتا پورضلعے کے مچھریٹاگاؤں، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔اور 28اکتوبر2018 کی رات کو سر گنگا رام ہاسپٹل، دہلی میں داغ مفارقت دے گئے ، شعبۂ اردو کے پروفیسر اور صدر شعبہ بھی رہے۔ملازمت کے فرائض سے باعزت سبکدوش ہونے کے بعد بھی ادبی مصروفیات سے وابستگی رہی اور اپنے قلم کالوہا منوایا۔ 
قاضی صاحب نے جہاں کثرت سے ناول رقم کیے وہیں افسانے بھی لکھے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’پیتل کا گھنٹہ‘ ہے ۔ ان کا پہلا ناول’شکست کی آواز ‘ہے جسے انھوں نے 1953 میں لکھا اور ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤسے جنوری1954 میں شائع کیا۔ بعد میں یہ ناول ’دودِچراغ‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ ہندی والوں نے ا سے ’پہلااور آخری خط‘کے نام سے شائع کروایا۔ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ’شب گزیدہ‘ہے جو 1959 میں رسالہ’نقوش‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے کئی ناول بادل، داراشکوہ (1976)، صلاح الدین ایوبی(1968) ،مجوّبھیا(1974)، غبار شب (1974)، غالب(1968)، خالد بن ولید(1995)، وغیرہ تواتر کے ساتھ منظر عام پرآئے اور انھیں فکشن کی دنیا میں حیات جاویدانی عطا کی۔ان کے اسلوب بیان نے ایک ادبی مزاج کی تعمیر وتشکیل میں نمایاں رول اداکیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ناول ’حضرت جاں‘اور ’تاجم سلطان‘ نے ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی رفتارکو متاثر بھی کیابلکہ یوں کہا جائے کہ قاضی صاحب کے کیرئیرمیں عارضی ٹھہراؤ پیدا کیا تو غلط نہ ہوگا۔)

’’ صلاح الدین ایوبی‘‘ایک رزمیہ ناول 


امیر حمزہ ، ریسرچ اسکالر دہلی یونی ورسٹی

 عربی زبان اپنے شعری سرمایے کی وجہ سے دنیا کی ادبی زبانوں میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔  اس زبان کے شعری سرمایے کو بنیادی طور پر تین حصوںمیں تقسیم کیا جاتا ہے غنائی، مسرحی اور ملحمی ۔ 

ملحمی کا تعلق اس صنف سے ہے جس میں طویل قصے بیان کیے گئے ہوں ۔اس طویل قصے میں انسانی معرکے کو پیش کیا گیا ہو ۔قومی رجحانات اور مستقبل کی امیدوں کا ذکر ہو جس سے ملی مفاد وابستہ ہو ، اس میں بہت سارے تاریخی واقعات کے ساتھ قوم کے معرکے کا ذکر ہو ۔جس کے اندر پوری جماعت مقصود ہو ،یعنی ہیرو ملت کا سمبل ہو۔ان تمام کے علاوہ بہت ساری چیزیں ہیں جو ملحمی شاعری میں پائی جاتی ہیں ۔
ا
سی کیفت کو اردو میں رزمیہ کہتے ہیں ۔جس کے استعمال سے اس بات کی ترسیل مقصود ہوتی ہے کہ رزمیہ کا مطلب معرکے کا بیان ہو۔ وہ معرکہ خواہ تہذیبی شناخت کے لیے ہو یا مذہبی مفاد کے لیے ۔اس میں محض جنگ کے حالات کی عکاسی نہیں ہوتی ہے بلکہ قوم کے ہیرو کے شجاعانہ کارناموں کو ایک پروقار اسلوب میں قلم بند کیا جاتا ہے ۔

شبلی نعمانی موازنہ انیس ودبیر میں لکھتے ہیں :
’’رزمیہ شاعری کا کمال ذیل کے امور پر موقوف ہے ۔سب سے پہلے لڑائی کی تیاری ، معرکے کا زور و شور ، تلاطم ، ہنگامہ خیزی، ہلچل ، شورو غل، نقاروں کی گونج ، ٹاپوں کی آواز، ہتھیاروں کی جھنکار ، تلواروں کی چمک دمک، نیزوں کی لچک ، کمانوں کا کڑکنا ، نقیبوں کا گرجنا ، ان چیزوں کو اس طرح بیان کیا جائے کہ آنکھوں کے سامنے معرکہ جنگ کا سماں چھاجائے ، پھر بہادروں کا میدان جنگ میں جانا ، مبارز طلب ہونا ، باہم معر کہ آرائی کر نا لڑائی کا داؤ پیچ دکھانا ان سب کا بیان کیا جائے ۔اس کے ساتھ اسلحہ جنگ اور دیگر سامان جنگ کی الگ الگ تصویر کھینچی جائے پھر فتح یا شکست کا بیان کیا جائے اور اس طر ح کیا جائے کہ دل دہل جائیں یا طبیعتوں پر اداسی اور غم کا عالم چھا جائے ۔‘‘(ص:195)
 ا
یسے ہی ملتے جلتے خیالات شعرالعجم میں بھی تحریر ہیں ۔
مندرجہ بالا پیراگراف میں سے پہلے میں مقصد اور خصوصیات کا ذکر ہے اور دوسرے میں کمال کا ۔ اول مکمل فن پارے کو سمیٹے ہوئے ہے اور دوم میں فن پارے کی کیفیت و فضا و موضوع کو دائرۂ کار میں لایا گیا ہے ۔ اب رزمیہ سے شاعری کو الگ کر دیتے ہیں اور فکشن کو ساتھ میں لاتے ہیں تو مقصد دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے اور کمال جس کا ذکر شبلی کر تے ہیں یعنی میدان جنگ کی منظر نگاری وہ بھی فکشن میں بھر پور موجود ہوتی ہے ۔بس فر ق اتنا ہے کہ شاعری میں جذبات و کیفیات و معا ملات کو ان الفاظ کے تابع لایا جاتا ہے جو موسیقی کے ما تحت ہوں ۔مگر فکشن ان سے آزاد ہو کر قاری کے ادراک میں اتر تا ہے ۔ ’’صلاح الدین ایوبی‘‘ قاضی عبدالستار صاحب کا مکمل رزمیہ ناول ہے جس کی ابتدا بھی رز م سے ہوتی ہے اور انتہا بھی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنے بھی تاریخی ناول لکھے گئے ہیں ان سب میں رزمیہ عناصر پائے جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس جہاں رزم پایا جاتا ہے کوئی ضروری نہیں کہ وہاں تاریخ بھی ہو جیسے داستا ن و مثنوی۔ 

ناول صلا ح الدین ایوبی ۱۹۶۴ء میں منظر عام پر آتا ہے اور دوسری صلیبی جنگ سے تیسری صلیبی جنگ تک کے معرکوں کا احاطہ کرتا ہے۔اس ناول میں دو ہی کر دار کلیدی طور پر سامنے آتے ہیں ایک یوسف صلاح الدین ایوبی اور دوسرا ملکۂ ایلینور ۔ ناول کے شروع میں ایلینور غالب نظر آتی ہے اور اختتام میں مغلوب ۔ رزم میں کہیں نہ کہیں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ اس میں جس کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس کے کردار کو بہت ہی خوبصورت انداز میں تر اشا جاتا ہے ۔ اس کے سر د وگر م حالات کو بیان کیا جاتا ہے، اس کے لیے قاری کے تئیں ایک قسم کی وفاداری اور ہمدردی پیدا کی جاتی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ ہر ناول نگار اپنے ہیر و کو اس انداز میں پیش کر تا ہے کہ قاری کے سامنے دوسرا کوئی آپشن ہوتا ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے تراشے ہوئے ہیر و کے بر خلاف ناول میں کسی اور کے لیے ہمدردی ظاہر کرے۔ الغر ض ہیر و کے تراشنے کا عمل مثنویوں، مرثیوں اور داستانوں میں خوب نظر آتا ہے جس کی اس ناول میں کوئی ضرورت پیش نہیں آتی ہے ۔ بلکہ تر شاتراشا ایوبی کے کردار کو جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں اس سے دوسرے کردار پس پشت چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ قحطان ( ایوبی کا عیسائی دوست )جس کے ساتھ وہ مشن پرنکلتے ہیںوہ بھی فوراً منظر نامے سے غائب ہو جاتا ہے  ۔ ناول نگار یہاں سے رزم کو شروع کرچکا ہے جہاں سے ایوبی کو کسی قسم کی ویسی پریشانی میں مبتلا نہیں کیا جا تا ہے کہ قاری یہیں سے لڑکھڑانے لگے بلکہ ہلکا سا تردد کے بعد سیدھے ایلینور کی خدمت میں مامور کر دیا جاتا ہے ۔

ملحمی کے ذیل میں ایک جملہ آیا تھا کہ’’ قوم کے ہیرو کے شجاعانہ کارناموں کو ایک پروقار اسلوب میں قلم بند کیا جاتاہے‘‘ اس کا سلسلہ ان ہی ابتدائی صفحات سے شروع ہوجاتا ہے ۔ ملحمی کے ہی ذیل میں دو لفظ ’’ ملی مفاد ‘‘ کا بھی ذکر آیاتھا ۔تو اس کا ذکر شروع میں ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے ’’ میرا خیال ہے قحطان کہ دمشق کی حفاظت کے فرض میں ہم دونوں برابر کے شریک ہیں اگر افرنجیوں کے بجائے عباسی یا فاطمی چڑھ آتے تو بھی دمشق کوبچانا ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا‘‘ ۔اس کے بعد ملک و ملت کے لیے ہیرو اپنے مشن میں نکل جاتا ہے ۔

ناول نثری صنف ہونے کی وجہ سے اپنے اندر گنجائش زیادہ رکھتا ہے کہ تجسس کو برقرار رکھے اور معر کۂ کارزار میں پہنچنے سے پہلے تک قاری کو جزئیات نگاری کی حسین و جمیل وادیوں کی سیر کراتا رہے اور قاری کے لیے ہیر و کے کردار کو روایت کے ذریعہ نہیں بلکہ ہیروکے سامنے مسلمانوں کی کسمپرسی اور مظلومیت کو سامنے لا یا گیا ، دشمن کی فوج میں رہتے ہوئے ملت کے لیے خون کو پرجوش کیا گیا ۔اس درمیان شعری اصناف اور اس نثر ی صنف میں یہ فرق نظر آتا ہے کہ اول الذکر میں ہیروکی ذات و شجاعت کو بہت ہی زیادہ مرکز میں لایا جاتا ہے جب کہ نثر میں ہیروبطور ذات شامل نہ ہوکر ملت کے نمائندے کے طور پر نظر آتا ہے ۔ناول میں لڑائی کا پہلا منظر اس قدر پھیکا ہے کہ شبلی کا قول اس پر بالکل بھی صادق نہیں آتا ہے بلکہ  اس مکمل منظر کو قاضی صاحب بہت ہی تیزی سے بیان کر کے چلے جاتے ہیں ۔

’’ سارا لشکر باغوں میں پھیل کر چلنے لگا ابھی وہ پتھر کے ان مکعب مکانوں سے دور تھے جو شہر پناہ کے دمدموں کا کام انجام دیتے تھے کہ درختوں سے نفخ کی ہانڈیا ں برسنے لگیںاور کونریڈ جیسا جانباز مجاہد گھوڑے سے اتر کر مسیح کی دُہائی دینے لگا میلوں میں پھیلے لشکر کی ایک ایک انچ نالوں ،فریادوں اور آنسوؤں سے چھلک اٹھی ۔ جب ہانڈیوں کا زور کم ہوا اور تیروں ، نیزوں اور پتھروں کی بارش شروع ہوئی تب افرنجیوں سے سنبھالا لیا اور گھوڑوں پر سوار ہوکر دھاوا کیا اور اپنی صفوں کو قائم کرکے چلے اب درختوں پر چھپے ہوئے مسلمان پھاندنے لگے اور جنگ مغلوبہ شروع ہوگئی ۔ لوئی جس سے ایک عورت نہیں سنبھلتی تھی وہ اس یلغار کو کیا سنبھالتا واپسی کا قرنا پھونک کر پیچھے ہٹ آیا ‘‘ (صلاح الدین ایوبی، قاضی عبدالستار. ص34) 
ا
س اقتباس میں شبلی کی خواہش کہ رزمیہ کا کمال کیا ہوتا ہے وہ بالکل مفقود ہے ۔بلکہ اگر یو ں سمجھا جائے کہ شبلی کا رزمیہ مکمل طور پر شاعری پر کلام ہے اس پر بھی خاص صرف مر ثیوں پر ہی ہے اور انہوں نے جس قسم کے کمال کا ذکر کیا ہے وہ اسی زمانہ کی جنگ پر صادق آتا ہے جب ویسی جنگیں لڑی جاتی تھیں ۔ جب کہ صلاح الدین ایوبی میں اس قسم کی جنگی کیفیت کا بیان نہیں ہوا ہے اس لیے اس کو اس پر محمول کر نا مجھے عبث لگتا ہے ۔
 ا
س سے پہلے کی جنگ جو تھی وہ صلیبیوں کی تھی جس میں انہیں شکست ہوئی تھی اور اس اقتباس میں بھی ان ہی سے جنگ ہوئی اور یہاں ان کی جیت ہے ۔ لیکن یہ جنگ نہیں ہے بلکہ فساد ہے جس طر ح ہندو ستان میں ہوتا ہے کہ مذہبی بے ادبی کی جائے اور فساد بھڑ ک جائے بالکل ویسا ہی ہے کہ بائبل کے اوراق پھاڑ دیے جائیں اور عیسائی قوم مسلمانوں کو گاجر ومولی کی طرح کاٹ ڈالے ۔ جیسا کہ اس اقتباس میں ہے ۔
 ا
یک راہب چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا 
’’ کسی مسلمان نے ہماری بائبل پھاڑ کر جوتوں سے مسل دیا ہے‘‘ 
’’عین گرجے کے سامنے مقدس دین کی بے حر متی کی گئی ہے ‘‘ 
دوسری آواز
سارے شہر کے مسلمانوں کی ایک منظم سازش ہے 
کسی منچلے نے ٹکڑا دیا 
’’تو پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھینک کیوں نہیں دیتے ؟(ص:62)

اس کے بعد بلوہ شروع ہوجاتا ہے جس کی منظر نگاری کچھ اس طر ح کر تے ہیں ۔
’’بکتر پوش سواروں نے نیزوں میں مشعلیں باندھیں اور مکانات میں پھینکنے لگے جس طرح چھتے سے مکھیاں نکلتی ہیں بوڑھے جوان ، بچے اور عورتیں نکلنے لگیں۔ان کے ہاتھ خالی تھے اور پیروں میں خوف کی زنجیریں پڑی تھیں ۔ پھر ان پر بہادر شہسواروں اور نامی گرامی نائٹوں کی پیاسی تلواریں بر سنے لگیں اور دم کے دم میں جامع عسقلان تک تمام کوچے اس خون سے جو پانی سے بھی سستا ہے غسل کرنے لگے ۔‘‘ص(62)

اس کے بعد حملہ کا ایک اور سلسلہ ہے جس کی منظر نگاری میں مسلمانوں کو جامع مسجد میں لاچار و مجبور اور محض عبادت پر بھروسہ دکھایا گیا  ہے ۔جس میں اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ یہ اس وقت سے لیکر اب تک کا عجیب المیہ ہے جس پر رزم بھی بزدل نظر آتا ہے جو اب تک ہوتا آرہا ہے۔ ملحمی میں قوم کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے لیکن یہاں قاضی صاحب محض ایک منظر نگار ی سے رزمیہ تاریخ ساز قوم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ جس قوم کو فاتح بن کر رزمیہ داستان کا ہیرو بننا تھا وہ قوم میدان کارساز میں کوئی ہیرونہیں پیدا کر پارہی ہے ۔ 

اس کے بعد سے ناول نگارایسی فضا تیا ر کر تے ہیں جس میں صلاح الدین ایوبی کو اس وقت کے مسلمانوں کی حالت سے رو بر و کرایا جائے ،اس سے کئی کیفیات ضرور سامنے آتی ہیں جو کبھی رجز تو کبھی مرثیہ کی شکل میں ہوتی ہیں ۔وہ جب ایلینور کے پاس سے نکلتے ہیں اور مصر میں داخل ہوتے ہیں تو چاروں جانب مسلمانوں کے روح فرسا مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگر ے آتے رہتے ہیں ۔ مصنف ان مناظر کو ایسے پیش کر تا ہے کہ جس سے ہیرو کے ذہن میں رجز کی کیفیت آئے اور مسجد اقصیٰ کی فتحیابی تک شمشیر فتح چلتی رہے۔ صلاح الدین ایوبی کا کردار تو ایلینور کے ساتھ رہتے ہی مرصع و مجلیٰ کیا جا چکا تھا اب جب اپنے مشن کو نکلتا ہے تو اس وقت صلیبی جرنیلوں کی کرتوت اسے دکھایا جاتا ہے۔ صیہونیوں کا ظلم آسمان پرہوتا ہے اور مسلمان صرف اور صر ف ایک انسانی جانور ہوتے ہیں جو ہر حکم کی فرمانبرداری کے لیے سر جھکائے رہتے ہیں ۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں :

’’ ہمارے جسم لباس کی لذت فراموش کرچکے ہیں ، زبان ذائقہ بھول چکی ، ہم چشموں سے پیاسے لوٹ آتے ہیں کہ حاکموں کے جانوروں کی بے حرمتی کے سزا وارنہ ٹھہرائے جائیں ۔ہم اپنے بیٹے اس لیے پالتے ہیں کہ اپنے سینے تیر اندازی کی مشق کر تے ہوئے عیسائی حاکموں کے تیروں کا ہدف بنائیں ، گردنیں آوارہ عیسائی لونڈوں کی تلواروں کے غلاف ہوجائیں ۔ ہم بیٹیاں اس لیے پیدا کرتے ہیں کہ وہ اپنی بے کس ماؤں ، مجبور باپوں اور مقتول بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے عیسائی حاکموں کی نفسانی آگ بجھائیں ۔‘‘ (ص. 76)

ناول نگار اس صورت حال کو اگرچہ مصرکے تناظر میں لکھ رہا ہے لیکن ہند کے مسلمانوں کی کیفیت اس کی نظر وں کے سامنے ہے ۔ یہی کچھ کیفیت انگریزوں کے عہد میںہندوستان میں بھی پائی جارہی تھی اور اس کے بعد فسادات کے زمانے میں بھی یہ اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کیوںکہ اس کے بعد فسادات کی وہ کیفیت رقم کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر ہندوستان میں فسادات کا خوف رہتا ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ جامع مسجد میں آگ لگادی، قرآن مجید کی جلدیں پھونک دیں ‘‘(ص77) وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہاں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ناول نگار کے سامنے کوئی ہیروابھر کر سامنے نہیں آتا ہے اور نہ ہی عام قاری کے ذہن میں ۔ البتہ قاری کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ یہی کیفیت تو ہندوستان کی بھی تھی بلکہ انگریزوں یا یوں کہہ لیں کہ جابر حاکم کے سامنے کچھ مسلم رہنمائوں کی جو صورت حال ہوتی ہے اس کا بھی ذکر ہوا ہے جو جنگ آزادی کے وقت ہندوستان کی بھی تھی ۔ قاضی صاحب عسقلان کے چند متمول مسلمانوں کا اسٹیٹمنٹ بیان کر تے ہیں جو انہوں نے صیہونی سربراہ کے سامنے دیا تھا ۔ لکھتے ہیں :

’’ ہم کو مسیحی سلطنت میں وہی حقوق حاصل ہیںجو بغداد میں فاطمیوں کو اور قاہرہ میںعباسیوں کو نصیب ہیں ۔ ہماری عبادت گاہیں محفوظ ہیں ۔ ہماری زبان اور ہمارا تمدن زندہ ہے۔ ہم اپنی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں اور گھروں میں روزہ رکھتے ہیں اور بازاروں اور سیرگاہوں میں مساویانہ انداز میں ٹہلتے ہیں ۔ اس فساد کا سبب خود مسلمان ہیں ۔ چونکہ مسلمان ماضی میں کامل حاکم رہے ہیں ۔ اس لیے آج بھی ان میں ایسے نوجوان کی کثرت ہے جو کام سے جی چراتے ہیں اور جب کا م نہیں ہوتا تو شیطان کا جادوارزاں ہوجاتا ہے ۔‘‘ 

قاضی عبدالستار کے اس ناول میں یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ انہوں نے دیگر ناولوں کی طرح اس کا موضوع اور تھیم جنگ رکھا اور ہیرو اس کو منتخب کیا جس کی ساری زندگی تلوار کے ہمراہ اور اور زندگی کی اکثر راتیں میدان جنگ میں گزری ہوں ۔ جس سے قاری کے ذہن میں کتاب شروع ہونے سے پہلے ہی ہیرو کے متعلق ایک خاکہ تیار ہوجاتا ہے اور اس ہیرو کو قاری مکمل جنگی روپ میں تلاش کرتا ہے اور اس کے سحر میں ڈوب جانا چاہتا ہے جیسا کہ دیگر جاسوسی ناولوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لیکن یہاں قاضی صاحب معاشرہ کو پیش کرتے ہیں، انسا نی نفسیات کا بھی عکس ملتا ہے اور حسن و جمال کی طربیہ محفلیں بھی ملتی ہیں ۔ کہیں کہیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ قاضی صاحب انسانی نفسیات کے تعلق سے جو مخصوص ذہن اپنے اندر رکھتے تھے وہی اپنی تحریروں میں پیش کرنا چا ہتے ہیں اس لیے اگر یہ لکھا جائے کہ ان کے یہاں طرب کی منظر نگاری زیادہ مضبوط رہی ہے جنگ کے مقابلہ میں تو شا ید کوئی زیادہ ناانصافی نہیں ہوگی کیونکہ اس ناول میں ایک کردار صہب کے نام سے آتا ہے وہ کردار انسانی ہوتا ہے لیکن جس پرکیف فضا کا وہ خوشہ چیں ہوتا ہے وہ مکمل طور پر مافو ق الفطر ی ہوتا ہے۔ اس کا ذکر قاضی صاحب نے تقر یبا ڈھائی صفحات میں کیا ہے جو مکمل بزمیہ تحریر ہے ۔ ویسی تحریر نہ توکہیں رجز کی اور نہ ہی رزم کی نظر آتی ہے۔ یو سف کے صلاح الدین بننے کے بعد جوچند رجزیہ جملے لکھتے ہیں وہ کچھ اس طر ح ہیں : 

’’ ہم شیروں کی طرح للکار کر شکار پر جھپٹتے ہیں ۔ اس کو خبر دار کر دو کہ اپنے لشکروںکو استوار کر لے ، اپنے قلعوں کو آراستہ کر لے ۔ ہماری یلغار ان تاجداروں کا محاصرہ نہیں جو موت کے خوف سے اپنے لشکر اٹھالائے ۔ ہم جب رکاب میں پاؤں رکھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ شہادت ہماری رکاب پکڑے گی اور رضوان ہمیں اتارے گا۔ ہماری موت لڑائی کا خاتمہ نہ ہوگی ۔ ہمارا ہر سردار صلاح الدین ہوگا جس کے اس کے زمانے نے تلوار پکڑا کر اٹھایا ہے ۔‘‘ 

یہ تو رجز کا ایک حصہ تھا ۔ اس طرح کے جذبات کتاب میں کئی مقامات پر پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں صرف اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آن شان اور بان کو کوئی زنگ نہیں پہنچا تھا بلکہ وہ کسی ایسے ہیرو کی تلاش میں تھے جو ان کو ان کی ماضی کی بہادری کو وا پس دلا سکے ۔ کیونکہ نور الدین زنگی اپنی زندگی جی چکا تھا اور اس کی سلطنت میں سوائے اس کے قلعہ کے باقی تمام اطراف میں مسلمانوں پر ہولناک ظلم وستم تھے جس کا ذکر بھی اوپر آیا ۔ جنگ کی ایک کیفیت کا ذکر اس سے پہلے بھی آچکا ہے جو اس بات کی مثال کے لیے پیش کیا گیا تھا کہ شبلی کی خواہش کہ رزم ایسا ہوتا ہے وہ صرف مرثیہ کی شاعری میں نظر آتی ہے جہاں مذہب پور ی طرح حاوی نظر آتا ہے لیکن ملکوں کی جنگ میں وہ رزم نظر نہیں آتا ہے جہاں نہ مذہب کا افیم غالب ہو پاتا ہے اور نہ ملت کا جوش ٹھاٹھیں مارتا ہے بلکہ مر ثیہ کے برعکس فکشن میں سوجھ بوجھ کی حکمت عملی سے جنگ میں فتح حاصل ہوتی ہے جو قاری میں جوش کم بھر تا ہے اور تدبر زیادہ پیدا کر تا ہے ۔ جنگ کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں :

’’ سپہ سالار عادل کو قاہر فوجیوں کے ساتھ حکم دیا کہ افرنجیوں کی سرحدی بستی میں تہلکہ ڈال دے اور خود دس ہزار خچروں پر قلعہ شکن آلات بار کیے اور بارہ ہزار سوار وں کے ساتھ بادل کی طرح اٹھا اور حشیشوں کے مرکز پربجلی کی طرح گرا ۔ وہ تاریک جنگ جن کی ناقابل عبور ویرانی شیخ الجبال کی سپر تھی جلا کر خاک کردیے ۔ وہ آبادیاں جو فدائیوں کا اسلحہ خانہ اور رسد گاہ تھیں تہ وبالا کر دیں ۔ وہ فلک بو س قلعے جن تک پہنچتے پہنچتے عقاب تھک جاتے تھے اور جن کے برج میںبیٹھ کر شیخ الجبال مصر سے خوارزم تک اور افریقہ سے یمن تک کے حکام کو خط لکھا کر تا تھا زیرو زبرکر ڈالے ۔ ‘‘ 

اس اقتباس میں صرف جنگ کا ہی ذکر ہے لیکن مقابل کا ذکر بالکل بھی نہیںہے بلکہ یکطرفہ جیت کا بیان ہے ۔ رزم کا جیسا تجربہ مرثیوں میں ہوتا ہے اور وہاں رزم کی جو کیفیت تخلیق ہوتی ہے وہ اس طرح کہ ہر بند میں مخالف کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے اور رجزکے ساتھ ہی رزم سفرکرتا رہے وہاں رزمیہ پہلوایسا اثر دار ہوتا ہے کہ قاری سحر کی کیفیت میں چلا جاتا ہے ۔ یہاں صرف فتح کا ذکر ہے کہ میدان جنگ کے کن کن حصوں پر ہم نے فتح حاصل کی ، ہماری فتح بہت ہی عظیم ہے کہ ہم نے عظیم عمارتوں کو سبو تاژ کر دیا یا اس پر فتح حاصل کر لی، لیکن ایسی صورت حال میں مخالف کی فوج کا کیا ردعمل تھا اس کا ذکر بالکل بھی نظر نہیں آتا ہے ایسی صورت میں رزم تخلیق نہیں ہو پاتی ہے بلکہ وہ مطلقا ایک سادہ سا بیانیہ بن کر رہ جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا اقتباس میں ہے ۔

الغرض اس ناول میں اگرچہ رزم کی فضا پائی جاتی ہے لیکن وہ کمال نہیں جس کا ذکر شبلی نے کیا ہے بلکہ عربی تنقید کے مطابق ملحمی کے عناصر پائے جاتے ہیں کیونکہ ملی مفاد کے لیے قوم کے ہیرو (صلاح الدین ایوبی ) کے شجاعانہ کارناموں کا ذکر بہت ہی پروقار اسلوب میںقلم بند کیا گیا ہے جو قاضی صاحب کا ہی خاصہ ہوسکتا ہے ۔

Thursday 12 March 2020

رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات

رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات 

امیر حمزہ


رباعی کا نام ذہن میں آتے ہی اس کے بہت سارے مقتضیا ت ذہن میں آنے لگتے ہیں اور تاریخ کے نشیب وفراز میں ذہن گر دش کر نے لگتا ہے۔ ذہن سب سے پہلے رباعی کے متعلق تعارف چاہتا ہے کہ رباعی کس چیز کا نا م ہے اور اس کے فنی تقاضے 
کیا ہیں ۔

رباعی صورت کے اعتبار سے مختصر تر ین غزل اور سیر ت کے اعتبار سے مختصر تر ین نظم ہے ۔ رباعی ساخت کے لحاظ سے پچیس تیس الفاظ سے تر کیب یافتہ چار مصر عوں پر مشتمل صنف شاعری کا نام ہے ۔ پچیس تیس الفاظ سے مر کب یہ چار مصر عوں کے اندر ایک جہان معنی آباد ہو تا ہے ۔ اسی لیے رباعی حکماء اور صوفیا کی محبوب تر ین صنف سخن رہی ہے ۔

رباعی عربی لفظ ربع سے مشتق ہے اس کے معنی چار چار کے ہیں ۔مگرشا عر ی کی اصطلاح میں رباعی اس صنف سخن
 کو کہتے ہیں جوبحر ہز ج کے اخر ب اور اخر م کے چوبیس اوزان میں سے کسی بھی وزن میں چار مصر عوں پرمشتمل ہو ۔مضمون، خیال،فکر اور جذبہ کو تدریجی ارتقا کے ساتھ پیش کیا گیا ہو ۔

رباعی نگار کے لیے تسلسل بیان ،الفاظ و تر اکیب کا موضو ع اور بر محل استعمال کا خیال رکھنا بہت ہی لاز م ہو تا ہے۔گویا رباعی کا فن سمندر کو کوزے میں بند کر نے کا فن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رباعی گو کے لیے دیگر پابندیوں کے ساتھ ساتھ منا سب ،موزوں الفاظ اور دلکش اسلوب کا خیال رکھنا نہا یت ضر وری ہوتا ہے۔کیونکہ مذکور ہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اعلی درجے کی رباعی کو وجود میں لانے کے لیے بہت ہی ضر وری ہے۔ جیسا کہ رباعی کے فن میں بحث کرتے ہوئے ریوبن لیوی فر ماتے ہیں ۔

’’یہ بہت ہی مختصر نظم ہو تی ہے جس کا انحصار دو اشعار یعنی چار مصر عوں پر ہو تا ہے ۔ جس میں پہلا ،دو سرا اور چو تھا مصر ع ہم قافیہ ہو تا ہے ۔ تیسر ا مصرع عموما قافیہ سے با ہررہتا ہے ۔اس مختصر اور محدود خاکہ میں خیا ل کا اظہار اور تو ضیح بھی ہو تی ہے اور چو تھے مصر ع میں ایک استفہامیہ تو قف پایا جا تا ہے ۔ رباعی اکثر اپنی نو عیت کے اعتبار سے کسی خیال یا سانحہ کی اچانک اور بے اختیا ر لیکن قلیل اور مؤثر اندا ز میں کر تی ہے ‘‘(فارسی ادب کی مختصر تاریخ ، متر جم حفیظ الدین کر مانی ، ص ۳۹۔۴۰)

قصیدے میں جس طرحتشبیب سے فضا ہموار کی جاتی ہے اسی طرح رباعی کے پہلے اور دوسرے مصر ع میں کہی جانے والی بات کی جھلکیا ں پیش کی جاتی ہیں ۔تیسرا مصر ع اوپر کے دونوں مصر عوں کے ساتھ چو تھے مصرعے کے لیے ایک تیز ضرب تیار کر تا ہے جس سے چو تھا مصرع اتنا پر اثر ہوجا تا ہے کہ وہ مصر ع دل پر ناخن زنی کر تا ہے ۔اس چوتھے مصر عے میں اتنی بر جستگی ، بے ساختگی ،اور شدت ہو نی چاہیے کہ سننے والا مسحور ہوجا ئے ۔عام طور پرکامیاب رباعیوں میں پہلے تین مصر عوں میں تجسس بر قرار رہتا ہے اور چو تھا مصر ع میں اپنی تمام تر ڈرامائیت کے ساتھ سامع کے دل میں اتر جاتاہے ۔اسی وجہ سے رباعی کا سب سے جاندا رمصر ع چوتھا مصر ع ہوتا ہے ۔

 رباعی کے متعلق جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی حر م ہے جس میں ایک ہی خیال جا گزیں ہوتا ہے ۔رباعی کے پہلے مصرع میں خیال کو متعارف کیا جاتا ہے دوسرے مصرع میںاس خیال کی وضاحت ہو تی ہے ۔تیسرا مصرع رابطہ ہو تا ہے جو پہلے دو مصرعوں کو چوتھے مصرع سے ملاتا ہے اور چو تھا مصرع خیال کا نقظہ عروج ہوتا ہے ۔ایک پنچ لائن ہوتا ہے جس کی گونج تا دیر سنائی دیتی رہتی ہے ۔بقول صائب تبریزی ۔

’’از رباعی مصر ع آخر زند ناخن بہ دل ‘‘

رباعی فنی اعتبار سے دوسر ے اصناف سخن سے ایک حد تک مماثل نظر آتی ہے ۔غزل ،قصیدہ اور مثنوی کے کچھ کچھ خصوصیات رباعی میں بھی پائی جاتی ہیں ۔قصیدہ اور غزل کی طرح رباعی کے پہلے دو نوں مصر عے ہم قافیہ ہوتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ رباعی اپنے مخصوص وزن میں ہوتی ہے اور دو شعر وں میں محدود ہوتی ہو اور دوشعر وں میں ایک ہی بات کہی جاتی ہے ۔مثنوی اور رباعی میں بھی ایک طر ح کی مماثلت پائی جاتی ہے کیونکہ جس طر ح مثنوی میں تسلسل بیان اور ارتقائے خیال پایا جاتا ہے اسی طر ح رباعی میںبھی تسلسل بیان اور ارتقائے خیا ل ہوتا ہے ۔

رباعی کے اقسام 

رباعی اپنی ہیئت کے اعتبار سے کئی اقسام میں پائی جاتی ہے ۔عموما رباعی میں تین ہیئتیں ہوتی ہیں ۔رباعی خصی ہوگی ، غیر خصی ہوگی یا مستزاد ہوگی۔ رباعی خصی وہ رباعی ہے جس کا پہلا دوسر ا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہو ۔رباعی خصی مقبول تر ین رباعی کی ہیئت ہے اسکی مقبولیت کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوتا ہے کہ ابتدا سے لیکر موجودہ دور تک خصی رباعیاں ہی کہیں گئیں ہیں ۔

غیر خصی رباعیاں وہ رباعیاں کہلاتی ہیں جن کے چاروں مصر ع ہم قافیہ ہوں ۔ غیر خصی رباعی میں وہ تاثر نہیں پیدا ہوتا جوخصی رباعیوں میں پیدا ہوتا ہے ۔ کیونکہ تیسرا مصرع ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے وہ جھٹک اور تاثر پیدا کرنے میں نا کا م رہتا ہے جو ایک خصی رباعی کی خصو صیت ہو تی ۔خصی رباعی کا تیسرا مصرع چونکانے والی کیفیت سے پر ہوتا ہے ۔جس کی وجہ سے رباعی کے تاثر میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔جبکہ غیر خصی رباعی کا لہجہ سپاٹ ہوتا ہے ۔

مستزاد کے لغوی معنی بڑھا یا گیا ، زیادہ کیا گیا ۔ عروض کی اصطلاح میں وہ شعر کے جس کے ہر مصرع یا بیت کے بعد ایک ایسا ٹکڑا منسلک ہو جو اسی مصرع کے رکن اول یا رکن آخر کے برابر ہو مگر خوبی یہ ہو کہ جس مصرع یابیت کے بعد آئے کلام اور معنی میں ربط بھی رکھتا ہو اور زائد بھی ایسا ہو کہ مصرع یا بیت معنی میں اس کی محتاج نہ ہو۔

مستزاد کی دو قسمیں ہیں  (۱) مستزاد الزام (۲)  مستزاد عارض 

مستزاد الزام وہ ہے جس مین اضافہ کر دہ فقرہ یافقرے اصل شعر یا مصرع کے مفہوم کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہو تے ہیں ۔ مستزاد عارض وہ ہے جس میں مستزاد اصل شعر یا مصرع سے مکمل طور پر میل نہیں کھاتا ہوبلکہ اس کے بغیر بھی کلام با معنی رہتا ہو۔

رباعی کے اوزان 

رباعی کے مشہور و معروف چوبیس اوزان ہیں اوہ تمام  اوزان بحر ہزج کے زحافات سے مستخر ج ہیں ۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پھر رباعی کے بنیادی اوزان کتنے ہیں ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ رباعی کے بنیادی اوزان دو ہیں یا چاراور تخنیق کے عمل سے یہ چوبیس اوزان ہوجاتے ہیں ۔

تخنیق کا عمل اس طر یقے سے ہوتا ہے کہ کبھی کبھی مصر ع کی تقطیع کر نے پر دو ایسے افاعیل ایک جگہ جمع ہوجا تے ہیں کہ ان کے جمع ہوجانے سے تین لگا تا متحر ک حر ف جمع ہوجاتے ہیں ۔ان تین لگا تا ر متحر ک حر ف میں سے بیچ والے حرف کو ساکن کر دینے کو ہی تخنیق کہتے ہیں ۔اگر ایک ہی افاعیل میں تین لگاتار حرف متحر ک جمع ہو جا ئے اور اسمیں حر ف اوسط کو ساکن کر دیا جائے تو اس کو تخنیق نہیں ’’تسکین اوسط‘‘کہا جاتا ہے ، جیسے مُفتَعِلُن میں ت، ع اور ل متحر ک ہیں اور ان تینوں میں حر ف ع اوسط ہے اس کو ساکن کر دیا تو مُفتَعْلُن (مُف، تَع،لُن) ہوگیا ۔ مُفتَعْلُن عروض میں کوئی رکن نہیں ہے اس لیے اس کو مفعولن سے بد لیتے ہیں ۔ مُفتَعْلُن اور مفعولن دنوں وزن میں برا بر ہے ۔اس کو تسکین اوسط کہتے ہیں تخنیق نہیں ۔

تسکین اوسط کی مثال کو سمجھ لینے کے بعد اب تخنیق کی مثا ل سمجھتے ہیں ۔اس کے لیے ’’لا حول و لا قوۃ الا با للہ ‘‘کا جو وزن ’’ مفعولُ ، مفاعیلُ ، مفاعیلن ، فاع ‘‘ کو لیتے ہیں ۔اس میں مفعول کا ’ل‘ متحر ک ہے پھر مفاعیلُ کی ’م ‘  اور ’ف‘  بھی متحر ک ہے ۔ یہ لگاتا ر تین متحر ک حر وف ایک رکن میں نہیں بلکہ دو رکن مفعو لُ اور مفاعیلُ میں ہے ۔ان تینوں حر وف میں بیچ والا حر ف ’م ‘ہے اس کو ساکن کر دیا ۔ اب مفعول ُ کا ’ل‘ اس ’م ‘ میں مل جائیگا اور یہ مفعولم، فاعیلُ پڑھا جائیگا ۔اور یہ امر واضح ہے کہ مفعولم عروض میں کوئی رکن نہیں ہے اس لیے اس کو مفعولن سے بدل لیتے ہیں ۔اب مندر جہ بالا وزن اس طر ح ہوگیا ۔مفعولن ،فاعیل، مفاعیلن ، فاع ۔

مفعولن ،فاعیلُ، مفاعیلن ، فاع ۔اس میں دیکھیے کہ فاعیلُ کا ’ل ‘ متحر ک ہے اور مفاعیل کا ’م ‘ اور ’ف ‘ بھی متحر ک ہے ۔ گو یا یہاں بھی ان دونوں ارکان کے درمیان تین لگاتار حر ف متحر ک ہیں ۔اب اس میں ہم بیچ والے حر ف میم کو ساکن کر دیتے ہیں ۔اب یہ فاعیلم، فاعیلن، فا ع ہوگیا یعنی پورا وزن مفعولن ،  فاعیلم، فاعیلن، فا ع۔ یہاں پر دیکھیے کہ فاعیلم اور فاعیلن عر وض کے ارکان نہیں ہیں اس لیے فاعیلم کو مفعولن سے اور فاعیلن کو مفعولن سے بدل دیتے ہیں ۔ اب وز ن بن جاتا ہے مفعولن ، مفعولن، مفعولن ، فاع ۔یہ وزن اوپر رباعی کے اوزان میں سے بائیسویں نمبر میں موجود ہے ۔اسی طر یقے سے تخنیق کے عمل سے اوزان بن تے رہتے ہیں ۔

جس بات کا ذکر اوپر آیا تھا کہ تخنیق کے عمل سے چار اوزان سے رباعی کے چوبیس اوزان بن جاتے ہیں یا دو اوزان سے۔ آخر وہ اوزان کون سے ہیں جن پر تخنیق کے عمل کر نے سے اوزان کی تعداد ۱۲ ہوجاتی ہے ۔ وہ دو اوزان یہ ہیں ۔

مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعل
مفعول مفاعیلُ مفاعیلُ فعل

اصولی طور پر ان اوزان میں تخنیق کے عمل کر نے سے ۱۲ اوزان بن جاتے ہیں اور ان کا آخر ی رکن یا تو ’ فع ‘ ہوتا ہے یا ’فعل‘ ۔۱۲ اوزان سے ۲۴ اوزان بنانے کے ایک طر یقہ یہ ہے کہ فع کی جگہ فاع اور فعل کی جگہ فعول رکھ دیتے ہیں تو ان اوزان کے تعداد ۲۴ ہو جائیگی ۔ لیکن یہ اصولی طر یقہ نہیں کہلاتا ہے ۔ اصولی طریقے یہ ہے مندرجہ بالا دو اوزان کے ساتھ مندرجہ ذیل جو اوزان میں بھی تخنیق کا عمل کیا جائے ۔

مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعول
مفعول مفاعیلُ مفاعیلُ فعول

ان چاروں اوزان میں تخنیق کے عمل کر نے سے رباعی کے اوزان چوبیس ہوجاتے ہیں ۔

اس بات کا خیال عام ہے کہ جب سے رباعی کا وجو د ہوا ہے تب سے اس کے اوزان ۲۴ ہی رہے ہیں اور ان اوزان کے خالق رودکی سے سر جاتا ہے ۔اگر چہ اس بات کی کوئی ثبوت نہیں ہے مگر پھر بھی ان اوزان کو رودکی کے اوزان کہا جاتا ہے ۔پانچویں صدی ہجری سے لیکر چودہویں صدی ہجر ی تک اس کے اوزان چو بیس ہی رہے ۔لیکن چودہویں صدی ہجر ی میں مجسم عروض جنا ب علّام بھگوان چندر بھٹناگر سحر عشق آبادی نے اس میں ۱۲ اوزا ن کے اور اضافہ کیے اور رباعی کے اوزان کو انہوں نے ۳۶ کر دیا ۔اضافہ شدہ اوزان رباعی کے اوزان کا ایک قاعدہ ’’وتد پئے وتد اور سبب پئے سبب‘‘ کے بنیاد پر ہی مبنی ہے ۔لیکن جہاں تک ان اوزان کے تسلیم کر نے کی بات ہے تو ان اوزان کو پروفیسر عنوان چشتی اور راز علامی کے علاوہ کسی نے تسلیم نہیں کیا ۔یہ بات بھی ہے کہ کسی نے انکار بھی نہیں کیا ۔سحر عشق آبادی نے ۱۲ اوزا ن کا اضافہ کر کے ۳۶ اوزان کیے تھے ان کے بعد انہیں کے شاگر د راز علامی نے ان ۳۶ اوزان پر مزید ۱۸نئے اوزان کا اضافہ کر کے رباعی کے اوزان کی تعداد ۵۴ کردی اور اعلان بھی کر دیا کہ آخر ی حد ہے اس سے زیاد ہ اوزان وضع نہیں کیے جاسکتے ۔راز علامی کے اوزان بھی رباعی کے اوزان کے قاعدے کے مطابق ہیں ۔لیکن ان اوازن کی تائید میں کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ۔البتہ موجودہ وقت میں کندن لال کندن نے سحر عشق آبادی کے بارہ اوزان کو پیش کیا ہے اور انہوں نے اپنی رباعیات میں ان اوزان پر تجر بہ کیا ہے اور اپنی رباعیوں کوبھی اس وزن میں ڈھالاہے ۔وہ بارہ اوزان یہ ہیں 

ڈاکٹرزار علامی علامہ سحر عشق آبادی کے جانشین ہیں انہوں نے بھی اپنے استاد کے راہ پر چلتے ہوئے رباعی کے مزید اٹھا رہ اوزان تخریج کیے ۔ان اٹھارہ اوزان کی تخریج کے لیے انہوں نے پہلے چار اصل اوزان ایجاد کیے 

رباعی گو شعر ا کے لیے یہ ضروری نہیں کہ رباعی کا پہلا مصرع اگر اس نے ایک وزن میں کہا ہے تو بقیہ مصرع بھی اسی وزن میں ہوں بلکہ ان مختلف اوزان میں سے کسی بھی وزن کا استعمال کر سکتا ہے ۔بعض شاعر وں نے اخر ب اور اخر م کے اوزان کو آپس میں ملانے پر اعتراض کیا ہے ۔ یعنی رباعی کا پہلا مصرع اخر م میں ہو تو بقیہ مصرع اخر م ہی میں ہوں ۔اگر پہلا مصرع اخر ب میں ہو تو بقیہ مصرع اخر ب میں ہی ہو نے چاہیے ۔ لیکن اکثر شاعر وں نے اس قسم 

کی پابندی کو روا نہیں رکھا ہے ۔یعنی ایک ہی رباعی میں مختلف اوزان آسکتے ہیں ۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں ۔

’’دونوں دایروں کے اوزان کا ایک دوسرے سے منسلک کرنا جائز ہے ۔ یہ ضر وری نہیں کہ چاروں مصرعے چو بیس میں سے کسی ایک ہی وزن میں ہو ں ۔ چو بیس اوزان نے باہم اشتراک سے بے شمار شکلیں پیدا ہوں گی ۔ صاحب ’’بحر الفصاحت ‘‘ نے بتا یا کہ کم از کم بیاسی ہزار نو سو چو الیس شکلیں بیدا ہوتی ہیں ۔ جن کے اوزان یا تر تیب مصاریع میں کچھ نہ کچھ نہ فرق ضرور رہے گا ۔ اوزان کی اتنی کثرت و دقت کے سبب کبھی کبھی بڑے بڑے اساتذہ نے رباعی میں دھوکا کھایا ہے ۔‘‘ (اردو شاعر ی کا فنی ارتقاء ،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ص ۳۱۱)

رباعی گو شعر اکے لیے بعض عروضیوں نے یہ پابندی بھی لگائی تھی کہ کہ اخر ب اور اخر م کے اوزان کو تو آپس میں ملا سکتے ہیں مگر جب مصرع اول و دوم میں فعول اور فاع آگیا تو تیسرے اور چوتھے مصرع میںبھی فعول اور فاع کا لانا ضروری ہے ۔لیکن عام طور پر رباعی گو شعرا نے صرف اس بات کا خیال رکھا ہے کہ چو بیس اوزان میں سے کوئی بھی ایک وزن رباعی میں نظم کیے جاسکتے ہیں ۔

رباعی اکیسویں صدی میں 

شاعری اقدار کو شخصیت سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے عمل میں سموتی رہتی ہے اور زندگی کی بدلتی ہوئی صورتوں میں اس کیفیت کو قائم رکھتی ہے جو ماضی سے حال کے وابستہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالتی ہے اور متحر ک زندگی کو انسانی روح کی صداقت کا آئینہ بنا دیتی ہے۔ اس لیے ہر عہد اپنے نمائندے ساتھ ہی لاتا ہے جنہیں اقدار کو اپنی شخصیت سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے عمل کو حسن کا معیار عطا کر نا پڑتا ہے ۔ ۱۹۰۵ ء ، ۶۰، ۷۰ ، ۸۰ سے اکیسویں صدی کے پہلی دہائی تک شعرا جس طر ح دیکھ ا ور محسوس کر رہے تھے اسی طر ح پیش کرنے کی دیانت دارانہ کو شش ان کا اولین عمل رہا ہے۔ کسی فرضی چہار دیواری کے اندر وہ بندرہنا نہیں چاہتے ہیں اچھے روایات کا انہیں علم ہے ۔ یعنی وہ اکثر روایات کی لکیر پیٹتے رہنے کو ادبی فعل نہیں سمجھتے ، محض نعر ہ بازی یا اصلاح کے خوش کن اور دلفریب مفروضات سے گھرے رہنا وہ پسند نہیں کرتے بلکہ ننگی حقیقتوں کو اپنانا بہتر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات کے تعلق سے بھی اتنے ہی کھردرے اور بر ہنہ رہتے ہیں ۔ لیکن تمام جدید ذہن والے شاعرو ں پر یہ باتیں صادق نہیں آتی ہیں ۔ بیشتر ذہن حد سے زیادہ کھر درا اور برہنہ ہوگیا ہے جس کے نیتجہ میں ان کی آواز صدا بصحرا ثا بت ہوئی ہے ۔ 

اسی اور نوے کی دہائی میں شعرا کا ایک نیا قافلہ نظر آیا جنہوں نے مابعد جدیدکے عہد میں سانس لیا اور اپنے منفر د لہجے سے اردو شاعر ی کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا او ر اسے اظہار کے نئے امکانات کی نوید دی ۔اس عہد کی شاعری میں ہر لفظ میں کئی الفاظ کی گونج سنائی دیتی ہے ، ہر تصور میں کئی تشبیہیں جلوہ نما اور ہر آواز میں بے شمار لہجے نظر آتے ہیں ۔ ایک بے انت ہنگام اور انتشار کی سی صورت ہے ایک الجھی ہوئی ڈور ہے جس کا کوئی سرا نہیں نظر آتا ہے ، ایک گورکھ دھندا ہے ، مایا جال ہے ، ایک حلقہ دام خیال ہے ، ہر طر ف فریب دھوکہ اور سراب کی سی کیفیت ہے ایک بے معنی کھیل اور تماشہ ہر سوں جاری ہے ، سر دست ایک شور بر پا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔   ’’ کوئی امید بر نہیں آتی : کوئی صورت نظر نہیں آتی ‘ ‘ 

یہ صورتیں اردو رباعی میں مکمل طور پر نظر نہیں آتی ہیں البتہ اس سے مفر بھی نہیں ہیں ۔ یہاں تک امام ِ جدیدیت کے یہاں بھی کلاسیکیت نظر آتی ہے۔ 

لفظیات و شعر یات کے اعتبارسے روایتی رباعی اور جدید رباعی میں بہت ہی واضح فر ق نظر آتا ہے ، جدید رباعی گومیں سے کچھ کے یہاں روایت سے بغاوت نظر آتاہے مطلقاروایتی شاعری کے لفظیات جیسے ، عشق ، محبت، دیدار ، آنسو، وفا ، محبوب ، زلف ،انگڑائی، نزاکت ، حسن، گل و بلبل، جنوں ،قفس ، برق و آشیاں ،حسر ت، شراب ، جام ، میخانہ اور ساقی وغیر ہ کے مقابلے ، صنعت ، مزدو ر قید ،پھانسی ، بغاوت ، خوں ، قتل ، جنگ ،سمندر ، آگ ، سایہ ، عمارت ،شجر ،اور چیخ وغیر ہ جیسے لفظیات ہیں ۔انہیں بدلتے ہوئے لفظیا ت وموضوعات کے تحت صر ف تین رباعی گو شعرا کی رباعیوں کا مختصراً جائزہ پیش ہے ۔

فرید پربتی 

فرید پر بتی اردو رباعی کا ایک مخصوص نام ہے جنہوں نے اردو رباعی کو بہت سارے تجر بات سے نوازا ۔فرید پربتی نے اپنی رباعیوں میں جس سادگی و پر کاری کے ساتھ اپنے خیالات و احساسات کورباعی کے پیکر میں ڈھالا ہے وہ جدید رباعی گو میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے ۔ان کے دو خالص رباعیوں کے مجموعے ’فرید نامہ‘ اور’ خبر تحیر ‘ہیں اور دو شاعر ی کے مجموعے ’اثبات‘ اور ’ہجوم آئنہ‘ ہیں ان میں غزلوں کے ساتھ رباعیوںکی کثیر تعدادبھی ہے ۔
جب ہم ان کی رباعیوں کا گہر ا مطالعہ کر تے ہیںاور جو پہلا تأثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعر ی کی عمارت ذاتی تخلیقی توانائی ، اور اظہار کا جذبہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔ان کی رباعیوں میں ایک توانا نظام فکر پایاجاتا ہے اور اپنی رباعیوں میں ایک منفر د لب و لہجہ اور شیر ینی و نغمگی کو پیش کر تے  ہیں جس کی وجہ سے ان رباعیاں قاری کے اثر میں اپنا ایک اثر چھوڑ جاتی ہیں ۔

فرید پربتی کے یہاں روایتی شاعر ی کی پاسداری او جدید شاعر ی کا امتزاج بخوبی نظر آتاہے اور شعر ی روایات کے شعور نے ان کے شعر ی ادراکات کو نکھارنے اور سنوارنے میں زیادہ اہم فریضہ انجام دیا ہے ۔جمالیا تی شعر کے اظہار میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ملک کی عام تہذیبی ، روحانی اور انسانی روایات واقدار کا بھی گہرا اثر نظر آتا ہے ۔

فرید پر بتی کی رباعیوں میں عاشقانہ کیف و سر ور بھی ہے اور رندانہ مستی بھی ۔ان کی رباعیوں میں واعظ کے پندو نصائح بھی ہیں، در س اخلاق و اصلاح کا میلان بھی ، فلسفیانہ اور حکیمانہ رنگ و آہنگ بھی کئی جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ان تمام میں ایک چیز جو غالب نظر آتی ہے وہ ہے حزن ملال کا عنصر ۔یہ رنگ و آہنگ ان کی غزلوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کااثر ان کی رباعیوں میں بھی نظرآتا ہے ۔

خوابوں کی رقابت ہے کہاں تک جاؤں 
اب کیسے بھلا اپنے مکاں تک جاؤں 
اپنے ہی تعاقب میں ہوں سرگرداں 
اس گنبد بے در میں کہاں تک جاؤں 

مندرجہ بالا رباعی میں رقابت ، تعاقب اور گنبد بے در جیسے لفظیات کے ساتھ جس مضمون کو پیش کیا گیا ہے وہ اس دور کے شعری ذوق اور نزاکت کو بخوبی پیش کر رہی ہے ۔رباعی کے لفظیات اور مضامین کبھی بھی ایسے نہیں رہے ہیں ۔ رباعی جس سادگی کا مظاہر ہ کر تی تھی اور جس صاف تر سیل کا قائل تھی وہ اس میں آپ محسوس نہیں کر رہے ہوں گے یہی وجہ کہ جدیدیت دور غزل کے اثرات رباعیوں میں بھی نظر آیا ہے۔

فرید پر بتی اپنی رباعیوں میں عصر حاضر کے تہذیبی انتشار اور معاشر تی نظام میں پھیلی بے راہ روی اورانسانی اقدار کی شکست و ریخت جیسے مسائل ۔ سماج و معاشر ہ میں پسرا ہواروز مر ہ کے حالات اور کشمیر جیسے صوبے میں استعماری طاقتوں کے خلاف احتجاجی آہنگ بہت ہی صداقت کے ساتھ نہایت فکر انگیز انداز میں پیش کر تے ہیں ۔ان تما م مسائل کے اظہار میں کہیں سادہ سی زبان اور کہیں اشاراتی و علامتی زبان بھی استعمال کر تے ہیں جو جدیدیت کا خاصہ رہی ہے۔

طوفان حوادث میں بکھرتا ہے وجود
اک آگ کے دریا سے گزرتا ہے وجود
ہے غول بیاباں کا تعاقب شب و روز
اس تیرہ خاک داں میں ڈرتا ہے وجود

فرید پر بتی اپنی رباعیو ں میں ایسے آفاقی مسائل کو اٹھاتے ہیں جس سے آج کا انسان دو چار ہے ۔انسان ہی نہیں بلکہ پورا عہد ہی اس سے متاثر نظر آتا ہے ۔تیزی کے ساتھ حالات بد ل رہے ہیں اقدا رو روایات کو ایک ناپاک دفتر قرار دے کر خود کو ان تمام پاندیوں سے بر ی کر کے صارفیت کے پابند ہوتے جارہے ہیں ۔انسانی معاشر ہ کا اس سائنسی معاشرہ میں کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا ۔ ہماری تہذیبیںاب اذکار رفتہ ہوگئیں اور ساتھ میںہم اپنی تہذیبوں کی پامالی کا کوئی گو شہ فراموش نہیں کر رہے ہیں ۔یہ وہ تمام چیزیں جس سے آج تمام انسانی معاشرہ دو چارہ ہے۔ فر ید پر بتی ان احساسات کو اپنی رباعیوں میں پیش کر نے کی جگہ جگہ کوشش کی ہے ۔

بڑ ھتا ہے اب احساس زیاں روز بروز
جلتا ہے آسودہ مکاں روز بروز
بدلا ہے چمن بدلا ہے گلچین کا مزاج
خوابوں کا یہاں اڑتا ہے دھواں روز بروز

بہر حال فر ید پربتی کی رباعیاں ان کی جولانی فکر اور ذہنی جد ت و اختراع کا نتیجہ ہیں ۔ اس میں گیر ائی او ر گہرائی بھی جگہ جگہ پر پائی جاتی ہے۔ رباعی کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے انہوں نے رباعی کے مزاج کو حتی الامکان برقرار کھنے کی کوشش کی ہے بلکہ قدیم علامتوں اور تر کیبوں سے نئے معانی پیش کیے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی رباعیاںو قت کے مزاج سے بھی میل کھاتی رہی ہیں ۔انہوں نے اپنی رباعیوں کے زبان میں تھوڑا سا عام رباعی گوسے جو ابھی رباعی کہہ رہے ہیںالگ لہجہ انتخاب کیا۔ ا س وجہ سے ان کی رباعیا ں طر ز فکر او راظہار بیان دونوں اعتبار سے اپنا ایک منفر د مقام رکھتی ہیں جسمیں ذات ، حیات ، کائنات، فر د کا داخلی احساس اس کی محر ومیاں او ر ناکامیاں ساتھ میں موجودہ دور کا دردو کر ب جیسے موضو عات پائی جاتی ہیں ۔

اکرم نقاش 

اکر م نقاش ایک منفر د لب و لہجہ کے ساتھ اردو رباعی میں ابھر ے ۔انہوں نے اپنی شاعر ی کا آغاز غزل سے کیا پھر دوسرے ہی منزل میں رباعی پر قدم رنجہ فرما گئے اور ’’حشر سی یہ برسات‘‘ رباعی کا اپنا پہلا مجموعہ جدید رباعی کی دنیا میں پیش کیے ۔اس مجموعہ میں ان کی سو (۱۰۰) رباعیاں شامل ہیں ۔ان رباعیوں میں انہوںنے با لکل نئے اسلوب او انداز کے ساتھ رباعیوں کو پیش کیا ہے ۔الفا ظ کے انتخاب اور حسن انتخاب میں بھی یہ رباعیاں اپنا الگ اثر رکھتی ہیں ۔ اکر م نقاش غزل کے میدان سے رباعی کے میدان میں بہت ہی کم عر صہ میں قدم رکھے اس لیے بہت ساری ایسی چیزیں جو ان کی غزلوں میں نظرآتی ہیں وہی ان کی رباعیوں میں بھی در آئی ہیں ۔

اکر م نقاش کی رباعیوں کو کامیاب رباعیوں میں شمار کیا گیا ہے ان کے یہاں جدت کے ساتھ ساتھ قدیم رنگ ڈھنگ کا عکس بھی نظر آتا ہے انہوں نے کائنا ت اور ہستی کے مو ضو عات میں غور کیا ہے جو رباعی کا ایک موضو ع ر ہا ہے لیکن اس میں تازگی نظر آتی ہے ۔وجو د کے ہونے اور نہ ہونے کے طرح طر ح دلائل لائے گئے ہیں ۔ اس متعلق اکر م نقاش کی رباعیاں خوب ہیں ۔

دیکھا طرف اطراف کہیں کوئی نہیں 
جز رنگ خلا اور کہیں کچھ بھی نہیں 
لا چھوڑا کہاں شہر طلب نے دل کو 
اک ایسا مکاں جس میں کوئی در ہی نہیں 

ہو نے کا میرے یہ کون انکار کر ے 
اک بار نہیں وار یہ ہر بار کرے 
خاموش تماشائی تھا کب میرا وجود 
حیرا ں ہو ں کہ چپ چاپ یہ اقرار کرے 

اس قسم کی اور رباعیاں ہیں جو وجود اور عدم وجود پر بحث کر تی ہیں ۔

 اکر م نقاش کی رباعیوں کے ضمن میں نظر یہ وجود کے متعلق شمس الرحمن فاقی لکھتے ہیں :

’’دیکارت (Descartes) نے اپنے ہونے کی دلیل یہ دی تھی کہ میں سوچتا ہوں ، اس لیے میں ہوں ۔ اس کو ایک زمانے میں جدید فکر کا سنگ بنیاد قرار دیا جاتا تھا ۔ لیکن بسویں صدی کے اوائل میں اس کلیے سے انکار بھی کیا گیا ۔ بر ٹرنڈ رسل (Bartrand Russell)نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں سوچتا ہوں ۔ اس کی جگہ کوئی بھی اور فاعل رکھ دیجیے ،مثلا پتھر ، کتا وغیر ہ ، تب بھی جملہ نحوی اعتبار سے مکمل لیکن بے سود رہے گا ۔ اکر نقاش نے کشمکش وہم و یقن کو وجود کا ثبوت قرار دیا ہے اور حق یہ ہے کہ خوب قرار دیا ہے ۔‘‘(حشر سی یہ بر سات ، ص ۱۵)

اسی کشمکش و وہم و یقین کے اظہار میں اکر م نقاش یہ رباعی لکھتے ہیں ۔

یہ چاند ستارے یہ زمین کچھ بھی نہیں 
ہے دھند فقط اورکہیں کچھ بھی نہیں 
سمجھا ئے اسے کون کہ دیوانہ ہے 
کیا کشمکش وہم و یقین کچھ بھی نہیں 

اکر م نقاش کی رباعیاں انسا نی زندگی کے ارد گر دگھومتی ہے۔ ان کی رباعیوں میں ایک سادہ سی زند گی نظر نہیں آتی ہے بلکہ ان کے یہاں انسانی وجود کی بے چارگی اور رائگانی نظر آتی ہے ۔ان کی رباعیوں میں امکان ہے اور جہد بھی ۔یا س ہے اور یقین بھی ۔الفاظ کوبہت ہی قوت سے پیش کر کے مفہوم کی ادائیگی میں شد ت بھی پیدا کر تے ہیں اور احسا س ناکامی کا اظہار بھی نظر آتا ہے ۔

بکھراؤں تو کیا اور بکھر جاؤں تو کیا 
وحشت کی ہر اک راہ گذر جاؤں تو کیا 
اک گہری خموشی مرے اندر ہے بسی 
چیخوں سے تیرے دشت کو بھر جاؤں تو کیا 

عادل حیات 

 زندگی میں مشاہدا ت سے سابقہ پڑنا اور ان مشاہدات سے ایک عام انسا نی زندگی میں پڑنے والے اثرات کو اپنی شاعر ی میں پیش کر نا عاد ل حیات کی شاعر ی میں ہمیں بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ان ہی مشاہدات سے تخلیقی ذہن کی سحر انگیزی حاصل ہوتی ہے او ر جو تجر بے و مناظر حاصل ہوتے ہیں اسی کو اپنی رباعیوں میں پیش کر دیتے ہیں۔

ہے زیست کا امکان؟ نہیں ،کوئی نہیں 
ہر معرکہ آسان ؟ نہیں کوئی نہیں 
سائے تو نظر آتے ہیں چلتے پھر تے 
اس شہر میں انسان ؟ نہیں ، کوئی نہیں 

عادل حیات کی رباعیوں میں جو عنصر غالب نظرآتا ہے وہ ہے حزن و ملال کا عنصر ۔ ان کی زندگی میں آخر کو ن سے ایسے مراحل آئے تھے کہ جس کا اثر ان کی ذات پر گہرا پڑا اس سے تو ہم واقف نہیں ہیں لیکن ان کی شاعر ی سے یہ چیز نظر آتی ہے جو انہیں ہر پل سوچ میں گم مضطر ب اور بے چین رکھتا ہے۔ ہمیشہ وہ ان رشتوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو بھیڑ میں کہیں گم سے ہوگئے ہیں ۔اس کی وجہ سے شاید غمگین رہتے ہوں پھر اس غمگینی کی وجہ خدا پر چھوڑدیتے ہیں ۔کہیں ظلمت انہیں بے سمتی کا احساس دلاتی ہے اور کبھی رات بھیگتی ہے تو آنکھوں میں جا گا ہوا بے لباسی کا منظر بھی اچھا لگتا ہے ۔ہر روز کے سرخ سویرے پہ خو د سے سوال کرتے ہیں اور دل کی تسلی کے لیے ایک اور سو ال یہ کر تے ہیں کہ ان پر خوف نظاروں میں بسیرا کیوں ہے ۔مایوسی کہیں کہیں ان کے یہاں اس قدر نظر آتی ہے کہ آنکھوں کے لیے نو ر کو تر س جاتے ہیں اور صبر اس اندازمین کر تے ہیں کہ مجھے کسی نالہ سے بھی شکوہ نہیں ہے بلکہ جسم اور اس کے ساتھ سانسوں کی آمدو رفت کافی ہے ۔اس قسم کی باتیں اور موضوعات ان کی رباعیوں میں جا بجا ملتے ہیں ۔

مجھ میں ہی مرا سایا سمٹ جائے گا
قد اور مرا پہلے سے گھٹ جا ئے گا 
تکمیل کی سر حد سے گزر کر عادل 
مر کز کی طر ف جسم پلٹ جائے گا 

عاد ل حیات کی رباعیوں میں آنکھ ایک مکمل استعارہ بن کر ابھر تا ہے ۔آنکھ کا استعمال انہوں نے اپنی رباعیوں میں ایک دو جگہ نہیں بلکہ تقریبا ًساٹھ مقامات پر کیا ہے ۔ ہر ایک ہر ایک شاعر کے یہاں کوئی نہ کوئی شئے ایک مکمل علامت بن کر سامنے آتا ہے ، لیکن آنکھ کی علامت جس خوبصورتی کے ساتھ عادل حیات کے یہاں نظر آتا ہے وہ کسی اور کے یہاں نظر نہیںآتا ہے ۔ ایک اور خوبی ان کے یہاں یہ نظر آتی ہے کہ رباعی میں کسی کے یہا ں بھی علامت کا ایسا استعمال نہیں ہے جیسا کہ عادل حیات کے ملتا ہے ۔۔ اس علامت کے استعمال میں سب اہم بات جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کے استعمال میں یک رخی نہیں اپنا یا ہے بلکہ متنوع طریقے سے اسکو اپنا یا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک رباعی میں الگ الگ معانی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس تعلق سے کچھ رباعیاں ملاحظہ ہوں ۔

لوٹا دے مری سانس کے میں زندہ ہوں 
دنیا کے لیے آج بھی تابندہ ہوں 
ہر آنکھ کا منظر ہوں، دلوں کی دھڑکن 
میں خواب نہیں ماضی کا ، آئندہ ہوں 

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...