Thursday 12 March 2020

غیر مسلم رباعی گو شعرا


                وہ زبان جس کے  نتیجے  میں  گنگا جمنی تہذیب پروان چڑھی،وہ اردو تھی اور جو تہذیب اردو زبان کے  سائے  میں  پر وان چڑھی وہ گنگا جمنی تہذیب تھی ۔ دونوں  ایک دوسرے  کے  لیے  لازم ملزوم ٹھہریں ۔ اردو شاعری جب اپنے  تشکیلی دور کو مکمل کر لیتی ہے  تو کئی ایسے  غیر مسلم نام سامنے  آتے  ہیں  جنہوں  نے  مستند اساتذہ سے  مشق سخن جاری رکھتے  ہوئے  اردو شاعری میں  اپنا نام روشن کیا ۔ ار دو جس کا خمیرمسجد کے  صحن، خانقاہوں  کے  حجرے  اور مندروں  کی سیڑھیوں  سے  تیار ہوا اور سماعت کی شیرینی،اذان کی لے  اور مندر کی گھنٹیوں  کی آواز سے  تیار ہوئی اس زبان نے  کبھی بھی اس چیز کا فاصلہ نہیں  رکھا کہ وہ اپنے  دامن کو کس کے  لیے  وسیع کرے  اور کس کے  لیے  سمیٹ لے  بلکہ حوادث اور حالات نے  خود اردو زبان کے  ساتھ وہ ستم کیے  کہ کئی علاقوں  میں  اردو یتیم ہوکر مدفون ہوگئی اور کہیں  اپنی آخری سانسیں  گن رہی ہے  ۔ دہلی ، لکھنؤ ، عظیم آباد، کلکتہ ، مر شدآباد اور دکن میں  ار دو شہر یوں کی زبان تھی جسے  اب مذہب کی زبان بنا کر چھوڑ دیا گیا ۔ ہم خواہ کتنا ہی یہ نعرہ بلند کرلیں  کہ اردو تہذیب و ثقافت اور شریفوں  کی زبان ہے  لیکن عملی طور پر اردو والوں  نے  ہی اس کو مذہب کی زبان کے  طور پر متعارف کر انے  میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی ہے  ۔ وجہ صرف استعمال کی ہے  کہ اردو کو استعمال میں  کتنا لایا جاتا ہے  ،ساتھ ہی اردو زبان کی شیرینی ایسی رہی کہ اس نے  تمام مذاہب و مسالک کو اپنا گرویدہ بنایا ۔اردو میں  غیر مسلم شعراء نے  اس زبان کو اپنے  اظہار کا وسیلہ بنایا جس میں  انہوں  نے  کثیر مقدار میں  ادب بھی تخلیق کیا نیز اردو میں  نثر و نظم کا عمدہ ذخیرہ غیر مسلم شاعروں  و ادیبوں  کی بیش بہا دین ہے  ۔مثنوی ہو یا مرثیہ ، قصیدہ ہو یا رباعی ، غزل ہو یا نظم ، داستان ہو یا نا ول ، افسانہ ہو یا خاکہ و انشائیہ وغیرہ غرض کہ ہر صنف سخن میں  بھر پور نمائندگی ملتی ہے  ۔ ہم گفتگو کر تے  ہیں  شاعری کی ایک اہم صنف رباعی کے  متعلق کہ اس میں  ان غیر مسلم شعراء کی نمایاں  خدمات کیا رہی ہیں  اور شروع سے  اب تک اس صنف میں  ان کی خدمات کی تاریخ کیا رہی ہے  ۔

اردو میں  شعری روایت اگر چہ امیر خسرو سے  شروع ہوتی ہے  لیکن باضابطہ تمام شعری اصناف سخن کی پرو رش و پر داخت دکن سے  ہوتی ہے  ۔ رباعی جیسی صنف کی شروعات بھی وہیں  سے  ہوئی ۔ قطب شاہی ، عادل شاہی ، نظام شاہی اور برید شاہی دور حکومت میں  کئی شعرا ایسے  نظر آتے  ہیں  جن کے  دواوین میں  رباعیاں  مل جاتی ہیں  ۔ دکن کے  بعد سترہویں  و اٹھارہویں  صدی میں  رباعی کو کم و بیش تمام شعرا ء نے  اپنے  دیوان میں  چھوڑا ہے ۔

 شمالی ہند میں  اردو کے  ابتدائی عہد میں  غیر مسلم رباعی گو شعرا میں  سب سے  پہلا نام جودت ؔ کا سامنے  آتا ہے  ۔ان کا اصل نام ہردے  رام اور تخلص جودت تھا ، وطن مرشدآبادتھا ۔ ان کا شمار مرزا علی لطف مؤلف ’’ تذکرہ گلشن ہند ‘‘کے  دوستوں  میں  ہوتا ہے  ۔ان کی ایک رباعی کا ذکر سلام سندیلوی نے  کیا ہے  ۔ان کے  بعد رائے  سر ب سکھ دیوانہؔ کانام سامنے  آتا ہے  ۔ یہ راجہ مہابیر دکن کے  رشتہ داروں  میں  سے  تھے  ۔مرزا جعفر علی حسرت ؔاور میر حید ر علی حیرانؔ ان کے  شاگر دوں  میں  سے  تھے  ۔انہوں نے  فارسی میں  دو دیوان یادگار چھوڑے  ہیں  لیکن اردو میں  ان کی شاعری بہت ہی کم ملتی ہے  البتہ اردورباعی کی ابتدائی تاریخ میں  ان کا ذکر آتا ہے  لیکن اس عہد میں  اس صنف سخن میں  کسی قابل ذکر غیر مسلم رباعی گو شاعر کا نام نظر نہیں  آتا ۔
   
عہد غالب و مومن میں  دلی ، لکھنؤ و عظیم آباد سے  دور شہر کلکتہ میں  بہادر دیپ کنورؔ کا نام سب سے  پہلے  آتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۸۱۵ء ؁ میں  شہر کلکتہ کے  ایک علمی و ادبی گھرانے  میں  ہوئی ۔ والدمہاراجہ راج کشن دیب بہادر زبان و ادب سے  گہرا شغف رکھتے  تھے  ۔بہادر دیپ کنور نے  ۵۲ سال کی عمر پائی ۔ انہوں  نے  اس قلیل عرصے  میں  دو اردو کے  دیوان ، دو مثنویاں  اور چار جلدوں  میں  شاہنامہ ہند بزبان فارسی انگر یزی تر جمہ کے  ساتھ یاد گار چھوڑی ہیں  ۔ان کے  دونوں  دیوان میں  روایت کی مناسبت سے  اس زمانہ میں  رائج تمام اصناف سخن یعنی غزل کے  ساتھ قصیدہ ، مستزاد ، واسوخت ، تر جیع بند، مخمس ، مسدس اور رباعی شامل ہیں  ۔ڈاکٹر سلمہ کبر یٰ نے  تحقیق کر کے  ان کی رباعیوں  کی تعدادر ۵۵ بتائی ہے  جن کے  موضوعات نشاطیہ اور طر بیہ ہیں  ۔وہ ایک رئیس زادے  تھے  اس لیے  ان کی زیادہ تر رباعیوں  میں  رئیسانہ شا ن و شوکت نظر آتی ہے  ۔

دل کو ہے  دور ی میں  اس کی اضطراب
ہو گیا سو زدروں  سے  جی کباب
مانگتا ہوں  میں  خدا سے  روزو شب
کاش کہ دلدار مل جاوے  شتاب

 ان کے  بعد غیر مسلموں  میں  ایک مشہور شاعر رام سہائے  تمناؔ(۱۸۵۴ء ۱۹۳۴ء) کا نام سامنے  آتا ہے  جن کی پیدا ئش لکھنٔومیں  ایک کائستھ برادری میں  ہوئی ۔ان کے  والد منشی پورن چند ذرہ فارسی زبان میں  ایک مستند عالم تھے  اور ان کا ذریعۂ معاش بھی اردو کی تر ویج و اشاعت تھی وہ اس معنی  میں کہ انہوں  نے  ۱۸۷۵ ء میں  ایک مطبع تمنائی کے  نام سے  شروع کیا جہاں  سے  سیکڑوں  کی تعداد میں  اردو کتابیں  شائع ہوئیں  اور جب اس مطبع سے  ہفتہ وار ’’ تمنائی ‘‘ شائع ہوا تو اس کی ادارت کی ذمہ داری منشی رام سہائے  تمنا کو ملی جس کو وہ ستائیس برس تک بخوبی نبھاتے  رہے  ، وظیفہ یاب ہونے  کے  بعد انہوں  نے  ایک اور رسالہ ’’ دربار‘‘ بھی جاری کیا ۔آپ کا خاندان دہلی کا تھا جو نادر شاہی حملہ کے  بعد لکھنؤ آبا د ہوگیا ۔ان کے  اندرذہانت و فطانت تو تھی ہی ساتھ ہی لکھنٔو کے  ادبی و شعری ماحول نے  خوب مینا کاری کی اور وہ لکھنؤ اسکو ل کے  ایک ایسے  شاعر ہوئے  جن کی شاعری میں  لکھنوی ابتذال کا شائبہ تک نہیں  آیا بلکہ ان کے  یہاں  داخلیت کے  ساتھ شرافت و پاکبازی کے  وہ عناصرملتے  ہیں  جس کی وجہ سے  وہ لکھنوی شعراء کی بھیڑ میں  منفرد نظر آتے  ہیں  ۔ان کا زیادہ تر کلام ایسا ہے  جو تاریخی واقعات مثنوی ، مسدس، مخمس ، رباعیات اور دیگر مضامین مذہبی سے  تعلق رکھتا ہے  کیو نکہ اردو زبان میں  ہندو مذہبی کتابوں  کی بہت ضرورت تھی اس لیے  حضرت تمنا نے  قریب دو سو کتابیں  تصنیف کیں  جن میں  کئی قسم کی کتابیں ، رامائنیں  اور بھجن وغیرہ شامل ہیں ۔اس زمانہ میں  انہوں  نے  خوب لکھا بلکہ یوں  سمجھ لیں  کہ آج کے  لکھاریوں  سے  بھی زیادہ لکھا اورمروجہ فن و موضوع کو ہاتھ سے  جانے  نہیں  دیا ۔ان تمام میں  رباعیاں  بھی شامل تھیں  جن کا باضابطہ کوئی الگ سے  مجموعہ مر تب نہیں  کیا گیا بلکہ ذخیرہ شاعری میں  وہ رباعیاں  اب بھی بکھری پڑی ہیں  لیکن ان کے  چھوٹے  لڑکے  ڈاکٹر گوری سہائے  نے  ’’ انتخاب کلام تمنا مع مختصر تذکرہ ‘‘ شائع کیا جس میں  دیگر اصناف کے  ساتھ پندرہ چیدہ رباعیوں  کو بھی شامل کیا ہے  ۔اسی سے  ایک رباعی بطور مثال ملاحظہ ہو :
زبان نرم سے  بیہودہ گفتگو کیسی
یہ خود کڑی نہیں  سختی کی اس میں  خو کیسی
زبان میں  نام کو بھی استخواں  کا نام نہیں
پھر ایسے  گل کو ہی کانٹوں  کی جستجو کیسی

 سر کشن پرشاد شادؔ کی پیدائش ایک جنوری ۱۸۶۴ء کو ریاست حیدر آباد میں  ہوئی۔ وہ دو دو مرتبہ صدر المہام (وزیر اعظم مقرر ہوئے ) ۔راجہ بہاد ر، راجہ راجایاں ، یمین السلطنت، سی آئی سی، جی سی آئی سی آئی ای، بھارت بھوشن، ایل ایل ڈی جیسے  خطابات سے  سرفراز ہوئے  اور صدر المہام فوج، وزیر افواج، یمین السلطنت جیسے  اعلیٰ عہدوں  پر بھی فائز رہے  ۔شاد ایک عمدہ منتظم سلطنت کے  ساتھ ساتھ بہترین شاعر بھی تھے ۔ان کی شاعری کا اندازہ اس مشہور شعر سے  لگا جا سکتا ہے :
اس نے  کہا کعبہ ترا، میں  نے  کہا چہرہ ترا
اس نے  کہا چہرہ ترا، میں  نے  کہا جلوہ ترا

وہ اردو اور فارسی میں  شاعری کیا کرتے  تھے  ۔شاعر کے  علاوہ وہ عمدہ نثر نگار بھی تھے  ۔تقریباً ستر کتابیں  انہوں  نے  نثر میں  تحریر کیں  اور شاعری میں  صبح امید، شگوفہ بہار، آئینہ عقیدت، رباعیات شاد، ارمغان زیبا، گلبن تاریخ، نذر شاد اور نذر سلطان ہیں ۔ رباعیات شاد ہی کے  نام سے  تین مجموعے  ہیں ۔اس کے  علاوہ بھی تقریباً ان کے  تمام شعری مجموعوں  میں  رباعیاں  ملتی ہیں ۔ان کی رباعیوں  کے  موضوعات اس وقت کے  چلن کے  حساب سے  توحید، تصوف، نعت و منقبت، مدح، عشق، ہجر، انجام زندگی اور حالات زندگی کے  ساتھ اپنے  منصب کی مناسبت سے  بادشاہ کی رضامندی بھی تھے ۔ان کی  رباعیوں  میں  اگرچہ گیرائی اور گہرائی کم پائی جاتی ہے  لیکن زبان صاف اور سلیس ہے  ۔وہ اپنے  عہد کے  رباعی گو شعرا میں  موضوعات کے  تنوع کے  اعتبار سے  نمایاں  نظر آتے  ہیں ۔ بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو۔

خنداں  نہ کوئی عدم سے  آتے  دیکھا
لیکن گریاں  یہاں  جاتے  دیکھا
اے  شاد جہان بے  بقا میں  ہم نے
ہر فرد بشر کو خاک اڑاتے  دیکھا

 اردو شاعری میں  جوش ملسیانی سے  کون واقف نہیں  ہوگا۔ان کا نام پنڈت لبھو رام اور جوش تخلص تھا۔ ان کی پیدائش ۱۸۸۴ء میں  پنجاب کے  گاؤں  ملسیان میں  ہوئی۔ ماقبل شعرا کی طرح ان کی پرورش و پرداخت نہ رئیسانہ ماحول میں  ہوئی اور نہ ہی ادبی ماحول میں ۔ مصائب بھری زندگی گزارنے  کے  بعد جالندھر چھاؤنی کے  ایک اسکول میں  مدرس کے  عہدے  پر فائز ہوئے ۔جوش ملسیانی ابتداء سے  ہی غیر معمولی صفات و خصوصیات کے  حامل ہونے  کی وجہ سے  پر زور آواز، رواں  و سلیس زبان و اسلوب کے  ساتھ اُبھرے ۔ داغ دہلوی کے  حلقہ تلمذ میں  شامل ہوئے  لیکن یہ تعلق زیادہ دنوں  تک قائم نہیں  رہ سکا کیونکہ داغ اس دار فانی سے  کوچ کر گئے ۔ اس کے  بعد انہوں  نے  کسی سے  اصلاح نہیں  لی ۔تا ہم وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں  کو بروئے  کار لاتے  ہوئے  اپنی شاعری کو سنوارتے  رہے ۔ ان کی شاعرانہ صلاحیتوں  کا ا عتراف نہ صرف اس وقت کے  شاعروں  نے  کیا بلکہ نقادوں  نے  بھی اپنے  عمدہ خیالات کا اظہار کیاجن میں  جگر مراد آبادی، بیخود دہلوی، ریاض خیرآبادی، یگانہ چنگیزی، رشید احمد صدیقی اور نیاز فتح پوری وغیرہ شامل ہیں ۔ان کے  مجموعہ ہائے  کلام بادہ سر جوش، جنون و ہوش اور فردوس گوش کے  نام سے  شائع ہوچکے  ہیں ۔ان کی شاعری میں  قادرالکلامی، زبان دانی اور فن پر گرفت نظر آتی ہے  جن میں  تخیل ، نئے  مضامین کا اختراع ، شدت احساس اور مشاہدہ کی وسعت پائی جاتی ہے  ۔انہوں  نے  جو رباعیاں  کہی ہیں  ان میں  بھی زبان کی صفائی ،روز مرہ کا استعمال اور محاورات نظر آتے  ہیں ۔ان کی رباعیاں  ان کے  مجموعہ ہائے  کلام میں  موجود ہیں ۔بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو.
قبضے  میں  کلید گنج قاروں  نہ سہی
تاج سر کاؤس و فریدوں  نہ سہی
اے  بحر کرم کچھ تو عطا کر مجھکو
قطرہ ہی سہی فرات و جیحوں  نہ سہی

تلوک چند محرومؔ (۱۸۸۷ تا ۱۹۶۶ء) کی پیدائش دریائے  سند ھ کے  ایک گاؤں  عیسیٰ خیل میں  ہوئی ۔انہوں  نے  اپنی پوری تعلیم میانوالی سے   حاصل کی اور پھر ڈیرہ اسماعیل خاں  میں  معلمی کے  پیشہ سے  منسلک ہوگئے  ۔شاعری کا ذوق بچپن ہی سے  تھا اورگاؤں  کے  شعری ماحول نے  ان کے  ذوق کو مزید پروا ن چڑھایا ۔اس زمانہ میں  ضلعی مکتبہ شعرو ادب میں  میانوالی کا بہت ہی نام تھا۔ اب بھی پاکستا ن کے  کئی اچھے  شعرا اسی ضلع سے  تعلق رکھتے  ہیں  ۔ انہوں  نے  اپنے  شعری سرمایے  کے  طور پر غزل ، نظم ، رباعی ،قطعہ ،مرثیہ اور نوحے  وغیرہ یاد گار چھوڑے  ہیں  جو تمام کے  تمام ’’ کلام محروم حصہ اول ،دو م و سوم‘‘ میں  موجود ہیں  ۔اس کے  علاوہ انہوں  نے  رباعیات کی جانب خصوصی تو جہ دی جس کا مجموعہ انہوں  نے  ’’ رباعیات محروم ‘‘ کے  نام سے  ۱۹۴۶ ء میں  شائع کیا ۔بحیثیت رباعی گو وہ دنیائے  ادب میں  ایک خاص مقام رکھتے  ہیں  ۔سادگی اور صداقت کے  پیرہن میں  ملبوس ان کی رباعیاں  تاثیر کی کیفیت سے  بھر پورہوتی ہیں  جن میں  فنی پختگی عر وج پر نظر آتی ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  جہاں  وقت کا عکس نظر آتا ہے  ، وہیں  خیام و سرمد کا خمیر بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ’’ تصوف برائے  شعر گفتن خوب است ‘‘ اپنی جگہ پر درست ہے  لیکن انہوں نے  رباعیات کی تخلیق میں  کبھی بھی تصوف کا ڈھونگ نہیں رچا اور نہ ہی ابو الخیر بننے  کی خواہش رکھی البتہ ا ن کے  دل میں  جوکچھ تھا اور شاعری کے  موضوعات جو چلے  آرہے  تھے  اس کو سادگی کے  ساتھ اپنی رباعیوں  میں  پیش کر دیا ۔ ایک رباعی بطو رمثال ملاحظہ ہو :
دنیا نے  عجب رنگ جما رکھا ہے
ہر ایک کو غلام بنا رکھا ہے
پھر لطف یہ ہے  کہ جس سے  پوچھو وہ کہے
اس عالم آب و گل میں  کیا رکھا ہے

جگت موہن لال رواں ؔ (۱۸۸۹ء۔۱۹۳۴ء) کی پیدائش انا ؤ میں  ہوئی ۔ انہوں  نے  ابتدائی تعلیم اناؤ ، ثانوی لکھنؤ اور اعلیٰ تعلیم الہٰ باد سے  حاصل کی ۔ انہیں شعرو شاعر ی کا ذوق اس زمانہ کے  ماحول کے  ساتھ فطر ت کی جانب سے  بھی عطا ہوا تھا ۔ لکھنؤ کے  ماحول میں  شعری ذوق کو مزید نکھارنے  کا سنہرا موقع نصیب ہوا جہاں  وہ عزیز لکھنوی کے  شاگرد ہوئے  ۔ رواں  ؔ رباعی کی دنیا میں  داخل ہونے  والے  ایک فطری شاعر تھے  ۔ وہ رباعی کی دنیا میں  ایسے  وقت میں  داخل ہوئے  جب رباعی کی فضااکبر و حالی کی اصلاحی رباعیوں  سے  گونج رہی تھی لیکن انہوں  نے  فلسفہ کا درس رباعی کے  ذریعہ شروع کیا ۔ انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  وطن ،قوم اور سیاست کے  تصورات کو توازن کے  ساتھ پیش کیا ۔جہاں ایک طرف ان کی رباعیوں  میں  فطرت کی حسین عکاسی ملتی ہے  تو وہیں  دوسری جانب تاریخ بھی نظرآتی ہے  اورفراق گورکھپوری سے  پہلے  اردو رباعی میں  ہندو مذہب اور ہندو دیومالائی تہذیب کو رباعی کا جامہ پہنا تے  ہیں ۔ اردو رباعی کی دنیا میں  وہ اپنی فلسفیانہ رباعیوں  کی وجہ سے  نمایا ں  نظر آتے  ہیں  ۔ وہ فلسفۂ حیات، فلسفۂ موت ، فلسفۂ گنا ہ ، فلسفۂ جبر و اختیا ر کو پیش کر تے  ہوئے  اختیار سے  ہار کر جبر کا غلام ہوجاتے  ہیں  ۔گناہ کو تکمیل انسان کے  لیے  ایک عنصر مانتے  ہیں  اور دیر و حرم کے  درمیان کسی قسم کی دیوار کو روا نہیں  رکھتے  ۔ غر ض کہ انہوں  نے  مختلف فلسفوں  کے  جام سے  اپنی رباعیوں  کو سیراب کیا ہے  ۔ایک رباعی اس دنیائے  فانی پر ملاحظہ فرمائیں  :
کیا تم سے  بتائیں  عمر فانی کیا تھی
بچپن کیا تھا جوانی کیا تھی
یہ گل کی مہک تھی وہ ہوا کا جھونکا
ایک موج فنا تھی زندگانی کیا تھی

جذب عالم پوری (۱۸۹۴۔ ۱۹۷۳) رباعی کی تاریخ میں  جنوب کے  اول اہم غیر مسلم شاعر ہیں  ۔راگھوندر جذبؔ کی پیدا ئش رایچور کر نا ٹک میں  ہوئی ۔ ان کے  والد پنڈت رام راؤ کا لگاؤ شعر وشاعر ی سے  تھا ۔ اسی ماحول کی وجہ سے  آپ اردو شاعری کی جانب مائل ہوئے  ۔ سخا دہلوی اور امجد حسین کی شاگردی اختیار کی اور شعر و شاعر کی دنیا میں  اپنا ایک مخصوص مقام بہت جلد بنا لیا ۔ارمغان جذب، آہنگ جذب ، تحفہ جذب، رباعیات جذب ، ساز غزل اور صد پارہ جذب ان کے  اہم شعری مجموعے  ہیں  ۔رباعیات جذب کے  علاوہ آہنگ جذب اور صدپارہ جذب میں  بھی کافی تعداد میں  رباعیاں  ہیں  ۔ رباعی گوئی میں  یہ بات بکثرت محسوس کی جاتی ہے  کہ فارسی اور خصوصاً خیام کی رباعیوں  کا عکس یا تر جمہ پیش کر کے  ان کے  جیسا بننے  کی کوشش کی جاتی ہے  ۔ کہیں  کہیں  آپ کو سنسکر ت کی شاعری کا بھی عکس نظر آئے  گا ۔جذب کی رباعیوں  میں  سنسکرت شاعری کا ترجمہ اور خیال نظر آتا ہے  ۔ ان کی رباعیوں  کے  مطالعہ سے  اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے  کہ یہ تمام ان کی سخن فہمی اور شاعرانہ مشاقی کا ثبوت ہیں  ۔ان کے  یہاں  اخلاقی ، مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر رباعیاں  ملتی ہیں  ۔ زیادہ تر رباعیوں  میں  اخلاقی تعلیم کا پیغام دیکھنے  کو ملتا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں معاشرہ و ماحول کی حقیقت کی ترجمانی کا انداز کچھ ایسا ہے  کہ خوبصورت منظر کشی کا گماں  ہوتا ہے  اور رباعیوں  کی خصوصیات میں  جذبے  اور فکر کا حسین امتزاج ، انداز بیان کا رچاؤ اور اسلوب ادا کی شائستگی ہے  ۔ ایک رباعی ملاحظہ ہو :
صدہا ہوئے  نذر تیغ دارا کی طرح
لاکھوں  گئے  زیر خاک کسریٰ کی طرح
کیا اب بھی نہ سمجھوگے  اجل ہے  کیا چیز
ویراں  کیے  جس نے  شہر صحرا کی طرح

فر اق گورکھپوری (۱۸۹۶ء تا ۱۹۸۲ء) ارد و رباعی کا ایک ایسا باب ہے  جس میں  داخل ہونے  کے  بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن ، احساسات و جما لیا ت ، نظر و فکر اور رنگ و بو میں  نظر آتی ہے  ۔فر اق رباعی کے  باب میں  ماضی کی تمام روایتوں  کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں  خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنا تے  ہیں  ۔ان سے  پہلے  اردو رباعی ان الفاظ و تر اکیب ، حسن و جمال اور تبسم و رعنائی سے  محروم تھی۔ فراقؔ نے  ان تمام عناصر کو اپنی رباعیوں  میں  ہندوستانی عورتوں  و دوشیزاؤں  کے  حسن وادا کے  مختلف روپ پیش کر نے  میں  استعمال کیا ہے  ۔

فراق نے  اپنی رباعیوں  کے  ذریعہ ہندوستانی عورتوں  کے  حسن و جمال اور نزاکت و ادا کی جزئیات نگاری کی بھر پور عکاسی کر نے  کی کوشش کی ہے  جس کی وجہ سے  ان کی رباعیوں  میں  جا بجا جسم کے  مختلف نقو ش و منظر اور ہندوستانی معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں  ابھر کر نظروں  کے  سامنے  آتی ہیں   جیسے  پنگھٹ پر گگریوں  کا چھلکنا ، معصوم کنواریوں  کا کھیتوں  میں  دوڑنا ،ساون میں  جھولاجھولنا وغیرہ ۔

فراق نے  کل پانچ سو انہتر (۵۶۹) رباعیاں  کہی ہیں  جن میں  ’’روپ ‘‘ میں  تین سو اکیاون (۳۵۱) ،روح کائنات میں  اڑسٹھ(۶۸)،گلبانگ سے  مادر ہند کے  تحت اٹھانوے  (۹۸) فکر یات کے  عنوان کے  تحت اکیاون(۵۱)اور متفر ق میں  ایک رباعی موجود ہے  ۔یہ تمام رباعیاں  موضوع کے  اعتبار سے  صرف دو زمروں  میں  تقسیم کی جاسکتی ہیں  ۔ ایک زمرہ ان رباعیوں  کا ہے  جن میں  محبوب کے  لب و ر خسار اور اس کے  خد و خال کی کیف آگیں  تصویریں  پیش کی گئی ہیں  اور دو سرے  زمر ے  میں  ان رباعیوں  کو رکھا جا سکتا ہے  جن میں  ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے  جیسے  پنگھٹ پر لڑکیوں کی گگر یاں  ، معصوم لڑ کیوں  کا کھیتوں  میں  دوڑنا ، ساجن کے  جوگ میں  مستا سا مکھڑا اور بیٹی کے  سسرال جانے  کا منظر وغیرہ ۔ ان رباعیوں  میں ہندوستانی طرز معاشر ت کے  ایسے  خاکے  اور چلتی پھرتی تصویریں  ہیں  جن میں  فراق ؔ کے  تخیل ، جمالیاتی شعور اور طر ز تر سیل نے  انوکھا رنگ اور جان ڈال دی ہے  ۔

فراق کی رباعیوں  کی مقبولیت کا راز یہ ہے  کہ ان کی رباعیوں  میں  جو جمالیاتی ،تہذیبی اور جنسی تصویریں  جگہ جگہ نظر آتی ہیں  ان سے  قاری ان کی رباعیوں  کا اسیر نظر آتا ہے  اورفراقؔ اردو کے  وہ منفر د شاعر ہیں  جنہوں  نے  اپنی رباعیوں  کو ’’سنگھاررس ‘‘ کی رباعیوں  سے  تعبیر کیا ہے  کیونکہ انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  حسن کومختلف زاویوں  سے  دیکھا ہے  اور اس کی اداؤں  کی دل نشینی کو بھی محسوس کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  ’’وہ روپ جھلکتا ہوا جادو درپن‘‘، ’’منڈلاتے  ہوئے  بادلوں  کے  سے  گیسو‘‘،’’شفاف فضا کے  ہوش اڑاتی ہوئی زلف‘‘اور ’’مڑتی ندی کی چال‘‘ حسن کی وہ مختلف کیفیات ہیں  جنہیں  پہلی بار رباعی کی لڑی میں  پرویا گیا ۔فراق رباعی میں  جتنا کھل کر پیش آئے  ہیں  وہ اتنا کھل کرغزلوں  اور نظموں  میں پیش نہیں  آئے  ۔حسن کی تصویروں  کو پیش کرنے  میں  فراق فراخدلی سے  کام لیتے  ہیں  ۔ان کی رباعیوں  میں  استعارات و کنایا ت اور تشبیہات کا خوبصورت ذخیر ہ نظر آتا ہے  ۔ ان کی ایک غیر خصی رباعی ملاحظہ ہو :
ہے  تار نظر کے  کپکپاتی ہوئی صبح
ہے  نور جبیں  کے  مسکراتی ہوئی صبح
ہے  جنبش لب کہ گنگناتی ہوئی صبح
ہے  روپ کے  پیچ و تاب کھاتی ہوئی صبح
خصی رباعی بھی ملاحظہ فرمائیں :
دوشیزہ ٔ بہار مسکرائے  جیسے
موج تسنیم گنگنائے  جیسے
یہ شان سبک روی یہ خوشبوئے  بدن
بل کھاتی ہوئی نسیم گائے  جیسے

 آر آر سکسینہ  (۱۸۹۶ ۔ ۱۹۵۷) کا پورا نام رگھوندن راج سکسینہ تھا جن کا حیدر آباد سے  تعلق تھا ۔ طالب علمی کے  زمانے  سے  ہی ان کے  اندر ادبی ذوق پروان چڑھنے  لگا تھا ۔ نظام حیدرآباد کا ادب دوستی کا دور شباب پر تھا ۔اسی دور میں  انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کا مجموعہ ’’رباعیات الہام ‘‘ کے  نام سے  اردو دنیا میں  متعارف کر وایا ۔ ساتھ ہی وہ سراپا اخلاق اور انسانی اقدار کے  امین بھی تھے  ۔ڈاکٹر ی کے  پیشہ میں  ان کی مسیحائی اور دست شفا کا پورا حیدرآباد قائل تھا ۔ رباعیات الہام کے  علاوہ ان کی ایک اور کتاب ’’آسمان جاہ کا حیدرآباد ‘‘بھی ہے  ۔’’رباعیات الہام ‘‘ میں  ۱۱۴؍ رباعیاں  شامل ہیں  ۔ ان کی رباعیوں  کی قدرو قیمت اور اہمیت میں  اضافہ کی وجہ یہ ہے  کہ انہوں  نے  امجد حیدرآبادی سے  مشق سخن کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  کی زبان صاف ستھری، محاورات اور روز مر ہ کے  استعمال میں  ندر ت خیال اور حسن ادا کا لحاظ ملتا ہے  ۔امجد حیدرآبادی سے  منسلک ہونے  کی وجہ سے  خیالات کی بلندی اور طرز ادا کی خوبصورتی کے  ساتھ مضامین کی پاکیز گی بھی پائی جاتی ہے  ۔ ایک رباعی ملاحظہ ہو  :
رونے  کے  لیے  دیدۂ نمناک ملا
تقدیر سے  عشق بت سفاک ملا
دنیا میں  بتاؤ ہم کو کیا خاک ملا
دل بھی جو ملا ہم کو تو صد چاک ملا

 عر ش ملسیانی (۱۹۰۸ء۔۱۹۷۹ء) جن کا پورا نام بالمکند عرش ملسیانی تھا۔ اس سے  پہلے  جوش ملسیانی کا ذکر بھی آچکا ہے  اور ان کی تین کتابوں  کا بھی ذکر تھا ۔دونوں  میں  صرف آبائی وطن کی مماثلت نہیں  ہے  بلکہ عرش جوش کے  ہونہار لڑکے  تھے  جنہوں  نے  اردو دنیا کو بہت کچھ دیا ۔عرش کالج کے  زمانے  سے  ہی مشاعر وں  میں  شرکت کر نے  لگے  تھے  ۔انہوں  نے  علمی حلقہ میں  اپنی بہت بڑی شناخت بنائی تھی جس کا انداز ہ اس بات سے  لگایا جاسکتا ہے  کہ ان کے  حلقۂ احباب میں  پروفیسر آل احمد سرور ، مالک رام ، نیاز فتح پوری ، جگر بریلوی ، فراق وغیرہ اس زمانہ کی اہم شخصیات شامل تھیں ۔ ان کی مقبولیت میں  مزید اس وقت اضافہ ہوا جب وہ جوش کے  پاکستان چلے  جانے  کے  بعد ماہنامہ آج کل کے  مدیر کے  عہدے  پر رونق افروزہوئے  ۔ان کی تصانیف و تراجم کی تعدا د تقریباً ۲۶؍ہیں  ۔ شاعری میں  ہفت رنگ ، چنگ و آہنگ ، شرار آہنگ ، آہنگ حجاز ، بیوہ سہاگن، گاندھی گان ، عرش ، نغمہ سرمد ہیں  ۔تحقیق و تنقید میں  دیدار غالب ، فیضان ِ غالب ، اردو کی مزاحیہ شاعری ، مولانا آزاد ، راجہ رام موہن رائے  ، امیر خسرو ، ہست و بود ، ہم ایک ہیں  ،پوسٹ مارٹم۔ تر اجم میں  قاضی نذرالاسلام ، بنگرواڑی ، ایک ہمارا جیونا ، ادھ چنی رات، ہند قدیم کی تمدنی تاریخ کے  علاوہ کچھ ہندی تراجم بھی ہیں  ۔

 شعری مجموعوں  میں  ان کی رباعیاں  ہونے  کے  ساتھ نغمۂ سرمد کے  نام سے  بھی سرمد کی رباعیوں  کا روپ اردو میں  پیش کیا ہے  ۔اپنی شاعری میں  انہوں  نے  خصوصی طور پر رباعی میں  فنی معلومات اور فارسی تراکیب کے  استعمال سے  اپنی استادانہ مہارت و فن کاری کا ثبوت دیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  میں  اس وقت کے  تمام مضامین کی جانب اشارہ ملتا ہے  جن میں  ساقی ، میخانہ ، حسن و شباب، فلسفہ فنا ، بے  ثباتی دنیا اور تصور موت فلسفیانہ اسلوب میں  نظر آتا ہے ۔ایک رباعی ملا حظہ ہو:
بادہ ہے  کہ ہے  نسخہ تسخیر قلوب
بوتل ہے  بغل میں  کہ ہے  وصل محبوب
یو ں  ملتے  ہیں  لب جام مئے  احمرسے
خورشید و شفق جیسے  بہ ہنگام غروب

بخشی اختر امرتسری کا نام شوری لال اور تخلص اختر ؔاستعما ل کر تے  تھے  ۔ والد کا نام کر پا رام جھبر تھا ۔ان کی پیدائش۱۹۰۹ء کوہوئی ۔ بخشی اختر ابتدائی تعلیم کے  بعدثا نوی و اعلی تعلیم میں  ادیب ، فاضل، منشی فاضل اور بی اے  کے  امتحانات پنجاب یونی ورسٹی سے  دیے  ۔ ان کا شعری ذوق اس وقت پروان چڑھا جب وہ آٹھویں  درجہ میں  تھے  ۔شعر ی ذوق جب پروان چڑھا تو انہوں  نے  دہلی کے  مشہور استاد جناب منشی پیارے  لال رونق کی شاگردی اختیار کی ۔فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا تو انہوں  نے  فارسی شاعری کے  لیے  جناب ایمن سے  اصلاح لی ۔ایمن کشمیر ی بر ہمن تھے  اور فارسی پر استادی کی حد تک کمال رکھتے  تھے  ۔اپنی شعری خدمات کی وجہ سے  انہیں  ’’ شاعر خوش کلام ‘‘ ،’’ شہر یار سخن ‘‘ اور ’’ نباض سخن ‘‘ کے  خطابات نوازے  گئے  ۔ ’’رباعیات اختر ‘‘ ان کی رباعیوں  کا مجموعہ ہے  ۔ اس مجموعہ کو ان کے  ہونہار شاگر داور دہلی یونی ورسٹی کے  شعبۂ اردو کے  اولین فارغین سے  تعلق رکھنے  والے  جناب کندن لال کندن نے  مر تب کیا جس کی اشاعت دسمبر ۱۹۸۹ء میں  عمل میں  آئی ۔ اس مجموعے  میں  ۳۲۴؍ رباعیاں  شامل ہیں  ۔ان کی رباعیوں  میں  تصوف کے  مماثل موضوعات کے  ساتھ پند و نصائح ، ، فلسفہ ، اخلاقی زوال، شراب اور عشق وغیرہ ہیں  ۔
اے  حسن سراپا مجھے  جلو ہ تو دکھا
ہاں  رخ پر نور مجلیٰ تو دکھا
سن لی ہے  بہت یہ لن ترانی تیری
پردہ تو اٹھا روئے  مصفا تو دکھا
باوا کر شن گوپال مغموم بھی ان شعرا ء میں  سے  ہیں  جن کی مادری زبان پنجابی تھی لیکن لکھنے  پڑھنے  کی زبان زمانے  کے  دستور کی وجہ سے  اردو تھی ساتھ ہی انہوں  نے  اپنے  گھر میں  تمام کتب مقدسہ کو اردو میں  ہی پایا اس وجہ سے  ان کی تعلیمی زبان بھی اردو ہی رہی ۔ ۱۸دسمبر ۱۹۱۶ ء کو ان کی پیدا ئش موضع دومیل ضلع اٹک میں  ہوئی ۔ والد کا نام پنڈت لویندر چند تھا جو انگریزی کے  علاوہ اردو اور فارسی کے  بھی عالم تھے  ۔ انہوں  نے  اپنی پوری تعلیم لاہور اور راولپنڈی میں  حاصل کی ۔اس درمیان جگن ناتھ آزاد ان کے  ہم درس رہے ۔ اس کے  بعد سرکاری نوکری میں  لگ گئے  لیکن جہاں  تک شاعری کی بات تھی تو بچپن سے  ہی اس جانب ان کی طبیعت مائل تھی ۔لہذا محرو م و منور کی شاگرد ی اختیار کی ۔ ساتھ ہی انہو ں نے  لکشمی چند نسیم ، رشی پٹیالوی، منو ہرسہائے  انور اور ابر احسنی گنوری سے  بھی شاگردی حاصل کی ۔بیداری وطن ، نقوش حُسن ، رباعیات ِ مغموم، بزم ماتم، آرزوؤں  کے  خواب ، آرزوؤں  کے  جزیرے ، نقوش جمال، جہاں  نما، اور جادۂ شوق ان کے  شعری مجموعے  ہیں  اور ایک تحقیقی مقالہ ’’ درگاسہائے  سرور جہان آبادی حیات و شاعری‘‘ ہے  ۔رباعیات مغموم میں  ان کی ۲۹۵ ؍ رباعیاں  ہیں  اور جہاں  نما میں  ایک ہزرا رباعیاں  ۔ موصوف کے  شعری مجموعوں  پر نظرڈالنے  کے  بعد اندازہ ہوتا ہے  کہ انہوں  نے  تمام اصناف سخن پر قلم اٹھا یا ہے  ۔ساتھ ہی انہوں نے  رباعیوں  میں  خصوصی توجہ دے  کراردو رباعی کی دنیا کو مالا مال کیا ۔ویسے  تو ان کی رباعیوں  کے  موضوعات دردو غم ، حسن و عشق ، محبت و مودت ، خمر و مینا ، فطرت و ثقافت وغیرہ ہیں  لیکن جمال کا گہرا شعور رکھتے  ہیں  اور نسوانی حسن کی عکاسی کی جانب فطری طور پر کھنچے  چلے  جاتے  ہیں  ۔ انہوں  نے  رباعیوں  کو فلسفہ سے  دور رواں  دواں  زندگی کو پیش کیا ہے  اور سادہ و سلیس اسلوب بیان اپنا یا ہے  ۔
میخانہ لٹاتی ہوئی آنکھیں  توبہ !
مدہوش بناتی ہوئی آنکھیں  توبہ !
یہ کیف وسرور اور تبسم پاشی
جادو سا جگاتی ہوئی آنکھیں  توبہ!

جگن نا تھ آزاد کا شمار اردو دنیا میں  ایک شاعراور ماہر اقبالیات کے  طور پر ہوتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۹۱۸ ء میں  پنجاب کے  ایک شہر عیسیٰ خیل میں  ہوئی اور وفات ۲۴؍ جولائی ۲۰۰۴ ء کو نئی دہلی میں  ۔تقسیم ہند سے  قبل ان کی زندگی کا بیشتر حصہ راولپنڈی میں  گزرا ۔آزادی کے  بعد دہلی آئے  جہاں  ان کی ادبی زندگی پروان چڑھی۔ انہوں  نے  قلمی زندگی کی شروعا ت شاعری سے  کی اور تین شعری مجموعے  ’’بے  کراں  ‘‘ ،’’ ستاروں  سے  ذروں  تک ‘‘ ،’’ وطن میں  اجنبی ‘‘ اور ’’ نوائے  پریشان‘‘ منظر عام پر آئے  ۔ ان تمام مجموعہ ہائے  کلام میں  کل ۵۶ رباعیاں  موجود ہیں  ۔زیادہ تر نظمیں  اور غزلیں  ہیں  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کے  موضوعات میں  تنوع اور ندرت پیدا کر نے  کی کوشش کی ہے  جن میں  حسن و عشق کی کیفیات ، وطن سے  دور ی کا دکھ درد ، تقسیم کے  عکس کے  ساتھ شباب کی رنگینیاں  اور تصوف کے  مزاج کی حامل رباعیاں  بھی ہیں  ۔ ایک رباعی بطور مثال ملاحظہ ہو:
طوفاں  سا روح میں  اٹھاتی ہوئی آئیں
احساس میں  نشتر سے  چلاتی ہوئی آئیں
بچھڑے  ہوئے  احباب کی پیاری یادیں
پھر آج مرا درد بڑھاتی ہوئی آئیں
               
راجندر بہادر موج ضلع فرخ آباد اتر پر دیش کے  رہنے  والے  تھے  ۔ ان کی پیدا ئش ۳ جولائی ۱۹۲۲ ء کو ہوئی ، والد کا نام منشی کنور سکسینہ تھا ۔ والد نے  ان کو عصری تعلیم سے  نوازا ۔کانپور اور آگرہ سے  تعلیم حاصل کر کے  وکالت کے  پیشہ سے  وابستہ ہوگئے  ۔شعر و شاعر ی کا شغف بچپن سے  ہی تھا ۔ ان کے  چھ شعری مجموعے  منظر عام پرآئے ،جن میں  ’’ موج ساحل‘‘ ،’’ موج در موج‘‘ ،’’ ساگر‘‘،’’ موجیں ‘‘ ،’’ لہریں  ‘‘ اور ’’ طوفان ‘‘ ہیں ۔ ان شعری مجموعوں  کے  نام سے  ہی محسوس ہوجاتا ہے  کہ انہوں  نے  فطر ت نگاری میں  خاص توجہ دی ہے  ۔ ان کے  شعر و ں  کے  مطالعہ سے  اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے  کہ انہوں  نے  شروع دور کے  کلام سے  اپنی شاعری میں  پختہ پن کو پیش کر نے  کی کوشش کی ہے  ۔’’ ساگر ‘‘ ان کی رباعیوں اور قطعات کا مجموعہ ہے  جس میں  ۱۹۰ رباعیاں  ہیں  ۔ لہریں  میں  ۱۱ رباعیاں  اور موجیں  میں  ۱۰۵ رباعیاں  ہیں  ۔ انہوں  نے  اپنی رباعیوں میں  واردات قلبی اور رموز ہستی کو خصوصی طور پر پیش کیا ہے  جن میں  رومان اور اخلاق بھی پایا جاتا ہے  ۔انہوں نے  اپنی رباعیوں  میں  آخری مصر ع سے  متاثر کن کیفیت پیدا کر نے  کی کوشش کی ہے  ۔ مثال :
خاکی تو ہوں  لیکن آتش فشاں  ہوں  میں
قطرہ ہی سہی مرکز طوفاں  ہوں  میں
ہے  دیدنی ہے  موج مرا ظرف بلند
قوت ہے  فرشتوں  کی اور انساں  ہوں  میں

                گیان چند جین کا شمار اردو کے  اہم ادیبوں  میں  ہوتا ہے  ۔ان کی پیدائش ۱۹؍ ستمبر ۱۹۲۳ ء کو سیوہارہ میں  ہوئی اور وفات ۹۱؍ اگست ۲۰۰۷ کو کیلیفورنیا ، امریکہ میں  ۸۳ سال کی عمر میں  ہوئی ۔وہ اردو کے  ناقد و محقق شاعر اور استا د بھی تھے  ۔ نویں  جماعت سے  ہی شاعر ی کی جانب متوجہ ہوگئے  تھے  ۔ شروع میں  انہوں  نے  نظموں  کی جانب توجہ کی پھر شاید جوش ؔ کی’’ جنون وحکمت ‘‘نے  رباعی گوئی کی جانب ان کو مائل کیا ۔وہ اقبال کی شاعری سے  متاثر تھے  اور بانگ درا کی تقلید کر تے  تھے  لیکن ابتدا میں  انہوں  نے  عشق و رومان کے  مضامین کو بر تا ۔ ’’کچے  بول‘‘ ان کا شعر ی مجموعہ ہے  ۔ اس مجموعہ میں  ان کی ۷۸ ؍ رباعیاں  درج ہیں  ۔انہوں  نے  جہاں  تک شاعر ی میں  جوش اور اقبال کی تقلید ایک حد تک کی ہے ، اس کا اثر ان کی رباعیوں  میں  بھی نظر آتا ہے  جن میں  بانگ درا کی طرح مناظر فطر ت کی عکاسی اور حسن و عشق کی دلربائی پائی جاتی ہے  ۔انہوں  نے  اخلاقی و اصلاحی رباعیاں  بھی کہی ہیں  ۔ ان کی رباعیوں  میں  ان کی فنکارانہ صلاحیت بھر پور نظر آتی ہے  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  کو پر اثر بنانے  کی پر زور کو شش کی ہے  :
 اب بھی ترے  نام کی کشش باقی ہے
کچھ کچھ وہی پہلی سی روش باقی ہے
گو عشق سے  ہاتھ دھو چکا ہے  کب کا
پھر بھی دل مردہ میں  خلش باقی ہے

شعلہ خاموش، شورش پنہاں  ، شاخ گل ، اجالے ، شعور ِ غم ، شعاع جاوید ، شب نشین ، احترام ، غزل گلاب اور نظم سمندر جیسے  دس شعری مجموعوں  کے  خالق کالی داس گپتا رضا ہیں  جن کی پیدائش ۲۵ ؍ اگست ۱۹۲۵ء کو ضلع جالندھر میں  ہوئی اور وفات ۲۰۰۱ ء میں  ۔ان کی شناخت اردو دنیا میں  بیک وقت قابل ادیب انشا پرداز، عظیم محقق اور قابل قدر ناقدکے  طور پر ہوتی ہے  ۔رضا کی شاعری کا کینوس کافی وسیع نظر آتا ہے  ۔نت نئے  موضوعات اور خیالات کو وہ اپنی فن کا رانہ مہارت و تجربہ سے  بہت ہی خوش اسلوبی سے  پیش کر تے  ہیں ۔ انہوں  نے  غزلوں  اور نظموں  کے  ساتھ خاصی تعداد میں  رباعیاں  بھی کہی ہیں  ۔’’شعاع جاوید‘‘ ان کی رباعیوں  کا مجموعہ ہے  جس میں  ۱۶۳؍ رباعیاں  ہیں  ۔ اس کے  علاوہ ’’شاخ گل ‘‘میں  ۲۶؍ اور’’ شعلہ خاموش ‘‘ میں  ۳۹ رباعیاں  ہیں  ۔ انہوں نے  اپنی رباعیوں  میں  حیا ت انسانی کے  گوناگوں  مسائل، اخلاقیات ، مناظر فطرت اور حسن وعشق جیسے  معاملات کو پیش کیا ہے  ۔ان کی رباعیوں  کے  متعلق پرو فیسر گوپی چند نارنگ لکھتے  ہیں  ’’ رضا کی رباعیوں  کو پڑھ کر یوں  خوشی ہوئی کہ ان میں  خیال کی تتلی کو پکڑنے ، اس کے  رنگوں  کو گرفت میں  لینے  اور ان سے  اظہار کا ہیولیٰ تیار کر نے  کا جوہر ملتا ہے  ‘‘ ۔( شعاعِ جاوید ص: ۱۲) شعری دنیا کے  علاوہ ان کا کارنامہ بطور محقق اردو دنیا کے  دامن میں  ہمیشہ کے  لیے  رقم رہے  گا ۔ انہوں  نے  خود کو بطور ماہر غالبیات متعارف کروایا ہے  ۔ الغر ض انہوں  نے  اردو دنیا کو ہر طرح سے  نوازا ہے  ۔ ایک رباعی بطور مثال پیش ہے ۔
احساس شرر رنگ ، نظر شعلہ بجاں
باندھا ہے  عجب ضبط محبت نے  سماں
اے  راز دروں  !اور دروں  ،اور دروں
اے  درد نہاں  ! اور نہاں  ، اور نہاں

امیر چند بہار کی پیدائش ۱۹۲۵؁میں  گاؤں  روکھڑی ضلع میانوالی مغربی پنجاب میں  ہوئی ۔تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے  حاصل کی ۔وہیں  سے  انہوں  نے  انگریزی میں  ایم اے  کی تعلیم مکمل کی۔ تقسیم ملک کے  بعد وہ ہریانہ میں  انگر یزی کے  استاد کے  طورپر در س و تدریس سے  منسلک ہوگئے  ۔بہارؔ اور فراق ؔ اس امر میں  یکساں  ہیں  کہ دونوں  انگر یزی کے  استاد تھے  اور دونوں  کو اردو سے  حد درجہ محبت تھی جس کی وکالت دو نوں  عمر کے  آخری پڑاؤ تک اردو کے  لیے  کرتے  رہے  ۔ امیر چند بہار کے  بارہ شعری مجموعے  شائع ہوئے  ہیں  جن میں  سب سے  پہلا شعری مجموعہ ’’نسیم مغرب ‘‘ ہے  ۔اس میں  انگریزی کی مشہور تر ین ۳۶ نظموں  اور سروجنی نائیڈوکی ایک انگر یز ی نظم کا شعر ی تر جمہ ہے  جسے  انجمن تر قی اردو نے  شائع کیا تھا ۔ اس کے  بعد رباعی کی جانب رجوع کر تے  ہیں  اور ۱۹۷۱؁میں  تین سو پچاس رباعیوں  پر مشتمل مجموعہ ’’ نسیم بہار‘‘ کے  نا م سے  شائع ہوا۔ ’’ نسیم بہار‘‘ کے  بعد دوسرا رباعی کا مجموعہ ’’دین و دنیا ‘‘ کے  نام سے  ۱۹۸۳؁ میں  حیدرآباد سے  شائع ہوا ۔ اس میں  بھی تقریباً تین سو رباعیاں  شامل ہیں  ۔اس کے  بعد ’’ انسان بنو‘‘ کے  نام سے  مجموعہ شائع ہوا ۔ بہارؔ مختلف فکر ی جہات کے  حامل شخص ہونے  کی وجہ سے  اس مجموعہ کی ۴۱۰ رباعیوں  کو مختلف عنوانات میں  تقسیم کرتے  ہیں  جو کچھ اس طر ح ہیں  ۔ دو ر حاضر، محسوسات ، مشاہدات ، انسان بنو، پندو موعظت، معرفت ، فن اور فن کار ، فکر ونظر ، نقوش یاس ، عزم وعمل ، صنعتی شہر ، زبان و فن شاعری، اردو آئینہ  ( دکھی جنتا) رسوم قبیحہ (سماجی بدعتیں  /اخلاقی بدعنوانیاں  ) وغیرہ ۔ اس میں  (دکھی جنتا) کے  عنوان کے  تحت رکشا والا ، موچی، درزی ، حجام ، دھوبی، ماہی گیر ، کسان، مزدور ، کنجڑا ، اخبار فروش جیسے  پیشے  اختیار کرنے  والوں  کی محنت کش اور فاقہ کش زندگیوں  کی عکاسی وہ اپنی رباعی کے  ذریعہ پیش کر تے  ہیں  ۔بہارؔ کے  رباعیات کا چوتھا مجموعہ ’’اردو ہے  جس کا نام ‘‘ ہے  جو تقریباً ایک سو پچاس رباعیات پر مشتمل ہے  ۔ اس میں  ساری رباعیاں  تقریباً ایک ہی لڑی میں  پروئی ہوئی نظر آتی ہیں  اور وہ لڑی اردو ہے  ۔اب تک وہ مختلف موضوعات کو اپناتے  آرہے  تھے  لیکن اس مجموعہ میں  انہوں  نے  ایک ہی مو ضوع(اردو ) کو پیش کیا جس کو وہ دس ذیلی عناوین ابتدائیہ ، قومی ورثہ ، اردو اور جنگ آزادی، اردو کا سیکولر مزاج، ماضی حال مستقبل، اردو زبان کی چاشنی ، اردو زبان کی اہمیت وآفاقیت ، عنادو مخاصمت بیجا، زبان و مذہب ، صائب مشورہ اور اردو ادب ہیں :
یہ بغض ، یہ بیر ، یہ خصومت کیسی
اک شیریں  زبان سے  عدوات کیسی
غالب سے  اگر پیار ہے  اتنا تو بتائیں
اردو سے  پھر اس درجہ کدورت کیسی

کندن لال کندن کا نام جدید اردو رباعی گو شعرا میں  بہت ہی اہمیت سے  لیا جاتا ہے ۔ وہ صرف اس وجہ سے  کہ رباعی گوئی کے  ساتھ ہی انہوں  نے  سحر عشق آبادی کے  رباعی کے  بارہ نئے  اوزان ڈاکٹر اوم پرکاش زار علامی کے  اٹھارہ نئے  اوزان کو اپنی رباعیوں  میں  برتا ہے ۔ یہ اوزان رباعی کے  بحرہزج کے  اخرب اور اخرم کے  چوبیس اوزان کے  سوا ہیں  ۔اس طریقے  سے  انہوں نے  رباعی کے  فن میں  ایک خوبصورت اضافہ کیا اگرچہ ان اوزان پر کندن لال کندن کے  سوا کسی اور نے  قلم نہیں  اٹھا یا ہے ۔ ان کی اس کتاب کا نام ’’ ارمغانِ رباعیاتِ کندن‘‘ ہے  ۔موصوف کی پیدائش ۱۹۳۶ء میں  تونسہ شریف کے  قریب کوٹ قیصرانی میں  ہوئی ۔ابتدائی تعلیم وہیں  حاصل کی پھر ہجر ت کے  بعد گوڑگاؤں  میں  چار سال تک کیمپ میں  زندگی گزاری اور اسکولی تعلیم مکمل کی ۔اس کے  بعد اعلیٰ تعلیم دہلی یونی ورسٹی سے  حاصل کی جہاں  انہوں  نے  خواجہ احمد فاروقی جیسے  کبار علم سے  علم حاصل کیا ۔ یہاں  انہوں  نے  تحقیق وتنقید کے  ساتھ شاعری کی اور عروض کے  فن پر ’’ ارمغان ِ عروض‘‘ ،’’ عروض و پنگل و خلیل ‘‘ اور ’’ معراج فن ‘‘ جیسی کتابیں  بھی تحریر کیں  ۔انہوں  نے  اپنی رباعیوں  میں  مروجہ مضامین سے  الگ ہٹ کر سیاسی موضوعات ، مذہب ، اخلاق اور سماج پر طنز کیا ہے  ساتھ ہی اصلاحی رباعیاں  بھی ان کے  یہاں  نظر آتی ہیں  ۔
تو چندے  آفتاب چندے  ماہتاب
ہے  دنیا کے  حسن میں  تیرا نہ جواب
چشم باطن ہے  گر کوئی دیکھے
تو دیکھے  گا تیرا جلوہ بھی شتاب

کر شن کمار طور کی پیدائش ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۳۸ء کوہوئی ۔ایم اے  کے  بعدڈپارٹمنٹ آف ٹوراِزم سے  منسلک ہوگئے  اور دھرم شالہ میں  سکونت پذیر ہوئے  ۔شاعری کا شوق تھا ہی یہی وجہ ہے  کہ جدید شعرا میں  وہ اپنی منفرد شناخت رکھتے  ہیں ۔ ’’ شہر شگفت‘‘ ،’’ عالم عین‘‘،’نمونوید‘‘،’’ مشک منور ‘‘،’’رفتہ رمز‘‘،’’ سرمایہ رمز‘‘ ،’’غرفہ غیب‘‘ اور’’گل گفتار ‘‘ ان کے  شعر ی مجموعے  ہیں  ۔ جدید شعرا ء میں  اپنی منفرد آواز، اندازاور آہنگ کی وجہ سے  پہچانے  جانے   سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ ان کے  اندر اظہار کی غیر معمولی شعری قوت موجود ہے  ۔انہوں نے  غزلوں  کی طرح رباعیوں  کو بھی جدید موضوعات سے  ہم آہنگ کیا ہے  جن میں فکر ووجدان ، فلسفۂ حیات و ممات اور زندگی کے  اسرار ورموز کی گرہ کشائی کی ہے  ۔ان کے  خیالات میں  تازگی اورتوانائی پائی جاتی ہے  اور انہوں  نے  نادر تشبیہات و استعارا ت کے  استعمال سے  بھی اپنی رباعیوں  کو خوب سنوارا ہے  ۔
مقتول بنوں  ثنائے  مقتل کرلوں
اک آگ کے  صحرا کو جنگل کرلوں
اے  عکس مہِ خواب ذرا آہستہ
میں  پہلے  دلِ آئینہ صیقل کرلوں

سوامی شیاما نند سرسوتی کی پیدا ئش ۲۶؍ نومبر ۱۹۲۰ء کو پیشا ور میں  ہوئی ۔تقسیم ہند کے  بعد دہلی میں  آبسے  اور یہاں  انہوں نے  اپنے  علمی و ادبی ذوق کو پروا ن چڑھا یا ۔ انہوں نے  ہندی اور اردو میں  شاعر ی کی ہے  ، ہندی رباعیاں  ہندی غزلیات کے  ساتھ اردو میں  بھی انہوں  نے  رباعیاں  لکھی ہیں ۔ اردو میں  صرف رباعی کا ایک مجموعہ ’’ رباعیات روشن ‘‘ کے  نام سے  ہے  پھر بعد میں  ایک مجموعہ ’’ حسن رباعیات‘‘ کے  نام سے  بھی منظرعام پر آیا ۔ ناگری رسم الخط میں  ان کی رباعیوں  کا ایک مجموعہ ’’ کلام میرا ‘‘ کے  نام سے  ۲۰۱۲ ء میں  منظر عام پر آیا ۔ یہ مجموعہ ان کی تجرباتی رباعیوں  پر مشتمل ہے ۔ ان رباعیوں  کو انہوں  نے  ’’ پریو گ دھرم رباعیاں  ‘‘ کہا ہے  ۔ رباعیوں  میں انہوں  نے  جو تجر بے  کیے  ہیں  وہ بہت ہی دلچسپ اور لطف انگیزی کے  ساتھ حیر ت انگیز و مشکل بھی ہیں  جن سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ وہ فن پر دستر س کے  ساتھ قادر الکلامی پر بڑی قدرت رکھتے  تھے  ۔ایک تجر بہ یہ کیا ہے  کہ رباعی کے  چوتھے  مصرع میں  جو لفظ شروع میں  آئے  ہیں  وہی لفظ دوسرے  یا پہلے  مصرع کے  شروع میں  استعمال ہوا ہے  جیسے  :
کیسے  تجھ کو میں  کتنا بتلاؤں
اپنا من جیسے  تیسے  بہلاؤں
دکھلاؤں  میں  کیسے  من کی پیڑا
کیسے  تجھ کو اپنا من دکھلاؤں

دوسرا تجر بہ انہوں نے  ہائیکو رباعیات کے  عنوان سے  کیا ہے  ۔یہ رباعیاں  بیک وقت ہائیکو اور رباعیوں  کے  طور پر بھی پڑھی جاسکتی ہیں  ۔ تیسرے  تجر بے  کو انہوں  نے  زنجیری رباعیات کا نام دیا ہے  ۔یہ رباعیاں  اس طر ح ایک لڑی میں  پروئی گئی ہیں  کہ پہلی رباعی کے  تیسرے  مصرعے  کو جو بے  قافیہ ہے  اگلی رباعی کا پہلا مصرع بنایا گیا ہے  اس تجربے  سے  اس سلسلے  کی ساری رباعیاں  باہم منسلک ہیں  ۔ان کی رباعی ’’ حسن رباعیات ‘ ‘ سے  ملاحظہ ہو :
ہر دل پہ یوں  اردو کا اثر کیا کہنا
اس طور تلفظ پہ نظر کیا کہنا
دنیا میں  زبانیں  ہیں  ہزاروں  لیکن
اردو کی لطافت کا مگر کیا کہنا

جدید نسل کے  شعرا میں  نظمیہ شاعری کی جانب رغبت کافی دکھائی دیتی ہے  اور غزل بھی ان کی پسندید ہ صنف سخن ہے  ایسے  میں  رباعی جہاں  مشق سخن کی آزمائش ہوتی ہے  اس جانب بھی جدید شاعروں  میں  کچھ کی رغبت نظرآتی ہے  لیکن حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے  کہ دور حاضر میں  کتنے  غیر مسلم شعرا ہیں  جنہوں  نے  رباعیاں  بھی لکھی ہیں  ۔

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...