Thursday 26 March 2020

اردو رباعی میں حمد


اردو رباعی میں حمد 

امیر حمزہ 
شعبہ اردو دہلی یو نی ورسٹی دہلی 

رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جو اپنے وجود سے لیکر اب تک سب سے زیادہ مذہب سے قریب رہی ہے۔ فارسی زبان میں جب رباعی کی شروعات ہوئی تو اس وقت اسلام پور ے خطہ میں پھیل چکا تھا اور مذہبی تعلیمات ومعاملا ت داخلی زندگی اور خارجی زندگی میں پور ی طر ح سرایت کر چکی تھی۔ اب تک کا تحقیق شدہ قول یہی ہے کہ رباعی کی شروعات تیسری صدی ہجر ی میں ہوئی تا ہم جب پانچویں صدی ہجر ی میں خیام نے اس صنف سخن کو اپناتا ہے تو اس کو کمال تک پہنچاتا ہے اور موضوعات کے اعتبار سے سب سے زیادہ فلسفہ زندگی کو جگہ دیتا ہے نیز خدا سے فلسفیانہ اندازمیں تعر یف کے ساتھ مناجات بھی کر تا ہے۔رباعی ہی وہ صنف سخن رہی ہے جو خانقاہوں میں سب سے زیادہ پلی بڑھی۔بلکہ جس جس معاشر ے میں پلی بڑ ھی اس معاشر ے کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی۔ صوفیاء کر ام کی محفلوں میں رہی توحمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی۔فارسی کے اہم رباعی گو کی صحبت میں جب پہنچی تو حکمت وفلسفہ کے آب حیات سے سر شار ہوئی، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس و دبیر کی پاکیزہ خیالی وبلندی مضامین، اکبر و حالی کی اصلاحی پاسداری، امجد کا حکمت وفلسفہ، جو ش کا دبدبہئ الفاظ اور مناظر فطرت، فر اق کی جمالیا ت و سنگھار رسسے رباعی نے اپنے آپ کو  خوب سنوارا۔اسی کو ڈاکٹر سلام سندیلوی اس طر ح لکھتے ہیں۔

”ولی کی معرفت نے، میر کے عشق نے، درد کے تصوف نے، غالب کی معنی آفرینی نے، انیس و دبیر اور رشید کے رثائی خیالات نے،حالی واکبر کی اصلاحیات نے، جوش کی انقلابیت نے اور فراق کی سنگھار رس نے رباعی کو ایک سنجید ہ لب و لہجہ عطا کیا۔ان حضرات کی رباعیات میں گہری سنجیدگی اور عمیق تفکر کی فضا پائی جاتی ہے۔“ 
(اردو رباعیات، سلام سندیلوی، ص ۵۷۵)

اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیاہے اور ان کی عکاسی کی ہے۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودومخصوص موضوعات میں پابند نہیں کیا ہے۔رباعی میں اگر چہ اخلاقی،مذہبی، اصلاحی، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ رہے ہیں لیکن دو سرے موضوعات کا خاطر خواہ ذخیرہ بھی اردو رباعی میں موجود ہے۔موضوعات رباعی کے تعلق سے اب تک یہ بہت زیادہ لکھا جاتا رہا ہے کہ رباعی کے موضوعات حمد و مناجات اور اخلاق و فلسفہ کثر ت سے رہے ہیں یہ حقیقت ہے۔ لیکن رباعی میں ہمیشہ یہ لچک رہی ہے کہ وہ جس زمانہ میں بھی پروان چڑھی اس زمانہ کے موضوعات کو قبول کرنے میں کبھی بھی کوتا ہ دست نہیں رہی۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ نئے موضوعات کے آنے کی وجہ سے پرانے موضوعات سر دبستہ میں چلے گئے ہوں۔ رباعی کے موضوعات میں سے حمد ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی قدیم اور فرسودہ نہیں ہوسکتا۔ حمد کے متعلق علما ء کیا کہتے ہیں ایک نظر ان پربھی ڈالتے ہیں۔

 نووی کہتے ہیں ”خدا تعالی کی ذات و صفات اور ان کے افعال کو زبان سے بیان کر نا حمد کہلاتا ہے۔ اللہ تعالی کی تعریف کر نا ان کے انعامات کے اوپرتعریف کر نا شکر کہلاتا ہے۔ اس طر یقے سے ان کے نزدیک ہر شکر حمد کے دائرہ میں آجاتا ہے اور حمد شکر کے دائر میں نہیں آتا ہے۔ حمد کا ضد ذم ہے اور شکر کا ضد کفر ہو تا ہے“۔

ابن حیان کہتے ہیں ”حمد اللہ تعالی کی تعر یف بیان کر نا ہے صرف زبان کے ذریعہ سے۔ اور زبان کے علاوہ جن چیزوں سے ان کی بزرگی کا اظہار کیا جائے گا وہ حمد نہیں بلکہ شکر یہ کہلائے گا۔“ 

امام رازی کہتے ہیں۔”حمد اللہ تعالی کی تعریف بیان کر نا ہے ہرنعمت پر خواہ وہ نعمت تعر یف بیان کر نے والے تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو۔ اور شکر اللہ تعالی کی انعامات پر تعر یف بیان کر نا اس طور پر کہ وہ انعامات تعر یف بیان کر نے والے اور شکر ادا کر نے والے تک پہنچا ہو۔ 

حمد میں محبت اور عظمت کے ساتھ محمود کی تعر یف بیان کر نا ہے۔ یعنی حمد میں محبت اور عظمت کا عنصر موجود ہوتو حمد کہلاتا ہے شکر میں محض تعر یف بیان کر نا ہوتا ہے خواہ دل میں عظمت ہو یا نہ ہو۔“(تر جمہ از معجم الشامل)

الغر ض لغوی اعتبار سے حمد مطلقا زبانی تعریف کو کہتے ہیں خواہ وہ نثر میں ہو یا شعرمیں۔ اس طریقہ سے حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو او رخدا کی ذات اور صفات کا اس طر ح ذکر کیا جائے کہ اس میں اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہواور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے قلبی تعلق ظاہر ہوتا ہو۔ خواہ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہویا انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے،اس میں کائنات کی وسعتوں کے ذریعے رب کی بڑائی کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا اظہار ہو۔ سب حمد کے دائرہ میں آتا ہے۔جس طر یقہ سے اللہ نے قرآن میں ہی ذکر کر دیا ہے کہ ’اللہ ہر دن ایک نئی شان میں نظر آتا ہے“ اسی طر ح سے بندے کے اندر بھی یہ صفت ودیعت کی ہے کہ اس کی بھی حالت ہمہ وقت ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔لسانی طور پر بھی جب کسی سے بات کر تا ہے تو ہر وقت الگ الگ لہجہ اپنا تا ہے اگر لہجہ الگ الگ نہیں بھی اپنا سکا تو انداز جداگانہ ہو تاہے اسی طریقے سے خدا کی تعریف میں جب رطب اللسان ہوتا ہے تووہ نئے نئے طر یقے  اورلفظیات سے اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے۔ اسی طر یقے سے جب ہم حمدیہ رباعیات کا مطالعہ کر تے ہیں تو اس میں بہت ہی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔

رباعی کا تعلق جیسا کہ کسی ایک موضوع سے نہیں رہا ہے تمام موضوعات میں اس صنف سخن نے اپنی خدمات انجام دی ہیں پھر بھی رباعی ہی نے خدا کی ذات و صفا ت کو سب سے زیادہ اپنے اندر سمویا ہے۔ 

دکنی دور میں ہمیں حمدیہ عناصررباعی میں دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اس موضوع کو بالا دستی حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ وہاں عشقیہ رباعیوں کا چلن زیادہ نظرآتا ہے۔شمالی ہند کے تقریبا ً تمام قدیم شعرا نے اردو رباعیات تخلیق کی ہیں ان کے یہاں حمدیہ رباعیاں بھی نظرآتی ہیں لیکن انہوں نے رباعی کی جانب بہت ہی کم توجہ دی بلکہ مر ثیہ قصیدہ اور مثنوی سے بھی کم پھر بھی ان کے یہاں رباعی میں حمد بخوبی نظر آتاہے۔ ارد و میں رباعی کو سب سے زیادہ شہرت کے بام پر انیس و دبیر نے پہنچایا۔ انہوں نے جس طریقے سے مرثیہ کو بلندی تک پہنچایا اسی طریقے سے رباعی کو بھی ہر قسم کی ترقی سے نوازا۔ان دونوں شاعروں نے رباعی میں حمد کو بہت ہی اہتمام سے پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں حمدیہ رباعیات دو قسم کی پائی جاتی ہیں ایک وہ جس میں معر فت، حقیقت اور وحدانیت کا رنگ جھلکتا ہے، دو سر ی وہ رباعیاں جس میں صفات خداوندی میں سے رزاقی، قہاری،ستاری، جود و کر م اور عدل و انصاف کا ذکر ہے۔اس سلسلے میں انیس و دبیر کی ایک ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں۔
(میر انیس)
گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے بلبل کی زبان پر گفتگو تیری ہے 
ہر رنگ میں جلوہ ہے تیری قدرت کا جس پھول کو سونگھتا ہو ں بو تیری ہے  
(دبیر)
پروانے کو دھن، شمع کو لو تیری ہے عالم میں ہر اک کو تگ و دو تیری ہے 
مصباح و نجوم و آفتاب مہتاب جس نور کو دیکھتا ہوں ضوتیری ہے 

اس پورے عہد میں انیس ودبیر مو من وامیر و داغ و رشید کے یہاں جہاں رباعی خوب پروان چڑھی وہیں اپنے مخصوص پیرائے سے نکل کر مختلف موضوعات میں ڈھلتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔اس دور میں رباعی کادائرہ وسیع ہوا اس طور پر کہ رباعی میں انیس کی جزئیات نگاری، دبیر کی زبان وبیان کی بلندی، مومن کا حسین پیکر، امیر مینائی کی نکتہ بیانی، داغ کی خاکہ نگاری، آسی کا تصوف اور رشید کے یہاں پیر ی کا منظر نظر آتا ہے۔

جدید دور میں جہاں انگریزی کا رواج عام ہوا۔وہیں انگر یزی تعلیم کے توسط سے اردو شاعری میں کئی تجر بات ہوئے۔حسن وعشق کے موضوعات سے نکل کر نیچر ل شاعر ی وجو د میں آئی۔غزل کو تما م جذبات کی تر سیل اور سبھی موضوعات کی تر جمانی کے لیے ناکافی سمجھا گیا تو شعر ا نظم کی طر ف متوجہ ہوئے اور اردو نظم کی آبیار ی میں لگ گئے۔ ایسے موقع میں نظم کی سی ہیئت رکھنے والی صنف رباعی کی جانب بھی لوگوں کی توجہ گئی۔بقول فرمان فتح پوری:

”چونکہ زمانہ افرا تفری، سیاسی کشمکش، معاشی بحران، اور ذہنی الجھنوں کا تھا۔اس لیے جو تسلسل خیال، وحد ت فکر اور فنی ٹھہر اؤ نظم کے لیے مطلوب تھا،وہ پوری طر ح میسر نہیں آیا۔نتیجۃً علامہ اقبال کے علاوہ کسی کے یہاں فنی نقطہئ نظر سے نظم میں وہ تر فع پیدا نہ ہوسکا جو اردو غزل کا طر ہ امتیاز ہے۔ لو گ بین بین راستہ تلاش کر نے لگے۔ اور حالی واکبر کے زیر اثر اس پس افتادہ صنف کی طر ف رجوع ہوئے جس میں غزل کی غنائیت اور نظم کی سی وسعت دونوں کی گنجائش تھی میری مر اد رباعی سے ہے۔“(ڈاکٹر فرمان فتح پوری،ارد رباعی کا فنی ارتقاء ص ۲۰۱)

اس عہد میں رباعی کی جانب متوجہ ہو نے کہ اسباب ناقدین نے الگ الگ بیان کیے ہیں۔ایک جگہ ڈاکٹر سلام سندیلوی نقل کرتے ہیں کہ انیس و دبیر کی رباعیوں کی مقبولیت کی وجہ ہی بعد میں رباعی کی جانب توجہ کا سبب بنی۔اور ایک جگہ رباعی کی جانب تو جہ معاشی بد حالی کو قرار دے رہے ہیں:

”دور جدید کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسلامی حکومتوں اور ہندوستانی ریاستوں کی زوال کی وجہ سے عوام کی بھی مالی حالت بگڑ گئی اس لیے وہ فکر معاش میں سرگرداں رہنے لگے۔ایسی صورت میں طویل نظمیں کہنے سے قاصر تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مختصر افسانوں، رباعیات، کو تر قی ہوئی کیونکہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اپنے 
ذوق کی تسکین کر لیا کرتے تھے۔“(سلام سندیلوی، اردو رباعیات ص ۷۶۲)

اس بات کا علم سبھی کو ہے کہ جدید شاعر ی میں رباعی اردو کے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ دکن سے ہی اردو میں رباعی کی روایت چلی آرہی تھی اور انیس و دبیر نے اردو رباعی کو بلندی تک پہنچایا۔حالانکہ یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ انیس ودبیر کی رباعیات کا اثر کم نہیں ہو ا تھا اس لیے رباعیات کی جانب توجہ کا مبذول ہونا قابل اعتنا بات ہوسکتی ہے۔رہی بات ڈاکٹر سلام سندیلوی کی کہ معاش اور تنگئی وقت کی وجہ سے رباعی کی جانب لوگوں کی توجہ گئی۔ تو کیا رباعی غزل سے اتنی مختصر ہے جیسے داستان کے مقابلے میں افسانے ہیں؟ یہ بات اس وقت ممکن ہوتی جب ہم مثنوی سے غزل یا رباعی کی جانب جاتے۔ جبکہ رباعی اور غزل بہت ساری چیزوں میں ایک دوسرے کے مماثل نظر آتے ہیں بلکہ رباعی غزل سے بھی بھاری پڑ جاتی ہے محدود وزن اور فکرکی پیش کش میں۔ غزل کا ہر بیت فکرکے معاملے میں آزاد رہتا ہے جبکہ رباعی میں فکرکوتین مصرعوں میں پھیلا کر کے پوری طاقت کے ساتھ چوتھے مصرع میں بند کرنا ہوتا۔پھر رباعی میں آسانی کہاں؟

ایک بات ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جس دور کی بات ہورہی ہے اس دور میں خصوصاً رباعی کی جانب تو جہ نہیں کی گئی بلکہ وہ دور ہی ایسا دور رہا ہے کہ اس عہد میں ہر اعتبار سے اردو میں وسعت ہوئی ہے۔اس دور میں نئے نئے اصناف سخن وجود میں آئے اسی دور میں نظم تر قی کی بلندیوں تک اقبال پہنچا رہے ہیں اور رباعی میں نظم کی ایک کیفیت موجو د ہے جہاں موضوع مصر عوں میں نہیں سمٹتا ہے بلکہ پورے میں پھیلا کر بیان کیا جاتا ہے۔اور یہ مزاج رباعی کے لیے بھی راس آیا اس اعتبار سے رباعی اس عہد کے مزاج کا ہم آہنگ ہوا جہاں رباعی کو پہلے سے کچھ زیادہ پھیلنے کا موقع ملا اور حالی و اکبر کے بعد فانی، جوش، فراق، امجد، رواں و یگا نہ وغیر ہ نے رباعی کو اس جد ید عہد میں تر قی کی راہ میں گامزن کیا۔

مولانا الطاف حسین حالی کا اردو رباعی کے متعلق ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ رباعی جو انیس و دو بیر کے زمانے میں صرف مجلس عزا میں اپنا جوہر بکھیر رہے تھی اور مضامین کر بلا سے بھر پور تھی۔ اس کو مولانا الطاف حسین حالی نے اس خاص مجلس سے نکالا اور عام مضامین کی سادگی سے رباعی کو مزین کیا۔ اس کا نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ رباعی مشاعر وں میں جگہ پانے لگی۔حالی نے رباعی میں جہاں تمام موضوعات کو اپنا یا ہے وہیں اصلاحی نکتوں اور تعمیری کاموں کے ساتھ ساتھ حمدیہ رباعیاں بھی کہی ہیں۔ان کی رباعیاں داخلی اور خارجی تمام مضامین کو سمیٹے ہوئے ہے۔چند حمدیہ رباعیات درج ذیل ہیں۔

کانٹا ہے ہر ایک جگر میں اٹکا تیرا حلقہ ہے ہر اک گوش میں لٹکا تیرا
مانا نہیں جس نے تجھ کو، جانا ہے ضرور بھٹکے ہوئے دل میں بھی ہے کھٹکا تیرا

ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا آتش پہ مغاں نے راگ گایا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے انکار کسی سے نہ بن آیا تیرا

مٹی سے، ہوا سے، آتش و آب سے یہاں کیا کیا نہ ہوئے بشر پہ اسرار عیاں 
پر، تیرے خزانے ہیں ازل سے اب تک گنجینہئ غیب میں اسی طرح نہاں 

اکبر ایک ایسا شاعر ہے جو ہمیشہ اپنی ایک الگ شناخت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔حالی اور اکبر کے مقصد شاعری میں تساوی ہو سکتی ہے لیکن انداز بیان میں صاف تبا ین جھلکتا ہے۔انہوں نے شاعر ی میں ایک نئی طر ز ایجا د کی اور اپنی شاعر ی کو اصلاحی و مقصدی رجحانات کے تابع بنا دیا۔یہی مقصد حالی کا بھی تھا لیکن اکبر نے اردو رباعی کو نیا اسلوب اور ایک نیاطرز بیان دیا۔اکبر اپنی رباعیوں میں وعظ ونصیحت اور اصلاح و اخلاق کی باتیں تو کر تے ہیں لیکن یہ کسی کے سماع میں ذرہ برابر بھی بار نہیں گذرتا بلکہ طنز و ظرافت کے لباس میں اصلا ح کا آب حیات پیش کر تے ہیں۔حالی نے اسی چیز کو متانت و سنجید گی سے پیش کیااور اکبر نے شوخی و ظر افت سے۔ رباعی پر جہا ں اصلاح و اخلاق اور تصوف کی مہر ثبت ہوچکی تھی اکبر نے وہیں اپنے ایک خاص مزاج، چلبلے پن، شوخی و ظرا فت سے اردو رباعی میں مزاح نگاری کی نئی روایت ڈالی۔ان کی حمدیہ رباعیاں بھی منفر د انداز میں نظرآتی ہیں۔

امجدمجید حیدرآبادی بیسویں صدی کے رباعی گویوں میں حق سے زیادہ اور حد سے زیادہ شہر ت پانے والے رباعی گو ہیں۔امجد کی شہر ت اور قدرت اور منزلت کا یہ حال تھا کہ گر امی جالند ھری کے زبان سے یہ رباعی اداہوتی ہے۔

امجد بہ رباعی است فرد امجد کلک امجد، کلید گنج سرمد
گفتم کہ بود جواب سر مد امروز روح سر مد بگفت امجد امجد

اس وجہ سے امجد کو سر مد کا دوسرا روپ کہا جاتا ہے اور زندہ سر مد بھی کہا گیا۔یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہے کہ امجد کو سر مد کا لقب خوب زیب دیتا ہے۔ 

امجد حیدرآبادی پہلے شاعر ہیں جنہوں نے شعوری طور پر رباعی کی جانب توجہ کی اور ان کی توجہ اتنی بڑھی کہ وہ نظمیں بھی رباعی کے اوزان میں کہنے لگے۔ امجد نے خوب رباعیاں کہیں ہیں ان کی رباعیوں پر بھی بہت کچھ لکھا گیا، ان کی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی مستقل لکھا جارہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کچھ رباعیا ں اس معیار کی ہیں کہ فارسی رباعیوں کے مقابلہ میں لائی جاسکتی ہیں اور اردو کی اعلیٰ رباعیات میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ان کی رباعیوں میں حمدیہ رباعیوں کی تعداد کافی ہے، فلسفہئ تصوف میں وحد ۃالشہودکو انہوں نے اپنی رباعیوں میں بہت ہی زیادہ پیش کیا ہے۔ رباعیات امجد کے حصہ اول سے پہلی رباعی ملاحظہ فرمائیں جو حمدیہ ہے۔
واجب ہی کو ہے دوام باقی فانی قیوم کو ہے قیام باقی فانی 
کہنے کو زمین و آسمان سب کچھ ہے باقی ہے اسی کا نام باقی فانی 

غم سے ترے اپنا دل نہ کیوں شاد کروں جب تو ستنا ہے، کیوں نہ فریاد کروں 
میں یاد کروں تو، تو مجھے یاد کرے تو یاد کرے تو میں نہ کیوں یاد کروں 

ہر گام پہ چکرا کے گر ا جاتا ہوں نقشِ کفِ پابن کے مٹا جاتا ہوں 
تو بھی تو سنبھال میرے دینے والے میں بار امانت میں دبا جاتا ہوں 

فراق ؔ ارد ور رباعی کا ایک ایسا باب ہے جس میں داخل ہونے کے بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن، احساسات و جما لیا ت، نظر و فکر اور رنگ و بو میں نظر آتی ہے۔فر اق نے رباعی کے باب میں ماضی کی تمام روایتوں کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنایا ہے۔فراق ؔ اپنی رباعیوں کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کے حسن و جمال اور جزئیات نگاری کی بھرعکاسی کر نے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کی رباعیوں میں جا بجا جسم کی مختلف حصوں اور ہندوستان و معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں۔

ان کی رباعیاں موضوع کے اعتبار سے صرف دو زمروں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں۔ ایک زمرہ ان رباعیوں کا ہے جن میں محبوب کے لب و ر خسار اور اس کے خد و خال کی کیف آگیں تصویر یں ہیں اور دو سرے زمر ے میں ان رباعیوں کو رکھا جاتا ہے جن میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے جیسے پنگھٹ پرگگر یاں بھرنا، معصوم لڑ کیوں کا کھیتوں میں دوڑنا، ساجن کے جوگ میں مستا نا سا مکھڑا اور بیٹی کے سسرال جانے کا منظر وغیرہ۔ ان کی رباعیوں میں ہندوستانی معاشر ت کے ایسے خاکے اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں جن میں فراق ؔ کی تخیل، جمالیاتی شعور اور طر ز تر سیل نے جان ڈال دی ہے۔ ان تمام کے باوجود انہوں نے حمدیہ رباعی نہیں کہی۔

جوش ملیح آبادی
اردو رباعی گو شعرا میں جو ش کا نمایاں مقام اس وجہ سے نہیں ہیں کہ انہوں نے باعتبار کمیت زیادہ رباعیاں کہیں ہیں بلکہ بلحاظ کیفیت بھی ان کی رباعیوں کی کسی دو سر ے رباعی گو کی اچھی رباعیوں سے زیاد ہ ہے۔جو ش غزل کے بجائے نظم کے شاعر تھے اور رباعی بھی مختصر نظم کے مماثل ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اس کی طر ف ایک خاص توجہ دی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رباعی گوئی انہوں نے دوسرے شاعر وں کی طرح تکلفاً نہیں اپنائی تھی بلکہ رباعی کہنا ان کے فطر ت کا ایک جز بن گیا تھا جس کو وہ بہت ہی خو بصورتی کے ساتھ بر تتے چلے گئے۔ نظم اور رباعی کو وہ ایک ساتھ لیکر چلتے رہے سوائے اولین مجموعہئ کلام روح ادب کے ان کے ہر مجموعہئ کلام میں رباعیات موجو د ہیں۔اس کے علاوہ ان کے تین مستقل رباعیات کے مجموعے ہیں، جنوں حکمت، سموم وصبااور قطر ہ و قلزم۔  جو ش کو اگر چہ ایک اچھا نظم گو شاعر مانا جاتے ہے لیکن جتنا اچھا وہ نظم گو شاعر ہیں اسی کے مقابل کے وہ رباعی گو شاعر بھی ہیں۔

جو ش ؔ کی شاعر ی کو عموما ًتین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، شباب، انقلاب اور فطر ت لیکن جب ہم ان کی رباعیوں کی جانب توجہ کر تے ہیں تو اردو کے خیام کا علَم(صرف خمری رباعیوں کی وجہ سے) ان کے ہاتھ میں نظر آتا ہے اور وہ شاعر شراب بھی نظر آتے ہیں۔جو ش کبھی ایک نظر یے پر قائم نہیں رہے، حسن و عشق کے نغمے گائے، انقلاب کے پر چم لہر ائے، امن انصاف اور مساوات کے سفیر بنے، فطر ت کی حسین تصویر کشی کی اور جام شراب بھی چھلکائے۔ ان کے نظریات میں بہت ہی تضاد نظر آتا ہے وہ خدا کا مذاق اڑاتا ہے اس کے رسو ل کی تعریف بھی کر تا ہے، درود بھیجتا ہے اور نواسۂ رسول پر مرثیہ بھی کہتا ہے۔ کبھی غر یبوں کی حمایت کر تا ہے تو کبھی اس کا مذاق بھی اڑاتا ہے اور نفرت بھی کر تا ہے۔کبھی جاگیر دارانہ نظام ان کے سر پر چڑ ھ کر بولتا ہے تو کبھی اشتراکیت کے نشے میں مزدو روں کے ساتھ چلنے لگتا ہے۔جو ش کو اس تضاد کا علم بخوبی تھا اور اس کا اظہار بھی کر تا ہے۔

جھکتا ہوں کبھی ریگ رواں کی جانب اڑتا ہوں کبھی کاہکشاں کی جانب
مجھ میں دو دل ہیں ایک مائل بہ زمیں اور ایک کارخ ہے آسمان کی جانب

 منہ شرم سے ڈھانپتی ہے عقلِ انساں               تھرتھراتی ہے، کانپتی ہے عقلِ انساں 
تحقیق کی منزلیں عیاذاً با للہ                ہر گام پہ ہانپتی ہے عقلِ انساں 

اے خالقِ امرِ خیرو صانعِ شر                    تجھ پر ہی تو ہے مدارِ افعالِ بشر
ہر ہجو کے تیر کا ہدف ہے تری ذات                     ہر مدح کی تان ٹوٹتی ہے تجھ پر

حمدیہ رباعی میں خدا کی صفات کا ذکر بخوبی کر تے ہیں لیکن ساتھ میں شکایت بھی بھر پور کرتے ہیں۔ان کے یہاں حمد سے زیادہ شکایت نظر آتی ہے وہ جگہ جگہ پر اللہ سے روٹھتے ہیں، الجھتے ہیں، نا راض ہوتے ہیں، امید کر تے ہیں اور مایوس بھی ہوتے ہیں۔ وہ غر ور بھی کر تے ہیں اور رحم کی درخواست بھی کرتے ہیں۔غر ض یہ کہ وہ حمد کے ساتھ شکایت بھی کر تے ہیں، اس قسم کی ایک رباعی ملاحظہ ہو۔
جس وقت جھکتی ہے مناظر کی جبیں راسخ ہوتا ہے ذات باری کا یقیں 
کر تا ہوں جب انسان کی تباہی پہ نظر دل پوچھنے لگتا ہے خدا ہے کہ نہیں   

جو ش و فراق کے بعد اردو رباعی کی دنیا میں مزید وسعت آئی جن میں سے کئی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے خالص رباعی گوئی میں شہر ت حاصل کی جیسے جگت موہن لال رواں، ناوک حمزہ پوری، علقمہ شبلی، کوثر صدیقی، طہور منصو ری نگاہ اور عادل اسیر ہ وغیرہ۔ ان کے علا وہ کئی ایسے شعر اء ہیں جنہوں نے غزل کے ساتھ رباعی میں اپنی مضبوط شناخت قائم کی ان میں سے فر ید پر بتی، ظہیر غازی پور، اصغر ویلوری،شاہ حسین نہر ی،قمر سیوانی، ظفر کمالی، حافظ کر ناٹکی، اکر م نقاش، فراغ روہوی، التفات امجدی، عادل حیات اور عبدالمتین جامی وغیرہ ہیں۔ان تمام سے الگ ایک بہت ہی بڑی شخصیت ہے جنہوں نے رباعیاں کہی ہیں اور ان کی رباعیاں مقبول بھی ہوئی ہیں وہ ہیں شمس الرحمن فارقی۔ موصوف نے اپنی رباعیوں میں جدیدیت کو مکمل برتا ہے جن کے وہ روح روا ں بھی رہے۔الغرض موجودہ عہد میں رباعی بطور ایک شعری صنف سخن بہت ہی مقبول صنف ہے۔ یہ ملک کے کسی ایک ہی حصہ میں نہیں کہی جارہی ہے بلکہ رباعی کے شاعر آپ کو ملک کے اکثر حصہ میں مل جائیں گے۔جن میں سے چند کا ذکر اجمالا کیا جاتا۔

 رباعی میں حمد ونعت جیسے پاکیزہ موضوعا ت کثرت سے استعمال ہونے کی وجہ سے یہ احساس ہوتا ہوگا کہ اس میں کوئی نئی بات کہنے کو نہیں رہ گئی ہے بلکہ انداز جداگانہ ہوگا اور کہنے کو وہی باتیں ہوں گی لیکن جس خدا کے جہاں کی ساری چیزوں کا احصا ء ایک انسان نہیں کر سکتا تو ان کی حمدو ثنا کا حق کہاں ادا ہوسکتا ہے۔اس وجہ سے حمد وثنا میں نئے اسلوب اخذ کر نے میں رباعی کے اسلوب میں تازہ کاری بہت ہی زیاد ہ لائی گئی ہے ظہیر غازی پوری اپنی وسیع النظری کے سب اس ازلی موضوع کوتخلیقیت کا اعلی پیرہن اس طر ح عطا کر تے ہیں کہ ان کی حمدیہ اور نعتیہ رباعی افق کے نئے منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ایک رباعی اس سلسلہ کی ملاحظہ ہو۔

’لا‘ میں بھی جھلکتا ہے اسی کا جلوہ ’کن‘ میں بھی دمکتا ہے اسی کا جلوہ 
آنکھوں میں مقید جو کبھی ہو نہ سکا ہر شیئ میں چمکتا ہے اسی کا جلوہ 

فرید پر بتی نے اپنی رباعیوں میں حمد و نعت، اخلاق و حکمت، تصوف، حسن و عشق، عصر حاضر وغیر ہ جیسے موضو عات کا احاطہ کیا ہے۔ یہ وہ ظاہر ی موضوعات ہیں جو ان کی رباعیو ں میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی رباعیوں کے گہرے مطالعہ کے بعد جو پہلا تأثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعر ی کی عمارت ذاتی تخلیقی توانائی اور اظہار کا جذبہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ ان کی رباعیوں میں ایک الگ اندا ز بیان اور حسن ہے جس میں ایک توانا نظام فکر نظر آتا ہے جو عموما دوسرے رباعی گو کے یہاں بہت کم پایا جاتا ہے۔ان کی رباعیوں میں ایک توانا نظام فکر پایاجاتا ہے اور اپنی رباعیوں میں ایک منفر د لب و لہجہ اور شیر ینی و نغمگی کو پیش کر تے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی رباعیاں قاری کے اثر میں اپنا ایک اثر چھوڑ جاتی ہیں۔

فرید پر بتی روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید مضامین کو بھی رباعیوں میں پیش کیا ہے جس کو لوگ صرف غزلوں میں ہی پیش کر رہے تھے۔ انہوں نے جہاں صوفیانہ اور اخلاقی مضامیں پر اظہار خیال کیا ہے وہیں حسن وعشق کے موضوعات کو برتا ہے اور عصر ی حسیت سے اپنی رباعیوں کو ہم آہنگ کیا ہے۔ ان کے یہاں حمدیہ رباعی تمام مجموعوں میں بطور تبر ک نظر آتی ہیں۔ تمام رباعی کے مجموعے میں وہ خدا کی تعر یف وثنا ضر ور کر تے ہیں خواہ ایک ہی رباعی سے ہی کیوں نہ ہو۔اس کے بعد نعتیہ رباعی بھی پیش کر تے ہی اس طر ح سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی رباعیوں کو ایک منفر د آہنگ عطا کیا وہیں وہ موضوعات میں مذہبی موضوعات سے منھ نہیں پھیر ے ان کی حمدیہ رباعیاں ملاحظہ ہوں۔

یکتا بھی یگانہ بھی مشہود و مآل یکتا ئی میں تحلیل ہوا عزو جلال 
حیران تفکر ہے تحمل نگرا ں دریا میں غر ق ہوا مرا جام سفال

سمجھو کہ لگاؤ گے فقط رٹ میری پاؤ گے چہار سمت آہٹ میری 
جب تجھ پہ کمالات کھلیں گے میرے سجدوں سے سجا دو گے چوکھٹ میری 

پہلی رباعی میں انہوں نے معنوی گہرائی کو جس طر ح سے پیش کیا ہے ایسی مثالیں اردو رباعی میں بہت ہی کمی ملتی ہیں۔ عموما اکثر رباعی گو سادگی کے ساتھ خدا کی تعریف پیش کر دیتے ہیں کوئی بھی اس طر حی کی معنوی دریا میں غوطہ لگانے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس معاملہ میں فرید پربتی بالکل یکتا ہیں۔

اصغر ویلوری جن کا تعلق صوبہ تمل ناڈو کے شہرویلور سے ہے ان کے یہاں حمدیہ رباعیات ان کے مجموعوں میں بکھر ے ہوے ہیں نیز ایک مکمل رباعیو ں کا مجموعہ ”حمدیہ رباعیات“ سے بھی موسوم ہے۔ حمدیہ رباعیوں میں اللہ کی عظمت، اس کی وحدت، اس کی عطا وبخشش، ذات باری کا وجود، اس کا معرفت اور اس کا تاابد قائم رہنا اور اس طر ح کے دیگر حقیقتوں کابیان اور اس کا اعتراف ان کی رباعیوں میں کثرت سے ملتا ہے۔انداز بیان منفر د اور دلکش ہونے کی وجہ سے ان کی رباعیاں حسین اور موثربھی نظر آتی ہیں۔

جلوے تیرے ہر شے میں نظر آتے ہیں ذرے بھی نگاہوں میں چمک جاتے ہیں 
جز تیرے ہمیں کچھ نہیں آتا ہے نظر ہم تیری محبت کے قسم کھاتے ہیں 

پنہاں ہے گل و خار میں قدرت تیری وحدت تری حکمت تری عظمت تری 
دیدار سے قاصر ہیں یہ آنکھیں ورنہ ہر شکل میں موجود ہے صورت تیری 

ان رباعیوں میں صرف اللہ کی عظمت و جلال، اس کے وجود اور اس کی عبادت کا ہی ذکر نہیں بلکہ یہاں اس کی رحمت، نیکی کر نے اور عبدیت کی بھی تلقین ہے۔

ناوک حمزہ پور ی ایک صوفی تعلیم یافتہ گھر انے سے تعلق رکھتے ہیں اگر چہ ان کی تعلیم باظابطہ طور پر کسی خانقاہ یا مدرسہ میں نہیں ہوئی پھر بھی ان کی تربیت والدین نے دینی ماحول میں کی اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کر ایا۔ جب وہ شاعری کی جانب مائل ہوئے تو ان کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ذاتی طوری پر شاعروں کو رباعی گوئی کی جانب تر غیب دی جس سے اَسی کی دہائی میں رباعی کا ایک خوبصورت ماحول پیدا ہوا۔انہوں نے اپنی رباعیوں میں عظمت خداوندی، عشق رسول، اتباع سنت، حب اہل بیت، غم حسین، بزر گان دین سے وابستگی، اخلاق و حکمت، تصوف اور مخالفت شر ک جیسے مذہبی موضوعات کو کثر ت سے اپنا یا ہے۔ان کی رباعیوں کے متعلق گیان چند جین لکھتے ہیں:

”ان کی بیشتر رباعیوں کا تعلق ایمان سے ہے۔ یعنی وہ حالی اور اقبال کا امتزاج ہیں۔ وہ بھولے سے بہی رندی و شہبازی کے طلسمات سراب کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ میرا خیال ہے کہ اس تلقین میں ان کا پایہ بلند ہے اور یہ انہیں زیب دیتا ہے۔“
(رباعی کا آبر و۔ناوک حمزہ پوری، مرتب ڈاکٹر محمد آفتا ب اشرف، ص، ۷۴) 

پھیلا ہے دو عالم میں اجالا تیرا کونین کی ہر شے میں ہے جلوہ تیرا
ہے مختلف النوع ہرایک چیز مگر ہر شئے سے جھلکتا ہے سراپا تیرا 

اگر چہ یہ رباعی فلسفہ تصوف سے وحدۃ الشہود کا حامل ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہو یا وحدۃ الشہود کا دونوں میں خدا کی حمد وثنا ہوتی ہے۔

طہور منصوری نگاہ ؔ کے یہاں حمدیہ ونعتیہ رباعی خصوصی طور پر نہیں پائی جاتی ہیں اور نہ ہی  انہوں نے کسی بھی 
رباعی کوموضوعات کے تحت منقسم کیا ہے  بلکہ تمام رباعیوں کوسودوزیاں، منظر نامہ اور زمینی جمالیات کے عنوان کے تحت ”گلابوں کے چراغ“میں پیش کیا ہے ان کی ایک حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو۔

ہر سانس بہر حال ترے دم سے ہے سنگیت کا سرتال ترے دم سے ہے 
یہ چاند کی رعنائی یہ تاروں کا جمال سورج کا یہ اقبال ترے دم سے ہے 

فراغ روہوی کے یہاں حمدیہ و نعتیہ رباعیاں ایک معتد بہٰ صورت میں نظر آتی ہیں۔ ان کی رباعی کا مجموعہ ”جنو ں خواب“ میں وحدانیت، تو صیف و نعت کی رباعیاں بکھر ی ہوئی نظر آتی ہیں۔چند حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو:

میں خوبیئ اظہار کہاں سے لاؤں میں طاقت گفتار کہاں سے لاؤں 
جس سے ہو تری حمد و ثنا لامحدود لفظوں کا وہ انبار کہاں سے لاؤں 

نظروں سے نہاں رہ کے بھی ظاہر ہے خدا کیا کیا نہ کر شمات میں ماہر ہے خدا
انسان کی شہ رگ کے قریب رہتے ہوئے انسان کے افکار سے باہر ہے خدا

 فراغ اپنی رباعیوں میں خدا کی تعریف اس سادگی کا ساتھ کر تے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں کہ جن الفاظ سے تیری ذات کی تعریف کی جائے۔پھر دوسر ی رباعی میں نحن اقرب من حبل الورید (ہم اس کے شہ رگ سے بھی قریب ہیں)قرآ ن کی اس آیت کو اپنی رباعی میں خدا کی تعریف کے طور پر بیان کر تے ہیں۔کئی دیگر رباعیوں میں نظام عالم کو بیان کر تے ہیں اور ایک لاچاری کے ساتھ خدا سے دعا بھی مانگتے ہیں۔گو یا ان کی حمدیہ رباعی میں حمد کے کئی رنگ نظر آتے ہیں جہاں سادگی کے ساتھ بالکل عام فہم الفاظ میں خدا کی حمد وثنا نظر آتی ہے۔

حافظ کر ناٹکی کا تعلق اسلامیات سے گہر ا ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں اخلاقیات کا عنصر جو ادب اطفال سے شر وع ہوتا ہے وہ رباعی جیسے عشقیہ، خمریہ اور فلسفیانہ مزاج رکھنے والی صنف سخن میں بھی قائم رہتا ہے۔ان کی رباعیوں میں جتنے بھی اصلاحی مضامیں ہو سکتے تھے سب کے سب مذہبی مضامین کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ان کی رباعیوں میں توحید،نعت، عرفان ذات، انسان دو ستی، حسن اخلاق،دینی، فقہی، تبلیغی، روحانی اور سماجی ہر طر ح کے مضامین کو پیش کیا ہے۔ان تمام کے باوجود ان کے یہاں باظابطہ حمدیہ رباعیات کا ایک مجموعہ”رباعیات حافظ حصہ سوم“ ہے جس میں رباعیوں کی تعداد تقریبا ایک پانچ سو ہے۔ 

سب پیڑ قلم بن کے جو ڈھل بھی جائیں 
اور دریا سیاہی میں بد ل بھی جائیں 
تب بھی نہیں تعریف خدا کی ممکن
پتھر سے زبانیں جو نکل بھی جائیں                                                                                                                      
خدا کی حمدوثنامذکورہ بالا رباعی میں اپنے انداز میں نہیں بلکہ خود خدا کے انداز میں کر تے ہیں۔”قل لو کان البحر مداداً لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مدداً“کہ خدا کی تعریف تب بھی ممکن نہیں جب سارے سمند ر کے پانی کو روشنائی اور سارے درختوں کو قلم بنا دیا جائے۔حمدو ثنا کا یہ انداز قرآن میں اچھوتے انداز میں بیان ہوتا ہی ہے۔ شاعر نے بھی اسکو اپنے لفظوں میں اچھوتے انداز میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے خدا کی تعر یف مختلف انداز میں بیان کی ہے اور خصوصا ً وحدانیت ذات باری پر خصوصی توجہ دی ہے۔

عادل حیات کی رباعیوں میں حمدیہ رباعی کی تعداد ان کے رباعیوں کے مجموعے ”شہر رباعی“ میں کئی ہیں اور سب کا انداز جدا گانہ ہے۔ وہ کس رباعی میں خالص خدا کی تعر یف کر تے ہیں تو کسی رباعی میں تعریف کے ساتھ دعا، مدد، استغفار وغیر ہ بھی شامل ہے بلکہ ایک رباعی میں تو خدا سے شکایت بھی ہے کہ کچھ مر دود لوگ زندہ ہیں اور مجھ جیسا آدمی زندہ ہوکر بھی تری دنیا میں مر دگی کی زند گی گزار رہا ہے وغیرہ۔ ان کی ایک حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو۔

ہر پھول کی خوشبو میں بہاروں میں وہی سورج کی چمک چاند ستا روں میں وہی
ہر چیز اسی کی ہے ثنا خواں ہے عادل ہے تیرے کنایوں میں اشاروں میں وہی 

التفات امجد ی وقت حاضر کے نوجوان رباعی گو شاعر ہیں انہوں نے رباعی گوئی میں ان اس معنی کر بھی انفرادیت حاصل ہے کہ انہوں نے کثیر تعداد میں بچو ں کے لیے بھی رباعیاں کہی ہیں۔ موصوف کی تر بیت خانقاہوں میں ہوئی باوجو د اس کے وہ  حمدیہ، نعتیہ اور منقبیتہ رباعیات کے جانب رسما ً ہی جاتے ہیں اور ان مضامین کو اخلاق و اصلاح کے دائر ے میں پیش کر تے نظر آتے ہیں شاید وہ کتاب کے شر وع میں ان رواجی مضامین کو تحریر کر نے سے مفر نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ فرار اس کے رسمی ہونے سے ہوتے ہیں۔حمدو ثنا میں ان کی یہ رباعی ملاحظہ ہو۔

حیران و پریشان کے بس میں ہی نہیں نادان ہے نادان کے بس میں ہی نہیں 
ممکن ہی نہیں اس سے خدا کی توصیف یہ کام تو انسان کے بس میں ہی نہیں 

شاعر کے دنوں مجموعے ”چکنے پات“ اور ”چار محراب“ ایک میں ساقی نامہ اور ایک میں خمر یات کے تحت کئی رباعیاں پیش کی گئی۔جس میں اکثر رباعیوں میں ساقی سے خطاب کیا گیا ہے لیکن یہ ساقی کوئی جانا مانا ایک خاص شکل و صورت والا نہیں ہے  بلکہ کہیں یہ انسانی محبوب ہے تو کہیں مر شد کامل، کہیں مغنی، کہیں سیاست دان، کہیں ساقی کوثر (محمدؐ)اور کہیں رب کائنات۔

الغر ض موجودہ دور میں جہاں رباعی گو شعرا کی تعدا د کثیر مقدار میں ہے وہیں موضوعات میں رباعی نے اپنے تمام قدیم موضوعات پر قائم رہتے ہوئے جدید موضوعات کو بھی تیزی سے اپنا یا ہے۔قدیم زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ جو بھی کتاب لکھنا شرع کر تا، دیوان مر تب کر تا، داستا ن لکھتا، قصید ہ یا مر ثیہ ومثنوی تخلیق کر تا سب کی شروعات حمد سے ہوتی تھی۔ میر ے خیال میں شاید مغربی اصناف خصوصا ناول و افسانہ کے چلن کے بعد یہ صفت تیز ی سے غائب ہوئی لیکن جب موجودہ رباعی گو شعرا کے مجموعوں کا مطالعہ کر تے ہیں تو اب خصوصیت کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اکثر شاعروں کے یہاں شروع کی کئی

 رباعیاں حمدیہ رباعیاں ہوتی ہیں۔ اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حمد جیسا با وقا ر اور پاکیزہ موضوع رباعی میں اب بھی اسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے جیسا کہ پہلے پایا جاتا تھا۔

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...