Saturday 9 February 2019

شبلی خود نوشتوں میں

شبلی خود نوشتوں میں

مصنف : ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی 

آج کے مصروف تر ین دور میں کسی بھی ایک ڈگر پر چلنا بہت ہی مشکل اور صبر آزما امر ہوتا ہے ، لیکن رفتار زمانہ نے تخصصات  کے ٹیگ کو بہت ہی قیمتی بنا دیا ہے اور متخصصین کی اہمیت مسلم سمجھی جاتی ہے ۔اردو میں بہت ہی کم مصنفین ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی قلمی زندگی کو کسی ایک موضوع یا شخصیت کے لیے وقف کر دیا ہو یافی زمانہ کسی کی شخصیت پر کوئی ایک ہی فرد تخصص کے درجہ پر فائز ہو ۔ البتہ یہ دونوں ہی کیفیتیں ڈاکٹر الیاس الاعظمی کے یہاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اب تک مطالعات شبلی پربارہ قیمتی کتابوں سے اردو دنیا کو نوازا ہے اور فی زمانہ شبلیات میں ان کی شناخت اہمیت کی حامل ہے ۔

کسی بھی شاعر ، مصنف ، محقق ، ناقد ، مؤرخ اور کہانی کار کے فن یا شخصیت پر کس کس نوعیت سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے اس کی ایک مثال اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعدسامنے آگئی ۔ اس قسم کا انوکھا کام (تحقیقی و تجزیاتی ) اب تک کسی اور کے سلسلے میں شاید نہیں کیا گیا ہے ۔ہاں تذکرہ نویسی کے مطالعات میں یہ بات نظرآتی ہے۔ اس عہد میں شاعر وں کے متعلق مختلف تذکرہ نویسوں کی مختلف آراء پیش کی ہیںتو بعد کے محققین نے تلاش وتحقیق کے بعد پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ مصنف نے شبلی سے متعلق جو کتاب پیش کی ہے وہ یقینا اپنے موضوع اور وسعت مطالعہ کے اعتبار سے منفرد ہے ۔ اس تعلق سے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں ’’ الیاس الاعظمی نے ایک بالکل نیا موضوع دریافت کیا ہے …یہ موضوع کچھ ایسا غیر متعین سا ہے کہ اس کا نہ کوئی نقطۂ آغاز ہے اور نہ نقطۂ انجام‘‘۔ ایسے مطالعوں کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ مصنف ہمعصر علماء ، متعلقین و منتسبین سے واقف ہو نے کے ساتھ ساتھ ان کی خودنوشتوں پر بھی گہری نظر رکھتا ہو، جیسے اگر شبلی سے متعلق کوئی رطب یابس بات لکھی گئی ہو تو دیگر متعلقین کی تحریروں سے اس سے متعلق  تحریروں کا سراغ لگانا اور لکھی گئی بات کے سیاق و سباق کا بھی علم ہونا چاہیے ورنہ بے بنیادواقعات والزامات پر گفتگو کر نا صاحب کتاب کے لیے مشکل ہوجائے گا ۔

مصنف نے اس کتاب کے لیے تلاش و جستجو اور اپنی بھر پور کو شش کے بعد چوبیس ایسی خود نوشتوں کو تلاش کیا جن میں شبلی کا ذکر کسی نہ کسی طور ضرور ہے ۔ صا حب خود نوشت یاتو شبلی کے محسن و قدر شناس ہیں یا معاصر و رفیق ،شاگرد و متاثر یا پھر ان کے علمی وادبی خوشہ چیں ۔ اس کتاب میں شامل پہلی خود نوشت نواب سلطان جہاں بیگم کی ’’ اختر اقبال ‘‘ میں شبلی سے متعلق تین مسلسل تحریریں ہیں جو سیرت النبی کی تصنیف و تالیف اور طباعت و اشاعت سے متعلق ہیں ۔میر ولایت حسین کی ’’ آپ بیتی ‘‘ میں شبلی کے علی گڑھ کے زمانہ کا ذکر ہے ۔ مصنف الیاس الاعظمی نے اس میں ایک اہم بات یہ بھی لکھی ہے کہ ’’ علامہ شبلی ہندوستان کے کسی کالج کے پہلے پروفیسر تھے جنہوں نے تعلیمی جائزے کے لیے بیرونِ ملک سفر کیا ‘‘۔ مولانا عبدالرزاق کانپوری کے ’’ یاد ایام ‘ ‘ میں شبلی سے متعلق تعریف و تنقیص کی باتیں ہیں جن کا تجزیہ مصنف نے بہت ہی خوش اسلوبی سے کیا ہے ساتھ ہی ایک آدھ مقام پر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ’’ یاد ایا م ‘‘ کی ان باتوں کو ذکر کر دینا چاہیے تا کہ تجسس ختم ہوجائے اور قاری ’’ یاد ایام ‘‘ کے فراق میں نہ رہے ۔نواب سید محمد علی حسن خاں کے ’’ تذکرہ ٔ طاہر‘‘ میں شبلی سے متعلق ذاتی و ملی معاملات کا ذکر ہے ۔سید ہمایوں مرزا کی ’’ میری کہانی میری زبانی ‘‘ میں شبلی کے حیدرآباد قیام کے دوران علمی سر گرمیوں کا ذکر ہے ۔ شیخ محمد عبداللہ عرف پاپا میا ں کے ’’ مشاہدات وتاثرات ‘‘ میں شبلی کے متعلق علمی عقید ت و تاثر ات  کے ساتھ مشاہدات و معاملات کا ذکر بھی ہے ۔خواجہ حسن نظامی کے ساتھ شبلی کے جو تعلقات رہے ان کا ذکر ان کی ’’آپ بیتی ‘‘ میں صرف ایک مقام پر ہے لیکن مصنف نے خواجہ صاحب اور شبلی کے تعلقات کو دیگر مصنفین کی تحریروں سے اجاگر کیا ہے اور ان کے تعلقات میں جوہمدردی اوربے تکلفی تھی ان کا ذکر کیا ہے۔ شبلی کے چنند ہ شاگر دوں میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر ہیں ،ان کی ’’میر ی زندگی ‘‘ میں بھی شبلی کا ذکر ایک استاد اور علم وادب کے سمندر کی حیثیت سے ہے جس سے اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ شبلی علی گڑھ کی شان تھے ۔سر رضا علی علی گڑ ھ کے نامور فرزند وں میں سے تھے انہوں نے اپنی خود نوشت ’’ اعمال نامہ ‘‘ میں شبلی کو بطور ناقد کے پیش کیا ہے ۔مولانا ابوالکلا م آزاد نے ’’ تذکر ہ‘‘ اور ’’ آزاد کی کہانی خود ان کی زبانی ‘‘ میں بھی شبلی کا بھر پورذکر کیا ہے جو تقریباً تعلیم وتعلم اور علمی مسائل پر مبنی ہیں ۔ان تمام کے بعد ملا واحدی، مولانا عبد الباری ندوی، مو لانا ضیاء الحسن علوی ، مولانا عبدالماجد دریابادی، رشید احمد صدیقی ، مرزا احسان احمد ، ظفر احسن بیگ ، مولانا سعیداحمد اکبرآبادی ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا مجیب اللہ ندوی، حافظ نذر احمد ، پروفیسر ریاض الرحمن شروانی اور مولانا اعجاز احمد اعظمی کی خود نوشتوں میں بھی شبلی کا ذکر ہے ۔مذکورہ اشخاص کی علمی و ادبی شخصیت کو نکھارنے میں شبلی کی تصنیفات نے جس تحریک یا ٹانک کا کام کیا ہے ان تمام کا ذکر عقید ت مندانہ انداز میں ہے ۔ الغرض اس کتاب میں شامل خود نوشت معاصر کے ہیں، شاگر دوں کے ہیں اور علمی سیرابی حاصل کر نے والوں کے بھی ۔ موجودہ عہد میں بھی کوئی نہ کوئی شخصیت ہوگی جس کی تعمیر میں شبلی کی کتابوں نے نمایاں رول ادا کیا ہو اور اس کا ذکر وہ اپنی خود اپنی نوشت میں کردیں اس سلسلے کا اختتام کہاں ہوگا وہ نامعلوم ہے ۔

الغر ض یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں شبلی سے متعلق بہت کچھ ہے اور دوسروں کے لیے رہنمائی بھی ۔ یہ کتاب جب ایک عمدہ نمونہ کے طور پر سامنے آچکی ہے تو امید ہے کہ دیگر اساطین ِعلم و ادب پر بھی ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں گی جس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ خود نوشتوں کا مطالعہ بڑھ جائے گا اوردوسرا یہ کہکسی بھی شخصیت کی ذات اور خدمات کے احاطہ کے لیے نئے دریچے کھلیں گے ۔

امیر حمزہ

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...