Tuesday 5 March 2019

اردو زبان میں امالہ

اردو زبان میں امالہ  

کسی بھی زبان کا وجود اچانک کسی عظیم خطۂ ارض سے نہیں ہوتا بلکہ تمام زبانوں کے وجود میں آنے کا تعلق کسی نہ کسی مخصوص خطۂ ارض سے ہوتا ہے ۔ جس علاقہ سے کوئی زبان جنم لیتی ہے اس سے پہلے وہاں کوئی نہ کوئی زبان ضرور بولی جاتی رہی ہے ۔ جنم لینے والی زبان طاقتور بن کر پھیلتی جاتی ہے اور دوسرے خطوں وعلاقوں کو اپنے قبضہ میں لیتی چلی جاتی ہے ۔جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ لہجے تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔زبان ایک ہی ہوتی ہے ، جملے بھی ایک ہی ہوتے ہیں ، لیکن صوتی آہنگ میں تبدیلیاں آتی چلی جاتی ہیں ۔صوتی آہنگ میں تبدیلیوں کی واضح مثال امالہ کی صورت میںنظرآتا ہے۔
امالہ طب میں کسی مادہ کو عضوعلیل سے دوسرے عضو کی جانب پھیردینے کو کہتے ہیں۔ 
لسانیا ت میں فتحہ و ضمہ کو کسرہ کی جانب مائل کر نا اور الف کویائے مجہول کی جانب مائل کر نے کو کہتے ہیٗ ۔ 
اردو اصطلاح میں امالہ لفظ کے اخیر کے ہائے خفی یا الف کو حر ف ربط آنے کی صورت میں یا ئے مجہول سے بدل دینے کو کہتے ہیں ۔
عربی میں فتحہ کا معنی ہے کہ الف اپنے مخرج سے نکلے اور اس میں ’ی‘ اور ’و‘ دونوں کے آواز کی مشابہت نہ ہو ۔ اور امالہ کا مطلب یہ کہ الف ’ی‘ کی ، فتحہ کسر ہ کی اور ضمہ بھی کسر ہ کی آواز کو جذب کر لے ۔ ابن باذش نے اپنی کتاب ’اقناع‘ میں لکھا ہے تر جمہ :امالہ کے معنی یہ ہیں کہ فتحہ کو کسرہ کی جانب خفیف طور پر مائل کیا جائے گویا وہ فتحہ اور کسرہ کے مابین ہو ، اسی وجہ سے الف کو یا کی جانب مائل کیا جاتا ہے ۔
فارسی میں لغت نامہ دہخدا لکھتا ہے  ۱؍میل دادن فتحہ بسوئے کسرہ (جرجانی ) ۲؍میل دادن فتحہ بسوئے کسرہ والف بسوئے یاست (ابن عقیل) ۳؍میل دادن صوت (آ) الف بہ (ی) یا( در قدیم یائے مجہول و اکنوں یائے معروف (فرہنگ فارسی معین ) مانند: نہاب نہیب ، خضاب خضیب وغیرہ ۔
امالہ زبان کا وہ جزو ہے یا اسلوب کا وہ واحد پہچان ہے جس سے ایک لہجہ کو دوسرے لہجے سے الگ کیا جا سکتا ہے ۔اسی وجہ سے قرآن مجید کے لہجوں کو سبعۃ احر ف سے تعبیر کیاگیا ہے ۔جب ہم ان تمام’ سبعۃ احرف‘ کی تفصیل کے لیے تفاسیر اور تجوید کی کتابوں کی جانب رخ کر تے ہیں تو ہمیں نتیجہ کے طور پر امالہ بھی ملتا ہے کیونکہ ایک قرات کو دوسری قرات سے ممتاز کر نے میں امالہ کا وافر حصہ ہے ۔ حفص کی روایت جس پرحجاز اور ہندوستا ن بھی عمل کرتا ہے اس میں امالہ نہیں بلکہ فتحہ کی قرات پائی جاتی ہے سوائے ایک مقام کے ۔بر خلاف حجاز کے دوسرے قبیلہ تمیم ، اسد ،طی اور قیس کے جن کے لہجے میں امالہ پایا جاتا ہے اور وہ ہے الف کو یا کی جانب اور فتحہ کو کسرہ کی جانب مائل کر نا ۔
زبان میں روانی اور سلاست کے لیے کئی قسم کی تبدیلیاں زبان میں ہوتی رہتی ہیں ،جس کا اطلاق کبھی رسما ً ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا ہے ، عربی زبان میں امالہ کا وجود کثر ت سے ہے جہاں اس کو قواعد کے دائرے میں لاتے ہوئے نحو و تجوید کے اماموں نے بخوبی حل کر لیا ہے ۔ فارسی زبان میں ایران میں امالہ کا وجود رہاہے لیکن ایرانی فارسی میں یا ئے مجہول کے ختم ہونے سے امالہ تحریر سے بھی ناپید ہوگیا اور فارسی میں امالہ اردو میں امالہ کے مزاج سے یکسر مختلف ہے ۔فارسی میں اکثر درمیان لفظ میں امالہ آیا ہے جیسے کتاب سے کتیب ، رکاب سے رکیب ، خضاب سے خضیب ،نہاب سے نہیب وغیرہ ۔فارسی میں یہ صرف تکلم و تر سم میںہی نہیں بلکہ قافیہ میں بھی آیا ہے ۔لیکن موجودہ دور کے اردو کی طر ح ہر مقام پر نظر نہیں آتا ہے بلکہ اتنا کم ہے کہ اس کو شاذسے اوپر کا درجہ دیا جا سکتا ہے ۔
اردو میں شروع سے یہ کیفیت بہت ہی شاذ نظر آئی ہے ۔ عہد زریں کے شاعر وں کے یہاں خال خال نظر آتا ہے اکثر مقام پر قائم صورت میں حر ف ممال نظرآتا ہے ۔ ابھی تک ارد ومیں امالہ والے لفظ کو بھی قائم صورت میں لکھنے والے زیادہ ہیں نہ کہ محرّف صورت میں۔
صاحب نوراللغات ، مولوی عبدالحق ، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، ڈاکٹر غلام مصطفی خاں ، مولوی غلام رسول ، مولانا احسن مارہروی ، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، ڈاکٹر محمد شمس الدین اور رشید حسن خاں کے امالہ پر زور دینے کے باوجود لکھنے میں امالہ کا التزام اردو والے بہت ہی کم کررہے ہیں ۔آخر کیا وجہ ہے؟کیا امالہ کے قواعد صحیح سے مر تب نہیں ہو پائے اب تک یا قواعد کو صحیح سے سمجھا ہی نہیں گیا ۔ما قبل میں ذکر کر دہ اصول کے بعد اب اردو میںاس سے متعلق کیا اصول قلم بند کیے گئے ہیں اس پر نظر ڈالتے ہیں ۔
(۱) مولوی عبدالحق قواعد اردو میں لکھتے ہیں ، جن الفاظ کے آخر (میں ) ’الف ‘یا’ ہ‘ ہو تی ہے وہ ان حر وف (کا ، کے ، کی ، نے ، پر وغیرہ ) آنے سے یائے مجہول سے بدل جاتے ہیں جیسے لڑکے نے کہا ۔(قواعد اردو ، ص ۵۰)
اس قاعدہ میں کمزور پہلو یہ ہے کہ اس میں مطلقا ً الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے اسماء و افعال کی قید نہیں لگائی گئی ہے جب کہ کئی مقامات پر ان قاعدوں پر عمل کے باوجود امالہ پر عمل نہیں ہوپاتا ہے ۔جیسے سَتارہ شہر کا نا م ہے اسم ہے وہاں امالہ نہیں ہوگا اور کھایا فعل ہے اور اخیر میں الف بھی ہے پر امالہ نہیں ہوسکتا ۔
(۲) مولانا احسن مارہروی فصیح الملک میں لکھتے ہیں جس لفظ کے آخر میں ’ہ‘ آئے اسے فاعلیت مفعولیت اور اضافت کی حالت میں ’ے‘ سے لکھاجائے جیسے کسی زمانے میں ۔ اسی طر ح حالت ترکیبی یعنی اضافت و عطف میں بھی عربی و فارسی الفاظ اسی طر ح لکھے جائیں گے جس طرح بولے جاتے ہیں مثلا لب و لہجے میں، مقدمے وبازی میں وغیرہ ۔(بحوالہ علمی نقوش ، ڈاکٹر غلام مصطفی خان ، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی ، ص ۱۰۔۹)
یہاں بھی لفظ عام ہے جبکہ امالہ میں کسی بھی صورت میں عمومیت نہیں ہے اورالف والے الفاظ پر انہوں نے گفتگو نہیں کی ہے ۔
(۳) رشید حسن خان اردو املا میں لکھتے ہیں ۔
’’ ہائے مختفی سے پہلے حر ف پر عموماً زبر ہوتا ہے ، جیسے کہ کعبہ ، پر دہ، پیمانہ ، زمزمہ، واقعہ وغیرہ ۔ جب یہ حر وف محروف ہوں گے تو لازمی طورپر ہائے مختفی ہائے مجہول سے بدل جائے گی اور اس سے پہلے والے حر ف کا زبر زیر سے بدل جائے گاجیسے کعبے میں ، پردے پر ، عرصے سے ، وقفے میں‘‘۔ (اردو املا ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، ص ۳۰۸)
 قاعدہ میں رشید حسن خان صرف ہائے مختفی کا ذکر رہے ہیں اور الف کا ذکر بھی نہیں کر رہے ہیں جبکہ امالہ کے تعلق سے دونوں میں یکسا ں قاعدہ نافذ ہوتا ہے ۔
(۴) فرمان فتح پوری املا کے اصول میں امالہ سے متعلق لکھتے ہیں ۔
’’جن واحد مذکر لفظوں کے اخیر میں ’ ہ ‘ یا ’ الف ‘ ہو ان کی جمع یائے تحتانی لگانے سے بن سکتی ہے اور ان کے فوراً بعد حر ف عاملہ (مغیرہ ) یعنی ، تک ، سے ، کو ، کے ، کی ، میں ، پر ، نے وغیرہ میں کوئی بھی حرف آئے تو اردو املا میں اس لفظ کو یائے تحتانی سے بدل دیا جائے گا جیسے ان جملوں میں اس لڑکے کو بلاؤ، بیٹے نے باپ سے کہا وغیرہ ‘‘۔(اردو املا اور رسم الخط اصول و مسائل ، حلقہ نیاز و نگار کراچی ۱۹۹۴ ، ص ۳۲۔۳۱)
اس قاعدہ میں واضح طور پر یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ جن لفظوں کی جمع یائے تحتانی لگانے سے بن سکتی ہے اسی میں امالہ آئے گا باقی لفظوں میں نہیں آئے گا لڑکے کو بلاؤ، بیٹے نے باپ سے کہا وغیرہ لیکن آگرہ اور کلکتہ کی جمع تو نہیں آتی ہے پھر ان میں امالہ کیوں ہوتا ہے ؟۔
امالہ کے معنی جیسا کہ جھکانا اور مائل کر نے کے ہیں ۔ اس اعتبار سے سب سے پہلا سوال ذہن میں یہ آتا ہے کہ کیا امالہ کے لیے کسی حر ف کا استعمال ضروری ہے جیسا کہ فارسی میں درمیان لفظ میں یائے مجہول کی ادائیگی کے لیے ’ی‘ کا استعال ہوا ہے اور اردو میں حرف ممال کے آخر میں یا ئے مجہول کا استعمال ہوتا ہے ۔یہاں یہ بات واضح ہوجانی چا ہیے کہ قدیم فارسی میں جو امالہ کی صورت رائج تھی وہ اب جدید فارسی میں ختم ہوگئی ہے کیو نکہ بطور حرف یائے مجہول جدید فارسی سے ختم ہوگیا ہے لیکن فارسی بول چال میں اب بھی امالہ اتنا رچا بسا ہے کہ’ آنہا‘ کو اونہا‘ اور ’جامہ ‘ جیسے لفظ کا تلفظ جامے کیا جاتا ہے ،لیکن حر ف امالہ کا استعمال کہیں نہیں ہوتا ہے ۔یہ تو اردو اور فارسی کا معاملہ ہے جہاں امالہ بہت ہی کمزور ہے اور اس کے تعلق سے اب تک جامع ومانع قواعد مرتب نہیں کیے گئے ہیں ۔لیکن جہاں امالہ بہت ہی مضبوط ہے یعنی عر بی میں وہاں پر ہمیں امالہ کے لیے کسی بھی حر ف کا استعمال نظر نہیں آتا ہے ۔
اردو میں امالہ پر املا والوں نے اس سختی سے زور دیا ہے کہ امالہ کی تعریف سے مائل کر نا کو زائل کر کے نصب کر نا کر دیا گیا ہے ۔ یعنی زبر کو کسرہ کی جانب مائل کر نااور الف کو یا کی جانب مائل کرنا ختم کر کے اب سارا زور اس بات پرصر ف کیا ہے کہ زبر اور الف کو یائے مجہول سے بدل دیا جائے ۔اس کے بعد آہستہ آہستہ اب یہ کیفیت پیدا ہوگئی ہے کہ جہاں بھی یائے مجہول نظر آتی ہے اس کو امالہ کا ہی سمجھ لیا جاتا ہے ۔ جبکہ یہ سراسر بے راہ روی ہے۔ یائے مجہول کا استعمال اردو میں سب سے زیادہ جمع بنا نے کے لیے آیا ہے جیسے لڑکا لڑکے ، پیسہ پیسے ، شکوہ شکوے ، گلہ گلے وغیرہ ۔یائے مجہول کا استعمال اعدادلفظی میں وصفی کے طور پر آیا ہے ۔جیسے پہلا پہلے پہلی، دوسرا دوسرے دسری، چھٹا چھٹے چھٹی وغیرہ ۔ان تمام کو ڈاکٹر عبدا لستارصدیقی نے امالہ میں ذکر کیا ہے ، اگر ہم چھٹے کو امالہ میں شمار کرتے ہیں تو پھر ساتویں کو کیا کہیں گے ؟۔لہذا ان تمام میں یائے مجہول کا استعمال عدد وصفی کو بیان کر نے کے لیے کیا گیا ہے ۔اسی طر یقے سے بعض سے مشتق بعضے کو بھی ہم امالہ میں شمار نہیں کر سکتے کیوں کہ یہاں پر یائے مجہول کو نکر ہ کے معنی پیدا کرنے کے لیے لا یا گیا ہے ۔ کیونکہ بعض سے وہ مفہوم ادا نہیں ہوسکتا جو بعضے سے ادا ہورہا ہے۔ اسی طریقہ سے قدرے میں یائے مجہول کا استعمال تناسب کو بیان کرنے کے لیے کیا گیا ہے ، جیسے قدرے کم ، قدرے زیادہ وغیرہ ۔یائے مجہول کا استعمال جمع کے بجائے اظہار عظمت کے لیے بھی کر تے ہیں جیسے آتے ہیں، کھاتے ہیں وغیرہ۔ افعال میں یائے مجہول کا استعمال کثر ت سے معانی کو بیان کر نے کے لیے آیا ہے۔ معانی کو بیان کر نے کے لیے اس لیے آتا ہے کیونکہ امالہ کے استعمال سے کبھی بھی کسی بھی لفظ میں کوئی بھی نیا معنی نہیں پیدا ہوسکتا ہے ۔ اگر اس کے اضافہ سے کوئی نیا معنی پیدا ہو رہا ہے تو وہ پھر صرف اور نحو کے دائرے میں آجائے گا اور امالہ کا تعلق علم الضبط سے ہے نہ کہ علم الصرف والنحو سے ۔ جب علم الضبط کا ذکر آگیا ہے تو اس کی تعر یف بھی عرض کر تا چلوں۔ حافظ محمدراسخ علم الضبط کی اصطلاحی تعریف اپنی کتاب ’علم الضبط ‘ میں ان الفاظ سے کر تے ہیں ’’ علم الضبط سے مراد وہ علم ہے جس کے ذریعہ حرف کو لاحق ہونے والی علامات حرکت سکون ،تشدید اور مد وغیرہ کی پہچان ہوتی ہے ۔اس کتاب کی آٹھویں فصل میں وہ اختلاس ، اشمام اور امالہ کو بیان کر تے ہیں در اصل یہ تینوں چیزیں ایک ہی نوعیت کی ہیں ، تینوں میں بین بین کا عنصر ہے وہ اس طور پر کہ اختلاس میں حرکت کی ادائیگی جلدی ہو تی ہے یازیا دہ سے زیادہ دو تہائی حر کت کو ظاہر کر نا ہوتا ہے ، اشما م میں ضمہ اور کسرہ سے مر کب حر کت کی ادائیگی کر نا گو یا وہ اس طور پر ہو کہ نہ مکمل اسے زیر میں شامل کر سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل پیش میں یہ صورت ’ق‘ میں اکثر نظر آتی ہے بشرطیکہ اس کے بعد یائے ساکن ہو جیسے اردو میں قیمہ جہاں پیش اور زیر کا ملا جلا اثر نظر آتا ہے اور خواہش میں پیش اور زبر کا ملا جلا عکس نظر آتا ہے ۔امالہ میں بھی یہ بین بین نظر آتا ہے کیونکہ امالہ میں فتحہ کو کسرہ اور الف کو یا کی طرف مائل کر کے پڑھنا ہوتا ہے۔پھر خیال اس کا آتا ہے کہ ان مواقع پر کو ن سی علامت لگائی جائے ۔توایک بڑی جماعت ان تینوں میں علامت نہ لگانے کی قائل ہے کیونکہ یہ امور اساتذہ سے مشافہۃ ً سیکھے جاتے ہیں خط یعنی حر کات و سکنات سے نہیں ۔اسکو اما م ابوداؤد اختیار کرتے ہیں ۔کچھ لوگ اس میں حرکت و علامت لگانے کے قائل ہیں اور وہ اس طور پرکہ حر کت حرف ممال پر بشکل مربع خالی الاوسط لگایا جائے اور حر کت بھی اسی صورت میں لگائیں گے جب حر ف وصل اور وقف دونوں صورتوں میں امالہ کو قبول کر رہا ہو ورنہ نہیں ۔اس مذہب کو امام دانی نے اختیار کیا تھا اور وقت وضع اسی پر عمل ہوتا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ علامت ختم ہوتی گئی ۔ان باتوں سے بہت ساری باتیں نکل کرسامنے آرہی ہیں ۔ایک یہ کہ حر ف کااور نہ ہی حرکت کا استعمال ہوسکتاہے کیونکہ یہ چیزیں مشافہۃً سکھنے کی ہیں ۔دوسرا یہ کہ ہم ایک علامت کا استعمال اس کے لیے کر سکتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب وہ لفظ مکمل طور پر امالہ کو قبول کر تا ہو یعنی اگر ہم اس لفظ پر ہی رک جاتے ہیں تب بھی اور نہیں رکتے ہیں تب بھی اس لفظ کے تلفظ کی ادائیگی میں فر ق نہیں آتا ہو ۔ اس طور پر تو اردو کا کوئی بھی لفظ اس دائرہ میں نہیں آئے گا کیونکہ اردو میں امالہ صر ف وصل کی صورت میں ہوتا ہے وقف کی صورت میں ایک بھی لفظ ایسا نہیں ہے جس میں امالہ ہوتا ہے ۔
ماقبل میں جتنے امالہ کے قواعد و قوانین بیان کیے گئے ہیں اگر ان تمام پر عمل کر بھی لیا جائے تو اتنے مستثنیات ہیںکہ اردو کا نو آموز طالب علم یا محض اردو جاننے والا فارسی و عر بی سے نابلد پر یشان ہوجا ئیگا کہ امالہ کی ضرورت کہاں پڑے گی اور کہاں نہیں ۔(مندرجہ ذہل مستثنیات میں سے کچھ استفادہ خلیق الزمان کے مضمون ’’امالہ ‘‘ مشمولہ فکر و تحقیق شمارہ نمبر ۴، جلد نمبر ۱۷سے کیا گیا ہے اور ان پر گفتگو بھی کی گئی ہے )۔
(۱) عربی و فارسی کے وہ الفاظ جن میں الف اصلی ہو امالہ قبول نہیں کرتا جیسے دعا ، دغا ، وفا اور قضا وغیرہ ۔
(۲) عربی الفاظ کے جمع میںامالہ نہیں ہوگا ، جیسے انبیا، اتقیا، اولیا ، اصفیا، اور طلبہ وغیرہ ۔
(۳) الف مقصورہ والے لفظوں میں امالہ نہیں ہوسکتا ، جیسے صغری، کبری، عظمی ، حتی وغیرہ ۔
(۴) عربی کے وہ الفاظ جو اردو میں بہت ہی زیادہ مستعمل ہیں اور اپنے اخیر میں الف بھی رکھتے ہیں لیکن پھر بھی اردو والے اس کو امالہ کے ضمن میںنہیں لاتے ہیں جیسے منشا، انتہا، ابتدا، انخلا وغیرہ 
(۵) القابات و خطابات امالہ قبول نہیں کرتے ، خلیفہ ، آقا ، آغا ، مولانا ، ملا ، پیشوا وغیرہ خلیق الزماں نے اسی مثال میں رقاصہ کوبھی شامل کیا ہے ۔ لیکن رقاصہ میں امالہ کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔اور اس کو ہم القابات و خطابات میں بھی شمار نہیں کر سکتے جیسا کہ موصوف نے شمار کیا ہے ۔ رقاصہ کی طر ح مغنیہ میں بھی امالہ کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔
(۶) نام میں امالہ نہیں ہوسکتا جیسے رضیہ ، سلطانہ ، فرزانہ ، رشیدہ وغیرہ 
(۷) اعداد لفظی میں امالہ نہیں کر سکتے جیسے گیارہ سے اٹھارہ تک ۔ان اعداد میں امالہ نہیں ہونے کی واضح دلیل یہ ہے کہ ان تمام میں جو ’ہ‘ استعمال ہوا ہے وہ ہائے ملفوظ ہے نہ کہ ہائے خفی ۔
(۸) اسمائے تصغیرمیں بھی امالہ نہیں ہوتا جیسے کھٹیا ، چدریا ، لوٹیا وغیرہ ۔
(۹) جو لفظ مفر د صورت میں امالہ کو قبول کر تا ہے اگر وہی لفظ مر کب صورت میں مستعمل ہورہا ہے تو اس سے امالہ ساقط ہوجاتا ہے جیسے کعبہ کے بعد اگر حرف ربط آرہا ہے تو امالہ ہوتا ہے لیکن اگر مر کب صورت میں اسطر ح استعمال کیا جائے جیسے غلاف کعبہ کے اوپر ، تو یہاں کعبہ میں امالہ نہیں ہوگا ۔اسی طریقہ سے شمع و پر وانہ ، مجنوں و دیوانہ وغیرہ ۔
(۱۰) فارسی کے اردو میں استعمال اسم فاعل ، مفعول اور اسمائے صفات میں امالہ نہیں کیا جاسکتا جیسے آئندہ ، تابندہ ، رخشندہ ، گزشتہ اور پیوستہ وغیرہ۔ لیکن اگر یہی تمام کسی مقام کے نام کی صورت اختیار کر لیں تو پھر امالہ اسمیں آئے گا ، جیسے تابندہ(تابندے) سے لوٹ رہا تھا وغیرہ ۔
(۱۱) ایسے توصیفی الفاظ جن کے اخیر میں الف ، نون اور ہائے خفی (آنہ ) کا اضافہ ہوتا ہے ، ان میں امالہ نہیں ہوتا ہے جیسے عاشقانہ ، جاہلانہ، استادانہ، وغیرہ لیکن جن میں یہ لاحقہ نہ ہو بلکہ عین جزو لفظ ہو ان میں امالہ ہوتا ہے جیسے دیوانہ ، پروانہ اور جرمانہ وغیرہ ۔ اگر اسی وزن پر شبانہ بمعنی رات کے آئے تو امالہ ہوتا ہے ۔ اسی اصول پر او پر کی مثال سے لفظ محنتانہ اور بچکانہ بغاوت کر رہا ہے اس میں لاحقہ ہے ،توصیفی ہے اور امالہ بھی ہورہا ہے ۔
(۱۲) عربی کے وہ الفاظ جن کا آخر ی حر ف عین ہوتا ہے جیسے مصر ع، مقطع ، مطلع وغیرہ اس قسم کے الفاظ میں بحر لکھنوی ، عشرت لکھنوی اور نیر کاکوری یائے مجہول کے اضافہ سے امالہ کے قائل نہیں ہیں بلکہ وہ سب عین کو کسرہ دینا کافی سمجھتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک امر ثقیل ہے کیوں کہ اردو میں آخر ی حرف کو حر کت دینا اور حرکت کا تلفظ کر نا بہت مشکل امر ہوتا ہے ۔اور نہ ہی یہ اردو کی خاصیت ہے ۔ ان کے بر خلاف ڈاکٹر عبدا لستا ر صدیقی ’ع‘ کے بعدامالہ کے لیے یائے مجہول کے اضافہ کو بہتر سمجھتے ہیں ۔ مولوی عبد الحق بھی اسی اضافہ کے قائل ہیں ۔رشید حسن خان ان لفظوں کے متعلق لکھتے ہیں ’’ برقع ، مجمع، مصرع ، مطلع ، مطبع ، مقطع ، موقع ....ان سب لفظوں کو جمع کی صورت میں اور محرف صو رت میں ’ے‘ کے اضافہ کے ساتھ لکھنا چاہیے جیسے برقعے میں مطبعے کا نام‘‘۔ مقتدرہ قومی زبان بھی ان صورتوں میں اسی اصول کو روا رکھتی ہے۔ میری نظر میں ان تمام مقامات پر جہاں اخیر میں ع آتا ہے قدیم تحریروں  میں عین کے بعد ہائے خفی کا بھی اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے اس لیے شاید ہائے خفی کو دیکھتے ہوے ان تما م میں امالہ کے لیے ’ے ‘ کا اضافہ کیا گیا نیز جمع کے لیے بھی ۔ جس کا استعمال بہت کم نظر آتا ہے ۔جہاں بھی آ جاتا ہے وہاں زبان پر بہت مشکل سے رواں ہوتا ہے ۔ جیسے قصبے کے وزن پر ضلعے ، موقعے اور برقعے وغیرہ ۔یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان تمام لفظوں میں ’ے ‘ کا اضافہ بہت ہی گراں گزرتا ہے اس لیے اس کا استعمال نہیں ہوگا ، اور نہ ہی امالہ میں ’ے‘ کا تلفظ اس شدت سے کیا جاتا ہے جس کے لیے ا س کو لازمی قرار دیا جائے ۔ ایک چیز جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان تمام میں عین سے پہلے والے حر ف کا امالہ کرتے ہیں اور اس کے فتحہ کو کسرہ کی جانب مائل کرتے ہیں ۔جیسے بر قَع میں برقِع ، مقطَع میں مقطِع وغیرہ اس لیے یہ مناسب ہوگا کہ امالہ کے لیے کسی بھی حر ف کا اضافہ روا نہ رکھا جائے ۔ البتہ اگر جمع یائے مجہول سے مستعمل ہے تو شوق سے جمع کے لیے اس کا استعمال کیا جائے ۔ لیکن امالہ میں احتیاط برتا جائے۔ اسی طر یقہ سے ان الفاظ کے امالہ میں بھی جن کے اخیر میں ہائے خفی ہو اس میں بھی ہائے خفی سے پہلے والے حرف کے فتحہ کو کسرہ کی جانب مائل کرنے سے ہم حقیق طور پر امالہ کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔ جیسا کہ امالہ کی تعریف میں بھی یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے ۔اسی کو صاحب نواللغات نے اس طر ح در ج کیا ہے ’’ وہ الفاظ جن کے اخیر میں عین ہوتاہے حر ف ربط آنے سے بجائے (ے) کہ حر ف ماقبل عین کو کسرہ دے کر بولے جاتے ہیں جیسے مصرِ ع میں سکتہ ہے ، مطبِع پر آفت آگئی ، مقطِع پر کیا منحصرہے ‘‘ ۔(نوراللغات جلد اول ، ص ۳۵۷)
صاحب نوراللغات نے مطلقا کسر ہ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ حالا نکہ اس کو مجہول کسر ہ پر محمول کیا جاسکتا ہے اور مائل بہ کسرہ قرار دیا جا سکتاہے۔اسی طر یقے سے ہائے خفی والے الفاظ میں بھی ہم امالہ میں’ ہ‘ سے پہلے والے حر ف کے فتخہ کو کسر ہ کی جانب مائل کر کے بولتے ہیں نہ کہ اس کے بعد یائے مجہول کے اضافہ کے ساتھ تلفظ کرتے ہیں ۔ڈاکٹر ابو محمد سحر اپنی کتاب’ اردو املا اور اس کی اصلاح ‘ میں اسی مسئلہ کی کچھ اس انداز میں وضاحت کر تے ہوئے نظر آتے ہیں ’’ جن الفاظ کے آخر میں عین ہے ان کے امالے کے مستخسن قاعدے کی روشنی میں اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کر نا چاہیے کہ جن الفاظ کے آخر میں ہائے مختفی ہے ان کا املا بھی محر ف صورت میں ’یے‘ سے’ یہ‘ بدلا جائے بلکہ تلفظ میں حر ف ماقبل پر زیر قیاس کیا جائے اور ضرورت ہو تو حر ف ماقبل پر زیر لگا دیا جائے مثلا ً کعبِِہ میں ، قبلِہ کو ، غازِہ سے ، خامِہ نے ، یا یہ مصرعے:’ یوں نقل ہے خامِہ کی زبانی ‘ ،’کر یں گے کوہکن کے حوصلِہ کا امتحاں آخر‘ ،’زندگی قطر ِہ کی سکھلاتی ہے اسرار حیات ‘‘۔وہ تمام قواعد جن کا ذکر مضمون کے شروع میں کیا گیا ہے ان مصرعوں پر صد فیصد موجود ہے لیکن امالہ کہیں بھی مذکور نہیںہے ۔ 
الغرض امالہ کا تعلق لہجہ سے ہے نہ کہ قواعد سے اور لہجہ ہر علاقہ میں مختلف ہوتا ہے ، کہیں ایک ہی لفظ میں ایک مقام پرامالہ مستعمل ہے تو کہیں دوسرے مقام پر اس سے پر ہیز کیا جاتا ہے جیسے دادا  اور  تا یا میں عموما ً امالہ نہیں کر تے ہیں لیکن شاہجہاں پور اور مغربی انڈیا میں اب ان میں بھی امالہ نظر آتا ہے ، اسی طر ح سے کوئی لفظ کسی عہد میں امالہ کے دائرے میں نہیں آتاہے اور بعد کے زمانہ میں آجاتا ہے جیسے دربھنگہ اور پٹنہ کا امالہ اب تک نہیں نظر آیا خیر علَم میں نہیں آتا ہے لیکن اب کچھ تحر یروںمیں قاعدہ کلیہ بنا کر اس میں بھی امالہ کیا جا رہا ہے خواہ سماعت کو بہتر محسوس ہو یا مکر وہ لگے ۔
یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ املا لہجوں کے تابع نہیں ہوتا املا ہمیشہ حر ف اصلی اور حر ف زائد کے تابع ہوتا ہے ۔(حر ف اصلی وہ ہے جس سے مشتق تمام لفظوں میں وہ حر وف موجود ہوں،حر ف زائد وہ ہے جس کے لگا نے سے اور ہٹانے سے معنی میں تبدیلی واقع ہوجائے )

Friday 1 March 2019

ذوق کی قصیدہ نگاری



 ذوق کی قصیدہ نگاری 

امیر حمزہ 

ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی 

دلی جیسا ثقافتی و ادبی شہرجو عالم میں انتخاب تھا نادر شا ہی حملہ کے بعد اجڑ جاتا ہے ۔شعر وادب کی محفلیں اٹھ جاتی ہیں ۔ میر و سودا جیسے عدیم المثال شاعر اپنے فن کی بقا ء کے لیے لکھنؤکوچ کر چکے ہوتے ہیں ۔ اسی تباہی کے دور میں اجڑی اور لٹی پٹی ہوئی دلی میں شیخ محمد رمضان کے یہاں ایک ایسا چاند طلوع ہوتا ہے جو اپنے وقت میں آسمان سخن پر عید کی چاند کی طر ح چمکتا ہے ۔جن کی استادی اور شاعری کی چمک کچھ ایسی ہوتی ہے کہ انیسویں صدی کے شروع میں مو من و غالب کے ساتھ آفتا ب و ماہتا ب بن کر آسمان شاعر ی میں متمکن ہوجاتے ہیں ۔یہ اردو ادب کی اٹل تاریخ ہے کہ سلطنت مغلیہ کی ٹمٹاتی ہوئی چرا غ میں یہ تینوں شاعر ی کے روشن چرا غ تھے۔ اس میں بھی دربار میں شاعری کا چرا غ سب سے زیادہ ذوق روشن کیے ہوئے تھے ۔ جسے سلطنت پسند کرے اور سلطان استادی کا شرف بخشے پھر کیا تصور اورکیا حقیقت کہ شاعری کے بازار میں کسی اور کی قیمت زیادہ ہو اور کوئی دوسرا شاعرشاگر د وں کا سلسلہ طویل کر سکے ۔کیا یہ سب ساری چیزیں صرف اس وجہ سے تھیں کہ وہ خاقانیِ ہند کے لقب سے ملقب تھے ؟یا بادشاہ کے استاد تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ! بلکہ وہ اس عہدکے رواج ، مزاج ، مر وجہ وعلوم و فنون اور مقبول و پسندیدہ اصطلات ِ زبان و بیان کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کر نے میں استادانہ مہارت رکھتے تھے ۔لیکن اردو ادب کا یہ ستم اس کے ہر طالب علم پر رہا ہے کہ انیس کا مطالعہ دبیر سے موازنہ کیے بغیر اور ذوق کا مطالعہ سودا سے تقابل کیے بغیر نہیں ہوسکتا ۔جب بھی ذوق کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو قصیدہ میں سودا کو سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور غزل میں غالب و مومن کو۔ لیکن کبھی بھی اس پہلو پر نظر نہیں ڈالی گئی کہ ذوق کی شاعری کے مطالعہ کے لیے ذوق کے زمانے کی دہلی فضا کے ساتھ ذوق کے آس پاس کے ماحول کا بھی مطالعہ کیا جائے ۔ ذوق کی ذات و شخصیت کے گہرے مطالعے کے ساتھ منسلکینِ ذوق پر بھی نظر رکھی جائے ۔بچپن کی شوخی اور لڑ کپن تو ان کے قریب بھی نہیں پہنچا، یہی وجہ تھی کہ وہ عہدمراحق سے ہی خداتر سی اور زہد و ورع کی جانب مائل ہوگئے تھے ۔ اگر چہ ان کی طبیعت میں بذلہ سنجی اور ظرافت بھی تھی تا ہم کسی بھی گفتگو میں استادی پن کا حکم نا مہ یا انانیت نظر نہیں آتی ہے ۔ شام کو عصر کے وقت شاید مجلس کی برخاستگی کے بعد مسلسل ایک لوٹے سے کلّیا ں کیا کر تے تھے ، اس متعلق مولانا محمد حسین آزاد کے سوال کے جواب میں کہتے کہ نہ جانے کیا کیا ہزلیات زبان سے نکلتے ہیں۔ یہی عمل رات کی عبادت سے پہلے کا بھی ہوتا تھا ۔ان کے اندر عاجزی، انکساری اور سادگی کا دخل اس قدر تھا کہ خیا ل آتے ہی پڑوسی کے بیمار بیل کے لیے دعا بھی کر تے ہیں ۔ تو ان تمام کے ساتھ مناسب ہوتا ہے کہ ذوق کی شاعری کا مطالعہ ان کی ذاتی زندگی کے تناظر میں بھی کیا جائے کیونکہ یہ اکثر ہوتا ہے کہ تخلیق کار اپنی زندگی کا عکس اپنی تحریر میں کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتا ہے ۔

ذوق کی پیدا ئش ۱۲۰۳ھ بمطابق ۱۷۸۸ء میں ہوتی ہے ۔تقریباً ۱۹؍ بر س کی عمر میں دربار ولی عہدی میں باریابی کا شر ف حاصل ہو تا ہے اور یہ بات بھی نا قابل انکار تک مشہور ہے کہ ذوق کو ۱۹؍ برس کی عمر میں خاقانی ہند کا خطاب مذکورہ قصیدہ پر ملتا ہے۔

جبکہ سر طان و اسد مہر کا ٹھہر ا مسکن 

آب و ایلولہ ہوئے نشوونمائے گلشن

 یہ بات سوالات کے دائرے میں ضرور آتا ہے کہ جس برس وہ دربار ولی عہدی سے منسلک ہورہے ہیں اسی سال انہیں اعلی ترین خطاب سے نوازا بھی جارہا ہے ۔ ساہتیہ اکادمی سے شائع شدہ تنویر احمد علوی صاحب کی کتاب ’’ ذوق دہلوی ‘‘( مونو گراف) میں اس قضیہ کی جانب اشارہ ہے کہ تذکر ۂ ’’عیار الشعراء‘‘، ’’تذکرۂ صدر الدین ‘‘اور’’ تذکرہ ٔ سرور‘‘ میں اس خطاب کی جانب کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے بلکہ’’ تذکرۂ گلشن بے خار‘‘ ۱۲۴۸ھ میں اس خطاب کا پہلی بار ذکر ملتا ہے ۔اس سے یہی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ تیرہویں صدی ہجر ی کے چوتھے عشرے میں ہی انہیں یہ خطاب ملا ہو اور اس وقت ان کی عمر چالیس بر س کے آس پاس رہی ہوگی ۔۶؍اکتوبر ۱۸۳۷ء کو اکبر شاہ ثانی کاانتقال ہوتاہے اور ۷؍ جنور ی ۱۸۳۸ ء کو بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی ہوتی ہے اسی موقع پر ذوق اپنا یہ مشہور قصیدہ :

روکش ترے رخ سے ہوکیا نور سحر رنگ شفق  ہے ذرّہ تیرا پر توِ نو ر سحر رنگِ شفق 

لکھتے ہیں جس پر انہیں ملک الشعرا ء کا خطاب ملتا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں قلی قطب شاہ سے لے کر محسن کاکوروی و جمیل مظہری تک قصیدہ نگار شعرا کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ جب کہ غزل گو شعرا لا تعداد ہیں۔ اردو کے عہد زریں میں میرؔ جیسا شاعر اپنی غزلوں کی وجہ سے خدائے سخن کے درجے پر فائز ہوتا ہے وہیں سوداؔ جیسا قصیدہ نگار قادر الکلامی میں میرؔ سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ باوجود اس کے وہ قصیدہ کے بے تاج بادشاہ کہلاتے ہیں۔ کچھ یہی صورت حال عہد غالبؔ میں بھی غالبؔ و مومنؔ اور ذوق ؔکے درمیان نظرآتی ہے۔ فی زمانہ غالبؔ غزل کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں اور ذوق ؔ قصیدہ کے۔ غالبؔ و مومنؔ غزل کے میدان میں اپنے پیش رو کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے ہیںلیکن ذوقؔ اپنے پیش رو سودا ؔ کے ساتھ صنف قصیدہ میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اردوادب کی تاریخ میںجس طرح سے میرؔ و غالبؔ کو غزل سے ، انیسؔ و دبیرؔ کو مرثیہ سے اور میرحسن ؔو دیا شنکر نسیمؔ کو مثنوی سے جدا نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سے ذوقؔ وسوداؔ کو قصیدے سے جدا کرنا ناممکن ہے۔

 قصیدہ میں تشبیب کی وہی اہمیت ہوتی ہے جو غزل میں حاصل غزل کی ہوتی ہے۔ جس طریقے سے یہ بات زبان زد ہے کہ بادشاہوں کا کلام ، کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے، قصیدہ اپنے اندر بھی وہی خصوصیت رکھتا ہے کہ بادشاہوں کے سامنے پیش ہونے والا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہو۔ اسی لئے شاعر اپنی تخلیقیت کی ساری قوت قصیدہ کے پہلے جز تشبیب میں لگا دیتا ہے۔ اگر تشبیب بہاریہ ہے تو اس میںلفظوں کے انتخاب میں وہ ہنر مندی برتی جاتی ہے کہ موسم کے تطابق سے ایسی مسحور کن فضا قائم کرے کہ قاری یا سامع سنتے ہی متوجہ ہو جائے۔ ذوقؔ نے بھی تشبیب میں اپنی اس ہنر مندی کو پیش کیا ہے۔ ایک قصیدے کی تشبیب سے ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:

واہ وا کیا معتد ل ہے باغ عالم میں ہوا  مثل ِ نبضِ صاحبِ صحت ہے ہر موج

بھر تی ہے کیا کیا مسیحائی کا دم باد بہار بن گیا گلزار عالم رشک صد دارالشفا

ہے گلوں کے حق میں شبنم مر ہم زخم جگر شاخ بشکستہ کو ہے باراں کا قطرہ مومیا

ہوگیا موقوف یہ سودا کا بالکل احتراق  لالہ بے داغ سیہ پانے لگا نشو و نما

ہوگیا زائل مزاج دہر سے یاں تک جنوں بیدمجنوں کا بھی صحرا میں نہیں باقی پتا

ہوتا ہے لطف ہوا سے اس قدر پیدا لہو بر گ میں ہر نخل کی سرخی ہے جوں بر گ حنا

کیا عجب جدوار کی تاثیر گر رکھے زقوم کیا عجب گر آب حنظل دیوے شربت کا مزا

نسخے پر لکھنے نہیں پاتا ’ہوالشافی ‘ طبیب کہتا ہے بیمار ’ بس کر مجھ کو بالکل ہے شفا‘

پہلے شعر میں باغ عالم کی ترکیب سے پوری دنیا کی فضا کو ہموار کر دیتے ہیں اور جو ہوا چل رہی ہے اس ہوا کی خوبصورتی کچھ اس انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے صحت مند انسان کی نبض چلتی ہو۔ شاعر کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے تخیل میں کتنی وسعت رکھتا ہے۔ ایک غیر محدود وسیع و بسیط دنیا کی صورت حال ایک محدود جسم سے پیش کرتا ہے۔ بادشاہ کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگتی ہے کہ میرے آنے سے اس پوری دنیا کا نظام اس طریقے سے درست ہو جاتا ہے جیسا کہ آخری شعر میں طبیب نسخے پر ’ ہوالشافی ‘ لکھ نہیں پاتا ہے کہ مریض اپنی مکمل شفا یابی کی خبر دیتا ہے ۔ اس میں کوئی بعید نہیں ہے کہ بادشاہ کی تاج پوشی سے پہلے اور بعد کی صورت حال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ 

دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ اس بہار میں ہوا ایسی چل رہی ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا ایسی بن گئی ہے جس پر سیکڑوں دار الشفاء بھی رشک کرنے لگے اور اب شبنم کا اثر گلوں پر کچھ ایسا ہے جیسے زخم جگر پر مرہم کا۔ اور ٹوٹی ہوئی شاخ میں بارش کا قطرہ مومیا کی تاثیر لئے ہوئے ہے۔ بعدکے اشعار میں شفا کے بعد کی جو صورت حال ہے اس کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے دہر کے مزاج سے جنوں بھی زائل ہو گیا اور اس کی مناسبت سے کہتے ہیں کہ صحرا میں اب بید مجنوں کا بھی ذکر نہیں۔ بید تو خود ہی ایک پتلی سی چھڑی ہوتی ہے اور بید مجنوں نرم اور پتلی سی گھاس ہوتی ہے۔ مجنوں بھی جنوں کے عالم میں بھوکا پیاسا رہتے رہتے پتلا دبلا ہو جاتا ہے اور صحرا کی جانب نکل پڑتا ہے اور بید مجنوں بھی صحرا میں ہی پایا جاتا ہے۔اس مناسبت سے صحرا کا استعمال مجنوں کے ساتھ جس خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے وہ محسوس کر نے کی چیز ہے ۔ اس کے بعد کے بہاریہ اشعار میں ذوقؔ نے مضمون میں کمال کی ندرت پیدا کی ہے۔ ماحول سازی اور فضا بندی بھی خوبصورتی کے ساتھ کی گئی ہے کہ طبیب نسخے پر ہوا لشافی لکھتا ہی ہے کہ بیمار کہتا ہے کہ شفا مل چکی۔ یعنی اب دوا لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ غلو ہے لیکن ذوقؔ نے اپنی فنکاری سے غزل کا فطری پن اور حقیقی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیش کر دہ اشعار اگرچہ تشبیب کا حصہ ہیںلیکن مدح کا ناگزیر جز تصور کیا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔اسی طریقے سے برسات کے خوبصورت موسم کا ذکر ذیل کے قصیدہ میں ہوا ہے ۔

ساون میں دیا پھر مہ ِشوال دکھائی  بر سات میں عید آئی ، قدح کش کی بن آئی

ذوق اپنے عہد کے تمام مر و جہ علوم و فنون سے باخبر تھے یہی وجہ ہے ان کے قصیدوں میں علم ِ ہیئت و نجوم ، منطق و فلسفہ ،فقہ و تفسیر ،تصوف و سلوک ، تاریخ و واقعات او ر موسیقی و طب وغیرہ کی اصطلا حات کثرت سے ملتی ہیں ۔جیسا کہ اوپر لکھے گئے قصیدے کی تشبیب میں بھی مکمل طب کی فضا نظر آتی ہے ۔کسی بھی اصطلاح سے کما حقہ واقف ہونا اور اس کواپنے کلام قدر ت سے شاعر ی میں پیش کر تے ہوئے معانی میں دوبالگی پیدا کر کے شعر ی حسن عطا کر نا بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے، پھر منطق و فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو اشعار کے بہاؤ میں پیش کرنا اور بھی مشکل امر ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک ذوق کے قصائد کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے علمی اصطلاحات کو استعمال کر کے شعر یت اور شعری حسن دونوں کو قائم رکھا ہے ۔صرف دو شعر علم ہئیت اور منطق کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں ۔

ہواہے مدرسہ یہ بزم ِ گاہ عیش و نشاط  کہ’ شمس بازغہ‘ کی جگہ پڑھے ہیں ’بدر ِ منیر ‘

اگر پیالہ ہے صغر یٰ تو ہے سبو کبریٰ نتیجہ یہ ہے کہ سر مست ہیں صغیر و کبیر 

مدر سہ جوعموماً کبھی بھی عیش و نشاط کی بزم گاہ نہیں بنی ، بننا تو دور کی بات ہے بلکہ نصابات میں بھی وہ بہت ہی خشک واقع ہوئی ہے ۔ وہاں تو حکمت جیسے خشک موضوع کے لیے بھی ’’ شمس بازغہ ‘‘ جیسی مغلق کتاب پڑھائی جاتی تھی لیکن اب تو وہ بھی ’بدر منیر ‘ کے پڑھنے پڑھا نے سے سرا پا بزم گاہ عیش و نشاط بن گیا ہے ۔شمس بازغہ مدار س میں داخل ایک نصابی کتاب تھی جو فلسفہ یونان کے دفاع میں پڑھائی جاتی تھی۔ ہندوستان میں اپنے فن پر یہ آخری کتاب تھی اس سے پہلے’ صدرا ‘ اور ’ میبذی ‘ شامل نصاب ہوا کر تی تھی ۔ (میبذی بعض مدارس میں اب بھی ہے ) گویا انہوں نے اس کتاب کاذکر محض یونہی نہیں کر دیا بلکہ ایک کی خشکی اور مغلق پن کے ساتھ دوسرے کی رنگینی اور حسن کلام کا بھی تقابل ہے ۔دوسرے شعر میں پیالہ اور سبو کی مناسبت سے علم منطق کی اصطلاح سے قضیہ کو بہت ہی خوبصورتی سے استعما ل کیا گیا ہے ۔ وہ اس طرح کہ صغریٰ اور کبریٰ منطق کے دو قضیے ہوتے ہیں ۔ جیسے قضیہ صغریٰ ’ سمندر کا پانی ہے ‘ اور قضیہ کبریٰ ’ پانی گرم ہے ‘ ان دو نوں میں جو ایک مشتر ک چیز ہے وہ ’ پانی ‘ ہے اسے حد اوسط کہتے ہیں اور یہ نتیجہ میں ساقط ہو جاتا ہے توگو یا نتیجہ ہوا ’ سمندر گر م ہے ‘ ۔ اب شعر پر نظر ڈالتے ہیں تو باد ی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے پیالہ کو صغریٰ اور سبو کو کبر یٰ کہا ہے ، ظاہری طور پر پیالہ چھوٹا  برتن ہوتا ہے اور سبو بڑا بر تن ۔ اس لیے پیا لہ کو چھوٹا اور سبو کو بڑا کہا ہے ۔ لیکن منطق کی اصطلاح میں ’ پیالہ ہے صغریٰ ‘ قضیہ صغریٰ ہوا اور ’ سبو ہے کبریٰ ‘ قضیہ کبر یٰ ہوا ۔ پیا لہ اور سبو دونوں ظر ف ہیں اس لیے اس کو حداوسط سمجھ لیا جائے ۔دوسرے مصرع میں حد اوسط گر ا کر کے نتیجہ جو نکالتے ہیں اس سے بادشاہ بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ جس کے حصہ میں جو بھی آیا خواہ صغیر ہو یا کبیر سب کے سب آپ کے کر م سے مست ہیں ۔ الغرض اس قصیدے میں کئی ایسے اشعار ہیں جن پر خود قصیدہ کو فخر ہے ۔

اس بات کا ذکر ہوچکا کہ ’کلام الملو ک ملوک الکلام ‘ لیکن اگر کلام انسانی کی بات کی جائے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ قصیدہ بھی ملوک الکلام ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ قصائد کو ہی ’ سبعہ معلقہ ‘ ہو نے کا شر ف حاصل ہوا ہے ۔اگر ملوک الکلام ( قصیدہ ) کے ساتھ ملوک الارض والسماء ( اللہ ) کا کلام بھی نگینوں کی طرح جڑ کر خوبصورتی کے ساتھ دعا کے حصے میں پیش کیا جائے تو پھر کیسے کوئی اپنے خزانے کو روک سکتا ہے : 

مصحف رخ ترا اے سایہ رب العزت  کھول دے معنی اتممت علیکم نعمت 

ذوق کے قصائد کے متعلق ناقدین کی رائے دو خانوں میں ہے ۔ ایک جنہوں نے ذوق کو اچھا قصیدہ گو شاعر ما نا ہے۔ وہ برج موہن دتاتر یہ کیفی، تنویر احمد علوی، انوار الحسن اور ابو محمد سحر ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے ذوق کے متعلق معمولی قصیدہ نگار کی رائے قائم کی ہے ان میں امداد امام اثر ، محمود الہی ، کلیم الدین احمد اور پر وفیسر عبدا لحق ہیں ۔ امداد اما م اثر لکھتے ہیں: ’’ مر زا رفیع سودا کے بعد قصیدہ گوئی میں شیخ ابراہیم ذوق کا ہی نمبر ہے ۔ مگر ان دونوں شاعران نامی میں پہاڑ اور ٹیلے کا فر ق ہے ۔ذوق میں ایک ربع بھی سودا کی طبیعت داری نہیں ‘‘ ۔ ابو محمد سحر لکھتے ہیں ’’ علمیت اور معنی آفرینی میں ذوق کے قصائد خاص امتیاز رکھتے ہیں ۔ علمیت کی کار فرمائی ان کے قصائد میں سودا سے زیادہ ہے ‘‘ ۔ یہ دونوں طر ف کی باتیں ہوگئیں ۔آپ نے تو علمیت کی کار فرمائی میں ذوق کے قصائد کے اشعار تو ملاحظہ کر لیے اب سودا کے اشعار سے بھی حظ اٹھائیں ۔

جبیں ایسی کہ جگر کا ماہ ہوجاوے داغ  اس کی تشبیہ سے جب ا س کو تجاوز دے فلک 

قتل کرنے کا یہ جوہر نہ ہو شمشیر کے بیچ  اس کے ابر و سے مشابہ نہ بناویں جب تک

سو داؔ 

تشبیب کے ان اشعار میں سودا نے جن شاعرانہ صناعی ، مبالغہ، رعایتوں ، مناسبتوں اور لفظی انسلاکات کو برتا ہے وہ ذوق کے یہاں نہیں ہے تا ہم تقلید بھی نہیں : 

نگاہ ساغر ، کش ِ تما شا،بیاضِ گر دن صراحی آسا وہ گول بازو، وہ گورے ساعد ، وہ پنجہ رنگیں بخونِ مرجان

کمر نزاکت سے لچکی جائے کہ ہے نزاکت کا بار اٹھا ئے  اور اس پر سو نور لہر کھائے پھر اس پہ ہیں دو قمر فروزاں 

فر ق آپ کو واضح نظر آئے گا ان میں مزید کلام کی ضرورت نہیں ہے ۔ بات صرف تشبیب تک ہی رہی تا ہم اپنے اس مضمون کو کو ثر مظہر ی کے ان الفاظ سے ختم کر تا ہوں ’’ ضر ورت اس بات کی ہے کہ ذوق کے قصائد کو غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ دیکھا ، پڑھا اور پرکھا جائے ورنہ وہی بات کہی اور دہرائی جاتی رہے گی کہ قصیدہ میں سودا بڑا اور غزل میں غالب ، قصہ تمام ۔ ادب کی قرات اور تفہیم کا یہ رویہ سراسر معاندانہ لگتا ہے ‘‘ ( شیخ محمد ابرا ہیم ذوق ، کوثر مظہر ی ، ص ۶۰ ) 

ِAmir Hamzah 

L 11, Second Floor, Haji colony

Jamia Nagar, New Delhi .110025

8877550086

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...