Thursday 28 November 2019

شمالی ہند میں اردو کی تر ویج وتر سیل کے امکانات


شمالی ہند میں اردو کی تر ویج وتر سیل کے امکانات


تر ویج باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنی رواج دینے کے ہوتے ہیں اور تر سیل بھی اسی باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے معنی پہنچانے کے ہوتے ہیں ۔ معانی مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا اطلاق الگ الگ ہوتا ہے ، البتہ اکثر مقامات پر تر سیل تر ویج کے بعدردعمل کے طور پر نظر آتا ہے۔ ترویج جہاں اپنے معانی میں بسیط ہے وہیں تر سیل اپنے معنی میں یک گونہ محیط نظر آتا ہے ۔کسی چیز کو رواج دینا حکومت ، جماعت اور تنظیموں سے لیکر ایک فرد کی جانب سے بھی نظر آتا ہے ، اور اس کے دائرے میں نامعلوم افراد ہوتے ہیں ۔ رواج دینے والے جماعت کو اس چیز کا علم نہیں ہوتا ہے کہ ہمارے اس مشن سے کون کو ن لوگ جڑ رہے ہیں اور ہمارا یہ پیغام کہاں کہاں تک پہنچ رہا ہے ۔مثلا حکومت کا صرف یہ اسٹیٹمنٹ کہ اردو زبان اس ملک کی بالکل جدید تر ین زبان ہے اور رابطہ کی زبان کے طور پر اسے ہم خوب استعمال کر سکتے ہیں ۔حکومت کا یہ اسٹیٹمنٹ محض ترویج کے دائرہ میں آئے گا ۔اب وہ اس کی تر سیل کے طور پر اسکو لوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی تقرری اور کور س کے نفاذ کے لیے لائحہ عمل تیار کرے گا یہ تر سیل کے عمل کی جانب پہلا قدم ہوگا ، جب کلاس روم میں طلبہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اردو زبان سیکھیں گے تو یہ ترسیل ہوگا ۔ترسیل کا تعلق مر سل سے مر سل الہیم تک ہوتا ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ مر سل کلاس روم کا استاد ہی ہو۔ مر سل کے طور پر ہر وہ شخص یا ہر وہ چیز آجائے گی جس سے وہ اردو سیکھ رہا ہے ۔ اور تر ویج میں ہر وہ چیز آجائے گی جس سے وہ اردو کی جانب مائل ہورہا ہے ۔
عہد سر سید سے ہی اردو کچھ سیاسی اور مذہبی منافرت کی وجہ سے نشتر بن کر چبھنے لگا تھا اور وہ سلسلہ اب تک جاری ہے جس کا مرثیہ تقریبا ہم ہر محفل میں پڑھتے ہیں ۔لیکن اردو نے کبھی پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا البتہ کہیں ٹھہری ضرور ہے جیسے آزادی کے وقت اور ستر کی دہائی میں لیکن پھر بھی وہ اپنا قدم شوق والو ں کے ساتھ جاری رکھی اور اب تک جاری ہے ۔
موجودہ زمانے میں زبان کی ترویج و تر سیل کے بنیادی مراکزتعلیمی ادارے ، سر کاری دفاتر ، تجارتی مراکز، صحافت ، کارپورریٹ سیکٹر اور ان سب سے بالا تر سوشل میڈیا ہے ۔
زبان کے پھلنے اور پھولنے کی سب سے بڑ ی جگہ تعلیمی مراکز ہوتے ہیں شمالی ہندمیں اردو میڈیم کے تعلیمی مراکز ہزاروں کی تعداد میں ہیں جہاں سے موجودہ وقت میں لاکھوں اردو لکھنے اور پڑھنے والے تیار ہو رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں یونیورسٹی تک پہنچ کر اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہے ہیں جس سے اردو کا گمشدہ ماحول کچھ حد تک بحال ہوا ہے ۔ اس متعلق سب سے پہلے ہم دارالحکومت دہلی کا تجزیہ پیش کر تے ہیں ۔

دہلی

دہلی میں مسلم اکثریتی علاقہ صرف اور صر ف تین ہیں اور ان ہی علاقوں میں اردو میڈیم اسکولیں ہیں جن کی تعداد بہت ہی کم ہے البتہ ٹوٹل1024 اسکولوں میں سے صرف 256 اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے ۔ یہ وہ اسکول ہیں جو دلی ڈائرکٹوریٹ سے وابستہ ہیں ۔ لیکن اس کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میںایسے بھی پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکو ل ہیں جہاں مستقل اردو کی تعلیم ضمنی طور پر دی جاتی ہے ۔اس طر یقہ سے ہزاورں بچے ہیں جو سندی طور پر اردو پڑھتے ہیں ۔

دہلی میں اردو کے اتنے کثیر مواقع ہیں کہ مختلف الصفات حامل اردوداں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اس پیش نظر وہاں اردو کی جانب رغبت دیگر علاقائی زبانوں سے زیادہ نظر آتی ہے ۔اس کا اثر خاص طور سے ہمیں jnu اور DU میں نظر آتا ہے ۔جامعہ میں اس وجہ سے نہیں کہ وہاں اردو لازم ہے ۔ 

صرف دہلی یونی ور سٹی میں تقریبا ایک ہزرا طلبہ شعبہ اردو سے منسلک ہیں ۔200 ریسر چ میں ،120 ماسٹر میں 60 پی جی ڈپلوما میں ، اور 600 سے زائد بچے ڈپلومہ میں ہیں ۔یہ تعدا د چار سار پہلے صر ف اور صر ف 400 تک تھی ۔ا ن کے علاوہ دہلی یو نی ورسٹی سے منسلک 80 کا لج میں اردو کی تعلیم کی کیا صورت حال ہے وہ بالکل اس سے الگ ہے ۔ڈپلو ما میں جو طلبہ آتے ہیں اس میں نوے فیصد غیر مسلم طلبہ ہوتے ہیں جو بہت ہی شوق سے اردو سیکھنے کے لیے آتے ہیں ۔

اس ڈپلومہ سے بظاہر ان کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کو ایک سر ٹیفکیٹ مل جاتاہے اور مہنگے مواصلاتی نظام میں ان کو بہت ہی زیادہ رخصت مل جاتی ہے جو اک اعتبار سے وہ اس کورس سے اچھا خاصہ پیسے کی بچت کر لیتے ہیں ۔دہلی میں جو بھی فردکالج سوسائٹی کو تر ک نہیں کر نا چاہتا ہے اس کے اند ر یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ خود کو کسی نہ کسی کورس سے ہمیشہ وابستہ رکھتا ہے ۔ اس صورت میں جہاں تمام زبانوں کو فائدہ حاصل ہوتا ہے وہیں اردو سب سے مر غوب ہونے کی وجہ سے اپنے پر وں کو زیادہ پھیلا لیتا ہے ۔

اعلی تعلیمی درجات میں زبانوں کی تر ویج کے لیے دہلی یونی ورسٹی نے ایک انوکھی پالیسی بنائی جو اردو کے لیے بہت ہی زیادہ سود مند ثابت ہورہی ہے ۔ وہ اس طور پر کہ پہلے یوں ہو تا تھا کہ ایم اے کی سطح پر عر بی یا فارسی میں سے کوئی ایک مضمون اردو والے اختیار کر تے تھے ۔دیگر ڈپارٹمنٹ کا تو علم نہیں ۔ لیکن اب یہ ہوا کہ آرٹس فیکلٹی میں جتنے بھی کو رسس ہیں وہ بلا کسی شر ط کے انہیں کسی دوسرے شعبہ سے وابستہ ہو ناہے جہاں آپ کو اپنے مضمون کے علاوہ کوئی دوسرا مضمو ن پڑھنا ہوگا اس سے اردو کو یہ فائدہ ہو ا کہ ہندی ، انگریزی ، سنسکرت ، بدھسٹ ، پنجابی، فرنچ اور اسپینش کے بچے اردو کی جانب بخوبی راغب ہوے ۔اور اردو اپنے روایتی حلقہ سے غیر روایتی حلقوں میں پڑھی جانے لگی ۔تر ویج کچھ بھی ہو البتہ تر سیل عمل میں آگئی ۔جامعہ میں یوں ہوا کہ جن بچو ں کا 10th یا +2 میں اردو نہیں تھا ان کے لیے ابتدائی اردو لازم کر دی گئی وہ پہلے دو سال کا ہوتا تھا اب صر ف ایک ہی سال کا محدود کر دیا گیا اور پہلے کی طر ح اصل مضمون کے ساتھ اس کا نمبر بھی نہیں جڑتا ہے۔ جے این یو میں یہی صورت حال گر یجویشن کی سطح پر پائی جاتی ہے جہاں غیر روایتی بچے اردو سیکھنے کے لیے ایک معتد بہ تعداد میں نظر آتے ہیں ۔پھر یہی بچے سر ٹیفکیٹ اور ڈپلومہ کر کے اپنی صلاحیت میں اضافہ کر تے ہیں او ر یہ ا ن کے لیے سو ہان روح اس وقت ثابت ہوتا ہے جب وہ جر نلز م کی جانب قدم بڑھاتے ہیں تو اس میں ان کے لیے معاون اور مدد گار ہوتا ہے ۔

دہلی میں ایف ایم ریڈیو سننے کا کلچر بہت ہی عام ہے ، اور اس کی عام زبان بہار و یوپی کی طر ح ہندی متاثر زبان نہیں ہے بلکہ اردو کا سلیس استعمال ہے اور کوئی بھی ایسا ریڈیو جاکی نہیں ہوگا جو شاعری سے اپنے پرو گرا م کو خوبصورت نہیں بنا تا ہوگا ۔کیونکہ غائب سامعین کو خود کی جانب متوجہ کر نا میٹھی زبان اور شاعری سے ہی ہوتی ہے ۔ نوجوانوںکو اردو ماحول کی جانب راغب کر نے میں اردو ریڈیوکا خا صہ کر دار ہے ۔کوئی بھی ریڈیو اسٹیشن نہیں ہے جو خالص اردو میں کوئی نہ کوئی اپنا پروگرام نہ پیش کر تا ہو گا ، سر کار ی کے علاوہ پروائیویٹ اسٹیشنوں میں ریڈیو مر چی کا خصوصی ذکر کر نا مناسب ہوگا کیوں کہ انہوں نے اپنے خصوصی پروگر ام میں منٹو کو اہم مقام دیا اور ”ایک پرانی کہانی سعادت حسن منٹو“ کی سریز پیش کی جس کی ایک کہانی کو ہندی ٹی وی جرنلزم کے جانے مانے جرنلسٹ رویش کمار نے بھی پیش کیا تھا ۔ ایف ایم ریڈیو میں اردو شاعری کو اچھے انداز میں بارہا پیش کرنے کا سہرا آرجے سائمہ کے سر جاتا ہے انہوں نے ہی منٹو کی کہانیوں کو اپنی آواز میں پیش کیا جس کا اثر یہ نظر آیا کہ گذشتہ بک فیر میں چیتن بھگت اپنی جگہ پر لیکن سب زیادہ جن کی کہانیوں کی مانگ تھی وہ منٹو کی کہانیا ں تھیں ۔

گزشتہ تین برسو ں میں دہلی میں بڑے بڑے اردو کے میلے لگے جن میں سب سے نمایا ں جشن ریختہ ہے ۔ جشن ریختہ کی جو تھیم رہی ہے وہ یہ رہی کہ انہوں نے اردو سے منسلک آرٹسٹوں کو نمایاں جگہ دیا اور وہ یو تھ کے لیے سب سے زیا دہ جاذب رہا ۔۵۱۰۲ میں جب ضیاءمحی الدین جیسے بڑے ادا کار تشریف لائے تھے اس میلہ میں ۰۸ فیصد غیر روایتی اردو سے محبت رکھنے والے طبقہ کو دیکھ کر دل کو یہ احسا س ہوا کہ ذوق شوق کسی طور پر بھی غیر روایتی اردو داں طبقہ میں ارد و سے محبت کے تئیں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔بس ضر ورت ہے تو اس کے تر ویج کی، جو اس وقت نظر آئی اور یہ تر ویج کا بہت بڑا پلیٹ فار م ہے۔ پھر اس طر ز کے کئی پروگرام ہوئے جس میں سے ایک جشن ادب ہے جو سال میں دو مرتبہ ہوتا ہے یہ آج کل جامعہ ہمدرد میں منعقد ہوتا ہے اور ساہتیہ آج تک بھی ہے جس میں اردو کو بھی ایک گوشہ ملا اور اردو کے فن کار اس میں شر یک ہوئے اور وہاں سے اردو کی تر ویج غیر اردو دا طبقہ میں نظر آئی ۔

اتر پردیش 

سرکاری اعداو شمار کے مطابق اتر پردیش کی اردو آبادی تقریبا دو کروڑ پر مشتمل ہے اور اردوپر ستم ظریفی یہ ہے کہ اتر پردیش میں ہائی اسکول کا امتحان اردو سے شاید ہی آزادی کے بعد کسی نے نہیں دیا ہو۔ البتہ جو نئیر ہائی اسکو ل کا امتحان دینے کا انتظام موجو تھا مگر اردو میڈیم سے جونیئر ہائی اسکو ل کے امتحانات دینے والوں کی تعداد تقریبا صفر رہی ہے ۔ گویا حکومتی سطح پر وہاں اردو سے امتحان دینے کی طر ف کوئی بھی توجہ نہیں ہے۔ یہاں پر ایک اقتباس اطہر فاروقی کا نقل کر نا مناسب ہوگا ” در اصل جسے اردو ذریعہ تعلیم کہا جاتاہے ، اتر پر دیش کے عام اردو داں حضر ات تو دور خود اساتذہ کے ذہن میں اس کا انتہائی مجہول تصور ہے ، جو اسکول اردو کے ذریعہ جونیئر اسکو ل کا امتحان دلا تے تھے وہ ہندی کی نصابی کتب ہی کے ذریعہ ہی در س دیتے تھے اور اردو کی تعلیم آج بھی صرف ایک اختیاری مضمون کی ہے ۔ اتر پردیش میں نہ تو اردو ذریعہ تعلیم کی کتب موجود ہیں اور نہ ہی اردو کے ذریعہ دیگر مضامین کا در س دینے کی صلاحیت رکھنے والے اساتذہ “ ۔ یہ ہوئی ان کی بات ۔ تو کیا اردو معدوم ہوگئی اتر پردیش میں ۔ ہاں یہ یقینی بات ہے کہ اردو میڈیم اسکول وہاں نہیں ہیں ۔ لیکن پھر بھی دنیا کی بڑی اردو آبادی وہا ں موجود ہے ۔ مشر قی یوپی میں تقر یباً ہر مدرسہ میں پر ائمر ی اسکو ل کا راواج ہے جن کا الحاق نیم سر کاری مسلم اداروں سے ہے یا الہ آباد بورڈ یا عربی فارسی مدرسہ بورڈ سے ہے ۔ جب عر بی فارسی مدرسہ بورڈبنا تو ہزاروں کی تعداد میں ارد وکالج بشکل مدرسہ اس سے ملحق ہوئے ۔ اور پرائمری اور جونیر سکینڈری اسکول وجود میں آئے ۔ پرائمری اسکول میں پانچو یں کلاس تک ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو ہی ہوتی ہے کچھ چھٹی کلاس سے بدل لیتے ہیں اور ہندی ذریعہ تعلیم رکھتے ہیں کیونکہ اساتذہ ہند ی کے ہوتے ہیں اور شاید و بایدہی کوئی ادارہ ہوگا جو اردو ذریعہ تعلیم رکھتا ہوگا۔ پانچویں کلاس کے بعد بچوں کے سامنے تین راہیں کھلتی ہیں دو مدرسہ (حفظ و فارسی ) کی اور ایک اسکول کی ۔ جو طلبہ اسکول چلے جاتے ہیں ان کی اردو تعلیم وہیں منقطع ہوجاتی ہے اور مدرسہ جانے والے صر ف ماحول کی وجہ سے اردو سے جڑے رہتے ہیں ۔ مغربی یوپی کی صورت حال بالکل الگ ہے شہر کے جو مسلم نیم سرکاری ادارے ہیں وہاں تو اردو بڑھائی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ پورے مغر بی یوپی کے دیہی علاقوں میں کہیں بھی اردو کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی اس علاقہ کی زبان اردو ہے اور ہر مسلم بچہ اردو جانتا ہے وہ اسطر ح کے مغربی یوپی کے ہر مسلم آبادی میں مدرسے موجود ہیں جہاں اردو کی تعلیم کسی بھی مضمون میں نہیں دی جاتی ہے صر ف تعلیم الاسلا م اور دینی تعلیم کا رسالہ ہی پڑھایا جاتا ہے ۔اب سر کاری سطح پر پیچیدگیا ںکیا پیدا ہوتی ہے وہ دیکھیے ۔ وہ سمپل سی بات یہ ہے کہ آپ کسی بھی سر کاری تعلیمی ادارے میں بطور اردو طالب علم کے رجسٹر ڈ نہیں ہورہے ۔ گویا سرکاری سطح پر اردو سیکھنے والو ں کی تعداد صفر ہی ہے ( مولوی ،ادیب ، کامل ، گریجویشن اور ماسٹر س کو چھوڑ کر ) 

بہار 

بہار ہندوستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں اردو کی حالت شمالی ہند میں اطمینان بخش ہے ۔ جب اردو کی حالت بہتر ہے تو اردو ذریعہ تعلیم کی حالت بھی بہتر ہے ۔بہار میں اردو کی تر قی کی اہم وجہ متوسط طبقہ کا جذباتی حد تک اردو سے لگاو ¿ اور دینی مدارس میں ان کے بچو ں کو دی جانے والی ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم بزبان اردو ہی ہے ۔ بہار میں چونکہ کوئی علاقائی زبان اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ مذہبی تعلیم کے حصول کا جزوی ذریعہ بن سکے اس لیے وہاں مسلمانوں کا ایک اپنی زبان کے حساب سے اردو زبان مظبوط زبان بنی ہوئی ہے ۔

بہار میں تقریبا ً پچاس ہزرا سے زائد طلبہ جونیئر ہائی اسکول بورڈ کا امتحان اردو کے ذریعہ دیتے ہیں ۔ بہار میں ۳۲۱ ایسے کالج ہیں جن میں اردو تعلیم کا نظم و نسق موجود ہے اور پچاس ہائی اسکول ایسے ہیں جو اردو کو ذریعہ تعلیم میں فوقیت دیتے ہیں ۔ بہار میں اردو کی تر قی میں اہم رو ل وہاں کے مدارس نے دیا ہے ۔ بہار حکومت نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی اسناد کو بہار میں دوسرے رجسٹرڈ اداروں اور یونیو رسٹیوں کے ڈگریوں کے مساوی تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ بہار ہی نہیں بلکہ دلی کی تینوں بڑی یونیورسٹیوں میں ان کی ڈگریوں کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔مجموعی طور پر بہار میں اردوزبان کی صورت حال بہتر ہے لیکن بد نظمی کی شکار ضرور ہے ۔ ادب کی صور تحال بھی دو سرے صوبو ں سے قدرے بہتر ہے ۔
تقریبا یہی صورت حال جھارکھنڈ کی ہے لیکن اردو اساتذہ کی عدم تقرری اس میں مستقل گر اوٹ کا سبب بن رہی ہے ۔

مغر بی بنگال 

اردو کی تر ویج کے بہت ہی زیادہ امکانا ت مغر بی بنگال میں ہیں ۔ وہاں ابتدائی تعلیم کے متعلق حکومت کی اصولی پالیسی یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم صرف مادری زبان میں ہوگی ۔اسی مقصد کے پیش نظر وہاں سر کاری اداروں میں تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے اور اقلیتی فر قوں کے اداروں کو بھی اسی بنیاد پر وہاں پر رجسٹر ڈ کیا جاتا ہے ۔مغربی بنگال میں اردو ذریعہ تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ اردو آبادی کی موجو تعداد کے مناسبت سے اسکو لوں کا نہ ہونا ہے ۔کئی مقامات پر تو دس سے بیس ہزار کی آبادی میں بھی صرف ایک اسکو ل موجود ہے ۔سر کار کی پالیسی کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ اقلیتوں کے لیے اسکول کے رجسٹریشن کی بنیاد آبادی کی تعداد کو نہیں بناتی اور تمام اقلیتی فرقوں کو ایک ہی تناسب میں پر ائمری اسکولوں کی سہولت دیتی ہے ۔ اس کا فائدہ عیسائی اور دوسرے چھوٹے اقلیتی فر قوں کو بہت زیادہ ہوتاہے اور مسلم نہ صرف گھاٹے میں رہتے ہیں بلکہ ان کے اور دوسرے اقلیتوں کے درمیان ترقی اور تنزلی کا فرق بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔

مغربی بنگال میں مہاجر اردو طبقہ آسنسول ، کولکاتہ ، بردوان اور جلپائی گوڑی میں آباد ہے ۔ مخلوط اردو آبادی ، مرشدآباد ، مالدہ، ۴۲پرگنہ ، کٹوا، بیربھوم ، پرولیا اور عظیم گنج وغیرہ میں ہیں ان تمام مقامات میں اردو آبادی کے ساتھ اردو اسکولس بھی موجود ہیں مگر وہ کسی صورت بھی آبادی کا احاطہ نہیں کر پارہے ہیں۔ ارد و کے فروغ میں وہاں سب سے بڑی رکاوٹ اردو ماحول اور اردو کلچر کا نہ ہونا ہے ، وہاں بھی اردو کا فر وغ مذہبی لٹریچراور مذہبی اداروں سے زیادہ ہے ، بنگال میں ایک ایساطبقہ بھی ہے جو صر ف اردو بولتی ہے لیکن تعلیم و تعلم کار واج اردو میں نہیں ہے یہ تعداد بہت ہی زیادہ ہے ،وہاں بس ایک رہنما کی ضرورت ہے جس سے طبقہ مکمل اردو سے روشناس ہوسکتے ہیں ۔ وہاں اردو ثقافتی پروگرام کی بہت ہی ضرورت ہے جو اردو کی تر ویج ترسیل میں بہت ہی زیادہ معاون و مددگار ہوگا ۔

کچھ ایسے ہی حالات اڑیسہ کے بھی ہیں البتہ وہاںبھی اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے لیکن تر ویج و تر سیل کے حالات و اسباب مفقود ہیں

تر سیل کے امکانا ت ضر ور پیدا ہو نگے پہلے تر ویج کے امکانات پیدا کر نے ہوںگے ۔ اس کے لیے ہمیں خو د بیدا ر ہو نا ہوگا اور جو غیر سر کاری ادارے NGO تعلیم کے میدان میں کام کر رہے ہیں ان سب کو اس پر دھیان دینے کی ضر ورت ہے ۔ اسکو ل میں داخلہ کے وقت ہی تمام والدین کو یہ بتا نا ہوگا کہ آپ کے بچے کے لیے ارد و کا نظم و نسق سر کار کی جانب سے موجودہے اور جن اسکو لوں میں تھرڈ لینگویج کا خانہ ہے وہاں ان کے لیے اردو ہی فِل کر وائیں ۔

سب بڑی پر یشا نی اس وقت پیدا ہوتی ہے جہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ اردو زبان ختم ہورہی ہے ۔ یہ وہی وقت ہے جب طلبہ پانچویں کلاس کے بعد اردو ماحول سے غیر اردو ماحول میں پہنچتے ہیں جہاں آہستہ آہستہ وہ اردو سے اجنبی بنتا چلا جاتاہے اس دور ا ن وہ خود کو کیسے اردو کے دھارے سے باندھے رکھے اس کے لے غور کر نے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ سوائے ایک یو نی ورسٹی کے کوئی بھی ہندو ستان کی یونی ورسٹی نہیں ہے جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہی ہو ۔ ہم اردو کے لیے اکثر مولوی صاحبان اور مسجدو مدرسہ پر موقوف ہوتے ہیں گھر میں کم ازکم کچھ بھی ماحول اردو کا ملے تو وہ اردو کی جانب راغب ہوں ۔ اب پھر ترویج و تر سیل کی جانب لوٹتے ہیں تر ویج کے معنی شوق پیدا کر نا یا شو ق کی جانب رغبت دلانا اور تر سیل کا معنی ان کے شوق کو پورا کر نا ہے 

اردو کا قاری کہتا ہے : مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
 اردو کہتی ہے : وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا بس یہی ایک بات اچھی ہے مرے ہر جائی کی 

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...