Thursday 23 November 2023

ادبی نشیمن

موجودہ وقت میں رباعی پر خصوصی شمارہ نکالنے کی ضرورت کیوں آن پڑی جب کہ آج کے سہ ماہی رسالوں پر نظر ڈالیں تو ان کا رجحان فکشن کی جانب زیادہ رہا ہے. یا پھر عمومی شمارے کثیر تعداد میں نکالے جارہے ہیں. البتہ گزشتہ دہائی میں فکر و تحقیق کے کئی نمبر نکلے ہیں جن میں افسانہ نمبر نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی. ناول خاکہ نئی غزل اور نئی نظم پر بھی نمبر شائع ہوئے لیکن اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوکر رہ گیا اور اب مستقل عمومی شمارے ہی نکل رہے ہیں. اس درمیان کچھ رسائل کے بہت ہی خاص اور اہم شمارے بھی منظر عام پر آۓ، بلکہ ان کا ہر شمارہ ایک خاص شمارہ ہوتا تھا لیکن رباعی (جسے اردو والے حاشیائی صنف تصور کرتے ہیں) پر کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی. سچ بات کہوں تو تنقید میں موجودہ وقت میں ناول، افسانہ غزل اور نظم کے علاوہ دیگر اصناف کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی جبکہ تخلیق کار اپنی کارکردگی بخوبی ادا کررہے ہیں. اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا ناقدین نے اپنا سیف زون منتخب کرلیا ہے یا پھر مغربی تنقید کی روش میں مشرقی خصوصیات کی حامل اصناف پر خامہ فرسائی میں وہ کوتاہ ہوجاتے ہیں؟ کیا موجودہ وقت میں فکشن نے عوام میں زیادہ جگہ بنا لی ہے یا اس کے قارئین میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے؟ آپ کو جواب ملے گا بالکل بھی نہیں بلکہ جو کچھ بھی ہے وہ آپ بھی بخوبی سمجھ رہے ہوں گے. یہی حال غزل اور نظم کا بھی ہے. جس طرح سے مذکورہ بالا اصناف کے قارئین ہیں اسی طرح سے رباعی کے بھی ہیں۔ جس طرح سے دیگر اصناف کے نمایاں تخلیق کار ہیں،اسی طرح رباعی نے بھی اپنے نمایاں تخلیق کار پیدا کیے ہیں. پھر بھی رباعی کو ادبی مباحث میں کم جگہ کیوں دی گئی ہے؟ جہاں انیس و دبیر کے مرثیوں سے دفاتر کے دفاتر بھرے ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب رباعیات پر صرف ایک فیصد حصہ ہی نظر آتا ہے۔ یہی حال اکبر و حالی اور جوش وفراق کی رباعیات پر مباحث کاہے. اگر امجد حیدرآبادی کی بات کی جائے تو ان پر بھی کوئ خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی. اگر بعد کی رباعیات کی بات کی جائے تو ان پر خال خال تجزیاتی اور تاثراتی مضامین دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن سے رباعی گو شعرا کو حوصلہ ملتا رہتا ہے. یہی کام ادبی نشیمن نے اس شمارہ سے کیا ہے. 
کیا کسی رسالہ کا خصوصی شمارہ کسی پی ایچ ڈی مقالے سے بہتر ہوسکتا ہے. جواب میں ہاں بھی سننے کو مل سکتا ہے اور نہیں بھی. زیادہ تر ہاں سننے کو ملے گا کیونکہ شمارہ مختلف الجہات ہوتا ہے. جبکہ سندی تحقیقی مقالہ بہت زیادہ بھر پور ہونے کے باوجود مختلف الجہات نہیں ہوسکتا لیکن فوری طور پر سلام سندیلوی کا تحقیقی مقالہ آپ کے سامنے پیش کردیا جائے گا. بالکل اعتراض بجا ہے کیونکہ ایسا تحقیقی اور سندی مقالہ (میری معلومات کے مطابق) کسی اور صنف کے متعلق نہیں لکھا گیا ہے جس میں ابتدا سے لے کر موجودہ وقت تک سبھی کا احاطہ کیا ہوگا. لیکن جس طرح سے سارے مقالے ایک جیسے نہیں ہوتے،ٹھیک اسی طرح سے سارے خصوصی شمارے بھی ہمہ جہت نہیں ہوتے بلکہ کچھ رسمی بھی ہوتے ہیں. میرے نزدیک ادبی نشمین کا موجودہ شمارہ دونوں کیفیات کا حامل ہے. 
ادبی نشیمن کا یہ شمارہ میرے لیے کئی اعتبار سے خاص ہے۔ اول تو یہ کہ ٹائٹل میں میری کتاب کو جگہ دی گئ ہے، دوم یہ کہ اس میں میرا بھی ایک مضمون شامل ہے جو یاس یگانہ چنگیزی کے تعلق سے ہے، سوم یہ کہ "کلیات رباعیات جوش" پر حقانی القاسمی کی تحریر جلوہ افروز ہے اور چہارم یہ کہ "رباعی تحقیق" پر جناب شاہد حبیب فلاحی صاحب نے خوبصورت تبصرہ کیا ہے. 
اس خصوصی شمارے کی اشاعت پر میں مدیر ڈاکٹر سلیم احمد اور معاون مدیر ڈاکٹر شاہد حبیب صاحب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اب تک رباعی کے جو شمارے منظر عام پر آئے ہیں اور میری نظر جہاں تک پہنچی ہے ان سب میں یہ شمارہ تمام شماروں پر فوقیت رکھتا ہے۔ پچھلی صدی میں ناوک حمزہ پوری صاحب کی ادارت اور نگرانی میں گلبن احمد آباد کا رباعی نمبر شائع ہوا تھا جس کا ذکر کئی جگہوں پر مل جاتا ہے۔ اس کے بعد فراغ روہوی مرحوم نے دستخط کا رباعی نمبر شائع کیا تھا جس میں رباعی کے فن،موضوع اور روایت پر بہت ہی کم نظر ڈالی گئی تھی. ماہنامہ شاعر کا بھی (ایک مخصوص) رباعی نمبر شائع ہوا ہے. 
رباعی کے موضوع پر کتابوں کی بات کی جائے تو گزشتہ صدی میں کئی کتابیں منظر عام پر آئیں ہیں جن میں فرمان فتح پوری کی "رباعی فنی اور تاریخی ارتقا"، سلام سندیلوی کی ضخیم کتاب 'اردو رباعیات" وحید اشرف کچھچھوی کی "مقدمہ رباعی" خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ موجودہ صدی میں "تنقید رباعی" فرید پربتی نے اور شاید اس سے پہلے یا قریب قریب ناوک حمزہ پوری نے بھی "ساگر منتھن" تصنیف کی. پھر بعد میں سلمہ کبری صاحبہ کا ایک اہم کام "اردو رباعی میں تصوف کی روایت" منظر عام پر آیا، یحییٰ نشیط صاحب "رباعی میں ہندوستانی عناصر" کے حوالے سے ایک کتاب منظر عام پر لائے اور کئی دیگر لوگوں نے بھی خامہ فرسائی کی اور اس کی مختلف جہات کو منظر عام پر لاۓ. ہر موقع پر رباعی کے فروغ کی بات کی گئی لیکن اس صدی میں رباعی کی صورتحال بطور کمیت گزشتہ صدی کے نصف آخر کے مقابلے کافی بہتر ہے جس کی جھلک رسائل اور دیگر نشریات میں کافی دیکھنے کو ملتی ہے. 
 اس رسالے کی بات کریں تو مطالعہ کرتے ہوئے اسلم حنیف صاحب کے مضمون کو جب میں پڑھنے لگا تو اس میں مجھے کئی نئ چیزیں مل گئیں۔ انہوں نے شروع کے 24 اوزان کو تو شمار کیا ہی ہے ساتھ میں زار علامی اور سحر عشق آبادی کے بھی اوزان کو شامل کیا ہے. اس کے بعد وہ رمز آفاقی کے اوزان کو شمار کرتے ہیں۔پھر ان سب کو ملا لیتے ہیں تو ان کی تعداد 84 ہو جاتی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ان 84 اوزان پر جمنا پرشاد راہی نے رباعیاں کہیں ہیں جو ان کے مجموعہ میں موجود ہیں۔ اب بھی اوزان میں تجربات جاری ہیں، تجربات کا مستقل ہونا یہ بتلاتا ہے کہ یہ صنف پابندیوں کے لحاظ سے بھی اتنی پابند نہیں ہے جتنا کہ اسے محصور کر دیا گیا ہے بلکہ یہ مستقل تجربات کے دور سے گزررہی ہے. 
دوسرا حصہ رباعی تحقیق و تنقید ہے جس میں کئی قسم کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔ مخصوص رباعی گو شعرا اور بالعموم سبھی رباعی گو شعرا کا ذکر مضامین میں ملتا ہے. صوبائی خدمات پر پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال نے لکھا ہے اور اس سے پہلے والے حصے میں بھی مجموعی طور پر حافظ کرناٹکی نے "رباعی فن اور امکانات" کے تحت عہد قدیم سے لے کر عہد حاضر تک کے شعرا کا احاطہ کیا ہے. صوبائی میں صرف کرناٹک کے حوالے سے پروفیسر مقبول احمد مقبول کا مضمون ملتا ہے جبکہ اگر اسی نوعیت کو آگے بڑھاتے تو مہاراشٹر، بنگال، بہار، یو پی اور دیگر صوبوں میں رباعی گو شعرا کی اچھی تعداد مل جاتی. (بہار میں رباعی کے حوالے سے کونسل میں ایک پروجیکٹ مکمل ہوا ہے). 
اگر قدیم رباعی گو شعرا پر نظر ڈالیں تو رواں، جمیل مظہری، خیام، الطاف حسین حالی، عبدالغفور خان نساخ، علامہ اقبال، زیب النسا زیبی، یاس یگانہ چنگیزی، فراق، فضا ابن فیضی، شوق نیموی اور جوش پر مضامین ہیں۔ 
جدید رباعی گو شعرا میں ظفر کمالی، پرویز شاہدی، مامون ایمن، ظہیر غازی پوری، ناوک حمزہ پوری، شاہ حسین نہری اجتبی رضوی، صادقین، کوثر صدیقی، اشراق حمزہ پوری، فرید پربتی، طہور منصوری نگاہ، نور محمد یاس، عاصم شہنواز شبلی، عابدہ شیخ کی رباعی پر مضامین پڑھنے کو مل جاتے ہیں.مجموعی طور پر لکھنے والوں میں دبستان لکھنو، اردو کے غیر مسلم رباعی گو شعرا، میرٹھ کے اہم رباعی گو شعرا پر مضامین ہیں. 
موجودہ وقت میں کم از کم 100 شعرا تو ضرور ہیں جو بہت ہی خوبصورت رباعیاں لکھ رہے ہیں۔ معنوی اعتبار سے ان کے ہاں مضامین کی نیرنگی ہے تو ساتھ ہی رباعی کے فن پر گرفت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان میں سے چند شعراء کے نام جن کی رباعیاں اس شمارہ میں شامل ہیں، مخمور کاکوروی، شاہ حسین نہری، پروفیسر عراق رضا زیدی، پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف کمال، طہور منصوری نگاہ، ذکی طارق، اسلم حنیف، ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی، سلیم سرفراز، محمد انورضیا، ڈاکٹر فرحت نادر رضوی، اعجازمان پوری، فیضی سمبلپوری، فہیم بسمل، ساجدہ عارفی، ڈاکٹر ہارون رشید، معید رہبر، زیب النسا زیبی، مصباح انصاری، محسن عظیم وغیرہ ہیں.
تبصرہ کے گوشہ کی خصوصیت یہ ہے کہ جن چھ کتابوں پر تبصرے ہیں وہ سارے رباعی سے تعلق رکھتے ہیں.
آخر میں طباعت کی بات کی جائے تو ماہنامہ رسائل کے سائز میں یہ سہ ماہی نکلتا ہے،(6*8.5 میں) اگر یہ چار سات میں شائع ہوتا تو زیادہ خوبصورت بھی ہوتا، لاگت بھی کم آتی اور ضخامت میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا. 
بہر حال رباعی پر خصوصی نمبر شائع کرکے اس صنف کو موضوع بحث و تخلیق بنانے کے لیے پوری ادبی نشیمن کی ٹیم کو مبارکباد............. امیر حمزہ

Wednesday 5 April 2023

شعر ، غیر شعر اور نثر

   شعر ، غیر شعر اور نثر 

امیر حمزہ


 اردو ادب کی یہ بے مثال اور فاروقی صاحب کی لازوال کتاب اشاعت کے کئی مراحل سے گزر چکی ہے ۔ پہلی مرتبہ یہ کتاب 1973 میں شائع ہوئی تھی ، پھر پس نوشت کے ساتھ 1998 میں اس کے بعد تیسری اشاعت دیباچہ طبع سوم کے ساتھ 2005  میں کونسل سے شائع ہوئی ۔ اور اب کونسل سے یہ تیسر ی اور کل پانچویں اشاعت ہے ۔ پہلی سے لے کر پانچویں اشاعت تک مضامین میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی گئی ہے ۔ فاروقی صاحب جب پچیس برس بعد اس کتاب پر پس نوشت لکھتے ہیںتو اس میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اس درمیان مزید مطالعہ اور جدید و قدیم نظریات سے واقفیت کے باوجود ’’اس کتاب میں درج کردہ باتوں کو جدید ادب اور جدیدیت کی تفہیم و استقلال ، اور کلاسیکی ادب کی فہم و بازیافت دونوں کے لیے بامعنی سمجھتا ہوں ۔‘‘ آج جب مزیدپچیس برس بعد میرے مطالعے میں یہ کتاب آئی تو میں بھی یہی کہتا ہوں کہ جو تنقیدی نظریات و معنویت اس کتاب کی پچاس بر س پہلے تھی وہ آج بھی ہے ۔ تو چلیں کتاب کے محتویا ت پر نظر ڈالتے ہیں۔

 اس کتاب میں کل23 مضامین ہیں ۔پہلا مضمون ’’غبار کارواں ‘‘ ہے جسے کتاب کے مقدمہ کے طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ اس مضمون میں انہوںنے بچپن سے لے کر تا دمِ تحریر مضمون اپنے علمی و نظریاتی سفر کا عکس پیش کیا ہے جس میں انھوں نے اقرار کیا ہے کہ ان کی تحریر میں تو ضیحی و تشریحی پن کا آنا بچپن میں ایک مشہور عالم دین کی کتب سے متاثر ہونا ہے ۔ لکھتے ہیں: ’’ میر اخیال ہے کہ میں نثر میں وضاحت اور استدلال پر جو اس قدر زور دیتا ہوں تو اس کی ایک وجہ غالباً یہ بھی ہے کہ میں بچپن میں مولانا تھانوی کے اسلوب میں اثر پذیر ہوا ہوں ۔‘‘ فاروقی صاحب کا یہ برملا اظہا ر بہت کچھ سوچنے پر مجبو ر کردیتا ہے ۔ اول یہ کہ آج کا ادبی معاشر ہ جن افراد سے متنفر نظر آتا ہے فاروقی وہیں سے اپنی بنیاد بناتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کسی بھی متن پر تفصیل در تفصیل جانے کا اسلوب فاروقی نے یقینا علما ء سے لیا ہے بلکہ مجھے پورا گمان ہے کہ شعر شور انگیز لکھنے کا محر ک بھی تھانوی صاحب کی کتاب ’’ کلید مثنوی‘‘ بنی ہوگی ۔ واللہ اعلم۔ دوم یہ کہ بچپن کی تر بیت بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ یقینا تحریروں میں تاثر وہیں سے آتا ہے جہاں سے مصنف متاثر ہوتا ہے اور بے شک فاروقی کی تنقیدی تحریریں تجریدیت کی شکار نہیں ہیں بلکہ امثال در امثال وہ تشر یح کرتے جاتے ہیں اور قاری کے ذہن و دل میں اترتے جاتے ہیں ۔ 

 کتاب کا سب سے اہم اور پہلا مضمون ’’ شعر ، غیر شعر اور نثر ‘‘ ہے ، یہ اس کتاب کا سب سے طویل مضمون بھی ہے جو تقریبا ً پنچانو ے صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں وہ شعر و نثر کی شناخت پر کئی سوالات فر ض کرتے ہیں اور ان پر تفصیل در تفصیل بحث کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی صفحات کے بعد لکھتے ہیں ’’ میں وزن کو ہر قسم کے شعر کے لیے ضرور ی سمجھتا ہوں ، چاہے اس میں شاعری ہو یا نہ ہو، لیکن شاعری کی پہلی پہچان یہ ہے کہ اس میں اجمال ہوتا ہے ۔‘‘ لفظ اجمال سے فاروقی صاحب نثر ی نظم کو بھی شاعری کے دائرے میں لے آتے ہیں اور لکھتے ہیں ’’ نثر ی نظم اور نثر میں بنیادی فرق اجمال کی موجودگی ہے نثری نظم اجمال کا اسی طرح استعمال کرتی ہے جس طرح شاعری کر تی ہے ، اس طرح اس میں شاعری کی پہلی پہچان موجود ہوتی ہے۔‘‘ لیکن صر ف اجمال ہی شاعری کی پہچان نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ شاعری میں اول وزن آتا ہے پھر اجمال کوپیش کر تے ہیں ، اس کے بعد جدلیاتی لفظ پھر شاعری کی تیسر ی اور آخر ی معروضی پہچان ابہام پر گفتگو کرتے ہیں او ر ان سب کے مجموعے کو شاعری کی پہچان کے طور پرسامنے لاتے ہیں۔ اچھی اور خراب شاعری کے درمیان بھی یہی عناصر سامنے آتے ہیں اور نثر کی بھی شناخت انہیں عناصر سے ہوتی ہے ساتھ ہی’’ نثر کے جو خواص ہیں یعنی بندش کی چستی ، برجستگی ، سلاست ، روانی ، ایجاز، زورِ بیان وضاحت وغیر ہ وہ اپنی جگہ پر نہایت مستحسن ہیں لیکن وہ شاعری کے خواص نہیں ہیں ‘‘ ۔ الغر ض فاروقی صاحب کا یہ مضمون تخلیقیت کی بنیادی تفہیم میں بہت ہی معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔

 دوسرا مضمون ’’ادب کے غیر ادبی معیا ر ‘‘ ہے ۔اس مضمون میں یہ بات کھل کر کہی گئی ہے کہ ادیب کا نظر یہ زندگی ، اخلاق ، عادات و اطوار سے اس کی تخلیقات کے معیار کو کبھی بھی جانچا اور پرکھا نہیں جاسکتا ۔اس پور ے مضمون میں فاروقی صاحب نظریاتی وابستگی اور ذاتی عادات و اطوار کو سامنے لاکر یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاعری کبھی بھی اشٹب لشمنٹ کے ردعمل کے طور پر سامنے نہیںآتی ہے بلکہ ایک طرح سے وہ ذاتی ودیعت ہی ہوتی ہے ۔ جیسے کریمنل اور بد کردار کی شاعر ی کامطالعہ کر یں اور دیکھیں کہ اس کی شاعری میں فاسق عناصر کتنے پائے جاتے ہیں تو شاید آپ کو بالکل بھی نہ ملیں ۔ یا کسی سلیم الطبع کی شاعری پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کتنے افکار صالحہ موجود ہیں تو شاید آپ کو رومانیت زیادہ ملے ۔ الغرض نظر یاتی وابستگی یا فطری عمل ادب کو جانچنے کا غیر ادبی معیار ہے ۔ 

 تیسرا مضمون ’’علامت کی پہچان ‘‘ ہے ۔ اس میں فاروقی صاحب علامت کی جامع اور مانع تعریف متعین کرنے کے لیے نکل جاتے ہیں لیکن تعریف نا مکمل ہی رہتی ہے اور علامت تشخیص و تمثیل کے درمیان کی چیز کے طور پر سامنے آتی ہے ۔ یہ مضمون مکمل طور پر بحث طلب ہے کیونکہ فاروقی صاحب لکھتے ہیں ’’ لیکن ادبی علامت نہ صرف فی نفسہ بامعنی اور خوبصورت ہوتی ہے بلکہ اس میں ایک انوکھی شدت اور قوت ہوتی ہے جو عام الفاظ میں مفقود ہوتی ہے۔‘‘ جس کی تلاش ہر ادیب کو کرنی ہے کہ حقیقی علامت کیا ہوتی ہے اور کون سے الفاظ تمثیل کی سطح پر ہی دم تو ڑدیتے ہیں ۔فاروقی صاحب لکھتے ہیں’’ علامت شعوری ادرا ک کی ضد ہوتی ہے ، توسیع نہیں ۔لیکن پوری طرح شعور آجا نے کے بعد اس کا علامتی کردار برقرار رہ سکتا ہے ۔ اگر چہ اسے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ وہ تمثیل یعنی استعارہ بن جائے گی ۔ علامت جسمانیاتی ہوتی ہے، یعنی اس کا تعلق ذہن کے ان Processes سے ہوتا ہے جو جسم میں بند رہتے ہیں۔ اس طرح علامت مشاہدہ نہیں بلکہ علم ہوتی ہے ۔ ‘‘ ان الفاظ میں کسی حد تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن پوری طرح اتفاق نہیں کرپاتے ہیں ’’ کیونکہ ادبی علامت میں دسرے درجہ کا مشاہدہ اور شاعر کے سماجی ، تہذیبی اور ذاتی تجربات بھی کار فرما ہوتے ہیں ، جو سب کے سب جسمانیاتی یعنی غیر شعوری نہیں ہوتے ہیں۔ ‘‘ الغر ض تعریف و شناخت میں عدم جامعیت و مانعیت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور تشخیص و تمثیل کے درمیان ایک غیر واضح علامت کے طور پر سامنے آتا ہے ۔

 اگلا مضمون ’’صاحب ذوق قاری اور شعر کی سمجھ ‘‘ ہے۔ اس مضمون کے پہلے ہی جملے ’’ کیا کوئی قاری صحیح معنی میں صاحب ذو ق ہوسکتا ہے ؟ مجھے افسوس ہے کہ اس کے سوال کا جواب نفی میں ہے۔ ‘‘ میں فاروقی صاحب نے جو دعویٰ کیا ہے اتفاق سے وہ آخر تک قائم رہتا ہے اور کئی زاویوں سے گفتگو کرنے کے بعد آخر میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ صاحب ذوق کی کوئی معیار بندی ممکن نہیں ۔ ذوق کے تعلیمی و غیر تعلیمی تاثراتی و غیر تاثر اتی جتنے بھی زاویے ہوسکتے تھے سب پر انھوں نے تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔ اس مضمون سے سرسری گزرجانا بالکل بھی مناسب نہیں لگ رہا ہے ، تو چاہتا ہوں کچھ چیزوں پر اجمالا ہی روشن ڈالی جائے ۔ تو دیکھتے ہیں کہ باوذوق قاری کسے فرض کر تے ہیں ۔ 

’’۱۔ باوذوق قاری وہ ہے جو ہمیشہ نہیں تو اکثر و بیشتر اچھے اور خراب فن پاروں میں فرق کر سکے۔ 

۲۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قاری حتی الامکان تعصبات، پس منظری مجبوریوں اور ناواقفیتوں کا شکار نہ ہوگا ۔ 

 ۳۔ شعر فہم قاری وہ ہے جو ذوق کی بہم کردہ اطلاع کو پر کھ سکے ۔

۴۔ اس کا مطلب یہ ہے شعر فہم قاری ذوق پر مکمل اعتماد نہیں کرتا 

۵۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شعر فہمی کا کمال یہ ہے کہ قاری ان فن پاروں سے بھی لطف اندوز ہوسکے جو اسے پسند نہیں آتے یا جنھیں اس کے ذوق نے خراب قراردیا تھا ۔

 ۶۔ باذوق اور شعر فہم قاری میں سب سے اہم قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کی زبان فہمی کے مرحلے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی ۔‘‘ 

جب آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کہ کسی بھی ایسے فرد کا وجود ممکن ہی نہیں ہے۔کیونکہ جب بھی کوئی شعر فہمی پر گفتگو کرتا ہے تو وہ اپنی ہی علم اور ذوق کی وسعت کو سامنے لاکر گفتگو کرتا ہے ۔اس کے نتیجے میں تین قسم کے افراد سامنے آتے ہیں۔ اول وہ جو دیگر قاریوں کو نظرانداز کردیتے ہیں جن کا معیار بز عم خود ان سے پست ہوتا ہے ۔ دوم :وہ لوگ جو وہی شاعری کو قبول کر تے ہیں جو ان کی سمجھ میں آتا ہے اور سوم : جو ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے اسے مطعون کرتے ہیں ۔اس کے بعد فاورقی صاحب ایک خوبصورت مثال پیش کرتے ہیں ندافاضلی اور غالب کے ایک ایک شعر سے ۔ 

 سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا 

کھڑکی کا پردہ کھینچ دیا رات ہوگئی 

اس شعر کو مجہول اور مہمل کہنے والے بہت سارے لوگ مل جائیں گے لیکن غالب کے درج ذیل کے شعر کے متعلق ایسا کچھ بھی نہیں ملے گا ۔

 نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں 

جس کے بازو میں تری زلفیں پریشاں ہوگئیں 

پھر صاحب ذوق قاری کا معیار کیا ہوگا ؟ 

 اس کے سو ا اور بھی بہت سی مثالیں پیش کرتے ہیں پھر جاکر کہتے ہیں’’ باذوق اور شعر فہم قاری کا تصور ایک انفرادی تصور ہے۔ ‘‘ لیکن فاروقی صاحب یہیں بس نہیں کرتے ہیں بلکہ پھر اس کو موضوع کے تعلیم کے پیمانے پر ناپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو بھی رد کردیتے ہیں اور یہی سامنے آتا ہے کہ صاحب ذوق کی کوئی معیار بندی سامنے نہیں آسکتی ۔ 

اب بڑھتے ہیں’’ نظم اور غزل کا امتیا ز‘‘ کی جانب ۔ اس مضمون کوبھی فاروقی صاحب نے اسی انداز میں لکھا ہے کہ پہلے دونوں اصناف کے مابین 12 امتیازات قائم کرتے ہیں پھر ان امتیازات کو مثال سے باطل بھی کردیتے ہیں ۔ جب معاملہ حل ہونے کا ہوتا ہے تب پھر سے امتیازی معروضات پر گفتگو کرتے ہیں پھر کئی زاویوں سے بات ہوتی ہے پھر بھی کوئی واضح فرق سامنے نہیں آتا ہے تب جاکر فرماتے ہیں کہ’’ ان سوالوں کا ایک جواب ہے: غزل بنیادی طور پر بالواسطہ اظہار کی شاعری ہے ، غیر واقعیت کی شاعری ہے …غزل کی پہلی اور آخری پہچان اس کی داخلیت ، غیر واقعیت اور بالواسطگی ہے۔ ‘‘ اور نظم میں بھی ساری چیزیں ہوتی ہیں لیکن غزل کے مقابلے میں واقعیت کا دخل ہوتا ہے ۔یعنی واقعیت اور غیر واقعیت کا فرق ہے۔ 

اس کے بعد ’’ مطالعہ اسلوب کا ایک سبق ‘‘ ہے ۔ اس عنوان میں ایک لفظ ’سبق ‘ قاری کو چونکا دیتا ہے کہ اتنے بھاری بھر کم مضامین کے بیچوں بیچ سبق جیسا مضمون فاروقی صاحب نے کیوں شامل کیا ۔ اس سوال کا جواب تو مجھے بھی نہیں پتہ البتہ سودا اور میر کی ایک ایک غزل اور غالب کی دو غزلوں کے حوالے سے انہوں نے اسلوبیات کے وہ سبق سکھائے ہیں جو عموما اسلوبیات کی کتابوں میں پڑھنے کو نہیں ملتا ہے ۔ واقعی میں انہوں نے جن جزئیات کے ساتھ اس کو پیش کیا ہے ان سے شعر ی اسالیب کے خطوط طے ہوتے ہیں اور قارئین کے لیے وہ سبق ہی ثابت ہوتا ہے ۔ 

افسانے کی حمایت میں دو مضامین ہیں پہلے مضمون میں وہ یہ مشاہدہ پیش کرتے ہیں کہ ’’ ناول کے مقابلے میں افسانے کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے یہاں غزل کے مقابلے میں رباعی کی ہے‘‘ اسی مشاہدہ پر باقی مضمون مکمل ہوتا ہے ۔ دوسرا مضمون انٹرویو کے انداز میں ہے جس میں افسانہ کے فن پر گفتگو کی گئی ہے ۔

 ’’آج کا مغربی ناول‘‘ (تصورات و نظریات ) اگر چہ مغربی ناولوں کے حوالے سے لکھا گیا مضمون ہے لیکن اس میں ناول کے فن پر تعمیری گفتگو پڑھنے کو ملتا ہے ۔ موصوف ابتدا میں ہی لکھتے ہیں ’’ ناول در اصل ڈرامے کا ایک محدود اور نسبتاً بے جان بدل ہے ۔ ڈرامہ بھی وقت میں گرفتار ہے ،بلکہ اگر ہم ارسطو کو اپنا رہنما تسلیم کریں تو ڈرا ما کلیتہ وقت کا غلام ہے ۔لیکن اس کے باوجود وہ ناول سے برتر ہے کیونکہ ڈرامے میں عمل اور پرفارمینس کا عنصر ہے ناول اس سے عاری ہے ۔…بنیادی بات یہ ہے کہ ناول اس وقت سرسبز ہوسکتا ہے جب ڈرامے پر برا وقت پڑا ہو۔‘‘ فاروقی صاحب اتنی بڑی بات کہہ کر گزر جاتے ہیں لیکن کمال ہے کہ بعد میں اس پر کوئی بحث نظر نہیں آتی ہے ۔کیونکہ جو بات کہی وہ سچ ثابت ہوئی کیونکہ ڈرامہ زوال پذیر ہوا توناول آج سر سبز و شاداب ہے ۔لیکن اردو کی بات کی جائے تو یہاں ڈرامہ کا ناول سے کوئی مقابلہ رہا ہی نہیں بلکہ ناول زیادہ مقبول رہی ہے ۔ اور اردو ناول از اول تا ہنوز مقبول رہی ہے ، جبکہ ڈرامہ فلموں سے قبل ہی مقبول تھی اور اردو میں ڈرامہ کا شمار دیگر نثری اصناف میں ہوتا ہے ، مطلب فکشن ہونے کے باوجود فکشن کے ساتھ صف اول میں شمار نہیں ہوپاتا ہے ۔ 

 تبصر ہ نگاری کے فن پر عموما ً مضامین پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں ایسے میں فاروقی صاحب کے تبصرے پر لکھے گئے مضمو ن کو بنیادی حیثیت تسلیم کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ اس مضمون میں کئی نکات پر بحث کرتے ہوئے دو بنیادی پہلوؤں کے جانب اشارہ کر تے اول اخلاقی پہلو دو م تخلیقی پہلو ، یعنی کتاب کے ماسوا سے مبصر کو کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہیے خواہ مصنف کی ذات ہو یا پھر مصنف کی ماقبل کی تصنیفات ہوں ۔ اب تک کے مضامین اصناف پر تھے بعد کے مضامین جزئیات پر ہیں۔ جیسے ’’ جدید ادب کا تنہا آدمی ، نئے معاشر ے کے ویرانے میں‘‘یہ بہت ہی مختصر مضمون ہے جس میں تنہائی پر قدیم وجدید شعرا کے رویے پر خوبصورت تجزیہ پڑھنے کو ملتا ہے ۔ 

’’پانچ ہم عصر شاعر ‘‘کو فاروقی صاحب 1969 میں لکھتے ہیں ۔ اس مضمون میں اخترالایمان ، وزیرآغا، بلراج کومل ، عمیق حنفی اور ندا فاضلی کی شاعری پر دیگر زاویوں کے ساتھ اسلوب پر زیادہ گفتگو کی گئی ہے ۔ مضمون کے شروع میں ہی پانچوں شاعروں کی خصوصیات کو مختصراً بیان کرتے ہیں جو اجمال ہوتا ہے آنے والی تفصیلات کا ۔ تو یہاں اس اجمال کو پیش کیا جاتا ہے ۔ فاروقی صاحب لکھتے ہیں :

 ’’ اگر مجھے ان شاعروں کو مختصراً بیان کرنا ہوتو میں یوں کہوں گا :

اخترالایمان : تقریباً نثری اور روز مرہ کی زبان سے نزدیک ڈرامائی اظہار ۔ استعارے سے مبرا ، لیکن علامت سازی کی کوشش ، دروں بینی اور خود کلامی عصر حاضر پر سخت تنقیدی اور طنزیہ نگاہ، آواز میں اعتماد ۔

 وزیر آغا: رنگین پیکروں سے بھرا ہوا اظہار ، اخترالایمان کی بالکل ضد ، علامت سے زیادہ استعارہ سازی کی کوشش ، فضا خلق کرنے اور نظم میں منطقی تعمیر کا تاثر ۔

 بلراج کومل : علامت سازی ، روز مرہ کی دنیا سے دلچسپی ، لیکن اس دلچسپی کااظہار ایسی زبان میں جن میں ذاتی Involvement کی جگہ مابعد الطبیعیاتی Detatchment ہے ۔ لہجہ میں انتہائی شائستگی ۔

 عمیق حنفی : وسیع کینوس ، عصر ی دنیا اور گردو پیش کے ماحول کا شدید تجربہ ، فرد کے متصادم ہوتے رہنے کا احساس ، روز مرہ کی زبان لیکن خطابیہ لہجہ کے ساتھ جن میں خفگی اور الجھن نمایا ں ہے ۔ عصریت کا مکمل اظہار ہے ۔ 

ندافاضلی : زبان میں نسائی لچکیلا پن ، عصری حقیقت کو رو برو پاکر احتجاج کے بجائے تھکن اور بے سودگی کا احساس ، گھریلو زندگی سے مستعار لیے ہوئے پیکر ۔ ‘‘ 

اس کے بعد ہر ایک کی شاعری پر بلکہ اسلوب کی انفرادیت پر اشاراتی و قدرے وضاحتی گفتگو کر تے ہیں ۔ 

’’ن م راشد صو ت و معنی کی کشاکش ‘‘لا = انسان کے آئینہ میں ۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ یہ اس میں موصوف صوتی تنقید بھی پیش کررہے ہیں جیسا کہ مطالعہ اسلوب میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب ایسی گفتگو سننے کو نہیں ملتی ہے ، جبکہ شعری بنت میں الفاظ کے ساتھ اصوات کا بھی بہت زیادہ دخل ہوتا ہے ۔ خیر ! مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں ’’ میری نظر میں راشد کا سب سے بڑ ا کارنا مہ یہی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو اپنے انتہائی بیدار سماجی اورسیاسی شعور کے ہاتھوں اونے پونے نہ بیچ کر شاعرانہ آہنگ کے پاس رہن رکھ دیا ۔‘‘ 

’’ غالب اور جدید ذہن ‘‘میں یے ٹس اور غالب کے حوالے سے بحث ہے تاہم غالب کے اشعار کے حوالے سے جتنی بھی بحث جدید ذہن کو لے کر کی جائے کم ہی پڑ جائے گی آخر میں نتیجے کے طور پر لکھتے ہیں ’’ آج ہم جوغالب اور یے ٹس کی طرف بار بار رجو ع کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے کہ یہ دونوں جدید انسان کی کسمپرسی کو ایک ایسی دنیا میں پناہ دیتے ہیں جو اس دنیا سے بہت بہت قریب ہے ، جس کی یادیں جدید انسان کے اجتماعی لاشعور میں پوشیدہ ہیں۔‘‘ اس پر حاشیہ میں غالب کا ایک شعر نقل کرتے ہیں جو مضمون کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے ۔ 

بزم ہستی وہ تماشا ہے کہ جس کو ہم اسد : دیکھتے ہیں چشم از خواب عدم نکشادہ ہے 

 ’’ اردو شاعری پر غالب کا اثر ‘‘ کیا اثر ہوا شروع میں کچھ واضح نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء میں ہی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جو بڑا شاعر ہوتا ہے ان کا لب و لہجہ بعد کا شاعر اختیار نہیں کرتا ہے ، بہت سے شعرا معتقد میر و غالب رہے لیکن کبھی ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا جیسے اثر لکھنوی میر کے کلام کی قسمیں کھایا کرتے تھے اور دیگر شعرا کے شعر کے مقابلے میں میرکا شعر پیش فرما دیا کرتے تھے لیکن خود میر کا لہجہ کبھی اختیار نہیں کر سکے ۔ اسی طریقے سے حالی غالب کے ذہین ترین شاگر د تھے اور غالب کو مابعد کے لیے یاد گار غالب سے متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیے لیکن ان کا لہجہ اختیار نہیں کیا ۔ پھر غالب کا اردو شاعری پر کیا تاثر قائم ہوا ؟ وہ دیکھیے لکھتے ہیں: ’’ غالب کا سب سے بڑا اثر اردو شاعری پر اس طرح ہوا کہ انھوں نے اپنے بعد کی تنقیدی فکر کو بہت متاثر کیا اوراردو کی بہت سی تنقید شعوری اور غیر شعوری طور پر غالب کی توجیہ Justification کے لیے لکھی گئی ۔پھر اس تنقید نے شاعر کو براہ راست متاثر کیا ۔ ‘‘ تو گویا شاعر پر نہیں بلکہ ادبی تنقید میں غالب کا اثر زیادہ نظر آتا ہے ۔

’’ غالب کی مشکل پسندی‘‘بظاہر عنوان سے یہی لگا کہ ان کی مشکل پسند ی کو تہہ درتہہ پیش کیا جائے گا لیکن مضمون کے شروع میں کہتے ہیں کہ میں غالب کے کلام کو مشکل نہیں بلکہ مبہم سمجھتا ہوں اور ابہام کواشکال سے زیادہ بلند تصور کرتا ہوں کیونکہ’’ میری نظر میں اشکال عموماً شعر کا عیب ہے اور ابہام شعر کا حسن ۔‘‘ یعنی ’’ غالب کے نزدیک مشکل پسندی کا معیار استعار ہ ہے ۔ ‘‘ جس میں ایسی ہوش مندی کارفرمائی ہوتی ہے کہ’’ استعارہ ہیئت اور موضوع کے اس  امتزاج کو حاصل کرلیتا ہے جہاں استعارے کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ باقی آپ تو جانتے ہی ہیں کہ غالب نے بیدل کے اسلوب کو اپنایا ہے جو دیگر فارسی شعرا سے زیادہ پیچیدہ اسلوب کا حامل ہے جب کہ بیدل کی سرشت میں صوفیانہ پُراسرار ی تھی اور غالب پر عقلیت اور ہوش مندی حاوی تھی ۔ 

’’ غالب کی ایک غزل کا تجزیہ ‘‘میں ’’ جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی : مشکل کہ تجھ سے راہ سخن وا کرے کوئی ‘‘ کا ایسا تجزیہ پیش کرتے ہیں جو مابعد کے لیے ایک رہنما خطوط ثابت ہوتا ہے لیکن افسوس ایسے تجزیات بعد میں کہیں زیادہ پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں ۔ 

’’ برف اور سنگ مرمر ‘‘میں غالب کے شاگر د ناظم اور غالب کی شاعری کا موازنہ پیش کیا گیاہے ۔ جس میں بنیادی طور پر یہی ہے کہ ناظم کے یہاں غالب کا کتنا رنگ پایا جاتا ہے ۔ ’’ میر انیس کے مرثیے میں استعارہ کا نظام ‘‘میں آپ محسوس کریں گے کہ نو ر اور نور سے متعلق استعارے انہوںنے بہت ہی خوبصورتی سے قائم کیے ہیں جو استعاراتی نظام میں یقینا منفرد نظر آتے ہیں۔ ’’ یے ٹس ، اقبال اور الیٹ‘‘میں مماثلت کے چند پہلو کو پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ۔سب کے ذہن میں آرہاہوگا کہ کیسی مماثلت ہوگی نظر یاتی، موضوعاتی یا پھر فنی ؟ لیکن فاروقی لکھتے ہیں ’’ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ نسل ، زبان اور تہذیب کے اختلاف کے باوصف ان تینوں نے حیات و کائنات کے بعض مخصوص مسائل کو چھیڑا ہے اور ان مسائل کی طرف ان کا رویہ ایک دوسرے سے مشابہ ہے ۔ ‘‘ الغرض اس کتاب کے اکثر مضامین شعری تنقید کے حامل ہیں جنہیں شعریات کی بنیادی تنقید میں شمار کیا جاتا ہے اور شمس الرحمن فاروقی کی یہ کتاب اردو تنقید کی بنیادی کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ 


’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...