Thursday 3 March 2022

امان حید ر اپنی غزل کے آئینے میں

 ’’جو ہوش کھودے بس ایسی غزل کہی جائے ‘‘

امان حید ر اپنی غزل کے آئینے میں 


شاعری اظہار کا سب سے موثر ذریعہ ہوتا ہے، اگر دنیا کی قدیم سے قدیم تر لسانی اظہار کی بات کی جائے تو آپ کو تاریخی طور پر بھی یہی بات معلوم ہوگی کہ وہ شاعری ہی ہے۔ دنیا کا قدیم ترین ترین رزمیہ مہابھارت بھی شاعری کے فورم میں ہی سامنے آتی ہے بلکہ دنیا کی قدیم ترین زبان سنسکر ت کا سرمایہ شاعری میں ہی ہے ۔مصر و بابل روما و یو نا ن کے قدیم سے قدیم نمونے بھی شاعری میں ملتے ہیں۔ شاعر ی کے بارے میں ہم توبہتر جانتے ہیں کہ عرب کو اپنی زبان پر اپنی شاعری کی وجہ سے ناز تھا ، اسی وجہ سے وہ خود کو عرب اور دیگر کو عجم کہتے تھے ۔ لیکن زبان کا یہ معجزہ قرآن کے نزول کے بعد مکمل ہوگیا ۔ اس کے بعد زبان ان ہی فصاحت و بلاغت کی وسیع دنیا میں سیر کرنے لگی اور شاعری ہمیشہ اپنے ماضی کے پیمانے پر تولی جانے لگی ۔ شاعری کو باضابطہ ایک زبان تصور کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ موسیقی کی زبان بھی ہوتی ہے ۔ دونوں کے امتزاج سے جو فضا تیار ہوتی ہے اس سے دنیا کا ہر فرد مستفید ہوتا ہے خواہ وہ اس کی زبان ہو یا نہ ہو ۔ کہاجاتا ہے کہ دنیا میں اگر صرف ایک ہی زبان ہوتی تو وہ شاعری کی زبان ہوتی ۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ تقریبا ہر زبان کی ابتدا شاعری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اسی طریقے سے شروع میں ہر ماں اپنے بچوں کو شاعری میں ہی لوری سناتی ہے ۔ الغرض شاعری ایک اسلوب اور صرف رائم کا ہی نام نہیں ہے بلکہ خوشی و غمی ، دوری و قربت میں زبان سے جو بے ساختہ موزوں الفاظ نکلتے ہیں وہ شاعری کے فارم میں جاکر مکمل ہوتا ہے۔ 

دوسری بات یہ کہ شاعری تاثر کی زبان ہے ۔ نثر میں انسان بہت کچھ لکھتا اور بولتا رہتا ہے لیکن سامع وقاری پر جو تاثر شاعری دیتی ہے وہ نثر کبھی نہیں کرسکتی ہے ایسا عمومی طور پر کہاجاتا ہے لیکن جب امان حید ر کی شاعری لطف اندوز ہوتے ہیں تو بہت ہی زیادہ احساس ہوتا ہے کہ موصوف نے اپنی خوشیوں اور اضطرابیوں کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں پیش کیا ہے ۔ 

گھر سے جب دور ہوتے ہیں تو جسمانی طور پر وہ دوسری جگہ ہوتے ہیں لیکن شعوری طورپر ان ہی گلیوں میں سیر کرتے رہتے ہیں جہاں ان کا بچپن گزرا ہے اور جہاں ان کا ابتدائی عشق پروان چڑھتا ہے ۔ وہی لمحات ہوتے ہیں جس میں شاعراپنی شعری دنیا تلاش کرتا ہے اور موثر انداز میں ہر ایک کو اپنے جذبات کا ساتھی بنالیتا ہے جیسا کہ اختر الایمان کی لازوال نظم ’’ ایک لڑکا ‘‘ ناسٹلجیا کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے ویسے ہی کئی ایسی غزلیں ہیں جہاں امان حیدر اپنی ناسٹلجیا کو پیش کر تے ہیں ۔مثال کے طور پریہ شعر دیکھیے جس میں شاعر ٹین ایج یا اس سے پہلے کی زندگی کو محسوس کررہا ہے ۔ جہاں ساتھیوں کے بے تکلف نام کان سننے کو ترس گئے ہیں ، جہاں تکلف ومروت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ غزل کا مطلع ہے : 

نام سے مجھے بچپن کے پکارے کوئی 

کا ش لوٹادے مجھے کھوئے نظارے کوئی 

ایسا شعر کیا کوئی وطن میں رہنے والا شاعر کہہ سکتا ہے ۔ ممکن ہے ، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے کیوںکہ غریب الدیار میں ماضی کا جو احساس ہوتا ہے وہ گاؤں گھر میں بہت ہی کم محسوس ہوپاتا ہے ۔اسی غزل کا مقطع بھی ملاحظہ فرمائیں : 

میں ہوں پردیس میں اور ماں میر ی گھر پر ہے امان ؔ

چاہتا ہوں کہ نظر میری اتارے کوئی 

مہجری ادب کا یہ خوبصور ت شعر ہوسکتا ہے ۔ ہر کسی کو متاثر کرتا ہے ۔ شاعری میں تاثر سب سے پہلا مرحلہ ہوتا ہے جہاں بات دل سے نکلتی ہے اور سامع کے دل میں بس جاتی ہے ۔ ایسے میں شعر کو خوبصورت اور پر اثر بنانے کے لیے کسی ایسے احساس کا اظہار ہوتا ہے جس کا تعلق ہرکسی سے ہو ۔ 

وہاں میرابھی ہے اک آشیانہ

جہاں بس آنا جانا ہوگیا ہے

مذکورہ بالا شعر جس کیفیت کو بیان کررہا ہے اس سے ہر مہاجر واقف ہے ۔ پور ی زندگی پردیس میں گزارنے کو مجبور ہوتے ہیں اور کب آبائی وطن غریب الدیا ر لگنے لگتا ہے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے اور پھر مہاجر ہمیشہ کے لیے مہاجر ہی ہوجاتا ہے ۔ بچے اس ماحول میں ایڈجسٹ کر جاتے ہیں لیکن گاؤں گھر سے لاتعلق خاندان سے لاتعلقی کو پیدا کر دیتی ہے اورفرد بالکل فرد ہو کر رہ جاتا ہے ، نہ اصل باقی رہتا ہے اور نہ خاندان کی چھاؤں کا تصور رہتا ہے ایسے غریب الدیاری ہی زندگی کا لاحقہ بن کر رہ جاتا ہے جس کو مذکورہ بالا شعر میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

پیدل چل کرہم تو بس اسٹاپ پہ آتے تھے

وہاں پہ آکر تم سے ملنا اچھا لگتا تھا

تم تو نہیں ہو صرف تمہاری یادیں باقی ہیں

کبھی تمہارے خط کو پڑھنا اچھا لگتا تھا

مذکورہ بالا دونوں شعر ایک ہی غزل سے ہیں پہلے دونوں شعر کے ماحول پر غورکریں تو آپ کو احساس ہو گا ایک معمولی زندگی میں کتنی غیر معمولی چیزیں تھیں ، جہاں چھل کپٹ اور ہوس کا دور دور تک شائبہ نہیں تھا وہا ں تو صرف ایک محسوساتی اور حسی رشتے کی ڈور میں بندھا ہوتا تھا ۔ اب نہ وہ احساسات ہیں اور نہ ہی جذبات ۔ 

مہجری شاعری کے بعد اردو پر ذیل کے دو شعر وں کا ذکر مناسب معلوم ہوا کیونکہ ہندو پاک میں رہنے والوں کو تو یہ گھر و بازار کی زبان لگتی ہے لیکن جب اپنے ملک سے باہر دیار غیر میں جانا ہوتا ہے اور وہاں تر سیلی زبان کا جو انتخاب ہوتا ہے خصوصا بر صغیر والوں کے لیے تو یہی اردو ہوتی ہے ، پھر جاکر ان کو اس زبان کی شیرینی او ر عالمیت کا احساس ہوتا ہے تب جاکر شاعر کی زبان سے ایسے شعر ادا ہوتے ہیں ۔

میں لوگوں کے سکون دل کی خاطر شعر کہتا ہوں

یہ اردو ہے کہ جو ذہنوں میں خوشبو چھوڑ جاتی ہے


ساری دنیا میں ہے یہ دیکھیے اردو کا کمال

 وہ مِرا ہوگیا جس جس نے سنا ہے مجھ کو

خشو نت سنگھ کا مشہور مقولہ اردو کے حوالے سے ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر عشق کرنا ہے تو اردو سیکھ لو یا پھر اگر اردو سیکھنا ہے تو عشق کرلو۔ یہ مقولہ یوں ہی منظر عام پر نہیں آیا بلکہ اردو پر چار صدی گزر نے کے بعد عوام نے نتیجہ اخذ کیا اس سے یہ محسوس ہوا کہ اردو شاعری نے عشق کے اظہار میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور عوام نے اردو شاعری کو ہاتھوں ہاتھ لیانیز عوامی طور پر اس کی بہت ہی زیادہ مقبولیت بھی ہوئی ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ اردو ڈرامہ کے زوال کے بعد جب فلمی دنیا کی چمک سامنے آئی تو عشقیہ اظہار کہیں یا پھر مطلقاً ڈ ائیلاگ کی بات کریں تو اسی زبان کو اپنا یا گیا اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ہند وستان میں آج بھی غیر اردو داں کو جب کسی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اردو جانتا ہے تو فورا سوال ہوتا ہے کہ آپ تو شاعری بھی جانتے ہوں گے ، پھر کچھ شعر سنادیجئے ۔ گویا پورے ماحول میں یہ نظریہ سرایت کرچکا ہے کہ اردو شاعری کی زبان ہے اور شاعر ی محبت کی زبان ہوتی ہے تو گویا اردو محبت کی زبان ہوئی ۔ اردو میں شاعری ہو اور محبت کا اظہا ر نہ ہو تو پھر بیجا ہوگا ۔ یقینا محبت سے عاری شاعری کی گئی ہیں لیکن ان میں بھی کہیں نہ کہیں ہدف سے محبت کا اظہار ملتا ہے ۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ایسی غزلیں کہی گئی ہیں جن کا تعلق عوام سے نہ کہ برابر تھا اور وہ پزل ہو کر رہ گیا تھا لیکن جلد ہی احساس ہوا کہ اردو کے مزاج سے ہٹ رہے ہیں تو پھر موضوعاتی سطح پر ہر قسم کی غزلیں کہی جانے لگیں ، دنیا بھر کے مضامین شامل کیے جانے لگے ساتھ ہی عشقیہ مضامین میں نئے نئے احساسات کے اظہار کے لیے عمدہ شاعری کی جانے لگی ۔ مشاعر ہ میں عشق و محبت اور طنز و مزاح کی شاعری پر داد وصولے جانے لگے اور اردو پھر سے عوام کے سر چڑھ کر بولنے لگی۔ غزل کے بارے میں امان حید ر کا کیا نظریہ ہے وہ ان کی مندرجہ ذیل غزل سے ظاہر ہوتا ہے ۔ 

جو ہوش کھودے بس ایسی غزل کہی جائے

غزل کے شہرمیں ویسی غزل کہی جائے

تلاش کرتا ہوں الفاظ اُن کے جیسے ہی

ہے فکر ان کی ہی جیسی غزل کہی جائے

جناب میر کی غزلیں بھی یاد آنے لگیں

پھر ان کے حسن پہ ایسی غزل کہی جائے

یوں ان کے لب  پہ ہنسی آئے شاعرانہ سی

کچھ اس طرح سے بھی میٹھی غزل کہی جائے

تمہارے آنے سے دل باغ باغ ہونے لگا

تمہی بتاؤ کہ کیسی غزل کہی جائے

امانؔ نفرتیں پھیلی ہیں ساری دنیا میں

کہ اب تو درد کو سہتی غزل کہی جائے

مندرجہ بالا غزل کا ہر مصرع کہہ رہا ہے کہ اردو شاعری میں غزل کا مزاج کیا تھا اور ہر شاعر کیسی غزلیں کہنا چاہتا ہے ۔غزل کا اسلوب کیا ہو،ماحول کیا ہو، تغزل کا معیار کیا ہو،تاثر کیسا ہو الغرض غزل کی جو شناخت ہے اسی پر قائم رہنے کو ہی امان حید ر ترجیح دیتے ہیں ۔

اس پورے مجموعے کی ہر غزل اور گیت کے مطالعہ سے یہی احساس ہوتا ہے کہ موصوف نے بہت ہی کم لکھا ہے لیکن جو بھی لکھا ہے پختہ اور بہترین کے دائرے میں آتا ہے ، ایسا احساس نہیں ہوتا ہے کہ آورد کو برتا گیا ہے بلکہ آمد کی مکمل کیفیت نظر آتی ہے جس سے ان کے اشعار میں روانی کا پتہ چلتا ہے ۔ امید کہ ان کی یہ شعری کاوش قبولیت سے سرفراز ہوں ۔

امیرحمزہ 

دہلی 


دہلی میں ادب اطفال کے اشاعتی مراکز

 دہلی میں ادب اطفال کے اشاعتی مراکز 

 امیر حمزہ 


  یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں تخلیق کا کوئی ادارہ نہیں ہوتا جہا ں تخلیق کار پیدا کیے جاتے ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہی ادارہ مینوفیکچر ہوتا اور سپلائر بھی۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکا کہ کمپنیو ں کی طرح اشاعتی اداروں کے نام سے کتابیں بک رہی ہوں بلکہ ہمیشہ تخلیق کار کے نام سے ہی کتابیں بازار میں دستیاب ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ادیبوں کو شناخت دینے میں اشاعتی اداروں کا اہم کردار رہا ہے۔ گویا اپنے فن کو پیش کرنے کا یہ عمدہ پلیٹ فارم انہیں ملا ہوا ہے۔ اگر کسی ادیب کی کوئی کتاب ایک چھوٹے سے ادارے نے شائع کی اور وہ فورا ًمالی اعتبار سے کامیاب ہوگیا تو پھر اسی ادارے کی فرمائش ہو تی تھی کہ اب آپ دوسری کتاب کی تیاری میں لگ جائیں۔ اسی طریقے سے کئی ادیب شہر ت کی بلندیوں تک پہنچ گئے جن کے بارے میں ہم بخوبی جانتے ہیں۔ سلسلہ وار تحریریں لکھنے والوں کے نام اس فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جن کی تحریریں اشاعتی اداروں کے پلیٹ فارم سے کثیرافراد تک پہنچیں اورانہوں نے اپنے حلقہ کو وسیع تر بھی کیا۔

کچھ ایساہی معاملہ ادب اطفال کا بھی ہے کہ چنندہ اداروں نے اپنے مخصوص ادیبوں کو تھام لیا اور ان کی کتابوں سے انہیں بہت منافع حاصل ہوا ، نتیجتاً وہ ادارے ان کی کتابوں کی وجہ اور ادیب ان اشاعتی اداروں کے ذریعے پہچانے گئے۔ اس کے لیے مثال کے طورپر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز دہلی کو پیش کر نا چاہوں گا جس نے مائل خیرآبادی اور افضل حسین کی کتابیں شائع کیں۔ اسی طریقہ سے بچوں کی درسی کتابیں شائع کرنے والے پرائیویٹ میں الجمعیۃ ہے جو اپنی ہی کتابوں پر منجمد ہوکر رہ گئی۔ لیکن باضابطہ جس ادارے نے ادب اطفال کو فروغ دیا اور اس نے کئی ادیب بھی پیدا کیے وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مکتبہ جامعہ لمیٹد ہے۔ اس ادارے کا قیام ہی ڈاکٹر ذاکر حسین نے بچوں میں کتابوں کے فروغ کے لیے کیا تھا، جس میں سب کی ذمہ دار ی بھی طے ہوگئی تھی کہ کون کیا لکھے گا۔ یعنی انہوں نے باضابطہ ایک تجربہ گاہ بنایا ساتھ ہی اشاعت کا مرکز بھی۔
 خیر یہ تو تکنیکی بات ہوئی کہ کون کس تکنیک پر عمل کرتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ بچوں کا ادب کیسے فروغ پاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دہلی ہندوستان کا مرکز رہا ہے اور سیاحتی اعتبار سے جامع مسجد جہاں پر ہندوستان بھر سے لوگ آتے ہیں اور یہاں کی چیزوں سے ان کی نظر یں ٹکراتی ہیں جہاں اردو بازار بھی تھا اب بازار ہے لیکن اردو نہیں۔ ایک زمانہ میں صرف پرانی دہلی میں 210 اور نئی دہلی میں 225 ایسے کتب خانے تھے جو اردو کی کتابیں بیچتے تھے۔ لیکن ان کے زوال کا معا ملہ یقینا سپلا ئی کا نہ ہونا ہے۔ اُس زمانے کی بچوں کے لیے لکھی گئی تحریرو ں کی بات کریں تو بہت ہی کم ایسی کتابیں منظر عام پر آئیں جو کہانیوں اور نظموں پر مشتمل تھیں۔ ان کو الگ سے شائع نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس کمی کو اس وقت کے رسالے پورا کررہے تھے جس میں شمع گروپ کا ’کھلونا‘ سب سے مشہور تھا۔ وہ رسالہ عام اردو گھروں کی ضرورت کو پوری کردیتا تھا ،باقی دیگر جتنے بھی ادارے تھے، سب مذہبی اور نیم مذہبی کتابوں کی اشاعت میں لگے ہوئے تھے کیونکہ ان کی مارکیٹنگ اچھی تھی۔ ایسے میں ادب اطفال کے اعتبار سے وہی ادارے معتبر ہوئے جنہوں نے بچوں کے لیے کتابیں شائع کیں اور اپنے لیے تجارت کا ذریعہ بھی پیدا کیا لیکن ایسے ادارے بہت ہی کم نظرآتے ہیں۔ البتہ ابھی جو چنندہ ادارے ہیں اور ان کے یہاں بچوں کے لیے خصوصی طور پر کتابیں شائع ہوتی ہیں ان متحرک و فعال اداروں میں قومی کونسل ، نیشنل بک ٹر سٹ ، اردو اکادمی دہلی ، مکتبہ جامعہ ، الحسنات، نرالی دنیا اور مر کزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ہیں۔
بچوں کی کتابوں کی دو دھارائیں بہتی ہیں ایک مذہبی اور دوسری غیر مذہبی۔ دونوں کے اشاعتی اداروں کے معاملات بھی الگ  الگ ہیں۔ جو غیر مذہبی کتابیں شائع کرتے ہیں وہ عموماً سرکاری اور نیم سرکاری ادارے ہیں۔ سرکاری اداروں میں مراعات ملنے کے باوجود عام کتابوں کی قیمت کم نہیں ہوپاتی ہے جبکہ نجی پبلشرزجو زیادہ تر مذہبی کتابیں شائع کرتے ہیں، وہ کم قیمت پر کتابوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ایسے میں ادب اطفال کا کتنا فروغ ممکن ہے وہ آپ سمجھ سکتے ہیں۔
اردو اکادمی دہلی،دہلی کا قدیم ترین ادارہ ہے، جہاں عمدہ طباعت کے ساتھ ’ماہنامہ امنگ‘ پابندی سے شائع ہوتا ہے۔ اس کی جملہ 185 طباعتوں میں سے صرف 12 کتابیں ادب اطفال کی ہیں۔ جب کہ پبلی کیشن ڈویژن کا اردو سیکشن بہت مختصر ہے لیکن وہاں بھی 100 سے زائد کتابیں چھپ چکی ہیں پھر بھی 10 سے زیادکتابیں بچوں کے لیے ہیں۔
قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو ، ہندوستان کی سطح پر اپنا ایک منظم اشاعتی ڈھانچہ رکھتا ہے۔ اس نے تقریباً ہر فن پر کتابیں شائع کی ہیں جن میں سے ترجمہ اور غیر ترجمہ دونو ں ہیں۔ جدید کیٹلاگ کے مطابق کل 1381 ٹائٹل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ان کے یہاں ادب اطفال کا ایک بہترین گوشہ ہے، جس میں قسم قسم کی کتابیں شامل ہیں لیکن ادب اطفال کے کل ٹائٹل کی تعداد 354 ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ باعتبار فروختگی اس سیکشن کا سرکو لیشن زیادہ ہے اور باعتبار موضوعات پورے ہندوستان میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ لیکن کل سرکو لیشن کی بات کی جائے تو ہندوستان کے دیگر اداروں میں اس کی بچوں کی کتابیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے کونسل ہی بتاسکتی ہے۔البتہ ’بچوں کی دنیا‘ کا سرکلوشین پچاس ہزارتجاوز ہوجاتا ہے جو قابل تعریف ہے۔
 اب آتے ہیں ’نیشنل بک ٹر سٹ‘ پر جو ہندوستا ن کا معتبر اشاعتی ادارہ ہے جہاں سے ہندوستان کی تقریباً ہر زبان میں کتابیں شائع ہوتی ہیں، اس کے موجودہ کیٹلاگ کے مطابق 422 اردو کے ٹائٹل چھپے ہیں، جن میں سے تقریبا ً 350 کتابیں بچوں کے لیے ہیں۔ اتفاق سے اکثرکتابیں ترجمہ شدہ ہیں۔ یہ کتابیں شائع تو ہوچکی ہیں لیکن دیگر تجارتی مراکز پر بالکل بھی نظر نہیں آتی ہیں۔
 ’مکتبہ جامعہ‘ ہندوستان کا قدیم ترین اشاعتی ادارہ ہے۔ اس ادارے نے ایک لمبا سفر طے کیاہے، اس کی دو ذیلی شاخیں بھی ہیں، جو اب کسمپر سی کے دور سے گزر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس ادارے نے اب تک تقریباً 6000 ٹائٹلس چھا پےہیں، اس ادارے کو ’یونیسکو‘ کی جانب سے پریس بھی ملا جو ’لبرٹی پریس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن ایک عرصے سے یہ بند پڑا ہوا ہے۔ اس ادارہ کی بوانہ میں اپنی زمین بھی ہے۔ ایک زمانہ میں اپنی نشریات کی وجہ سے بہت ہی زیادہ فائدہ میں چلنے والا ادارہ، اب خود بوجھ سا بن گیاہے۔ پروفیسر خالد محمود کے زمانے میں قومی کونسل سے ایک قرار داد کے مطابق نشاة ثانیہ کی کیفیت نظر آئی مگر اب پھر اس کی وہی حالت ہے۔ ا ن چھ ہزارکتابوں میں ایک اندازے کے مطابق نصف کتابیں تو بچوں کے لیے ہی ہوںگی ،مگر اب شاید ہی ان کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ ہو۔
 نجی اداروں میں ’فرید بک ڈپو‘ نے اب تک گیارہ ہزار ٹائٹلس شائع کیے ہیں، ایک اندازہ کے مطابق ان کے یہاں بھی بچوں کی کتابیں ہزاروں میں ہوں گی لیکن ان میں سے اکثر کا تعلق مذہبیات سے ہے۔ ہزاروں تاریخی اور اسلامی کتابیں اس ادارہ نے بچوں کے لیے شائع کی ہیں۔ مگران کی فائل کاپیاں بھی ان کے پاس اب نہیں ہوں گی جس سے ان مصنّفین کا پتہ لگا یا جائے۔اس ادارے کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ گاؤں دیہات میں جو جلسے ہوتے ہیں یا چھوٹے شہروں میں جو کتب خانے ہوتے ہیں، ان کو یہ کتاب سپلائی کرتے ہیں اور ہر موضوع پر انھیں سستی سے سستی کتابیں دستیاب کراتے ہیں۔ اس طرح دور دراز علاقوں میں ان کی کتابیں پہنچ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس ادارے نے ’جیبی کتابیں‘ بھی بہت زیادہ شائع کی ہیں جس کا فائدہ یہ ہوا کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے کتابوں کی جانب راغب بھی ہوئے۔ الغرض اس ارادے نے مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے لحاظ سے اپنی تجارت کارخ تبدیل کیا، جس کے سبب مشہورمصنفین کے علاوہ غیرمشہورمصنّفین کی تصنیفات تک عام قاری کی رسائی ہوسکی ۔
 ’ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس‘بہت ہی بڑا ادارہ ہے اور دہلی میں اس کا دفتر سب سے عالیشان ہے لیکن ’بحق ناشر‘ والی کتابیں اس کے پاس بہت ہی کم ہیں۔ اکثر کتابیں ’بحق مصنف‘ والی ہیں۔ اس سے سمجھ سکتے ہیں، اس کی اولیت کتاب کی نشرو اشاعت نہیں بلکہ طباعت ہے۔اس کا ایک ذیلی مکتبہ بھی ہے، جس کے تحت وہ بچوں کی ادبی اور دیگر مذہبی کتابیں شائع کی جاتی ہیں۔
 ’اسلامک بک سروس‘ ایک مشہور ادارہ ہے، جہاں سے صرف اسلامی کتابیں نشر کی جاتی ہیں۔ان کتابوں میں بالغین کے علاوہ کچھ کتابیں بچوں کے لیے بھی ہوتی ہیں۔ ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اس کی کتابیں منظم طریقے سے پہنچتی ہیں۔مگراسے بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے والے ادارے کی شناخت حاصل نہیں ہے۔

آج کل ’الحسنات‘ (دہلی) کی کتابوں کی مانگ بڑھ رہی ہے۔پاپولرموضوعات پر کتابیں شائع کرنا اس کی اوّلیت ہے۔ بچوں کے لیے قسم قسم کی اسلامی و ادبی کتابیں شائع کرکے یہ ادارہ اپنی شناخت بنارہا ہے۔ ایک ٹیم ورک کی طرح کام کرنے کی وجہ سے اسے جاذب نظر اورخوب صورت کتابیں شائع کرنے میں نہ صرف مددملتی ہے بلکہ اس کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو رہاہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی ایسے ادارے ہیں جو انفرادی طور پر بچوں کی کتابیں شائع کرتے ہیں۔ان میں ایک قابل ذکرنام ’ہنی بُکس‘ کاہے۔ اب تک یہاں سے آٹھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔


 


شہزادہ پرویز عالم


 شہزادہ پرویز عالم


یہ میری بد قسمتی تھی کہ ڈاکٹر اقبال برکی سے اس کتاب سے پہلے کسی قسم کی بھی شناسائی نہیں تھی ۔ انہوں نے نہیں معلوم کہاں سے میرا نمبر حاصل کیا اور واٹس ایپ کے ذریعہ میرا حالیہ پتہ دریافت کیا ، تب بھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ کون صاحب ہیں اور کیوں میرا پتہ دریافت کررہے ہیں ۔ خیر جب ان کی یہ تینوں کتابیں مجھ تک پہنچی تو خوشی ہوئی ۔ جب اس میں بچوں کا ناول ’’شہزادہ پرویز عالم ‘‘ دیکھا تو اور بھی خوشی ہوئی ۔ بچوں کی کہانیاں لکھنے والے ادیبوں کی کثر ت ہے لیکن بچوں کے لیے ناول لکھنے والوں کی تعدا د شاید دس تک بھی نہیں پہنچتی ہو ۔ کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام نے خارجی مطالعے کو بچوں کے نظام الاوقات سے بالکل خارج کر دیا ہے اور دلچسپی نے کچھ اور راہ اختیار کرلی ہے ۔ حقیقت ہے کہ اب بہت ہی کم ادب بچوں کے لیے لکھا جارہا بلکہ بچوں کا ادیب بننے کے لیے بچوں کا ادب لکھا جارہا ہے ۔ صاف سی بات ہے مسئلہ قاری کا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب قاری ملکی سطح پر ملتے تھے ۔ ابھی اگر صرف مالیگاؤں کی بات کی جائے تو وہاں تقریبا ًبیس ایسے افراد مل جائیں گے جو بچوں کا ادب لکھ رہے ہوں گے لیکن اگر بچوں کے درمیان ان تخلیق کاروں کے بارے میں معلوم کیا جائے تو جواب صفر میں آئے گا ۔ بچوں کی بات الگ گزشتہ سال ہی میر ی کتاب( ادب اطفا ل ۔ ادب اور ادیب) پر شکایت کرتے ہوئے ایک صاحب نے یہ کہا کہ اس کتاب میں مالیگاؤ ں کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔ اور انہوں نے دو تین کتابوں اورمقالات کا ذکر کیا جن میں باضابطہ مالیگاؤں میں ادب اطفال پر خصوصی اور کافی تحریریں موجود ہ ہیں۔ ساتھ ہی انہوںنے اپنے طور پر مالیگاؤ ں کے دس اہم ادیبوں کا ذکر کیا جن میں اتفاق سے ڈاکٹر اقبال برکی کا نام شامل نہیں تھا جب کہ صرف بچوں پر ان کی تقریباً پندرہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں پھر بھی ان کا نام نہ ہونا اب مجھے باعث تعجب لگا ۔
خیر یہ ان کی آپسی بات ہے ۔
کتاب ملنے کے دو دن بعد کل جب یہ کتاب پڑھنا شروع کیا تو دلچسپ کہانی کے باعث پڑھتا ہی چلا گیا ہے اور اس 128 صفحات کو عصر سے رات سونے تک وقفہ وقفہ سے پڑ ھ کرجب مکمل کیا تو خاصہ سرو ر اور سکون ملا، یہی اس کتاب اور ادب کی کامیابی ہے کہ وہ آپ پر کوئی تاثر چھوڑجاتی ہے اور تھکاتی نہیں ہے ۔( زبانی سطح پر آج مجھ پر ایک انکشاف یہ ہوا کہ گزشتہ زمانے میں دلی اور لکھنؤ کی زبان ہوتی تھی لیکن آج اکیسویں صدی میں یونیورسٹیوں کی نثر ی زبان بھی کچھ اسی قسم کی ہے ، جہاں ایک مشہور یونی ورسٹی سے فارغ التحصیل ایسی نثر لکھتے ہیں جس کے ہر جملے میں خشک نظر یے نظر آتے ہیں ، حتی کہ تعزیتی تعزیتی پیغام میں بھی تجریدیت ، علمیت اور جرمن عربیت کی بنت سے چاشنی سے خالی تحریر لکھ جاتے ہیں اور اس میں انہیں پتہ ہی نہیں چلتا ہے کہ معاون حروف کا معاون افعال سے رشتہ غلط مقام پر قائم ہورہا ہے ۔ وہ اردومیں عربی زدہ زبان کے خلاف رہے ہیں لیکن عربی الفاظ کو دُم بُرید کر کے وہ اپنے لیے نئے اسلوب کی دنیا تلاشتے ہیں ۔ اس کاسابقہ تو ابھی پڑا لیکن سرا تلاش کرنے کے لیے دماغ پر زور ڈالا تو یاد آیا کہ یونیورسٹی کے کورس میں بطور ریفرینس بک اسی یونی ورسٹی کے ایک فاضل کی کتاب داخل تھی باوجود تمام کوشش کے ایک صفحہ کیا ایک پیرا گراف بھی نہیں پڑھاگیا۔وہی حال اب بھی جاری ہے ) جب آپ عمدہ زبان پڑھیں گے تو وہ آپ کو تھکائے گی نہیں بلکہ فرحت بخشے گی ، ساتھ ہی ان کے یہاں جملے رواں دواں ملیں گے ۔ اسی وجہ سے آپ کو زبان سیکھنے کے لیے انشاپردازوں کی کتابوں کی جانب رہنمائی کی جائے گی ۔ جہاں زبان کی چاشنی آپ کو بھر پور انداز میں ملے گی ۔ )ناول نگاروں کی طرح بیچ بیچ میں اپنی کھوپڑ ی سے زبر دستی فلسفہ نما جملوں کو داخل کر نے کی کوشش نہیں کی گئی ہے ۔ اسلوب بالکل سادہ اور دلچسپ ہے زبان بالکل عام ہے جو ساتویں کلاس کا بچہ آسانی سے سمجھ سکے ۔
کہانی کا مکمل حصہ تو نہیں لیکن کچھ حصہ مافوق الفطری عناصر پرمشتمل ہے جو بچوں کوبہت زیادہ لبھاتی ہے ۔ شروع میں تخلیق کار نے اپنی بات شامل کر نے کی ایک مقام پر کوشش کی لیکن فوراً ہی کہانی پر واپس آگئے ۔ پھر آگے کہیں ایسا دیکھنے کو نہیں ملا ۔ بچوں کو باندھے رکھنے والاکر دار بدصورت لڑ کی کا کردار ہے ۔ خوبصورت شہزادے کی کہانی میں کسی مقصد کا حصول نہیں ہے بلکہ مقصد تو اس لڑکی کی کہانی میں ہے جس کے حصول میں قاری بھی لگا رہتا ہے ۔ایک زبر دست کمال اقبال برکی اس کتاب میں یہ نظر آئی کہ انہوں نے قاری کو کسی کردار کا ہمدرد بنانے کی کوشش نہیں کی جو عموما غیر شعوری طور پر فن کا ر کرجاتے ہیں کہ قاری کرجاتے ہیں بلکہ یہ ان کا ہنر بھی ہے کہ ساری توانائی کسی ایک کردار کو سنوارنے میں صرف کردیتے ہیں پھر قاری سے پوچھتے ہیں کو آپ کو کون ساکردار اچھا لگا ، ایسے میں قاری کے پاس ایک ہی کردار کے علاوہ دوسرے کردار کی گنجائش بھی نہیں بچتی ہے ۔ خیر ! کہانیوں میں ٹارگیٹ کا ذکر کرجانا قاری پر قابو پانے کا ایک خوبصورت حربہ ہے ، جو اس طرح بھی نہ کیا جائے کہ خبر بن جائے اور نہ اس طرح کیا جائے کہ قاری پر منشا ء کا اظہار بھی نہ ہوسکے ۔ کہانی میں زبان بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔ بیانیہ ( یہ لفظ میں شاید پہلی مر تبہ استعمال کررہاہوں ) میں قاری پر کہانی میں موجود ہونے کی کیفیت طاری کرنے کے لیے ہمیشہ حال کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔ جس سے قاری ’’ ہوتا تھا ‘‘ سے نکل کر ’ہوا ‘ اور ’ہوتا ہے‘ میں آجائے ۔ جیسے ماضی کے اظہار کے لیے آپ دوجملے لکھیں گے ایک بہت پرانے زمانے کی بات ہے دو سرا بہت پرانے زمانے کی بات تھی ۔لا محالہ پہلے سے قاری اٹیچ ہوجائے گا اور دوسرے سے نہیں ہوپائے گا ۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہر مقام پر آپ ایسا معاملہ کریں بلکہ متن کی جہری قرات سے آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ کی زبان پر کیا اچھا لگ رہا ہے ۔
پر وف ریڈر کے پیشہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھ میں ایک خراب عادت یہ آن پڑی ہے کہ حرف بحرف پوری تحریر پڑھتا ہو ں اور قلم زد بھی کرتا جاتا ہوں، اس کتاب میں بھی کئی مقام پر عطف میں کوتاہی نظر آئی ، جہاں کا ما سے خوبصورتی آتی وہاں حرف عطف اور وصل کے استعمال نے کچھ اچھا نہیں کیا ۔ جملوں میں لفظ ’’ تھا‘‘ کئی مقام پر زائد نظر آیا ، ایسی چند اور چیز یںد یکھنے کو ملیں جن پرغور کیا جاسکتا ہے لیکن کہانی کے پلاٹ ، ارتقا ء اور اختتام پر کوئی کلام نہیں ۔ اس کتاب سے احساس ہوا کہ یقینا آپ ایک عمدہ کہانی کار ہیں ۔

شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعی

 شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعی 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جو اپنے وجود سے لیکر اب تک سب سے زیادہ مذہب سے قریب رہی ہے ۔ فارسی زبان میں جب رباعی کی شروعات ہوئی تو اس وقت اسلام پور ے خطہ میں پھیل چکا تھا اور مذہبی تعلیمات ومعاملا ت داخل و خارج زندگی میں پوری طر ح سرایت کر چکی تھی۔ اب تک کا تحقیق شدہ قول یہی ہے کہ رباعی کی شروعات تیسری صدی ہجر ی میں ہوئی تا ہم جب پانچویں صدی ہجر ی میں خیام اس صنف سخن کو اپنا تا ہے اور اس کو کمال تک پہنچاتا ہے تو وہ اس میں موضوعات کے اعتبار سے سب سے زیادہ فلسفہ زندگی کو جگہ دیتا ہے اور خدا سے فلسفیانہ اندازمیں تعر یف کے ساتھ مناجات بھی کر تا ہے ۔رباعی ہی وہ صنف سخن رہی ہے جو خانقاہوں میں سب سے زیادہ پلی بڑھی ۔بلکہ جس جس معاشر ے میں رباعی پلی بڑ ھی اس معاشر ے کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی ۔ صوفیائے کر ام کی محفلوں میںرہی تو حمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی ۔فارسی کے کئی رباعی گو شعرا کی صحبت میںجب پہنچی تو حکمت وفلسفہ کے آب حیات سے سر شار ہوئی ، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس کی پاکیزہ خیالی اور بلندی مضامین ، اکبر و حالی کی اصلاحی پاسداری ، امجد کا حکمت وفلسفہ ، جو ش میں الفاظ کے دبدبہ الفاظ و مناظر فطرت ، فر اق کی جمالیا ت و سنگھار رسسے اس نے اپنے آپ کو  خوب سنوارا۔اسی کو ڈاکٹر سلام سندیلوی نے ان الفاظ میں کہا ہے ۔

’’ولی کی معرفت نے ، میر کے عشق نے ، درد کے تصوف نے ، غالب کی معنی آفرینی نے ، انیس و دبیر اور رشید کے رثائی خیالات نے ، حالی واکبر کی اصلاحیات نے، جوش کی انقلابیت نے اور فراق کی سنگھار رس نے رباعی کو ایک سنجید ہ لب و لہجہ عطا کیا ۔ان حضرات کی رباعیات میں گہری سنجیدگی اور عمیق تفکر کی فضا پائی جاتی ہے ۔‘‘ 

( اردو رباعیات، سلام سندیلوی، ص ۵۷۵)ۙ

اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیاہے اور ان کی عکاسی کی ہے ۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودمخصوص موضوعات میں پابند نہیں کیا ۔رباعی میں اگر چہ اخلاقی ،مذہبی ، اصلاحی ، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ رہے ہیں لیکن دیگر تمام ممکنہ موضوعات رباعی میں پائے جاتے ہیں۔رباعی میں یہ لچک رہی ہے کہ وہ جس طر ح سے ہر زمانہ میں زندہ رہی اسی طر یقے سے موضوعات کو قبول کرنے میں کبھی بھی کوتا ہ دست نہیں رہی ۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ نئے موضوعات کے آنے کی وجہ سے پرانے موضوعات سر دبستہ میں چلے گئے ہوں بلکہ تمام موضوعا ت نئے رنگ و ڈھنگ میںشعرا کی مشق کی زینت بنتے رہے ہیں اور حمد ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی قدیم اور فرسودہ نہیں ہوسکتا ۔ حمد کے متعلق علما ء کیا کہتے ہیں ہلکی سی نظر اس پر ڈالتے ہیں ۔

 نووی کہتے ہیں ’’خدا تعالی کی ذات و صفات اور ان کے افعال کو زبان سے بیان کر نا حمد کہلاتا ہے ۔ اللہ تعالی کی تعریف کر نا ان کے انعامات کے اوپر شکر کہلاتا ہے ۔ اس طر یقے سے ان کے نزدیک ہر شکر حمد کے دائرہ میں آجاتا ہے اور حمد شکر کے دائر ے میں نہیں ہے آتا ہے ۔ حمد کا ضد ذم ہے اور شکر کا ضد کفر ہو تا ہے‘‘ ۔

ابن حیان کہتے ہیں ’’حمد اللہ تعالی کی تعر یف بیان کر نا ہے صرف زبان کے ذریعہ سے ۔ اور لسان کے علاوہ جن چیزوں سے ان کی بزرگی کا اظہار کیا جائے گا وہ حمد نہیں بلکہ شکر یہ کہلائے گا ۔‘‘ 

امام رازی کہتے ہیں ۔’’حمد : اللہ تعالی کی تعریف بیان کر نا ہے ہرنعمت پر خواہ وہ نعمت تعر یف بیان کر نے والے تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو ۔ اور شکر اللہ تعالی کی انعامات پر تعر یف بیان کر نا اس طور پر کہ وہ انعامات تعر یف بیان کر نے والے اور شکر ادا کر نے والے تک پہنچے ہوں ۔ 

حمد میں محبت اور عظمت میں محمود کی تعر یف بیان کر نا ہے ۔ یعنی جس میں محبت اور عظمت کا عنصر موجود ہو حمد کہلاتا ہے 

شکر میں محض تعر یف بیان کر نا ہوتا ہے خواہ دل میں عظمت ہو یا نہ ہو ۔‘‘(تر جمہ از معجم الشامل )

الغر ض لغوی اعتبار سے حمد مطلقاً زبانی تعریف کو کہتے ہیں خواہ وہ نثر میں ہو یا شعرمیں۔ اس طریقہ سے حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو او رخدا کی ذات اور صفات کا اس طر ح ذکر کیا جائے کہ اس میں اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہو اور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے قلبی تعلق بھی ظاہر ہوتا ہو۔ خواہ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہویا انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے ۔اس میں کائنات کی وسعتوں کے ذریعے رب کی بڑائی کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا اظہار ہو۔ سب حمد کے دائرہ میں آتا ہے ۔ اللہ نے قرآن میں ہی ذکر کر دیا ہے کہ’ ’ اللہ ہر دن ایک نئی شان میں نظر آتا ہے ‘‘ اسی طر ح سے بندے کے اندر بھی یہ صفت ودیعت کی ہے کہ اس کی بھی حالت ہمہ وقت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔لسانی طور پر بھی جب کسی سے بات کر تا ہے تو ہر وقت الگ الگ لہجہ اپنا تا ہے اگر لہجہ الگ الگ نہیں بھی اپنا سکا تو انداز الگ الگ ہو تاہے اور خدا کی تعریف میں جب رطب اللسان ہوتا ہے تو نئے نئے طر یقے اورلفظیات سے اس کی تعریف کرتا ہے ۔ اسی طر یقے سے ابھی جب شمیم انجم وارثی کی حمدیہ رباعیوں پرنظر ڈالیں گے تو اس میں بھی تنوع نظرآئے گا ۔

رباعی کا تعلق کبھی بھی موضوعاتی پابندیوں سے نہیں رہا ہے ۔ شروع سے ہی اس صنف سخن نے اپنے اندر علم و حکمت ، فلسفہ و حسن اور اصلاح و تصوف کے موضوعات کے ساتھ دیگر موضوعات کو بھی اپنے دامن میں بہت خوبصورتی سے سجائے رکھا ہے ۔ ساتھ ہی صوفیائے کرام نے خدا کی ذات و صفات کو سب سے زیادہ رباعیوں میں ہی بیان کیا ہے ۔ رباعی کی ابتدا سے لے کر اب تک تقریبا تمام رباعی گو شعرا کے یہاں حمدیہ رباعیاں مل جاتی ہیں ۔ اس کورباعی کی خوش نصیبی کہہ لیں کہ کئی شعرا اپنے شعری مجموعوں کی شروعات رباعی اور وہ بھی حمدیہ رباعی سے کرتے ہیں ۔ 

 روایت کی پاسداری کرتے ہوئے شمیم انجم وارثی نے بھی حمدیہ رباعیاں کہی ہیں ۔یہاں ان کی حمدیہ رباعیوں کا جائزہ لیں گے اس سے پہلے ان کے متعلق کچھ ر قم کرتا چلوں ۔جب میں اپنا ایم فل کا مقالہ رباعیوں پر لکھ رہا تھا تب ان کا رباعیوں کا دیوان ’’ورق ورق شمیم ‘‘ سے متعارف ہوا ۔ میں بھی ادب میں نووارد تھا اس لیے میں بہت کچھ نہیں جانتا تھا، وقت گزرتا گیا اور ان کو مختلف پلیٹ فارم پرپڑھتا رہا کہ اسی در میان گزشتہ برس ان کی رباعیوں کا دوسرا مجموعہ ’’ قطرہ قطرہ مشک ‘‘ سے بھی روشناس ہوا ۔ پھر جب دونوں کتاب کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا تب معلوم ہوا کہ موصوف ارد و رباعیوں کی سیاحی بہت عرصے سے کررہے ہیں لیکن ان کا دیوان بہت بعد میں منظر عام پر آیا اور ان سے قبل بنگال کے کئی شعرا کے مجموعے سامنے آگئے ۔ رباعیوں سے قبل دیگر اصناف میں ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ اتفاق سے ان کا پہلا شعری مجموعہ نعت پر تھا اور تادم تحریر جو آخری مجموعہ ہے وہ بھی مدحیہ اصناف پر ہے ۔ سب سے پہلے ’’ورق ورق شمیم ‘‘ کی رباعیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس میں انہوں نے کیسی حمدیہ رباعیا ں کہی ہیں ۔واضح رہے کہ متذکرہ بالا کتاب بصورت دیوان ہے، اس لیے اس میں موضوعاتی ترتیب نہیں ہے توجب مکمل دیوان پر نظر ڈالتے ہیں تو درج ذیل رباعیاں سامنے آتی ہیں جنہیں متذکرہ بالا تعریفات کے سانچے میں مدحیہ میں رکھ سکتے ہیں ۔ 

تیرا ہے فلک ، تیری زمیں ہے یارب 

قدرت پہ تیری عین یقیں ہے یارب 

ہے ناز جبیں سائی مجھے جس کے حضور 

وہ تیرے سوا کوئی نہیں ہے یارب


جو فصل بہاراں پہ چڑھی ہے رنگت 

جو قلب گل تر میں بسی ہے نکہت

حکمت نہیں انسان کی اس میں کوئی 

یہ کار عجوبہ ہے خدا کی قدرت 


ہے تو ہی ازل اور ابد یا اللہ 

ہے تو ہی احد ا ور صمد یا اللہ 

مجھ سے ہو تری حمد و ثنا نا ممکن

معلوم ہے مجھ کو مری حد یا اللہ 


ہر گوشہ عالم میں دھمک تیری ہے 

 ہر پھول کی سانسوں میں مہک تیر ی ہے 

ہر سو ہے ضیا بار ی ترے جلووں کی 

مہر و مہ انجم میں چمک تیر ی ہے


میں قطرہ ہوں اور لطف کا دریا تو ہے

ہر منزل مقصود کا رستہ تو ہے 

کس منہ سے حمد کروں تری ربِّ کریم

میں بندہ ناچیز ہوں مولا تو ہے 


پھولوں میں بسی ہے جو مہک تیر ی ہے 

لاریب! ستاروں میں چمک تیری ہے 

پوشیدہ ہر اک شئے میں ہے جلوہ تیرا

ہر دل میں جو اٹھتی ہے کسک تیری ہے 

 ان رباعیوں کے علاوہ اور بھی کئی رباعیاں تھیں جن کے شروع کے مصرعوں میں حمدیہ عناصر تھے اور چوتھا مصرع دعائیہ تھا توانہیں یہاں میں نے شامل نہیں کیا ۔ ان چھ رباعیو ں پر نظر ڈالیں تو پہلی میں ربوبیت ، دوسری میں خلاقیت ، تیسر ی میں عجز عن الحمد ، چوتھی میں وحدۃ الشہود ، پانچویں میں وحدۃ الوجود ، ایصال الی المطلوب اور عجز عن الحمدبھی ہے ۔ آخری رباعی پر نظر ڈالیں تو وہ بھی وحد ۃالشہود کی شہادت دے رہی ہے ۔ ان رباعیوں سے حمد کے طریقوں پر نظر پڑتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شاعر خدا کی حمد میں کس صفت کو سب سے زیاد ہ سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے۔ حمد کا یہ بھی خوبصورت طریقہ رہا ہے کہ اس کی ذات کی تعریف کے لیے ہم عاجز ہیں جس کا ذکر خدا نے خود ہی قرآن پاک میں کیا ہے’’ قل لو کان البحر مدادا لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ‘‘(سمندر کور وشنائی تسلیم کرلیں تب بھی خدا کی تعریف مکمل نہیں ہوپائے گی اور سمندر خشک ہوجائے گا) اسی عجز کو خوبصورت انداز میں بیان کرنا بھی حمد کے دائرے میں آتا ہے ۔ اب ان رباعیوں کے آخر ی مصرع پر نظر ڈالیں جن سے رباعی کی عمدگی کا پیمانہ طے ہوتا ہے کیونکہ رباعی میں آخر ی مصرع جتنا جاندار و شاندار ہوتا ہے رباعی بھی اسی معیار کی ہوتی ہے ۔ آخر ی مصرع مکمل ایک اکائی کی کیفیت کا طلبگار ہوتا ہے جس کے بعدوہ ضرب المثل بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔یہ رباعی کی عمدہ سے عمدہ ترین ہونے کی نشانی ہے ، ظاہر ہے یہ تمام رباعیوں میں ممکن نہیں اور نہ ہی تمام شاعروں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اس کیفیت کو مد نظر رکھ کر رباعیاں کہیں۔ البتہ فارسی رباعی گوئی میں یہ صفت غالب تھی جس کا نتیجہ ہے کہ عمومی تلاش سے بھی فارسی کے مصرع ضرب المثل کی صورت میں مل جاتے ہیں ۔ اردو میں اس کیفیت کی جانب توجہ ہی نہیں دی گئی ساتھ ہی شہر ت کی بات ہے کہ یہاں غزل کے مصرعوں کو جو شہرت ملی وہ دیگر اصناف کے مصرعوں کو نہیں مل سکی ۔ موصوف کے درج ذیل مصرعوں پر نظرڈالیں   

ع ہے اور حسینوں میں کہاں حسن نمک

ع ہم ان پہ فقط مرتے رہیں گے کب تک 

ع ایمان پہ مر تا ہے خدا کا عاشق 

ع مٹتا نہیں دشمن کے مٹانے سے عشق 

 ایسے اور کئی مصرعے مل جائیں گے جو یقینا ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جس شعر ی معاشرہ میں ہم جی رہے ہیں اس میں ایسی قسمت ہر کسی کو نہیں ملتی لیکن فن تو بہر حال فن ہے کبھی نہ کبھی تو اس جانب تو جہ دی جائے گی اور وہ اس وقت توجہ دی جائے گی جب عمدہ رباعیوں کا انتخاب ہوگا تو اس وقت موضوعات سے زیادہ اس عنصر پر توجہ دی جائے گی کہ کون سی رباعی کی کیفیت ’’از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘والی ہے ۔ 

  حمدیہ رباعی کی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے ’’قطرہ قطرہ مشک ‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں جو 2021 کے آخر ی مہینوں میں منظر عام پر آئی ہے ۔ یہ رباعیوں کا مجموعہ ہے جس میں تقدیسی رباعیاں پیش کی گئی ہیں ۔ان تقدیسی رباعیات میں حمدیہ ، نعتیہ اور منقبتیہ رباعیاں ہیں ۔ منقبت میں حضرت علی ؓ، حضر ت فاطمہ ؓ، حضرت امام حسن ؓ، حضرت امام حسین ؓ، حضرت عباس ، شیخ عبدالقادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی ، حضرت صابر کلیر ی ، حضرت سید اشر ف جہانگیر سمنانی ، حافظ وارث علی شاہ ، حضرت حاجی علی شاہ ،حضرت بو علی شاہ قلندر، حضور غوث بنگالہ ، حضرت نظام الدین اولیا ، حضرت امیر خسرو ، حضرت بیدم شاہ وارثی ، دیوانہ شاہ وارثی ، امام احمد رضا خاں و دیگر کئی اور بزرگان دین اس میں شامل ہیں ۔ 

حمدیہ رباعیات کی تعداد چھتیس ہے ۔اس میں انہوں نے تنوع لانے کی کوشش کی ہے ۔ زیادہ تر رباعیاں دعا سے تعلق رکھتی ہیں ۔ حمد و دعا لاز م و ملزوم کی صورت میں اکثر مقامات پر سامنے آتے ہیں ۔ اس میں پہلے دوسرے اور تیسرے مصرعے میں خدا کی حمد ہوتی ہے اور چوتھے مصرعے میں دعا ۔ بطور مثال ایک رباعی ملاحظہ ہو :

قرآن ہے انعام ترا رب کریم 

پر نور ہے پیغام ترا رب کریم 

جس وقت مری روح بدن سے نکلے 

ہونٹوں پہ رہے نام ترا رب کریم 

شروع کے دونوں مصرعے شکریہ کے ہیں جنہیں حمد کے زمرے میں بھی رکھا جاتا ہے تیسرا مصرع گریز کی بہترین صفت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور چوتھے مصرع میں دعا ہے ۔ بطور فن یہ ایک خوبصورت رباعی ہے ۔ بطور حمد بھی انہوں نے ذات خداوندی کی صفات کو پیش کیا ہے ۔حمد کے زمرے میں ہی انہوں نے ایک خوبصورت رباعی تحریر کی ہے جو حسن تعلیل کی سی کیفیت کے ساتھ سامنے آتی ہے :

 کلیوں کی زبان پر ہے سدا یا اللہ 

پھولوں نے بصد شوق پڑھا یا اللہ 

لاریب !ہواؤں نے لیا ہے بوسہ 

جب ریت پہ لہروں نے لکھا یا اللہ 

 حمدیہ رباعیات میں شمیم انجم وارثی نے اچھی کوشش کی ہے ۔ واضح رہے کہ تصوف سے حمدکا رشتہ بہت ہی قر یب کا رہا ہے ، کلاسیکی شاعری میں خدا کی ذات و صفات کو لے کر عمدہ شاعری کی گئی ہے ۔ واقعی میں اردو شاعری میں اس جانب خصوصی توجہ نہیں دی گئی بلکہ بقول پروفیسر مقبول احمد مقبولؔ:

’’تقدیسی شاعری کو بعض ناقدین کم نگاہی سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی شاعری میں عام طور پر کہنے کے لیے کچھ نہیں زیادہ ہوتا نہیں ۔ وہی بندھے ٹکے خیالات ہوتے ہیں جن میں عقیدت و احترام کا عنصر غالب رہتا ہے ۔ گویا یہ فضائے محدود ہے جس میں مرغ تخیل کو پرواز کا کوئی زیادہ موقع نہیں مل پاتا ۔ اسی لیے شاعری کے امکانات بھی کم اور بہت کم ہوتے ہیں ۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہر زمانے میں اور ہر زبان میں ایسی شاعری لکھی ، پڑھی اور سنی جاتی رہی ہے ۔ ‘‘

یہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر تقدیسی شاعری کی جانب بہت ہی کم تو جہ دی گئی ہے لیکن کلاسیکی شاعری کی جانب تو جہ کریںگے جو صوفیہ کے رنگ میں رنگی ہوتی تھی تو ان میں آپ کو احساس ہوگا کہ حمد کی تمام جزئیا ت کو سمیٹتے ہوئے کس قدر عمدہ شاعری کی گئی ہے خواہ وہ دیگر کسی بھی اصناف میں ہوں ۔ آخر میںڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی کے ایک اقتباس پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ، موصوف لکھتے ہیں : 

’’ شمیم انجم زندگی کے کسی مخصوص نظر یے کے حامی نہیں ہیں ۔ ان کی رباعیات میں خارجیت کی کار فر مائی زیادہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات مخصوص فضا اور محدود دائرے میں گردش کر تی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ شمیم انجم نے زندگی کا مطالعہ و مشاہدہ کھلی آنکھوں سے کیا ہے ۔ اس لیے زندگی کے محبوب و مخصوص مناظر و مظاہر کا اظہار ان کے یہاں پایا جاتا ہے ۔‘‘ 

متذکرہ بالا پانچوں جملے ادبیت سے معمور ہیں ، پہلے جملے میں ادبی نظر یے میں جانبداری کی نفی ہے ، جو اب شاید و باید ہی کسی نئے تخلیق کار کے یہاں پائی جاتی ہو ، البتہ مسلکی و مذہبی نظر یے کا عکس تخلیقات میں جھلک ہی جاتا ہے ، خو اہ فکشن ہویا شاعری ۔ دوسرے جملے میں خارجیت کی بات ہے جو اب تقریباً تمام کے یہاں پائی جاتی ہے ۔ تیسرے جملے میں جو بات کہی گئی ہے وہ اس سے قبل کا تفصیلیہ جملے کے طور پر درج ہے جس میں انہو ں نے مخصوص فضا اور محدود دائرے کی بات کی ہے اس اختصاص و تحدید کا اطلاق یقینا ’’ قطرہ قطرہ مشک ‘‘ کی فضا پر ہے اور اس فضا پر یقینا ماضی میں جو شاعر ی کی گئی ہے اس کا تعلق خارجیت سے نہیں بلکہ داخلیت سے ہوتا تھا ۔آخر کے دونوں جملے بھی ان کی شاعری کو محدود فضاسے نکال رہے ہیں اور ان کی شاعری میں جو حسن و عشق کے موضوعات پائے جاتے ہیں ان کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔الغرض موصوف کی رباعیات کی بات کی جائے تو انہوں نے نئے موضوعات کو بہتر انداز میں پیش کر نے کی عمدہ کو شش کی ہے ۔ موجودہ وقت میں جو بھی شعرا رباعی گوئی کی جانب مائل ہیںان میں کوئی اعلیٰ اور نہ کوئی ادنیٰ ہے ۔ تمام کے یہاں ایک جیسے ہی موضوعات پائے جاتے ہیں ، البتہ شمیم انجم وارثی کا اختصاص ہے کہ انہوں نے تقدیسی شاعری میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دی ہے جو وقت حاضر میں ان کا امتیاز ہے ۔




معصوم شرقی کی رباعی گوئی

معصوم شرقی کی رباعی گوئی 

ڈاکٹر امیر حمزہ

  رباعی اب اردو ادب میں حاشیائی صنف سخن نہیں رہی ،اکیسویں صدی کے ان دو دہائیوں میں اردو میں رباعی کا منظر نامہ تبدیل ہوا ہے۔ یہ تو عام ادراک کی بات ہوئی،کیونکہ ترسیلی وسائل کی آسانی نے بہت تیزی سے سب کچھ سامنے لا نا شروع کردیا ہے اور ہم ہندوستان بھر سے دیکھ رہے ہیں کہ کن ماحول میں اور کن خطوں میں کن اصنافِ سخن کی قدر بڑھ رہی ہے ۔ ساتھ ہی تنقید ی عمل شانہ بشانہ چل رہا ہے تو اس سے بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ تخلیق کی روایت میں وہ اپنا مقام کسی طرح بنا رہے ہیں یا یوں ہی صرف بطور تذکرہ شمار کر لیا جاتا ہے ۔ اس عمل میں یقینا دیگر وسائل کا بھی استعمال ہوتا ہے جہاں کچھ افراد زیادہ روشنی حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ مدھم روشنی میں ہی رہ جاتے ہیں ۔ یہ ہر تخلیق و فن کار کے ساتھ ہوتا ہے لیکن پھر بھی نظم و غزل ، افسانہ و ناول نے تنقید کی دنیا میں رباعی کے مقابلے میںبہتر مقام حاصل کیا ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اردو تنقید کے دریچے رباعی کی جانب بہت کم کھلے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ موجودہ وقت میں رباعی نے شاید مواصلات کا عمدہ موقع حاصل کیا یا پھر یوں کہیں کہ جامعات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے زیادہ داخلے ہونے لگے تو خالی مضامین و موضوعات کی جانب زیادہ توجہ دی گی تو ایسے میں رباعی کو بھی فائدہ ہوا ، اس کی تنقید و تحقیق کی جانب بھی توجہ دی جانے لگی ۔ کچھ برسوں پہلے جب رباعی کی جانب توجہ دی گئی تو انفرادی رباعی گو شعرا کی رباعیات پر کا م ہو ا، ان کی اشاعت بہت کم عمل میں آئی ، البتہ مضامین دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ موجودہ وقت میں دو چارمقامات سے خبرموصول ہوئی ہے کہ عمومی طور پر رباعی پر کام ہورہا ہے ۔ آخر رباعی جیسی مشہور صنف کے ساتھ یہ مرحلہ کیوں پیش آیا ؟ یہ کوئی سوال قائم نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ارد و میں صنف رباعی کو ہی اہمیت نہیں دی گئی ۔ ابھی تازہ مثال غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی ہے جہاں سے ایک کتاب ’’ مرزا دبیر : عہد اور شعری کائنات‘‘ شائع ہوتی ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے لیکن دبیر کی رباعی گوئی پر صرف چار صفحات ہیں جبکہ دبیر کی رباعی کائنات انیس سے وسیع ہے۔ ناقدین کی جانب سے بے توجہی کے بعد بھی چند شعرا ایسے سامنے آئے جنہوں نے اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طو ر بنائی ۔ چند مشہور شاعر ایسے بھی ہوئے کہ ان کا اصل میدان سخن کچھ اور تھا ساتھ ہی رباعی پر بھی توجہ صرف کی تو وہاں بھی رباعی نے ترقی پائی۔ جدیدیت کے دور میں بھی چند ایسے شعرا تھے جو خاموشی سے رباعی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیے رکھے ۔ اس کے بعد غزلوں کے ساتھ رباعی کثیر شعرا کے یہاں نظرآتا ہے ۔ پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رباعی نے عمومی طور پر جگہ نہیں بناپائی اس کی وجہ صاف ہے کہ ہمارے یہاں غزل کی اتنی زیادہ تربیت ہوئی ہے کہ یہاں کے شعرا غزل کے فریم میںاظہار کے عادی ہوچکے ہیں۔ رباعی کے فریم میں جب کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اکثر ڈھیلاپن کے شکار ہوجاتے ہیں۔بہت ہی کم ایسی رباعیاں نکل کر سامنے آتی ہیں جو رباعی کے معیار پر اتر تی ہیں ۔ ہاں غزل کے مقابلے میں نظم کے شعرا نے رباعی کو بہتر برتا ہے او ر چستی و بر جستگی نظم نگار کے یہا ں زیادہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم انیس و دبیر اور جوش و فراق کو دیکھ سکتے ہیں ۔ انیس و دبیر مرثیہ کے شاعر تھے اور جوش و فراق نظم کے اچھے شاعر تھے ، ان کے یہاں آپ اچھی رباعیاں اس لیے پاتے ہیں کیونکہ رباعی میں ایک مختصر نظم کی مکمل خصوصیت پائی جاتی ہے ، جبکہ غزل کے دو مصرعوں کو رباعی کے چار مصرعوں تک پھیلا نا اور خصوصی طور پر تیسرے مصرعے کو گریز کے طور پر لا نا غزل گو شعراکے لیے بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے ۔ ایسے میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر دو شعر ایک رباعی میں پیش کردیا گیا ہے ۔ رباعی میں بھی دو ہی اشعار ہوتے ہیں لیکن پہلا شعر معنوی طور پر بعد کے شعر پر منحصر ہوتا ہے ۔ جبکہ غزلیہ مزاج کے غلبے کی وجہ سے دونوں شعر الگ الگ اکائی  کے حامل ہوکر رہ جاتے ہیں اگر تیسرا مصرع مصرّع نہ ہوتو آپ اوپر نیچے مصرعوں کو بہ آسانی رکھ سکتے ہیں ۔ایسی رباعیاں بھی کثر ت سے ملتی ہیں جن کے پہلے مصرع کو آخر ی اور آخری کوپہلا مصر ع کردیں تو معنوی طور پر کوئی فرق نہیں پڑٹا ہے۔ ایسے میں رباعی کی روح ختم ہوجاتی ہے او ر وہ محض رباعی کے چار مصرعے بن کر رہ جاتے ہیں ۔ 

صنف رباعی ذہن میں آتے ہی اس کا فن ذہن میں آجاتا ہے ۔ یہ واحد صنف سخن ہے جس میں یہ متصور ہوتا ہے کہ رباعی وہ صنف سخن ہے جس کا فن دیگر تمام اصناف شعر سے باعتبار عروض منفرد ہے ۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے اس سے کوئی انکار نہیں ہے لیکن جب اسی کے ساتھ یہ بھی محسوس کرایا جاتا ہے کہ اس کے موضوعات بھی مخصوص ہیں او ر اصلاح نفس و تصوف کے موضوعات زیادہ برتے جاتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟ ہمیں تو نہیں لگتا ہے !بلکہ یہ ایک ایسی صنف سخن رہی ہے جسے مکتوباتی حیثیت بھی حاصل رہی ۔ غالب نے بھی ایسی رباعیاں تحریرکی ہیں۔ فا رسی کے شعرا پر نظر ڈالیں تو ابوسعید ابو الخیر ، خواجہ عبداللہ انصاری ، فرید الدین عطار ، مولوی جلال الدین، عراقی ، کر مانی و شاہ نعمت اللہ وغیرہ نے عرفانی و اخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ رودکی ، عنصری ، امیر معزی ، انوری ، خاقانی ، سعد ی وغیرہ نے عشقیہ ، مدحیہ واخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ خیام، بو علی سینا اور افضل کاشانی نے فلسفیانہ اور حکیمانہ رباعیاں کہیں ۔ حکیم سوزنی ، مہستی ، عبید زاکانی نے اپنی رباعیوں میں ہزل اور ہجو کو موضوع بنایا ۔ مسعود سعد سلمان جنہیں فارسی میں زندانی ادب کا امام کہا جاتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی زندان نامہ پیش کیا ہے ۔ حافظ و دیگر مشہور شعرا نے اخلاقی ، عشقیہ اور صوفیانہ رباعیاں کہی ہیں ۔ ایسے میں اردومیں یہ روایت کہاں سے آگئی کہ رباعی میں زیادہ تر تصوف و اخلاق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ان موضوعات کو طے کردینے میں رباعی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا بلکہ ناقدین ومحققین نے اردو رباعی کے ساتھ ایک قسم کا سوتیلا برتاؤ کیا کہ رباعی کا فن الگ ہے تو اس کے موضوعات بھی الگ ہوں ۔ اس سے ایسا ہواکہ رباعی کے موضوعات سمٹ کر رہ گئے اور نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی شاعر جو رباعی کہنے پر قادر ہے اس کی تربیت خواہ کسی بھی ماحول میں ہوی ہو وہ اخلاقی و صوفیانہ رباعی کہنے کی کوشش کر تا ہے ۔ کیا موضوع کے لحاظ سے یہ انصاف یا درست امر ہو سکتا ہے ؟ بالکل بھی نہیں! فراق رس کے شاعر تھے انہوں نے غزلوں نظموں اور رباعیوں تینوں اصناف میں رس کو برتا اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔ جو ش کا شمار شاعر انقلاب ، شاعر شباب اور شاعر فطرت کے طور پر ہوتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی ان سب موضوعات کو بخوبی برتا ہے ۔ جاں نثار اختر کا رباعیوں کا مجوعہ ’’ گھر آنگن ‘‘ بہت ہی مشہور ہے وجہ صر ف یہ ہے کہ انہوں نے گھریلوموضوعات کو بہت ہی عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ لیکن اب اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ شاعر کا تعلق تصوف سے دور دور کا نہ ہو اور وہ تعلیمات تصوف سے واقف بھی نہ ہو پھر بھی اپنی رباعیو ںمیں اس کو شامل کر نے کو شش میں رہتا ہے ۔ آخر ایسا اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ رباعی کے اہم موضوعات یہی ہیں ۔ لیکن جب رباعیوں کے مجموعے کا مطالعہ کریںگے تو آپ چونک جائیں گے کہ کئی ایسے مجموعے ہیں جن میں حمد ہے اور نہ ہی نعت و منقبت ۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ شروع میں کسی ناقد نے لکھ دیا ہوگا کہ رباعی کا تعلق خانقاہ اور مضامین خانقاہ سے زیادہ ہے تو بعد کے بھی سارے ناقدین اسی راہ پر چل پڑے جس کا اثر تخلیق کاروں پر یقینا پڑ ا اور موضوعات سمٹ کر رہ گئے ۔ 

اردورباعی کے موضوعا ت کی بات کی جائے تو قدیم سے لے کر آج تک اس میں اصلاحی مضامین مکمل طور پر داخل ہیں ۔ شاعر کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو لیکن جب رباعی کے لیے قلم سنبھالتا ہے تو وہ خود کو مصلح الامت باور کرانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔ اسی طریقے سے ہر ایک کے یہاں زندگی اور موت کے مضامین مل جائیں گے ، ندرت اور نازک خیالی تو دور کی بات ہے دلکشی بھی نہیںلا پاتے ہیں لیکن اس پر ایسا اظہار کیا جاتا ہے جیسے فلسفہ حیات و موت کا اہم نکتہ پالیا ہو ۔ خمر یہ رباعیوں کا چلن بہت ہی کم ہوگیا بلکہ اب تو تصوف کے پیمانہ میں بھی پیش کرنے والا کوئی رباعی گو نہیں رہا ، تاہم اگر چند رباعی بھی میخواری کی مل جائے تو اس کو خیام سے متاثر و جوڑنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ تخلیق کار کے ذہن میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہے ۔ البتہ فلسفہ زندگی کو جس عمدہ طریقے سے دبیر و انیس نے پیش کیا ہے بعد میں یقینا اس قسم کی رباعیاں پیش کی گئی ہیں لیکن شہرت و مقبولیت بعد والوں کے حصہ میں نہیں آتی ہے ۔ ان ہی کی روایت کو حالی و اکبر نے آگے بڑھایا ، یہاں سوچنے کی بات ہے کہ حالی کا میدان شعر اکبر سے بالکل الگ ہے۔ حالی سنجیدہ ہیں اور اکبر طنزو مزاح کے حامل لیکن رباعی میں دونو ںایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں اور دونوں اصلاحی رباعیاں کہتے ہیں۔ اردو میں رباعی کو نئی شناخت دینے میں جوش و فراق کا کردار بہت ہی اہم ہے ۔ فراق رس کے مضامین میں ہی محدود رہے لیکن انہوں نے رباعی کے لیے وہ دریچہ وا کردیا جو رباعی کی روایت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، جبکہ جوش نے اردو رباعی کو بے پناہ موضوعات دیے ، یہاں تک انہوں نے شہر آشوب اور قصیدہ کے موضوعات کو بھی رباعی میں قلمبند کیا۔ اس بندہ کے رگ رگ میں رباعیاں بسی ہوئی تھیں ، وہ اپنی ہر فکر و سوچ کو رباعی کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے ۔ ان کے کامیاب ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ مشرقی شعری کائنات سے مکمل واقف تھے ، خیام کو انہوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اپنی رباعیوں کو خیام کی نذر کیا ہے جس سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود کومسلک خیام کے ایک علمبر دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اصلاحی وصوفیانہ رباعی گوئی جانب توجہ نہیں کی بلکہ وہ جس باغی ذہن کے مالک تھے اسی باغیانہ تیور میںرباعیاں بھی کہی ہیں جس سے اردو رباعی کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ یقینا ان کے کچھ نظر یات مذہب اسلام کے خلاف تھے لیکن جو رباعیاںفطرت نگاری، شباب اور انقلاب کے موضوعات پرہیں ان کا ثانی نہیں ملتا ہے ۔ اس طویل گفتگو میں اگر امجد حیدرآبادی کا ذکر نہ ہو تو شاید مجھ پر سخت اعتراضات ہوں لیکن ہم موضوعات کی بات کررہے ہیں اور انہوں نے تصوف کو اپنی رباعیوں میں بر تا ہے ان سے قبل شاہ غمگین دہلوی نے اپنا دیوان رباعیات تصوف میںڈوب کر تیار کیا ہے جس کی شرح کی درخواست انہوں نے خود غالب سے کی تھی لیکن وہ نہیں ہوسکا ۔ الغرض اللہ کس کے کلام کو کب شہرت دے دے اس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ 

 معصوم شرقی کے ان رباعیات کے ضمن میں مندرجہ بالا غبار خاطر اس لیے پیش کی کہ تحریری روایت سے ہٹ کر فکر ی عمل کا دائرہ بھی وسیع کیا جائے ۔ یقینا ان کی رباعیوں کے موضوعات بھی وہی ہیں جو عام طور پر اردو سماج سے نکل کر آرہی ہیں ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انہیں میں سے چند رباعیاں بہت اچھی ہوجاتی ہیں جو ایسا احسا س کراتی ہیں کہ ماقبل میں اس انداز میں نہیں کہی گئی ہیں ۔ کچھ کے یہاں عمدہ تراکیب و تشبیہات مل جاتی ہیں ۔ پھر بھی چند ہی رباعیاں ایسی نکل کر سامنے آتی ہیں جن کے چوتھے مصرعے اس بات کے غماز ہوتے ہیں کہ واقعی میں وہ رباعی کے ہی مصرع ہیں جو محاورہ بننے کی طاقت رکھتے ہیں اور ’’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ کے مصداق ہوسکتے ہیں ۔ 

 موضوعات کے اعتبار سے معصوم شرقی کی رباعیات کی بات کی جائے تو ان کے یہا ں حمد،شہر کلکتہ ، جبر و قدر، خودبینی ، فطرت ، دنیا ، زندگی، لوگوں کے ساتھ معاملات زندگی ، حالات وطن و دیگر موضوعات کی رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان سب میں بھی لوگوں نے ان کے ساتھ جو معاملات روا رکھے اور مو صوف خود کو کس انداز میں دیکھتے ہیں وہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ جس سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ غمِ ذات کو غم دنیا بنانے کا ہنر شاعر تو جانتا ہے لیکن اس کو کس طرح بنانا ہے وہ ہر ایک شاعر کی بس کی بات نہیں ۔ چنیدہ لفظوں سے ہی بَنا مصرع و شعر کب ذات کی عکاسی کرتا ہے اور کب سب کی دل کی بات اس میں نظرآتی ہے یہ تو قاری پہلی ہی قرات میں محسوس کرلیتا ہے۔ نظر یہ کی بات کی جائے تو بڑے بڑے شاعروں کے یہا ں تضادات ملتے ہیںکبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ، لیکن وہ نظریے جن کا تعلق اعتقادات سے ہوں اگر اس میں تضادات نظرآجائیں تو قاری سوچ میں پڑجاتا ہے کہ اول کوترجیح دے یا دوم کو۔ ان تمام کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اچھی رباعیاں پیش کر نے کی کوشش ہوئی ہے ، تاہم چند رباعیاں جن میں ذاتی چپقلشوں کا اظہار ہے اگر ان میںاور فن کاری کی جائے تو وہ مزید بہتر ہوسکتی ہیں ۔ موصوف کی چند رباعیاں پیش خدمت ہیں ۔ 

 روداد محبت کی سناؤں کیسے 

 ماضی کا میں آئینہ دکھاؤں کیسے

 ہرلمحہ جواں دل میں تھی اک تازہ امنگ

 کیا عہد جوانی تھا بتاؤں کیسے 


بیزاری کو چاہت سے بد ل دیتی ہے 

 ماحول کو فطرت سے بدل دیتی ہے

 عورت کو ودیعت وہ ہنر ہے جس سے 

 نفرت کو محبت میں بدل دیتی ہے 


ہونٹوں پہ رواں ذکرترا ہوتاہے

 جب زخمِ جگر میرا ہرا ہوتاہے 

حاصل تری یادوں ہی سے ہوتا ہے سکون

 جب درد کا احساس سوا ہوتا ہے 


معدوم محبت کا نشاں ہے بھائی 

 ہر گام پہ نفر ت کا دھواں ہے بھائی

 ہیں آدمی دنیا میں تو لاکھوں، لیکن 

 پر آدمیت ان میں کہاں ہے بھائی 

 

مندرجہ بالا کے علاوہ کئی اور ایسی رباعیاں ہیں جن میں وہ اپنی ذات کو پیش کر تے ہیں لیکن جن رباعیوں میں وہ خود کو پیش نہیں کر تے ہیں وہ زیادہ اچھی ہیں۔ انہوں نے زبان بالکل ہی سادہ اور سلیس استعمال کی ہے ۔ استعارات و تشبیہات بہت ہی کم ہیں۔ ترکیبات بھی نہ کے برابر نظرآتے ہیں، بھاری بھرکم الفاظ سے مکمل پرہیز ملتا ہے ۔ روانی کی بھر پور کوشش کی گئی ہے جن سے جمالیاتی بصیرت کا بھی احساس ہوتا ہے ۔

 موصوف نے نثر ی دنیا میں خوب لکھا ہے اور اپنی شناخت بھی بنائی ہے ۔ شعری دنیا میں شاید یہ ان کی پہلی کاوش منظر عام پرآرہی ہے وہ بھی رباعیوں کے ساتھ ایسے میں رباعی کے قاری ہونے کے ناتے میں انہیں مبارکباد پیش کر تا ہوں ۔ اس سے قبل ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور مقبول عام بھی ہوچکی ہیں ۔ اشک امرتسر ی پر معصوم شرقی صاحب نے لاجواب کام کیا ہے ، کلکتہ کا ادبی ماحول بھی ان کی اہم کتاب ہے ۔ رباعیوں کے تعلق سے بھی پرامید ہوں کہ وہ ناقدین کو اپنی فن کاری منوانے پر مجبور کریںگے ۔ 

 امیر حمزہ 

 


فاروقی رباعیاں

 فاروقی رباعیاں 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

ameerhamzah033@gmail.com

غالب انسٹی ٹیوٹ میں دوبرس قبل دہلی کی تاریخی عمارتوں پر ایک سمینار ہورہا تھا اس وقت آخر میں بطور حاصل کلام ایک جملہ فضا میں آیا اور چھاگیا کہ ’’ مغلیہ عمارتیں محض عمارتیں نہیں ہیں بلکہ ان کی انفرادیت وعظمت ہی ان کو مغلیہ بناتی ہے۔‘‘ یہ بات ہربنس مکھیا نے کہی تھی یا کسی اور نے وہ مجھے اب یاد نہیں لیکن یہ جملہ ایسا چھایا کہ مغلیہ کی انفرادیت صرف عمارتوں ہی میں نہیں بلکہ تمام اشیا میں ظاہر ہوجاتی ہے ۔کچھ ایسا ہی معاملہ شمس الرحمن فاروقی کا ہے کہ ان کی انفرادیت صرف تنقید ، تحقیق ، فکشن یا شاعری میں ہی نظرنہیں آتی ہے بلکہ ان کا قلم جس صنف کے لیے بھی اٹھتا ہے وہ منفر د ہوجاتی ہے ۔ جب وہ تنقید کے لیے قلم اٹھاتے ہیں تو اپنی انفرادیت آپ قائم ہوجاتی ہے ، جب فکشن میں آتے ہیں تو وہاں بھی وقت پر غالب ہوجاتے ہیں ۔ یہی صورتحال شاعری کی ہے کہ اس میں بھی دیگر اصناف کی طرح اپنی انفرادیت خود بخود قائم ہوجاتی ہے ۔

 لیکن ان سب میں بھی ایک فطری عمل یہ وجود پاتا ہے کہ کئی زاویوں سے شناخت بنانے والے ہمہ جہت فردیا شخصیت کی شناخت کسی ایک غالب جہت کی وجہ سے غالب ہوجاتی ہے اور دیگر جہات پس پردہ چلی جاتی ہیں۔ یہی کیفیت فاروقی صاحب کے یہاں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ جب بھی ان کا نام ذہن میں آتا ہے تو ان کے تنقیدی نگارشات و تصورات لامتناہی کے طور پر سامنے آتے ہیں ، خاص کر شعر شور انگیز کے حوالے سے ۔ گویا ان کی بنیا دی شناختوں میں سے ناقد کی شناخت سب سے زیادہ غالب رہی ۔اس کے بعد فکشن نگاری میں وہ ناول نگار کے حوالے سے زیادہ جانے جاتے ہیں ۔ پھر شاعر کے طور پر ان کی خدمات کا ذکر آتا ہے ۔ اس ترتیب کو میں نے یوں ہی قائم نہیں کیا بلکہ فاروقی صاحب کی خدمات پر لکھی گئی تحریروں کا بغور جائزہ لیںگے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ سب سے زیادہ فلاں عنصر پر، پھر فلاں پرپھر جاکر شاعری پر ہیں۔ یعنی بطور شاعر ان کی شناخت تیسرے نمبر پر ہی آتی ہے ۔ یہ صرف ان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہر ایک بڑے فنکار کے ساتھ ہوتا ہے کہ جملہ نمایا ں عناصر میں سے کوئی ایک ہی ایسا عنصر ہوتا ہے جس پر سب کی نظر سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔

 شمس الرحمن فاروقی نے اگر چہ شروع میں فکشن کی جانب توجہ کی اور ایک فرضی نام سے تحریریں منظر عام پر آتی رہیں ۔ ان تحریروں پر لوگوں کوشک ہوا تو وہ شک ہی میں رہ گئیں کیونکہ جب راز کھلا تو ان مشکوک تحریروں کی اہمیت فاروقی صاحب کی مقبولیت کے ساتھ منطبق نہیں ہو پائی ۔ یہ معاملہ بھی صرف انہیں کے ساتھ نہیں رہا بلکہ ہر عظیم و مشہور شخصیت کے ساتھ لاحق رہا کہ ان کے نام سے لکھی گئیں فرضی تحریروں کو وہ مقام نہیں ملا جو اصل نام کی تحریروں کو حاصل ہوا۔ الغرض تحریروں کی قد روقیمت شخصیت کے ساتھ ہی نظر آتی ہے خواہ کیسی بھی ہو ۔ لیکن جیسے ہی انہوں نے تنقید کے میدان میں قدم رکھا تب فاروقی کی فاروقیت نکھر کر سامنے آگئی ۔ اگر چہ وہ خود کو خلیل الرحمن اعظمی کا پیرو کار بتاتے رہے لیکن ان کی انفرادیت نے مرعوبیت کوکہیں بھی پنپنے نہیں دیا۔

 فا روقی اپنی راہ الگ ہی منتخب کرتے ہیں ۔ شاعری کی روایتی روش کو دوش پر رکھ کر اپنے وسیع مطالعہ سے کائناتِ لفظ و معانی کے عمل کو اپنے ذہن سے گوندھتے ہیں اور ان کو نئے ڈھب سے نئے اشکال و معانی میں قید کردیتے ہیں ۔ تخلیق میں وہ نئے معانی تشکیل کرنے کے کھیون ہار کے طور پر سامنے آتے ہیں جس میں شاعری و فکشن دونوں شامل ہیں ۔ فکشن میں افسانہ کا رنگ جدا ہوتا ہے جبکہ ناول کی وسعت میں وہ رنگ پھیکا نظر آتا ہے ۔شاعری میں آزاد ونثری نظم کا رنگ جدا ہوتا ہے اور غزلوں کا دیگر ۔ لیکن اگر خالص فاروقی کی تخلیقات کی بات کی جائے تو شاعری میں وہ بطور رباعی گو ، فکشن میں بطور ناول نگار اور تنقید میں شعر شور انگیزکی بناء پر منفرد نظر آتے ہیں ۔ ان انفرادی وجوہات کو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کوئی ایک کلیہ ہی کسی کو نکھارنے میں معاون ہوتا ہے ۔ یہی یہاں پر صادق آتا ہے کہ شاعر میں وہ بطور رباعی گو اپنی انفرادیت آپ قائم کرتے ہیں کیونکہ ’’ چار سمت کا دریا ‘‘ ایک مکمل رباعیوں کا مجموعہ ہے اسی لیے فاروقی صاحب ایک مطلق شاعر سے زیادہ رباعی گوشاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں جبکہ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں نظمیں ، غزلیں اور رباعیاں بھی ہیں لیکن وہ ان سے ایک مخصوص نظم و غزل کے شاعر کے طور پر سامنے نہیں آتے ہیں جیسا کہ رباعی کے ایک مکمل مجموعے سے ان کی شناخت ہوتی ہے ۔ 

فاروقی کی رباعیاں اس عہد میں سامنے آتی ہیں جب جو ش و فراق کی رباعیاں فضا میں چھائی ہوئی تھیں اور جدیدیت کا رجحان بھی اپنی جگہ برقرار تھا ایسے میں واضح طور پر سوال تو رہا ہوگا کہ شاعری میں غزل و نظم پر تو اس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں لیکن رباعی میں بھی یہ ممکن ہے کیا ؟ جس کی خصوصیت و فضا تصوف و اصلاح اور ترسیل ہے ۔ ایسے میں رباعی کے مزاج کو بدلنا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں فاروقی صاحب کی زیرکی کو محسوس کیجیے کہ انہوں نے اردو میں سب سے مشکل سمجھی جانے والی صنف سخن رباعی کو ہی ریاضی کا مرکز بنایا اور اپنے اولین شعری مجموعہ ’’گنج سو ختہ ‘‘ (۱۹۶۹) میں مناجات کے بعد رباعی ہی پیش نہیںکرتے بلکہ دیباچہ بھی رباعی ہی میں ہو تا ہے ۔ہمیں تو یہ معلوم ہی ہے کہ دیباچہ کیا چیز ہوتی ہے اور اس میں عموماً کیسی چیزیں لکھی جاتی ہیںلیکن اس کے اصول منزل من السماء بھی نہیں ہیں جو اسی پر چلا جائے بلکہ انسا ن نئے طریقے بھی وضع کرلیتا ہے تو اس دیباچہ کو ایک نئے انداز کا دیباچہ سمجھ لیں جو دو رباعیوں پر مشتمل ہے ۔ عموماًدیباچہ اظہار کے تمام روشن دریچوں کے ساتھ سامنے آتا ہے تاکہ مصنف کا قاری تک واضح پیغام پہنچ سکے ۔ لیکن دیبا چہ کی دونوں رباعیو ںمیں ان کا لہجہ اظہار کا نہیں بلکہ اخفا کا ہے ۔ اس پر جواب بھی فوراً ذہن میں آئے گا کہ جدیدیت کی شاعری میں اظہار کہاں ہے ، وہاں تو اخفاہی اخفا ہے ۔ تو یہاں آپ یہ سمجھ لیںکہ یہ ان کی شاعری کا فنی دیباچہ ہے جس میںانہوں نے اپنی شاعری کا عکس ان دو رباعیو ںمیں پیش کردیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

ہیں زخم صدا کہ جگمگاتے ہوئے باغ 

کالی لمبی ندی پہ روشن ہیں چراغ 

کوندی ہے منجمد فضا میں دیکھو

الفاظ کی تلوار معطر بے داغ 


ہر آگ کو نذر خس و خاشاک کروں 

ہر سیل کو برباد سر خاک کروں 

اے شیشہ آہنگ میں معنی کی شراب

کہہ دے تجھے کس درجہ میں بے باک کروں 

مذکورہ بالا دونوں رباعیوں میں اگر موضوع کو گرفت کرنے کی کوشش کریں تو پہلی رباعی کے پہلے مصرع میں ’’زخمِ صدا ‘‘ اور آخری مصرع میں ’ ’ الفاظ کی تلوار‘‘ سے مطابقت پیدا کرکے اس پوری رباعی کو ایک لڑی میں پروسکتے ہیں اور یہ معنی بحسن و خوبی اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کا یہ شعری مجموعہ مجروح آوازوں کا جگمگاتا ہوا باغ ہے جن کے الفاظ تلوار ہیں لیکن خوشبو دار اور بے داغ بھی ہیں ۔ 

اب دوسری رباعی کی جانب رخ کرتے ہیں تو اس میں احساس ہوگا کہ پہلی رباعی سے انہو ں نے جو سفر الفاظ سے شروع کیا تھا وہ اس رباعی میں معانی پر پہنچتا ہے اور یہاں پر شیشہ آہنگ کی ترکیب بہت ہی معنی خیز ہے ۔ آہنگ جو فضا میں قائم ہوتا ہے وہ شیشہ کی کیفیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس میں معنی کی شراب کو پیش کر تے ہیں جس کے چھلکنے کی کیفیت کسی سے مخفی نہیں ہے جو معانی کے ساتھ بھی لازم ہے ، اب آگے دیکھیے کہ معنی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ بتا تجھے کس درجہ بے باک کروں ۔اب غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ و معانی کے اس امتزاج سے ان کا دیبا چہ مکمل ہوتا ہے ۔

 ’’ گنج سوختہ ‘‘ میں مذکورہ بالا دونوں رباعیو ںسے پہلے ایک دعائیہ رباعی بھی ہے ۔


اک آتش سیال سے بھر دے مجھ کو

اک جشن خیال کی خبر دے مجھ کو 

اے موجِ فلک میں سر اٹھانے والے! 

کٹ جائے تو روشن ہو ، وہ سر دے مجھ کو 

اس دعائیہ رباعی کو جب فاروقی صاحب کی ذات سے دیکھتے ہیں تو ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ آتش سیال اور جشن خیال سے وہ مالا مال تھے ، آخر ی مصرع کی دعا ان کی شروع سے ہی مقبول رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو دنیا میں ان کی موجودگی میں بھی کوئی ایسا نہ تھا جن کی روشنی ان کے سامنے ان سے زیادہ ہو، خدا نے ان کو اس معاملے میں یکتا اور فرد فرید رکھا تھا ۔ اس مجموعے میں دو رباعیاں اور بھی ہیں ، ان میں ایک رباعی غیر خصی ہے ۔ رباعی کی بحث میں خصی اور غیر خصی کی اصطلاح بار بار آتی ہے ، اس کے متعلق لکھا جاتا ہے کہ جورباعی جتنی قدیم ہو گی وہ غیر خصی ہوگی یعنی اس کے چاروںمصرعوں میں ردیف و قافیہ ہوگا ۔ لیکن ہر زمانے میں اردو وفارسی میں غیر خصی رباعیاں لکھی گئی ہیں ، جوش وفراق کے یہاں بھی ایسی رباعیاں ملتی ہیں ۔ فاروقی کی غیر خصی رباعی ملاحظہ فرمائیں :

اسرار کے دریائوں کا پانی ہے یہ رات 

مردار سمندر کی روانی ہے یہ رات 

بچپن کی سنی کوئی کہانی ہے یہ رات 

خوشبو سے بھر ی رات کی رانی ہے یہ رات 

 موضوعاتی طور پر اس رباعی میں رات کو انہو ں نے کئی انداز میں ایکسپلور کیا ہے کہ رات کو جس جس زاویے سے سوچیں وہ منطبق ہوتی ہے ،رات کے سحر کی وسعت ہر ایک پر عیاں نہیں ہوپاتی ، اس کے اندر سمانے والے رازہائے سربستہ سے پر دہ اٹھنا نا ممکنات میں سے ہے ، یہ ایک تصوراتی دنیا ہے جس کی ایک جھلک بچپن میں کہانی کی شکل میں ہمیں ملتی ہے۔ ان تصورات کی تصدیق سے پرے بس اتنا محسوس کریں کہ یہ جنس غیر مرئی ہے یعنی خوشبو سے بھر ی رات کی رانی ہے یہ رات ۔ 

ا س کے بعد ان کی رباعیوں کا مجموعہ’’ چار سمت کا دریا‘‘ کی جانب رخ کرتے ہیں جس میں رباعیوں کا رنگ دیگر بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس میںفاروقی صاحب کا رنگ اتنا بھی واضح نہیں ہے جتنا ’’ گنج سوختہ ‘‘ میں ہے بلکہ کچھ اور دبیز رنگ ہے ۔ اس میں دیباچہ رباعی ہی میں ہے لیکن فاروقی صاحب کی نہیں بلکہ مرزا اسداللہ خاں غالب کی ایک فارسی رباعی اور EUGENIO MONTALE کا ایک اقتباس ہے ۔ یعنی یہاں انہوں نے اپنی جانب سے دیباچہ میں کچھ بھی نہیں لکھا ہے ۔ 

اس مجموعہ میں کل پچھتر رباعیاں ہیں اور تمام رباعیاں جدیدیت کی فضا سے بوجھل ہیں ۔ اس کی پہلی ہی رباعی اس جانب غماز ہے کہ ہم زمین یعنی بحر کے غلام ہیں اور ہمیں اس پر لگے رہنا ہے اور اتفاق سے دوسری رباعی وہ ہے جس کا ذکر گنج سوختہ کے دیباچہ میں ہے ۔ فاروقی صاحب کو اگرچہ جدیدیت کا امام کہا جاتا ہے لیکن جب وہ اپنی تخلیقی دنیا میں سفر کر تے ہیں تو مکمل طور پر روایت کے پاسدا ر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعہ کی تیسری رباعی میں اپنی بے تاب دعاؤں میں اثر مانگ رہے ہیں ، چوتھی ، پانچویں اور چھٹی رباعی بھی دعا سے تعلق رکھتی ہے ۔ 

کنجشک کو چیتے سا جگر دے دینا 

گل برگ کو بجلی کا ثمر دے دینا 

ہے سہل تجھے مگر ہے سب سے آساں 

بے تاب دعاؤں میں اثر دے دینا 

 کیا خوبصورت دعا ہے کہ پہلے کے دونوں مصرعو ں میں خدا کی قدرت کا ذکر ہے اور تیسرے مصرع میں لسانی خصوصیت مابین سہل و آساں کے بعد بے تاب دعاؤں میں اثر چاہنا ۔ 

نویں نمبر پر ہی وہ رباعی ہے جس سے اس مجموعہ کا نام ماخوذہے ۔ ذیل میں وہ رباعی ملاحظہ فرمائیں : 

تجھ سا نہیں دنیا میں کوئی تنہا آ 

امڈا ہے چار سمت کا دریا آ

یہ نیم شبی گنجان اتنی کب تھی 

مٹنے کو ہے تیری آواز پا آ 

اس رباعی کو موضوعاتی سطح پر کس خانہ میں رکھا جائے اس کے لیے واضح طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ، ایک زاویہ سے دیکھتے ہیں تو یہ ذات باری تعالیٰ سے ایک فریاد کے طور پر سامنے آتی ہے اور آخر ی مصرع کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ فراق کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور تنہائی کے خوف سے نکلنا چاہتے ہیں ۔ پہلے مصرع میں جملہ خبر یہ و جملہ امر کے مابین سکتہ اختیار کرتے ہیں جیسا کہ دوسرے مصرع میں ہے تو لفظ ’تنہا‘ سے کیا مرا د انہوں نے لی ہے یہ ہم پر واضح نہیں ہوتا۔ دوسرے مصرع میں لفظ ’ کا ‘ کا استعمال ’آ‘ کو استعانت سے خارج کردیتا ہے اور ہم سفر ی میں لے آتا ہے جس کا احساس چوتھے مصرع کے ’آ‘ سے بھی ہوتا ہے ۔ ’’ چار سمت کا دریا ‘‘ کو دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ رباعی کے لیے ہے جو چار مصرعو ں کے لیے بطور علامت ہے ۔ اس صورت میں لفظ ’ کا ‘ کو ہمیں ’ والا‘ کے معنی میں دیکھنا ہوگا یعنی چار سمتوں والا دریا ۔انہوں نے نام بھی یہی رکھا ہے تو ہمیں اس معنی سے قریب بھی ہونا پڑے گا ۔ لیکن رباعی کی جو فنی خاصیت ہوتی ہے متحد المعنی ہونا وہ اس سے مختلف ہوتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ خیر چار سمت کا دریا میں مرکز الی الاجتما ع تو ممکن نہیں البتہ مرکز من الاجتماع کی حیثیت تسلیم کی جاسکتی ہے ۔ خیر یہ ان کی جدت ہے کہ ہمیں ہر مقا م و مصرع میں بعید سے بعید تر مفہوم کی جانب جانا پڑتا ہے ۔ 

 رباعی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اس کا آخر ی مصرع بہت ہی پر اثر ہونا چاہیے یعنی ’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ والی کیفیت اس میں ہونی چاہیے اور ایسی کیفیت فارسی کی رباعیوں میں بخوبی پائی جاتی ہے ۔اس کیفیت کو فاروقی صاحب اس طور پرحاصل کر تے ہیں کہ آخر ی مصرع وہ فارسی کا لاتے ہیں جس سے یقینا ا س رباعی کی اہمیت اور قدر و قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس قسم کی ایک رباعی ملاحظہ ہو :

میں وقت کا بندی تھا رہائی کا ہے غم 

زنجیر شکستگی ہے صوت ماتم 

تھی بند سلاسل میں بھی ذلت لیکن 

آن درد دیگر کہ خنداں خوردم 

یعنی وہ ایک دوسرا درد تھا جسے میں نے ہنستے ہوئے پی لیا ۔ اس طریقے کے دیگر ان کے فارسی مصرعے کچھ اس طرح ہیں :

ع ’’در آتش سرد خفتہ بیند مرا‘‘

ع ’’بازندگی خویش چسا کردم من‘‘ 

ع  ’’صدہا ست سخن کہ کس بہ نا کس گوید‘‘

ع  ’’گلشن نہ دمد از خود یا را ں چہ کنند‘‘

ان تمام مصرعوں کوپڑھیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس پنچ لائن کی رباعی کے چوتھے مصرعے میں ضرورت ہوتی ہے وہ فارسی کے ان چوتھے مصرعوں سے بخوبی مل جاتی ہے ۔ چوتھے مصرعے کی ایک اور خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ محاورہ بننے کی طاقت رکھتا ہو جو یہاں نظر بھی آرہا ہے ۔

 فاروقی صاحب کی رباعیو ں کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ جدیدیت کی دبیز چادر بچھی ہوئی ہے اور ہر مصرع میں ایک قسم کی علامت سے آپ کو سابقہ پڑے گا ۔ مثال کے طور پر دو رباعیاں ملاحظہ ہوں : 

کس خوف کا داغ ماہ وادید میں ہے 

کیا آنکھ ہے جو محاذ خورشید میں ہے 

کیسی ہے نسیم وہم اڑے ہیں چہرے 

کس سانپ کی آمد شب تجدید میں ہے 

 

دریا، دریا میں ناؤ کاغذ کا مکاں 

گردن، گردن آب گہر میں طوفاں 

کوئل، کوئل کی کوک پھولوں میں پھوار

آنکھیں، آنکھوں میں درد رفتہ لرزاں 

فاروقی صاحب نے جیسا کہ شروع میں لکھا تھا کہ میں تو بحر(اوزان) کا مزدو ر ہوں یعنی شاعری میرا کام ہے ، تو اس میں وہ کئی فنی تجر بے بھی کرتے ہیں جیسے مرزا دبیر کی طرح صنعت مہملہ و منقوطہ میں رباعیاں پیش کرتے ہیں ۔ فاروقی کی رباعیوں میں بادل، آنکھ، بر ق مسکن، نیلی بجلی، کالی آندھی ، وسعت افلاک ، بر گ ، رات، نیلا کہرا، نیلا آسمان ، جنگل، گنبدِ افلاک ، سرِ شب، گہرا نیلا رنگ ، رمِ شب، گھنے خواب ، بکھرے خواب ، حبس بھرے خواب ، نیل فلک ، جوئے خوںاور نیلم جیسے الفاظ نظر آتے ہیں جن کا تعلق علامات سے بھی ہے ۔ 

 فار وقی صاحب کے دوسرے شعر ی مجموعہ ’’ سبز اندر سبز‘‘ میں بائیس رباعیاں ہیں ۔ ان میں کچھ رباعیاں مکرربھی ہیں ، جیسے گنج سوختہ کی رباعیاں ،چار سمت کی دریا میں ہیں اسی طریقے سے ’’ سبز اندر سبز ‘ میں بھی ماقبل کے شعری مجموعوں سے رباعیاں رقم کی گئی ہیں ۔ اس شعر ی مجموعہ سے بھی بطور نمونہ ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں : 

گہراہوں لوٹ آؤں میں نے پوچھا 

دیکھا ہے بھول جاؤں میں نے پوچھا

ان آنکھوں کو کھولے ہوئے ہے پنجہ شیر

آنکھوں کو چھوڑ آؤں میں نے پوچھا 

 اب رخ کرتے ہیں ’’آسماں محراب ‘‘ کی جانب اس میں دیگر اصناف سخن کے ساتھ ان کی رباعیاں بھی ہیں ۔ اس مجموعہ میں انہوں نے رباعیوں کو عناوین کے تحت بھی تقسیم کیا ہے ۔ پہلی رباعی کسی عنوان کے تحت نہیں ہے لیکن اِ س رباعی کا رنگ دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو رنگ گنج سوختہ اور چارسمت کا دریا میں اپنا یا گیا ہے وہ اس میں نہیں ہے ۔ رباعی کچھ اس طرح ہے :

سرگوشی تیری سر بازار سنوں 

جنگل کی زبانی تیرا اقرار سنوں 

تو گہری ناگن سے خموشی میں مجھے 

اک بار بلائے تو میں سوبار سنوں 

اس رباعی میں مخاطب کی کیفیت کا اظہار ہے اور شاعر ہی مخاطب ہے ۔ شدت و تڑپ کس ذات کے لیے ہے وہ مخفی ہے ۔ اس اخفا کو ہم بین المتونی جدیدیت کی اخفائی صفت میں شمار کرسکتے ہیں ۔ اس کے بعد سات تضمینی رباعیاں پیش کی گئی ہیں اور وہ ساتوں رباعیاں شیخ فخر الدین عراقی، شیخ فرید الدین عطار، استاد ابوالفرج رونی، شیخ ابوسعید ابو الخیر ، مو لانا صوفی مازندرانی ، میرزا عبدالقادر بیدل اور ایک نامعلوم کی رباعی پر ہے ۔ پہلی رباعی جو عراقی کی ہے اس میں دو اردو مصرعے فاروقی کے ہیں اور فارسی کے آخر کے دونوں مصرعے عراقی کے ہیں ۔ دوسری رباعی عطار کی ہے جن میں دو مصرعے اردو اور دو فارسی میں ہیں ، چوتھا مصرع عطار کا ہے جو ان کی رباعی کا تیسرا مصرع ہے ۔ تیسری رباعی نامعلوم کی ہے اس میں بھی دومصرعے اردو کے ہیں اور دو فارسی کے ۔ اسی طریقے سے بقیہ تضمینات میں بھی دو مصرعے اردو کے اور دو فارسی کے ہیں ۔

 تضمینی رباعیو ںکے بعد ایک ایک رباعی’ ’ رباعی ۲۰۰۱‘‘ کے عنوان سے ہے جب کہ کتاب ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی۔اس کے بعد چار لالچ بھری رباعیاں ہیں اور اتفاق سے چاروں میں عناوین بھی ہیں ۔نشان کی چار سمتیں ، رنگ کے چار رنگ،لوائح اربعہ اور مسیحائے شوق ان کے عناوین ہیں ۔ مسیحائے شوق کی رباعی دیکھیں : 

خار آہن ہوں برگ زر ہوجاؤں 

سوکھی کھیتی ہوں چشم تر ہوجاؤں

ہلکا سا ترے پاؤں پہ یہ چوٹ کا داغ

میں چھولوں اس کو تو امر ہوجاؤں 

اس رباعی کو اگرچہ انہوں نے لالچ بھری میں رکھا ہے لیکن آپ غور سے دیکھیں تو تمنا ئی رباعیاں زیادہ محسوس ہوںگی۔ خیر!

اس کے بعد جہاں ہم پہنچتے ہیں وہ ہے فاروقی کی پکی عمر کی رباعیاں ، آخر فاروقی صاحب کو ان رباعیو ںمیں پکی عمر کا عنوان لگانے کی ضرورت کیوں پڑی یہ سوال خواہ زیر بحث نہ آئے لیکن اس میں انہوں نے جس قسم کی رباعیاں پیش کی ہیں اس سے آپ سوچ سکتے ہیں کہ جدیدیت کے بہاؤ میں انہوں نے ’’چار سمت کا دریا ‘‘ میںجس نوعیت کی رباعیاں پیش کی ہیں یقینا وہ رباعی کے مزاج کی حامل نہیں ہیں بلکہ ان میں ظاہر ی طور پر ہر مصرع ایک الگ اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور چاروں مصرعوں سے ایک ہی کیفیت تو نظر آجاتی ہے لیکن چاروں مصرعوں کے امتزاج سے کوئی ایک پیغام دیا جارہا ہویہ نظرنہیں آتا ۔ تمام رباعیوں کے تمام مصرعے علامت کی دبیز چادر کے تلے دبے ہوئے ہیں ، جب کہ پکی عمر کی رباعیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کی رنگت کچھ اور نظر آتی ہے :

جو عقل کے جھانسے میں نہ آئے وہ ہے دل 

جو من مانی کرتا جائے وہ ہے دل 

اک بوند گنہ پر سو قلزم روئے 

پھر ناکردہ پر پچھتائے وہ ہے دل


شیطان کسی طرح یہ مرتا ہی نہیں

بندے سے نہ مالک سے ڈرتا ہی نہیں 

گم نامی و ذلت کے بھی غاروں سے عمیق

دل ایسا جہنم ہے کہ بھرتا ہی نہیں 

ان رباعیوں کو پڑھنے کے بعد آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ یہ تو فاروقی صاحب کا رنگ نہیں ہے ۔ یہ تو کسی ناصح اور صوفی شاعر کا کلام محسوس ہورہا ہے ۔ لیکن آپ کو معلوم ہوگا کہ رباعی نے سب سے زیادہ اپنے اندر اسی رنگ کو پایا ہے ۔ رباعی کا یہ رنگ آپ کو درد ، انیس و دبیر ، حالی و اکبر ، شاد، یگانہ ، رواں اور جوش کے یہاں بھی ملے گا ۔اب مضمون کے آخر میں یہاں پر پروفیسر ابو بکر عباد کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کر نا چاہوں گا : 

’’ اپنے ہم عصروںمیں فاروقی صاحب تنہا قابل رباعی گو شاعر کی شناخت رکھتے ہیں ۔ رباعیوں میں بھی ان کی فنی مہارت اور قادرالکلامی حد درجہ نمایاں ہے ۔ انھوں نے بیشتر مروجہ اوزان پر رباعیاں کہی ہیں اور فارسی کے اساتذہ شعرا کے دودو مصرعو ں پر اردو کے دودو مصرعے لگاکر رباعی کو ایک نئی تضمینی شان سے روشناس کرایا ہے ۔ فاروقی صاحب کی رباعیوں کے بارے میں یہ خیال عام ہے کہ ان میں گہرا ابہام اور دبیز اسرار ہوتا ہے ۔ ایسا شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی رباعیوں میں اخلاقی اور فلسفیانہ مضامین کے ساتھ ساتھ بالعموم اس میں وہ اپنا ایک جدید فکری رنگ بھی شامل کرتے ہیں جس کی وجہ سے رباعی کا آہنگ اور اس سے قاری کی روایتی انسیت قدرے مختلف معلوم ہونے لگتی ہے ، سو اسے بھی تعمیر ی جدت سے تعبیر کرنا چاہیے ۔ لالچ بھری رباعیاں اور پکی عمر کی رباعیاں اس کی عمدہ مثالیں ہیں ۔‘‘

 استادمحتر م کی اس تحریر سے کلی اتفاق ممکن نہیں ہے ۔ اول یہ کہ فاروقی صاحب اپنی زندگی میں بھی قابل رباعی گو شاعر کی حیثیت سے کل شناخت نہیں حاصل کرپائے تھے ، البتہ فاروقی صاحب عروض داں تھے اور رباعی کا ان مجموعہ تھا اور اس عہد میں انہوں نے رباعیاں کہی ہیں جب اردو میں رباعی کے شاعر خال خال ہی پائے جاتے تھے لیکن فاروقی صاحب اپنی ہی رباعیوں کی وجہ سے یہ شناخت نہیں حاصل کر پائے اس کی وجہ اردو رباعیوں کے مزاج ومنہاج سے پرے ان کی رباعیوں کا ہونا ہے جو موضوعاتی و فنی طور پر بھی روایتی و جدید موضوعات کی شاعری میں مقبول نہ ہوسکی ۔ استاد محترم کی اس بات سے مکمل اتفاق رکھتا ہوں کہ فاروقی صاحب کی رباعیوں میںگہرا ابہام اور دبیز اسرار ہوتا ہے ۔ اس لفظ اسر ار کو ان رباعیوں کی زبان ولفظیات کو دیکھتے ہوئے پُر اسرا ر پر محمول کریں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا ۔ ا ن کے یہاں اخلاقی مضامین یہی پکی عمر کی رباعیو ں میں ہے اور فلسفیانہ مضامین تو نہیں البتہ فلسفیانہ رنگ ہے ، مطلب زبان فلسفیانہ ہے ، وہ اس طرح کہ ماقبل کے مجموعوں میں جو رباعیاں پیش ہوئی ہیں وہ مضامین سے عاری ہیں۔ وہ اس طور پر کہ ہر مصرع اپنے اندر ہی مکمل ہوتا ہوا نظر آتا ہے ، جہاں رنگ ، عکس اور تصور کا گزر ہے نہ کہ ماقبل کے مصرع سے مل کر آخر ی مصر ع بہت پتے کی بات کہہ رہا ہے ۔ الغرض فاروقی صاحب کی رباعیاں بالکل منفر د نوعیت کی حامل ہیں جو یقینا اردو رباعیات کے مزاج و منہاج سے بہت مختلف ہے ۔ 

 شروع کے پیرا گراف میں میں نے ایک بات لکھی تھی کہ فاروقی صاحب کی جملہ تحریریں اپنے اندر مکمل انفرادیت رکھتی ہیں، وہ آپ رباعیوں کے حوالے سے بھی سمجھ چکے ہوں گے ۔


’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...