Monday 1 November 2021

انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی

انوکھا شخص و شاعر مظفر حنفی 


 مرتب: انجینئرفیروز مظفر
 اشاعت: 2021
 صفحات: 582
قیمت: 500روپے
 ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
مظفر حنفی اردو کے ادبی دنیا کی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جن کا ادبی سفر پچا س بر سو ں پر محیط ہے۔ اس عرصہ میں وہ بطو ر تخلیق کار شعر ی اور نثر ی دنیا میں اپنی شناخت سب سے الگ بناتے ہیں۔مظفر حنفی غزلیہ شاعری کے منظر نامے پر جدید لب و لہجہ اور منفر د آواز کے ساتھ ابھر تے ہیں جن کا اظہار وہ اپنے اشعار میں بھی کر تے ہیں۔ادب اطفال میں مروجہ روایت سے ہٹ کرکہانیاں اور نظمیں تحریرکرتے ہیں۔ مظفر حنفی کی ادبی دنیا بہت ہی زیادہ وسیع ہے، انہوں نے1967 سے 2018 تک اپنے چوبیس شعری مجموعے ترتیب دیے۔اپنے ابتدائی ادبی زمانے میں تین اور2015 میں اپنا آخری افسانوی مجموعہ سامنے لائے۔ 1983 سے 2016 تک ادب اطفال پر نو کتابیں تصنیف کیں۔ آخری عمر میں انٹر ویوکے بھی تین کتابیں منظر عام پر لائے۔1978 سے 2014 تک بارہ تحقیقی و تنقیدی کتابیں تصنیف کیں ان کے علاوہ چھ مونوگراف بھی لکھے۔ تیرہ کتابوں کے مرتب و مدون بھی رہے۔گیارہ کتابوں کا انہوں نے ترجمہ بھی کیا۔مزید برآں ایک سفر نامہ بھی ہے۔ ان تمام تصانیف سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ادب کی سیاحی نہیں بلکہ اردو ادب کی باغبانی کی ہے۔ ان کے کارنامہئ چمن میں طرح طرح کے ادبی پھول نظر آتے ہیں اور ان کا کارنامہ ئحیات محض چند بر سوں پر ہی محیط نہیں بلکہ مکمل پچاس برسوں میں پھیلاہوا ہے اور تقریباً 80کتابیں منظر عام پرآتی ہیں۔ کثیر التصانیف ہونے کے باوجود بسیار و زود نویس نہیں کہلائے۔ ایسا شاید اس وجہ سے نہیں ہوا کیونکہ انہیں اپنے فن پر عبور حاصل تھا۔ مظفر حنفی ان خوش نصیبوں میں سے بھی ہیں جن پر تحقیقی مقالہ ڈاکٹر محبوب راہی نے ان کی زندگی میں ہی نہیں بلکہ ان کے ادبی سفر کے شباب میں ہی (1984) میں تحریر کیا،انہوں نے ناگپور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری اس وقت حاصل کی جب پروفیسرمظفر حنفی جامعہ ملیہ اسلامیں ریڈر تھے۔ یقینا تب ان کے مکمل کارنامے سامنے نہیں آئے تھے البتہ وہ اپنی شعری شناخت حاصل کرچکے تھے۔ جدیدیت سے تو متاثر تھے ہی ساتھ ہی انہوں نے اپنے استاد شاد عارفی کا طنزیہ لہجہ بھی بہت حد تک اختیار کیا اور وہ جدید غزل میں اپنی نئی شناخت قائم کیے۔
 زیر تبصرہ کتاب ا ن کی وفات کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس کتاب سے قبل ڈاکٹر محبوب راہی کی تصنیف اور فیروز مظفر کی مرتب کردہ ایک کتاب مظفر حنفی کی شخصیت و فن پر منظر عام پر آچکی ہے جن کی ضخامت بھی اِ س کتاب کے آس پاس ہے۔ میری دستر س کے مطابق یہ ان کی شخصیت و فن پر تیسر ی کتاب ہے جو ان کی زندگی اور فن کی تکمیل کے بعد سامنے آئی ہے۔ ماقبل کی دوکتابوں سے یہ کتاب بہت حد تک مختلف ہے اول الذکر تحقیقی مقالہ ہے جس میں مظفرحنفی کی کل ادبی سرمایہ کا بیس فیصد کا ہی مطالعہ ہے کیونکہ یہ کتاب 1987 میں شائع ہوئی تھی۔ دو سر ی کتاب میں اپنے عہد کے اساطین ادب کی تحریریں ہیں جو مظفر حنفی کے فن کے دریچے وا کرتی ہیں اور اِس زیر تبصر ہ کتاب میں موجود ہ دور کے افراد کی تحریریں ہیں۔ کتاب کے شروع میں فیروز مظفر کے ذریعہ مظفر حنفی کا تفصیلی توقیت نامہ پیش کیا گیا ہے جس میں سال بہ سال بہت ہی تفصیل سے ان کے کارناموں کو شمار کیا گیا ہے اگر اس کو مختصر علمی سوانح عمر ی کہاجائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کتاب میں کل چہتر (74) چھوٹے بڑے مضامین ہیں اس کے بعد چھبیس منظوم خراج عقید تیں جس میں پانچ قطعات تار یخ بھی ہیں۔ مرتب نے واضح کیا ہے کہ اس میں دو قسم کے مضامین ہیں، ایک وہ جوان کی زندگی میں ہی لکھے گئے تھے اور دوسرے وہ جو وفات کے بعد تحریر کیے گئے ہیں۔زندگی میں لکھے گئے مضامین فن سے تعلق رکھتے ہیں، بعد کے مضامین میں فنی تحریریں ہیں اور تعزیتی بھی۔ پوری کتاب میں عمدہ تحریریں بکھری پڑی ہیں لیکن جس طرح کتاب کے فلیپ میں مظفر حنفی کی تصانیف کو اصناف میں الگ الگ پیش کیا گیا ہے ویسا کچھ مضامین کی ترتیب میں نظر نہیں آتا ہے۔ اکثر مضامین شاعری سے متعلق ہیں، مظفر حنفی کے چار افسانوی مجموعے شائع ہوئے ہیں اس میں ان کے فکشن پر صرف دو مضامین ہیں۔ یادیں اور ملاقاتیں پر کئی تحریریں ہیں،ادب اطفال پر شاعری کے حوالے سے تین مضامین ہیں، پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ جس بسیط شخصیت کا نام مظفر حنفی تھا ان کے فن و شخصیت پر محیط یہ کتاب نہیں ہے کیونکہ اس میں ان کی ترجمہ نگاری، تحقیق و تدوین، جمع و ترتیب کے فنی مطالعے پر کوئی تحریر نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود یہ کتاب بایں طور اہم ہے کہ اس میں ان کی شاعری کے کئی گوشوں کا خاطر خواہ مطالعہ ملتا ہے، جس سے آج کی نسل کو احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جدیدت کے دور میں اس کے اثر ات کو قبول کرتے ہوئے بھی اپنی راہ الگ کیسے بنائی اور ان کی شاعری میں عصری حسیت کے ساتھ حالات پر طنز کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے۔ فصیح اللہ نقیب کا مضمون صرف ایک شعری مجموعہ کے حوالے سے ہے لیکن وہ ان کی شعری کائنات کی مکمل نمائندگی کرتا ہے۔ جدید غزل میں مظفر حنفی کا کیا مقام ہے اس حوالے سے ڈاکٹر ممتا ز الحق، ارشد نیاز ودیگر کے مضامین عمدہ ہیں۔کتاب میں مظفر حنفی کے دو انٹر ویو بھی ہیں ایک طلعت فاطمہ کا اور دو سرا پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی کا۔ الغرض یہ کتاب ان کے شعری امتیازات کی تحریروں سے پر ہے۔ کتاب کی عمدگی میں کوئی حرف نہیں البتہ ترتیب و تہذیب میں قدرے غور و فکر کر کے فن کے اعتبار سے ترتیب وار پیش کرتے تو مزیدخوبصورتی آ جاتی،  نیز ان کی بسیط شخصیت کے لیے یہ آخر ی کتاب ثابت نہیں ہوگی بلکہ شاعری کے سوا پر بھی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے جس جانب مرتب موصوف انشا ء اللہ توجہ دیں گے۔ کتاب کے ٹائٹل کے لیے انہوں نے نئی راہ نکالی ہے کہ نام کے مقام پر مظفر حنفی کی تصویر استعمال کی گئی ہے یہ کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے مزید تجربہ پر موقوف ہے۔

امیر حمزہ 

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...