Monday 30 November 2020

اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات

اردو زبان و ادب پر عربی کے اثرات 

مصنف ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی 

مترجم محمد طارق


اس دنیاکی لسانی تاریخ میں کئی موڑ ایسے دیکھنے کو ملتے ہیں جب ایک زبان کا غلبہ دوسری زبان پر ہوجاتا ہے اور علاقائی زبان ثانوی زبان بن کر رہ جاتی ہے، اسی طریقے سے کئی زبانیں ایسی ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے اثرات بہت ہی دوراور دیر تک قائم کیے ہیں ۔یہ جغرافیائی اور مذہبی دو نوں سطح پر ہوا ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد عربی زبان کے سامنے کئی علاقائی زبانوں نے دم توڑا تو کئی قدیم اور مضبوط تہذیبوں کی نمائندگی کر نے والی زبان بھی فاتح کی زبان کو اپنے اندر سموتی چلی گئی اس کی واضح مثال فارسی زبان ہے جس میں عربی کا اثر اتنا زیادہ بڑھا کہ ایک مکمل زبان ہونے کے باوجود عربی کے الفاظ و تراکیب فارسی کے ہر جملے میں نظر آنے لگے ساتھ ہی شاعری میں عربی کے مصرعے تک باندھے جانے لگے۔ یہی کچھ اردو زبان کے ساتھ بھی پیش آیا کہ اس زبان نے اپنی ادبی اور علمی شروعات فارسی زبان کے ماتحت کی اور ایک حد تک فارسی، عربی کے الفاظ و تراکیب سے پر ہوچکی تھی۔ تو ایسے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اردو کے شاعروں نے فارسی و عربی شاعری سے کشید کیا ہی ساتھ ہی شاعری بھی فارسی میں کی اور اسی کے ساتھ عربی کے اثرا ت بھی اردو پر ہوئے دوسری وجہ دینی بھی ہے ۔زبان کس طر ح بدلتی ہے اس کے واضح اثرا ت آپ اردو کے دو شاعروں کے یہاں دیکھ سکتے ہیں ایک جعفر زٹلی اور دوسرے اکبر الہ آبادی ۔زٹلی کے یہاں ہندو ی اور اردو کے اسماو صفات رقم ہو نا شروع ہوجاتے ہیں۔ ان کے عہد کے بعد اردو زبان اپنے عروج کو پہنچتی ہے اوراکبر الہ آبادی کے دور سے ہی زبان کروٹ لینا شروع کردیتی ہے یعنی انگریزی کا اثر اردو زبان میں بڑھنے لگتا ہے ۔اردو زبان کا بیشتر ادبی سرمایہ فارسی زبان سے آیا ہے اور اس زمانے کے اردو کے اکثرعلماء عربی زبان و ادب سے واقف تھے۔ ان دونوں وجوہات کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ اردو زبان وادب میں ہزارروں الفاظ عربی کے داخل ہوگئے ، جس پر زیر تبصر ہ کتاب میں مدلل گفتگو کی گئی ہے ۔اس کتاب کے مصنف عربی زبان و ادب کے مشہور ومستند عالم پروفیسرعلیم اشرف جائسی ہیں ۔ موصوف کا تعلق مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے ہے ۔ یہ کتاب ان کی تحقیقی مقالہ کا حصہ ہے جو پروفیسر سید کفیل احمد کی نگرانی میں مکمل ہوا ۔اس کو اردو کا جامہ محمد طارق نے پہنایا جن کا تعلق مولانا آزادنیشنل اردو یونی ورسٹی حیدرآباد کے شعبہ ترجمہ سے ہے ۔جہاں تک ترجمہ کی بات ہے تو فنی طور پر بہت ہی عمدہ اور سلیس ہے اس میں معنوی ترسیل کی مکمل کوشش ملتی ہے ، بلکہ زبان سے یہ احساس ہوتا ہی نہیں کہ یہ ترجمہ ہے۔

یہ کتاب چا ر ابواب پر مشتمل ہے اور تمام ابواب میں کل فصول کی تعداد چودہ ہے ۔پہلے باب میں اردو زبان کی نشوو نما اور ارتقا پر ایک تاریخی جائزہ ہے ۔اردو زبان کی نشو نما پر جتنے بھی نظریے ہیں ان میں سے انہوں نے ہندوستانی، پنجابی اور ہریانوی نظریات پر بحث کی ہے۔ اس پر گفتگو کر تے ہوئے مصنف کو’’ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر کسی نے اپنے نظریے کے اثبات پر توجہ دینے کے بجائے دوسروں کے خیالات و آراء کی تر دیدو ابطال پر زیادہ توجہ دی ہے ۔‘‘ ارتقاء کی فصل میں دس مقامات و ادوار کے ساتھ صوفیا کا بھی خصوصی ذکر ہے جن میں سے اکثر کا تعلق تشکیلی دور سے ہے۔ دوسرے باب میں اردولغات پر عربی زبان کے اثرات پرتفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔ اس باب کی تمہید پر وہ دلچسپ باتیں بھی لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں تمدن ، حکومت اور فرنیچر سے متعلق الفاظ کی بڑی تعداد فارسی سے ، علم و فلسفہ سے متعلق یونانی سے ، زراعت کے الفاظ نبطی سے ، دینی رسومات عبرانی یا سریانی سے ، مسالہ ، دوا اور خوشبو وغیرہ کے الفاظ ہندی الاصل سے آئے ہیں۔ دو زبانوں کے درمیان آپسی رشتہ کیسے قائم ہوجاتا ہے اس پر بھی معروضی گفتگو ہے ۔ جیسے آج کے دور میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اردو سمیت کئی زبانوں میں سائنس اور جدید ایجادات کے متعلق الفاظ انگلش سے بلا کسی تغیر و تبدل کے آرہے ہیں ۔ اس باب میں دوفصلیں ہیں ۔پہلی فصل میں ان عربی الفاظ کا ذکر ہے جو بغیر کسی لفظی و معنوی تصرف کے اردو میں استعمال ہوتے ہیں ۔اس فصل کے حاشیے میں انہوں نے سمیر عبدالحمید ابراہیم کے لغت کا ذکر کیا ہے جس میںہزاروں ایسے عربی الفاظ شامل کر دیے گئے ہیں جو نہ کسی اور دوسرے اردو لغت میں موجود ہیں اور نہ ہی اردو والے اس کو بولتے ہیں ۔حاشیہ میں ہی انہوں نے سیکڑوں الفاظ کے متعلق تلفظ کی تفریق کا ذکر کیا ہے۔ دوسری فصل میں ان الفاظ کا ذکر ہے جو لغت میں لفظی ،معنوی یا دونوں قسم کے تغیر کی ساتھ در ج ہیں ۔اس فصل میں انہوں نے لفظی تغیر کے چار اور معنوی تغیر کے چھ اسباب بیان کیے ہیں ساتھ ہی صوتی و دلالتی تغیر کی چھبیس اقسام کا ذکر کیا ہے ۔ایسے الفاظ کی تعداد تقریبا دو ہزار ہے ، اس میں انہوں نے ہر لفظ کا اردو معنی اور عربی معنی کا ذکر الگ الگ کیا ہے۔ اس کے بعددو سو سے زائد ان الفاظ کا ذکرکیا ہے جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں لیکن عام بول چال میں حرکاتی تغیر واقع ہوچکا ہے ۔اس باب کی تیسری فصل میں ان عربی الفاظ کا ذکر کیا گیا جن کے ساتھ غیر عربی لاحقے اور سابقے آگئے ہیں ۔چوتھی فصل میں ان عربی مرکبات کا ذکر ہے جن کا ذکر اردو میں بکثرت ہوتا ہے بلکہ وہ روزمر ہ کی زبان میں بھی مستعمل ہیں جیسے فی الحقیقت ، فارغ البال وغیرہ ۔تیسرا باب اردو زبان کے علوم پر عربی زبان کے اثرات پر ہے۔  اردو زبان جب انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت ہی زیادہ متعارف ہوگی ، ہر طرف لکھی اور پڑھی جانے لگی یہاں تک کہ ذریعہ تعلیم بھی اردو ہی ہوگئی اور اردو زبان میں علوم کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔جو علوم پہلے عربی زبان میں پڑھائے جاتے تھے وہ اب اردو زبان میں پڑھائے جانے لگے۔ اگر صرف علوم کی بات کی جائے تو کئی علوم ہیں جو پہلے عربی زبان میں پائے جاتے تھے وہ اب اردو زبان میں بھی ہیں جن سے اصطلاحات و اسما و صفات براہ راست عربی زبان سے ہی آئے ہیں جیسے علوم حکمت وکلام وفلسفہ ودیگر لیکن یہاں مصنف نے صرف ان علوم کو شامل کیا ہے جن کا تعلق داخل زبان سے ہے جیسے پہلی فصل میں بلاغت سے علم بیان ، معانی اور بدیع ۔ دوسری فصل میں عرو ض وقافیہ ۔تیسر ی فصل میں صرف و نحو۔چوتھی فصل میں رسم الخط و املااور پانچویں فصل میں تنقید کے اردو زبان پر اثرات کیا ہیں۔واضح ہوکہ ان علوم میں عربی کا اثر ارد و زبان میں اتنا زیادہ ہے کہ گویا یوںسمجھ لیا جائے کہ تمام اصطلاحات کو ہو بہو نقل کر دیا گیا ہے۔چوتھے باب میں اردو ادب پر عربی زبان کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اس پر گفتگو ہے ۔اس میں تین فصلیں ہیں ۔ پہلی فصل میں مجموعی اثرات کاذکر ہے جس میں مفردات ، تلمیحات ، تشبیہات و استعارات ، اصطلاحات و تراکیب وغیرہ پر گفتگو ہے ۔دوسری فصل میں اردو نثر پر عربی کے اثرات کو پیش کیاگیا ہے ، نثر کی جو اقسام عربی میں پائی جاتی ہیں وہ اردو میں بھی پائی جاتی ہیں نام بھی وہی ہیں اس کے علاوہ چند نثری اصناف وہ ہیں جن کا تعلق عربی زبان و ادب سے رہا ہے جیسے تحریری قصے ، خطبات ، خطوط و مکاتیب ، سیر ت و سوانح ، ادبی مقالات ۔ اردو کی دینی تحریروں پر عربی کے اثرات کا مختصر ذکر کیا گیا ہے اگر اس کی تفصیل میں جاتے تو شاید اتنی ہی ضخیم ایک اور کتاب تیار ہوجاتی ۔تیسر ی فصل میں پہلے تو مجموعی طور پر اردو شاعری پر عربی زبان کے اثرات پر گفتگو ہوئی ہے اس کے بعد عربی شاعری اور فارسی شاعری کے اردو زبان پر کیا اثرات مر تب ہوئے ہیں اس پر بات کی گئی ہے ۔اردو اور عربی اصناف شعر جیسے قصیدہ ، غزل، مرثیہ ، مثنوی اور رباعی جن کا سرا عربی زبان سے ملتا ہے اور اردو میں براہ فارسی منتقل ہوئی ہیں ۔ رباعی میں اشکال بھی ہوسکتا ہے لیکن اتنا تو واضح ہے کہ اس کے اوزان وا رکان عربی سے ہیں ۔الغرض یہ کتاب مکمل دستاویز ہے ان تمام عناصر کے لیے جن کا ورود اردو میں عربی سے ہوا ہے ۔ اس کتاب کی تصنیف میں جس قدر محنت کی گئی ہے وہ جدید محققین کے لیے مثال ہے اور مترجم کی محنت صاف جھلکتی ہے کہ انہوں نے کس جانفشانی سے تمام چیزوں کو اردو کے ماحول میں ڈھال کر پیش کر دیا ۔ قومی کونسل کا شکریہ کہ اس نے اس قیمتی علمی وتحقیقی سرمایے کو شائع کر کے بین لسانی روابط کو منظر عام پر لایا ۔


Thursday 30 April 2020

باعتبار حال اسم کے اقسام

حالت کے لحاظ سے اسم کی اقسام 

کسی جملے میں اسم یا قائم مقام اسم کے طور پر استعمال ہونے والے لفظوں کی حیثیت کو ’حالت ‘ کہتے ہیں جیسے احمد خط لکھتا ہے ، احمد قلم سے لکھتا ہے۔ پہلے جملے میں لکھنے کا کام احمد کر رہا ہے اور دوسرے جملے میں قلم سے کام کر نے کی حالت کو ظاہر کیا جا رہا ہے ۔اسی طر یقے سے ہر جملے میں اسم کا استعمال مختلف حالتوں میں ہوتا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

حالت فاعلی یہ اسم کی وہ حالت ہے جس سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ اسم کسی کام کو کر نے والا ہے یا وہ کسی خاص حالت میں ہے ۔ جیسے احمد شہر گیا ، ذکیہ نے کھانا کھایا ، بلال نے قرآن پڑھا ۔ ان تینوں مثالوں میں احمد ، ذکیہ اور بلال کی جو حالت ہے وہ فاعل کی حالت ہے ۔شہر جانے کا کام احمد کر رہا ہے ، کھانا کھانے کا عمل ذکیہ کر رہی ہے ۔قرآن پڑھنا ایک کام ہے جس کو بلال کر رہا ہے ۔گویا کام کرنے والے کوفاعل کہتے ہیں اور جو اسم فاعل کے مقام پر ہوتا ہے وہ حالت فاعلی میں ہوتا ہے۔حالت فاعلی میں اسم کے ساتھ کہیں’نے ‘ لگتا ہے اور کہیں ’نے ‘ نہیں لگتا جیسے احمد نے کھانا کھایا ، احمد قرآن پڑھتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔

حالت مفعولی جس اسم پر کام کرنے والے کا اثر پڑے وہ اسم حالت مفعولی میں ہوتا ہے جیسے شاذیہ کتاب پڑھتی ہے ، امی کھانا پکاتی ہیں، ابو گاڑی چلاتے ہیں ۔پہلی مثال میں شاذیہ ،کتاب اور پڑھتی تین لفظ ہیں جن میں سے شروع کے دو اسم ہیں اور پڑھتی فعل ہے۔شاذیہ فاعل ہے کیونکہ پڑھنے والی شاذیہ ہے ، پڑھنا فعل ہے اور جو چیز پڑھی جارہی ہے وہ مفعول (کتا ب) ہے ۔یہاں پر کتاب حالت مفعولی میں ہے ۔ اسی طریقے سے دیگر مثالوں میں کھانا اور گاڑی حالت مفعولی میں ہیں ۔

جو اسم مفعولی حالت میں ہوتا ہے اس کے ساتھ کبھی ’کو‘ آتا ہے جیسے پولیس چو ر کو پیٹی ہے اور کبھی’ سے‘ آتا ہے جیسے غفران چھت سے گرا ۔ کبھی ان دونوں لفظوں میں سے کچھ بھی نہیں آتا جیسے امی کپڑے دھوتی ہیں ، آپی سبزی پکا تی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

حالت اضافی جب کسی اسم یا ضمیر کو دوسرے اسم سے نسبت دی جائے یعنی ایک اسم کا تعلق دوسرے اسم سے ظاہر کیا جائے تو اسے حالت اضافی کہتے ہیں جیسے خالد کی کتاب ، ابو کا چشمہ ، بو تل کا پانی وغیر ہ ۔ ان مثالوں میں کتاب ، چشمہ اور پانی کا تعلق خالد ، ابو اور بوتل کی جانب کیا جارہا ہے اس لیے یہ سب اسما ء ان مثالو ں میں حالت اضافی میں ہیں ۔ (کتا ب، چشمہ اور پانی مضاف ہیں ، خالد ، ابو اور بوتل مضاف الیہ ہیں ، کی اور کا حر وف اضافت ہیں)
حروف اضافت واحد مذکر میں ’ کا ‘ جمع مذکر میں ’ کے‘ اور واحد اور جمع مؤنث میں ’ کی ‘ آتے ہیں ۔
احمد کا کپڑا ( واحد مذکر ) احمد کے کپڑے (جمع مذکر )
خالد کی مر غی (واحد مؤنث) خالد کی مر غیاں (جمع مؤنث) 

حالت ظر فی جب کسی اسم سے زمان یا مکان یعنی وقت یا جگہ کا مفہوم پایا جائے تو وہ ظرفی حالت میں ہوتا ہے جیسے حامد گھر میں ہے ، فر زانہ اسکو ل میں ہے ، ابو صبح جلدی اٹھے ۔ان سب مثالوں میں گھر ، اسکول اور صبح ظرف ہیں ۔ 
یہ بھی آپ جان لیں کہ ظر ف کی دو قسمیں ہیں ظر ف زمان اور ظرف مکان۔ 

ظر ف زمان سے وہ اسم مر اد ہوتا ہے جس سے وقت کا پتہ چلے جیسے اوپر کی مثال میں صبح ظرف زمان ہے ، اسی طر یقے سے ظہر کے وقت اسکو ل کی چھٹی ہوتی ہے ، عصر بعد ہم سب کھیلتے ہیں ، بارش کے وقت گھر پہنچے ، آندھی کے وقت بجلی چلی گئی وغیرہ غیرہ ۔ ان سب میں ظہر ،عصر، بارش کے وقت ، آندھی کے وقت ظرف زمان ہیں ۔

ظر ف مکان سے وہ اسم مر اد ہوتا ہے جس سے کسی جگہ کے بارے میں پتہ چلتا ہے جیسے چھت پر کپڑے ہیں، کھانا فریج میں ہے ، لوگ ہال میں جمع ہیں ۔ ان تمام میں چھت ، فریج اور ہال ظرف مکان ہیں۔

 ظرفی حالت میں اسما کے ساتھ ’ سے ، تک ، پر ، میں ، اوپر ،نیچے ، تلے ، اندر ، اندر سے اور کو‘آتے ہیں ۔
مثالیں : صبح سے بیٹھا رہا، شا م تک گھر واپس آگیا ، چھت پر ٹہل رہا ہوں ، فر یج میں دیکھ لو، بکس کے اوپر ، چھت کے نیچے ، آدمیوں کی بھیڑ تلے دبا رہا ، نالی کے اندر کچھ ہے، بیڈکے اندر سے یہ سامان نکلا ، کلکتہ سے نکلا لکھنؤ کو گیاوغیرہ ۔ بعض اوقات کوئی حرف نہیں ہوتا ہے جیسے وہ صبح آیا ۔

طوری حالت 
جب کسی اسم سے طور ،طریقے ، اسلوب ، سبب ، ذریعہ اور مقابلہ جیسی کیفیت معلوم ہو تو وہ اسم حالتِ طوری میں ہوتا ہے جیسے وہ گیند سے کھیلتا ہے ، اس کی لاٹھی اور ڈنڈوں سے پٹا ئی ہوئی ، ابو اسکو ٹر سے بازا ر گئے ، اس نے ترقی علم سے حاصل کی وغیرہ وغیرہ ۔ان مثالوں میں گیند، لاٹھی ڈنڈے ، اسکوٹر اور علم سب اسم ہیں لیکن جملے میں جس طر ح استعمال ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب اسم طوری حالت میں ہیں ۔

ندائی حالت 
جب اسم کسی کو بلانے یاپکارنے کے لیے مخاطب کے طو ر پر استعمال ہو جیسے بھائی! ذرا سننا ، امی !کچھ کھانا ہے ۔ لڑکے! یہاں آؤ،بچو! شور نہ کر و، صاحبو! غور سے سنووغیرہ ۔مذکورہ بالا مثالوں میں امی ، بھائی ، لڑکے ،بچو اور صاحبوندائی حالت میں اسم ہیں ۔

ندائی حالت میں واحد مذکر اسم کے آخر میں ’الف ‘یا ’ہ‘ ہو تو وہ حالت ندائی میں ’ے ‘ سے بدل جاتا ہے جیسے واحد مذکر میں لڑکا جس کے آخر میں الف ہے حالت ندائی میں اس طر ح ہوگا لڑکے !شور نہ کر و،رشتے داروں کو پکارنے میں کسی قسم کی تبدیلی نظرنہیں آتی جیسے امی ، ابو ، ماما، مامی ، خالہ اور خالو وغیرہ ۔ لیکن بیٹا دو نوں طر ح استعمال ہوتا ہے جیسے بیٹا! کھانا کھالو، بیٹے !ادھر آؤ۔ جمع میں آخر کا نون گر جاتا ہے جیسے بچوں سے بچو !شور نہ کرو ۔ لڑکیو! سبق یا دکر ووغیرہ۔

خبر ی حالت 
وہ اسم جو جملہ میں بطور خبر کے واقع ہو جیسے احمد بیمار ہے ، عبد الغفور صاحب پرنسپل ہیں ، عبدالرحمان صاحب ہیڈ ماسٹر ہیں وغیرہ ان جملوں میں بیمار، پر نسپل اور ہیڈ ماسٹر حالت خبری میں ہیں

مذکر و مؤنث muzakkar muannas


 لواز م اسم 

(مذکر و مؤنث )


 اسم خواہ کسی بھی قسم کا ہو اس کے اندر چند خصوصیتیں لازمی طور پر پائی جاتی ہیں ۔اول یہ کہ وہ مذکر ہوگا یا مؤنث ، دو م یہ کہ وہ واحد ہوگا یا جمع اور سوم یہ کہ وہ اسم کام کرنے والا ہوگا یا کام کا اثر اس اسم پر ہوگا ۔ پہلے کو جنس دوسرے کو تعداد اور تیسرے کو حالت کہتے ہیں۔ 

جب کوئی کلمہ اسم ہوگا تو لازمی طور پر وہ مذکرہوگا یا مونث ( اسی کو عام زبان میں نَر اور مادہ کہتے ہیں ) اس کلمہ کو اسم جنس کہتے ہیں. پھر اسم جنس کی دو قسمیں ہیں حقیقی اورغیر حقیقی۔ جاندار چیزیں جو یا تو نر ہوتی ہیں یا مادہ تو اس کوجنس حقیقی کہتے ہیں کیونکہ ان کے بارے میں ہم آسانی سے جان جاتے ہیں کہ یہ نر ہے یا مادہ ۔ 

مذکر حقیقی۔ باپ ، دادا ، بھائی ،چچا ، ماما ، نا نا، کتا ، گدھا ، شیر ، بند ر اور مور وغیرہ ہیں ۔
 مونث حقیقی جیسے ماں ، دادی ، بہن ،چچی ، ممانی، نانی، کتیا ، گدھی ، شیر نی، بندریا اور مورنی وغیرہ ۔ 
مذکر غیر حقیقی وہ اسم ہوتے ہیں جس میں مذکر ہونے کی بظاہر کوئی علامت نہ ہو لیکن وہ مذ کر ہوتا ہے جیسے جہاز ، آسمان ، بادل، پانی وغیرہ ،اسی طریقے سے مؤنث غیر حقیقی جس. میں بظاہر مادہ ہونے کی کوئی علامت نہ ہو لیکن جب ہم بو لتے ہیں تو مؤنث ہی بولتے ہیں جیسے کتا ب ، کاپی، پینسل ، ٹوپی ،گاڑی اور ٹرین وغیرہ ۔
کچھ چیز یں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے گروپ کے اعتبار سے مذکر ہوتی ہیں یا مؤنث 
مذکر 
٭ پیشہ وروں کے نام جیسے استاد ، ڈرائیور ، درزی ، دھوبی ،مالی اور موچی وغیرہ 
٭ پہاڑوں کے نام ، ہمالہ ، پارسناتھ ، اراولی۔
٭ دھاتوں کے نام جیسے لوہا، المونیم ، تانبہ ، کانسہ۔ 
٭ جواہرات کے نام جیسے سونا ، چاندی ، ہیرا۔ 
٭ دنوں کے نام ، ہندی ، انگلش میں تمام دن اور اردو میںبھی تمام دن مذکر ہوتے ہیں(جمعرات کے علاوہ ) ۔
٭ ہندی اور اسلامی مہینوں کے نام۔ 

٭ کچھ ایسے اسم ہیں جن کا مونث حقیقی (حقیقی مادہ ) موجود ہے لیکن پھر بھی مذکر ہی استعمال ہوتے ہیں جیسے الو، طوطا ، باز ، چیتا ، تیندوا، ٭ بچھو وغیرہ۔ ان سب کا مونث حقیقی استعمال نہیں ہوتا ہے ۔
 ان تمام کے علاوہ ہزاروں لفظ ہیں جو مذکر ہوتے ہیں ۔ ان سب کا تعلق استعمال سے ہے ۔

مؤنث 
٭ دنیا میں جتنی بھی زبانوں کے نام ہیں سب کے سب مؤنث ہوتی ہیں جیسے اردو ، عربی ، فارسی ، تر کی ، ہندی ، بنگالی، مر اٹھی وغیرہ 
٭ عبادتوں کے نام ، نماز ، پوجا ، دعا ۔
٭ تمام نمازوں کے نام ، فجر ، ظہر ، عصر مغرب ، عشا، تہجد، اشراق ، چاشت ، اوابین ، جنازہ ، عیدین ۔
٭ جس لفظ کے آخر میں ’ت‘ ہو جیسے عداوت ، مصلحت، محبت ، نفرت ، عنایت ، شوکت ندامت وغیرہ یہ سب عربی کے لفظ ہیںاگر کوئی لفظ ٭ ہندی کا ہو جس کے آخرمیں ’ ت‘ ہوتو وہ مذکر بھی ہوسکتا ہے جیسے بھگت، بھارت، بھوت وغیرہ ۔
٭ کچھ چھوٹے چھوٹے جاندار ایسے ہوتے ہیں جن کا استعمال صر ف مونث ہی ہوتا ہے ۔ جیسے مکھی ، چھپکلی، مکڑی ، چھچھوندر وغیرہ ۔ 
٭ تما م ہواؤں کے نام مونث ہوتے ہیں ۔
٭ ہندی کے بہت سارے الفاظ جن کے آخر میں ’ی ‘ ہوتی ہے وہ مونث ہوتے ہیں جیسے سبزی، لکڑی، کوٹھی، تالی، روٹی ، چابی، ہڈی وغیرہ اس کے علاوہ بھی ہزاروں لفظ ہیں جو صرف مونث ہی استعمال ہوتے ہیں ۔

مذکر سے مؤنث بنانے کا قاعدہ 
پیارے بچو! اب آپ جاننا چاہیں گے کہ مذکر سے مونث بنا نے کا قاعدہ کیا ہے ۔ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مذکرسے مونث بنانے کاکوئی مستقل قاعدہ نہیں ہے لفظ کے حساب سے قاعدے بدلتے رہتے ہیں جیسے اگر لفظ کے آخرمیں الف یا ہ ہے تو ی سے بد ل دیتے ہیں جیسے اندھا سے اندھی ، بیٹا سے بیٹی ، چچا سے چچی وغیرہ 
مذکر لفظ کے آخر میں ن کا اضافہ کرنے سے بھی مؤنث بنتا ہے جیسے ناگ سے ناگن ۔
مذکر لفظ کے آخر میں ’نی‘ کا اضافہ کرنے سے بھی مؤنث بنتا ہے جیسے فقیر سے فقیر نی ، اونٹ سے اونٹنی ۔
الغر ض اس کا کوئی خاص قاعدہ نہیں ہے بلکہ استعمال پر ہے کہ عوام اس لفظ کا مونث کیسے استعمال کر تے ہیں ۔
#گرامر
#مذکر
#مؤنث

Thursday 23 April 2020

اسم ضمیر اور اس کی قسمیں

اسم ضمیر


 اسم ضمیروہ الفاظ ہوتے ہیںجو اسم کے مقام پر استعمال ہوتے ہیں جیسے ’ وہ ، میں ، اس ، مجھ اور تجھ ‘ وغیرہ ۔ اس شمارہ میں ہم اسم ضمیر کے 
تمام اقسام سے واقف ہوں گے ۔ 

اسم ضمیر کی پانچ قسمیں ہیں ۔
 ضمیر شخصی ، ضمیر اشارہ ، ضمیر موصولہ ، ضمیراستفہامیہ اور ضمیر تنکیر ۔

ضمیر شخصی: وہ ضمیر ہے جو صرف اشخاص کے لیے استعمال کی جاتی ہے ۔ ہم بات کر تے وقت اکثر نام نہ لیکر وہ، میں اور تو یا تم استعمال کرتے ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ مذکورہ لفظ صر ف انسانوں کے لیے ہی استعمال کر تے ہیں اسی لیے اس کو ضمیر شخصی کہتے ہیں ۔اس کی تین صورتیں ہیں ۔ 

پہلا: بات کر نے والاجسے متکلم کہتے ہیں ۔اس کے لیے میں اور ہم جیسے الفاظ استعمال کر تے ہیں ۔ متکلم کے ضمائر ’ میں ، ہم ، مجھے ، مجھکو ، ہمیں ہمکو، میرا ، ہمارا ، مجھ میں ،ہم میں ، مجھ سے اور ہم سے‘ ہیں 

دوسرا : جس سے بات کی جاتی ہے اسے مخاطب کہتے ہیں اس کے لیے تو اور تم جیسے الفاظ استعمال کر تے ہیں ۔ مخاطب کے ضمائر ’ تو ، تم ، تجھے ، تجھ کو ، تمہیں ، تم کو، تیرا ، تمہارا ، تجھ میں ، تم میں ، تجھ سے اور ہم سے ‘ ہیں ۔

تیسرا : جس کے بارے میں بات کی جاتی ہے اسے غائب کہتے ہیں ۔اس کے لیے وہ اور ان جیسے لفظ استعمال کر تے ہیں ۔ غائب کے ضمائر ’ وہ ، اسے ، اس کو ، ان ، انہیں ، اس کا ، ان کا ، اس میں ، ان میں، اس سے اور ان سے ‘ہیں ۔

ضمیر اشارہ :  عموما ًگفتگو میں کسی چیز کی جانب خواہ وہ نزدیک ہو یا دور اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا جاتا ہے اس کو ضمیر اشارہ کہتے ہیں۔ مثلا یہ قلم وہ کتاب وغیرہ ۔ ایسا اور جیسا جیسے لفظ بھی ضمیر اشارہ کے دائرے میں آتے ہیں ۔

ضمیر موصولہ :  وہ لفظ جو کسی اسم کے بجائے استعمال کیا جائے ، مگر اس کے ساتھ ہمیشہ ایک جملہ آتا ہے جس میں اس اسم کا بیان ہوتا ہے جیسے وہ آدمی جو آیا تھا وہ پھر کل آئے گا ۔وہ کہانی جو فاطمہ نے لکھی تھی بہت اچھی تھی ۔ ان دونوں مثالوں میں ایک لفظ ’ جو ‘ استعمال ہواہے ۔ یہی ضمیر موصولہ ہے ۔ضمیر موصولہ ’ جو ‘ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں ہوتا ۔
ضمیر استفہامیہ : جو ضمیر سوال کر نے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اسے ضمیر استفہامیہ کہتے ہیں ۔یہ صر ف دو لفظ ’ کو ن اور کیا ‘ ہیں ۔ کون کا استعمال جاندار کے لیے اور کیا کا استعمال بے جان چیزوں کے لیے ہوتا ہے ۔ جیسے دروازے پر کون ہے ، تم کیا بننا چاہتے ہو وغیرہ ۔ 

ضمیر تنکیر : وہ ضمیر جو کسی غیر معین چیز یا شخص کے لیے استعمال ہو۔ جیسے مصیبت میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے ۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ، کوئی نہیں بولتا ۔ کچھ نہ کہو وغیرہ ۔ان مثالوں میں کوئی اور کچھ صفت تنکیر ی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ کوئی اشخاص اور اشیا دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔جیسے کوئی نہیں ہے ۔ کوئی کچھ بھی بولتا ہے ، تم کون سی کتاب لوگے ، کوئی سی بھی دے دو ۔

کچھ اشخاص کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن ہمیشہ جمع کی حالت میں جیسے وہاں کچھ لوگ کھڑے تھے تو کچھ بیٹھے تھے ۔ اگر کوئی کے بعد ’ کے ، کی ، سے یا نے ‘ جیسے لفظ آ جائیں تو کوئی کسی سے بدل جاتا ہے جیسے کسی کے آنے کی آہٹ ہے ، کسی کی آواز آرہی ہے ، کس سے لیا، کس نے بلا یا ہے۔


 #ضمیرشخصی
#ضمیراشارہ
#ضمیرموصولہ
#ضمیراستفہامیہ
#ضمیرتنکیر 

Wednesday 22 April 2020

اسم صفت بنانے کے قاعدے

اسم صفت بنانے کے طر یقے 


 صفت ذاتی سے کسی چیز یا شخض کی اندرونی وبیرونی حالت یا کیفیت کا پتہ چلتا ہے جیسے ذہین لڑکا۔ کُندبچہ ، ٹھوس زمین ، ہرامیدان ، شریر بکرا، تیز چاقووغیرہ ۔یہ صفت کئی موقعوں پر دو لفظوں سے مر کب ہوتا ہے جیسے ہنس مکھ ، من چلا ، منھ پھٹ وغیرہ ۔فارسی علامتوں کے استعمال سے بھی بنتا ہے جیسے ، بے فکرا ، سعادت مند، بے ڈھب وغیر ہ ، ان مثا لوں میں بے صفت کے ساتھ مل کر صفت ذاتی بن رہا ہے ۔بعض اوقات یہ اسماء اور افعال سے بھی بنائے جاتے ہیں جیسے ، جھوٹ ، سے جھوٹا ، سچ سے سچا ، غدر سے غدار، کھیل سے کھلاڑی  وغیرہ ۔

صفت نسبتی کے متعلق آپ نے پڑھا ہوگا کہ یہ اس صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری شے سے نسبت یا لگاؤ ظاہر ہو جیسے کلکتہ سے کلکتوی، پٹنہ سے پٹنوی دہلی سے دہلوی وغیرہ ۔ عموماً اس کے لیے اسما کے اخیر میں یائے معروف کا اضافہ کرتے ہیں ۔ جیسے ہندو ستان سے ہندوستا نی ۔  مصر سے مصری، پاکستان سے پاکستانی وغیرہ ۔
اگر کسی اسم کے اخیر میں (ی )،( الف)  اور( ہ) ہوتو اس ی، الف اور ہ کو واو سے بدل کر اخیر میں ی کا اضافہ کر تے ہیں جیسے دہلی سے دہلوی ، پٹنہ سے پٹنوی وغیرہ ۔ جن اسما کے اخیر میں (ہ ) ہو اس کو حذف کرکے ی کا اضا فہ کر دیتے ہیں جیسے مکہ سے مکی اور کبھی ہ کو واو سے بدل کر ی کا اضافہ کر تے ہیں کلکتہ سے کلکتوی وغیرہ ۔کبھی الف نون بڑھا کر صفت نسبتی بنا یا جاتا ہے جیسے شاطر سے شاطرانہ ، احمق سے احمقانہ وغیرہ ۔ اس کے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں جس کا ذکر اس سے قبل کے شمارے میں ہوچکا ہے ۔

صفت عددی کے متعلق ہم نے پڑھا ہے کہ یہ وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی تعداد ، کسی اسم کا درجہ معلوم ہو ،یا کسی اسم کی کلیت کا پتہ چلے ۔جیسے دس لڑکے، دسواں لڑکا ، دسوں لڑکے ۔ پہلے سے تعداد، دوسرے سے درجہ اور تیسرے سے کلیت( مکمل )کا علم ہورہا ہے یعنی دس کے دس سبھی ۔ اس کے بنانے کے قاعدے میں کوئی کچھ خاص بات تو نظر نہیں آرہی ہے ۔ پہلے میں صرف گنتی ہے ، دوسرے میں ایک سے پہلا ، دو سے دوسرا ، تین سے تیسرا ، چار سے چوتھا ، پانچ سے پانچوا ں ۔ پانچ سے وا و الف اور نون غنہ کا اضافہ اخیر تک ہوگا سب کے سب واو ، الف ، نون عنہ کے اضافے سے بنیں گے جیسے تیسواں ، چالیسواں  اور بہترواں وغیرہ ۔عدد کے آگے ’ گُنا ‘ بڑھانے سے بھی صفت عدد بنتا ہے جیسے دو گنا ، تین گنا ، چار گنا ۔(دگنا ، تِگنا ، چوگنا )( گُنا کو گونہ بھی لکھتے ہیں ) ۔ اسی طریقے سے فارسی اعداد کے بعد ’چند ‘ اضا فہ کر نے سے جیسے دو چند ، سہ چند وغیرہ ۔ ہر ا بھی بڑھانے سے جیسے دوہرا ، تہرا ۔ان کے علاوہ اس قسم کے دوسرے  اسمائے عدد جیسے ، پاؤ ، آدھا ، پونے ، سوا ، ڈیڑھ ، پون، پونے ، ڈھائی، چوتھائی یہ تمام جس طر ح سے صفت عددی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اسی طریقے سے مقداری کے طور پر بھی ۔ 

 صفت مقداری اس اسم صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی اسم کی مقدار ظاہر ہو ۔جیسے پانچ کلوسیب ، دس میٹر کپڑا ، بالٹی بھر پانی ، آدھا گلاس شربت ، اتنا پانی ختم ہوا ۔ جتنا چاہو کھا لو ۔ بورا بھر چاول ، ڈرم بھر تیل ، وغیرہ ۔ بس یہ یا د رکھیں کہ اس کے لیے وہ اسما ء استعمال ہوتے ہیں جس سے مقدار کے معانی نکلتے ہوں ، اس کی مزید تفصیل گذشتہ شمارے میں پیش کی جا چکی ہے ۔ 

صفت ضمیری وہ ضمیریں ہوتی ہیں جو صفت کا کام دیتی ہیں ۔یہ عمو ما ً ’ یہ ، وہ ، کون ، جو ، کیا ‘ ہوتی ہیں ۔ اس کے بنانے کا کوئی خاص قاعدہ نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ کلمات صفت ضمیری کے طور پر اسی وقت استعمال ہوتے ہیں جب یہ کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوں جیسے وہ گاڑی آئی تھی ، میں اس اسکول میں پڑ ھتا ہوں ، کون شخص ایسا کہتا ہے ، وغیرہ ۔ ان مثالوں میں ’وہ ، اس ، کون، صفت ضمیری ہیں ۔

اس مثال سے تو آپ جان ہی گئے ہوںگے کہ ضمیر ان الفاظ کو کہا جاتا ہے جو اسم کے مقام پر استعمال ہوتے ہیں جیسے وہ نہیں آیا ، میں آج نہیں جاؤں گا ۔ اس مثال میں وہ اور میں اسم ضمیر ہیں ۔ اگلے شمارے میں ہم انشا ء اللہ ضمیر کے اقسام کے متعلق پڑھیں گے 

Monday 20 April 2020

اسم صفت اور اس کی قسمیں

اسم صفت اور اس کی قسمیں 

 صفت (Adjective) اس کلمہ کو کہتے ہیں جس سے کسی اسم کی کیفیت یا حا لت کا پتہ چلے ،اس کلمہ سے کسی اسم کی اچھائی یا برائی کا پتہ چلے جیسے لال گھوڑا ، گورا آدمی ، خوبصورت لڑکی ،مو ٹی کاپی ، اچھی کتاب ، باریک پینسل وغیرہ ۔ ان تما م مثالوں میں لال ، گورا ، خوبصورت ، موٹی ، اچھی اور باریک اسم ہیں ۔ کیو نکہ ان ہی کلموں سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ چیز کیسی ہے جس کے لیے یہ لفظ لا یا گیا ہے ۔ اسی لیے اس کو صفت کہتے ہیں ۔ 

صفت کے اقسام 
 صفت ذاتی
 صفت نسبتی
 صفت عددی 
 صفت مقداری
 صفت ضمیر ی 

صفت ذاتی: وہ صفت ہے جس سے کسی چیز یا شخض کی اندرونی وبیرونی حالت یا کیفیت کا پتہ چلتا ہو جیسے ذہین لڑکا۔ کُندبچہ ، ٹھوس زمین ، ہرامیدان ، شریر بکرا، تیز چاقووغیرہ ۔ ان تمام مثالوں میں ذہین ،کند، ٹھوس ، ہرا وغیرہ صفت ذاتی ہیں ۔

صفت نسبتی: اس صفت کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری شے سے نسبت یا لگاؤ ظاہر ہو ۔ جیسے کلکتہ سے صفت نسبتی کلکتوی، پٹنہ سے پٹنوی دہلی سے دہلوی وغیرہ ۔ اس صفت کو اگر حامد کے ساتھ لگا یا اور لکھا یا بولا جائے حامد لکھنوی تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں لکھنوی صفت نسبتی ہے جس سے یہ معلوم ہورہا ہے کہ حامد لکھنو کا رہنے والا ہے ۔ 

کبھی کبھی صفت نسبتی خاندان یا تعلیم گاہ سے بھی منسلک ہوتا ہے جیسے گاندھی گاندھی خاندان کی جانب منسوب ہوتاہے ۔قادری قادریہ کی نسبت سے اور ندوی ندوہ کی جانب منسوب ہوتا ہے ۔

انگریزی طریقہ ٔ کار بھی اس میں مستعمل ہے جیسے انڈیا سے انڈین ، علی گڑھ سے علیگیرین ۔

  عام بول چال کی زبان سے بھی صفت نسبتی استعمال کیے جاتے ہیں جیسے کلکتہ سے کلکتیا ، بمبئی سے بمبئیاوغیرہ ۔ ان مثالوں میں غور کر نے سے خودآپ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح صفت نسبتی بن رہے ہیں ۔

صفت عددی : وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی تعداد ، یا کسی اسم کا درجہ معلوم ہو ،یا کسی اسم کی کلیت کا پتہ چلے ۔تعداد کی دو قسم ہوتی ہے ایک جب ٹھیک تعداد معلوم ہو جیسے زکیہ نے دس انڈے خریدے ، سال کے بارہ مہینہ ہوتے ہیں ۔دوسرے جب کسی چیزکی ٹھیک ٹھیک تعداد معلوم نہ ہو جیسے کچھ لڑکے کھیل رہے ہیں ، بعض لوگ مجھ سے ملے۔ ان مذکورہ مثالوں میں ’دس ، بارہ ، کچھ اور بعض‘ صفت عددی ہیں ۔ا ن سب مثالوں میں کسی اسم کی تعداد کا پتہ چل رہا ہے ، پانچو یں کلاس ، آٹھویں کلاس، پہلا ، دوسرا ،تیسرا وغیرہ ان مثالوں میں کلاس کا درجہ معلوم ہورہا ہے ۔ صفت عددی کبھی کسی اسم کے مکمل احاطہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے پانچوں لوگ ، ساتوں اسکول ، تینوں بچے ۔ان مثالوں میں پانچوں ،ساتوں اور تینوں سے اس بات کو سمجھا جارہا ہے کہ وہ اتنے ہی تھے اور سب کے سب اس میں شامل ہوگئے ، کبھی کبھی عمومیت کے اظہار کے لیے بھی صفت عددی کا استعمال کر تے ہیں جیسے : دسیوں لوگ آئے ہوں گے وغیرہ ۔ ان کے علاوہ بھی اس کے کئی اقسام ہیں. 

صفت مقداری : وہ صفت ہے جس سے کسی اسم کی مقدار ظاہر ہو ۔جیسے کلیم نے پانچ کلوسیب خریدا ، دس میٹر کپڑا ، بالٹی بھر پانی ، آدھا گلاس شربت ، اتنا پانی ختم ہوا ۔ جتنا چاہو کھا لو ۔ بورا بھر چاول ، ڈرم بھر تیل ، وغیرہ ۔ ان مثالون میں پانچ کلو، دس میٹر ، بالٹی، آدھا ، اتنا ، جتنا ، بورا، ڈرم وہ لفظ ہیں جو صفت مقدار ی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔پھر صفت مقدار ی کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس سے متعین مقدار معلوم ہو، جیسے پانچ کلو، دس میٹر ، چار لیٹر وغیرہ ۔ کیو نکہ ان کا مقدار متعین ہے کم یا زیادہ نہیں ہوسکتا ۔ دوسرا وہ جس سے متعین مقدار معلوم نہ ہوجیسے بالٹی بھر پانی میں بالٹی بڑی یا چھوٹی بھی ہوسکتی ہے ۔ اسی طریقہ سے بورا تھیلا ، اتنا ، اُتنا ، جِتنا وغیرہ ۔

صفت ضمیری : وہ ضمیریں جو صفت کا کام دیتی ہیں یا جس میں تھوڑی بہت ضمیر کی خوبی پائی جاتی ہو صفت ضمیری کہلاتی ہیں ۔وہ عمو ما ً ’ یہ ، وہ ، کون ، جو ، کیا ‘ ہوتی ہیں ۔ان کلمات کو آپ نے اسم. کے اقسام میں اسم ضمیر کے طور پربھی پڑھا ہوگا ۔یقینا یہ اسم ضمیر ہوتی ہیں لیکن اس وقت جب یہ تنہا استعمال ہوتی ہوں ۔ جب کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوں گی تو اس وقت یہ صفت ضمیری ہوں گی ۔ جیسے وہ لڑکا آیا تھا ، یہ کتاب میں پڑ ھ سکتا ہوں ، کون شخص ایسا کہتا ہے ، اسے کیوں چھوتے ہو ، جو ایوریسٹ پر چڑھتا ہے وہ بہادر ہوتا ہے ،کیا چیز گر پڑی ؟ وغیرہ ۔ ان مثالوں میں ’وہ ، یہ ، کون، اسے ، جو اورکیا ‘ صفت ضمیری ہیں ۔

Friday 10 April 2020

اسم نکرہ کی قسمیں

اسم نکرہ کی قسمیں 

 اسم کیفیت: وہ اسم ہے جس سے کسی چیز کی کوئی خاص حالت یا کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ جیسے نرمی، سختی، روشنی، اندھیرا، صحت، بیماری وغیرہ۔ ان میں سے صحت، نیند اور رفتار وغیرہ سے حالت کا پتہ چلتا ہے اور درد، خوشی، غم وغیرہ سے کیفیت کا علم ہوتا ہے۔

اسم کیفیت فعل سے بھی بنا تے ہیں جیسے رہنا سہنا فعل ہے اس سے اسم کیفیت رہن سہن بن گیا۔ چلنا ایک فعل ہے اس سے چال چلن بن گیا۔ لینا دینا فعل ہے اس سے لین دین بن گیا۔

بعض اسم کیفیت صفت (Adjective) سے بھی بنتے ہیں۔ جیسے نرم صفت ہے اس سے نر می، گرم صفت ہے اس سے گرمی وغیرہ۔

 بعض اسم سے بھی بنتے ہیں جیسے دوست اسم ہے اس سے دوستی، دشمن اسم ہے اس سے دشمنی، تیز اسم ہے اس سے تیز ی وغیرہ۔
ا
سم جمع: اس اسم کو کہتے ہیں جو صورت میں تو واحد معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کئی اسموں کا مجموعہ ہوتے ہیں، یعنی معنوی اعتبار سے وہ جمع ہوتے ہے اور لفظی اعتبار سے واحد۔جیسے فوج اسم جمع ہے۔ وہ اس طر ح کے ایک کو تو فوجی کہیں گے اور جب وہ سینکڑوں کی تعداد میں یا دس ہی کی تعداد میں آئے تو اس کو فوج کہیں گے۔ اسی طریقہ سے جماعت اسم جمع ہے کیو نکہ جماعت کسی ایک آدمی کو نہیں کہا جاسکتا کئی لوگ ایک ساتھ ہو ں تو اس کو جماعت کہتے ہیں۔اسی طریقے سے جھنڈ، بنڈل، جتھا، ریوڑ وغیرہ اسم جمع ہیں۔
ا
سم ظرف: اس اسم کو کہتے ہیں جس میں کسی جگہ یا وقت کے معنی پائے جائیں۔ جیسے ندی،پہاڑ،جھرنا اور میدان وغیرہ۔یہ سب اپنی بنیادی اعتبار سے اسم نکر ہ ہیں کیونکہ مذکورہ بالا کسی خاص پہاڑ یا جھر نا وغیرہ کو مخصوص نہیں ہے بلکہ کسی بھی عام پر دلالت کر رہا ہے۔ اسی لیے اس کو اسم ظرف کہا جاتا کیوں کہ وہ سب کسی جگہ کا نام ہے۔ اسی طر یقے سے ہوائی اڈہ، ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹاپ وغیرہ اسم ظرف ہیں۔ یہ سب وہ ہیں جس سے کسی جگہ یا مقام کا پتہ چلتا ہے۔ 

جن الفاظ سے وقت کا پتہ چلتا ہے جیسے فجر، ظہر، دو پہر، سہ پہر، صبح، شام ولنچ وغیرہ یہ اسم ظر ف زمان ہو تے ہیں کیو نکہ اس سے وقت کا پتہ چلتا ہے۔

اسم آلہ: وہ اسم ہے جو اوزار ہوتے ہیں، جیسے چاقو، قینچی، پھاؤڑا وغیرہ۔

اسم آلہ فعل سے بھی بنتا ہے۔ جیسے بیلنا، سے بیلن، چھاننا سے چھلنی، لٹکانا سے لٹکن، کترنا سے کترنی، جھاڑنا سے جھاڑووغیرہ۔

 اسم کی  مزید قسمیں 
اسم ضمیر:وہ کلمہ ہوتا ہے جو اسم کی جگہ استعمال کیا جائے۔ مثلا میں، تم، وہ، تو، آپ، وغیرہ۔ یہ اکثر گفتگو کے درمیان میں ہوتا ہے۔ جیسے آپ بو لتے ہیں زاہد آیا تھا اور وہ میری کاپی لیکر چلا گیا۔ اس جملہ میں ’وہ‘اسم ضمیر ہے۔ اسی طر ح سے جب آپ سامنے والے شخص سے بات کر تے ہیں تو اس وقت ’آپ، تم اور تو‘ وغیر ہ کلمے کا استعمال ہو تا ہے جو نام کی جگہ ہو تا ہے۔ اسی کو اسم ضمیر کہا جاتا ہے۔

اسم موصول:وہ کلمہ ہوتا ہے جو اس وقت تک پورے مفہوم نہیں دیتاجب تک اس کے ساتھ ایک اورجملہ مذکورہ نہ ہو۔ مثلا۔جو،جس،جب، جسے، جنہیں، وغیرہ۔ اس کو اس طر ح سمجھتے ہیں ’جنہیں بلندی چاہیے ہوتی ہے وہ راتوں کو جاگ کر محنت کر تا ہے“ اس جملہ میں جنہیں اسم موصول ہے جس کا معنی جملہ کے دوسرے حصہ ”وہ راتوں کو جاگ کر محنت کر تا ہے“ سے واضح ہورہا ہے۔

اسم اشارہ: وہ کلمہ ہے جو کسی چیز،جگہ، یا شخص کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔مثلا اِس،اْن،یہ،اْس،وہ،وغیرہ۔ اُ س کتاب کو اٹھا ؤ، اُن کو بلا ؤ، وہ جانور کس کا ہے، یہ کتاب کس کی ہے وغیر ہ۔ ان جملوں میں اِس، اْن، یہ، اْس، وہ، وغیرہ اسم اشارہ ہیں۔

اسم معرفہ

اسم کے اقسام

اسم کی دو قسمیں ہیں۔

۱۔اسم نکرہ
۲۔اسم معرفہ

اسم نکرہ:(اس کو اسم عام بھی کہتے ہیں) یہ اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی بھی غیر متعین چیزکے لیے بو لا جائے۔جیسے شہر اسم نکر ہ ہے۔ کیو نکہ شہر کسی خاص شہر کو نہیں کہاجاتا ہے بلکہ ہر ایک شہر کو شہر ہی کہاجاتا ہے۔ اسی طر ح سے آدمی، کتاب، جانور، کتا، بلی اور گھر وغیرہ اسم نکر ہ ہیں۔

اسم معرفہ:کسی چیز،جگہ،یا شخص کے خاص نام کو اسم معرفہ کہتے ہیں جس سے وہی سمجھا جائے اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہ سمجھا جائے۔ مثلاکلکتہ،ممبئی، عمران،شاذیہ، یوسف وغیرہ۔

اسم معرفہ کی چار قسمیں ہیں۔  
۱۔اسم علم    ۲۔اسم ضمیر ۳۔اسم موصول ۴۔اسم اشارہ

؎اسم علم:اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی خاص چیز،شخص یا جگہ کے نام کو ظاہر کرے۔ مثلا۔ خالد،اقرا،دیوان غالب،حاجی علی وغیرہ

’اسم علم‘ کی بھی پانچ قسمیں ہیں 
۱۔ عرف ۲۔ خطاب ۳۔ لقب ۴۔کنیت ۵۔تخلص

۱۔عرف:عر ف وہ نام ہوتا ہے جو محبت یا حقارت کی وجہ سے دیا جائے، پڑجائے یا اصل نام کا کوئی چھوٹا سا حصہ ہی مشہور ہوجائے۔جیسے نگار سے نگی، انو ج سے انو یا پھر  موٹا ہو نے کی وجہ سے موٹو پڑ جاٍئے، چنو، کلو، کلن وغیرہ 

۲۔خطاب: وہ نام ہے جو حکومت کی طرف سے اعزازی طور پر دیا جائے۔پہلے شمس العلماء، نواب، خان بہادر وغیرہ دیا جاتا تھا۔اب بھارت رتن، پدم وبھوشن، پدم شری وغیرہ کا خطاب صدرجمہوریہ ہند کی جانب سے دیا جاتا ہے۔علاقائی سرکاریں بھی بہادری، اور پڑھائی پر خطاب دیتی ہیں ان سب کو خطابات کے زمرے میں ہی رکھا جاتا ہے۔

۳۔لقب: یہ وہ نام ہے جو کسی خاصیت یا صفت کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہو۔ ویسے خاصیت ہو یا نہ ہو مشہور ہونا زیادہ اہم ہے۔ لقب چونکہ اسم معرفہ کی قسم ہے لہذا خاص لوگوں کے ہی لقب ہوتے ہیں مثلاً قائد ملت، مفکر اسلام،، قائد شباب۔ مسٹر ٹک ٹک، خاتون آہن، وغیرہ۔ 

خطاب تو سر کارکی جانب سے ملتا ہے اور لقب عوام دیتی ہے جیسا کہ آپ مثال سے سمجھ چکے ہوں گے۔

۴۔کنیت:یہ وہ نام ہوتا ہے جو ماں باپ یا بیٹا بیٹی کے تعلق کی وجہ سے پکارا جاتا ہے۔ یوں تو یہ عربوں میں مقبول ہے جیسے ابو زبیدہ، ام کلثوم وغیرہ لیکن ہمارے یہا ں اس کا استعمال’مسز فلاں‘ جیسی صورت میں نظر آتا ہے۔یہ اکثر آس پڑوس سے ملتا ہے۔ بلا واسطہ نام پکارنے میں اچھا نہیں لگتا ہے تو بچو ں کے ابو کے نام سے پکارتے ہیں۔ جیسے کہیں گے ”اے بشریٰ کے ابو، یا اے زینب کی امی‘ وغیرہ۔

۵۔تخلص: یہ وہ قلمی نام ہے جو شعرا یا ادیب اصلی نام کی جگہ ا ستعمال کرتے ہیں مثلاً غالبؔ مرزا اسداللہ خاں کا تخلص ہے، مجاز ؔاسرارالحق کا تخلص ہے اور پریم چند دھنپت رائے کا وغیرہ وغیرہ۔میر تقی میرؔ کا ایک شعر دیکھیں 

قامت خمیدہ،رنگ شکستہ، بدن نزار
 ترا تو میرؔ غم میں عجب حال ہوگیا 

اس شعر میں میرؔ تخلص ہے شاعر میر تقی میر ؔ کا۔شاعر کے تخلص میں یہ (   ؔ)نشا ن ضرور لگا تے ہیں۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ شاعر نے شعر میں اپنا تخلص استعمال کیا ہے۔

Wednesday 1 April 2020

لفظ اور اس کی قسمیں

لفظ اور اس کی قسمیں

جو آواز ہمار ے منہ سے نکلتی ہے وہ لفظ کہلاتی ہے ۔ ایک لفظ کئی حر ف سے جڑ کر بنتا ہے ۔ چاہے دو حر ف یا تین حر ف سے ہی کیوں نہ بنا ہو۔ او ر منھ سے نکلی ہوئی ہر آوازاپنے اندرکوئی معنی رکھتی ہے اور نہیں بھی رکھتی ہے ۔

 جس لفظ کا کوئی معنی ہوتا ہے یا سمجھ میں آتا ہے اس لفظ کو موضوع کہتے ہیں۔ اس کو موضوع اس لیے کہتے ہیں کہ اس لفظ کے سننے یا پڑھنے سے کوئی نہ کوئی معنی ذہن میں آجاتا ہے کیونکہ وہ لفظ کوئی نہ کوئی معنی کو ادا کر نے کے لیے بنا یا گیا ہوتا ہے ۔ جیسے کُر تا ایک لفظ ہے جس کے معنی متعین ہیں ۔ جو ایک خاص قسم کے سلے ہوئے کپڑے کا نام ہے جسے بدن کے اوپری حصہ میں پہنا جاتا ہے ۔ لیکن اسی کے ساتھ عام بول چال میں ایک اور لفظ بولا جاتا ہے جس کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہوتا ہے جیسے ’’کر تا ورتا ‘‘ کر تا کے معنی تو سمجھ میں آتے ہیں تو اس لفظ کو موضوع کہا گیا لیکن ’’وُرتا ‘‘ کے معنی کچھ نہیں ہوتا ہے تو اس کو مہمل کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح ہم ’آلتو فالتو‘ بھی کہتے ہیں ، جس میں ’آلتو ‘ کا کوئی معنی نہیں ہے لیکن فا لتو کا معنی ہے ، الغرض معنی لفظ کے ساتھ مہمل لفظ کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے ۔

 اب آپ یا د رکھیں کہ صر ف بامعنی لفظ کو ہی کلمہ کہتے ہیں ۔ جیسے کتاب، قلم ، کاپی ، آیا، گیا ، پر ، سے اور اسکول وغیرہ ۔یہ سارے کلمے ہیں ۔ ایسے بامعنی الفا ظ کے مجموعے کو ہی جملہ کہاجاتا ہے جس کے معانی سمجھ میں آجائے جیسے ’’حامد دکان سے کتاب اور قلم لایا‘‘ ۔ لفظ سارے تر تیب سے ہوں تو جملہ بھی بامعنی ہوتا ہے اور اگر الفاظ تر تیب سے نہ ہوں تو جملہ بھی مہمل ہوجاتا ہے جیسے اوپر کی مثال میں ’’ حامد دکان سے کتاب اور قلم لایا ‘‘ ایک بامعنی جملہ ہے ۔ لیکن اگر ان الفاظ کی تر تیب بدل دیں جیسے ’’ کتاب سے قلم اور حامددکان لایا ‘‘ کیا اس کے معنی سمجھ میں آئیں گے ؟نہیں ! ۔ لہذاجب کوئی لفظ جملے میں صحیح مقام میں لایا جاتا ہے تو وہ لفظ اس جملے میں بامعنی لفظ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لفظ کے صحیح مقام پر استعمال سے لفظ کی ابتدائی تین قسمیں بنتی ہیں ۔

اسم فعل  حرف 

اسم : اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی جاندار ، چیزیا جگہ کا نام ہو ۔
جاندار: آدمی ، ہاتھی ، کوا ، بلی ،سانپ وغیرہ ۔
چیز : کتاب ، قلم ، موبائل، کمپیوٹر، چپل ، چو لہا وغیرہ ۔
جگہ: کو لکاتا ، ممبئی ، دہلی ، پٹنہ ، گھر ، ریسٹورینٹ ، مسجد، مندر وغیرہ ۔ 

فعل : وہ لفظ ہوتا ہے جس سے کسی کام کے کرنے یا ہونے کی خبر معلوم ہو ۔ مثلاً پینا فعل ہے ۔

 فعل اسطر ح ہے کہ آپ نے کہا ’’ میں نے پانی پیا ‘‘ تو آپ نے پانی پینے کا کام کیا ، تو اس کے لیے آپ نے لفظ پینا استعمال کیا جو گرامر کی اصطلاح میں فعل ہے ۔ اس طرح جیسے ’’ آپ نے سائیکل چلایا ‘‘ تو چلانا فعل ہوا کیو ں کہ آپ نے چلانے کا کام کیا  ۔یہ تو ہوا کسی کا م کا ہونا پایا جائے ۔

 جب کسی کام کاکر نا پایا جائے تو اس کو بھی فعل کہتے ہیں ،چا ہے وہ کام ابھی کر رہے ہوں۔ جیسے ’’ امی کھانا پکا رہی ہیں ‘‘ تو’ پکارہی ہیں‘ فعل ہوا ۔ اس طر ح کے جتنے الفاظ آتے ہیں جس سے کسی کا م کے ہونے یا کر نے کا پتہ چلتا ہے تو وہ لفظ فعل کہلاتا ہے ۔

حرف : اس لفظ کو کہتے ہیں جو تنہا کچھ معنی نہیں دیتا جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی اور لفظ نہ ملے جیسے :سے ، میں ، پر ، تک ، کو ، کے ، کی ، نے ، وغیرہ حر ف ہیں ۔یہ وہ کلمات یا الفاظ ہیں جس کے معنی دوسرے الفاظ سے ملے بغیر ظاہر ہی نہیں ہوسکتے جیسے : دلی سے آیا ۔ اس میں سے حر ف ہے ، جو یہ معنی بتا رہا ہے کہ آنے والا دلی شہر سے آیا ہے۔ 

اگرلفظ’ سے‘ کو کہیں الگ سے لکھ دیا جائے یا بولا جا ئے اور آگے پیچھے کوئی اور لفظ نہیں لگا یا جائے تو اس کا معنی کچھ بھی نہیں ظاہر ہو تا ہے ۔ اس طر یقے سے ’’ کتاب بیگ میںہے، ابو چھت پر ہیں، دادی کو بلاؤ، بھائی کے کپڑے ، امی کی کتاب، استا د نے کہا۔ ان جملوں میں ’’ میں، پر، کو، کے، کی، نے‘ ‘ حر ف ہیں جو دوسرے لفظوں کے ساتھ استعمال ہونے میں اپنا معنی دے رہے ہیں ۔ 

اعراب نما حر وف

اعراب نما حر وف 

حرکات و علامت کی طرح کچھ حروف بھی ہوتے ہیں جو اعر اب کا کام انجام دیتی ہیں البتہ اس میں زبر زیر پیش کی طرح کوئی علامت نہیں لگائی جاتی ہے بلکہ خود حر ف تہجی میں سے کوئی حر ف اس عمل کو انجام دیتا ہے اس کو ہم اعراب نما حروف کہتے ہیں ۔ 

۱۔ واومعدولہ : واو معدولہ اس واو کو کہتے ہیں جو لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ہے ۔ جس طر ح انگلش میں سائلینٹ حر ف ہوتے ہیں جو لکھے تو جاتے ہیں لیکن وہ حرف پڑھے نہیں جاتے ہیں جیسے writing (رائٹنگ ) اس میں w نہیں پڑھا جاتا ہے ۔ اسی طر یقے سے اردو میں واو ہے جو کئی لفظوں میں لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ہے ۔ یہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب واو ’خ‘ کے بعد آتا ہے جیسے خود ، خواب، دستر خوان، خواجہ اور خوشبو وغیر ہ ان تمام میں واو نہیں پڑھا جاتا ہے بلکہ اگر واو کے بعد الف ہے تو واو غائب ہوکر الف ہی پڑھا جاتا ہے جیسے درخواست ، دستر خوان ، خواجہ ، خوانچہ ، خوار اور خواجگان وغیرہ اور اگر واو کے بعد الف کے سوا کوئی دوسرا حرف ہے توپھر خ کے اوپر پیش پڑھا جاتا ہے جیسے خُوش اور خوداس میں واو گویا پیش کا کام کرتا ہے ۔

۲۔ واو معر وف : اس واو کو کہتے ہیں جب واو سے پہلے والے حر ف میں پیش ہو جیسے ، نُور ، حُور اور دُور وغیر ہ ان تمام مقاما ت پر واو اعراب کا کام کرتا ہے ۔

۳۔ واو مجہول : اس واو کو کہتے ہیں جو (o) کی آواز رکھتا ہے ۔ جیسے شور ، مور اور توڑ وغیر ہ ۔ ایسی آواز کے لیے اردو میں کوئی علامت نہیں ہے اس لیے ان کے لیے بطور علامت واو کا استعمال ہوتا ہے ۔

نون غنہ : حروف تہجی میں ایک حر ف ’ ن ‘ ہوتا ہے ، لیکن ہماری اردو میں کئی ایسے لفظ ہیں جن میں مکمل نون کی آواز نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں نون کی ہی طر ح آدھی نون کی آواز آتی ہے جس کو ہم ناک سے نکالتے ہیں اس کو ہم ’ نو ن غنہ ‘ کہتے ہیں ۔ وہ کبھی بیچ لفظ میں آتا ہے اور کبھی اخیر لفظ میں ۔ جب لفظ کے آخر میں آئے تو اس کی اصل شکل ’ں‘ہوتی ہے ۔ جب نو ن غنہ کی ضر ورت بیچ لفظ میں پڑے تو نون ہی لکھا جاتا ہے لیکن نون غنہ پڑھا جاتا ہے ۔ جیسے کنواں ، سانپ اور اینٹ وغیرہ ۔ان سب میں نون کا تلفظ مکمل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ یہ آواز ناک سے نکالی جاتی ہے اور جب نو ن غنہ کی ضرور ت لفظ کے اخیر حرف میں پڑے تو وہاں نون کے اوپر نقطہ نہیں لگاتے ہیں جیسے یہاں ، وہاں ، فلاں وغیرہ ۔

الف مقصورہ : اس سے پہلے آپ نے حرو ف تہجی میں ’ی ‘ پڑھا ہوگا ۔ آپ کے علم میں اضافہ ہو کہ ی بھی کہیں کہیں الف پڑھا جاتا ہے ۔جہاں الف کا کام کرتا ہے وہاں اس کے اوپر ایک چھوٹا سا الف کا نشان بنا دیتے ہیں جس نشان کو کچھ لوگ کھڑا زبر بھی کہتے ہیں ، جیسے تقویٰ، فتویٰ صغریٰ اور کبریٰ وغیرہ ایسے مقامات پ ’ی‘ کو الف مقصورہ کہتے ہیں ۔

ہائے خفی : کہیں کہیں ’ ہ ‘ بھی الف جیسا کام کر تا ہے۔ جہاں ’ہ‘ تو لکھا جاتا ہے لیکن پڑھا الف جاتا ہے ۔اس ’ہ ‘ کو ہائے خفی کہتے ہیں ۔ جیسے رکشہ ، ملکہ اور بچہ وغیر ہ ۔ ان تمام میں اخیر میں تو ’ہ‘ لکھا جاتا ہے لیکن آواز الف کی آتی ہے ۔

اعراب

 اعراب 

اعراب ان چند علامتوں کو کہتے ہیں جن سے کسی حرف کی کیفیت کا پتہ چلے۔ ہندی میں ماتراؤں اور انگلش میںجو کام  wovels کا ہوتا ہے وہی کام اردو میں اعراب کا ہوتا ہے ۔اردو میں اعراب زبر ، زیر پیش ، مد ، تشدید ، تنوین کھڑا زبر اور کھڑا زیر کو کہتے ہیں۔ 

اردو ، عربی اور فارسی تینوں زبانوں کے اعراب یعنی زبر، زیر ،پیش اور جزم ایک جیسے ہیںاور ان کو حرکات کہا جاتا ہے ، جن حر وف کو ان کے ذریعہ حر کت دی جاتی ہے انہیں متحر ک حروف کہا جاتا ہے اور جس حر ف پر کوئی حر کت نہیں ہو وہ ساکن حرف کہلاتا ہے۔ ’’مد ‘‘ ، ’’تشدید‘‘ اور ’تنوین‘‘ علامتیں کہلاتی ہیں ۔

 زَبر (اَب) زبر کے معنی اوپر کے ہیں ۔جس حرف کے اوپر تر چھی لکیر ہوتی ہے اس لکیر کو زبر کہتے ہیں۔زبر کو عربی میں فتحہ کہتے ہیں اس لیے جس حرف کے اوپر تر چھی لکیر ہوتی ہے اس حر ف کو مفتوح کہتے ہیں ۔جیسے غَم میں( غ) مفتوح ہے اور (غَ)کے اوپر جو ٹیڑھی لکیر ہے وہ زبرہے ۔

زِیر (اِب ) زیر کے معنی نیچے کے ہیں ۔جس حرف کے نیچے تر چھی لکیر ہوتی ہے اس لکیر کو زیر کہتے ہیں۔زیر کو عربی میں کسرہ کہتے ہیں اس لیے جس حرف کے نیچے تر چھی لکیر ہوتی ہے اس حر ف کو مکسور کہتے ہیں ۔جیسے بِل میں (ب) مکسور ہے اور( بِ) کے نیجے جو ٹیڑھی لکیر ہے وہ زیر ہے ۔

پیش (پُل) پیش کے معنی سامنے یا آگے کے ہیں ۔جس حرف کے اوپر چھوٹا واو جیسا نشان ہوتا ہے اس نشان کو پیش کہتے ہیں ،پیش کو عربی میں ضمہ کہتے ہیں۔اس لیے جس حر ف پر پیش لگا ہوتا ہے اس حر ف کو مضموم کہتے ہیں جیسے پُل میں (پ) مضموم ہے اور اس کے اوپر جو علامت ہے وہ پیش ہے ۔

 جزم یا سکون (دِنْ) سکون کے معنی خاموش کے ہیں ۔جس حرف پر کوئی حر کت نہیں ہو اس میں جزم یا سکون ہوتا ہے ۔اور ایسے حر ف کو ساکن کہتے ہیں اردو میں ہر لفظ کا آخر ی حر ف ساکن ہوتا ہے ۔جیسے دِنْ کا آ خر ی حر ف(ن) ساکن ہے ، اسی طریقے سے دُنْیا کا نون بھی ساکن ہے ۔

مد (   ٓ) مد ایک علامت ہے اس کے معنی ہیں لمبا کر نا ۔الف کو جب کھنچ کر بولتے یا پڑھتے ہیں تو اس وقت اس پر یہ علامت لگادیتے ہیں جیسے آم ،آملہ ایسے الف کو الف ممدودہ کہتے ہیں ۔

تشدید (  ّ ) ابّا جس حرف پر ’  ّ‘ کی علامت ہو اس علامت کو تشدید کہتے ہیں۔ جب کسی لفظ میں کوئی حر ف دو بار پڑھا جاتاہے تو اس پر تشدید لگا دیتے ہیں اور جس حر ف پر تشدید ہوتاہے اس کو حر ف مشدد کہتے ہیں ۔ ایسے میں انگش اور ہندی میں کوئی بھی حرف دو مرتبہ لکھا جاتا ہے لیکن اردو میں ایک ہی حرف لکھ کر اس پر تشدید لگا دیا جاتا ہے ، جیسے گنّا، اُلّو ، پٹّھاوغیرہ 

تنوین (  ً  ٍ  ٌ) اس کے معنی نون کے آواز پیدا کر نے کے ہیں یہ صرف عر بی الفاظ کے اخیر میں آتی ہے ۔جب یہ علامت کسی حر ف پر ہوتی ہے تو اس کے آخر میں نون کے آواز نکلتی ہے جیسے فوراً، اتفاقاً اور مثلاً وغیرہ  ۔

ہمزہ (ء ) یہ ایک علامت بھی ہوتا ہے اور اس کو حر وف تہجی میں بھی شمار کیا جاتاہے ۔جس حر ف کے اوپر ہمزہ(ء) ہوتا ہے اس میں آواز کو کھنچ کر نکالتے ہیں جیسے آؤ ، جاؤ ۔یہ ہمیشہ ’ی‘ اور ’و‘ کے ساتھ ہی آتا ہے جیسے کئی ، تئیں اور آؤ وغیرہ 

مندرجہ بالات علامات کو عربی میں اعراب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ اہل عرب کے ایجادات ہیں ۔ اعر اب کا مطلب ہوتا ہے کسی بھی حر ف پر ان میں سے کسی بھی علامت کو لگانا ۔انہیں کو حر کات بھی کہاجاتا ہے اس لیے کہ زبر ،زیر ، پیش ، مد اور تشدید لگانے سے آواز میں حر کت پیدا ہوتی ہے لیکن جزم سے سکون پیدا ہوتا ہے اس لیے ان کے مجموعے کو حر کات و سکنات کہاجاتاہے اور جس حرف پر کوئی حر کت ہوتی ہے اسے متحرک کہاجاتا ہے ۔

Thursday 26 March 2020

اردو رباعی میں حمد


اردو رباعی میں حمد 

امیر حمزہ 
شعبہ اردو دہلی یو نی ورسٹی دہلی 

رباعی ایک ایسی صنف سخن ہے جو اپنے وجود سے لیکر اب تک سب سے زیادہ مذہب سے قریب رہی ہے۔ فارسی زبان میں جب رباعی کی شروعات ہوئی تو اس وقت اسلام پور ے خطہ میں پھیل چکا تھا اور مذہبی تعلیمات ومعاملا ت داخلی زندگی اور خارجی زندگی میں پور ی طر ح سرایت کر چکی تھی۔ اب تک کا تحقیق شدہ قول یہی ہے کہ رباعی کی شروعات تیسری صدی ہجر ی میں ہوئی تا ہم جب پانچویں صدی ہجر ی میں خیام نے اس صنف سخن کو اپناتا ہے تو اس کو کمال تک پہنچاتا ہے اور موضوعات کے اعتبار سے سب سے زیادہ فلسفہ زندگی کو جگہ دیتا ہے نیز خدا سے فلسفیانہ اندازمیں تعر یف کے ساتھ مناجات بھی کر تا ہے۔رباعی ہی وہ صنف سخن رہی ہے جو خانقاہوں میں سب سے زیادہ پلی بڑھی۔بلکہ جس جس معاشر ے میں پلی بڑ ھی اس معاشر ے کا اثر بخوبی قبول کر تی چلی گئی۔ صوفیاء کر ام کی محفلوں میں رہی توحمدو نعت و منقبت اور وعظ و نصیحت سے سیراب ہوتی رہی۔فارسی کے اہم رباعی گو کی صحبت میں جب پہنچی تو حکمت وفلسفہ کے آب حیات سے سر شار ہوئی، جب رباعی اردو میں داخل ہوئی تو انیس و دبیر کی پاکیزہ خیالی وبلندی مضامین، اکبر و حالی کی اصلاحی پاسداری، امجد کا حکمت وفلسفہ، جو ش کا دبدبہئ الفاظ اور مناظر فطرت، فر اق کی جمالیا ت و سنگھار رسسے رباعی نے اپنے آپ کو  خوب سنوارا۔اسی کو ڈاکٹر سلام سندیلوی اس طر ح لکھتے ہیں۔

”ولی کی معرفت نے، میر کے عشق نے، درد کے تصوف نے، غالب کی معنی آفرینی نے، انیس و دبیر اور رشید کے رثائی خیالات نے،حالی واکبر کی اصلاحیات نے، جوش کی انقلابیت نے اور فراق کی سنگھار رس نے رباعی کو ایک سنجید ہ لب و لہجہ عطا کیا۔ان حضرات کی رباعیات میں گہری سنجیدگی اور عمیق تفکر کی فضا پائی جاتی ہے۔“ 
(اردو رباعیات، سلام سندیلوی، ص ۵۷۵)

اردو رباعی نے ہر دور میں جدید رجحانات و میلانا ت کا ساتھ دیاہے اور ان کی عکاسی کی ہے۔رباعی نے اپنے آپ کو کبھی بھی محدودومخصوص موضوعات میں پابند نہیں کیا ہے۔رباعی میں اگر چہ اخلاقی،مذہبی، اصلاحی، حکمت اور فلسفہ جیسے موضوعات زیادہ رہے ہیں لیکن دو سرے موضوعات کا خاطر خواہ ذخیرہ بھی اردو رباعی میں موجود ہے۔موضوعات رباعی کے تعلق سے اب تک یہ بہت زیادہ لکھا جاتا رہا ہے کہ رباعی کے موضوعات حمد و مناجات اور اخلاق و فلسفہ کثر ت سے رہے ہیں یہ حقیقت ہے۔ لیکن رباعی میں ہمیشہ یہ لچک رہی ہے کہ وہ جس زمانہ میں بھی پروان چڑھی اس زمانہ کے موضوعات کو قبول کرنے میں کبھی بھی کوتا ہ دست نہیں رہی۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ نئے موضوعات کے آنے کی وجہ سے پرانے موضوعات سر دبستہ میں چلے گئے ہوں۔ رباعی کے موضوعات میں سے حمد ایک ایسا موضوع ہے جو کبھی قدیم اور فرسودہ نہیں ہوسکتا۔ حمد کے متعلق علما ء کیا کہتے ہیں ایک نظر ان پربھی ڈالتے ہیں۔

 نووی کہتے ہیں ”خدا تعالی کی ذات و صفات اور ان کے افعال کو زبان سے بیان کر نا حمد کہلاتا ہے۔ اللہ تعالی کی تعریف کر نا ان کے انعامات کے اوپرتعریف کر نا شکر کہلاتا ہے۔ اس طر یقے سے ان کے نزدیک ہر شکر حمد کے دائرہ میں آجاتا ہے اور حمد شکر کے دائر میں نہیں آتا ہے۔ حمد کا ضد ذم ہے اور شکر کا ضد کفر ہو تا ہے“۔

ابن حیان کہتے ہیں ”حمد اللہ تعالی کی تعر یف بیان کر نا ہے صرف زبان کے ذریعہ سے۔ اور زبان کے علاوہ جن چیزوں سے ان کی بزرگی کا اظہار کیا جائے گا وہ حمد نہیں بلکہ شکر یہ کہلائے گا۔“ 

امام رازی کہتے ہیں۔”حمد اللہ تعالی کی تعریف بیان کر نا ہے ہرنعمت پر خواہ وہ نعمت تعر یف بیان کر نے والے تک پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو۔ اور شکر اللہ تعالی کی انعامات پر تعر یف بیان کر نا اس طور پر کہ وہ انعامات تعر یف بیان کر نے والے اور شکر ادا کر نے والے تک پہنچا ہو۔ 

حمد میں محبت اور عظمت کے ساتھ محمود کی تعر یف بیان کر نا ہے۔ یعنی حمد میں محبت اور عظمت کا عنصر موجود ہوتو حمد کہلاتا ہے شکر میں محض تعر یف بیان کر نا ہوتا ہے خواہ دل میں عظمت ہو یا نہ ہو۔“(تر جمہ از معجم الشامل)

الغر ض لغوی اعتبار سے حمد مطلقا زبانی تعریف کو کہتے ہیں خواہ وہ نثر میں ہو یا شعرمیں۔ اس طریقہ سے حمدیہ شاعری وہ شعری کاوش ہے جس میں تعلق مع اللہ ظاہر ہو او رخدا کی ذات اور صفات کا اس طر ح ذکر کیا جائے کہ اس میں اس کی عظمت و جلالت، رحمت و رافت اور محبوبیت کا اظہار ہوتا ہواور کسی نہ کسی سطح پر بندے کا اپنے معبود سے قلبی تعلق ظاہر ہوتا ہو۔ خواہ اللہ کی عظمت اس کی مخلوقات کے حوالے سے بیان ہویا انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں اور اس کی فتوحات کے توسط سے،اس میں کائنات کی وسعتوں کے ذریعے رب کی بڑائی کا پہلو نکلتا ہو یا معرفتِ نفس کے راستے سے رب تک پہنچنے کی خواہش کا اظہار ہو۔ سب حمد کے دائرہ میں آتا ہے۔جس طر یقہ سے اللہ نے قرآن میں ہی ذکر کر دیا ہے کہ ’اللہ ہر دن ایک نئی شان میں نظر آتا ہے“ اسی طر ح سے بندے کے اندر بھی یہ صفت ودیعت کی ہے کہ اس کی بھی حالت ہمہ وقت ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔لسانی طور پر بھی جب کسی سے بات کر تا ہے تو ہر وقت الگ الگ لہجہ اپنا تا ہے اگر لہجہ الگ الگ نہیں بھی اپنا سکا تو انداز جداگانہ ہو تاہے اسی طریقے سے خدا کی تعریف میں جب رطب اللسان ہوتا ہے تووہ نئے نئے طر یقے  اورلفظیات سے اس کی تعریف میں رطب اللسان ہوتا ہے۔ اسی طر یقے سے جب ہم حمدیہ رباعیات کا مطالعہ کر تے ہیں تو اس میں بہت ہی تنوع دیکھنے کو ملتا ہے۔

رباعی کا تعلق جیسا کہ کسی ایک موضوع سے نہیں رہا ہے تمام موضوعات میں اس صنف سخن نے اپنی خدمات انجام دی ہیں پھر بھی رباعی ہی نے خدا کی ذات و صفا ت کو سب سے زیادہ اپنے اندر سمویا ہے۔ 

دکنی دور میں ہمیں حمدیہ عناصررباعی میں دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اس موضوع کو بالا دستی حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ وہاں عشقیہ رباعیوں کا چلن زیادہ نظرآتا ہے۔شمالی ہند کے تقریبا ً تمام قدیم شعرا نے اردو رباعیات تخلیق کی ہیں ان کے یہاں حمدیہ رباعیاں بھی نظرآتی ہیں لیکن انہوں نے رباعی کی جانب بہت ہی کم توجہ دی بلکہ مر ثیہ قصیدہ اور مثنوی سے بھی کم پھر بھی ان کے یہاں رباعی میں حمد بخوبی نظر آتاہے۔ ارد و میں رباعی کو سب سے زیادہ شہرت کے بام پر انیس و دبیر نے پہنچایا۔ انہوں نے جس طریقے سے مرثیہ کو بلندی تک پہنچایا اسی طریقے سے رباعی کو بھی ہر قسم کی ترقی سے نوازا۔ان دونوں شاعروں نے رباعی میں حمد کو بہت ہی اہتمام سے پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں حمدیہ رباعیات دو قسم کی پائی جاتی ہیں ایک وہ جس میں معر فت، حقیقت اور وحدانیت کا رنگ جھلکتا ہے، دو سر ی وہ رباعیاں جس میں صفات خداوندی میں سے رزاقی، قہاری،ستاری، جود و کر م اور عدل و انصاف کا ذکر ہے۔اس سلسلے میں انیس و دبیر کی ایک ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں۔
(میر انیس)
گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے بلبل کی زبان پر گفتگو تیری ہے 
ہر رنگ میں جلوہ ہے تیری قدرت کا جس پھول کو سونگھتا ہو ں بو تیری ہے  
(دبیر)
پروانے کو دھن، شمع کو لو تیری ہے عالم میں ہر اک کو تگ و دو تیری ہے 
مصباح و نجوم و آفتاب مہتاب جس نور کو دیکھتا ہوں ضوتیری ہے 

اس پورے عہد میں انیس ودبیر مو من وامیر و داغ و رشید کے یہاں جہاں رباعی خوب پروان چڑھی وہیں اپنے مخصوص پیرائے سے نکل کر مختلف موضوعات میں ڈھلتی ہوئی بھی نظر آتی ہے۔اس دور میں رباعی کادائرہ وسیع ہوا اس طور پر کہ رباعی میں انیس کی جزئیات نگاری، دبیر کی زبان وبیان کی بلندی، مومن کا حسین پیکر، امیر مینائی کی نکتہ بیانی، داغ کی خاکہ نگاری، آسی کا تصوف اور رشید کے یہاں پیر ی کا منظر نظر آتا ہے۔

جدید دور میں جہاں انگریزی کا رواج عام ہوا۔وہیں انگر یزی تعلیم کے توسط سے اردو شاعری میں کئی تجر بات ہوئے۔حسن وعشق کے موضوعات سے نکل کر نیچر ل شاعر ی وجو د میں آئی۔غزل کو تما م جذبات کی تر سیل اور سبھی موضوعات کی تر جمانی کے لیے ناکافی سمجھا گیا تو شعر ا نظم کی طر ف متوجہ ہوئے اور اردو نظم کی آبیار ی میں لگ گئے۔ ایسے موقع میں نظم کی سی ہیئت رکھنے والی صنف رباعی کی جانب بھی لوگوں کی توجہ گئی۔بقول فرمان فتح پوری:

”چونکہ زمانہ افرا تفری، سیاسی کشمکش، معاشی بحران، اور ذہنی الجھنوں کا تھا۔اس لیے جو تسلسل خیال، وحد ت فکر اور فنی ٹھہر اؤ نظم کے لیے مطلوب تھا،وہ پوری طر ح میسر نہیں آیا۔نتیجۃً علامہ اقبال کے علاوہ کسی کے یہاں فنی نقطہئ نظر سے نظم میں وہ تر فع پیدا نہ ہوسکا جو اردو غزل کا طر ہ امتیاز ہے۔ لو گ بین بین راستہ تلاش کر نے لگے۔ اور حالی واکبر کے زیر اثر اس پس افتادہ صنف کی طر ف رجوع ہوئے جس میں غزل کی غنائیت اور نظم کی سی وسعت دونوں کی گنجائش تھی میری مر اد رباعی سے ہے۔“(ڈاکٹر فرمان فتح پوری،ارد رباعی کا فنی ارتقاء ص ۲۰۱)

اس عہد میں رباعی کی جانب متوجہ ہو نے کہ اسباب ناقدین نے الگ الگ بیان کیے ہیں۔ایک جگہ ڈاکٹر سلام سندیلوی نقل کرتے ہیں کہ انیس و دبیر کی رباعیوں کی مقبولیت کی وجہ ہی بعد میں رباعی کی جانب توجہ کا سبب بنی۔اور ایک جگہ رباعی کی جانب تو جہ معاشی بد حالی کو قرار دے رہے ہیں:

”دور جدید کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسلامی حکومتوں اور ہندوستانی ریاستوں کی زوال کی وجہ سے عوام کی بھی مالی حالت بگڑ گئی اس لیے وہ فکر معاش میں سرگرداں رہنے لگے۔ایسی صورت میں طویل نظمیں کہنے سے قاصر تھے یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مختصر افسانوں، رباعیات، کو تر قی ہوئی کیونکہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اپنے 
ذوق کی تسکین کر لیا کرتے تھے۔“(سلام سندیلوی، اردو رباعیات ص ۷۶۲)

اس بات کا علم سبھی کو ہے کہ جدید شاعر ی میں رباعی اردو کے لیے کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ دکن سے ہی اردو میں رباعی کی روایت چلی آرہی تھی اور انیس و دبیر نے اردو رباعی کو بلندی تک پہنچایا۔حالانکہ یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ انیس ودبیر کی رباعیات کا اثر کم نہیں ہو ا تھا اس لیے رباعیات کی جانب توجہ کا مبذول ہونا قابل اعتنا بات ہوسکتی ہے۔رہی بات ڈاکٹر سلام سندیلوی کی کہ معاش اور تنگئی وقت کی وجہ سے رباعی کی جانب لوگوں کی توجہ گئی۔ تو کیا رباعی غزل سے اتنی مختصر ہے جیسے داستان کے مقابلے میں افسانے ہیں؟ یہ بات اس وقت ممکن ہوتی جب ہم مثنوی سے غزل یا رباعی کی جانب جاتے۔ جبکہ رباعی اور غزل بہت ساری چیزوں میں ایک دوسرے کے مماثل نظر آتے ہیں بلکہ رباعی غزل سے بھی بھاری پڑ جاتی ہے محدود وزن اور فکرکی پیش کش میں۔ غزل کا ہر بیت فکرکے معاملے میں آزاد رہتا ہے جبکہ رباعی میں فکرکوتین مصرعوں میں پھیلا کر کے پوری طاقت کے ساتھ چوتھے مصرع میں بند کرنا ہوتا۔پھر رباعی میں آسانی کہاں؟

ایک بات ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ جس دور کی بات ہورہی ہے اس دور میں خصوصاً رباعی کی جانب تو جہ نہیں کی گئی بلکہ وہ دور ہی ایسا دور رہا ہے کہ اس عہد میں ہر اعتبار سے اردو میں وسعت ہوئی ہے۔اس دور میں نئے نئے اصناف سخن وجود میں آئے اسی دور میں نظم تر قی کی بلندیوں تک اقبال پہنچا رہے ہیں اور رباعی میں نظم کی ایک کیفیت موجو د ہے جہاں موضوع مصر عوں میں نہیں سمٹتا ہے بلکہ پورے میں پھیلا کر بیان کیا جاتا ہے۔اور یہ مزاج رباعی کے لیے بھی راس آیا اس اعتبار سے رباعی اس عہد کے مزاج کا ہم آہنگ ہوا جہاں رباعی کو پہلے سے کچھ زیادہ پھیلنے کا موقع ملا اور حالی و اکبر کے بعد فانی، جوش، فراق، امجد، رواں و یگا نہ وغیر ہ نے رباعی کو اس جد ید عہد میں تر قی کی راہ میں گامزن کیا۔

مولانا الطاف حسین حالی کا اردو رباعی کے متعلق ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ رباعی جو انیس و دو بیر کے زمانے میں صرف مجلس عزا میں اپنا جوہر بکھیر رہے تھی اور مضامین کر بلا سے بھر پور تھی۔ اس کو مولانا الطاف حسین حالی نے اس خاص مجلس سے نکالا اور عام مضامین کی سادگی سے رباعی کو مزین کیا۔ اس کا نتیجہ یہ حاصل ہوا کہ رباعی مشاعر وں میں جگہ پانے لگی۔حالی نے رباعی میں جہاں تمام موضوعات کو اپنا یا ہے وہیں اصلاحی نکتوں اور تعمیری کاموں کے ساتھ ساتھ حمدیہ رباعیاں بھی کہی ہیں۔ان کی رباعیاں داخلی اور خارجی تمام مضامین کو سمیٹے ہوئے ہے۔چند حمدیہ رباعیات درج ذیل ہیں۔

کانٹا ہے ہر ایک جگر میں اٹکا تیرا حلقہ ہے ہر اک گوش میں لٹکا تیرا
مانا نہیں جس نے تجھ کو، جانا ہے ضرور بھٹکے ہوئے دل میں بھی ہے کھٹکا تیرا

ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا آتش پہ مغاں نے راگ گایا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے انکار کسی سے نہ بن آیا تیرا

مٹی سے، ہوا سے، آتش و آب سے یہاں کیا کیا نہ ہوئے بشر پہ اسرار عیاں 
پر، تیرے خزانے ہیں ازل سے اب تک گنجینہئ غیب میں اسی طرح نہاں 

اکبر ایک ایسا شاعر ہے جو ہمیشہ اپنی ایک الگ شناخت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔حالی اور اکبر کے مقصد شاعری میں تساوی ہو سکتی ہے لیکن انداز بیان میں صاف تبا ین جھلکتا ہے۔انہوں نے شاعر ی میں ایک نئی طر ز ایجا د کی اور اپنی شاعر ی کو اصلاحی و مقصدی رجحانات کے تابع بنا دیا۔یہی مقصد حالی کا بھی تھا لیکن اکبر نے اردو رباعی کو نیا اسلوب اور ایک نیاطرز بیان دیا۔اکبر اپنی رباعیوں میں وعظ ونصیحت اور اصلاح و اخلاق کی باتیں تو کر تے ہیں لیکن یہ کسی کے سماع میں ذرہ برابر بھی بار نہیں گذرتا بلکہ طنز و ظرافت کے لباس میں اصلا ح کا آب حیات پیش کر تے ہیں۔حالی نے اسی چیز کو متانت و سنجید گی سے پیش کیااور اکبر نے شوخی و ظر افت سے۔ رباعی پر جہا ں اصلاح و اخلاق اور تصوف کی مہر ثبت ہوچکی تھی اکبر نے وہیں اپنے ایک خاص مزاج، چلبلے پن، شوخی و ظرا فت سے اردو رباعی میں مزاح نگاری کی نئی روایت ڈالی۔ان کی حمدیہ رباعیاں بھی منفر د انداز میں نظرآتی ہیں۔

امجدمجید حیدرآبادی بیسویں صدی کے رباعی گویوں میں حق سے زیادہ اور حد سے زیادہ شہر ت پانے والے رباعی گو ہیں۔امجد کی شہر ت اور قدرت اور منزلت کا یہ حال تھا کہ گر امی جالند ھری کے زبان سے یہ رباعی اداہوتی ہے۔

امجد بہ رباعی است فرد امجد کلک امجد، کلید گنج سرمد
گفتم کہ بود جواب سر مد امروز روح سر مد بگفت امجد امجد

اس وجہ سے امجد کو سر مد کا دوسرا روپ کہا جاتا ہے اور زندہ سر مد بھی کہا گیا۔یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہے کہ امجد کو سر مد کا لقب خوب زیب دیتا ہے۔ 

امجد حیدرآبادی پہلے شاعر ہیں جنہوں نے شعوری طور پر رباعی کی جانب توجہ کی اور ان کی توجہ اتنی بڑھی کہ وہ نظمیں بھی رباعی کے اوزان میں کہنے لگے۔ امجد نے خوب رباعیاں کہیں ہیں ان کی رباعیوں پر بھی بہت کچھ لکھا گیا، ان کی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی مستقل لکھا جارہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کچھ رباعیا ں اس معیار کی ہیں کہ فارسی رباعیوں کے مقابلہ میں لائی جاسکتی ہیں اور اردو کی اعلیٰ رباعیات میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ان کی رباعیوں میں حمدیہ رباعیوں کی تعداد کافی ہے، فلسفہئ تصوف میں وحد ۃالشہودکو انہوں نے اپنی رباعیوں میں بہت ہی زیادہ پیش کیا ہے۔ رباعیات امجد کے حصہ اول سے پہلی رباعی ملاحظہ فرمائیں جو حمدیہ ہے۔
واجب ہی کو ہے دوام باقی فانی قیوم کو ہے قیام باقی فانی 
کہنے کو زمین و آسمان سب کچھ ہے باقی ہے اسی کا نام باقی فانی 

غم سے ترے اپنا دل نہ کیوں شاد کروں جب تو ستنا ہے، کیوں نہ فریاد کروں 
میں یاد کروں تو، تو مجھے یاد کرے تو یاد کرے تو میں نہ کیوں یاد کروں 

ہر گام پہ چکرا کے گر ا جاتا ہوں نقشِ کفِ پابن کے مٹا جاتا ہوں 
تو بھی تو سنبھال میرے دینے والے میں بار امانت میں دبا جاتا ہوں 

فراق ؔ ارد ور رباعی کا ایک ایسا باب ہے جس میں داخل ہونے کے بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن، احساسات و جما لیا ت، نظر و فکر اور رنگ و بو میں نظر آتی ہے۔فر اق نے رباعی کے باب میں ماضی کی تمام روایتوں کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں خالص ہندوستا نی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنایا ہے۔فراق ؔ اپنی رباعیوں کے ذریعے ہندوستانی عورتوں کے حسن و جمال اور جزئیات نگاری کی بھرعکاسی کر نے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے ان کی رباعیوں میں جا بجا جسم کی مختلف حصوں اور ہندوستان و معاشرت و کلچر کی مختلف تصویریں نظر آتی ہیں۔

ان کی رباعیاں موضوع کے اعتبار سے صرف دو زمروں میں تقسیم کی جاسکتی ہیں۔ ایک زمرہ ان رباعیوں کا ہے جن میں محبوب کے لب و ر خسار اور اس کے خد و خال کی کیف آگیں تصویر یں ہیں اور دو سرے زمر ے میں ان رباعیوں کو رکھا جاتا ہے جن میں ہندوستانی زندگی اور ہندوستانی طرز معاشر ت کی جھلک نظر آتی ہے جیسے پنگھٹ پرگگر یاں بھرنا، معصوم لڑ کیوں کا کھیتوں میں دوڑنا، ساجن کے جوگ میں مستا نا سا مکھڑا اور بیٹی کے سسرال جانے کا منظر وغیرہ۔ ان کی رباعیوں میں ہندوستانی معاشر ت کے ایسے خاکے اور چلتی پھرتی تصویریں ہیں جن میں فراق ؔ کی تخیل، جمالیاتی شعور اور طر ز تر سیل نے جان ڈال دی ہے۔ ان تمام کے باوجود انہوں نے حمدیہ رباعی نہیں کہی۔

جوش ملیح آبادی
اردو رباعی گو شعرا میں جو ش کا نمایاں مقام اس وجہ سے نہیں ہیں کہ انہوں نے باعتبار کمیت زیادہ رباعیاں کہیں ہیں بلکہ بلحاظ کیفیت بھی ان کی رباعیوں کی کسی دو سر ے رباعی گو کی اچھی رباعیوں سے زیاد ہ ہے۔جو ش غزل کے بجائے نظم کے شاعر تھے اور رباعی بھی مختصر نظم کے مماثل ہوتی ہے اس لیے انہوں نے اس کی طر ف ایک خاص توجہ دی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ رباعی گوئی انہوں نے دوسرے شاعر وں کی طرح تکلفاً نہیں اپنائی تھی بلکہ رباعی کہنا ان کے فطر ت کا ایک جز بن گیا تھا جس کو وہ بہت ہی خو بصورتی کے ساتھ بر تتے چلے گئے۔ نظم اور رباعی کو وہ ایک ساتھ لیکر چلتے رہے سوائے اولین مجموعہئ کلام روح ادب کے ان کے ہر مجموعہئ کلام میں رباعیات موجو د ہیں۔اس کے علاوہ ان کے تین مستقل رباعیات کے مجموعے ہیں، جنوں حکمت، سموم وصبااور قطر ہ و قلزم۔  جو ش کو اگر چہ ایک اچھا نظم گو شاعر مانا جاتے ہے لیکن جتنا اچھا وہ نظم گو شاعر ہیں اسی کے مقابل کے وہ رباعی گو شاعر بھی ہیں۔

جو ش ؔ کی شاعر ی کو عموما ًتین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، شباب، انقلاب اور فطر ت لیکن جب ہم ان کی رباعیوں کی جانب توجہ کر تے ہیں تو اردو کے خیام کا علَم(صرف خمری رباعیوں کی وجہ سے) ان کے ہاتھ میں نظر آتا ہے اور وہ شاعر شراب بھی نظر آتے ہیں۔جو ش کبھی ایک نظر یے پر قائم نہیں رہے، حسن و عشق کے نغمے گائے، انقلاب کے پر چم لہر ائے، امن انصاف اور مساوات کے سفیر بنے، فطر ت کی حسین تصویر کشی کی اور جام شراب بھی چھلکائے۔ ان کے نظریات میں بہت ہی تضاد نظر آتا ہے وہ خدا کا مذاق اڑاتا ہے اس کے رسو ل کی تعریف بھی کر تا ہے، درود بھیجتا ہے اور نواسۂ رسول پر مرثیہ بھی کہتا ہے۔ کبھی غر یبوں کی حمایت کر تا ہے تو کبھی اس کا مذاق بھی اڑاتا ہے اور نفرت بھی کر تا ہے۔کبھی جاگیر دارانہ نظام ان کے سر پر چڑ ھ کر بولتا ہے تو کبھی اشتراکیت کے نشے میں مزدو روں کے ساتھ چلنے لگتا ہے۔جو ش کو اس تضاد کا علم بخوبی تھا اور اس کا اظہار بھی کر تا ہے۔

جھکتا ہوں کبھی ریگ رواں کی جانب اڑتا ہوں کبھی کاہکشاں کی جانب
مجھ میں دو دل ہیں ایک مائل بہ زمیں اور ایک کارخ ہے آسمان کی جانب

 منہ شرم سے ڈھانپتی ہے عقلِ انساں               تھرتھراتی ہے، کانپتی ہے عقلِ انساں 
تحقیق کی منزلیں عیاذاً با للہ                ہر گام پہ ہانپتی ہے عقلِ انساں 

اے خالقِ امرِ خیرو صانعِ شر                    تجھ پر ہی تو ہے مدارِ افعالِ بشر
ہر ہجو کے تیر کا ہدف ہے تری ذات                     ہر مدح کی تان ٹوٹتی ہے تجھ پر

حمدیہ رباعی میں خدا کی صفات کا ذکر بخوبی کر تے ہیں لیکن ساتھ میں شکایت بھی بھر پور کرتے ہیں۔ان کے یہاں حمد سے زیادہ شکایت نظر آتی ہے وہ جگہ جگہ پر اللہ سے روٹھتے ہیں، الجھتے ہیں، نا راض ہوتے ہیں، امید کر تے ہیں اور مایوس بھی ہوتے ہیں۔ وہ غر ور بھی کر تے ہیں اور رحم کی درخواست بھی کرتے ہیں۔غر ض یہ کہ وہ حمد کے ساتھ شکایت بھی کر تے ہیں، اس قسم کی ایک رباعی ملاحظہ ہو۔
جس وقت جھکتی ہے مناظر کی جبیں راسخ ہوتا ہے ذات باری کا یقیں 
کر تا ہوں جب انسان کی تباہی پہ نظر دل پوچھنے لگتا ہے خدا ہے کہ نہیں   

جو ش و فراق کے بعد اردو رباعی کی دنیا میں مزید وسعت آئی جن میں سے کئی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے خالص رباعی گوئی میں شہر ت حاصل کی جیسے جگت موہن لال رواں، ناوک حمزہ پوری، علقمہ شبلی، کوثر صدیقی، طہور منصو ری نگاہ اور عادل اسیر ہ وغیرہ۔ ان کے علا وہ کئی ایسے شعر اء ہیں جنہوں نے غزل کے ساتھ رباعی میں اپنی مضبوط شناخت قائم کی ان میں سے فر ید پر بتی، ظہیر غازی پور، اصغر ویلوری،شاہ حسین نہر ی،قمر سیوانی، ظفر کمالی، حافظ کر ناٹکی، اکر م نقاش، فراغ روہوی، التفات امجدی، عادل حیات اور عبدالمتین جامی وغیرہ ہیں۔ان تمام سے الگ ایک بہت ہی بڑی شخصیت ہے جنہوں نے رباعیاں کہی ہیں اور ان کی رباعیاں مقبول بھی ہوئی ہیں وہ ہیں شمس الرحمن فارقی۔ موصوف نے اپنی رباعیوں میں جدیدیت کو مکمل برتا ہے جن کے وہ روح روا ں بھی رہے۔الغرض موجودہ عہد میں رباعی بطور ایک شعری صنف سخن بہت ہی مقبول صنف ہے۔ یہ ملک کے کسی ایک ہی حصہ میں نہیں کہی جارہی ہے بلکہ رباعی کے شاعر آپ کو ملک کے اکثر حصہ میں مل جائیں گے۔جن میں سے چند کا ذکر اجمالا کیا جاتا۔

 رباعی میں حمد ونعت جیسے پاکیزہ موضوعا ت کثرت سے استعمال ہونے کی وجہ سے یہ احساس ہوتا ہوگا کہ اس میں کوئی نئی بات کہنے کو نہیں رہ گئی ہے بلکہ انداز جداگانہ ہوگا اور کہنے کو وہی باتیں ہوں گی لیکن جس خدا کے جہاں کی ساری چیزوں کا احصا ء ایک انسان نہیں کر سکتا تو ان کی حمدو ثنا کا حق کہاں ادا ہوسکتا ہے۔اس وجہ سے حمد وثنا میں نئے اسلوب اخذ کر نے میں رباعی کے اسلوب میں تازہ کاری بہت ہی زیاد ہ لائی گئی ہے ظہیر غازی پوری اپنی وسیع النظری کے سب اس ازلی موضوع کوتخلیقیت کا اعلی پیرہن اس طر ح عطا کر تے ہیں کہ ان کی حمدیہ اور نعتیہ رباعی افق کے نئے منازل طے کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ایک رباعی اس سلسلہ کی ملاحظہ ہو۔

’لا‘ میں بھی جھلکتا ہے اسی کا جلوہ ’کن‘ میں بھی دمکتا ہے اسی کا جلوہ 
آنکھوں میں مقید جو کبھی ہو نہ سکا ہر شیئ میں چمکتا ہے اسی کا جلوہ 

فرید پر بتی نے اپنی رباعیوں میں حمد و نعت، اخلاق و حکمت، تصوف، حسن و عشق، عصر حاضر وغیر ہ جیسے موضو عات کا احاطہ کیا ہے۔ یہ وہ ظاہر ی موضوعات ہیں جو ان کی رباعیو ں میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کی رباعیوں کے گہرے مطالعہ کے بعد جو پہلا تأثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعر ی کی عمارت ذاتی تخلیقی توانائی اور اظہار کا جذبہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ ان کی رباعیوں میں ایک الگ اندا ز بیان اور حسن ہے جس میں ایک توانا نظام فکر نظر آتا ہے جو عموما دوسرے رباعی گو کے یہاں بہت کم پایا جاتا ہے۔ان کی رباعیوں میں ایک توانا نظام فکر پایاجاتا ہے اور اپنی رباعیوں میں ایک منفر د لب و لہجہ اور شیر ینی و نغمگی کو پیش کر تے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی رباعیاں قاری کے اثر میں اپنا ایک اثر چھوڑ جاتی ہیں۔

فرید پر بتی روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید مضامین کو بھی رباعیوں میں پیش کیا ہے جس کو لوگ صرف غزلوں میں ہی پیش کر رہے تھے۔ انہوں نے جہاں صوفیانہ اور اخلاقی مضامیں پر اظہار خیال کیا ہے وہیں حسن وعشق کے موضوعات کو برتا ہے اور عصر ی حسیت سے اپنی رباعیوں کو ہم آہنگ کیا ہے۔ ان کے یہاں حمدیہ رباعی تمام مجموعوں میں بطور تبر ک نظر آتی ہیں۔ تمام رباعی کے مجموعے میں وہ خدا کی تعر یف وثنا ضر ور کر تے ہیں خواہ ایک ہی رباعی سے ہی کیوں نہ ہو۔اس کے بعد نعتیہ رباعی بھی پیش کر تے ہی اس طر ح سے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی رباعیوں کو ایک منفر د آہنگ عطا کیا وہیں وہ موضوعات میں مذہبی موضوعات سے منھ نہیں پھیر ے ان کی حمدیہ رباعیاں ملاحظہ ہوں۔

یکتا بھی یگانہ بھی مشہود و مآل یکتا ئی میں تحلیل ہوا عزو جلال 
حیران تفکر ہے تحمل نگرا ں دریا میں غر ق ہوا مرا جام سفال

سمجھو کہ لگاؤ گے فقط رٹ میری پاؤ گے چہار سمت آہٹ میری 
جب تجھ پہ کمالات کھلیں گے میرے سجدوں سے سجا دو گے چوکھٹ میری 

پہلی رباعی میں انہوں نے معنوی گہرائی کو جس طر ح سے پیش کیا ہے ایسی مثالیں اردو رباعی میں بہت ہی کمی ملتی ہیں۔ عموما اکثر رباعی گو سادگی کے ساتھ خدا کی تعریف پیش کر دیتے ہیں کوئی بھی اس طر حی کی معنوی دریا میں غوطہ لگانے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس معاملہ میں فرید پربتی بالکل یکتا ہیں۔

اصغر ویلوری جن کا تعلق صوبہ تمل ناڈو کے شہرویلور سے ہے ان کے یہاں حمدیہ رباعیات ان کے مجموعوں میں بکھر ے ہوے ہیں نیز ایک مکمل رباعیو ں کا مجموعہ ”حمدیہ رباعیات“ سے بھی موسوم ہے۔ حمدیہ رباعیوں میں اللہ کی عظمت، اس کی وحدت، اس کی عطا وبخشش، ذات باری کا وجود، اس کا معرفت اور اس کا تاابد قائم رہنا اور اس طر ح کے دیگر حقیقتوں کابیان اور اس کا اعتراف ان کی رباعیوں میں کثرت سے ملتا ہے۔انداز بیان منفر د اور دلکش ہونے کی وجہ سے ان کی رباعیاں حسین اور موثربھی نظر آتی ہیں۔

جلوے تیرے ہر شے میں نظر آتے ہیں ذرے بھی نگاہوں میں چمک جاتے ہیں 
جز تیرے ہمیں کچھ نہیں آتا ہے نظر ہم تیری محبت کے قسم کھاتے ہیں 

پنہاں ہے گل و خار میں قدرت تیری وحدت تری حکمت تری عظمت تری 
دیدار سے قاصر ہیں یہ آنکھیں ورنہ ہر شکل میں موجود ہے صورت تیری 

ان رباعیوں میں صرف اللہ کی عظمت و جلال، اس کے وجود اور اس کی عبادت کا ہی ذکر نہیں بلکہ یہاں اس کی رحمت، نیکی کر نے اور عبدیت کی بھی تلقین ہے۔

ناوک حمزہ پور ی ایک صوفی تعلیم یافتہ گھر انے سے تعلق رکھتے ہیں اگر چہ ان کی تعلیم باظابطہ طور پر کسی خانقاہ یا مدرسہ میں نہیں ہوئی پھر بھی ان کی تربیت والدین نے دینی ماحول میں کی اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کر ایا۔ جب وہ شاعری کی جانب مائل ہوئے تو ان کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ذاتی طوری پر شاعروں کو رباعی گوئی کی جانب تر غیب دی جس سے اَسی کی دہائی میں رباعی کا ایک خوبصورت ماحول پیدا ہوا۔انہوں نے اپنی رباعیوں میں عظمت خداوندی، عشق رسول، اتباع سنت، حب اہل بیت، غم حسین، بزر گان دین سے وابستگی، اخلاق و حکمت، تصوف اور مخالفت شر ک جیسے مذہبی موضوعات کو کثر ت سے اپنا یا ہے۔ان کی رباعیوں کے متعلق گیان چند جین لکھتے ہیں:

”ان کی بیشتر رباعیوں کا تعلق ایمان سے ہے۔ یعنی وہ حالی اور اقبال کا امتزاج ہیں۔ وہ بھولے سے بہی رندی و شہبازی کے طلسمات سراب کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ میرا خیال ہے کہ اس تلقین میں ان کا پایہ بلند ہے اور یہ انہیں زیب دیتا ہے۔“
(رباعی کا آبر و۔ناوک حمزہ پوری، مرتب ڈاکٹر محمد آفتا ب اشرف، ص، ۷۴) 

پھیلا ہے دو عالم میں اجالا تیرا کونین کی ہر شے میں ہے جلوہ تیرا
ہے مختلف النوع ہرایک چیز مگر ہر شئے سے جھلکتا ہے سراپا تیرا 

اگر چہ یہ رباعی فلسفہ تصوف سے وحدۃ الشہود کا حامل ہے لیکن یہ بات بھی ظاہر ہے کہ وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہو یا وحدۃ الشہود کا دونوں میں خدا کی حمد وثنا ہوتی ہے۔

طہور منصوری نگاہ ؔ کے یہاں حمدیہ ونعتیہ رباعی خصوصی طور پر نہیں پائی جاتی ہیں اور نہ ہی  انہوں نے کسی بھی 
رباعی کوموضوعات کے تحت منقسم کیا ہے  بلکہ تمام رباعیوں کوسودوزیاں، منظر نامہ اور زمینی جمالیات کے عنوان کے تحت ”گلابوں کے چراغ“میں پیش کیا ہے ان کی ایک حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو۔

ہر سانس بہر حال ترے دم سے ہے سنگیت کا سرتال ترے دم سے ہے 
یہ چاند کی رعنائی یہ تاروں کا جمال سورج کا یہ اقبال ترے دم سے ہے 

فراغ روہوی کے یہاں حمدیہ و نعتیہ رباعیاں ایک معتد بہٰ صورت میں نظر آتی ہیں۔ ان کی رباعی کا مجموعہ ”جنو ں خواب“ میں وحدانیت، تو صیف و نعت کی رباعیاں بکھر ی ہوئی نظر آتی ہیں۔چند حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو:

میں خوبیئ اظہار کہاں سے لاؤں میں طاقت گفتار کہاں سے لاؤں 
جس سے ہو تری حمد و ثنا لامحدود لفظوں کا وہ انبار کہاں سے لاؤں 

نظروں سے نہاں رہ کے بھی ظاہر ہے خدا کیا کیا نہ کر شمات میں ماہر ہے خدا
انسان کی شہ رگ کے قریب رہتے ہوئے انسان کے افکار سے باہر ہے خدا

 فراغ اپنی رباعیوں میں خدا کی تعریف اس سادگی کا ساتھ کر تے ہیں کہ میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں کہ جن الفاظ سے تیری ذات کی تعریف کی جائے۔پھر دوسر ی رباعی میں نحن اقرب من حبل الورید (ہم اس کے شہ رگ سے بھی قریب ہیں)قرآ ن کی اس آیت کو اپنی رباعی میں خدا کی تعریف کے طور پر بیان کر تے ہیں۔کئی دیگر رباعیوں میں نظام عالم کو بیان کر تے ہیں اور ایک لاچاری کے ساتھ خدا سے دعا بھی مانگتے ہیں۔گو یا ان کی حمدیہ رباعی میں حمد کے کئی رنگ نظر آتے ہیں جہاں سادگی کے ساتھ بالکل عام فہم الفاظ میں خدا کی حمد وثنا نظر آتی ہے۔

حافظ کر ناٹکی کا تعلق اسلامیات سے گہر ا ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں اخلاقیات کا عنصر جو ادب اطفال سے شر وع ہوتا ہے وہ رباعی جیسے عشقیہ، خمریہ اور فلسفیانہ مزاج رکھنے والی صنف سخن میں بھی قائم رہتا ہے۔ان کی رباعیوں میں جتنے بھی اصلاحی مضامیں ہو سکتے تھے سب کے سب مذہبی مضامین کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ان کی رباعیوں میں توحید،نعت، عرفان ذات، انسان دو ستی، حسن اخلاق،دینی، فقہی، تبلیغی، روحانی اور سماجی ہر طر ح کے مضامین کو پیش کیا ہے۔ان تمام کے باوجود ان کے یہاں باظابطہ حمدیہ رباعیات کا ایک مجموعہ”رباعیات حافظ حصہ سوم“ ہے جس میں رباعیوں کی تعداد تقریبا ایک پانچ سو ہے۔ 

سب پیڑ قلم بن کے جو ڈھل بھی جائیں 
اور دریا سیاہی میں بد ل بھی جائیں 
تب بھی نہیں تعریف خدا کی ممکن
پتھر سے زبانیں جو نکل بھی جائیں                                                                                                                      
خدا کی حمدوثنامذکورہ بالا رباعی میں اپنے انداز میں نہیں بلکہ خود خدا کے انداز میں کر تے ہیں۔”قل لو کان البحر مداداً لکلمات ربی لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربی ولو جئنا بمثلہ مدداً“کہ خدا کی تعریف تب بھی ممکن نہیں جب سارے سمند ر کے پانی کو روشنائی اور سارے درختوں کو قلم بنا دیا جائے۔حمدو ثنا کا یہ انداز قرآن میں اچھوتے انداز میں بیان ہوتا ہی ہے۔ شاعر نے بھی اسکو اپنے لفظوں میں اچھوتے انداز میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے خدا کی تعر یف مختلف انداز میں بیان کی ہے اور خصوصا ً وحدانیت ذات باری پر خصوصی توجہ دی ہے۔

عادل حیات کی رباعیوں میں حمدیہ رباعی کی تعداد ان کے رباعیوں کے مجموعے ”شہر رباعی“ میں کئی ہیں اور سب کا انداز جدا گانہ ہے۔ وہ کس رباعی میں خالص خدا کی تعر یف کر تے ہیں تو کسی رباعی میں تعریف کے ساتھ دعا، مدد، استغفار وغیر ہ بھی شامل ہے بلکہ ایک رباعی میں تو خدا سے شکایت بھی ہے کہ کچھ مر دود لوگ زندہ ہیں اور مجھ جیسا آدمی زندہ ہوکر بھی تری دنیا میں مر دگی کی زند گی گزار رہا ہے وغیرہ۔ ان کی ایک حمدیہ رباعی ملاحظہ ہو۔

ہر پھول کی خوشبو میں بہاروں میں وہی سورج کی چمک چاند ستا روں میں وہی
ہر چیز اسی کی ہے ثنا خواں ہے عادل ہے تیرے کنایوں میں اشاروں میں وہی 

التفات امجد ی وقت حاضر کے نوجوان رباعی گو شاعر ہیں انہوں نے رباعی گوئی میں ان اس معنی کر بھی انفرادیت حاصل ہے کہ انہوں نے کثیر تعداد میں بچو ں کے لیے بھی رباعیاں کہی ہیں۔ موصوف کی تر بیت خانقاہوں میں ہوئی باوجو د اس کے وہ  حمدیہ، نعتیہ اور منقبیتہ رباعیات کے جانب رسما ً ہی جاتے ہیں اور ان مضامین کو اخلاق و اصلاح کے دائر ے میں پیش کر تے نظر آتے ہیں شاید وہ کتاب کے شر وع میں ان رواجی مضامین کو تحریر کر نے سے مفر نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ فرار اس کے رسمی ہونے سے ہوتے ہیں۔حمدو ثنا میں ان کی یہ رباعی ملاحظہ ہو۔

حیران و پریشان کے بس میں ہی نہیں نادان ہے نادان کے بس میں ہی نہیں 
ممکن ہی نہیں اس سے خدا کی توصیف یہ کام تو انسان کے بس میں ہی نہیں 

شاعر کے دنوں مجموعے ”چکنے پات“ اور ”چار محراب“ ایک میں ساقی نامہ اور ایک میں خمر یات کے تحت کئی رباعیاں پیش کی گئی۔جس میں اکثر رباعیوں میں ساقی سے خطاب کیا گیا ہے لیکن یہ ساقی کوئی جانا مانا ایک خاص شکل و صورت والا نہیں ہے  بلکہ کہیں یہ انسانی محبوب ہے تو کہیں مر شد کامل، کہیں مغنی، کہیں سیاست دان، کہیں ساقی کوثر (محمدؐ)اور کہیں رب کائنات۔

الغر ض موجودہ دور میں جہاں رباعی گو شعرا کی تعدا د کثیر مقدار میں ہے وہیں موضوعات میں رباعی نے اپنے تمام قدیم موضوعات پر قائم رہتے ہوئے جدید موضوعات کو بھی تیزی سے اپنا یا ہے۔قدیم زمانے میں یہ ہوتا تھا کہ جو بھی کتاب لکھنا شرع کر تا، دیوان مر تب کر تا، داستا ن لکھتا، قصید ہ یا مر ثیہ ومثنوی تخلیق کر تا سب کی شروعات حمد سے ہوتی تھی۔ میر ے خیال میں شاید مغربی اصناف خصوصا ناول و افسانہ کے چلن کے بعد یہ صفت تیز ی سے غائب ہوئی لیکن جب موجودہ رباعی گو شعرا کے مجموعوں کا مطالعہ کر تے ہیں تو اب خصوصیت کے ساتھ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اکثر شاعروں کے یہاں شروع کی کئی

 رباعیاں حمدیہ رباعیاں ہوتی ہیں۔ اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حمد جیسا با وقا ر اور پاکیزہ موضوع رباعی میں اب بھی اسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے جیسا کہ پہلے پایا جاتا تھا۔

Tuesday 24 March 2020

’’ صلاح الدین ایوبی‘‘ایک رزمیہ ناول

(قاضی عبدالستارایک کامیاب ناول نگار تھے وہ اردو کے معروف فکشن نگار اور پدم شری اعزاز یافتہ تھے ۔  وہ عہد حاضر کے ممتاز ، معتبر اور معمار فکشن ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی تخلیقی قوت کے مالک تھے جن کی عظمت کا اعتراف ان کے معاصرین کرتے ہیں۔ 8فروری 1933 میں سیتا پورضلعے کے مچھریٹاگاؤں، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔اور 28اکتوبر2018 کی رات کو سر گنگا رام ہاسپٹل، دہلی میں داغ مفارقت دے گئے ، شعبۂ اردو کے پروفیسر اور صدر شعبہ بھی رہے۔ملازمت کے فرائض سے باعزت سبکدوش ہونے کے بعد بھی ادبی مصروفیات سے وابستگی رہی اور اپنے قلم کالوہا منوایا۔ 
قاضی صاحب نے جہاں کثرت سے ناول رقم کیے وہیں افسانے بھی لکھے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’پیتل کا گھنٹہ‘ ہے ۔ ان کا پہلا ناول’شکست کی آواز ‘ہے جسے انھوں نے 1953 میں لکھا اور ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤسے جنوری1954 میں شائع کیا۔ بعد میں یہ ناول ’دودِچراغ‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ ہندی والوں نے ا سے ’پہلااور آخری خط‘کے نام سے شائع کروایا۔ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ’شب گزیدہ‘ہے جو 1959 میں رسالہ’نقوش‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے کئی ناول بادل، داراشکوہ (1976)، صلاح الدین ایوبی(1968) ،مجوّبھیا(1974)، غبار شب (1974)، غالب(1968)، خالد بن ولید(1995)، وغیرہ تواتر کے ساتھ منظر عام پرآئے اور انھیں فکشن کی دنیا میں حیات جاویدانی عطا کی۔ان کے اسلوب بیان نے ایک ادبی مزاج کی تعمیر وتشکیل میں نمایاں رول اداکیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ناول ’حضرت جاں‘اور ’تاجم سلطان‘ نے ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی رفتارکو متاثر بھی کیابلکہ یوں کہا جائے کہ قاضی صاحب کے کیرئیرمیں عارضی ٹھہراؤ پیدا کیا تو غلط نہ ہوگا۔)

’’ صلاح الدین ایوبی‘‘ایک رزمیہ ناول 


امیر حمزہ ، ریسرچ اسکالر دہلی یونی ورسٹی

 عربی زبان اپنے شعری سرمایے کی وجہ سے دنیا کی ادبی زبانوں میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔  اس زبان کے شعری سرمایے کو بنیادی طور پر تین حصوںمیں تقسیم کیا جاتا ہے غنائی، مسرحی اور ملحمی ۔ 

ملحمی کا تعلق اس صنف سے ہے جس میں طویل قصے بیان کیے گئے ہوں ۔اس طویل قصے میں انسانی معرکے کو پیش کیا گیا ہو ۔قومی رجحانات اور مستقبل کی امیدوں کا ذکر ہو جس سے ملی مفاد وابستہ ہو ، اس میں بہت سارے تاریخی واقعات کے ساتھ قوم کے معرکے کا ذکر ہو ۔جس کے اندر پوری جماعت مقصود ہو ،یعنی ہیرو ملت کا سمبل ہو۔ان تمام کے علاوہ بہت ساری چیزیں ہیں جو ملحمی شاعری میں پائی جاتی ہیں ۔
ا
سی کیفت کو اردو میں رزمیہ کہتے ہیں ۔جس کے استعمال سے اس بات کی ترسیل مقصود ہوتی ہے کہ رزمیہ کا مطلب معرکے کا بیان ہو۔ وہ معرکہ خواہ تہذیبی شناخت کے لیے ہو یا مذہبی مفاد کے لیے ۔اس میں محض جنگ کے حالات کی عکاسی نہیں ہوتی ہے بلکہ قوم کے ہیرو کے شجاعانہ کارناموں کو ایک پروقار اسلوب میں قلم بند کیا جاتا ہے ۔

شبلی نعمانی موازنہ انیس ودبیر میں لکھتے ہیں :
’’رزمیہ شاعری کا کمال ذیل کے امور پر موقوف ہے ۔سب سے پہلے لڑائی کی تیاری ، معرکے کا زور و شور ، تلاطم ، ہنگامہ خیزی، ہلچل ، شورو غل، نقاروں کی گونج ، ٹاپوں کی آواز، ہتھیاروں کی جھنکار ، تلواروں کی چمک دمک، نیزوں کی لچک ، کمانوں کا کڑکنا ، نقیبوں کا گرجنا ، ان چیزوں کو اس طرح بیان کیا جائے کہ آنکھوں کے سامنے معرکہ جنگ کا سماں چھاجائے ، پھر بہادروں کا میدان جنگ میں جانا ، مبارز طلب ہونا ، باہم معر کہ آرائی کر نا لڑائی کا داؤ پیچ دکھانا ان سب کا بیان کیا جائے ۔اس کے ساتھ اسلحہ جنگ اور دیگر سامان جنگ کی الگ الگ تصویر کھینچی جائے پھر فتح یا شکست کا بیان کیا جائے اور اس طر ح کیا جائے کہ دل دہل جائیں یا طبیعتوں پر اداسی اور غم کا عالم چھا جائے ۔‘‘(ص:195)
 ا
یسے ہی ملتے جلتے خیالات شعرالعجم میں بھی تحریر ہیں ۔
مندرجہ بالا پیراگراف میں سے پہلے میں مقصد اور خصوصیات کا ذکر ہے اور دوسرے میں کمال کا ۔ اول مکمل فن پارے کو سمیٹے ہوئے ہے اور دوم میں فن پارے کی کیفیت و فضا و موضوع کو دائرۂ کار میں لایا گیا ہے ۔ اب رزمیہ سے شاعری کو الگ کر دیتے ہیں اور فکشن کو ساتھ میں لاتے ہیں تو مقصد دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے اور کمال جس کا ذکر شبلی کر تے ہیں یعنی میدان جنگ کی منظر نگاری وہ بھی فکشن میں بھر پور موجود ہوتی ہے ۔بس فر ق اتنا ہے کہ شاعری میں جذبات و کیفیات و معا ملات کو ان الفاظ کے تابع لایا جاتا ہے جو موسیقی کے ما تحت ہوں ۔مگر فکشن ان سے آزاد ہو کر قاری کے ادراک میں اتر تا ہے ۔ ’’صلاح الدین ایوبی‘‘ قاضی عبدالستار صاحب کا مکمل رزمیہ ناول ہے جس کی ابتدا بھی رز م سے ہوتی ہے اور انتہا بھی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنے بھی تاریخی ناول لکھے گئے ہیں ان سب میں رزمیہ عناصر پائے جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس جہاں رزم پایا جاتا ہے کوئی ضروری نہیں کہ وہاں تاریخ بھی ہو جیسے داستا ن و مثنوی۔ 

ناول صلا ح الدین ایوبی ۱۹۶۴ء میں منظر عام پر آتا ہے اور دوسری صلیبی جنگ سے تیسری صلیبی جنگ تک کے معرکوں کا احاطہ کرتا ہے۔اس ناول میں دو ہی کر دار کلیدی طور پر سامنے آتے ہیں ایک یوسف صلاح الدین ایوبی اور دوسرا ملکۂ ایلینور ۔ ناول کے شروع میں ایلینور غالب نظر آتی ہے اور اختتام میں مغلوب ۔ رزم میں کہیں نہ کہیں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ اس میں جس کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس کے کردار کو بہت ہی خوبصورت انداز میں تر اشا جاتا ہے ۔ اس کے سر د وگر م حالات کو بیان کیا جاتا ہے، اس کے لیے قاری کے تئیں ایک قسم کی وفاداری اور ہمدردی پیدا کی جاتی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ ہر ناول نگار اپنے ہیر و کو اس انداز میں پیش کر تا ہے کہ قاری کے سامنے دوسرا کوئی آپشن ہوتا ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے تراشے ہوئے ہیر و کے بر خلاف ناول میں کسی اور کے لیے ہمدردی ظاہر کرے۔ الغر ض ہیر و کے تراشنے کا عمل مثنویوں، مرثیوں اور داستانوں میں خوب نظر آتا ہے جس کی اس ناول میں کوئی ضرورت پیش نہیں آتی ہے ۔ بلکہ تر شاتراشا ایوبی کے کردار کو جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں اس سے دوسرے کردار پس پشت چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ قحطان ( ایوبی کا عیسائی دوست )جس کے ساتھ وہ مشن پرنکلتے ہیںوہ بھی فوراً منظر نامے سے غائب ہو جاتا ہے  ۔ ناول نگار یہاں سے رزم کو شروع کرچکا ہے جہاں سے ایوبی کو کسی قسم کی ویسی پریشانی میں مبتلا نہیں کیا جا تا ہے کہ قاری یہیں سے لڑکھڑانے لگے بلکہ ہلکا سا تردد کے بعد سیدھے ایلینور کی خدمت میں مامور کر دیا جاتا ہے ۔

ملحمی کے ذیل میں ایک جملہ آیا تھا کہ’’ قوم کے ہیرو کے شجاعانہ کارناموں کو ایک پروقار اسلوب میں قلم بند کیا جاتاہے‘‘ اس کا سلسلہ ان ہی ابتدائی صفحات سے شروع ہوجاتا ہے ۔ ملحمی کے ہی ذیل میں دو لفظ ’’ ملی مفاد ‘‘ کا بھی ذکر آیاتھا ۔تو اس کا ذکر شروع میں ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے ’’ میرا خیال ہے قحطان کہ دمشق کی حفاظت کے فرض میں ہم دونوں برابر کے شریک ہیں اگر افرنجیوں کے بجائے عباسی یا فاطمی چڑھ آتے تو بھی دمشق کوبچانا ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا‘‘ ۔اس کے بعد ملک و ملت کے لیے ہیرو اپنے مشن میں نکل جاتا ہے ۔

ناول نثری صنف ہونے کی وجہ سے اپنے اندر گنجائش زیادہ رکھتا ہے کہ تجسس کو برقرار رکھے اور معر کۂ کارزار میں پہنچنے سے پہلے تک قاری کو جزئیات نگاری کی حسین و جمیل وادیوں کی سیر کراتا رہے اور قاری کے لیے ہیر و کے کردار کو روایت کے ذریعہ نہیں بلکہ ہیروکے سامنے مسلمانوں کی کسمپرسی اور مظلومیت کو سامنے لا یا گیا ، دشمن کی فوج میں رہتے ہوئے ملت کے لیے خون کو پرجوش کیا گیا ۔اس درمیان شعری اصناف اور اس نثر ی صنف میں یہ فرق نظر آتا ہے کہ اول الذکر میں ہیروکی ذات و شجاعت کو بہت ہی زیادہ مرکز میں لایا جاتا ہے جب کہ نثر میں ہیروبطور ذات شامل نہ ہوکر ملت کے نمائندے کے طور پر نظر آتا ہے ۔ناول میں لڑائی کا پہلا منظر اس قدر پھیکا ہے کہ شبلی کا قول اس پر بالکل بھی صادق نہیں آتا ہے بلکہ  اس مکمل منظر کو قاضی صاحب بہت ہی تیزی سے بیان کر کے چلے جاتے ہیں ۔

’’ سارا لشکر باغوں میں پھیل کر چلنے لگا ابھی وہ پتھر کے ان مکعب مکانوں سے دور تھے جو شہر پناہ کے دمدموں کا کام انجام دیتے تھے کہ درختوں سے نفخ کی ہانڈیا ں برسنے لگیںاور کونریڈ جیسا جانباز مجاہد گھوڑے سے اتر کر مسیح کی دُہائی دینے لگا میلوں میں پھیلے لشکر کی ایک ایک انچ نالوں ،فریادوں اور آنسوؤں سے چھلک اٹھی ۔ جب ہانڈیوں کا زور کم ہوا اور تیروں ، نیزوں اور پتھروں کی بارش شروع ہوئی تب افرنجیوں سے سنبھالا لیا اور گھوڑوں پر سوار ہوکر دھاوا کیا اور اپنی صفوں کو قائم کرکے چلے اب درختوں پر چھپے ہوئے مسلمان پھاندنے لگے اور جنگ مغلوبہ شروع ہوگئی ۔ لوئی جس سے ایک عورت نہیں سنبھلتی تھی وہ اس یلغار کو کیا سنبھالتا واپسی کا قرنا پھونک کر پیچھے ہٹ آیا ‘‘ (صلاح الدین ایوبی، قاضی عبدالستار. ص34) 
ا
س اقتباس میں شبلی کی خواہش کہ رزمیہ کا کمال کیا ہوتا ہے وہ بالکل مفقود ہے ۔بلکہ اگر یو ں سمجھا جائے کہ شبلی کا رزمیہ مکمل طور پر شاعری پر کلام ہے اس پر بھی خاص صرف مر ثیوں پر ہی ہے اور انہوں نے جس قسم کے کمال کا ذکر کیا ہے وہ اسی زمانہ کی جنگ پر صادق آتا ہے جب ویسی جنگیں لڑی جاتی تھیں ۔ جب کہ صلاح الدین ایوبی میں اس قسم کی جنگی کیفیت کا بیان نہیں ہوا ہے اس لیے اس کو اس پر محمول کر نا مجھے عبث لگتا ہے ۔
 ا
س سے پہلے کی جنگ جو تھی وہ صلیبیوں کی تھی جس میں انہیں شکست ہوئی تھی اور اس اقتباس میں بھی ان ہی سے جنگ ہوئی اور یہاں ان کی جیت ہے ۔ لیکن یہ جنگ نہیں ہے بلکہ فساد ہے جس طر ح ہندو ستان میں ہوتا ہے کہ مذہبی بے ادبی کی جائے اور فساد بھڑ ک جائے بالکل ویسا ہی ہے کہ بائبل کے اوراق پھاڑ دیے جائیں اور عیسائی قوم مسلمانوں کو گاجر ومولی کی طرح کاٹ ڈالے ۔ جیسا کہ اس اقتباس میں ہے ۔
 ا
یک راہب چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا 
’’ کسی مسلمان نے ہماری بائبل پھاڑ کر جوتوں سے مسل دیا ہے‘‘ 
’’عین گرجے کے سامنے مقدس دین کی بے حر متی کی گئی ہے ‘‘ 
دوسری آواز
سارے شہر کے مسلمانوں کی ایک منظم سازش ہے 
کسی منچلے نے ٹکڑا دیا 
’’تو پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھینک کیوں نہیں دیتے ؟(ص:62)

اس کے بعد بلوہ شروع ہوجاتا ہے جس کی منظر نگاری کچھ اس طر ح کر تے ہیں ۔
’’بکتر پوش سواروں نے نیزوں میں مشعلیں باندھیں اور مکانات میں پھینکنے لگے جس طرح چھتے سے مکھیاں نکلتی ہیں بوڑھے جوان ، بچے اور عورتیں نکلنے لگیں۔ان کے ہاتھ خالی تھے اور پیروں میں خوف کی زنجیریں پڑی تھیں ۔ پھر ان پر بہادر شہسواروں اور نامی گرامی نائٹوں کی پیاسی تلواریں بر سنے لگیں اور دم کے دم میں جامع عسقلان تک تمام کوچے اس خون سے جو پانی سے بھی سستا ہے غسل کرنے لگے ۔‘‘ص(62)

اس کے بعد حملہ کا ایک اور سلسلہ ہے جس کی منظر نگاری میں مسلمانوں کو جامع مسجد میں لاچار و مجبور اور محض عبادت پر بھروسہ دکھایا گیا  ہے ۔جس میں اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ یہ اس وقت سے لیکر اب تک کا عجیب المیہ ہے جس پر رزم بھی بزدل نظر آتا ہے جو اب تک ہوتا آرہا ہے۔ ملحمی میں قوم کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے لیکن یہاں قاضی صاحب محض ایک منظر نگار ی سے رزمیہ تاریخ ساز قوم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ جس قوم کو فاتح بن کر رزمیہ داستان کا ہیرو بننا تھا وہ قوم میدان کارساز میں کوئی ہیرونہیں پیدا کر پارہی ہے ۔ 

اس کے بعد سے ناول نگارایسی فضا تیا ر کر تے ہیں جس میں صلاح الدین ایوبی کو اس وقت کے مسلمانوں کی حالت سے رو بر و کرایا جائے ،اس سے کئی کیفیات ضرور سامنے آتی ہیں جو کبھی رجز تو کبھی مرثیہ کی شکل میں ہوتی ہیں ۔وہ جب ایلینور کے پاس سے نکلتے ہیں اور مصر میں داخل ہوتے ہیں تو چاروں جانب مسلمانوں کے روح فرسا مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگر ے آتے رہتے ہیں ۔ مصنف ان مناظر کو ایسے پیش کر تا ہے کہ جس سے ہیرو کے ذہن میں رجز کی کیفیت آئے اور مسجد اقصیٰ کی فتحیابی تک شمشیر فتح چلتی رہے۔ صلاح الدین ایوبی کا کردار تو ایلینور کے ساتھ رہتے ہی مرصع و مجلیٰ کیا جا چکا تھا اب جب اپنے مشن کو نکلتا ہے تو اس وقت صلیبی جرنیلوں کی کرتوت اسے دکھایا جاتا ہے۔ صیہونیوں کا ظلم آسمان پرہوتا ہے اور مسلمان صرف اور صر ف ایک انسانی جانور ہوتے ہیں جو ہر حکم کی فرمانبرداری کے لیے سر جھکائے رہتے ہیں ۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں :

’’ ہمارے جسم لباس کی لذت فراموش کرچکے ہیں ، زبان ذائقہ بھول چکی ، ہم چشموں سے پیاسے لوٹ آتے ہیں کہ حاکموں کے جانوروں کی بے حرمتی کے سزا وارنہ ٹھہرائے جائیں ۔ہم اپنے بیٹے اس لیے پالتے ہیں کہ اپنے سینے تیر اندازی کی مشق کر تے ہوئے عیسائی حاکموں کے تیروں کا ہدف بنائیں ، گردنیں آوارہ عیسائی لونڈوں کی تلواروں کے غلاف ہوجائیں ۔ ہم بیٹیاں اس لیے پیدا کرتے ہیں کہ وہ اپنی بے کس ماؤں ، مجبور باپوں اور مقتول بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے عیسائی حاکموں کی نفسانی آگ بجھائیں ۔‘‘ (ص. 76)

ناول نگار اس صورت حال کو اگرچہ مصرکے تناظر میں لکھ رہا ہے لیکن ہند کے مسلمانوں کی کیفیت اس کی نظر وں کے سامنے ہے ۔ یہی کچھ کیفیت انگریزوں کے عہد میںہندوستان میں بھی پائی جارہی تھی اور اس کے بعد فسادات کے زمانے میں بھی یہ اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کیوںکہ اس کے بعد فسادات کی وہ کیفیت رقم کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر ہندوستان میں فسادات کا خوف رہتا ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ جامع مسجد میں آگ لگادی، قرآن مجید کی جلدیں پھونک دیں ‘‘(ص77) وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہاں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ناول نگار کے سامنے کوئی ہیروابھر کر سامنے نہیں آتا ہے اور نہ ہی عام قاری کے ذہن میں ۔ البتہ قاری کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ یہی کیفیت تو ہندوستان کی بھی تھی بلکہ انگریزوں یا یوں کہہ لیں کہ جابر حاکم کے سامنے کچھ مسلم رہنمائوں کی جو صورت حال ہوتی ہے اس کا بھی ذکر ہوا ہے جو جنگ آزادی کے وقت ہندوستان کی بھی تھی ۔ قاضی صاحب عسقلان کے چند متمول مسلمانوں کا اسٹیٹمنٹ بیان کر تے ہیں جو انہوں نے صیہونی سربراہ کے سامنے دیا تھا ۔ لکھتے ہیں :

’’ ہم کو مسیحی سلطنت میں وہی حقوق حاصل ہیںجو بغداد میں فاطمیوں کو اور قاہرہ میںعباسیوں کو نصیب ہیں ۔ ہماری عبادت گاہیں محفوظ ہیں ۔ ہماری زبان اور ہمارا تمدن زندہ ہے۔ ہم اپنی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں اور گھروں میں روزہ رکھتے ہیں اور بازاروں اور سیرگاہوں میں مساویانہ انداز میں ٹہلتے ہیں ۔ اس فساد کا سبب خود مسلمان ہیں ۔ چونکہ مسلمان ماضی میں کامل حاکم رہے ہیں ۔ اس لیے آج بھی ان میں ایسے نوجوان کی کثرت ہے جو کام سے جی چراتے ہیں اور جب کا م نہیں ہوتا تو شیطان کا جادوارزاں ہوجاتا ہے ۔‘‘ 

قاضی عبدالستار کے اس ناول میں یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ انہوں نے دیگر ناولوں کی طرح اس کا موضوع اور تھیم جنگ رکھا اور ہیرو اس کو منتخب کیا جس کی ساری زندگی تلوار کے ہمراہ اور اور زندگی کی اکثر راتیں میدان جنگ میں گزری ہوں ۔ جس سے قاری کے ذہن میں کتاب شروع ہونے سے پہلے ہی ہیرو کے متعلق ایک خاکہ تیار ہوجاتا ہے اور اس ہیرو کو قاری مکمل جنگی روپ میں تلاش کرتا ہے اور اس کے سحر میں ڈوب جانا چاہتا ہے جیسا کہ دیگر جاسوسی ناولوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لیکن یہاں قاضی صاحب معاشرہ کو پیش کرتے ہیں، انسا نی نفسیات کا بھی عکس ملتا ہے اور حسن و جمال کی طربیہ محفلیں بھی ملتی ہیں ۔ کہیں کہیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ قاضی صاحب انسانی نفسیات کے تعلق سے جو مخصوص ذہن اپنے اندر رکھتے تھے وہی اپنی تحریروں میں پیش کرنا چا ہتے ہیں اس لیے اگر یہ لکھا جائے کہ ان کے یہاں طرب کی منظر نگاری زیادہ مضبوط رہی ہے جنگ کے مقابلہ میں تو شا ید کوئی زیادہ ناانصافی نہیں ہوگی کیونکہ اس ناول میں ایک کردار صہب کے نام سے آتا ہے وہ کردار انسانی ہوتا ہے لیکن جس پرکیف فضا کا وہ خوشہ چیں ہوتا ہے وہ مکمل طور پر مافو ق الفطر ی ہوتا ہے۔ اس کا ذکر قاضی صاحب نے تقر یبا ڈھائی صفحات میں کیا ہے جو مکمل بزمیہ تحریر ہے ۔ ویسی تحریر نہ توکہیں رجز کی اور نہ ہی رزم کی نظر آتی ہے۔ یو سف کے صلاح الدین بننے کے بعد جوچند رجزیہ جملے لکھتے ہیں وہ کچھ اس طر ح ہیں : 

’’ ہم شیروں کی طرح للکار کر شکار پر جھپٹتے ہیں ۔ اس کو خبر دار کر دو کہ اپنے لشکروںکو استوار کر لے ، اپنے قلعوں کو آراستہ کر لے ۔ ہماری یلغار ان تاجداروں کا محاصرہ نہیں جو موت کے خوف سے اپنے لشکر اٹھالائے ۔ ہم جب رکاب میں پاؤں رکھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ شہادت ہماری رکاب پکڑے گی اور رضوان ہمیں اتارے گا۔ ہماری موت لڑائی کا خاتمہ نہ ہوگی ۔ ہمارا ہر سردار صلاح الدین ہوگا جس کے اس کے زمانے نے تلوار پکڑا کر اٹھایا ہے ۔‘‘ 

یہ تو رجز کا ایک حصہ تھا ۔ اس طرح کے جذبات کتاب میں کئی مقامات پر پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں صرف اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آن شان اور بان کو کوئی زنگ نہیں پہنچا تھا بلکہ وہ کسی ایسے ہیرو کی تلاش میں تھے جو ان کو ان کی ماضی کی بہادری کو وا پس دلا سکے ۔ کیونکہ نور الدین زنگی اپنی زندگی جی چکا تھا اور اس کی سلطنت میں سوائے اس کے قلعہ کے باقی تمام اطراف میں مسلمانوں پر ہولناک ظلم وستم تھے جس کا ذکر بھی اوپر آیا ۔ جنگ کی ایک کیفیت کا ذکر اس سے پہلے بھی آچکا ہے جو اس بات کی مثال کے لیے پیش کیا گیا تھا کہ شبلی کی خواہش کہ رزم ایسا ہوتا ہے وہ صرف مرثیہ کی شاعری میں نظر آتی ہے جہاں مذہب پور ی طرح حاوی نظر آتا ہے لیکن ملکوں کی جنگ میں وہ رزم نظر نہیں آتا ہے جہاں نہ مذہب کا افیم غالب ہو پاتا ہے اور نہ ملت کا جوش ٹھاٹھیں مارتا ہے بلکہ مر ثیہ کے برعکس فکشن میں سوجھ بوجھ کی حکمت عملی سے جنگ میں فتح حاصل ہوتی ہے جو قاری میں جوش کم بھر تا ہے اور تدبر زیادہ پیدا کر تا ہے ۔ جنگ کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں :

’’ سپہ سالار عادل کو قاہر فوجیوں کے ساتھ حکم دیا کہ افرنجیوں کی سرحدی بستی میں تہلکہ ڈال دے اور خود دس ہزار خچروں پر قلعہ شکن آلات بار کیے اور بارہ ہزار سوار وں کے ساتھ بادل کی طرح اٹھا اور حشیشوں کے مرکز پربجلی کی طرح گرا ۔ وہ تاریک جنگ جن کی ناقابل عبور ویرانی شیخ الجبال کی سپر تھی جلا کر خاک کردیے ۔ وہ آبادیاں جو فدائیوں کا اسلحہ خانہ اور رسد گاہ تھیں تہ وبالا کر دیں ۔ وہ فلک بو س قلعے جن تک پہنچتے پہنچتے عقاب تھک جاتے تھے اور جن کے برج میںبیٹھ کر شیخ الجبال مصر سے خوارزم تک اور افریقہ سے یمن تک کے حکام کو خط لکھا کر تا تھا زیرو زبرکر ڈالے ۔ ‘‘ 

اس اقتباس میں صرف جنگ کا ہی ذکر ہے لیکن مقابل کا ذکر بالکل بھی نہیںہے بلکہ یکطرفہ جیت کا بیان ہے ۔ رزم کا جیسا تجربہ مرثیوں میں ہوتا ہے اور وہاں رزم کی جو کیفیت تخلیق ہوتی ہے وہ اس طرح کہ ہر بند میں مخالف کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے اور رجزکے ساتھ ہی رزم سفرکرتا رہے وہاں رزمیہ پہلوایسا اثر دار ہوتا ہے کہ قاری سحر کی کیفیت میں چلا جاتا ہے ۔ یہاں صرف فتح کا ذکر ہے کہ میدان جنگ کے کن کن حصوں پر ہم نے فتح حاصل کی ، ہماری فتح بہت ہی عظیم ہے کہ ہم نے عظیم عمارتوں کو سبو تاژ کر دیا یا اس پر فتح حاصل کر لی، لیکن ایسی صورت حال میں مخالف کی فوج کا کیا ردعمل تھا اس کا ذکر بالکل بھی نظر نہیں آتا ہے ایسی صورت میں رزم تخلیق نہیں ہو پاتی ہے بلکہ وہ مطلقا ایک سادہ سا بیانیہ بن کر رہ جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا اقتباس میں ہے ۔

الغرض اس ناول میں اگرچہ رزم کی فضا پائی جاتی ہے لیکن وہ کمال نہیں جس کا ذکر شبلی نے کیا ہے بلکہ عربی تنقید کے مطابق ملحمی کے عناصر پائے جاتے ہیں کیونکہ ملی مفاد کے لیے قوم کے ہیرو (صلاح الدین ایوبی ) کے شجاعانہ کارناموں کا ذکر بہت ہی پروقار اسلوب میںقلم بند کیا گیا ہے جو قاضی صاحب کا ہی خاصہ ہوسکتا ہے ۔

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...