Wednesday 1 April 2020

اعراب نما حر وف

اعراب نما حر وف 

حرکات و علامت کی طرح کچھ حروف بھی ہوتے ہیں جو اعر اب کا کام انجام دیتی ہیں البتہ اس میں زبر زیر پیش کی طرح کوئی علامت نہیں لگائی جاتی ہے بلکہ خود حر ف تہجی میں سے کوئی حر ف اس عمل کو انجام دیتا ہے اس کو ہم اعراب نما حروف کہتے ہیں ۔ 

۱۔ واومعدولہ : واو معدولہ اس واو کو کہتے ہیں جو لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ہے ۔ جس طر ح انگلش میں سائلینٹ حر ف ہوتے ہیں جو لکھے تو جاتے ہیں لیکن وہ حرف پڑھے نہیں جاتے ہیں جیسے writing (رائٹنگ ) اس میں w نہیں پڑھا جاتا ہے ۔ اسی طر یقے سے اردو میں واو ہے جو کئی لفظوں میں لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا ہے ۔ یہ اکثر اس وقت ہوتا ہے جب واو ’خ‘ کے بعد آتا ہے جیسے خود ، خواب، دستر خوان، خواجہ اور خوشبو وغیر ہ ان تمام میں واو نہیں پڑھا جاتا ہے بلکہ اگر واو کے بعد الف ہے تو واو غائب ہوکر الف ہی پڑھا جاتا ہے جیسے درخواست ، دستر خوان ، خواجہ ، خوانچہ ، خوار اور خواجگان وغیرہ اور اگر واو کے بعد الف کے سوا کوئی دوسرا حرف ہے توپھر خ کے اوپر پیش پڑھا جاتا ہے جیسے خُوش اور خوداس میں واو گویا پیش کا کام کرتا ہے ۔

۲۔ واو معر وف : اس واو کو کہتے ہیں جب واو سے پہلے والے حر ف میں پیش ہو جیسے ، نُور ، حُور اور دُور وغیر ہ ان تمام مقاما ت پر واو اعراب کا کام کرتا ہے ۔

۳۔ واو مجہول : اس واو کو کہتے ہیں جو (o) کی آواز رکھتا ہے ۔ جیسے شور ، مور اور توڑ وغیر ہ ۔ ایسی آواز کے لیے اردو میں کوئی علامت نہیں ہے اس لیے ان کے لیے بطور علامت واو کا استعمال ہوتا ہے ۔

نون غنہ : حروف تہجی میں ایک حر ف ’ ن ‘ ہوتا ہے ، لیکن ہماری اردو میں کئی ایسے لفظ ہیں جن میں مکمل نون کی آواز نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں نون کی ہی طر ح آدھی نون کی آواز آتی ہے جس کو ہم ناک سے نکالتے ہیں اس کو ہم ’ نو ن غنہ ‘ کہتے ہیں ۔ وہ کبھی بیچ لفظ میں آتا ہے اور کبھی اخیر لفظ میں ۔ جب لفظ کے آخر میں آئے تو اس کی اصل شکل ’ں‘ہوتی ہے ۔ جب نو ن غنہ کی ضر ورت بیچ لفظ میں پڑے تو نون ہی لکھا جاتا ہے لیکن نون غنہ پڑھا جاتا ہے ۔ جیسے کنواں ، سانپ اور اینٹ وغیرہ ۔ان سب میں نون کا تلفظ مکمل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ یہ آواز ناک سے نکالی جاتی ہے اور جب نو ن غنہ کی ضرور ت لفظ کے اخیر حرف میں پڑے تو وہاں نون کے اوپر نقطہ نہیں لگاتے ہیں جیسے یہاں ، وہاں ، فلاں وغیرہ ۔

الف مقصورہ : اس سے پہلے آپ نے حرو ف تہجی میں ’ی ‘ پڑھا ہوگا ۔ آپ کے علم میں اضافہ ہو کہ ی بھی کہیں کہیں الف پڑھا جاتا ہے ۔جہاں الف کا کام کرتا ہے وہاں اس کے اوپر ایک چھوٹا سا الف کا نشان بنا دیتے ہیں جس نشان کو کچھ لوگ کھڑا زبر بھی کہتے ہیں ، جیسے تقویٰ، فتویٰ صغریٰ اور کبریٰ وغیرہ ایسے مقامات پ ’ی‘ کو الف مقصورہ کہتے ہیں ۔

ہائے خفی : کہیں کہیں ’ ہ ‘ بھی الف جیسا کام کر تا ہے۔ جہاں ’ہ‘ تو لکھا جاتا ہے لیکن پڑھا الف جاتا ہے ۔اس ’ہ ‘ کو ہائے خفی کہتے ہیں ۔ جیسے رکشہ ، ملکہ اور بچہ وغیر ہ ۔ ان تمام میں اخیر میں تو ’ہ‘ لکھا جاتا ہے لیکن آواز الف کی آتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...