Friday 10 April 2020

اسم معرفہ

اسم کے اقسام

اسم کی دو قسمیں ہیں۔

۱۔اسم نکرہ
۲۔اسم معرفہ

اسم نکرہ:(اس کو اسم عام بھی کہتے ہیں) یہ اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی بھی غیر متعین چیزکے لیے بو لا جائے۔جیسے شہر اسم نکر ہ ہے۔ کیو نکہ شہر کسی خاص شہر کو نہیں کہاجاتا ہے بلکہ ہر ایک شہر کو شہر ہی کہاجاتا ہے۔ اسی طر ح سے آدمی، کتاب، جانور، کتا، بلی اور گھر وغیرہ اسم نکر ہ ہیں۔

اسم معرفہ:کسی چیز،جگہ،یا شخص کے خاص نام کو اسم معرفہ کہتے ہیں جس سے وہی سمجھا جائے اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہ سمجھا جائے۔ مثلاکلکتہ،ممبئی، عمران،شاذیہ، یوسف وغیرہ۔

اسم معرفہ کی چار قسمیں ہیں۔  
۱۔اسم علم    ۲۔اسم ضمیر ۳۔اسم موصول ۴۔اسم اشارہ

؎اسم علم:اس اسم کو کہتے ہیں جو کسی خاص چیز،شخص یا جگہ کے نام کو ظاہر کرے۔ مثلا۔ خالد،اقرا،دیوان غالب،حاجی علی وغیرہ

’اسم علم‘ کی بھی پانچ قسمیں ہیں 
۱۔ عرف ۲۔ خطاب ۳۔ لقب ۴۔کنیت ۵۔تخلص

۱۔عرف:عر ف وہ نام ہوتا ہے جو محبت یا حقارت کی وجہ سے دیا جائے، پڑجائے یا اصل نام کا کوئی چھوٹا سا حصہ ہی مشہور ہوجائے۔جیسے نگار سے نگی، انو ج سے انو یا پھر  موٹا ہو نے کی وجہ سے موٹو پڑ جاٍئے، چنو، کلو، کلن وغیرہ 

۲۔خطاب: وہ نام ہے جو حکومت کی طرف سے اعزازی طور پر دیا جائے۔پہلے شمس العلماء، نواب، خان بہادر وغیرہ دیا جاتا تھا۔اب بھارت رتن، پدم وبھوشن، پدم شری وغیرہ کا خطاب صدرجمہوریہ ہند کی جانب سے دیا جاتا ہے۔علاقائی سرکاریں بھی بہادری، اور پڑھائی پر خطاب دیتی ہیں ان سب کو خطابات کے زمرے میں ہی رکھا جاتا ہے۔

۳۔لقب: یہ وہ نام ہے جو کسی خاصیت یا صفت کی وجہ سے مشہور ہو گیا ہو۔ ویسے خاصیت ہو یا نہ ہو مشہور ہونا زیادہ اہم ہے۔ لقب چونکہ اسم معرفہ کی قسم ہے لہذا خاص لوگوں کے ہی لقب ہوتے ہیں مثلاً قائد ملت، مفکر اسلام،، قائد شباب۔ مسٹر ٹک ٹک، خاتون آہن، وغیرہ۔ 

خطاب تو سر کارکی جانب سے ملتا ہے اور لقب عوام دیتی ہے جیسا کہ آپ مثال سے سمجھ چکے ہوں گے۔

۴۔کنیت:یہ وہ نام ہوتا ہے جو ماں باپ یا بیٹا بیٹی کے تعلق کی وجہ سے پکارا جاتا ہے۔ یوں تو یہ عربوں میں مقبول ہے جیسے ابو زبیدہ، ام کلثوم وغیرہ لیکن ہمارے یہا ں اس کا استعمال’مسز فلاں‘ جیسی صورت میں نظر آتا ہے۔یہ اکثر آس پڑوس سے ملتا ہے۔ بلا واسطہ نام پکارنے میں اچھا نہیں لگتا ہے تو بچو ں کے ابو کے نام سے پکارتے ہیں۔ جیسے کہیں گے ”اے بشریٰ کے ابو، یا اے زینب کی امی‘ وغیرہ۔

۵۔تخلص: یہ وہ قلمی نام ہے جو شعرا یا ادیب اصلی نام کی جگہ ا ستعمال کرتے ہیں مثلاً غالبؔ مرزا اسداللہ خاں کا تخلص ہے، مجاز ؔاسرارالحق کا تخلص ہے اور پریم چند دھنپت رائے کا وغیرہ وغیرہ۔میر تقی میرؔ کا ایک شعر دیکھیں 

قامت خمیدہ،رنگ شکستہ، بدن نزار
 ترا تو میرؔ غم میں عجب حال ہوگیا 

اس شعر میں میرؔ تخلص ہے شاعر میر تقی میر ؔ کا۔شاعر کے تخلص میں یہ (   ؔ)نشا ن ضرور لگا تے ہیں۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ شاعر نے شعر میں اپنا تخلص استعمال کیا ہے۔

2 comments:

  1. شکریہ
    آپ مزید تحریریں پڑھ کر خوبصورت مشورہ سے نوازیں.

    ReplyDelete

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...