Wednesday 1 April 2020

لفظ اور اس کی قسمیں

لفظ اور اس کی قسمیں

جو آواز ہمار ے منہ سے نکلتی ہے وہ لفظ کہلاتی ہے ۔ ایک لفظ کئی حر ف سے جڑ کر بنتا ہے ۔ چاہے دو حر ف یا تین حر ف سے ہی کیوں نہ بنا ہو۔ او ر منھ سے نکلی ہوئی ہر آوازاپنے اندرکوئی معنی رکھتی ہے اور نہیں بھی رکھتی ہے ۔

 جس لفظ کا کوئی معنی ہوتا ہے یا سمجھ میں آتا ہے اس لفظ کو موضوع کہتے ہیں۔ اس کو موضوع اس لیے کہتے ہیں کہ اس لفظ کے سننے یا پڑھنے سے کوئی نہ کوئی معنی ذہن میں آجاتا ہے کیونکہ وہ لفظ کوئی نہ کوئی معنی کو ادا کر نے کے لیے بنا یا گیا ہوتا ہے ۔ جیسے کُر تا ایک لفظ ہے جس کے معنی متعین ہیں ۔ جو ایک خاص قسم کے سلے ہوئے کپڑے کا نام ہے جسے بدن کے اوپری حصہ میں پہنا جاتا ہے ۔ لیکن اسی کے ساتھ عام بول چال میں ایک اور لفظ بولا جاتا ہے جس کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہوتا ہے جیسے ’’کر تا ورتا ‘‘ کر تا کے معنی تو سمجھ میں آتے ہیں تو اس لفظ کو موضوع کہا گیا لیکن ’’وُرتا ‘‘ کے معنی کچھ نہیں ہوتا ہے تو اس کو مہمل کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح ہم ’آلتو فالتو‘ بھی کہتے ہیں ، جس میں ’آلتو ‘ کا کوئی معنی نہیں ہے لیکن فا لتو کا معنی ہے ، الغرض معنی لفظ کے ساتھ مہمل لفظ کا بھی خوب استعمال کیا جاتا ہے ۔

 اب آپ یا د رکھیں کہ صر ف بامعنی لفظ کو ہی کلمہ کہتے ہیں ۔ جیسے کتاب، قلم ، کاپی ، آیا، گیا ، پر ، سے اور اسکول وغیرہ ۔یہ سارے کلمے ہیں ۔ ایسے بامعنی الفا ظ کے مجموعے کو ہی جملہ کہاجاتا ہے جس کے معانی سمجھ میں آجائے جیسے ’’حامد دکان سے کتاب اور قلم لایا‘‘ ۔ لفظ سارے تر تیب سے ہوں تو جملہ بھی بامعنی ہوتا ہے اور اگر الفاظ تر تیب سے نہ ہوں تو جملہ بھی مہمل ہوجاتا ہے جیسے اوپر کی مثال میں ’’ حامد دکان سے کتاب اور قلم لایا ‘‘ ایک بامعنی جملہ ہے ۔ لیکن اگر ان الفاظ کی تر تیب بدل دیں جیسے ’’ کتاب سے قلم اور حامددکان لایا ‘‘ کیا اس کے معنی سمجھ میں آئیں گے ؟نہیں ! ۔ لہذاجب کوئی لفظ جملے میں صحیح مقام میں لایا جاتا ہے تو وہ لفظ اس جملے میں بامعنی لفظ ہوتا ہے ۔ جیسا کہ اوپر کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے لفظ کے صحیح مقام پر استعمال سے لفظ کی ابتدائی تین قسمیں بنتی ہیں ۔

اسم فعل  حرف 

اسم : اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی جاندار ، چیزیا جگہ کا نام ہو ۔
جاندار: آدمی ، ہاتھی ، کوا ، بلی ،سانپ وغیرہ ۔
چیز : کتاب ، قلم ، موبائل، کمپیوٹر، چپل ، چو لہا وغیرہ ۔
جگہ: کو لکاتا ، ممبئی ، دہلی ، پٹنہ ، گھر ، ریسٹورینٹ ، مسجد، مندر وغیرہ ۔ 

فعل : وہ لفظ ہوتا ہے جس سے کسی کام کے کرنے یا ہونے کی خبر معلوم ہو ۔ مثلاً پینا فعل ہے ۔

 فعل اسطر ح ہے کہ آپ نے کہا ’’ میں نے پانی پیا ‘‘ تو آپ نے پانی پینے کا کام کیا ، تو اس کے لیے آپ نے لفظ پینا استعمال کیا جو گرامر کی اصطلاح میں فعل ہے ۔ اس طرح جیسے ’’ آپ نے سائیکل چلایا ‘‘ تو چلانا فعل ہوا کیو ں کہ آپ نے چلانے کا کام کیا  ۔یہ تو ہوا کسی کا م کا ہونا پایا جائے ۔

 جب کسی کام کاکر نا پایا جائے تو اس کو بھی فعل کہتے ہیں ،چا ہے وہ کام ابھی کر رہے ہوں۔ جیسے ’’ امی کھانا پکا رہی ہیں ‘‘ تو’ پکارہی ہیں‘ فعل ہوا ۔ اس طر ح کے جتنے الفاظ آتے ہیں جس سے کسی کا م کے ہونے یا کر نے کا پتہ چلتا ہے تو وہ لفظ فعل کہلاتا ہے ۔

حرف : اس لفظ کو کہتے ہیں جو تنہا کچھ معنی نہیں دیتا جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی اور لفظ نہ ملے جیسے :سے ، میں ، پر ، تک ، کو ، کے ، کی ، نے ، وغیرہ حر ف ہیں ۔یہ وہ کلمات یا الفاظ ہیں جس کے معنی دوسرے الفاظ سے ملے بغیر ظاہر ہی نہیں ہوسکتے جیسے : دلی سے آیا ۔ اس میں سے حر ف ہے ، جو یہ معنی بتا رہا ہے کہ آنے والا دلی شہر سے آیا ہے۔ 

اگرلفظ’ سے‘ کو کہیں الگ سے لکھ دیا جائے یا بولا جا ئے اور آگے پیچھے کوئی اور لفظ نہیں لگا یا جائے تو اس کا معنی کچھ بھی نہیں ظاہر ہو تا ہے ۔ اس طر یقے سے ’’ کتاب بیگ میںہے، ابو چھت پر ہیں، دادی کو بلاؤ، بھائی کے کپڑے ، امی کی کتاب، استا د نے کہا۔ ان جملوں میں ’’ میں، پر، کو، کے، کی، نے‘ ‘ حر ف ہیں جو دوسرے لفظوں کے ساتھ استعمال ہونے میں اپنا معنی دے رہے ہیں ۔ 

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...