Tuesday 24 March 2020

’’ صلاح الدین ایوبی‘‘ایک رزمیہ ناول

(قاضی عبدالستارایک کامیاب ناول نگار تھے وہ اردو کے معروف فکشن نگار اور پدم شری اعزاز یافتہ تھے ۔  وہ عہد حاضر کے ممتاز ، معتبر اور معمار فکشن ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی تخلیقی قوت کے مالک تھے جن کی عظمت کا اعتراف ان کے معاصرین کرتے ہیں۔ 8فروری 1933 میں سیتا پورضلعے کے مچھریٹاگاؤں، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔اور 28اکتوبر2018 کی رات کو سر گنگا رام ہاسپٹل، دہلی میں داغ مفارقت دے گئے ، شعبۂ اردو کے پروفیسر اور صدر شعبہ بھی رہے۔ملازمت کے فرائض سے باعزت سبکدوش ہونے کے بعد بھی ادبی مصروفیات سے وابستگی رہی اور اپنے قلم کالوہا منوایا۔ 
قاضی صاحب نے جہاں کثرت سے ناول رقم کیے وہیں افسانے بھی لکھے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’پیتل کا گھنٹہ‘ ہے ۔ ان کا پہلا ناول’شکست کی آواز ‘ہے جسے انھوں نے 1953 میں لکھا اور ادارۂ فروغ اردو، لکھنؤسے جنوری1954 میں شائع کیا۔ بعد میں یہ ناول ’دودِچراغ‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ ہندی والوں نے ا سے ’پہلااور آخری خط‘کے نام سے شائع کروایا۔ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ’شب گزیدہ‘ہے جو 1959 میں رسالہ’نقوش‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کے کئی ناول بادل، داراشکوہ (1976)، صلاح الدین ایوبی(1968) ،مجوّبھیا(1974)، غبار شب (1974)، غالب(1968)، خالد بن ولید(1995)، وغیرہ تواتر کے ساتھ منظر عام پرآئے اور انھیں فکشن کی دنیا میں حیات جاویدانی عطا کی۔ان کے اسلوب بیان نے ایک ادبی مزاج کی تعمیر وتشکیل میں نمایاں رول اداکیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ناول ’حضرت جاں‘اور ’تاجم سلطان‘ نے ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی رفتارکو متاثر بھی کیابلکہ یوں کہا جائے کہ قاضی صاحب کے کیرئیرمیں عارضی ٹھہراؤ پیدا کیا تو غلط نہ ہوگا۔)

’’ صلاح الدین ایوبی‘‘ایک رزمیہ ناول 


امیر حمزہ ، ریسرچ اسکالر دہلی یونی ورسٹی

 عربی زبان اپنے شعری سرمایے کی وجہ سے دنیا کی ادبی زبانوں میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔  اس زبان کے شعری سرمایے کو بنیادی طور پر تین حصوںمیں تقسیم کیا جاتا ہے غنائی، مسرحی اور ملحمی ۔ 

ملحمی کا تعلق اس صنف سے ہے جس میں طویل قصے بیان کیے گئے ہوں ۔اس طویل قصے میں انسانی معرکے کو پیش کیا گیا ہو ۔قومی رجحانات اور مستقبل کی امیدوں کا ذکر ہو جس سے ملی مفاد وابستہ ہو ، اس میں بہت سارے تاریخی واقعات کے ساتھ قوم کے معرکے کا ذکر ہو ۔جس کے اندر پوری جماعت مقصود ہو ،یعنی ہیرو ملت کا سمبل ہو۔ان تمام کے علاوہ بہت ساری چیزیں ہیں جو ملحمی شاعری میں پائی جاتی ہیں ۔
ا
سی کیفت کو اردو میں رزمیہ کہتے ہیں ۔جس کے استعمال سے اس بات کی ترسیل مقصود ہوتی ہے کہ رزمیہ کا مطلب معرکے کا بیان ہو۔ وہ معرکہ خواہ تہذیبی شناخت کے لیے ہو یا مذہبی مفاد کے لیے ۔اس میں محض جنگ کے حالات کی عکاسی نہیں ہوتی ہے بلکہ قوم کے ہیرو کے شجاعانہ کارناموں کو ایک پروقار اسلوب میں قلم بند کیا جاتا ہے ۔

شبلی نعمانی موازنہ انیس ودبیر میں لکھتے ہیں :
’’رزمیہ شاعری کا کمال ذیل کے امور پر موقوف ہے ۔سب سے پہلے لڑائی کی تیاری ، معرکے کا زور و شور ، تلاطم ، ہنگامہ خیزی، ہلچل ، شورو غل، نقاروں کی گونج ، ٹاپوں کی آواز، ہتھیاروں کی جھنکار ، تلواروں کی چمک دمک، نیزوں کی لچک ، کمانوں کا کڑکنا ، نقیبوں کا گرجنا ، ان چیزوں کو اس طرح بیان کیا جائے کہ آنکھوں کے سامنے معرکہ جنگ کا سماں چھاجائے ، پھر بہادروں کا میدان جنگ میں جانا ، مبارز طلب ہونا ، باہم معر کہ آرائی کر نا لڑائی کا داؤ پیچ دکھانا ان سب کا بیان کیا جائے ۔اس کے ساتھ اسلحہ جنگ اور دیگر سامان جنگ کی الگ الگ تصویر کھینچی جائے پھر فتح یا شکست کا بیان کیا جائے اور اس طر ح کیا جائے کہ دل دہل جائیں یا طبیعتوں پر اداسی اور غم کا عالم چھا جائے ۔‘‘(ص:195)
 ا
یسے ہی ملتے جلتے خیالات شعرالعجم میں بھی تحریر ہیں ۔
مندرجہ بالا پیراگراف میں سے پہلے میں مقصد اور خصوصیات کا ذکر ہے اور دوسرے میں کمال کا ۔ اول مکمل فن پارے کو سمیٹے ہوئے ہے اور دوم میں فن پارے کی کیفیت و فضا و موضوع کو دائرۂ کار میں لایا گیا ہے ۔ اب رزمیہ سے شاعری کو الگ کر دیتے ہیں اور فکشن کو ساتھ میں لاتے ہیں تو مقصد دونوں کا ایک ہی ہوتا ہے اور کمال جس کا ذکر شبلی کر تے ہیں یعنی میدان جنگ کی منظر نگاری وہ بھی فکشن میں بھر پور موجود ہوتی ہے ۔بس فر ق اتنا ہے کہ شاعری میں جذبات و کیفیات و معا ملات کو ان الفاظ کے تابع لایا جاتا ہے جو موسیقی کے ما تحت ہوں ۔مگر فکشن ان سے آزاد ہو کر قاری کے ادراک میں اتر تا ہے ۔ ’’صلاح الدین ایوبی‘‘ قاضی عبدالستار صاحب کا مکمل رزمیہ ناول ہے جس کی ابتدا بھی رز م سے ہوتی ہے اور انتہا بھی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جتنے بھی تاریخی ناول لکھے گئے ہیں ان سب میں رزمیہ عناصر پائے جاتے ہیں لیکن اس کے برعکس جہاں رزم پایا جاتا ہے کوئی ضروری نہیں کہ وہاں تاریخ بھی ہو جیسے داستا ن و مثنوی۔ 

ناول صلا ح الدین ایوبی ۱۹۶۴ء میں منظر عام پر آتا ہے اور دوسری صلیبی جنگ سے تیسری صلیبی جنگ تک کے معرکوں کا احاطہ کرتا ہے۔اس ناول میں دو ہی کر دار کلیدی طور پر سامنے آتے ہیں ایک یوسف صلاح الدین ایوبی اور دوسرا ملکۂ ایلینور ۔ ناول کے شروع میں ایلینور غالب نظر آتی ہے اور اختتام میں مغلوب ۔ رزم میں کہیں نہ کہیں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ اس میں جس کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اس کے کردار کو بہت ہی خوبصورت انداز میں تر اشا جاتا ہے ۔ اس کے سر د وگر م حالات کو بیان کیا جاتا ہے، اس کے لیے قاری کے تئیں ایک قسم کی وفاداری اور ہمدردی پیدا کی جاتی ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا کہ ہر ناول نگار اپنے ہیر و کو اس انداز میں پیش کر تا ہے کہ قاری کے سامنے دوسرا کوئی آپشن ہوتا ہی نہیں ہے کہ وہ اس کے تراشے ہوئے ہیر و کے بر خلاف ناول میں کسی اور کے لیے ہمدردی ظاہر کرے۔ الغر ض ہیر و کے تراشنے کا عمل مثنویوں، مرثیوں اور داستانوں میں خوب نظر آتا ہے جس کی اس ناول میں کوئی ضرورت پیش نہیں آتی ہے ۔ بلکہ تر شاتراشا ایوبی کے کردار کو جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں اس سے دوسرے کردار پس پشت چلے جاتے ہیں حتیٰ کہ قحطان ( ایوبی کا عیسائی دوست )جس کے ساتھ وہ مشن پرنکلتے ہیںوہ بھی فوراً منظر نامے سے غائب ہو جاتا ہے  ۔ ناول نگار یہاں سے رزم کو شروع کرچکا ہے جہاں سے ایوبی کو کسی قسم کی ویسی پریشانی میں مبتلا نہیں کیا جا تا ہے کہ قاری یہیں سے لڑکھڑانے لگے بلکہ ہلکا سا تردد کے بعد سیدھے ایلینور کی خدمت میں مامور کر دیا جاتا ہے ۔

ملحمی کے ذیل میں ایک جملہ آیا تھا کہ’’ قوم کے ہیرو کے شجاعانہ کارناموں کو ایک پروقار اسلوب میں قلم بند کیا جاتاہے‘‘ اس کا سلسلہ ان ہی ابتدائی صفحات سے شروع ہوجاتا ہے ۔ ملحمی کے ہی ذیل میں دو لفظ ’’ ملی مفاد ‘‘ کا بھی ذکر آیاتھا ۔تو اس کا ذکر شروع میں ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے ’’ میرا خیال ہے قحطان کہ دمشق کی حفاظت کے فرض میں ہم دونوں برابر کے شریک ہیں اگر افرنجیوں کے بجائے عباسی یا فاطمی چڑھ آتے تو بھی دمشق کوبچانا ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا‘‘ ۔اس کے بعد ملک و ملت کے لیے ہیرو اپنے مشن میں نکل جاتا ہے ۔

ناول نثری صنف ہونے کی وجہ سے اپنے اندر گنجائش زیادہ رکھتا ہے کہ تجسس کو برقرار رکھے اور معر کۂ کارزار میں پہنچنے سے پہلے تک قاری کو جزئیات نگاری کی حسین و جمیل وادیوں کی سیر کراتا رہے اور قاری کے لیے ہیر و کے کردار کو روایت کے ذریعہ نہیں بلکہ ہیروکے سامنے مسلمانوں کی کسمپرسی اور مظلومیت کو سامنے لا یا گیا ، دشمن کی فوج میں رہتے ہوئے ملت کے لیے خون کو پرجوش کیا گیا ۔اس درمیان شعری اصناف اور اس نثر ی صنف میں یہ فرق نظر آتا ہے کہ اول الذکر میں ہیروکی ذات و شجاعت کو بہت ہی زیادہ مرکز میں لایا جاتا ہے جب کہ نثر میں ہیروبطور ذات شامل نہ ہوکر ملت کے نمائندے کے طور پر نظر آتا ہے ۔ناول میں لڑائی کا پہلا منظر اس قدر پھیکا ہے کہ شبلی کا قول اس پر بالکل بھی صادق نہیں آتا ہے بلکہ  اس مکمل منظر کو قاضی صاحب بہت ہی تیزی سے بیان کر کے چلے جاتے ہیں ۔

’’ سارا لشکر باغوں میں پھیل کر چلنے لگا ابھی وہ پتھر کے ان مکعب مکانوں سے دور تھے جو شہر پناہ کے دمدموں کا کام انجام دیتے تھے کہ درختوں سے نفخ کی ہانڈیا ں برسنے لگیںاور کونریڈ جیسا جانباز مجاہد گھوڑے سے اتر کر مسیح کی دُہائی دینے لگا میلوں میں پھیلے لشکر کی ایک ایک انچ نالوں ،فریادوں اور آنسوؤں سے چھلک اٹھی ۔ جب ہانڈیوں کا زور کم ہوا اور تیروں ، نیزوں اور پتھروں کی بارش شروع ہوئی تب افرنجیوں سے سنبھالا لیا اور گھوڑوں پر سوار ہوکر دھاوا کیا اور اپنی صفوں کو قائم کرکے چلے اب درختوں پر چھپے ہوئے مسلمان پھاندنے لگے اور جنگ مغلوبہ شروع ہوگئی ۔ لوئی جس سے ایک عورت نہیں سنبھلتی تھی وہ اس یلغار کو کیا سنبھالتا واپسی کا قرنا پھونک کر پیچھے ہٹ آیا ‘‘ (صلاح الدین ایوبی، قاضی عبدالستار. ص34) 
ا
س اقتباس میں شبلی کی خواہش کہ رزمیہ کا کمال کیا ہوتا ہے وہ بالکل مفقود ہے ۔بلکہ اگر یو ں سمجھا جائے کہ شبلی کا رزمیہ مکمل طور پر شاعری پر کلام ہے اس پر بھی خاص صرف مر ثیوں پر ہی ہے اور انہوں نے جس قسم کے کمال کا ذکر کیا ہے وہ اسی زمانہ کی جنگ پر صادق آتا ہے جب ویسی جنگیں لڑی جاتی تھیں ۔ جب کہ صلاح الدین ایوبی میں اس قسم کی جنگی کیفیت کا بیان نہیں ہوا ہے اس لیے اس کو اس پر محمول کر نا مجھے عبث لگتا ہے ۔
 ا
س سے پہلے کی جنگ جو تھی وہ صلیبیوں کی تھی جس میں انہیں شکست ہوئی تھی اور اس اقتباس میں بھی ان ہی سے جنگ ہوئی اور یہاں ان کی جیت ہے ۔ لیکن یہ جنگ نہیں ہے بلکہ فساد ہے جس طر ح ہندو ستان میں ہوتا ہے کہ مذہبی بے ادبی کی جائے اور فساد بھڑ ک جائے بالکل ویسا ہی ہے کہ بائبل کے اوراق پھاڑ دیے جائیں اور عیسائی قوم مسلمانوں کو گاجر ومولی کی طرح کاٹ ڈالے ۔ جیسا کہ اس اقتباس میں ہے ۔
 ا
یک راہب چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا 
’’ کسی مسلمان نے ہماری بائبل پھاڑ کر جوتوں سے مسل دیا ہے‘‘ 
’’عین گرجے کے سامنے مقدس دین کی بے حر متی کی گئی ہے ‘‘ 
دوسری آواز
سارے شہر کے مسلمانوں کی ایک منظم سازش ہے 
کسی منچلے نے ٹکڑا دیا 
’’تو پھر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھینک کیوں نہیں دیتے ؟(ص:62)

اس کے بعد بلوہ شروع ہوجاتا ہے جس کی منظر نگاری کچھ اس طر ح کر تے ہیں ۔
’’بکتر پوش سواروں نے نیزوں میں مشعلیں باندھیں اور مکانات میں پھینکنے لگے جس طرح چھتے سے مکھیاں نکلتی ہیں بوڑھے جوان ، بچے اور عورتیں نکلنے لگیں۔ان کے ہاتھ خالی تھے اور پیروں میں خوف کی زنجیریں پڑی تھیں ۔ پھر ان پر بہادر شہسواروں اور نامی گرامی نائٹوں کی پیاسی تلواریں بر سنے لگیں اور دم کے دم میں جامع عسقلان تک تمام کوچے اس خون سے جو پانی سے بھی سستا ہے غسل کرنے لگے ۔‘‘ص(62)

اس کے بعد حملہ کا ایک اور سلسلہ ہے جس کی منظر نگاری میں مسلمانوں کو جامع مسجد میں لاچار و مجبور اور محض عبادت پر بھروسہ دکھایا گیا  ہے ۔جس میں اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ یہ اس وقت سے لیکر اب تک کا عجیب المیہ ہے جس پر رزم بھی بزدل نظر آتا ہے جو اب تک ہوتا آرہا ہے۔ ملحمی میں قوم کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے لیکن یہاں قاضی صاحب محض ایک منظر نگار ی سے رزمیہ تاریخ ساز قوم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ جس قوم کو فاتح بن کر رزمیہ داستان کا ہیرو بننا تھا وہ قوم میدان کارساز میں کوئی ہیرونہیں پیدا کر پارہی ہے ۔ 

اس کے بعد سے ناول نگارایسی فضا تیا ر کر تے ہیں جس میں صلاح الدین ایوبی کو اس وقت کے مسلمانوں کی حالت سے رو بر و کرایا جائے ،اس سے کئی کیفیات ضرور سامنے آتی ہیں جو کبھی رجز تو کبھی مرثیہ کی شکل میں ہوتی ہیں ۔وہ جب ایلینور کے پاس سے نکلتے ہیں اور مصر میں داخل ہوتے ہیں تو چاروں جانب مسلمانوں کے روح فرسا مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگر ے آتے رہتے ہیں ۔ مصنف ان مناظر کو ایسے پیش کر تا ہے کہ جس سے ہیرو کے ذہن میں رجز کی کیفیت آئے اور مسجد اقصیٰ کی فتحیابی تک شمشیر فتح چلتی رہے۔ صلاح الدین ایوبی کا کردار تو ایلینور کے ساتھ رہتے ہی مرصع و مجلیٰ کیا جا چکا تھا اب جب اپنے مشن کو نکلتا ہے تو اس وقت صلیبی جرنیلوں کی کرتوت اسے دکھایا جاتا ہے۔ صیہونیوں کا ظلم آسمان پرہوتا ہے اور مسلمان صرف اور صر ف ایک انسانی جانور ہوتے ہیں جو ہر حکم کی فرمانبرداری کے لیے سر جھکائے رہتے ہیں ۔ قاضی صاحب لکھتے ہیں :

’’ ہمارے جسم لباس کی لذت فراموش کرچکے ہیں ، زبان ذائقہ بھول چکی ، ہم چشموں سے پیاسے لوٹ آتے ہیں کہ حاکموں کے جانوروں کی بے حرمتی کے سزا وارنہ ٹھہرائے جائیں ۔ہم اپنے بیٹے اس لیے پالتے ہیں کہ اپنے سینے تیر اندازی کی مشق کر تے ہوئے عیسائی حاکموں کے تیروں کا ہدف بنائیں ، گردنیں آوارہ عیسائی لونڈوں کی تلواروں کے غلاف ہوجائیں ۔ ہم بیٹیاں اس لیے پیدا کرتے ہیں کہ وہ اپنی بے کس ماؤں ، مجبور باپوں اور مقتول بھائیوں کی آنکھوں کے سامنے عیسائی حاکموں کی نفسانی آگ بجھائیں ۔‘‘ (ص. 76)

ناول نگار اس صورت حال کو اگرچہ مصرکے تناظر میں لکھ رہا ہے لیکن ہند کے مسلمانوں کی کیفیت اس کی نظر وں کے سامنے ہے ۔ یہی کچھ کیفیت انگریزوں کے عہد میںہندوستان میں بھی پائی جارہی تھی اور اس کے بعد فسادات کے زمانے میں بھی یہ اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کیوںکہ اس کے بعد فسادات کی وہ کیفیت رقم کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر ہندوستان میں فسادات کا خوف رہتا ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ جامع مسجد میں آگ لگادی، قرآن مجید کی جلدیں پھونک دیں ‘‘(ص77) وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہاں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ناول نگار کے سامنے کوئی ہیروابھر کر سامنے نہیں آتا ہے اور نہ ہی عام قاری کے ذہن میں ۔ البتہ قاری کو اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ یہی کیفیت تو ہندوستان کی بھی تھی بلکہ انگریزوں یا یوں کہہ لیں کہ جابر حاکم کے سامنے کچھ مسلم رہنمائوں کی جو صورت حال ہوتی ہے اس کا بھی ذکر ہوا ہے جو جنگ آزادی کے وقت ہندوستان کی بھی تھی ۔ قاضی صاحب عسقلان کے چند متمول مسلمانوں کا اسٹیٹمنٹ بیان کر تے ہیں جو انہوں نے صیہونی سربراہ کے سامنے دیا تھا ۔ لکھتے ہیں :

’’ ہم کو مسیحی سلطنت میں وہی حقوق حاصل ہیںجو بغداد میں فاطمیوں کو اور قاہرہ میںعباسیوں کو نصیب ہیں ۔ ہماری عبادت گاہیں محفوظ ہیں ۔ ہماری زبان اور ہمارا تمدن زندہ ہے۔ ہم اپنی مسجدوں میں نماز پڑھتے ہیں اور گھروں میں روزہ رکھتے ہیں اور بازاروں اور سیرگاہوں میں مساویانہ انداز میں ٹہلتے ہیں ۔ اس فساد کا سبب خود مسلمان ہیں ۔ چونکہ مسلمان ماضی میں کامل حاکم رہے ہیں ۔ اس لیے آج بھی ان میں ایسے نوجوان کی کثرت ہے جو کام سے جی چراتے ہیں اور جب کا م نہیں ہوتا تو شیطان کا جادوارزاں ہوجاتا ہے ۔‘‘ 

قاضی عبدالستار کے اس ناول میں یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ انہوں نے دیگر ناولوں کی طرح اس کا موضوع اور تھیم جنگ رکھا اور ہیرو اس کو منتخب کیا جس کی ساری زندگی تلوار کے ہمراہ اور اور زندگی کی اکثر راتیں میدان جنگ میں گزری ہوں ۔ جس سے قاری کے ذہن میں کتاب شروع ہونے سے پہلے ہی ہیرو کے متعلق ایک خاکہ تیار ہوجاتا ہے اور اس ہیرو کو قاری مکمل جنگی روپ میں تلاش کرتا ہے اور اس کے سحر میں ڈوب جانا چاہتا ہے جیسا کہ دیگر جاسوسی ناولوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ لیکن یہاں قاضی صاحب معاشرہ کو پیش کرتے ہیں، انسا نی نفسیات کا بھی عکس ملتا ہے اور حسن و جمال کی طربیہ محفلیں بھی ملتی ہیں ۔ کہیں کہیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ قاضی صاحب انسانی نفسیات کے تعلق سے جو مخصوص ذہن اپنے اندر رکھتے تھے وہی اپنی تحریروں میں پیش کرنا چا ہتے ہیں اس لیے اگر یہ لکھا جائے کہ ان کے یہاں طرب کی منظر نگاری زیادہ مضبوط رہی ہے جنگ کے مقابلہ میں تو شا ید کوئی زیادہ ناانصافی نہیں ہوگی کیونکہ اس ناول میں ایک کردار صہب کے نام سے آتا ہے وہ کردار انسانی ہوتا ہے لیکن جس پرکیف فضا کا وہ خوشہ چیں ہوتا ہے وہ مکمل طور پر مافو ق الفطر ی ہوتا ہے۔ اس کا ذکر قاضی صاحب نے تقر یبا ڈھائی صفحات میں کیا ہے جو مکمل بزمیہ تحریر ہے ۔ ویسی تحریر نہ توکہیں رجز کی اور نہ ہی رزم کی نظر آتی ہے۔ یو سف کے صلاح الدین بننے کے بعد جوچند رجزیہ جملے لکھتے ہیں وہ کچھ اس طر ح ہیں : 

’’ ہم شیروں کی طرح للکار کر شکار پر جھپٹتے ہیں ۔ اس کو خبر دار کر دو کہ اپنے لشکروںکو استوار کر لے ، اپنے قلعوں کو آراستہ کر لے ۔ ہماری یلغار ان تاجداروں کا محاصرہ نہیں جو موت کے خوف سے اپنے لشکر اٹھالائے ۔ ہم جب رکاب میں پاؤں رکھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ شہادت ہماری رکاب پکڑے گی اور رضوان ہمیں اتارے گا۔ ہماری موت لڑائی کا خاتمہ نہ ہوگی ۔ ہمارا ہر سردار صلاح الدین ہوگا جس کے اس کے زمانے نے تلوار پکڑا کر اٹھایا ہے ۔‘‘ 

یہ تو رجز کا ایک حصہ تھا ۔ اس طرح کے جذبات کتاب میں کئی مقامات پر پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں صرف اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آن شان اور بان کو کوئی زنگ نہیں پہنچا تھا بلکہ وہ کسی ایسے ہیرو کی تلاش میں تھے جو ان کو ان کی ماضی کی بہادری کو وا پس دلا سکے ۔ کیونکہ نور الدین زنگی اپنی زندگی جی چکا تھا اور اس کی سلطنت میں سوائے اس کے قلعہ کے باقی تمام اطراف میں مسلمانوں پر ہولناک ظلم وستم تھے جس کا ذکر بھی اوپر آیا ۔ جنگ کی ایک کیفیت کا ذکر اس سے پہلے بھی آچکا ہے جو اس بات کی مثال کے لیے پیش کیا گیا تھا کہ شبلی کی خواہش کہ رزم ایسا ہوتا ہے وہ صرف مرثیہ کی شاعری میں نظر آتی ہے جہاں مذہب پور ی طرح حاوی نظر آتا ہے لیکن ملکوں کی جنگ میں وہ رزم نظر نہیں آتا ہے جہاں نہ مذہب کا افیم غالب ہو پاتا ہے اور نہ ملت کا جوش ٹھاٹھیں مارتا ہے بلکہ مر ثیہ کے برعکس فکشن میں سوجھ بوجھ کی حکمت عملی سے جنگ میں فتح حاصل ہوتی ہے جو قاری میں جوش کم بھر تا ہے اور تدبر زیادہ پیدا کر تا ہے ۔ جنگ کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں :

’’ سپہ سالار عادل کو قاہر فوجیوں کے ساتھ حکم دیا کہ افرنجیوں کی سرحدی بستی میں تہلکہ ڈال دے اور خود دس ہزار خچروں پر قلعہ شکن آلات بار کیے اور بارہ ہزار سوار وں کے ساتھ بادل کی طرح اٹھا اور حشیشوں کے مرکز پربجلی کی طرح گرا ۔ وہ تاریک جنگ جن کی ناقابل عبور ویرانی شیخ الجبال کی سپر تھی جلا کر خاک کردیے ۔ وہ آبادیاں جو فدائیوں کا اسلحہ خانہ اور رسد گاہ تھیں تہ وبالا کر دیں ۔ وہ فلک بو س قلعے جن تک پہنچتے پہنچتے عقاب تھک جاتے تھے اور جن کے برج میںبیٹھ کر شیخ الجبال مصر سے خوارزم تک اور افریقہ سے یمن تک کے حکام کو خط لکھا کر تا تھا زیرو زبرکر ڈالے ۔ ‘‘ 

اس اقتباس میں صرف جنگ کا ہی ذکر ہے لیکن مقابل کا ذکر بالکل بھی نہیںہے بلکہ یکطرفہ جیت کا بیان ہے ۔ رزم کا جیسا تجربہ مرثیوں میں ہوتا ہے اور وہاں رزم کی جو کیفیت تخلیق ہوتی ہے وہ اس طرح کہ ہر بند میں مخالف کو ساتھ لیکر چلنا پڑتا ہے اور رجزکے ساتھ ہی رزم سفرکرتا رہے وہاں رزمیہ پہلوایسا اثر دار ہوتا ہے کہ قاری سحر کی کیفیت میں چلا جاتا ہے ۔ یہاں صرف فتح کا ذکر ہے کہ میدان جنگ کے کن کن حصوں پر ہم نے فتح حاصل کی ، ہماری فتح بہت ہی عظیم ہے کہ ہم نے عظیم عمارتوں کو سبو تاژ کر دیا یا اس پر فتح حاصل کر لی، لیکن ایسی صورت حال میں مخالف کی فوج کا کیا ردعمل تھا اس کا ذکر بالکل بھی نظر نہیں آتا ہے ایسی صورت میں رزم تخلیق نہیں ہو پاتی ہے بلکہ وہ مطلقا ایک سادہ سا بیانیہ بن کر رہ جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا اقتباس میں ہے ۔

الغرض اس ناول میں اگرچہ رزم کی فضا پائی جاتی ہے لیکن وہ کمال نہیں جس کا ذکر شبلی نے کیا ہے بلکہ عربی تنقید کے مطابق ملحمی کے عناصر پائے جاتے ہیں کیونکہ ملی مفاد کے لیے قوم کے ہیرو (صلاح الدین ایوبی ) کے شجاعانہ کارناموں کا ذکر بہت ہی پروقار اسلوب میںقلم بند کیا گیا ہے جو قاضی صاحب کا ہی خاصہ ہوسکتا ہے ۔

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...