Thursday 12 March 2020

رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات

رباعی کا فن اور جدیدیت کے اثرات 

امیر حمزہ


رباعی کا نام ذہن میں آتے ہی اس کے بہت سارے مقتضیا ت ذہن میں آنے لگتے ہیں اور تاریخ کے نشیب وفراز میں ذہن گر دش کر نے لگتا ہے۔ ذہن سب سے پہلے رباعی کے متعلق تعارف چاہتا ہے کہ رباعی کس چیز کا نا م ہے اور اس کے فنی تقاضے 
کیا ہیں ۔

رباعی صورت کے اعتبار سے مختصر تر ین غزل اور سیر ت کے اعتبار سے مختصر تر ین نظم ہے ۔ رباعی ساخت کے لحاظ سے پچیس تیس الفاظ سے تر کیب یافتہ چار مصر عوں پر مشتمل صنف شاعری کا نام ہے ۔ پچیس تیس الفاظ سے مر کب یہ چار مصر عوں کے اندر ایک جہان معنی آباد ہو تا ہے ۔ اسی لیے رباعی حکماء اور صوفیا کی محبوب تر ین صنف سخن رہی ہے ۔

رباعی عربی لفظ ربع سے مشتق ہے اس کے معنی چار چار کے ہیں ۔مگرشا عر ی کی اصطلاح میں رباعی اس صنف سخن
 کو کہتے ہیں جوبحر ہز ج کے اخر ب اور اخر م کے چوبیس اوزان میں سے کسی بھی وزن میں چار مصر عوں پرمشتمل ہو ۔مضمون، خیال،فکر اور جذبہ کو تدریجی ارتقا کے ساتھ پیش کیا گیا ہو ۔

رباعی نگار کے لیے تسلسل بیان ،الفاظ و تر اکیب کا موضو ع اور بر محل استعمال کا خیال رکھنا بہت ہی لاز م ہو تا ہے۔گویا رباعی کا فن سمندر کو کوزے میں بند کر نے کا فن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ رباعی گو کے لیے دیگر پابندیوں کے ساتھ ساتھ منا سب ،موزوں الفاظ اور دلکش اسلوب کا خیال رکھنا نہا یت ضر وری ہوتا ہے۔کیونکہ مذکور ہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانا اعلی درجے کی رباعی کو وجود میں لانے کے لیے بہت ہی ضر وری ہے۔ جیسا کہ رباعی کے فن میں بحث کرتے ہوئے ریوبن لیوی فر ماتے ہیں ۔

’’یہ بہت ہی مختصر نظم ہو تی ہے جس کا انحصار دو اشعار یعنی چار مصر عوں پر ہو تا ہے ۔ جس میں پہلا ،دو سرا اور چو تھا مصر ع ہم قافیہ ہو تا ہے ۔ تیسر ا مصرع عموما قافیہ سے با ہررہتا ہے ۔اس مختصر اور محدود خاکہ میں خیا ل کا اظہار اور تو ضیح بھی ہو تی ہے اور چو تھے مصر ع میں ایک استفہامیہ تو قف پایا جا تا ہے ۔ رباعی اکثر اپنی نو عیت کے اعتبار سے کسی خیال یا سانحہ کی اچانک اور بے اختیا ر لیکن قلیل اور مؤثر اندا ز میں کر تی ہے ‘‘(فارسی ادب کی مختصر تاریخ ، متر جم حفیظ الدین کر مانی ، ص ۳۹۔۴۰)

قصیدے میں جس طرحتشبیب سے فضا ہموار کی جاتی ہے اسی طرح رباعی کے پہلے اور دوسرے مصر ع میں کہی جانے والی بات کی جھلکیا ں پیش کی جاتی ہیں ۔تیسرا مصر ع اوپر کے دونوں مصر عوں کے ساتھ چو تھے مصرعے کے لیے ایک تیز ضرب تیار کر تا ہے جس سے چو تھا مصرع اتنا پر اثر ہوجا تا ہے کہ وہ مصر ع دل پر ناخن زنی کر تا ہے ۔اس چوتھے مصر عے میں اتنی بر جستگی ، بے ساختگی ،اور شدت ہو نی چاہیے کہ سننے والا مسحور ہوجا ئے ۔عام طور پرکامیاب رباعیوں میں پہلے تین مصر عوں میں تجسس بر قرار رہتا ہے اور چو تھا مصر ع میں اپنی تمام تر ڈرامائیت کے ساتھ سامع کے دل میں اتر جاتاہے ۔اسی وجہ سے رباعی کا سب سے جاندا رمصر ع چوتھا مصر ع ہوتا ہے ۔

 رباعی کے متعلق جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسی حر م ہے جس میں ایک ہی خیال جا گزیں ہوتا ہے ۔رباعی کے پہلے مصرع میں خیال کو متعارف کیا جاتا ہے دوسرے مصرع میںاس خیال کی وضاحت ہو تی ہے ۔تیسرا مصرع رابطہ ہو تا ہے جو پہلے دو مصرعوں کو چوتھے مصرع سے ملاتا ہے اور چو تھا مصرع خیال کا نقظہ عروج ہوتا ہے ۔ایک پنچ لائن ہوتا ہے جس کی گونج تا دیر سنائی دیتی رہتی ہے ۔بقول صائب تبریزی ۔

’’از رباعی مصر ع آخر زند ناخن بہ دل ‘‘

رباعی فنی اعتبار سے دوسر ے اصناف سخن سے ایک حد تک مماثل نظر آتی ہے ۔غزل ،قصیدہ اور مثنوی کے کچھ کچھ خصوصیات رباعی میں بھی پائی جاتی ہیں ۔قصیدہ اور غزل کی طرح رباعی کے پہلے دو نوں مصر عے ہم قافیہ ہوتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ رباعی اپنے مخصوص وزن میں ہوتی ہے اور دو شعر وں میں محدود ہوتی ہو اور دوشعر وں میں ایک ہی بات کہی جاتی ہے ۔مثنوی اور رباعی میں بھی ایک طر ح کی مماثلت پائی جاتی ہے کیونکہ جس طر ح مثنوی میں تسلسل بیان اور ارتقائے خیال پایا جاتا ہے اسی طر ح رباعی میںبھی تسلسل بیان اور ارتقائے خیا ل ہوتا ہے ۔

رباعی کے اقسام 

رباعی اپنی ہیئت کے اعتبار سے کئی اقسام میں پائی جاتی ہے ۔عموما رباعی میں تین ہیئتیں ہوتی ہیں ۔رباعی خصی ہوگی ، غیر خصی ہوگی یا مستزاد ہوگی۔ رباعی خصی وہ رباعی ہے جس کا پہلا دوسر ا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ ہو ۔رباعی خصی مقبول تر ین رباعی کی ہیئت ہے اسکی مقبولیت کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوتا ہے کہ ابتدا سے لیکر موجودہ دور تک خصی رباعیاں ہی کہیں گئیں ہیں ۔

غیر خصی رباعیاں وہ رباعیاں کہلاتی ہیں جن کے چاروں مصر ع ہم قافیہ ہوں ۔ غیر خصی رباعی میں وہ تاثر نہیں پیدا ہوتا جوخصی رباعیوں میں پیدا ہوتا ہے ۔ کیونکہ تیسرا مصرع ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے وہ جھٹک اور تاثر پیدا کرنے میں نا کا م رہتا ہے جو ایک خصی رباعی کی خصو صیت ہو تی ۔خصی رباعی کا تیسرا مصرع چونکانے والی کیفیت سے پر ہوتا ہے ۔جس کی وجہ سے رباعی کے تاثر میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔جبکہ غیر خصی رباعی کا لہجہ سپاٹ ہوتا ہے ۔

مستزاد کے لغوی معنی بڑھا یا گیا ، زیادہ کیا گیا ۔ عروض کی اصطلاح میں وہ شعر کے جس کے ہر مصرع یا بیت کے بعد ایک ایسا ٹکڑا منسلک ہو جو اسی مصرع کے رکن اول یا رکن آخر کے برابر ہو مگر خوبی یہ ہو کہ جس مصرع یابیت کے بعد آئے کلام اور معنی میں ربط بھی رکھتا ہو اور زائد بھی ایسا ہو کہ مصرع یا بیت معنی میں اس کی محتاج نہ ہو۔

مستزاد کی دو قسمیں ہیں  (۱) مستزاد الزام (۲)  مستزاد عارض 

مستزاد الزام وہ ہے جس مین اضافہ کر دہ فقرہ یافقرے اصل شعر یا مصرع کے مفہوم کو بامعنی بنانے کے لیے ضروری ہو تے ہیں ۔ مستزاد عارض وہ ہے جس میں مستزاد اصل شعر یا مصرع سے مکمل طور پر میل نہیں کھاتا ہوبلکہ اس کے بغیر بھی کلام با معنی رہتا ہو۔

رباعی کے اوزان 

رباعی کے مشہور و معروف چوبیس اوزان ہیں اوہ تمام  اوزان بحر ہزج کے زحافات سے مستخر ج ہیں ۔سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پھر رباعی کے بنیادی اوزان کتنے ہیں ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ رباعی کے بنیادی اوزان دو ہیں یا چاراور تخنیق کے عمل سے یہ چوبیس اوزان ہوجاتے ہیں ۔

تخنیق کا عمل اس طر یقے سے ہوتا ہے کہ کبھی کبھی مصر ع کی تقطیع کر نے پر دو ایسے افاعیل ایک جگہ جمع ہوجا تے ہیں کہ ان کے جمع ہوجانے سے تین لگا تا متحر ک حر ف جمع ہوجاتے ہیں ۔ان تین لگا تا ر متحر ک حر ف میں سے بیچ والے حرف کو ساکن کر دینے کو ہی تخنیق کہتے ہیں ۔اگر ایک ہی افاعیل میں تین لگاتار حرف متحر ک جمع ہو جا ئے اور اسمیں حر ف اوسط کو ساکن کر دیا جائے تو اس کو تخنیق نہیں ’’تسکین اوسط‘‘کہا جاتا ہے ، جیسے مُفتَعِلُن میں ت، ع اور ل متحر ک ہیں اور ان تینوں میں حر ف ع اوسط ہے اس کو ساکن کر دیا تو مُفتَعْلُن (مُف، تَع،لُن) ہوگیا ۔ مُفتَعْلُن عروض میں کوئی رکن نہیں ہے اس لیے اس کو مفعولن سے بد لیتے ہیں ۔ مُفتَعْلُن اور مفعولن دنوں وزن میں برا بر ہے ۔اس کو تسکین اوسط کہتے ہیں تخنیق نہیں ۔

تسکین اوسط کی مثال کو سمجھ لینے کے بعد اب تخنیق کی مثا ل سمجھتے ہیں ۔اس کے لیے ’’لا حول و لا قوۃ الا با للہ ‘‘کا جو وزن ’’ مفعولُ ، مفاعیلُ ، مفاعیلن ، فاع ‘‘ کو لیتے ہیں ۔اس میں مفعول کا ’ل‘ متحر ک ہے پھر مفاعیلُ کی ’م ‘  اور ’ف‘  بھی متحر ک ہے ۔ یہ لگاتا ر تین متحر ک حر وف ایک رکن میں نہیں بلکہ دو رکن مفعو لُ اور مفاعیلُ میں ہے ۔ان تینوں حر وف میں بیچ والا حر ف ’م ‘ہے اس کو ساکن کر دیا ۔ اب مفعول ُ کا ’ل‘ اس ’م ‘ میں مل جائیگا اور یہ مفعولم، فاعیلُ پڑھا جائیگا ۔اور یہ امر واضح ہے کہ مفعولم عروض میں کوئی رکن نہیں ہے اس لیے اس کو مفعولن سے بدل لیتے ہیں ۔اب مندر جہ بالا وزن اس طر ح ہوگیا ۔مفعولن ،فاعیل، مفاعیلن ، فاع ۔

مفعولن ،فاعیلُ، مفاعیلن ، فاع ۔اس میں دیکھیے کہ فاعیلُ کا ’ل ‘ متحر ک ہے اور مفاعیل کا ’م ‘ اور ’ف ‘ بھی متحر ک ہے ۔ گو یا یہاں بھی ان دونوں ارکان کے درمیان تین لگاتار حر ف متحر ک ہیں ۔اب اس میں ہم بیچ والے حر ف میم کو ساکن کر دیتے ہیں ۔اب یہ فاعیلم، فاعیلن، فا ع ہوگیا یعنی پورا وزن مفعولن ،  فاعیلم، فاعیلن، فا ع۔ یہاں پر دیکھیے کہ فاعیلم اور فاعیلن عر وض کے ارکان نہیں ہیں اس لیے فاعیلم کو مفعولن سے اور فاعیلن کو مفعولن سے بدل دیتے ہیں ۔ اب وز ن بن جاتا ہے مفعولن ، مفعولن، مفعولن ، فاع ۔یہ وزن اوپر رباعی کے اوزان میں سے بائیسویں نمبر میں موجود ہے ۔اسی طر یقے سے تخنیق کے عمل سے اوزان بن تے رہتے ہیں ۔

جس بات کا ذکر اوپر آیا تھا کہ تخنیق کے عمل سے چار اوزان سے رباعی کے چوبیس اوزان بن جاتے ہیں یا دو اوزان سے۔ آخر وہ اوزان کون سے ہیں جن پر تخنیق کے عمل کر نے سے اوزان کی تعداد ۱۲ ہوجاتی ہے ۔ وہ دو اوزان یہ ہیں ۔

مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعل
مفعول مفاعیلُ مفاعیلُ فعل

اصولی طور پر ان اوزان میں تخنیق کے عمل کر نے سے ۱۲ اوزان بن جاتے ہیں اور ان کا آخر ی رکن یا تو ’ فع ‘ ہوتا ہے یا ’فعل‘ ۔۱۲ اوزان سے ۲۴ اوزان بنانے کے ایک طر یقہ یہ ہے کہ فع کی جگہ فاع اور فعل کی جگہ فعول رکھ دیتے ہیں تو ان اوزان کے تعداد ۲۴ ہو جائیگی ۔ لیکن یہ اصولی طر یقہ نہیں کہلاتا ہے ۔ اصولی طریقے یہ ہے مندرجہ بالا دو اوزان کے ساتھ مندرجہ ذیل جو اوزان میں بھی تخنیق کا عمل کیا جائے ۔

مفعول مفاعلن مفاعیلُ فعول
مفعول مفاعیلُ مفاعیلُ فعول

ان چاروں اوزان میں تخنیق کے عمل کر نے سے رباعی کے اوزان چوبیس ہوجاتے ہیں ۔

اس بات کا خیال عام ہے کہ جب سے رباعی کا وجو د ہوا ہے تب سے اس کے اوزان ۲۴ ہی رہے ہیں اور ان اوزان کے خالق رودکی سے سر جاتا ہے ۔اگر چہ اس بات کی کوئی ثبوت نہیں ہے مگر پھر بھی ان اوزان کو رودکی کے اوزان کہا جاتا ہے ۔پانچویں صدی ہجری سے لیکر چودہویں صدی ہجر ی تک اس کے اوزان چو بیس ہی رہے ۔لیکن چودہویں صدی ہجر ی میں مجسم عروض جنا ب علّام بھگوان چندر بھٹناگر سحر عشق آبادی نے اس میں ۱۲ اوزا ن کے اور اضافہ کیے اور رباعی کے اوزان کو انہوں نے ۳۶ کر دیا ۔اضافہ شدہ اوزان رباعی کے اوزان کا ایک قاعدہ ’’وتد پئے وتد اور سبب پئے سبب‘‘ کے بنیاد پر ہی مبنی ہے ۔لیکن جہاں تک ان اوزان کے تسلیم کر نے کی بات ہے تو ان اوزان کو پروفیسر عنوان چشتی اور راز علامی کے علاوہ کسی نے تسلیم نہیں کیا ۔یہ بات بھی ہے کہ کسی نے انکار بھی نہیں کیا ۔سحر عشق آبادی نے ۱۲ اوزا ن کا اضافہ کر کے ۳۶ اوزان کیے تھے ان کے بعد انہیں کے شاگر د راز علامی نے ان ۳۶ اوزان پر مزید ۱۸نئے اوزان کا اضافہ کر کے رباعی کے اوزان کی تعداد ۵۴ کردی اور اعلان بھی کر دیا کہ آخر ی حد ہے اس سے زیاد ہ اوزان وضع نہیں کیے جاسکتے ۔راز علامی کے اوزان بھی رباعی کے اوزان کے قاعدے کے مطابق ہیں ۔لیکن ان اوازن کی تائید میں کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں ہوئی ۔البتہ موجودہ وقت میں کندن لال کندن نے سحر عشق آبادی کے بارہ اوزان کو پیش کیا ہے اور انہوں نے اپنی رباعیات میں ان اوزان پر تجر بہ کیا ہے اور اپنی رباعیوں کوبھی اس وزن میں ڈھالاہے ۔وہ بارہ اوزان یہ ہیں 

ڈاکٹرزار علامی علامہ سحر عشق آبادی کے جانشین ہیں انہوں نے بھی اپنے استاد کے راہ پر چلتے ہوئے رباعی کے مزید اٹھا رہ اوزان تخریج کیے ۔ان اٹھارہ اوزان کی تخریج کے لیے انہوں نے پہلے چار اصل اوزان ایجاد کیے 

رباعی گو شعر ا کے لیے یہ ضروری نہیں کہ رباعی کا پہلا مصرع اگر اس نے ایک وزن میں کہا ہے تو بقیہ مصرع بھی اسی وزن میں ہوں بلکہ ان مختلف اوزان میں سے کسی بھی وزن کا استعمال کر سکتا ہے ۔بعض شاعر وں نے اخر ب اور اخر م کے اوزان کو آپس میں ملانے پر اعتراض کیا ہے ۔ یعنی رباعی کا پہلا مصرع اخر م میں ہو تو بقیہ مصرع اخر م ہی میں ہوں ۔اگر پہلا مصرع اخر ب میں ہو تو بقیہ مصرع اخر ب میں ہی ہو نے چاہیے ۔ لیکن اکثر شاعر وں نے اس قسم 

کی پابندی کو روا نہیں رکھا ہے ۔یعنی ایک ہی رباعی میں مختلف اوزان آسکتے ہیں ۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری فرماتے ہیں ۔

’’دونوں دایروں کے اوزان کا ایک دوسرے سے منسلک کرنا جائز ہے ۔ یہ ضر وری نہیں کہ چاروں مصرعے چو بیس میں سے کسی ایک ہی وزن میں ہو ں ۔ چو بیس اوزان نے باہم اشتراک سے بے شمار شکلیں پیدا ہوں گی ۔ صاحب ’’بحر الفصاحت ‘‘ نے بتا یا کہ کم از کم بیاسی ہزار نو سو چو الیس شکلیں بیدا ہوتی ہیں ۔ جن کے اوزان یا تر تیب مصاریع میں کچھ نہ کچھ نہ فرق ضرور رہے گا ۔ اوزان کی اتنی کثرت و دقت کے سبب کبھی کبھی بڑے بڑے اساتذہ نے رباعی میں دھوکا کھایا ہے ۔‘‘ (اردو شاعر ی کا فنی ارتقاء ،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ص ۳۱۱)

رباعی گو شعر اکے لیے بعض عروضیوں نے یہ پابندی بھی لگائی تھی کہ کہ اخر ب اور اخر م کے اوزان کو تو آپس میں ملا سکتے ہیں مگر جب مصرع اول و دوم میں فعول اور فاع آگیا تو تیسرے اور چوتھے مصرع میںبھی فعول اور فاع کا لانا ضروری ہے ۔لیکن عام طور پر رباعی گو شعرا نے صرف اس بات کا خیال رکھا ہے کہ چو بیس اوزان میں سے کوئی بھی ایک وزن رباعی میں نظم کیے جاسکتے ہیں ۔

رباعی اکیسویں صدی میں 

شاعری اقدار کو شخصیت سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے عمل میں سموتی رہتی ہے اور زندگی کی بدلتی ہوئی صورتوں میں اس کیفیت کو قائم رکھتی ہے جو ماضی سے حال کے وابستہ ہونے کی دلیل ہوتی ہے مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالتی ہے اور متحر ک زندگی کو انسانی روح کی صداقت کا آئینہ بنا دیتی ہے۔ اس لیے ہر عہد اپنے نمائندے ساتھ ہی لاتا ہے جنہیں اقدار کو اپنی شخصیت سے ہم آہنگ کر کے زندگی کے عمل کو حسن کا معیار عطا کر نا پڑتا ہے ۔ ۱۹۰۵ ء ، ۶۰، ۷۰ ، ۸۰ سے اکیسویں صدی کے پہلی دہائی تک شعرا جس طر ح دیکھ ا ور محسوس کر رہے تھے اسی طر ح پیش کرنے کی دیانت دارانہ کو شش ان کا اولین عمل رہا ہے۔ کسی فرضی چہار دیواری کے اندر وہ بندرہنا نہیں چاہتے ہیں اچھے روایات کا انہیں علم ہے ۔ یعنی وہ اکثر روایات کی لکیر پیٹتے رہنے کو ادبی فعل نہیں سمجھتے ، محض نعر ہ بازی یا اصلاح کے خوش کن اور دلفریب مفروضات سے گھرے رہنا وہ پسند نہیں کرتے بلکہ ننگی حقیقتوں کو اپنانا بہتر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات کے تعلق سے بھی اتنے ہی کھردرے اور بر ہنہ رہتے ہیں ۔ لیکن تمام جدید ذہن والے شاعرو ں پر یہ باتیں صادق نہیں آتی ہیں ۔ بیشتر ذہن حد سے زیادہ کھر درا اور برہنہ ہوگیا ہے جس کے نیتجہ میں ان کی آواز صدا بصحرا ثا بت ہوئی ہے ۔ 

اسی اور نوے کی دہائی میں شعرا کا ایک نیا قافلہ نظر آیا جنہوں نے مابعد جدیدکے عہد میں سانس لیا اور اپنے منفر د لہجے سے اردو شاعر ی کو ایک نیا رنگ و آہنگ عطا کیا او ر اسے اظہار کے نئے امکانات کی نوید دی ۔اس عہد کی شاعری میں ہر لفظ میں کئی الفاظ کی گونج سنائی دیتی ہے ، ہر تصور میں کئی تشبیہیں جلوہ نما اور ہر آواز میں بے شمار لہجے نظر آتے ہیں ۔ ایک بے انت ہنگام اور انتشار کی سی صورت ہے ایک الجھی ہوئی ڈور ہے جس کا کوئی سرا نہیں نظر آتا ہے ، ایک گورکھ دھندا ہے ، مایا جال ہے ، ایک حلقہ دام خیال ہے ، ہر طر ف فریب دھوکہ اور سراب کی سی کیفیت ہے ایک بے معنی کھیل اور تماشہ ہر سوں جاری ہے ، سر دست ایک شور بر پا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔   ’’ کوئی امید بر نہیں آتی : کوئی صورت نظر نہیں آتی ‘ ‘ 

یہ صورتیں اردو رباعی میں مکمل طور پر نظر نہیں آتی ہیں البتہ اس سے مفر بھی نہیں ہیں ۔ یہاں تک امام ِ جدیدیت کے یہاں بھی کلاسیکیت نظر آتی ہے۔ 

لفظیات و شعر یات کے اعتبارسے روایتی رباعی اور جدید رباعی میں بہت ہی واضح فر ق نظر آتا ہے ، جدید رباعی گومیں سے کچھ کے یہاں روایت سے بغاوت نظر آتاہے مطلقاروایتی شاعری کے لفظیات جیسے ، عشق ، محبت، دیدار ، آنسو، وفا ، محبوب ، زلف ،انگڑائی، نزاکت ، حسن، گل و بلبل، جنوں ،قفس ، برق و آشیاں ،حسر ت، شراب ، جام ، میخانہ اور ساقی وغیر ہ کے مقابلے ، صنعت ، مزدو ر قید ،پھانسی ، بغاوت ، خوں ، قتل ، جنگ ،سمندر ، آگ ، سایہ ، عمارت ،شجر ،اور چیخ وغیر ہ جیسے لفظیات ہیں ۔انہیں بدلتے ہوئے لفظیا ت وموضوعات کے تحت صر ف تین رباعی گو شعرا کی رباعیوں کا مختصراً جائزہ پیش ہے ۔

فرید پربتی 

فرید پر بتی اردو رباعی کا ایک مخصوص نام ہے جنہوں نے اردو رباعی کو بہت سارے تجر بات سے نوازا ۔فرید پربتی نے اپنی رباعیوں میں جس سادگی و پر کاری کے ساتھ اپنے خیالات و احساسات کورباعی کے پیکر میں ڈھالا ہے وہ جدید رباعی گو میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے ۔ان کے دو خالص رباعیوں کے مجموعے ’فرید نامہ‘ اور’ خبر تحیر ‘ہیں اور دو شاعر ی کے مجموعے ’اثبات‘ اور ’ہجوم آئنہ‘ ہیں ان میں غزلوں کے ساتھ رباعیوںکی کثیر تعدادبھی ہے ۔
جب ہم ان کی رباعیوں کا گہر ا مطالعہ کر تے ہیںاور جو پہلا تأثر قائم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعر ی کی عمارت ذاتی تخلیقی توانائی ، اور اظہار کا جذبہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہے ۔ان کی رباعیوں میں ایک توانا نظام فکر پایاجاتا ہے اور اپنی رباعیوں میں ایک منفر د لب و لہجہ اور شیر ینی و نغمگی کو پیش کر تے  ہیں جس کی وجہ سے ان رباعیاں قاری کے اثر میں اپنا ایک اثر چھوڑ جاتی ہیں ۔

فرید پربتی کے یہاں روایتی شاعر ی کی پاسداری او جدید شاعر ی کا امتزاج بخوبی نظر آتاہے اور شعر ی روایات کے شعور نے ان کے شعر ی ادراکات کو نکھارنے اور سنوارنے میں زیادہ اہم فریضہ انجام دیا ہے ۔جمالیا تی شعر کے اظہار میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ملک کی عام تہذیبی ، روحانی اور انسانی روایات واقدار کا بھی گہرا اثر نظر آتا ہے ۔

فرید پر بتی کی رباعیوں میں عاشقانہ کیف و سر ور بھی ہے اور رندانہ مستی بھی ۔ان کی رباعیوں میں واعظ کے پندو نصائح بھی ہیں، در س اخلاق و اصلاح کا میلان بھی ، فلسفیانہ اور حکیمانہ رنگ و آہنگ بھی کئی جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ان تمام میں ایک چیز جو غالب نظر آتی ہے وہ ہے حزن ملال کا عنصر ۔یہ رنگ و آہنگ ان کی غزلوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کااثر ان کی رباعیوں میں بھی نظرآتا ہے ۔

خوابوں کی رقابت ہے کہاں تک جاؤں 
اب کیسے بھلا اپنے مکاں تک جاؤں 
اپنے ہی تعاقب میں ہوں سرگرداں 
اس گنبد بے در میں کہاں تک جاؤں 

مندرجہ بالا رباعی میں رقابت ، تعاقب اور گنبد بے در جیسے لفظیات کے ساتھ جس مضمون کو پیش کیا گیا ہے وہ اس دور کے شعری ذوق اور نزاکت کو بخوبی پیش کر رہی ہے ۔رباعی کے لفظیات اور مضامین کبھی بھی ایسے نہیں رہے ہیں ۔ رباعی جس سادگی کا مظاہر ہ کر تی تھی اور جس صاف تر سیل کا قائل تھی وہ اس میں آپ محسوس نہیں کر رہے ہوں گے یہی وجہ کہ جدیدیت دور غزل کے اثرات رباعیوں میں بھی نظر آیا ہے۔

فرید پر بتی اپنی رباعیوں میں عصر حاضر کے تہذیبی انتشار اور معاشر تی نظام میں پھیلی بے راہ روی اورانسانی اقدار کی شکست و ریخت جیسے مسائل ۔ سماج و معاشر ہ میں پسرا ہواروز مر ہ کے حالات اور کشمیر جیسے صوبے میں استعماری طاقتوں کے خلاف احتجاجی آہنگ بہت ہی صداقت کے ساتھ نہایت فکر انگیز انداز میں پیش کر تے ہیں ۔ان تما م مسائل کے اظہار میں کہیں سادہ سی زبان اور کہیں اشاراتی و علامتی زبان بھی استعمال کر تے ہیں جو جدیدیت کا خاصہ رہی ہے۔

طوفان حوادث میں بکھرتا ہے وجود
اک آگ کے دریا سے گزرتا ہے وجود
ہے غول بیاباں کا تعاقب شب و روز
اس تیرہ خاک داں میں ڈرتا ہے وجود

فرید پر بتی اپنی رباعیو ں میں ایسے آفاقی مسائل کو اٹھاتے ہیں جس سے آج کا انسان دو چار ہے ۔انسان ہی نہیں بلکہ پورا عہد ہی اس سے متاثر نظر آتا ہے ۔تیزی کے ساتھ حالات بد ل رہے ہیں اقدا رو روایات کو ایک ناپاک دفتر قرار دے کر خود کو ان تمام پاندیوں سے بر ی کر کے صارفیت کے پابند ہوتے جارہے ہیں ۔انسانی معاشر ہ کا اس سائنسی معاشرہ میں کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا ۔ ہماری تہذیبیںاب اذکار رفتہ ہوگئیں اور ساتھ میںہم اپنی تہذیبوں کی پامالی کا کوئی گو شہ فراموش نہیں کر رہے ہیں ۔یہ وہ تمام چیزیں جس سے آج تمام انسانی معاشرہ دو چارہ ہے۔ فر ید پر بتی ان احساسات کو اپنی رباعیوں میں پیش کر نے کی جگہ جگہ کوشش کی ہے ۔

بڑ ھتا ہے اب احساس زیاں روز بروز
جلتا ہے آسودہ مکاں روز بروز
بدلا ہے چمن بدلا ہے گلچین کا مزاج
خوابوں کا یہاں اڑتا ہے دھواں روز بروز

بہر حال فر ید پربتی کی رباعیاں ان کی جولانی فکر اور ذہنی جد ت و اختراع کا نتیجہ ہیں ۔ اس میں گیر ائی او ر گہرائی بھی جگہ جگہ پر پائی جاتی ہے۔ رباعی کے مزاج سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے انہوں نے رباعی کے مزاج کو حتی الامکان برقرار کھنے کی کوشش کی ہے بلکہ قدیم علامتوں اور تر کیبوں سے نئے معانی پیش کیے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کی رباعیاںو قت کے مزاج سے بھی میل کھاتی رہی ہیں ۔انہوں نے اپنی رباعیوں کے زبان میں تھوڑا سا عام رباعی گوسے جو ابھی رباعی کہہ رہے ہیںالگ لہجہ انتخاب کیا۔ ا س وجہ سے ان کی رباعیا ں طر ز فکر او راظہار بیان دونوں اعتبار سے اپنا ایک منفر د مقام رکھتی ہیں جسمیں ذات ، حیات ، کائنات، فر د کا داخلی احساس اس کی محر ومیاں او ر ناکامیاں ساتھ میں موجودہ دور کا دردو کر ب جیسے موضو عات پائی جاتی ہیں ۔

اکرم نقاش 

اکر م نقاش ایک منفر د لب و لہجہ کے ساتھ اردو رباعی میں ابھر ے ۔انہوں نے اپنی شاعر ی کا آغاز غزل سے کیا پھر دوسرے ہی منزل میں رباعی پر قدم رنجہ فرما گئے اور ’’حشر سی یہ برسات‘‘ رباعی کا اپنا پہلا مجموعہ جدید رباعی کی دنیا میں پیش کیے ۔اس مجموعہ میں ان کی سو (۱۰۰) رباعیاں شامل ہیں ۔ان رباعیوں میں انہوںنے با لکل نئے اسلوب او انداز کے ساتھ رباعیوں کو پیش کیا ہے ۔الفا ظ کے انتخاب اور حسن انتخاب میں بھی یہ رباعیاں اپنا الگ اثر رکھتی ہیں ۔ اکر م نقاش غزل کے میدان سے رباعی کے میدان میں بہت ہی کم عر صہ میں قدم رکھے اس لیے بہت ساری ایسی چیزیں جو ان کی غزلوں میں نظرآتی ہیں وہی ان کی رباعیوں میں بھی در آئی ہیں ۔

اکر م نقاش کی رباعیوں کو کامیاب رباعیوں میں شمار کیا گیا ہے ان کے یہاں جدت کے ساتھ ساتھ قدیم رنگ ڈھنگ کا عکس بھی نظر آتا ہے انہوں نے کائنا ت اور ہستی کے مو ضو عات میں غور کیا ہے جو رباعی کا ایک موضو ع ر ہا ہے لیکن اس میں تازگی نظر آتی ہے ۔وجو د کے ہونے اور نہ ہونے کے طرح طر ح دلائل لائے گئے ہیں ۔ اس متعلق اکر م نقاش کی رباعیاں خوب ہیں ۔

دیکھا طرف اطراف کہیں کوئی نہیں 
جز رنگ خلا اور کہیں کچھ بھی نہیں 
لا چھوڑا کہاں شہر طلب نے دل کو 
اک ایسا مکاں جس میں کوئی در ہی نہیں 

ہو نے کا میرے یہ کون انکار کر ے 
اک بار نہیں وار یہ ہر بار کرے 
خاموش تماشائی تھا کب میرا وجود 
حیرا ں ہو ں کہ چپ چاپ یہ اقرار کرے 

اس قسم کی اور رباعیاں ہیں جو وجود اور عدم وجود پر بحث کر تی ہیں ۔

 اکر م نقاش کی رباعیوں کے ضمن میں نظر یہ وجود کے متعلق شمس الرحمن فاقی لکھتے ہیں :

’’دیکارت (Descartes) نے اپنے ہونے کی دلیل یہ دی تھی کہ میں سوچتا ہوں ، اس لیے میں ہوں ۔ اس کو ایک زمانے میں جدید فکر کا سنگ بنیاد قرار دیا جاتا تھا ۔ لیکن بسویں صدی کے اوائل میں اس کلیے سے انکار بھی کیا گیا ۔ بر ٹرنڈ رسل (Bartrand Russell)نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ میں سوچتا ہوں ۔ اس کی جگہ کوئی بھی اور فاعل رکھ دیجیے ،مثلا پتھر ، کتا وغیر ہ ، تب بھی جملہ نحوی اعتبار سے مکمل لیکن بے سود رہے گا ۔ اکر نقاش نے کشمکش وہم و یقن کو وجود کا ثبوت قرار دیا ہے اور حق یہ ہے کہ خوب قرار دیا ہے ۔‘‘(حشر سی یہ بر سات ، ص ۱۵)

اسی کشمکش و وہم و یقین کے اظہار میں اکر م نقاش یہ رباعی لکھتے ہیں ۔

یہ چاند ستارے یہ زمین کچھ بھی نہیں 
ہے دھند فقط اورکہیں کچھ بھی نہیں 
سمجھا ئے اسے کون کہ دیوانہ ہے 
کیا کشمکش وہم و یقین کچھ بھی نہیں 

اکر م نقاش کی رباعیاں انسا نی زندگی کے ارد گر دگھومتی ہے۔ ان کی رباعیوں میں ایک سادہ سی زند گی نظر نہیں آتی ہے بلکہ ان کے یہاں انسانی وجود کی بے چارگی اور رائگانی نظر آتی ہے ۔ان کی رباعیوں میں امکان ہے اور جہد بھی ۔یا س ہے اور یقین بھی ۔الفاظ کوبہت ہی قوت سے پیش کر کے مفہوم کی ادائیگی میں شد ت بھی پیدا کر تے ہیں اور احسا س ناکامی کا اظہار بھی نظر آتا ہے ۔

بکھراؤں تو کیا اور بکھر جاؤں تو کیا 
وحشت کی ہر اک راہ گذر جاؤں تو کیا 
اک گہری خموشی مرے اندر ہے بسی 
چیخوں سے تیرے دشت کو بھر جاؤں تو کیا 

عادل حیات 

 زندگی میں مشاہدا ت سے سابقہ پڑنا اور ان مشاہدات سے ایک عام انسا نی زندگی میں پڑنے والے اثرات کو اپنی شاعر ی میں پیش کر نا عاد ل حیات کی شاعر ی میں ہمیں بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ان ہی مشاہدات سے تخلیقی ذہن کی سحر انگیزی حاصل ہوتی ہے او ر جو تجر بے و مناظر حاصل ہوتے ہیں اسی کو اپنی رباعیوں میں پیش کر دیتے ہیں۔

ہے زیست کا امکان؟ نہیں ،کوئی نہیں 
ہر معرکہ آسان ؟ نہیں کوئی نہیں 
سائے تو نظر آتے ہیں چلتے پھر تے 
اس شہر میں انسان ؟ نہیں ، کوئی نہیں 

عادل حیات کی رباعیوں میں جو عنصر غالب نظرآتا ہے وہ ہے حزن و ملال کا عنصر ۔ ان کی زندگی میں آخر کو ن سے ایسے مراحل آئے تھے کہ جس کا اثر ان کی ذات پر گہرا پڑا اس سے تو ہم واقف نہیں ہیں لیکن ان کی شاعر ی سے یہ چیز نظر آتی ہے جو انہیں ہر پل سوچ میں گم مضطر ب اور بے چین رکھتا ہے۔ ہمیشہ وہ ان رشتوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو بھیڑ میں کہیں گم سے ہوگئے ہیں ۔اس کی وجہ سے شاید غمگین رہتے ہوں پھر اس غمگینی کی وجہ خدا پر چھوڑدیتے ہیں ۔کہیں ظلمت انہیں بے سمتی کا احساس دلاتی ہے اور کبھی رات بھیگتی ہے تو آنکھوں میں جا گا ہوا بے لباسی کا منظر بھی اچھا لگتا ہے ۔ہر روز کے سرخ سویرے پہ خو د سے سوال کرتے ہیں اور دل کی تسلی کے لیے ایک اور سو ال یہ کر تے ہیں کہ ان پر خوف نظاروں میں بسیرا کیوں ہے ۔مایوسی کہیں کہیں ان کے یہاں اس قدر نظر آتی ہے کہ آنکھوں کے لیے نو ر کو تر س جاتے ہیں اور صبر اس اندازمین کر تے ہیں کہ مجھے کسی نالہ سے بھی شکوہ نہیں ہے بلکہ جسم اور اس کے ساتھ سانسوں کی آمدو رفت کافی ہے ۔اس قسم کی باتیں اور موضوعات ان کی رباعیوں میں جا بجا ملتے ہیں ۔

مجھ میں ہی مرا سایا سمٹ جائے گا
قد اور مرا پہلے سے گھٹ جا ئے گا 
تکمیل کی سر حد سے گزر کر عادل 
مر کز کی طر ف جسم پلٹ جائے گا 

عاد ل حیات کی رباعیوں میں آنکھ ایک مکمل استعارہ بن کر ابھر تا ہے ۔آنکھ کا استعمال انہوں نے اپنی رباعیوں میں ایک دو جگہ نہیں بلکہ تقریبا ًساٹھ مقامات پر کیا ہے ۔ ہر ایک ہر ایک شاعر کے یہاں کوئی نہ کوئی شئے ایک مکمل علامت بن کر سامنے آتا ہے ، لیکن آنکھ کی علامت جس خوبصورتی کے ساتھ عادل حیات کے یہاں نظر آتا ہے وہ کسی اور کے یہاں نظر نہیںآتا ہے ۔ ایک اور خوبی ان کے یہاں یہ نظر آتی ہے کہ رباعی میں کسی کے یہا ں بھی علامت کا ایسا استعمال نہیں ہے جیسا کہ عادل حیات کے ملتا ہے ۔۔ اس علامت کے استعمال میں سب اہم بات جو ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کے استعمال میں یک رخی نہیں اپنا یا ہے بلکہ متنوع طریقے سے اسکو اپنا یا ہے جس کی وجہ سے ہر ایک رباعی میں الگ الگ معانی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اس تعلق سے کچھ رباعیاں ملاحظہ ہوں ۔

لوٹا دے مری سانس کے میں زندہ ہوں 
دنیا کے لیے آج بھی تابندہ ہوں 
ہر آنکھ کا منظر ہوں، دلوں کی دھڑکن 
میں خواب نہیں ماضی کا ، آئندہ ہوں 

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...