Thursday 3 March 2022

معصوم شرقی کی رباعی گوئی

معصوم شرقی کی رباعی گوئی 

ڈاکٹر امیر حمزہ

  رباعی اب اردو ادب میں حاشیائی صنف سخن نہیں رہی ،اکیسویں صدی کے ان دو دہائیوں میں اردو میں رباعی کا منظر نامہ تبدیل ہوا ہے۔ یہ تو عام ادراک کی بات ہوئی،کیونکہ ترسیلی وسائل کی آسانی نے بہت تیزی سے سب کچھ سامنے لا نا شروع کردیا ہے اور ہم ہندوستان بھر سے دیکھ رہے ہیں کہ کن ماحول میں اور کن خطوں میں کن اصنافِ سخن کی قدر بڑھ رہی ہے ۔ ساتھ ہی تنقید ی عمل شانہ بشانہ چل رہا ہے تو اس سے بھی محسوس ہوجاتا ہے کہ تخلیق کی روایت میں وہ اپنا مقام کسی طرح بنا رہے ہیں یا یوں ہی صرف بطور تذکرہ شمار کر لیا جاتا ہے ۔ اس عمل میں یقینا دیگر وسائل کا بھی استعمال ہوتا ہے جہاں کچھ افراد زیادہ روشنی حاصل کر لیتے ہیں اور کچھ مدھم روشنی میں ہی رہ جاتے ہیں ۔ یہ ہر تخلیق و فن کار کے ساتھ ہوتا ہے لیکن پھر بھی نظم و غزل ، افسانہ و ناول نے تنقید کی دنیا میں رباعی کے مقابلے میںبہتر مقام حاصل کیا ہے، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اردو تنقید کے دریچے رباعی کی جانب بہت کم کھلے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ موجودہ وقت میں رباعی نے شاید مواصلات کا عمدہ موقع حاصل کیا یا پھر یوں کہیں کہ جامعات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے زیادہ داخلے ہونے لگے تو خالی مضامین و موضوعات کی جانب زیادہ توجہ دی گی تو ایسے میں رباعی کو بھی فائدہ ہوا ، اس کی تنقید و تحقیق کی جانب بھی توجہ دی جانے لگی ۔ کچھ برسوں پہلے جب رباعی کی جانب توجہ دی گئی تو انفرادی رباعی گو شعرا کی رباعیات پر کا م ہو ا، ان کی اشاعت بہت کم عمل میں آئی ، البتہ مضامین دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔ موجودہ وقت میں دو چارمقامات سے خبرموصول ہوئی ہے کہ عمومی طور پر رباعی پر کام ہورہا ہے ۔ آخر رباعی جیسی مشہور صنف کے ساتھ یہ مرحلہ کیوں پیش آیا ؟ یہ کوئی سوال قائم نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ارد و میں صنف رباعی کو ہی اہمیت نہیں دی گئی ۔ ابھی تازہ مثال غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کی ہے جہاں سے ایک کتاب ’’ مرزا دبیر : عہد اور شعری کائنات‘‘ شائع ہوتی ہے جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے لیکن دبیر کی رباعی گوئی پر صرف چار صفحات ہیں جبکہ دبیر کی رباعی کائنات انیس سے وسیع ہے۔ ناقدین کی جانب سے بے توجہی کے بعد بھی چند شعرا ایسے سامنے آئے جنہوں نے اپنی شناخت رباعی گو شاعر کے طو ر بنائی ۔ چند مشہور شاعر ایسے بھی ہوئے کہ ان کا اصل میدان سخن کچھ اور تھا ساتھ ہی رباعی پر بھی توجہ صرف کی تو وہاں بھی رباعی نے ترقی پائی۔ جدیدیت کے دور میں بھی چند ایسے شعرا تھے جو خاموشی سے رباعی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کیے رکھے ۔ اس کے بعد غزلوں کے ساتھ رباعی کثیر شعرا کے یہاں نظرآتا ہے ۔ پھر بھی یہ کہا جاتا ہے کہ رباعی نے عمومی طور پر جگہ نہیں بناپائی اس کی وجہ صاف ہے کہ ہمارے یہاں غزل کی اتنی زیادہ تربیت ہوئی ہے کہ یہاں کے شعرا غزل کے فریم میںاظہار کے عادی ہوچکے ہیں۔ رباعی کے فریم میں جب کچھ کہنا چاہتے ہیں تو اکثر ڈھیلاپن کے شکار ہوجاتے ہیں۔بہت ہی کم ایسی رباعیاں نکل کر سامنے آتی ہیں جو رباعی کے معیار پر اتر تی ہیں ۔ ہاں غزل کے مقابلے میں نظم کے شعرا نے رباعی کو بہتر برتا ہے او ر چستی و بر جستگی نظم نگار کے یہا ں زیادہ نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم انیس و دبیر اور جوش و فراق کو دیکھ سکتے ہیں ۔ انیس و دبیر مرثیہ کے شاعر تھے اور جوش و فراق نظم کے اچھے شاعر تھے ، ان کے یہاں آپ اچھی رباعیاں اس لیے پاتے ہیں کیونکہ رباعی میں ایک مختصر نظم کی مکمل خصوصیت پائی جاتی ہے ، جبکہ غزل کے دو مصرعوں کو رباعی کے چار مصرعوں تک پھیلا نا اور خصوصی طور پر تیسرے مصرعے کو گریز کے طور پر لا نا غزل گو شعراکے لیے بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے ۔ ایسے میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی موضوع پر دو شعر ایک رباعی میں پیش کردیا گیا ہے ۔ رباعی میں بھی دو ہی اشعار ہوتے ہیں لیکن پہلا شعر معنوی طور پر بعد کے شعر پر منحصر ہوتا ہے ۔ جبکہ غزلیہ مزاج کے غلبے کی وجہ سے دونوں شعر الگ الگ اکائی  کے حامل ہوکر رہ جاتے ہیں اگر تیسرا مصرع مصرّع نہ ہوتو آپ اوپر نیچے مصرعوں کو بہ آسانی رکھ سکتے ہیں ۔ایسی رباعیاں بھی کثر ت سے ملتی ہیں جن کے پہلے مصرع کو آخر ی اور آخری کوپہلا مصر ع کردیں تو معنوی طور پر کوئی فرق نہیں پڑٹا ہے۔ ایسے میں رباعی کی روح ختم ہوجاتی ہے او ر وہ محض رباعی کے چار مصرعے بن کر رہ جاتے ہیں ۔ 

صنف رباعی ذہن میں آتے ہی اس کا فن ذہن میں آجاتا ہے ۔ یہ واحد صنف سخن ہے جس میں یہ متصور ہوتا ہے کہ رباعی وہ صنف سخن ہے جس کا فن دیگر تمام اصناف شعر سے باعتبار عروض منفرد ہے ۔یہ ایک مسلم حقیقت ہے اس سے کوئی انکار نہیں ہے لیکن جب اسی کے ساتھ یہ بھی محسوس کرایا جاتا ہے کہ اس کے موضوعات بھی مخصوص ہیں او ر اصلاح نفس و تصوف کے موضوعات زیادہ برتے جاتے ہیں ۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟ ہمیں تو نہیں لگتا ہے !بلکہ یہ ایک ایسی صنف سخن رہی ہے جسے مکتوباتی حیثیت بھی حاصل رہی ۔ غالب نے بھی ایسی رباعیاں تحریرکی ہیں۔ فا رسی کے شعرا پر نظر ڈالیں تو ابوسعید ابو الخیر ، خواجہ عبداللہ انصاری ، فرید الدین عطار ، مولوی جلال الدین، عراقی ، کر مانی و شاہ نعمت اللہ وغیرہ نے عرفانی و اخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ رودکی ، عنصری ، امیر معزی ، انوری ، خاقانی ، سعد ی وغیرہ نے عشقیہ ، مدحیہ واخلاقی رباعیاں کہی ہیں ۔ خیام، بو علی سینا اور افضل کاشانی نے فلسفیانہ اور حکیمانہ رباعیاں کہیں ۔ حکیم سوزنی ، مہستی ، عبید زاکانی نے اپنی رباعیوں میں ہزل اور ہجو کو موضوع بنایا ۔ مسعود سعد سلمان جنہیں فارسی میں زندانی ادب کا امام کہا جاتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی زندان نامہ پیش کیا ہے ۔ حافظ و دیگر مشہور شعرا نے اخلاقی ، عشقیہ اور صوفیانہ رباعیاں کہی ہیں ۔ ایسے میں اردومیں یہ روایت کہاں سے آگئی کہ رباعی میں زیادہ تر تصوف و اخلاق کی باتیں کی جاتی ہیں۔ان موضوعات کو طے کردینے میں رباعی کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا بلکہ ناقدین ومحققین نے اردو رباعی کے ساتھ ایک قسم کا سوتیلا برتاؤ کیا کہ رباعی کا فن الگ ہے تو اس کے موضوعات بھی الگ ہوں ۔ اس سے ایسا ہواکہ رباعی کے موضوعات سمٹ کر رہ گئے اور نقصان یہ ہوا کہ کوئی بھی شاعر جو رباعی کہنے پر قادر ہے اس کی تربیت خواہ کسی بھی ماحول میں ہوی ہو وہ اخلاقی و صوفیانہ رباعی کہنے کی کوشش کر تا ہے ۔ کیا موضوع کے لحاظ سے یہ انصاف یا درست امر ہو سکتا ہے ؟ بالکل بھی نہیں! فراق رس کے شاعر تھے انہوں نے غزلوں نظموں اور رباعیوں تینوں اصناف میں رس کو برتا اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔ جو ش کا شمار شاعر انقلاب ، شاعر شباب اور شاعر فطرت کے طور پر ہوتا ہے انہوں نے اپنی رباعیوں میں بھی ان سب موضوعات کو بخوبی برتا ہے ۔ جاں نثار اختر کا رباعیوں کا مجوعہ ’’ گھر آنگن ‘‘ بہت ہی مشہور ہے وجہ صر ف یہ ہے کہ انہوں نے گھریلوموضوعات کو بہت ہی عمدگی سے پیش کیا ہے ۔ لیکن اب اکثر دیکھنے کو مل رہا ہے کہ شاعر کا تعلق تصوف سے دور دور کا نہ ہو اور وہ تعلیمات تصوف سے واقف بھی نہ ہو پھر بھی اپنی رباعیو ںمیں اس کو شامل کر نے کو شش میں رہتا ہے ۔ آخر ایسا اس لیے کہ اس کے ذہن میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ رباعی کے اہم موضوعات یہی ہیں ۔ لیکن جب رباعیوں کے مجموعے کا مطالعہ کریںگے تو آپ چونک جائیں گے کہ کئی ایسے مجموعے ہیں جن میں حمد ہے اور نہ ہی نعت و منقبت ۔ شاید ایسا اس لیے ہوا کہ شروع میں کسی ناقد نے لکھ دیا ہوگا کہ رباعی کا تعلق خانقاہ اور مضامین خانقاہ سے زیادہ ہے تو بعد کے بھی سارے ناقدین اسی راہ پر چل پڑے جس کا اثر تخلیق کاروں پر یقینا پڑ ا اور موضوعات سمٹ کر رہ گئے ۔ 

اردورباعی کے موضوعا ت کی بات کی جائے تو قدیم سے لے کر آج تک اس میں اصلاحی مضامین مکمل طور پر داخل ہیں ۔ شاعر کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو لیکن جب رباعی کے لیے قلم سنبھالتا ہے تو وہ خود کو مصلح الامت باور کرانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔ اسی طریقے سے ہر ایک کے یہاں زندگی اور موت کے مضامین مل جائیں گے ، ندرت اور نازک خیالی تو دور کی بات ہے دلکشی بھی نہیںلا پاتے ہیں لیکن اس پر ایسا اظہار کیا جاتا ہے جیسے فلسفہ حیات و موت کا اہم نکتہ پالیا ہو ۔ خمر یہ رباعیوں کا چلن بہت ہی کم ہوگیا بلکہ اب تو تصوف کے پیمانہ میں بھی پیش کرنے والا کوئی رباعی گو نہیں رہا ، تاہم اگر چند رباعی بھی میخواری کی مل جائے تو اس کو خیام سے متاثر و جوڑنے کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔ جب کہ تخلیق کار کے ذہن میں بھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہے ۔ البتہ فلسفہ زندگی کو جس عمدہ طریقے سے دبیر و انیس نے پیش کیا ہے بعد میں یقینا اس قسم کی رباعیاں پیش کی گئی ہیں لیکن شہرت و مقبولیت بعد والوں کے حصہ میں نہیں آتی ہے ۔ ان ہی کی روایت کو حالی و اکبر نے آگے بڑھایا ، یہاں سوچنے کی بات ہے کہ حالی کا میدان شعر اکبر سے بالکل الگ ہے۔ حالی سنجیدہ ہیں اور اکبر طنزو مزاح کے حامل لیکن رباعی میں دونو ںایک ہی رنگ میں نظر آتے ہیں اور دونوں اصلاحی رباعیاں کہتے ہیں۔ اردو میں رباعی کو نئی شناخت دینے میں جوش و فراق کا کردار بہت ہی اہم ہے ۔ فراق رس کے مضامین میں ہی محدود رہے لیکن انہوں نے رباعی کے لیے وہ دریچہ وا کردیا جو رباعی کی روایت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، جبکہ جوش نے اردو رباعی کو بے پناہ موضوعات دیے ، یہاں تک انہوں نے شہر آشوب اور قصیدہ کے موضوعات کو بھی رباعی میں قلمبند کیا۔ اس بندہ کے رگ رگ میں رباعیاں بسی ہوئی تھیں ، وہ اپنی ہر فکر و سوچ کو رباعی کے پیکر میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے تھے ۔ ان کے کامیاب ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ وہ مشرقی شعری کائنات سے مکمل واقف تھے ، خیام کو انہوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اپنی رباعیوں کو خیام کی نذر کیا ہے جس سے سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے خود کومسلک خیام کے ایک علمبر دار کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے اصلاحی وصوفیانہ رباعی گوئی جانب توجہ نہیں کی بلکہ وہ جس باغی ذہن کے مالک تھے اسی باغیانہ تیور میںرباعیاں بھی کہی ہیں جس سے اردو رباعی کو خاطر خواہ فائدہ ہوا ۔ یقینا ان کے کچھ نظر یات مذہب اسلام کے خلاف تھے لیکن جو رباعیاںفطرت نگاری، شباب اور انقلاب کے موضوعات پرہیں ان کا ثانی نہیں ملتا ہے ۔ اس طویل گفتگو میں اگر امجد حیدرآبادی کا ذکر نہ ہو تو شاید مجھ پر سخت اعتراضات ہوں لیکن ہم موضوعات کی بات کررہے ہیں اور انہوں نے تصوف کو اپنی رباعیوں میں بر تا ہے ان سے قبل شاہ غمگین دہلوی نے اپنا دیوان رباعیات تصوف میںڈوب کر تیار کیا ہے جس کی شرح کی درخواست انہوں نے خود غالب سے کی تھی لیکن وہ نہیں ہوسکا ۔ الغرض اللہ کس کے کلام کو کب شہرت دے دے اس پر کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ 

 معصوم شرقی کے ان رباعیات کے ضمن میں مندرجہ بالا غبار خاطر اس لیے پیش کی کہ تحریری روایت سے ہٹ کر فکر ی عمل کا دائرہ بھی وسیع کیا جائے ۔ یقینا ان کی رباعیوں کے موضوعات بھی وہی ہیں جو عام طور پر اردو سماج سے نکل کر آرہی ہیں ، اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انہیں میں سے چند رباعیاں بہت اچھی ہوجاتی ہیں جو ایسا احسا س کراتی ہیں کہ ماقبل میں اس انداز میں نہیں کہی گئی ہیں ۔ کچھ کے یہاں عمدہ تراکیب و تشبیہات مل جاتی ہیں ۔ پھر بھی چند ہی رباعیاں ایسی نکل کر سامنے آتی ہیں جن کے چوتھے مصرعے اس بات کے غماز ہوتے ہیں کہ واقعی میں وہ رباعی کے ہی مصرع ہیں جو محاورہ بننے کی طاقت رکھتے ہیں اور ’’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ کے مصداق ہوسکتے ہیں ۔ 

 موضوعات کے اعتبار سے معصوم شرقی کی رباعیات کی بات کی جائے تو ان کے یہا ں حمد،شہر کلکتہ ، جبر و قدر، خودبینی ، فطرت ، دنیا ، زندگی، لوگوں کے ساتھ معاملات زندگی ، حالات وطن و دیگر موضوعات کی رباعیاں ملتی ہیں ۔ ان سب میں بھی لوگوں نے ان کے ساتھ جو معاملات روا رکھے اور مو صوف خود کو کس انداز میں دیکھتے ہیں وہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ جس سے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ غمِ ذات کو غم دنیا بنانے کا ہنر شاعر تو جانتا ہے لیکن اس کو کس طرح بنانا ہے وہ ہر ایک شاعر کی بس کی بات نہیں ۔ چنیدہ لفظوں سے ہی بَنا مصرع و شعر کب ذات کی عکاسی کرتا ہے اور کب سب کی دل کی بات اس میں نظرآتی ہے یہ تو قاری پہلی ہی قرات میں محسوس کرلیتا ہے۔ نظر یہ کی بات کی جائے تو بڑے بڑے شاعروں کے یہا ں تضادات ملتے ہیںکبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ، لیکن وہ نظریے جن کا تعلق اعتقادات سے ہوں اگر اس میں تضادات نظرآجائیں تو قاری سوچ میں پڑجاتا ہے کہ اول کوترجیح دے یا دوم کو۔ ان تمام کے باوجود مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ اچھی رباعیاں پیش کر نے کی کوشش ہوئی ہے ، تاہم چند رباعیاں جن میں ذاتی چپقلشوں کا اظہار ہے اگر ان میںاور فن کاری کی جائے تو وہ مزید بہتر ہوسکتی ہیں ۔ موصوف کی چند رباعیاں پیش خدمت ہیں ۔ 

 روداد محبت کی سناؤں کیسے 

 ماضی کا میں آئینہ دکھاؤں کیسے

 ہرلمحہ جواں دل میں تھی اک تازہ امنگ

 کیا عہد جوانی تھا بتاؤں کیسے 


بیزاری کو چاہت سے بد ل دیتی ہے 

 ماحول کو فطرت سے بدل دیتی ہے

 عورت کو ودیعت وہ ہنر ہے جس سے 

 نفرت کو محبت میں بدل دیتی ہے 


ہونٹوں پہ رواں ذکرترا ہوتاہے

 جب زخمِ جگر میرا ہرا ہوتاہے 

حاصل تری یادوں ہی سے ہوتا ہے سکون

 جب درد کا احساس سوا ہوتا ہے 


معدوم محبت کا نشاں ہے بھائی 

 ہر گام پہ نفر ت کا دھواں ہے بھائی

 ہیں آدمی دنیا میں تو لاکھوں، لیکن 

 پر آدمیت ان میں کہاں ہے بھائی 

 

مندرجہ بالا کے علاوہ کئی اور ایسی رباعیاں ہیں جن میں وہ اپنی ذات کو پیش کر تے ہیں لیکن جن رباعیوں میں وہ خود کو پیش نہیں کر تے ہیں وہ زیادہ اچھی ہیں۔ انہوں نے زبان بالکل ہی سادہ اور سلیس استعمال کی ہے ۔ استعارات و تشبیہات بہت ہی کم ہیں۔ ترکیبات بھی نہ کے برابر نظرآتے ہیں، بھاری بھرکم الفاظ سے مکمل پرہیز ملتا ہے ۔ روانی کی بھر پور کوشش کی گئی ہے جن سے جمالیاتی بصیرت کا بھی احساس ہوتا ہے ۔

 موصوف نے نثر ی دنیا میں خوب لکھا ہے اور اپنی شناخت بھی بنائی ہے ۔ شعری دنیا میں شاید یہ ان کی پہلی کاوش منظر عام پرآرہی ہے وہ بھی رباعیوں کے ساتھ ایسے میں رباعی کے قاری ہونے کے ناتے میں انہیں مبارکباد پیش کر تا ہوں ۔ اس سے قبل ان کی تحقیقی و تنقیدی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور مقبول عام بھی ہوچکی ہیں ۔ اشک امرتسر ی پر معصوم شرقی صاحب نے لاجواب کام کیا ہے ، کلکتہ کا ادبی ماحول بھی ان کی اہم کتاب ہے ۔ رباعیوں کے تعلق سے بھی پرامید ہوں کہ وہ ناقدین کو اپنی فن کاری منوانے پر مجبور کریںگے ۔ 

 امیر حمزہ 

 


No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...