Friday 1 March 2019

ذوق کی قصیدہ نگاری



 ذوق کی قصیدہ نگاری 

امیر حمزہ 

ریسرچ اسکالر ، شعبہ اردو، دہلی یونی ورسٹی 

دلی جیسا ثقافتی و ادبی شہرجو عالم میں انتخاب تھا نادر شا ہی حملہ کے بعد اجڑ جاتا ہے ۔شعر وادب کی محفلیں اٹھ جاتی ہیں ۔ میر و سودا جیسے عدیم المثال شاعر اپنے فن کی بقا ء کے لیے لکھنؤکوچ کر چکے ہوتے ہیں ۔ اسی تباہی کے دور میں اجڑی اور لٹی پٹی ہوئی دلی میں شیخ محمد رمضان کے یہاں ایک ایسا چاند طلوع ہوتا ہے جو اپنے وقت میں آسمان سخن پر عید کی چاند کی طر ح چمکتا ہے ۔جن کی استادی اور شاعری کی چمک کچھ ایسی ہوتی ہے کہ انیسویں صدی کے شروع میں مو من و غالب کے ساتھ آفتا ب و ماہتا ب بن کر آسمان شاعر ی میں متمکن ہوجاتے ہیں ۔یہ اردو ادب کی اٹل تاریخ ہے کہ سلطنت مغلیہ کی ٹمٹاتی ہوئی چرا غ میں یہ تینوں شاعر ی کے روشن چرا غ تھے۔ اس میں بھی دربار میں شاعری کا چرا غ سب سے زیادہ ذوق روشن کیے ہوئے تھے ۔ جسے سلطنت پسند کرے اور سلطان استادی کا شرف بخشے پھر کیا تصور اورکیا حقیقت کہ شاعری کے بازار میں کسی اور کی قیمت زیادہ ہو اور کوئی دوسرا شاعرشاگر د وں کا سلسلہ طویل کر سکے ۔کیا یہ سب ساری چیزیں صرف اس وجہ سے تھیں کہ وہ خاقانیِ ہند کے لقب سے ملقب تھے ؟یا بادشاہ کے استاد تھے ؟ نہیں بالکل نہیں ! بلکہ وہ اس عہدکے رواج ، مزاج ، مر وجہ وعلوم و فنون اور مقبول و پسندیدہ اصطلات ِ زبان و بیان کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کر نے میں استادانہ مہارت رکھتے تھے ۔لیکن اردو ادب کا یہ ستم اس کے ہر طالب علم پر رہا ہے کہ انیس کا مطالعہ دبیر سے موازنہ کیے بغیر اور ذوق کا مطالعہ سودا سے تقابل کیے بغیر نہیں ہوسکتا ۔جب بھی ذوق کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو قصیدہ میں سودا کو سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور غزل میں غالب و مومن کو۔ لیکن کبھی بھی اس پہلو پر نظر نہیں ڈالی گئی کہ ذوق کی شاعری کے مطالعہ کے لیے ذوق کے زمانے کی دہلی فضا کے ساتھ ذوق کے آس پاس کے ماحول کا بھی مطالعہ کیا جائے ۔ ذوق کی ذات و شخصیت کے گہرے مطالعے کے ساتھ منسلکینِ ذوق پر بھی نظر رکھی جائے ۔بچپن کی شوخی اور لڑ کپن تو ان کے قریب بھی نہیں پہنچا، یہی وجہ تھی کہ وہ عہدمراحق سے ہی خداتر سی اور زہد و ورع کی جانب مائل ہوگئے تھے ۔ اگر چہ ان کی طبیعت میں بذلہ سنجی اور ظرافت بھی تھی تا ہم کسی بھی گفتگو میں استادی پن کا حکم نا مہ یا انانیت نظر نہیں آتی ہے ۔ شام کو عصر کے وقت شاید مجلس کی برخاستگی کے بعد مسلسل ایک لوٹے سے کلّیا ں کیا کر تے تھے ، اس متعلق مولانا محمد حسین آزاد کے سوال کے جواب میں کہتے کہ نہ جانے کیا کیا ہزلیات زبان سے نکلتے ہیں۔ یہی عمل رات کی عبادت سے پہلے کا بھی ہوتا تھا ۔ان کے اندر عاجزی، انکساری اور سادگی کا دخل اس قدر تھا کہ خیا ل آتے ہی پڑوسی کے بیمار بیل کے لیے دعا بھی کر تے ہیں ۔ تو ان تمام کے ساتھ مناسب ہوتا ہے کہ ذوق کی شاعری کا مطالعہ ان کی ذاتی زندگی کے تناظر میں بھی کیا جائے کیونکہ یہ اکثر ہوتا ہے کہ تخلیق کار اپنی زندگی کا عکس اپنی تحریر میں کچھ نہ کچھ چھوڑ جاتا ہے ۔

ذوق کی پیدا ئش ۱۲۰۳ھ بمطابق ۱۷۸۸ء میں ہوتی ہے ۔تقریباً ۱۹؍ بر س کی عمر میں دربار ولی عہدی میں باریابی کا شر ف حاصل ہو تا ہے اور یہ بات بھی نا قابل انکار تک مشہور ہے کہ ذوق کو ۱۹؍ برس کی عمر میں خاقانی ہند کا خطاب مذکورہ قصیدہ پر ملتا ہے۔

جبکہ سر طان و اسد مہر کا ٹھہر ا مسکن 

آب و ایلولہ ہوئے نشوونمائے گلشن

 یہ بات سوالات کے دائرے میں ضرور آتا ہے کہ جس برس وہ دربار ولی عہدی سے منسلک ہورہے ہیں اسی سال انہیں اعلی ترین خطاب سے نوازا بھی جارہا ہے ۔ ساہتیہ اکادمی سے شائع شدہ تنویر احمد علوی صاحب کی کتاب ’’ ذوق دہلوی ‘‘( مونو گراف) میں اس قضیہ کی جانب اشارہ ہے کہ تذکر ۂ ’’عیار الشعراء‘‘، ’’تذکرۂ صدر الدین ‘‘اور’’ تذکرہ ٔ سرور‘‘ میں اس خطاب کی جانب کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے بلکہ’’ تذکرۂ گلشن بے خار‘‘ ۱۲۴۸ھ میں اس خطاب کا پہلی بار ذکر ملتا ہے ۔اس سے یہی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ تیرہویں صدی ہجر ی کے چوتھے عشرے میں ہی انہیں یہ خطاب ملا ہو اور اس وقت ان کی عمر چالیس بر س کے آس پاس رہی ہوگی ۔۶؍اکتوبر ۱۸۳۷ء کو اکبر شاہ ثانی کاانتقال ہوتاہے اور ۷؍ جنور ی ۱۸۳۸ ء کو بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی ہوتی ہے اسی موقع پر ذوق اپنا یہ مشہور قصیدہ :

روکش ترے رخ سے ہوکیا نور سحر رنگ شفق  ہے ذرّہ تیرا پر توِ نو ر سحر رنگِ شفق 

لکھتے ہیں جس پر انہیں ملک الشعرا ء کا خطاب ملتا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ اردو شاعری کی تاریخ میں قلی قطب شاہ سے لے کر محسن کاکوروی و جمیل مظہری تک قصیدہ نگار شعرا کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ جب کہ غزل گو شعرا لا تعداد ہیں۔ اردو کے عہد زریں میں میرؔ جیسا شاعر اپنی غزلوں کی وجہ سے خدائے سخن کے درجے پر فائز ہوتا ہے وہیں سوداؔ جیسا قصیدہ نگار قادر الکلامی میں میرؔ سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ باوجود اس کے وہ قصیدہ کے بے تاج بادشاہ کہلاتے ہیں۔ کچھ یہی صورت حال عہد غالبؔ میں بھی غالبؔ و مومنؔ اور ذوق ؔکے درمیان نظرآتی ہے۔ فی زمانہ غالبؔ غزل کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں اور ذوق ؔ قصیدہ کے۔ غالبؔ و مومنؔ غزل کے میدان میں اپنے پیش رو کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے ہیںلیکن ذوقؔ اپنے پیش رو سودا ؔ کے ساتھ صنف قصیدہ میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اردوادب کی تاریخ میںجس طرح سے میرؔ و غالبؔ کو غزل سے ، انیسؔ و دبیرؔ کو مرثیہ سے اور میرحسن ؔو دیا شنکر نسیمؔ کو مثنوی سے جدا نہیں کیا جا سکتا اسی طرح سے ذوقؔ وسوداؔ کو قصیدے سے جدا کرنا ناممکن ہے۔

 قصیدہ میں تشبیب کی وہی اہمیت ہوتی ہے جو غزل میں حاصل غزل کی ہوتی ہے۔ جس طریقے سے یہ بات زبان زد ہے کہ بادشاہوں کا کلام ، کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے، قصیدہ اپنے اندر بھی وہی خصوصیت رکھتا ہے کہ بادشاہوں کے سامنے پیش ہونے والا کلام، کلاموں کا بادشاہ ہو۔ اسی لئے شاعر اپنی تخلیقیت کی ساری قوت قصیدہ کے پہلے جز تشبیب میں لگا دیتا ہے۔ اگر تشبیب بہاریہ ہے تو اس میںلفظوں کے انتخاب میں وہ ہنر مندی برتی جاتی ہے کہ موسم کے تطابق سے ایسی مسحور کن فضا قائم کرے کہ قاری یا سامع سنتے ہی متوجہ ہو جائے۔ ذوقؔ نے بھی تشبیب میں اپنی اس ہنر مندی کو پیش کیا ہے۔ ایک قصیدے کی تشبیب سے ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:

واہ وا کیا معتد ل ہے باغ عالم میں ہوا  مثل ِ نبضِ صاحبِ صحت ہے ہر موج

بھر تی ہے کیا کیا مسیحائی کا دم باد بہار بن گیا گلزار عالم رشک صد دارالشفا

ہے گلوں کے حق میں شبنم مر ہم زخم جگر شاخ بشکستہ کو ہے باراں کا قطرہ مومیا

ہوگیا موقوف یہ سودا کا بالکل احتراق  لالہ بے داغ سیہ پانے لگا نشو و نما

ہوگیا زائل مزاج دہر سے یاں تک جنوں بیدمجنوں کا بھی صحرا میں نہیں باقی پتا

ہوتا ہے لطف ہوا سے اس قدر پیدا لہو بر گ میں ہر نخل کی سرخی ہے جوں بر گ حنا

کیا عجب جدوار کی تاثیر گر رکھے زقوم کیا عجب گر آب حنظل دیوے شربت کا مزا

نسخے پر لکھنے نہیں پاتا ’ہوالشافی ‘ طبیب کہتا ہے بیمار ’ بس کر مجھ کو بالکل ہے شفا‘

پہلے شعر میں باغ عالم کی ترکیب سے پوری دنیا کی فضا کو ہموار کر دیتے ہیں اور جو ہوا چل رہی ہے اس ہوا کی خوبصورتی کچھ اس انداز سے بیان کرتے ہیں جیسے صحت مند انسان کی نبض چلتی ہو۔ شاعر کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے تخیل میں کتنی وسعت رکھتا ہے۔ ایک غیر محدود وسیع و بسیط دنیا کی صورت حال ایک محدود جسم سے پیش کرتا ہے۔ بادشاہ کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگتی ہے کہ میرے آنے سے اس پوری دنیا کا نظام اس طریقے سے درست ہو جاتا ہے جیسا کہ آخری شعر میں طبیب نسخے پر ’ ہوالشافی ‘ لکھ نہیں پاتا ہے کہ مریض اپنی مکمل شفا یابی کی خبر دیتا ہے ۔ اس میں کوئی بعید نہیں ہے کہ بادشاہ کی تاج پوشی سے پہلے اور بعد کی صورت حال کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ 

دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ اس بہار میں ہوا ایسی چل رہی ہے کہ اس کی وجہ سے دنیا ایسی بن گئی ہے جس پر سیکڑوں دار الشفاء بھی رشک کرنے لگے اور اب شبنم کا اثر گلوں پر کچھ ایسا ہے جیسے زخم جگر پر مرہم کا۔ اور ٹوٹی ہوئی شاخ میں بارش کا قطرہ مومیا کی تاثیر لئے ہوئے ہے۔ بعدکے اشعار میں شفا کے بعد کی جو صورت حال ہے اس کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے دہر کے مزاج سے جنوں بھی زائل ہو گیا اور اس کی مناسبت سے کہتے ہیں کہ صحرا میں اب بید مجنوں کا بھی ذکر نہیں۔ بید تو خود ہی ایک پتلی سی چھڑی ہوتی ہے اور بید مجنوں نرم اور پتلی سی گھاس ہوتی ہے۔ مجنوں بھی جنوں کے عالم میں بھوکا پیاسا رہتے رہتے پتلا دبلا ہو جاتا ہے اور صحرا کی جانب نکل پڑتا ہے اور بید مجنوں بھی صحرا میں ہی پایا جاتا ہے۔اس مناسبت سے صحرا کا استعمال مجنوں کے ساتھ جس خوبصورتی سے استعمال ہوا ہے وہ محسوس کر نے کی چیز ہے ۔ اس کے بعد کے بہاریہ اشعار میں ذوقؔ نے مضمون میں کمال کی ندرت پیدا کی ہے۔ ماحول سازی اور فضا بندی بھی خوبصورتی کے ساتھ کی گئی ہے کہ طبیب نسخے پر ہوا لشافی لکھتا ہی ہے کہ بیمار کہتا ہے کہ شفا مل چکی۔ یعنی اب دوا لکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگرچہ یہ غلو ہے لیکن ذوقؔ نے اپنی فنکاری سے غزل کا فطری پن اور حقیقی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پیش کر دہ اشعار اگرچہ تشبیب کا حصہ ہیںلیکن مدح کا ناگزیر جز تصور کیا جائے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔اسی طریقے سے برسات کے خوبصورت موسم کا ذکر ذیل کے قصیدہ میں ہوا ہے ۔

ساون میں دیا پھر مہ ِشوال دکھائی  بر سات میں عید آئی ، قدح کش کی بن آئی

ذوق اپنے عہد کے تمام مر و جہ علوم و فنون سے باخبر تھے یہی وجہ ہے ان کے قصیدوں میں علم ِ ہیئت و نجوم ، منطق و فلسفہ ،فقہ و تفسیر ،تصوف و سلوک ، تاریخ و واقعات او ر موسیقی و طب وغیرہ کی اصطلا حات کثرت سے ملتی ہیں ۔جیسا کہ اوپر لکھے گئے قصیدے کی تشبیب میں بھی مکمل طب کی فضا نظر آتی ہے ۔کسی بھی اصطلاح سے کما حقہ واقف ہونا اور اس کواپنے کلام قدر ت سے شاعر ی میں پیش کر تے ہوئے معانی میں دوبالگی پیدا کر کے شعر ی حسن عطا کر نا بہت ہی مشکل امر ہوتا ہے، پھر منطق و فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو اشعار کے بہاؤ میں پیش کرنا اور بھی مشکل امر ہوتا ہے۔ لیکن جہاں تک ذوق کے قصائد کے مطالعہ سے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے علمی اصطلاحات کو استعمال کر کے شعر یت اور شعری حسن دونوں کو قائم رکھا ہے ۔صرف دو شعر علم ہئیت اور منطق کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں ۔

ہواہے مدرسہ یہ بزم ِ گاہ عیش و نشاط  کہ’ شمس بازغہ‘ کی جگہ پڑھے ہیں ’بدر ِ منیر ‘

اگر پیالہ ہے صغر یٰ تو ہے سبو کبریٰ نتیجہ یہ ہے کہ سر مست ہیں صغیر و کبیر 

مدر سہ جوعموماً کبھی بھی عیش و نشاط کی بزم گاہ نہیں بنی ، بننا تو دور کی بات ہے بلکہ نصابات میں بھی وہ بہت ہی خشک واقع ہوئی ہے ۔ وہاں تو حکمت جیسے خشک موضوع کے لیے بھی ’’ شمس بازغہ ‘‘ جیسی مغلق کتاب پڑھائی جاتی تھی لیکن اب تو وہ بھی ’بدر منیر ‘ کے پڑھنے پڑھا نے سے سرا پا بزم گاہ عیش و نشاط بن گیا ہے ۔شمس بازغہ مدار س میں داخل ایک نصابی کتاب تھی جو فلسفہ یونان کے دفاع میں پڑھائی جاتی تھی۔ ہندوستان میں اپنے فن پر یہ آخری کتاب تھی اس سے پہلے’ صدرا ‘ اور ’ میبذی ‘ شامل نصاب ہوا کر تی تھی ۔ (میبذی بعض مدارس میں اب بھی ہے ) گویا انہوں نے اس کتاب کاذکر محض یونہی نہیں کر دیا بلکہ ایک کی خشکی اور مغلق پن کے ساتھ دوسرے کی رنگینی اور حسن کلام کا بھی تقابل ہے ۔دوسرے شعر میں پیالہ اور سبو کی مناسبت سے علم منطق کی اصطلاح سے قضیہ کو بہت ہی خوبصورتی سے استعما ل کیا گیا ہے ۔ وہ اس طرح کہ صغریٰ اور کبریٰ منطق کے دو قضیے ہوتے ہیں ۔ جیسے قضیہ صغریٰ ’ سمندر کا پانی ہے ‘ اور قضیہ کبریٰ ’ پانی گرم ہے ‘ ان دو نوں میں جو ایک مشتر ک چیز ہے وہ ’ پانی ‘ ہے اسے حد اوسط کہتے ہیں اور یہ نتیجہ میں ساقط ہو جاتا ہے توگو یا نتیجہ ہوا ’ سمندر گر م ہے ‘ ۔ اب شعر پر نظر ڈالتے ہیں تو باد ی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے پیالہ کو صغریٰ اور سبو کو کبر یٰ کہا ہے ، ظاہری طور پر پیالہ چھوٹا  برتن ہوتا ہے اور سبو بڑا بر تن ۔ اس لیے پیا لہ کو چھوٹا اور سبو کو بڑا کہا ہے ۔ لیکن منطق کی اصطلاح میں ’ پیالہ ہے صغریٰ ‘ قضیہ صغریٰ ہوا اور ’ سبو ہے کبریٰ ‘ قضیہ کبر یٰ ہوا ۔ پیا لہ اور سبو دونوں ظر ف ہیں اس لیے اس کو حداوسط سمجھ لیا جائے ۔دوسرے مصرع میں حد اوسط گر ا کر کے نتیجہ جو نکالتے ہیں اس سے بادشاہ بھی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا ہے کہ جس کے حصہ میں جو بھی آیا خواہ صغیر ہو یا کبیر سب کے سب آپ کے کر م سے مست ہیں ۔ الغرض اس قصیدے میں کئی ایسے اشعار ہیں جن پر خود قصیدہ کو فخر ہے ۔

اس بات کا ذکر ہوچکا کہ ’کلام الملو ک ملوک الکلام ‘ لیکن اگر کلام انسانی کی بات کی جائے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ قصیدہ بھی ملوک الکلام ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ قصائد کو ہی ’ سبعہ معلقہ ‘ ہو نے کا شر ف حاصل ہوا ہے ۔اگر ملوک الکلام ( قصیدہ ) کے ساتھ ملوک الارض والسماء ( اللہ ) کا کلام بھی نگینوں کی طرح جڑ کر خوبصورتی کے ساتھ دعا کے حصے میں پیش کیا جائے تو پھر کیسے کوئی اپنے خزانے کو روک سکتا ہے : 

مصحف رخ ترا اے سایہ رب العزت  کھول دے معنی اتممت علیکم نعمت 

ذوق کے قصائد کے متعلق ناقدین کی رائے دو خانوں میں ہے ۔ ایک جنہوں نے ذوق کو اچھا قصیدہ گو شاعر ما نا ہے۔ وہ برج موہن دتاتر یہ کیفی، تنویر احمد علوی، انوار الحسن اور ابو محمد سحر ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جنہوں نے ذوق کے متعلق معمولی قصیدہ نگار کی رائے قائم کی ہے ان میں امداد امام اثر ، محمود الہی ، کلیم الدین احمد اور پر وفیسر عبدا لحق ہیں ۔ امداد اما م اثر لکھتے ہیں: ’’ مر زا رفیع سودا کے بعد قصیدہ گوئی میں شیخ ابراہیم ذوق کا ہی نمبر ہے ۔ مگر ان دونوں شاعران نامی میں پہاڑ اور ٹیلے کا فر ق ہے ۔ذوق میں ایک ربع بھی سودا کی طبیعت داری نہیں ‘‘ ۔ ابو محمد سحر لکھتے ہیں ’’ علمیت اور معنی آفرینی میں ذوق کے قصائد خاص امتیاز رکھتے ہیں ۔ علمیت کی کار فرمائی ان کے قصائد میں سودا سے زیادہ ہے ‘‘ ۔ یہ دونوں طر ف کی باتیں ہوگئیں ۔آپ نے تو علمیت کی کار فرمائی میں ذوق کے قصائد کے اشعار تو ملاحظہ کر لیے اب سودا کے اشعار سے بھی حظ اٹھائیں ۔

جبیں ایسی کہ جگر کا ماہ ہوجاوے داغ  اس کی تشبیہ سے جب ا س کو تجاوز دے فلک 

قتل کرنے کا یہ جوہر نہ ہو شمشیر کے بیچ  اس کے ابر و سے مشابہ نہ بناویں جب تک

سو داؔ 

تشبیب کے ان اشعار میں سودا نے جن شاعرانہ صناعی ، مبالغہ، رعایتوں ، مناسبتوں اور لفظی انسلاکات کو برتا ہے وہ ذوق کے یہاں نہیں ہے تا ہم تقلید بھی نہیں : 

نگاہ ساغر ، کش ِ تما شا،بیاضِ گر دن صراحی آسا وہ گول بازو، وہ گورے ساعد ، وہ پنجہ رنگیں بخونِ مرجان

کمر نزاکت سے لچکی جائے کہ ہے نزاکت کا بار اٹھا ئے  اور اس پر سو نور لہر کھائے پھر اس پہ ہیں دو قمر فروزاں 

فر ق آپ کو واضح نظر آئے گا ان میں مزید کلام کی ضرورت نہیں ہے ۔ بات صرف تشبیب تک ہی رہی تا ہم اپنے اس مضمون کو کو ثر مظہر ی کے ان الفاظ سے ختم کر تا ہوں ’’ ضر ورت اس بات کی ہے کہ ذوق کے قصائد کو غیر جانبداری اور ایمانداری کے ساتھ دیکھا ، پڑھا اور پرکھا جائے ورنہ وہی بات کہی اور دہرائی جاتی رہے گی کہ قصیدہ میں سودا بڑا اور غزل میں غالب ، قصہ تمام ۔ ادب کی قرات اور تفہیم کا یہ رویہ سراسر معاندانہ لگتا ہے ‘‘ ( شیخ محمد ابرا ہیم ذوق ، کوثر مظہر ی ، ص ۶۰ ) 

ِAmir Hamzah 

L 11, Second Floor, Haji colony

Jamia Nagar, New Delhi .110025

8877550086

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...