Tuesday 27 December 2022

2022 کااردو زبان و ادب

 ۲۰۲۲ کااردو زبان و ادب 

ڈاکٹرامیرحمزہ 

ادب و زبان کے حوالے سے اس سال نے ہمیں بہت کچھ دیا تو ہم بہت کچھ لے بھی لیا ہے ، بلا کسی تمہید کے اطراف و جوانب کا جائزہ لیتے ہیں۔

 شروع کرتے سب سے پہلے صحافت سے کیونکہ ۲۰۲۲ صحا فت کی دو صدی کے جشن کے طور پر منایا گیا ۔ ہندو ستان کے مختلف شہر وں میں اعلی درجے کے سمینا ر منعقد کیے گئے ۔جس میں اردو صحافت کے نشیب و فراز پر گفتگو ہوئی ۔ بزم صدف انٹرنیشنل کے تحت پٹنہ ، کلکتہ اور حیدرآباد میں۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ور سٹی کے زیر اہتمام یونی ورسٹی کیمپس میں، خلافت ہاؤس ممبئی میں، غالب اکیڈمی دہلی اور بنگال میںبھی صحافت کے دو سو سالہ جشن پر خوب جشن ہوا ۔ اس میں ایک جشن بہت اعلی پیمانہ پر ملک کی بڑی ہستیوں کی شرکت کے ساتھ سینئر صحافی معصوم مرادآبادی کی نگرانی میں منعقد ہوا ۔ اب سال گز رنے والا ہے ایسے میں صحافت کے موجودہ منظر نا مے پر غور کریں توRNI کے مطابق 2015-16 میں 5,17,75,006 اردو اخبارات کی کاپیوں کی سر کولیشن کا دعویٰ کیا گیا تھا جو بتدریج سا بقہ تین برسوں سے بڑھ رہا تھا لیکن 20120-21 میں سرکلیشن کا دعویٰ 2,61,14,412 کا ہی ہے ۔ تقریبا پچاس فیصد گراوٹ کی وجہ شاید کورونا رہی ہو کیونکہ بہت سارے اخبارات دم ٹوڑچکے تھے ۔ لیکن جو اخبارا بڑے پیمانے پر مختلف شہروں سے شائع ہورہے ہیں ان کے ایڈیشن پر بات کریں تو کوئی نیا ایڈیشن کہیں سے نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی اردو میں کسی عمدہ اخبار کی ابتدا کی خبر ملتی ہے ۔ قومی کونسل کی جانب سے جاری کردہ ایک فہرست کے مطابق ہندوستان میں 81 اردو اخبارات نکل رہے ہیں، ان میں سے 20 دہلی سے ہی شائع ہوتے ہیں ۔ صحافت کی نظر سے 2022 کو اس لیے بھی یاد رکھا جائے گا کہ UNI کی سروس بند کر دی گئی ۔ ہاں پور ٹلس میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بات کی جائے تو ٹیلی ویژن میں اردو اپنا پیر سمیٹ رہی  ہے سوائے ای ٹی وی اردو ، ای ٹی وی بھارت کے ۔ ڈی ، ڈی اردو میں صر ایک بلیٹں جارہا ہے ۔ ریڈیو کی سروس کورونا سے پہلے اکیس گھنٹے سے زائد تھی اور آج صرف دس گھنٹوں میں سمٹ کررہ گئی ہے جس کی وجہ سے اردو کے بہت سارے پروگرام بھی ختم ہوگئے ۔ اردو مجلس کا پرو گرام بھی ایک دو گھنٹے پر ہی محصور ہوکر رہ گیا ہے ، ٹوڈا پور کا نیشنل چینل کورنا سے پہلے ہی بند ہوچکا ہے ۔ہفتہ واری رسائل تو اب نکل ہی نہیں رہے ہیں ، گھریلوڈائجسٹ جو بہت ہی اہتمام کے  ساتھ شائع ہوا کرتے تھے وہ بھی کورنا کے بعداس بر س منظر عام پر آنے کی ہمت نہیں کرسکے ۔

 ادبی صحافت کی بات کی جائے تو دلی کے سرکاری ماہناموں کے علاوہ اردو ادب کی نمائندگی کرنے والے دیگر ماہناموں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے ۔ کورونا کے بعد اس بر س سہ ماہی رسالوں کی کارکردگی بہتر دیکھنے کو ملی جن میں عالمی فلک ، ثالث ، دربھنگہ ٹائمز ، مژگاں ، اردو جرنل پٹنہ ،جہان اردو ، نیاورق ،تمثیل نو، دیدبان ، ساغرادب ، اثبات ، انتساب ، استفسار ، امروز ، رہروان ادب ، انشا ، فکر و تحریر ،تکمیل ، تفہیم،جدید فکرو فن، عالمی ادبستان و دیگر نے خوب محنت کی۔سر کاری میں، فکرو تحقیق، ادب و ثقافت ،زبان و ادب، روح ادب ، شیرازہ ، ہندوستانی زبان، بھاشا سنگم ، فروغ ادب وغیرہ نکل رہے ہیں۔ شروع کے چند یقینا اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیںو دیگر خصوصی نمبرات کی وجہ سے ادب کی خدمت بخوبی اداکررہے ہیں۔ غیر سرکا ری ماہناموں میں ’’پیش رفت ‘‘ و ’’تریاق ‘‘کی اچھی پیش رفت دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ماہنامہ شاعر اس بر س چرا غ سحر ی کی شکل اختیار کرگیا۔ 

صحافت کے اس یاد گار سال میں صحافت پر’’اردو صحافت دو صدی کا احتساب ‘‘(صفدر امام قادر ی ) کتابیات صحافت ( محمد ذاکر حسین ) اردو صحافت تجزیاتی اور لسانی ڈسکور س (محمد جہانگیر وارثی و صباح الدین احمد ) مغربی بنگال میں اردو صحافت (محمد شکیل اختر ) جدید اردو صحافت کا معمار قومی آواز، جی ڈی چند کی نادر صحافتی تحریریں (سہیل انجم ) منظر عام پر آئے ۔

اب کتابوں کی دنیا کی بات کریں تواس سال فکشن پر زیادہ چرچے ہوئے ۔ اسے گزشتہ چندبرسوں کی محنت کا ثمرہ بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ ناول کی فضا مستقل ہموار کی گئی جس کے نتیجے میں ناول کے جدید قاری اور ناقد بھی سامنے آئے، ساتھ ہی ناول تنقید کی نئی زبان بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔یقینا قاری کی پہلی پسند اس سال ناول رہی کیونکہ جس چیز کے چرچے زیادہ ہوں گے عوام میں بھی وہی زیادہ جگہ بنائے گی اسی وجہ سے گزشتہ چند برسوں میں جو ناول لکھے گئے تھے ان پر اس سال گفتگو بھی زیادہ ہوئی جس پر پرو فیسر کوثر مظہر ی اور ڈاکٹر امتیاز علیمی کی ’’ نیا ناول نیا تناظر ‘‘ اور انتخاب حمید کی ’’ ارو کے نئے ناول صنفی و جمالیاتی منطق ‘‘ سال کے شروع میں منظر عام پر آئے جو ناول مذاکرات میں مزید معاون ثابت ہوئے ۔ناول کی دنیا میں خالد جاوید نئے انداز و موضوعات کی وجہ سے پہلے سے نمایاں تھے جے سی بی ایوارڈ نے خالد جاوید کے ساتھ اردو ناولوں کو بھی ممتاز کیا ۔اس بر س کی چند قابل ذکر کتابیںدرج ذیل ہیں ۔

ناول ارسلان اور بہزاد(خالدجاوید) نصف صدی کا قصہ ( سیدمحمد اشرف ) سسٹم (عبدالصمد) شہر ذات (شاہد اختر )  صفر کی تو ہین ، جو کر (اشعر نجمی ) زندیق ( رحمن عباس) ڈھولی ڈگڑوڈوم( غیاث الرحمن سید) درد کا چاند بجھ گیا (ڈاکٹر اعظم ) نئی نسل سے حمیرا عالیہ کا ناول ’’ محصور پرندوں کا آسمان‘‘۔ افسانے  تشبیہ میں تقلیب کا بیا نیہ ( نورین علی حق ) کر ب نا تمام ( شاہین نظر )راستے خاموش ہیں (مکرم نیاز )۔شاعریکٹھ پتلی کا خواب (صادق ) دو کنارے ( سرور ساجد ) بار زیاں ( یعقوب یا ور ) قر ض جاں (عدیل زیدی) قسط (صابر ) دختر نیل (ولا جمال العسیلی)دھوپ چھاؤں کا رقص (شبانہ عشرت )عشق دوبارہ ہوسکتا ہے (رخشاں ہاشمی )

 خود نوشتہندوستانی سیاست اور میری زندگی (محسنہ قدوائی ) نہ ابتدا کی خبر ہے نہ (شارب ردولوی ) دیکھ لی دنیا ہم نے (غضنفر ) طفل برہنہ پا کا عروج ( جلیس احمد خاں ترین ) علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور میری داستان حیات (الما لطیف شمسی) 

 تنقید  غالب : دنیائے معانی کا مطالعہ (انیس اشفاق )اکبر الہ آبادی شخصیت اور عہد،مخاطبت ،باقیات سہیل عظیم آباد ی ، دھوپ چھاؤں(ارتضیٰ کریم) گمشدہ معانی کی تلاش (سر ور رالہدی ) معاصر ارد ادب میں نئے تخلیقی رویے (صدیق الرحمن قدوائی)ترقی پسند تحریک اور اردو شاعری (یعقوب یاور ) 

شاداں فاروقی حیات و خدمات (مجیر آزاد )جدید اردو افسانے کا فکر ی و فنی منظر نامہ (حیدر علی )

غالب کا خود منتحب فارسی کلام اور اس کا طالب علمانہ مطالعہ (بیدار بخت ) غالب اور عالمی انسانی قدریں (ادریس احمد )جدیدیت اور غزل ( معید رشید ی) اردو ناول نظر ی و عملی تنقید ( سفینہ بیگم ) شعرائے کرناٹک (انوپما پول)تحقیق و تدوین تعلیمی سفرنا مے ، (شمس بدایونی )رشید حسن خاں اور شمس بدایونی کا ادبی رشتہ ، مقالات رشید حسن خاں، رشید حسن خاں اور اردو محققین(ٹی آر رینا )کلیات مکتوبات سر سید (عطا خورشید) اثرات شبلی دو جلد ( محمد الیاس اعظمی) رفقائے سر سید ( افتخار عالم خاں ) رباعی تحقیق (امیر حمزہ ) مقالات طارق (طارق جمیل )اردو املا مسائل اور مباحث ( ابرا ہیم افسر ) غبار فکر (اجے مالوی )بچوں کی کتابیں تعارف و تذکرہ ( عطا عابدی) خاکے  جنھیں میں نے دیکھا جنھیں میں نے جانا (شمع افروز زیدی ) کیسے کیسے آسماں (فاروق اعظم قاسمی )رہ و رسم آشنائی (اطہر صدیقی )۔ترجمیکی بات کی جائے تو یہ بر س ترجمہ کے لیے بہت ہی اچھا رہا ہے ہر فن کی کتابوں کا اردو میں تر جمہ کی جانب رجحان بڑھا ہے ساتھ ہی چند پبلیشر ایسے بھی ہیں جو تراجم کو شائع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیںچند تر جمہ شدہ کتابیں یہ ہیں۔ مغموم صنوبر ، زہراب نیل ، گاڈ فادر ، ڈاکٹر زاگو، جہنم ، سسیلیانو، آخری ڈان، اومیرتا ، فلسفہ جے کرشن مورتی ( یعقوب یاور )کشمیر نامہ ، ہندوستانی مسلمان اور نشاط ثانیہ (عبدالسمیع )گواڑ (نوشاد منظر )مسلم یو نی ورسٹی کے قیام کی مہم ( عبد الصبور قدوائی )کھر ونچ (متھن کمار ) ۔متفرقات جہان علی گڑھ (راحت ابرار )چار کھونٹ (ابن کنول)ممبئی کی بزم علمیہ ( عبدالستار دلوی )مقالات ابن احمد نقوی (سہیل انجم ) ۔

اس سال شخصیات پر زیادہ کتابیں نظر نہیں آتی ہیں البتہ پر وفیسر صادق کی شخصیت و فن پر چند کتابیں اسی سال نظر سے گزری ہیں۔ صادق کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری (اسرا فاطمہ ) صادق کے تحقیقی مضامین (شا ہینہ تبسم ) صادق کے تنقیدی مضامین ( ارشاد احمد ) صادق کے ہندی مضامین (ابراہیم افسر ) صادق دکن دیس میں (عبدالقادر ) اصناف ادب اور صادق ( انتخاب حمید ) 

یقینا ہزار کے قریب کتابیں اس سال شائع ہوئی ہوں گی جن میں سب تک رسائی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی سب کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔ 

اشاعتی دنیا کی بات کی جائے تو سبھی کے علم میں ہے کہ ادبی کتابوں کے اشاعتی مرکز دہلی ہے ۔ ملک بھر کے ادیبوں کی کتابیں یہاں سے شائع ہوتی رہتی ہیں گزشتہ بر س قومی کونسل نے 303 مسودات کو منظور کیا تھا یقینا ان میں سے زیادہ تر دہلی سے ہی شائع ہوئے ہوں گے اور یہ بھی گمان ہے کہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤ س نے ہی زیادہ کتابیں چھاپی ہوںگی ۔عرشیہ نے صرف اس سال تقریبا چالیس سے پچاس نئے ٹائٹل شائع کیے ہیں ۔ایم آر پبلی کیشن کریٹواسٹار ، 30۔ مر کزی پبلی کیشنز60، عذرا بک ٹریڈر س نے 32 ، عبارت پبلیکیشن جو اسی سال اسٹیبلش ہوا ہے اس نے پندرہ ادبی کتابیں شائع کی ہیں۔ بڑے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی بات کی جائے تو کونسل سے زیادہ تر کتابیں ری پرنٹ ہوئی ہیں البتہ چند نئی کتابیں بھی آئیں ہیں ، اردو اکادمی دہلی نے کوئی نیا ٹائٹل نہیں چھاپا ، اردو گھر نے دس سے کم ہی نئی کتابیں شائع کی ہیں ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ نے بھی تقریبا دس نئی کتابیں چھاپیں ۔

جشن دہلی میں دو جشن ہوا کرتے تھے ، جشن ریختہ کی جانب کشش یقینا اردو کی کشش ہے جسے میں نے جشن میں موجود حاشیائی آوازوں سے محسوس کیا ہے ، اردو اکیڈمی کا اردو وراثت میلہ منعقد نہیں ہوا ،قومی کونسل کا عالمی سمینا ر بھی کو رونا کے بعد نہیں ہوسکا ہے ، ادرو گھر کا سمینا ر کئی برسوں سے نہیں ہوا ۔ 

وفیات کا ذکرو ں تو ابرار کرتپوری،ابراہیم اشک،اشرف استھانوی ،اظہار عثمانی،پروفیسر گوپی چند نارنگ،پروفیسرمینیجر پانڈے،پروفیسر اسلم آزاد،پروفیسر اصغر عباس،پروفیسر جعفر رضا

پروفیسر حسین الحق،پروفیسر خورشید سمیع،پروفیسر عطیہ نشاط خان،حیدر بیابانی،خالد عابدی،ڈاکٹر کمار پانی پتی ،ڈاکٹر نادر علی خاں،ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی،کرامت علی کرامت، متین اچل پور ی ،مظفر حسین سید،مولانسیم شاہ قیصر،برقی اعظمی جیسی شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں ۔

ریسر چ اسکالر س کی دنیا کی بات کی جائے تو ہر سال تقریبا دو سو اردو کے طلبہ ڈاکٹر یٹ کی ڈگری حاصل کرتے ہیں یہ تعداد یقینا قابل تحسین ہے۔ طلبہ کے عمدہ مضامین اور کتابیں بھی منظر عام پر آرہی ہیں ، اس برس کے عالمی ریسرچ اسکالرز سمینار غالب انسٹی ٹیوٹ میں یہ دیکھنے کو ملا کہ سابقہ کے مقابلے عمدہ مقالات کے ساتھ اچھے طلبہ کی شرکت تھی ۔ سب سے زیادہ سوال ریڈر شپ پر آتا ہے اوراس کا پیمانہ کتاب کی فروختگی ہے۔ اس کا جواب بھی یقینا ان ہی کے پاس ہے کیونکہ جب طلبہ فوٹو کاپی سے در س حاصل کریںگے تو کتاب سے دلچسپی کہاں قائم ہوگی اور نوٹ پر منحصر رہیںگے تو کتاب کی قرأت کی جانب کہاں راغب ہوںگے ۔ سوال کا جواب ہمارے پاس ہے اردو کی ترقی ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے جو چیزیں (نوٹ ، فوٹی کاپی ، پی ڈی ایف )سم قاتل ہیں ہم انہی کو فروغ دیے جارہیں ۔





No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...