Wednesday 21 December 2022

کردار نگاری و اقسام کردار kirdar nigari wa aqsam e kirdar

 کردار نگاری و اقسام کردار 

امیر حمزہ ، دہلی 


کردار افسانوی ادب میں روح کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جہاں تک کردار سفر کرتا ہے افسانوی ادب بھی سفر کرتا رہتا ہے ۔ داستا ن ہو یا ناول ، ڈرامہ ہو یا افسانہ ، داستانوی مثنوی ہو یا منظوم قصے یا ہر وہ ادب جہاں قصے کا عمل دخل ہے وہاں کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ کسی بھی قصہ کے کر دار عموما انسا ن ہی ہوتے ہیں، جانداروں کے کردار بھی قدیم و جدید افسانوں میں نمایاں طور پرپڑھنے کو ملتے ہیں ،غیر جاندار کرداروں سے بھی اب افسانوی دنیا مجہول نہیں، لیکن مؤخر الذکر دونوں یا تو علامات کے طور پر سامنے آتے ہیں یا پھر انسانی کرداروں کے بدل کے طور پر ۔البتہ جانداروں کے جزوی کردار اپنی اصل ہیئت میں سامنے آتے رہتے ہیں ۔ 

کردار نگاری اپنے وسیع مفہوم میں نہ صرف ناول بلکہ ادب کے دیگر اصناف میں بھی پائی جاتی ہے ، تاریخ ، سیرت ، سوانح ، خود نوشت، خاکہ ، انشائیہ ، ڈرامہ ،افسانہ ، نظم ، مثنوی ، مرثیہ اور داستان میں کردا ر موجود ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی کردار نگاری کی بات کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ناول کی کردار نگار ی سامنے آتی ہے کیونکہ یہاں کردار اپنا مکمل عکس پیش کرتا ہے۔ اس اعتبار سے کردار نگاری میں ادب کی کوئی دوسری صنف ناول کا مقابلہ نہیںکرسکتی ۔ کیونکہ ناول کے کردار گہرے مشاہدے ، تجربے اور فنی تکمیل کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔

کر دار نگار ی کسی عمومی فرد یا بطور فرد استعمال ہونے والے کردار میں خصلت نگاری کا فن ہے ، جس میں ناول نگار افرادِ قصہ کے ایک فرد میں مخصوص عادات و اطواراور خصائل و طبیعت پیدا کرتا ہے تاکہ اس کی ہستی دیگر سے منفرد ہوجائے اور اگر اسے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرنا ہے تو پھر اس کی خصلت کی تراش و خراش میں مزید محنت کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے جملہ افراد ِقصہ میں نمایاں ہوجائے اور ادب میں عرصہ دراز تک منفرد رہ سکے۔ ایسے میں کامیاب کردار نگار وہی بن پاتا ہے جس کے پاس گہرے مشاہدے اور بھرپور تجربے کے ساتھ وفور علم بھی ہو ، نیز اسلوب پیش کش میں نمایاںلسانی صلاحیت بھی رکھتا ہو تاکہ قاری پر وہ گراں نہ گزرے ۔ یعنی کردار نگار اشخاص قصہ کی طبیعت ، سرشت ، عادا ت و اطوار میں ایسی امتیازی خصوصیات پیدا کردیتا ہے جس سے وہ مکمل معاشرہ کا فرد لگے اور ممیز خصوصیات کی وجہ سے امتیازی کردار کا حامل ہو جائے ۔ 

کردار کے حقیقی معنی سے ہم سب واقف ہیں لیکن یہ لفظ فکشن کی دنیا میں ہمیشہ مجازی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ چند لفظوں سے کردار کے بارے میں فکشن سے پرے جانے کی کوشش کر تے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی چیز(جانداروغیر جاندار) اپنے لیے لفظ کردار تک اس وقت پہنچ پاتی ہے جب وہ منفرد خصوصیات اور ممیز علامات کی حامل ہوجائیں۔ فکشن کے منضبط ہونے سے پہلے سے ہی لفظ کردار اپنے ممتاز معنی میں مستعمل ملتا ہے ،  کردار جب قوموں کے ساتھ لکھا ملتا ہے تووہاں قوم کی کوئی نمایاں خصوصیت مراد ہوتی ہے ۔ الغرض لفظ کردار کا استعمال کسی ممتازصفت و علامت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ کردارجب اجتماعیت سے انفراد یت کی جانب سفر ہوا انفرادیت کے لیے مستعمل ہونے لگا ۔ اب عالم یہ ہے کہ اجتماعیت کے لیے کردار کا استعمال نہ ہوکر زیادہ تر انفرادیت کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ یہ کردا ر کے معنی میں ہی پوشیدہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک نقطہ پر مرکوز ہو خوا ہ وہ نقطہ کثیر (فرد، مقام ) پر محیط ہو یا قلیل پر ۔ اس کو درج ذیل دو تعریفوں سے سمجھتے ہیں :

’’ ایک شخصیت جسے کسی ناول نگار یا ڈرامہ نگار نے نمایاں اوصاف و خصائص بخش دیے ہوں ۔ ‘‘

’’کسی چیز کی ممیز خصوصیات اور خصوصا کسی فرد بشر کے اخلاقی اور ذہنی اوصاف ، ان اوصاف کا مجموعہ جو اسے شخص کی حیثیت سے ممیزکریں ‘‘ 

پہلی تعریف میں شخصیت ہے جو عمومیت سے ہمیشہ ممتاز ہوتی ہے کیونکہ وہ نمایا ں اوصاف و خصوصیات کی مالک ہوتی ہے ۔ اس کو کہانی کا ر تخلیق کرتا ہے ۔ دو سری تعریف میں لفظ ’چیز ‘ میں جاندار و غیر جاندار سب داخل ہوجاتے ہیں پھر اس کو مخصوص کرتے ہیں ’’ممیز ‘‘ سے ، مزید مخصوص کرتے ہیں فرد بشر سے ، اب اس اختصاص میں بھی اخلاقی و ذہنی اوصاف سے ۔ گویا کردار اختصاص پر مرکوز ہوتا جاتا ہے اور یہ ایک پیرامڈ کی صورت میں اختتام کو پہنچتا ہے تب جاکر کوئی کردار تیار ہوتا ہے ۔ یہاں ذہن میں ایک سوال تو ابھرے گا کہ اردو کے اکثر ناولوں میں وہ کرادا ر اپنائے گئے ہیں جو شخصیت کے مالک نہیں ہوتے ہیں۔ سوال بالکل بجاہے لیکن یہاں شخصیت عرف عام سے مختلف نظر آتی ہے۔ فکشن میں ہم کوئی بھی عام کردار اٹھاتے ہیں جو نمایاں خصوصیات کی وجہ سے اپنے گروہ ، قبیلہ یا جماعت کی نمائندگی کرتا ہے پھر تخلیق کار کی قوت متخیلہ اس میں اختصاص کی کیفیت پیدا کرکے شخصیت( بمعنی ممتاز )کے خانے میں لے جاتا ہے ۔ 

کردار حقیقی ہو یا افسانوی دونو ںمیں کردار کی تعمیر کے لیے شخصیت کی تعمیر سے گہرا ربط ہوتا ہے اور شخصیت ظاہر و باطن دونوںکا نام ہوتاہے توکردار میں بھی ظاہر و باطن دونوں کی عکاسی کی حتی الامکان کو شش کی جاتی ہے۔ بلکہ فکشن میں کردار کو باطنی جذبات( مہیجات و رجحانات ، اشتہا ؤ تمنا ، تصورو فکر، فریب کاری ، منافقت اور ابن الوقتی ودیگر) سے ہی سینچا جاتا ہے اور ان سب کو اطورا کا نام دیا جاتا ہے ۔ الغرض یہاں سے معکوسی ترتیب دیکھیں تو اطوار سے شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے اور شخصیت سے کردار وجود میں آتا ہے جس کو اس کے افعال وجذبات کی نمائندگی کے ساتھ پیش کرنا ہوتا ہے ۔ 

ہر انسان کی شخصیت کے دو پہلو ہوتے ہیں جو تاریخ اور فکشن سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں ۔ قابل مشاہدہ باتیں تاریخ کے لیے مواد ہوتے ہیں ۔ تاریخ سے آگے جذبات سے متعلق باتیں ، خواب ،مسرت ،غم و یاس، خود کلامی ، عشق و محبت و دیگر جس کے اظہار میں شرم و اخلاق حائل ہوتے ہیں ، انسانی فطرت کے اسی پہلو کو تاریخ سے آگے بڑھ کر ناول نگار پیش کرتا ہے ۔  اس کردار سازی میں وہ شخصیت سے قریب ہوکر اس شخصیت کو کردار کے سانچے میں پیش کرتا ہے تب جاکر فکشن کا کردار تیار ہوتا ہے ۔ 

و تاریخی اور تخلیقی کردار میں سب سے نمایاں فرق یہیں سے سامنے آتا ہے ۔ ظاہر ی افعال و اعمال جو واقعات کی سطح پر عوام الناس کے سامنے آجاتے ہیں اور زندگی کے کردار ہوتے ہیں ۔ یعنی اگرکوئی کردار زندگی کے حقیقی کردار سے ہو بہو مل رہا ہے تو وہ ناول کا نہ ہو کر تذکر ہ کا ثابت ہوگا اور تذکرہ تاریخ ہے جس کی بنیاد واقعات پرہے ۔ واقعات کی ہی کسی ایک کڑی کو پکڑ کر تخلیق کار اپنی قوت متخیلہ سے وہ ساری چیزیں پیش کرتا ہے جس سے کردار کو حقیقی کردار سے الگ کرکے فکشن کا کردار بناتا ہے۔ اس کردار سازی میں وہ کتنا کردار کے اندر اتر پاتا ہے یہ اس کے قوت متخیلہ سے ہی ہوتا ہے ۔ کوئی تخلیق کار جب کسی کردار کو تراشتا ہے تو وہ اس کردار کے ذہن کو خود میں نہیں داخل کرتا ہے بلکہ اپنے ذہن سے کردار کو اپنے مطابق ڈھا لتا ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی کردار اگر مختلف تخلیق کار کے یہاں وجود میں آیا ہے تو ہر ایک نے اپنے تخیل سے ہی اس میں رنگ بھر ا ہے ۔ ایسے میں کردار کو پڑھنے او ر سمجھنے کے انداز بھی الگ ہوجاتے ہیں ۔ اگر کوئی کردار جانا پہچانا ہے اور حقیقی زندگی میں اسے جانتے بھی ہیں لیکن روز مرہ کی زندگی میں اس کی شخصیت نمایاں نہیں ہے۔ ایسے میں تخلیق کار اس عمومی کردار کے کسی ایک حقیقی واقعہ کو لیکر اس کے داخل و خار ج کو ہر قاری کے لیے آئینہ کی طرح صاف و شفاف بنا کر پیش کر دیتا ہے ۔ بلکہ اس سے ایک قدم اور آگے اس کے داخلی اور خارجی زندگی کے راز سر بستہ کو نہاں نہیں بلکہ عیاں کرتا ہے ۔ جبکہ خارجی زندگی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے کیونکہ زندگی کی اہم شرائط میں سے ایک رازدار ی ہے جو ناول نگار اس پردہ کو چاک کردیتا ہے اور جذبات و احساسات کی وسیع دنیا قاری کے لیے تخلیق کردیتا ہے ۔پھرقاری ناول کی دنیا اور حقیقی دنیا کو دیکھتا ہے تو ناول نگار کے کردار تراشی کا قائل ہوجاتا ہے ۔ 

ای ایم فار سٹر(Edward Morgan Forster  ) کے نظریہ کے مطابق ناول نگار کسی بھی کردار کی پیدائش ،غذا ،نیند،محبت اورموت  پر محیط زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ناول حقیقت یا حقیقت نما کو پیش کرنے کا فن کہلاتا ہے ، تخلیق میں صرف ناول کو ہی مختص کرکے کردا ر پر بات کی جائے تو ناول نگار کسی بھی کردار میں وہی پیش کرتا ہے جو ناول نگار کے ذہن میں اسٹور ہوتاہے یعنی وہ اپنی وسیع معلومات و مشاہدات کی دنیا سے ہی چیزوں کو چن کر لاتا ہے اور انہیں کرداروں کے ساتھ منطبق کر کے پیش کردیتا ہے۔ اب زندگی کے ہر ایک عنصر پر بات کر تے ہیں ۔

پیدائش ۔ اس متعلق تخلیق کار سائنسی طور پر معلومات تو رکھتا ہے لیکن تجرباتی طور پر کچھ بھی نہیں جانتا، کیو نکہ یہ اس وقت عمل میں آتا ہے جن کے تجربات ذہن میں محفوظ نہیں ہوتے ۔ اگر کردار میں ماں ہے تو وہ زچگی کی کیفیات کی ترجمانی کرسکتی ہے ، اگر معالج ہے تو وہ زچہ کی کیفیات اور بچہ کی صورت کی ترجمانی کرسکتی ہے ، لیکن تخلیق کار خو د اس عالم رنگ و بومیں آنے کی صورت کو بیان نہیں کرسکتا ہے کیونکہ وہ چیزیں ذہن میں کبھی بھی محفوظ نہیں ہوئی ہیں ۔ اس لیے ہر تخلیق کار ان جذبات کی عکاسی میں ناکام رہتا ہے اور بقول ای ایم فورسٹر ایسے کردار کو پیش کرنے میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسے پارسل سے بھیچا گیا ہو ۔  کچھی یہی کیفیات موت کی ہے جس میں ناول نگار ایک ایسی تصوراتی دنیا کی تعمیر کرتا ہے۔

حصول غذا: یہ پیدائش سے موت تک جاری رہتا ہے لیکن ناول نگار کے لیے یہ لازم نہیں کہ وہ کسی بھی کردار کی زندگی کے اس حصہ پر مکمل توجہ دے ۔عمومی زندگی میں جو بات کہی جاتی ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا ہے، اس کی کامیاب عکاسی اردو ناولوں میں بہت ہی زیادہ ملتی ہے ۔ ہزاروں کہانیاں اور سیکڑوں ناول حصول غذا کی جد و جہد پر لکھی گئی ہیں ،جس طر ح سے غذا کے حصول کے ذرائع مختلف ہوتے ہیں اسی اعتبار سے سیکڑ و ں الگ الگ کردا ر اس موضوع پر سامنے آتے ہیں ۔ 

زندگی کا چوتھا جزو اعظم نیند ہے ، عالم تنہائی میں گزارے اوقات سے بھی زیادہ وقت نیند کا ہوتا ہے۔ نیند میں ہر کوئی ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاںاسے اپنے بارے میں بھی کچھ نہیں پتہ ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھی خواب کی صورت میں جن چیزوں سے رو برو ہوتا ہے وہ اس کی سوچ کے مطابق ایک معتد بہ وقفے پر محیط ہوتا ہے لیکن جاگنے کے بعد اس دنیا کے دھندلے نقوش ہی بتا پاتا ہے۔ عالم خواب میں جن مناظر سے گزرتا ہے اس کی عکاسی تو کرسکتا ہے لیکن خواب کی دنیا کے جذبات کی عکاسی سے وہ قاصر رہتا ۔ یعنی وہاں وہ افعال روئیہ کی تشریح کرسکتا ہے لیکن جذبات کی مکمل عکاسی سے عاری ہوگا ۔ نیند کے حصہ کو بیا ن کرنے کے بعد ای ایم فارسٹر کہتے ہیں کہ نیند زندگی کے ایک بڑے حصہ پر محیط ہوتی ہے جس طرح تاریخ اس حصہ کو کبھی پیش نہیں کرتی ہے تو کیا افسانوی ادب بھی وہی رجحان اختیار کرتا ہے یعنی فکشن نگار کیا کسی کی نیند میں گزری ہوئی زندگی کو پیش کر پاتا ہے ۔ جبکہ یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ ذہن میں چلتا رہتا ہے وہ نیند میں بھی بشکل خواب کچھ نہ کچھ دیکھتا رہتا ہے ۔ کبھی وہ بھی نہ ہوکر ایک اساطیری دنیا میں ہوتا ہے ۔ جس کی عکاسی مشکل ہوتی ہے جبکہ وہ فرد ایک مخصوص جذبات کے ساتہ اس اسطوری دنیا کا مسافر ہوتا ہے ۔ 

محبت یہ ایک ایسا لفظ ہے جو جذبات کے پورے مجموعے کو احاطہ کرتا ہے اور وسیع و بسیط تجربے کی نمائندگی کرتا ہے جس سے ہر انسان گزرتا ہے۔ فکشن کی دنیا کے لیے یہ سب سے اہم عنصر ہے کیونکہ باقی عناصر کا تعلق قابل مشاہدہ عمل سے ہوتا ہے جو تاریخ میں بھی رقم ہوجاتی ہیں لیکن محبت جو تمام جذبات کی نمائندگی کرتا ہے اس کی عکاسی فکشن میں ہی ممکن ہوپاتی ہے ۔ جنسی محبت کی تمام کیفیات، دو ستوں کی محبت ، خدا کی محبت ، وطن کی محبت ،کچھ حاصل کرنے کا دھن ، ثابت کرنے کا جنون ، زندگی جینے میں ہر قسم کی دشواریوں کو برداشت کر خوشی پانے کا جتن الغرض تمام اعمال کے مخفی جذبات کی عکاسی کے لیے ایک کردار کو کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے جن کے لیے تخلیق کار اپنی پوری قوتِ تخلیق صرف کرتا ہے تب جا کر ایک تخلیق نمایاں کردار کے ساتھ اپنی شناخت بنا پاتی ہے ۔ 

موت دنیا میں فلسفیوں نے بہت ہی زیادہ جس حقیقت کو اپنے فلسفے میں بیان کر نے کی کوشش کی ہے وہ مو ت ہے ۔اس کو سب سے زیادہ مشاہدہ کے تجربہ پر بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں ناول نگار موت طاری ہونے سے زیادہ موت طاری کرنے کے فن سے واقف ہوتا ہے۔ اس میں بھی کر دار کے جذبات کی عکاسی مکمل طور پر ہوتی ہے کبھی کبھی تخلیق کار کردار کو موت کے قریب لے جاتا ہے پھر کہانی میں واپس لا کر نئی کہانی شروع کردیتا ہے ، یہ تو کہانی کی مانگ پر منحصر ہے یہاں اس عنصر کا اصل معاملہ موت کے جذبات کی عکاسی ہے ، جس تجربے سے کوئی بھی نہیں گزرا ہوتا ہے، پھر بھی مشاہدہ کی بنا پر اس کی عکاسی کردی جاتی ہے ۔ ایسا معقول بھی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تمام مخلوقات ارضی موت کے وقت کا مشاہدہ تو کرسکتی ہیںلیکن محسوس نہیں کرسکتی، الغرض پیدا ئش و موت دو نوں کے جذبات کی عکاسی سے تخلیق کار عاجز ہوتا ہے اور مشاہدہ کے عمل سے جذبات کے رنگ بھرنے کی کامیاب کوشش کرتاہے۔ 

مذکورہ بالا عناصر میں ناول نگار کردار کے اخلاق ، عادات و حرکات میں کتنی ہی قطعیت سے کام لے پھر بھی اس کی عکاسی کو افسانوی ماحول میں ذہنی تخلیق اور خیالی دنیا کی اپج ہی کہا جاتا ہے اور وہ کردار فرضی یا حقیقت کا عکس لیے ہوئے ایسا امر ہوجاتا ہے کہ آپ آس پاس میں تلاش کریں تو اس جیسا ملنا محال ہوگا ۔

کردار دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جن سے ہم خارجی دنیا میں متعارف ہوتے ہیں لیکن اپنی بصیرت و بصارت سے وہ چیز نہیں دیکھ پاتے ہیں جو تخلیق کار اپنی تخلیق میں نمایا ں کرکے پیش کردیتا ہے ۔ یہ کردار دو طرح سے ہمار ے ذہن میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ غائبین اس کو حقیقت مان لیتے ہیں اور حاضرین اس میں ان خصوصیات کو تلاش کرنے لگتے ہیں جس کا ذکر کردار کی تخلیق میں کیا گیا ہے ۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے وہ قاری کا ذہن ہی بتا سکتا ہے ۔ دوسرے کردار وہ ہوتے ہیں جو خارجی دنیا کے نہیں بلکہ وہ مکمل طور پر تخلیق کا ر کی اپج ہوتے ہیں لیکن اس کی تراش و خراش مکمل طور پر خارجی دنیا کے فرد پر کی جاتی ہے جس کا اثر قاری پر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آس پڑوس میں ویسے کردار کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ، اس میں تلاش عموم بھی ہوتا ہے اور تلاش خصوص بھی ۔تو کردار کی یہ دوسری قسم زیادہ پائیدار ہوتا ہے پہلی سے ۔ کیونکہ یہ وقت کے ساتھ سیال ہوتا ہے اور کسی نہ کسی خصلت کی وجہ سے ہر عہدمیں وہ کردار سامنے آتے رہتا ہے ، جبکہ معلوم کردار میں فنکار ایک مردہ کردار کو زندہ کردیتا ہے جس کو اپنے وقت کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے ۔

ناولو ں میں کرداروں کو کب پیش کیا جائے اور کب انہیں پلاٹ سے غائب کردیا جائے یہ تو قصہ اورپلاٹ کے تقاضے پر منحصر ہوتا ہے لیکن اکثر  مرکزی کردار شروع سے آخر تک چلتے رہتے ہیں اور انہی کرداروں کے خصائل کی عمدہ پیش کش ہوتی ہے ۔قصہ میںمرکزی کرداروں کو اتارنے میں بہت محنت کر نی پڑتی ہے، ناول کے پلاٹ کو مضبوطی سے تھامنا ہوتا ہے۔ اسی اعتبار سے ان کرداروں کو جب ناول سے خارج کیا جاتا ہے تووہ لمحہ قاری کے ذہن کو پڑھنے کا ہوتا ہے اور فن کے معراج کا بھی ۔ 

جہاں تک حاشیائی کرداروں کی بات ہے وہ اکثر پورے ناول پر نہیں رہتے ہیں بلکہ واقعات کے اعتبار سے آتے ہیں ایک دو جملے میں ان کا تعارف ہوتا ہے اور اپنا عمل کر کے چلے بھی جاتے ہیں ، ان حاشیائی کرداروں میں سے اگر کوئی کردار قاری کو دلچسپ لگ جاتا ہے تو پھر وہ وقفہ وقفہ سے اس کی آمد کا انتظار کرتا رہتا ہے ایسے کردار پلاٹ سے اچانک غائب نہیں کیے جاتے ہیں بلکہ ثانوی کردار کے اعتبار سے لمبا سفر طے کرتے ہیں۔ کچھ کردار بہت ہی مختصر سے عمل کیے لیے آتے ہیں انہیں ناول نگار قصہ سے خاموشی سے اس طرح غائب کردیتا ہے کہ قاری کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ اس عمل کو عبدالقادر سرو ری نے قصہ نگاری کا کمال قرار دیا ہے ۔ 

اب اس جانب رخ کرتے ہیں کہ ناول کے قاری کیسے کیسے افراد ہوتے ہیں ۔ 

 اول نفس قصہ : جنہیں صرف قصے سے دلچسپی ہوتی ہے وہ قصہ کے نشیب و فراز سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یہ پاپولر لٹریچر والے زیادہ ہوتے ہیں جہاں وہ رومان کے ساتھ بہترین قصے پسند کرتے ہیں ۔

 دوم زبان و اسلوب :ایک طویل عرصہ ناول کے قارئین کا وہ گزرا ہے جو زبان سے زیا دہ دلچسپی رکھتے تھے اور عمدہ زبان و اسلوب کے لیے ناول پڑھا کرتے تھے ۔ اس زمرے میں رزمیہ اور جاسوسی ناول آتے ہیں جن کی اشاعت بہت زیادہ ہوئی ہے اور اب تک ان کے قارئین کی تعداد میں زیادہ کمی نہیں آئی ہے ۔ 

 سوم فلسفہ حیات : یہ متذکرہ بالاسے منفر د ہوتے ہیں ،یہ قصہ اور نہ ہی زبان کے لیے ناول پڑھتے ہیں بلکہ ناول میںبے پناہ فلسفوں کی تلاش اور زند گی کے ہزرا رنگ کو سمجھنے کے لیے ناول سے دلچسپی کرتے ہیں ۔

چہارم : تخلیق کار کا مطالعہ: مذکورہ بالا تینوں زمروں میں ناول نگار اپنے مکمل تجربوں اور علم کے ساتھ موجود ہوتا ہے اور ہر کردار میں اس کی موجودگی محض اتفاقی نہیں بلکہ اکتسابی ہوتی ہے ۔یہ اکتسابی نوعیت آپ کو ہر کردار میں نظر آئے گا جس کے ذریعہ قاری تخلیق کار کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس صورتحال میں قاری حاشیائی کردار کو چھوڑ کر مرکزی کردار کو مجسم پڑھتا ہے اور اس کو اپنے تجربے اور علم میں تولنے کی کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں اسے محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار نے اپنے علم و تجر بے کی بساط پر کس طر ح سے ایک کردار کے مختلف شیڈس کو پیش کیا ہے اور کن جہات سے رو گردانی کی ہے ۔ 

فکشن میں کردار عموماً دو طرح سے سامنے آتے ہیں اول تدریج اور دوم مستقیم ۔ تدریج میں وہ کردار آتے ہیں جو غیر محسوس طریقے سے آہستہ آہستہ منزل کی جانب بڑھنے لگتے ہیں اگر کوئی کردار بدی کی جانب جارہا ہے تو حیات اصلی کے مطابق وہ چلتا ہی رہتا ہے اور قاری غیر محسوس طریقے سے اس میں سفر کرتا رہتا ہے ، اگر مستقیم ہوتا ہے تو کسی بھی مرکزی کردار میں اچانک تبدیلی رونما ہوجاتی ہے خواہ وہ کسی حادثہ کی ہی بنا پر کیوں نہ ہو قاری اس کردار کو وہیں سمجھ لیتا ہے کہ یہ کردار مرچکا ہے ۔ ناولوں میں پیچیدہ اور سپاٹ کردار دونوں ہوتے ہیں ۔ آج کل عموماً مرکزی کرداروں میں بتدریج زندگی چلتی رہتی ہے جہاں نشیب و فراز کا گزر ہوتا ہے لیکن ثانوی کردار اکثر سپاٹ ہوتے ہیں ،اگر کسی کردار کا داخلہ بدکے مظاہرہ کے ساتھ ہوا ہے تو کچھ دیر ساتھ چلنے کے بعد اس کا اخرا ج بھی اسی کیفیت کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ہکذا بالعکس ۔ 

کرداروں کے اقسام 

مرکزی کردار

کسی بھی کہانی میں شروع سے لے کر آخر تک ایک کردار ایسا ہوتا ہے جس پر پلاٹ مرکوز ہوتا ہے اور ساری کہانیاں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔  حرکت و عمل سے وہ فعال کردار ادا کررہا ہوتاہے۔ فنی نقطہ نظر سے اُسے مرکزی کردار کہا جاتاہے۔ عموما مرکزی کردار میں زندگی کے کئی رنگوں کو پیش کیا جاتا ہے ۔ مرکزی کردار ناول میں زیادہ دیر تک منظر سے غائب نہیں رہ سکتا ہے ، جو ناول باب وار لکھے جاتے ہیں ان میں بھی ہر باب میں وہ کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتا ہے خواہ اس باب کا مرکزی کردار کوئی او ر ہی ہو ۔

ثانوی کردار

کوئی بھی کہانی صرف ایک فرد کو سامنے رکھ کر نہیں لکھی جاتی اور نہ ہی صرف ایک فرد پر کہانیاں مکمل ہوتی ہیں ، اگر ایسا ہے تو اس کی جزئیات اور تفصیلات مکمل طور پر کھل کر سامنے نہیں آسکتیں۔کردار کا دوسرا اور مکمل رخ دیکھنے کے لیے مرکزی کردار کے ساتھ ساتھ ثانوی کرداروں کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔ اکثر ثانوی کردار، مرکزی کرداروں سے تعلق رکھتے ہوئے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جہاں مرکزی کردار کئی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے وہیں پر ثانوی کردار بھی مرکزی کردار سے مختلف نہیں ہوتے بلکہ مرکزی کردار کی معاونت کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔

ذیلی کردار

مرکزی اور ثانوی کرداروں کے ساتھ ذیلی کردار بھی کسی کہانی کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔یہ مرکزی اورثانوی کرداروں کے درمیان نظرآتے ہیں۔ اس قسم کے کرداروں کا عمل ضمنی سا ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی افسانے میں مرکزی اور ثانوی کرداروں کی معاونت کرتے نظر آئیں گے۔ یہ مختصر سے وقت کے لیے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔موقع محل کی مناسبت سے ان کو پیش کیا جاتا ہے جو اپنے وجود کا احساس دلاتے ہوئے کبھی دیر تک اور کبھی وقتی طورپر سامنے آتے ہیں۔ ذیلی کہانی میں ہمیشہ کے لیے نہیں دکھائی دیتے ہیں بلکہ کسی بھی صورت حال میں وقتی طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔

کرداروں کے صفات 

سپاٹ کردار

کسی بھی ناول یا کہانی میں شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسی فطرت رکھنے اور یکساں حرکت کرنے والے کردار کو سپاٹ کردار کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے کرداروں میں انہونی حالات نہیں پائے جاتے۔ ان میں کسی خاص صورت حال میں کسی خاص رد عمل کی بجائے طے شدہ رد عمل کی ہی توقع کی جاتی ہے یعنی ان میں اپنے طور پر خاص رد عمل ظاہر کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی ہے۔

اکہرے کردار

کسی ناول کا ایسا کردار جس پر صرف ایک ہی رویہ یاطرز عمل کی گہری چھاپ ہو،اکہر ا کردار کہلاتا ہے۔ یہ پوری کہانی میں ایک ہی انداز میں حرکت و عمل کرتے نظر آئیں گے۔ ان سے صرف ایک جیسے رد عمل اور طرز عمل کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ ناول میں کسی خاص طرز فکر، سوچ یا طبقے کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔(یہ ذیلی کردار میں ہوتے ہیں ) 

مرکب کردار

ایک سے زائد رویوں اور طرز عمل کے حامل کردار مرکب کردار کہلاتے ہیں۔عام طور پر مرکب کردار بہت کم پائے جاتے ہیں۔ مرکب کردار دو متضاد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ جیسے کوئی کردار کسی خاص واقعہ میں ایسا طرز عمل پیش کرے جن سے ان کی شخصیت میں تضاد سامنے آتا ہے جبکہ وہ اس طرز عمل کے صفات کا حامل نہیں ہوتا ہے ۔(یہ مرکزی اور ذیلی دونوں میں ہوسکتے ہیں ) 

مجہول کردار

ایسے کردار جو اپنے اعمال و افعال میں کسی قدر جھول رکھتے ہیں اور اس سے دیگر کرداروں کے تاثر میں بھی فرق آنے لگتا ہے ایسے کردار کمزور طرز عمل کی وجہ سے مجہول کردار کہلاتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہوتے ہیں جو کسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے دوران ہی ختم ہوجائیں، ان کا شمار مجہول کرداروں میں کیا جاتا ہے۔(یہ مرکزی اور ثانوی دونوں کردار ہوسکتے ہیں )

محدود یا عارضی کردار

محدود کردار وقتی اور عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جو کہانی میں صورت حال کے مطابق وقتی طور پر  کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ یہ خاص مواقع پر سامنے آتے ہیں اور اپنے حصے کا کام کرکے نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی ناول میں مخصوص مناظر میں کئی محدود کردار سامنے لائے جاتے ہیں۔

نقلی کردار

جب تخلیق کار کسی خاص گروہ(مذہبی، لسانی، علاقائی،سیاسی) یا فرقہ پرست کا کردار تخلیق کرتاہے تو اس کا انداز متعصبانہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے۔ تعصبانہ رویے کی وجہ سے کردار زندگی کی حقیقت سے دور رہ جاتا ہے اور ایسا کردار نقلی کردار کہلاتا ہے۔ (مرکزی ؍ذیلی)

پیچیدہ کردار

پیچیدہ شخصیت کے حامل اور نہ سمجھ آنے والی باطنی کیفیات کے حامل کردار پیچیدہ کردار کہلاتے ہیں۔ایسے کرداروں کی سوچ، فکر، طرز عمل اور حرکات وسکنات کسی نہ کسی نفسیاتی پیچیدگی کی مرہون منت ہوتی ہیں، وہ کردار قاری کی پکڑمیں جلدی نہیں آتے ہیں ۔(مرکزی ؍ثانوی)

مزاحیہ کردار

کسی بھی افسانے، قصے کہانی میں ہنسنے ہنسانے والے کردار مزاحیہ کردار کہلاتے ہیں۔ یہ عام طور پر دل بہلانے کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح کے کردار ہنسی مذاق سے کسی بھی فن پارے میں مزاح کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔(مرکزی ؍ثانوی)

اخلا قی و اصلاحی کردار

اس طرح کے کردار مقصدیت کے تابع ہوتے ہیں اور تخلیق کا ر ان کے ذریعے اچھائی و برائی کے اصلاحی پہلوؤں کو قارئین کے سامنے لاتاہے۔ مولوی نذیر احمدکے مشہور کردار نصوح اور ابن الوقت اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ (مرکزی)

رومانوی کردار، تخلیقی کردار

ایسے کردار ناول کی مجموعی فضا اور واقعاتی اتار چڑھاؤ کے مطابق ہی ہوتے ہیں مگر ان میں تخیلاتی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ ایسے کردار جذباتیت کا شکار ہوتے ہیں۔ حسن و عشق کے معاملات کوہی دنیاوی زندگی کا حاصل اور مقصد سمجھتے ہیں۔(مرکزی )

صنفی کردار

خالق نے انسانوںکو بلحاظ صنف جوڑے کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ مرد اور عورت اس کے دو روپ ہیں۔بلحاظ صنف اور جنس اگر درجہ بندی کی جائے تو ہمیں مردانہ اور نسوانی کردار کسی بھی ناول میں ملتے ہیں۔ جس طرح کسی ناول کامرکزی کردار بے شمار خوبیوں کا حامل ہوتا ہے اور جدوجہد  سے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ اس طرح نسوانی کرداروں میں بھی ان خوبیوں کا پایا جانا اشد ضروری ہوتاہے۔(مرکزی ؍ثانوی )

باغی کردار

برصغیر کی سماجی اور معاشرتی زندگی پر کئی طرح کے نظام حاوی رہے ہیں ،نیز مختلف مذاہب کی تقسیم، ذات، پات، نسل خاندان اور طبقاتی امتیازات نے پوری طرح اس معاشرے کو اپنی جکڑ میں لے رکھا تھا ۔ ان حالات میں اردو افسانے کی ابتداء و ارتقاہوئی تو معاشرے میں مذہبی، سیاسی، لسانی اور سماجی بغاوت ایک فطری امر اور جذبہ تھا جسکی گہری چھاپ ہمیں اردو ناول میں بھی ملتی ہے۔ اردو ناول میں بہت سے ایسے کردا ر ہمیں نظر آتے ہیں جنہوں نے معاشرے کے بالادست طبقے سے بغاوت کیا اور باغی کہلائے۔ان کردار وں کا ظہور ہنوز جاری ہے جو کئی طرح کی سماجی اور معاشی جکڑ بندیوں کو توڑ کر سامنے آتے ہیں ، ایسے باغی کردار کے حامل کہانیاں مقبول بھی ہوتی ہیں یہ صنفی امتیاز سے الگ ہوتے ہیں ۔(مرکزی ؍ثانوی )

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...