Thursday 8 December 2022

متین اچل پوری کا ماحولیاتی ادب

 

متین اچل پوری کا ماحولیاتی ادب 

ڈاکٹر امیر حمزہ 

 مدرسہ محلہ ،نوادہ ، ہزاریباغ ، جھارکھنڈ


ادب اطفال ادب کا ایک ایسا گوشہ ہے جس کے خدمتگار بہت ہی خاموشی سے نئی نسل کے لیے بہترین اور عمدہ ادب تخلیق کر تے ہیں اور اکثر گوشہ نشیں بھی رہتے ہیں انہیں میں سے ایک متین اچل پوری تھے جنہوں نے عمدہ بچوں کے لیے عمدہ ادب یاد گار چھوڑا ہے ۔ گزشتہ چار دہائیوں میں انہوں نے ایک متوازن رفتار میں بچوں کے لیے کئی کتابیں تحریر کیں اور سنجیدہ مصنفین میں اپنا نام شمار کروایا ۔ آپ کا نام محمد متین تھا 18 جنوری 1950 کواچل پور ضلع امراؤتی مہاراشٹر میں پیدا ہوئے ۔ وہیں ایم اے اور بی ایڈ تک کی تعلیم سنت گاڈگے بابا یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ شروع میں پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھایا پھر 1990 میں سرکاری اسکول وابستہ ہوئے اور 2007 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔گزشتہ دو برسوں سے طبیعت میں نشیب و فراز جاری تھا کہ 17 اکتوبر 2022 کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ 

زمانہ طالب علمی (1970)سے ہی ادب کی جانب مائل ہوگئے تھے شروع میں شاعری میں قلم آزمایا پھر جلدہی ادب اطفال کی جانب مائل ہوگئے اور تاعمر اسی میں جیتے رہے ۔ متین اچل پور چونکہ ایک مدرس تھے اور ادیبِ اطفال بھی تھے اس لیے انہوں نے بچوں کی نفسیات کو بخوبی سمجھا اورا پنی تحریروں میں برتا بھی ۔ انہوں نے بچوں کے لیے جدید موضوعات پر مبنی نظمیں تحریر کیں ساتھ ہی نثر میں کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھے ۔وہ اپنی عمدہ خدمات کے لیے کئی مرتبہ اعزاز ات سے نوازے بھی گئے ۔ صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے بہترین استاد ایوار ڈ 1990 میں ہی حاصل کیا اس کے علاوہ ملکی و صوبائی سطح پر دیگر 7 اعزازات و انعامات سے بھی نوازے گئے ۔ ان کے شائع شدہ تصانیف کی تعداد 16 ہیں ۔ جبکہ زیر طبع کتب کی تعداد 10 ہیں ۔ ان کی یہ قیمتی کتابیں اردو ادب میں انہیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں لیکن اس بھی بڑا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ مہاراشٹرا و تلنگانہ کی درسی کتب میں ان کی نظمیں شامل ہیں ۔ ادب میں ان کے خدمات شش جہات ہیں لیکن یہاں صرف ماحول کے مو ضوع پر لکھی گئی نظموں سے گفتگوہے ۔ 

 ہماری نظر میں ماحول اور ماحولیات دو شاخ نہیں بلکہ باضابطہ الگ الگ چیزیں ہیں جس کو ہم منطق کی اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں کہ دونوں میں تباین کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ہم نے دو شاخ صرف ڈاکٹر مولا بخش کی موافقت میں لکھ دی ہیں بلکہ ان کے یہاں اس لفظ ماحولیات میں اتنی وسعت ہے کہ اس کے دائرے میں ماحول، فضا، منظر ، فطرت ، ثقافت ، رہن سہن کے طور طریقے، مقامیت اور دیہی جمالیات بھی آجاتے ہیں ۔پروفیسر عتیق اللہ صاحب نے اس کو بہت ہی جامع و مانع انداز میں پیش کیا ہے وہ لکھتے ہیں ’’حیاتیات کی وہ شاخ جس کے تحت اجسام نامیہ کے ایک دوسرے سے تعلق کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ‘‘  اس کی تعریف ہم اپنے الفاظ میں کچھ اس انداز میں کر سکتے ہیں کہ ماحولیات وہ نامیاتی عناصر ہے جن کا تعلق ہمارے حواسہ ٔ خمسۂ ظاہر ہ سے ہے۔ جس میں ماحول و مناظر سے نہیں بلکہ ان میں کثافت کی وجوہات ، اس کے نقصانا ت اور اس کے بچاؤ کی تدابیر پر بات کر تے ہیں ۔ ماحولیات پر تنقید کے نام سے چند مضامین لکھے جاچکے ہیں لیکن ماحولیاتی ادب کا اردو میں ابھی تک کوئی خاص ذکر نہیں ملتا ۔ پوری دنیا جن وجوہات سے تباہی کے دہا نے پر کھڑی ہے، ہزاروں بیداری ریلیاں نکالی جاتی ہیں ،لاکھوں کی تعداد میں پمفلیٹ چھپتے ہیں، اربوں روپے اشتہارات میں خرچ ہوتے ہیں لیکن ان موضوعات کو لیکر ادب کا دامن خالی نظر آتا ہے چہ جائے کہ ادب اطفال کی بات کی جائے ۔

 ادب اطفال میں ابتداء ہی سے منظر نگاری اور فطری چیزوں کو پیش کر نے کا رجحان زیادہ رہا ہے ۔ اس میں وہاں سو رج کی بات کی جاتی ہے تو چندا ماما بھی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں ۔ سردی،گرمی ، برسات سے جیسے مضامین سے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں تو وہیں پرندے اور جانور بھی ان کے مخصوص اور  دلچسپی کے سامان ہوتے ہیں ۔ سائنس کی دنیا سے دلچسپی پیدا کر نے کے لیے سائنسی مضامین کو دلچسپ انداز میں پیش کیے جانے لگا ہے جس کے تحت جنرل نالج بھی اس میں شامل ہے ۔ ان سب میں ماحول کاعنصر تو نمایاں نظر آتا ہے لیکن اب لامتناہی وسائل نے جس طرح سے فطرت اور حیوانی زندگی کو متاثر کیا ہے اس پر لکھنے والے کم ملتے ہیں۔ صرف اتنا لکھ دیا جاتا ہے کہ ہزاروں سا ل پہلے سب سے بڑا جانور ڈائنا سور پایا جاتا تھا جس کی مختلف خصوصیات کے بارے میں بتا دیا جاتا ہے ۔ یا یوں کے کسی زمانے میں ہمارے شہر کے چاروں طرف خوبصورت باغات اور جنگلات ہوا کر تے تھے جہاں ہمارے راجہ یا بادشاہ آرام کیا کرتے تھے اور شکار بھی کھیلتے تھے ۔ اٹھلاتی ہوئی اوربل کھاتی ہوئی ندیاں بھی بہتی تھیں ، جن میں مچھلیاں مچلتی رہتی تھی ، شہر کے لوگ مچھلیوں کا شکار کیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسی کہانیاں تو خوب پڑھنے کو ملیں گی لیکن ان کے ختم ہونے سے ہماری زندگی میں کیا اثر ہوا یسی کہانیاں آپ کو پڑھنے کو نہیں ملیں گی ۔ اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے متین اچل پور ی ایک رہنما کے طور پر سامنے آتے ہیں جنہوں نے بچوں کے لیے ماحولیات پر ’’ ہم ماحول کے رکھوالے ‘‘ اور ’’ ماحول نامہ ‘‘ جیسی کتابیں لکھیں جن میں انہوں نے بچوں کی قدرت سے محبت اور کثافت و آلودگی سے دور رہنے کے لیے کئی نظمیں لکھیں ہیں ۔ درخت کی کہانی ، جنگل کی کہانی ، باغ کی کہانی جیسے عنوانا ت بہت ملیں گے لیکن شجر کاری جیسے موضوعات پر نظمیں لکھنے کو ایوینٹ کی شاعری کہہ دیاجاتا ہے جو وقتی تناظر میں آتا ہے اور پھر منظر سے غائب ہوجاتا ہے ۔ایسے میں میر تقی میر کی ’’ مرغوں کی لڑائی‘‘ اور نظیر اکبرآبادی کی ’’ پودنے گڑھ پنکھ کی لڑائی ‘‘ کو کیا کہیں گے جو موضوعاتی طور پر وقت کے ساتھ متر وک، جس کی کمنٹری ا ور اصطلاحات بھی اب ہندوستان سے معدوم ہوچکے ہیں ۔ الغرض نئے نئے موضوعات سامنے آتے رہتے ہیں اور فن کار اپنی فن کاری سے ان موضوعات کو بچوں کے سامنے پیش کر تا ہے۔ ’ درخت راہوں کے ‘ نظم کا ایک شعر آپ کو بھی سوچنے کو مجبور کر دے گا کہ اس میں کہیں بھی وقتی تناظر نہیں ہے بلکہ ایک ابد ی و ازلی پیغام نظر آتا ہے ۔

 یہ سیکھو سائے میں ان کے رہ کر 

کہ چھاؤ ںدینا ہے دھوپ سہہ کر 

لفظ ’’ سہ کر ‘‘ سے یہا ں بہت سی مشکلات کی جانب اشارہ ہوسکتا ہے، مثلا ہمیں مشکلات کو سہہ کر اس عالمی گاؤ ں کو چھاؤں دینا ہے جہاں ہوا بھی اچھی اور فضا بھی بہتر ہو، جس کے سائے سے شہر کو گرم بھٹی ہونے سے بچایا جائے یعنی مستقبل کی چھاؤں کے لیے ابھی ہمیں بہت کچھ سہنا ہوگا۔

بچوں کے نصابات میں جب سے سائنس آئی ہے تب سے سائنسی ادب کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے جس کی وقت حاضر میں کئی حضرات نمائندگی بھی کر رہے ہیں جن میں اہم نام محمد خلیل کا ہے ۔ماہنامہ سائنس بچوں میں سائنسی شعور و دلچسپی پیدا کرنے کے لیے امیرا نہ کرادار ادا کر رہا ہے۔ اس میگزین میں شمسی، آبی اور فضائی توانائی سے متعلق لکھا جاتا ہے اور اس کے فوائد بھی بچوں کے لیے دلچسپی کے باعث بنتے ہیں لیکن متین اچل پور ی نے اس کو اپنی کئی نظموں میں پیش کیا ہے جیسے ’ سورج کی توانا ئی‘،’آگ کا سفر‘ ،’ انمول آبی گھر‘اور ’’ پھرکی اور پون چکی ‘‘ وغیرہ۔ سورج کی توانائی میں انہوں نے سولر جہاز کا خصوصی طور سے ذکر کیا ہے ۔ اس سے بچوں کے ذہن میں کئی معلوماتی سوال ابھر تے ہیں مثلاً سولر اسے کیوں کہتے ہیں ؟کو ن سا جہاز اس سے چلتا ہے؟ اس کے بعد بچوں کے اندر معصومانہ سوال ابھر تا ہے کہ جہاز تو اڑتا ہے تو یہ دوسرا جہاز ہوگا ، پھر بلا واسطہ سورج سے کیسے چلے گا وغیرہ وغیرہ ۔ ان ابھر تے سوالات سے بچوں کے تخیل کو مضبوطی حاصل ہوتی ہے ۔ اسی طریقہ سے ’’آگ کا سفر ‘‘ ہے جس میں چنگاری ، آگ ، لکڑی، کوئلہ ، مٹی کا تیل اور اب رسوئی گیس لیکن ان سب کے لیے ہمیں کہیں نہ کہیں معدنیات کا سہارا لینا پڑرہا تھا تو مصنف مکمل طور پر معدنیات اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے ’’شمسی چولہا ‘‘ کو بچوں سے متعارف کر واتے ہیں ۔ اس نظم سے دو شعر ملاحظہ ہو :

جب بڑھی آبادی یہ عالم ہوا 

ہر توانائی کا ذریعہ کم ہوا

بنتے بنتے بن گیا ہے آج کل 

شمسی چولھا آگ کا نعم البدل

اس کے بعد فضائی توانائی پر ’’ پھر کی اور پون چکی ‘‘ بھی ہے جس میں بچوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ بجلی جیسی توانا ئی کو ہم جس طر ح سورج اور پانی سے حاصل کرتے ہیں اسی طر ح بجلی کو ہم ہوا سے بھی حاصل کر سکتے ہیں جس کا استعمال بہت ہی مفید ہے اور صاف ستھری فضا کی تشکیل میں ہمارے لیے بہت ہی معاون ہے ، کیونکہ ہم جب ماحولیات کی بات کر تے ہیں تو سب سے پہلے ایندھن کی بات ہوتی ہے جس پر متین اچل پوری نے بچوں کے لیے خوبصورت نظمیں لکھیں ۔ اس نظم سے تین شعر :

کھیل تھا صبح و شام کاغذکا 

لے کے لوہا مقام کاغذکا 

خوب اونچا اٹھا ہے شان کے ساتھ

باتیں کر تا ہے آسمان کے ساتھ

کیا ہوا کے تھپیڑے سہتی ہے 

بجلی تیار کر تی رہتی ہے 

ہم جب ادب اطفال میں موضوعات کی بات کر تے ہیں تو اس میں دنیا کے تمام موضوعات نہیں سما سکتے ، بچوں کا ذہن کلچر، زبان ، تہذیب اور معاشرتی گفتگو کا متمنی نہیں ہوتا، وہ خانگی رشتے پر کہانیا ں سننا نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ مسائل پر توجہ دیتے ہیں بلکہ ظرافت و مسکراہٹ ان کی فطرت میں ہے جس  سے وہ مر حلہ وار کسی بھی چیز میں دلچسپی لیتے ہیں ۔وہ ہمارے ماحولیاتی مسائل پر کچھ بھی نہیں پڑھنا چاہیں گے۔ البتہ ان کو معلوماتی اور ماحولیاتی مسائل کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہی پسند ہے ان کو یہ پسند ہے کہ جنگل کے فوائد کیا ہیں یہ نہیں پسند کہ جنگلوں کو برباد کر نے میں ہماری پالیسی کا کتنا دخل ہے ۔ انہیں بہتی ، جھومتی اور اٹھلاتی ندیوں پر نظمیں اور کہانیاں پسند ہیں نا کہ ان کے سوکھنے کی وجوہات پر ۔ پانی پر ہمارے یہاں بہت ہی زیادہ سلوگن بنائے گئے ہیں۔  بڑے بڑے سائن بورڈ جو شہر کی شان ہوتے ہیں اس میں آبی تحفظ پر شہر اپنی باطنی کہانی کو پیش کر رہا ہوتا ہے ۔ ان بورڈ  پر بچوں کی نظر پڑتی ہے اور بڑوں کی بھی ،سب کو سلوگن بھی یا د ہوجاتے ہیں لیکن ذہن میں اتارنے کا کام توادب کرتا ہے جس پر متین اچل پور ی کی نظر پڑی اور انہوں نے آبی تحفظ کو خصوصی طور پر اپنی نظموں میں پیش کیا ۔اس سلسلے میں ان کی ایک انمول نظم ’’انمول آبی گھر ‘‘گلیشئر سے متعلق بچوں کو سوچنے پر مجبور کر نے والی خوبصورت نظم ہے جس میں بچوں کو بنیادی طو ر پر تین باتیں بتائی گئی ہیں کہ یہ گلیشیر (آبی ذخائر) کیا ہوتے ہیں ، اس کے فوائد انسانی زندگی کے لیے کیا ہیں اور اب ایندھن کے بے جا استعمال سے ان گلیشئر کے پگھلنے سے نقصانات ہیں ۔ وہ نظم میں پیش کر تے :

 دنیا کی تپش کے بڑھنے سے

تیزی سے یہ پارہ چڑھنے سے 

یہ بر ف کی ویرانے پگھلیں

بڑھتی ہے سمندر کی سطحیں

پر بت یہ روا ں ہوجانے سے

پانی کا زیاں ہوجانے سے 

سیلاب نرالے آتے ہیں

خوشیوں کو بہا لے جاتے ہیں

پانی کو سنبھالے رکھنا ہے

راہوں میں اجالے رکھنا ہے

اس کے بعد ’’پانی کی فریاد ‘‘ ایک اثر انداز اور پر سوز نظم ہے جس میں پانی کو ہی ایک کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔اس میں پانی بچوں سے ہی اپنے تحفظ کے لیے سوال کرتا ہے ، اپنے اوپر بیت رہی مصیبتوں کو بتا تا ہے ، جابر و ظالم کی نشاندہی کر تا ہے ، اپنی پرانی خصوصیات و کیفیات کو بتاتا ہے اور آخر میں التجابھی کرتا ہے کہ خدا کی مخلوق پر رحم کر و ورنہ آسمان والا خفا ہو جائے گا ۔اس نظم کا پہلا بند ملا حظہ فرمائیں : 

اب اپنے ماحول کو بچانے ، قدم اٹھاؤ قلم اٹھا ؤ

یہ ہم سے گھبراکے بولا پانی ، مجھے بچاؤ، مجھے بچاؤ

دھواں اگلتے یہ کارخانے 

کثافتوں کی یہ حکمرانی 

میں دق زدہ اک مر یض جیسا

ہوئی ہے دشوار زندگانی 

اس طریقے سے ’’ساگر کی حیرانی‘‘ نظم بھی ہے جس میں سمندر کی کثافت کو پیش کیا گیا ہے ۔ جس میں سمندرمیں بسنے والی پوری دنیا کو خطرہ لاحق ہے ۔ ہم انسانوں نے سمندر کو تو مسخر کر لیا لیکن اس سے اس پوری آبی کائنات کو خطر ہ لاحق ہوگیا ہے جس کو خدا نے ہمارے لیے بنا یا ہے ۔ہم اس میں شہر جتنے بڑے بڑے جہاز اتار دیتے ہیں جس سے آبی دنیا میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ اگر اس میںکچھ ناگہانی حادثہ ہوجائے تو جو کاربن ڈائی اکسائڈ ہمارے لیے زہر ہوتا ہے وہی تیل کی شکل میں اس دنیا کو تباہ کر دیتا ہے چنانچہ متین اچل پوری لکھتے ہیں :

پانی پر ہے تیل یہ کیسا 

انسانوںکاکھیل یہ کیسا 

ساحل کی سب گہما گہمی 

کچھ دن سے ہے سہمی سہمی 

خطرہ لاحق انسانوں کو 

سارے آبی حیوانوں کو 

خطرے میں ساحل کی زمین ہے 

چڑیوں کو بھی چین نہیں ہے 

آبی تحفظ کی جانب راغب کر نے والی ان کی ایک نظم ’’پانی بچاؤ‘‘ ہے ۔ اس میں وہ بہت ہی فن کاری سے ہر طبقہ کے بچوں کو شامل کر لیتے ہیں کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ رئیس بچوں کے ذہن میں مالی فراوانی کی وجہ کسی چیز کی کمی نہ ہونا ان کے لیے آسان ہوتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ خدا کی جانب سے انمول نعمت ہے اور اس نعمت کی کوئی قیمت ادا نہیں کی جاسکتی ہے ۔ جس طرح سے صاف ہوا سب کے لیے برابر ہے اسی طریقے سے پانی بھی سب کے لیے یکساں ہے ۔بچوں کی ہی زبانی وہ کہتے ہیں :

چاہے کچن ہو یا کارخانہ 

ہوٹل ہو چاہے بھٹیار خانہ 

نیچا ہو چاہے اونچا گھرانہ 

کپڑے ہو دھونا چاہے نہاؤ

پانی بچاؤ ، پانی بچاؤ

  یہ وہ موضوعات تھے جن کے لیے دنیا پریشان ہے ۔ متین اچل پوری نے ان موضوعات کے علاوہ ماحولیات سے متعلق کئی اہم مضمون بچوں کے لیے بچوں کی سہل زبان میں بغیر کسی فکر و فلسفہ کے پیش کیے ہیں ۔ جیسے جب سر مایہ داری ختم ہوئی اور زمیندار طبقہ زمینداری کی فضا سے نکل کرشہر وں میں قدم رکھنے لگا ،گاؤں اور قصبات کی کوٹھیاں شہر کے فلیٹوں میں تبدیل ہوگئی، آنگن سے دور دور تک کا نظارہ صرف بالکنی کے نظاروں میں محصور ہوکر رہ گیا اور اجناس دینے والا ہاتھ لینے والا بن گیا۔ اس قسم کی بات ’’ نیاماحول نامہ‘‘میں متین اچل پوری کر تے ہیں جس کا پہلا بند کچھ اس طر ح ہے : 

گملوں سے اب کام چلا نا ہے یارو

آنگن کو گلزار بنانا ہے یارو

آنگن کا بٹوارہ ہوا تو کیاغم ہے 

دوبارہ ،سہ بارہ ہوا تو کیا غم ہے 

اب رشتوں کا مول بڑھانا ہے یارو

آنگن کو گلزاربنانا ہے یاروں 

اس نظم میں غزل کا المیہ پن نہیں ہے بلکہ بچوں میںہلکی سی فکر کے بعد نئے ماحول میں جینے کے لیے حوصلہ ہے ۔الغر ض اس طر ح کی کئی نظمیں ہیں جن میں وہ بچوں کو نئے در پیش ماحو ل میں ماحول ساز بچہ بننے کا سبق دیتے ہیں ۔ ایسی نظمیں ضرور لکھی جاتی ہوں گی، ہر زبان میں ہوتی ہوں گی لیکن اردو جس نے قدم سے قدم ملا کر چلنا سیکھنا ہے جہاں اس نے ادب عالیہ میں عالمی زبانوں میں اپنی اعلی شناخت میر ، غالب ، اقبال ،پریم چند، منٹو، عصمت اور قرۃ العین حید ر سے بنائی وہیں ہمارے ادب اطفال کے ادیبوں کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ گاہے بگاہے عالمی مسائل سے بچوں کو آگاہ کر اتے رہیں ، جہاں ہم اخلاقیات میں ان سے ہرہئیت و لہجہ میں مخاطب ہوتے ہیں وہیں زندگی کے بنیادی وسائل میں صر ف سائنس تک ہی محدو د ہونا کافی نہیں ہے بلکہ متین اچل پوری نے جس جانب قدم اٹھا یاہے اس جانب نثر ی تحریروں میں بھی ادیبوں کو آگے آنا ہوگا تاکہ جس تبدیلی کے ہم خواہشمند ہیں وہ تبدیلی جلد از جلد آسکے ۔

اس کے علاوہ ان کی دو کتابیں اور ہیں جن کا تعلق ما حول سے ہے ۔ ایک ’’ماحول کی خوشبو ‘‘ اور دوسری ’’ ماحول نا مہ ‘‘ لیکن یہ دونوں کتابیں ’’ ہم ماحول کے رکھوالے ‘‘ سے مختلف ہیں ۔ ’’ ماحول نا مہ ‘‘ بیاسی صفحات پر مشتمل ہے جس میں اڑتیس نظمیں ہیں ۔ان نظموں میں رنگینی اور بوقلمونی نظر آتی ہے۔ جہاں فطرت کی عکاسی ہے وہیں دیگر اخلاقی باتیں بھی ہیں۔ ساتھ ہی کچھ ایسی نظمیں ہیں جن سے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی دعوت ملتی ہے اور انسانوں کو سبق عبر ت بھی دیتی ہے کہ گئے دنوں کو یاد کریں جب ہم ماحول کے لیے ظالم و جابر نہیں بنے تھے ۔ اس کتاب میں ان کی ایک نظم ’’ اپنا ماحول اپنی جنت ‘‘ میں صاف لفظوں میں یہی پیغام ہے کہ ہماری جنت ہمارا ماحول ہے ۔ ہم ماحول کے تحفظ کی بات کریں گے تو اپنی جنت ارضی کے تحفظ کی بات کریںگے ۔ اس نظم کا ایک شعربہت ہی معنی خیز ہے : 

کریں ہم بے زبانوں سے محبت 

 پرندوں کے ٹھکانوں سے محبت 

اس شعر کا آخری مصرع تحفظِ ماحولیات کے ایک بڑ ے حصہ کو اپنے دائرے میں لے رہا ہے ۔ پرندوں کی کئی نسلیں اگرچہ جنگلوں میں رہتی ہیں تاہم آبادی میںرہنے والے پرندے بہت ہی کم ہوتے جارہے ہیں۔ جو پرندے ہمار گھر کے آنگن کے پیڑ میں گھونسلے بنا کر رہتے تھے  انہیں اب پنجر وں میں رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جس سے سائنسی طور بہت ہی نقصان ہو ا کہ وہ پرندے جو حشرات الارض کو ہماری فضاسے دور کرتے تھے اب ہم نے ان ہی پرندوں کو خود سے دور کردیا ہے جس کا سبق متین اچل پور ی بچوں کو ادب کے ذریعے پیش کر رہے ہیں ۔ 

بچوں کے لیے نئے موضوعات کی کمی بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ دنیا میں جتنی بھی چیزیں وقو ع پذیر ہورہی ہیں خواہ وہ فطری ہوں یا غیر فطری ، ایجادات ہوں یا نئے مقامات کی سیر ۔یہ وہ سارے موضوعات ہیں جن سے بچے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ انہیں میں سے سائنس سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ایک اہم موضوع ’اوزون‘ ہے جس پر مصنف کی ایک نظم ’’ ہوا ، اوزون اور زمین ‘‘ ہے ۔کسی بھی ایک نظم سے بچے مکمل طور پر اوزون سے واقف نہیں ہوسکتے لیکن تین اشیا( تعریف اچھائی اور برائی) کا اظہار شاعر ضرور کردیتا ہے جن کو بچوں کی نظموں میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اس نظم میں بھی تعریف اور اچھائیوں کا ذکر ہے ساتھ ہی بیداری بھی ہے جنہیں ان تین اشعار میں محسوس کر سکتے ہیں ۔

تہوں سے لگا قوس اوزون ہے بڑے کا م کا بھائی وہ زون ہے 

 بنفشی شعاعوں سے ہم کو بچائے یہ سمجھو بلاؤں سے ہم کو بچائے 

مگر آج اوزون خطرے میں ہے محافظ ہے جو زون خطرے میںہے 

ہمار یہاں اردو میں سائنسی موضوعات پر بہت سی تحریر یں لکھی گئی ہیں ۔ ہیئیت کے اعتبار سے ان کا زیادہ تعلق نثر ی تحریروں سے رہا ہے لیکن نظم کے پیرائے میں بچوں کے لیے بہت کم تحریریں ملتی ہیں جن کی خلا یہاں پُر ہوتی ہوئی نظرآتی ہے ۔ اگر صرف اردو دنیا کی بات کی جائے تو ابھی سائنس فکشن ہمارے یہاں اپنی جگہ نہیں بنا سکا ہے۔ بچوں میں صرف معلومات عامہ تک ہی اس کی رسائی ہی اچھی ہے لیکن سائنس کو ادب کے قالب میں ڈھال کر پیش کرنے والے بہت ہی کم ہیں ۔ 

گلوبل وارمنگ پر ان کی ایک کہانی ’’ جنگل کی پگڈنڈی ‘‘ ہے ۔ یہ ایک مکالماتی کہانی ہے جو سڑک اور پگڈنڈی کے بیچ چلتی ہے ۔ اس کہانی میں سڑک کے دکھ درد میں پگڈنڈی مکمل شامل ہوتی ہے لیکن سڑک کے مقدر میں جو ہونا ہے وہ تو مزید سے مزید تر ہوتا جارہا ہے ۔ دو مکالمے ملاحظہ فرمائیں 

’’پگڈنڈی :گرمی کی شدّت سے یوں جو تمہارا بدن جل رہا ہے۔چھوٹا منہ بڑی بات، میرا بس چلے تو جنگل کی صاف ، ٹھنڈی تازہ ہوا تمھارے نام لکھ دوں۔ گائوں کا تالاب لاکر تمہارے لبوں سے لگا دوں۔

سڑک : آہ ٹھنڈے ، میٹھے پانی کے ایسے کٹورے اور جنگل کی وہ انمول ہوا میرے نصیب میں کہاں۔(پگڈنڈی کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے)

بہن! تم بڑی خو ش نصیب ہو۔دھنک تمہاری اوڑھنی ۔۔۔، شفق تمہارا گھونگھٹ ۔۔۔اور بادل تمہارا کاجل۔۔۔میرے نصیب میں تو یہی سیاہ ماتمی لباس ہے جس میں سورج کی تیز کرنیں آگ لگا دیتی ہیں۔‘‘

نثر ی کہانی اور شاعری میں تاثر اتی اعتبار سے دو الگ الگ چیزیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک یہ کہ شاعری پڑھنے کے بعد ذہن میں فرحت و انبساط کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور جب شاعری اعلیٰ درجے کی ہو اور اس کے معانی بڑے وسیع پیمانے پر کھل کر سامنے آتے ہوں تو قاری کا ذہن بہتر معنوی غذا کے ساتھ خوش ہوجاتا ہے ۔ لیکن کہانی کا معاملہ کچھ الگ ہوتا ہے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کہانی ختم ہونے کے بعد انسا ن کا ذہن فکر و سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کہانی کے کسی نہ کسی کردار کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جس کو اس کہانی میں محسوس کیا جاسکتا ہے جو بچوں کو سڑک کی ہمدردی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کئی کہانیاں اور نظمیں ہیں جو اس موضوع پر سنجیدگی سے بچوں کو غورو فکر کی دعوت دیتی ہیں ۔




1 comment:

  1. بہت زبردست مضمون، ماشاءاللہ، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    ReplyDelete

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...