Sunday 28 October 2018

فکرو تحریر کا ریسرچ اسکالرز نمبر

سہ ماہی فکرو تحریر کولکاتا
فکرو تحریر کا تازہ شمارہ بہت ہی شوق سے پڑھنا شروع کیا. معاف کیجئے گا دیکھنا شروع کیا، کہاں کہاں نظر نہیں پڑی، صفحہ کے اوپر دیکھا نیچے دیکھا، معاونین کی فہرست دیکھی، مشاورت کے نام دیکھے، مدیران کو تلاش کیا مدیر اعزازی کا اعزاز دیکھا، مشمولات کے نام دیکھے تو نام کے ساتھ چہرے بھی نظر آئے، کچھ نہیں آئے تو تصور میں بنانے کی کوشش بھی کیا، اداریہ بھی غور سے دو مرتبہ دیکھا اور مدیر اعزازی نے قلم کاروں کو جس اعزاز سے نوازنے کا عزم یا حسین غلطی کیا وہ بھی دائرہ احساس میں آیا.
مدیراعزازی نے کس طرح سینہ پر پتھر رکھ کر یہ فیصلے لیا ہوگا کہ ہمیں نو سیکھیوں کو ہی شامل کرنا ہے اور ساتھ میں میگزین کے وقار کو بھی قائم رکھنا ہے یم محسوس نہیں کرسکتے. یہ کام تو تخلیقات کے حوالے سے بہت ہی آسان ہوتا ہے لیکن تنقیدی مضامیں کے حوالے سے بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے.  جس میں ہر مضمون میں مضمون نگار کی فکر کے ساتھ اسلوب ادا، زبان و بیان پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے.
تنقیدی مضامین میں اکثر پہلا پیراگراف کسی بھی قلم کار کے لیے چہرے کا کام کرتا ہے، جو یاتو اپنے جانب مائل کرتا ہے یا پھر وہی پیراگراف قاری کو ورق گردانی پر مجبور کردیتا ہے، اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پہلے پیراگراف میں قلمکار لڑکھڑاتا بہت ہے پھر جب قلم چل نکلتا ہے تو تحریر میں روانی خود بخود آجاتی ہے. تو مدیر کے لیے سب سے مشکل امر ہوتا ہے کہ وہ بے ہنگم زبان و بیان کو کیسے سنوار کر اپنے قیمتی صفحات میں جگہ عنایت کرے یا پھر عنوان کی مناسبت سے تحریر میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے. الغرض ہم نو سیکھیوں کی تحریر میں اگر کوئی اتنی محنت کرکے اپنے صفحات میں جگہ دیتا ہے تو اس کے لیے شکریہ کی رسم بھی کم پڑ جاتی ہے. لیکن پھر بھی ہماری ڈھٹائی بدستور جاری رہتی ہے کہ ہم اپنی تحریروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور سدھار لانے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے ہیں، بلکہ اگر کسی دور کے ساتھی کی تحریر میں کچھ نشاندہی کردی جائے تو بات بند کرنے تک کی نوبت آجاتی ہے، لیکن مدیر محترم ان تمام کی پرواہ کیے بغیر نو سیکھیوں کی تحریر کو سنوارتا رہتا ہے اور جب کچھ کچھ اچھا لکھنے کے لائق ہوجاتا ہے تو اچھا قلمکار شکریہ بھی بجا لاتا ہے کہ مجھے آگے بڑھانے اور ہماری تحریر کو سنوارنے میں فلاں مدیر اور رسالے کا اہم کردار ہے جس کا ہم احسان نہیں ادا کرسکتے، لیکن کچھ ایسے بھی نظر آتے ہیں جو زبانی بھی ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے چہ جائے کہ اپنی تحریروں میں اس کو جگہ دیں ، الغرض کسی بھی قلم کار کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کے قلم کی کہکشاں کا بھی کوئی باغبان ہے جس کی باغبانی میں آپ خوشنما نظر آتے ہیں. الغرض اب ان تحریروں کی جانب رخ کرتے ہیں جن میں سے کچھ سجے سنورے ہیں اور کچھ کو ضرورت ہے.
پہلا مضمون ارشد احمد کوچھے کا ہے جنہوں نے مشتاق احمد وانی کی افسانہ نگاری پر لکھا ہے. اس چار صفحہ کے مضمون میں ان کے افسانوی فن پر گفتگو کرتے ہوئے تین اقتباسات بزرگ ناقدین کے درج ہیں اور تین اقتباس افسانوں سے ہے جن میں سے ایک منظر نگاری دوسرا جذبات نگاری اور تیسرا اقتباس اسلوب نگاری پر ہے. مضمون نگارنے افسانہ نگار کے یہاں جو کچھ پایا وہ اس طرح ہے."مشتاق احمد وانی نے اپنے افسانوں میں جدید تکنیک کے تجربے بھی کیے ہیں یعنی خودکلامی کی تکنیک، فلیش بیک کی تکنیک. خطوط نگاری کا استعمال بھی انہوں بڑے بہترین اور مؤثر انداز میں پیش کیا ہے جس سے ان کے افسانے کے اسلوب کی حسن کاری میں مزید اضافہ ہوگیا". اس اقتباس میں جو دعویٰ ہے وہ پیش کیے گئے اقتباسات سے کسی حد تک مختلف ہے.
دوسرا مضمون امام الدین کا" 1980 کے بعد اردو غزل"ہے. اس مضمون میں مرکزی نقطہ جو نظر آتا ہے وہ مابعد جدیدیت ہے، اس میں انہوں نے یہ پیش کرنے کی مکمل کوشش کی ہے کہ اس جدید عہد کی شاعری 80 سے پہلے کی شاعری سے کس قدر مختلف ہے. مضمون نگار لکھتا ہے "...... 1980 کے بعد اردو غزل کا جو روپ سامنے آیا وہ ما بعد جدیدیت کہلا یا جس میں تخلیق کار کو تخلیق کی مکمل آزادی ملی اور اس ثقافتی تشخص کی بات کہی گئی جس سے اب تک ہمارے فن کار جدا تھے.
" سلیمان آصف اور ان کی شاعری" میں تمنا شاہین نے ان کی شاعری اور مجموعہائے شعری کا تعارفی مطالعہ پیش کیا ہے. انہوں نے اس میں ان تمام صفات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے جو ایک روایتی شاعر کے یہاں ہونی چاہیے. تمنا نسیم کے مضمون "سالک لکھنوی : مختلف رنگوں کے شاعر" میں آپ کو صرف ترقی پسندانہ، عشقیہ اور کلاسیکی رنگ پڑھنے کو ملے گا. "راجہ گدھ کا عمرانیاتی مطالعہ" جمشید احمد ٹھوکر کا جامع انداز میں تحریر کردہ  مضمون ہے. راجہ گدھ کے کئی نکات کو قاری کے سامنے رکھا گیا ہے اور  تنقیدی بصیرت بھی دیکھنے کو ملتا ہے، لب لباب پہلے ہی پیش کرتے ہیں کہ یہ ناول حلال و حرام سے وابستہ ہے اور آخری سطور میں لکھتے ہیں" راجہ گدھ ادب عالیہ کا وہ فن پارہ ہے جس میں انسان کے روحانی اور وجدانی کا تغیرات کو فلسفیانہ انداز میں رقم کیا اور ان تمام فکری پہلوؤں کو جو جامد ہیں تحرک دے کر قاری کے اندر نئے احساس سے آشنا کرایا" مضمون نگار نے گدھ کی علامت کو جگہ جگہ سے کھولنے کی بھی کوشش کی ہے.
راشدہ خاتون نے قاضی عبدالستار کے ناولٹ" آخری کہانی"کے ایک جز کیفیت عشق پر روشنی ڈالی ہے، مجھے جہاں تک محسوس ہوتا ہے کہ عشق تو پاکیزہ ہوتا ہے ہوس پاکیزہ نہیں ہوتا ہے اور ہوس کا نام عشق نہیں دیا جاسکتا. اس ناولٹ میں رومانس کی جس کیفیت کی عکاسی کی گئی ہے اسی پر  مضمون نگار نے گفتگو کی ہے. "حمیدہ بیگم کی خود نوشت" ہم سفر"ایک مطالعہ" سروری خاتون کا مضمون ہے. جس میں انہوں نے ہم سفر میں موجود زندگی کے مختلف مراحل کا ذکر کے تجزیاتی مطالعہ ہیش کیا ہے، اس خود نوشت میں مصنفہ نے جس سادگی اور بے تکلفی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس اسلوب کو اپنایا ہے وہ جاذبیت اور حقیقت نگاری سے معمور ہے. اس وقت کے جن بڑے لوگوں کا ذکر خود نوشت میں ہے وہ آج کے قاری کے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے. جس کی طرف اشارہ مضمون نگار نے بھی کیا ہے. "کربل کتھا کا اسلوبیاتی مطالعہ" سید اکرم حسین کا مضمون ہے. کتاب کا شمار شمالی ہند کے اولین نثر پاروں میں ہوتا ہے جب اسلوب سے زیادہ نثری زبان ایک نئے ڈھانچے میں ڈھل رہی تھی شاعری اپنی شناخت مضبوط کرچکا تھا لیکن نثر کو شناخت کی تلاش تھی. اس نوزائیدہ نثر کا اسلوب کیا تھا اس کا تعارفی مطالعہ اس مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے . سیدہ واصفہ غنی نے "جدید اردو افسانوں میں معاشرتی منافرت" کے عنوان سے جو مضمون قلم بند کیا ہے اس میں جدید افسانوں کے بجائے خواجہ احمد عباس، جیلانی بانو، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کے افسانوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے. پروفیسر ابن کنول کے ایک افسانہ" ہمارا تمہارا خدا بادشاہ"کا مطالعہ شاہد اقبال نے پیش کیا ہے. اس افسانہ کے متعلق لکھتے ہیں"وہی تخلیق زندہ رہتی ہے جو ہر قرات میں قاری کو نئے معنوی ابعاد کا احساس دلائے. ابن کنول کا یہ افسانہ علامتی ہے جس کو کئی زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے". شفیع احمد نے احمد یوسف کی رپورتاژ و خاکہ نگاری دونوں پر گفتگو کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے. سفینہ سماوی نے"عصمت چغتائی کے افسانوں میں مسائل نسواں" کی عکاسی مختلف افسانوں کے حوالے سے کی ہے جس میں جنسی مسائل کو ہی نمایاں رکھا گیا ہے. لکھتی ہیں" عصمت چغتائی عورتوں کی نبض شناس ہیں. عورتوں کے نرم نازک جذبات جنسی خواہشات اس کے مزاج کی نرمی، لطافت شوخی اور بانکپن ان کے افسانوں میں ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں".
ظفر عالم کا ایک تحقیقی مضمون "مولانا ابوالکلام آزاد اور سائنس" کے حوالے سے شامل رسالہ ہے. یہ ایک طویل وضاحتی مضمون ہوسکتا تھا لیکن اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف تعارف اور سائنس سے آگہی کے نمونے ہی پیش کیے ہیں پھر بھی مضمون سے مزید کی تشنگی ظفر عالم پیدا کرجاتے ہیں. فرح نازنین کا مضمون جتنا چھوٹا ہے اتنا ہی جامع ہے" تانیثیت اور بہار کی شاعرات" عنوان تو یہی ہے لیکن مجھے جو سمجھ میں آیا وہ یہ کہ مضمون مطلقاً خواتین قلم کاروں کو محیط ہے اور عنوان محدود ہے. تانیثیت کا ذکر ہے اور بہار کی موجودہ خواتین شاعرات کا نام بھی لکھا گیا ہے لیکن شکایت پوری خواتین قلمکار برادری سے  ہے. لکھتی ہیں" ہماری شاعرات اپنے معاصر خواتین تبصرہ نگاروں اور نقادوں کی آراء کو مردوں کی آراء کے مقابلے میں کمتر اور غیر اہم گردانتی ہیں..... ہماری خواتین تنقید کی طرف کیوں نہیں متوجہ ہوتیں؟ فکشن میں ہی سہی ممتاز شیریں کے بعد اس پائے کی نقاد کیوں نہیں پیدا ہوسکی. محمد رکن الدین صاحب نے اردو کی نئی بستیوں میں اردو کی صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جس میں ہند و پاک کے علاوہ دنیا کےجن جن گوشوں میں گزشتہ صدی اردو کا چراغ روشن ہوا، موجودہ صدی میں بھی روشن ہے اور اب تک کیا کیا خدمات انجام دئے جا چکے ہیں تمام کو احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے. محمد ریحان کا "اردو ناول میں تقسیم ہند کے اثرات" میں گویا ناولوں کا ایک قسم کا تعارف ہی پیش کیا گیا ہے اور اس مختصر سے مضمون میں وہی ممکن ہو سکتا تھا. "مکاتیب سر سید کا اسلوب"  شاداب شمیم کے تحریر کردہ اس مضمون میں وہی عکس و تیکنیک جھلکتا ہے جو وکیپیڈیا میں موجود علامہ اقبال کی شاعری، غالب کی خطوط نگاری پر وکیپیڈیا ہیں. یعنی معلوماتی اسلوب اپناتے ہوئے مختلف جہات پر مختصر انداز میں تحریریں لکھی ہیں.
اخترالایمان کا نام ذہن میں آتے ہی ان کی مشہور نظم "ایک لڑکا" بھی تصور میں ابھر آتا ہے گویا ان کی شاعری کا ایک معتد بہ حصہ دنیائے ماضی پر مشتمل ہے. اسی کو محمدپ فرحان خان نے شامل راالہ اپنے مضمون میں پیش کیا ہے. محمد نہال افروز کے مضمون "نیر مسعود: حیات اور ادبی کاوشیں" میں حیات مسعود اور ان کی پچیس نیر تصنیفات کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے.
"آسٹریلیا میں اردو کی نگہت : ڈاکٹر نسیم نگہت" ایک تفصیلی مضمون مہوش نور کا ہے جس میں موصوفہ کی ادبی سفر کا احاطہ کیا گیا ہے، عنوان کے نیچے بین القوسین میں " مہجری فکشن کے حوالے سے" مرقوم ہے لیکن مضمون کا کوئی بھی پیراگراف اس سے متعلق نہیں ہے. شاید غلطی سے لکھا ہوا رہ گیا ہو. بہر حال ان کے فن پر گفتگو نہیں ہے صرف ادبی زندگی پر ہے. ان تنقیدی مضامین کے بعد تخلیقی گوشے میں فیضان الحق کا انشائیہ گھڑگھڑاہٹ، مہتاب عالم فیضانی کے دو افسانے اتفاق اور ٹیبل گھنٹی. خان محمد رضوان، رئیس فاطمہ، شہنور حسین، صائمہ ثمرین، عالیہ اور محمد ذیشان رضا کی خوبصورت غزلیں شامل ہیں اس کے بعد تین نظمیں علیم اللہ کی "تہذیب کی شکست و ریخت، محمد شاہد کی" تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے"اور نورالاسلام کی نظم ترا وجود ہے.
اب مضامین پر ںظر ڈالنے کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ کچھ مضامین اساتذہ کو دکھائے گئے ہیں اور ایک دو مضامین ایسے بھی ہیں جن پر مضمون نگار نے خود بھی نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی. اشاعت کے عمل سے گزرنے کے بعد کوئی بھی تخلیق اعمال نامہ میں شمار ہوجاتا ہے وہ تاریخ کا ایک حصہ بن جاتا ہے اس میں تبدیلی کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوتی ہے اس لیے مناسب ہے کہ ہم اچھی تاریخ رقم کرنے والے بنیں اور چھان پھٹک کر ہی آگے کی جانب قدم بڑھائیں.
امیر حمزہ
ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...