Tuesday 9 July 2019

سیدعبدالفتاح اشر ف گلشن آبادی اور قصیدہ بر دہ

سیدعبدالفتاح اشرف گلشن آبادی اور قصیدہ بردہ 

ڈاکٹر سعیدہ اختر پٹیل 

امیر حمزہ 

سبعہ معلقہ کے بعدعربی زبان کے دوقصید ے ایسے مشہور ہوئے کہ اب تک اس قسم کا قصید ہ دوبارہ وجود میں نہیں آیا ، ایک قصیدہ کعب بن زہیر کا (بانَت سُعاد ) اور دوسرا قصیدہ امام بوصیری کا ۔ دو نوں قصیدے ،قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔دونوںنعتیہ قصیدے ہیں اور دونوں کے زمانۂ تخلیق میں چھ صدی کا فاصلہ ہے ۔یہ قصیدے اتنے مقبول ہوئے کہ ان کے تراجم دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوے ۔ اردو میں امام بوصیری کے قصیدہ کا تر جمہ اشر ف گلشن آبادی نے کیا ہے ۔یہ کتاب سید عبدالفتاح اشر ف گلشن آبادی اور ان کے ترجمہ قصید بر د ہ پر ہے ۔

مصنفہ تحقیقی مزاج کی حامل ہیں جن کا تعلق تحقیقی ادارہ انجمن اسلام اردو ریسر چ انسٹی ٹیوٹ ممبئی سے ہے ۔اس کتاب سے پہلے ان کے کئی تحقیقی مقالات منظر عام پر آچکے ہیں جن میں سے ’’ مہاراشٹر کی اردو مثنویاں ‘‘ ،’’ اردو ڈرامہ کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ‘‘ اور ایک ٹیم ورک کے طور پر ’’ فارسی ادب بعہدمراٹھا حکمراں ‘‘ ۔ اسی طر ح سے ایک عمدہ تحقیقی کام اس تصنیف کے ذریعہ پیش کیا گیا ہے ۔

مصنفہ نے دو مختلف تحقیقی موضوعات کو ایک ہی کتاب میں پیش کیا ہے۔ سید عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبا دی مستقل ایک تحقیق کا موضوع ہے اور اس موضوع کو مصنفہ نے بہت ہی خوبصور تی سے نصف کتاب میں بسط و تفصیل سے پیش کر نے کی کوشش کی ہے ۔موصوف سے متعلق شروع کے چار عناوین میں ان کی ذاتی زندگی سے متعلق تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔پانچو یں عنوا ن میں سید عبدالفتاح کی تالیف و تصانیف کو پیش کیا ہے ۔ یہ ایک مکمل تحقیقی دستاویز ہے ۔ ان کی کتابوں کے تعلق سے جو تحقیق ہے کہ انہوں نے کتنی کتابیں یاد گار چھوڑی ہیں ان سب کو دلائل سے پیش کیا ہے۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ کتابیں ان کی جانب منسوب کی گئی ہیں لیکن مصنفہ محتر مہ میمونہ دلوی کی تحقیق کہ انہوں نے ۳۲  یادگار تصانیف لکھیں ہیں اس جانب مائل نظر آتی ہیں ۔ اسی مضمون میں کن کن لائبریریوں میں موصوف کی کون کون سی کتب موجود ہیں ان کامختصر تعارف پیش کیا گیا ہے ۔ کتابوں کی جلدوں کی تعداد اور دیوان کے مشمولات پر بھی بحث شامل مضمون ہے ۔ اس مضمون سے انداز ہ ہوتا ہے کہ موصوف اپنے وقت کے بہت جید عالم تھے ان کی کتابیں جہاں اس وقت کے تعلیمی ادارے میں داخل تھیں وہیں انہوں نے فتاوی بھی تر تیب دیے اور شاعری کا دیوا ن بھی یادگار چھوڑا ، لسانیا ت میں عمدہ گر فت کے ساتھ تاریخ میں بھی دستر س رکھتے تھے ۔ الغرض انہوں نے معقولات اور منقولات کے جملہ علوم پر کتابیں لکھیں ہے ۔ 

مندرجہ بالا کے علاوہ ایک یادگار کارنامہ قصیدہ بر دہ کا منظوم تر جمہ ہے ۔ جس تر جمہ نے انہیں وہ شہر ت عطا کی جو ان کو دوسری تصنیفات سے حاصل نہیں ہوئیں ۔ قصیدہ بردہ عربی میں کئی لکھے گئے لیکن شہر ت صر ف دو کو ہی ملی ایک کعب بن زہیر کی ’’بانت سعاد‘‘ اور دوسرا امام محمد بن سعید بوصیری کے ’’قصیدہ بر دہ‘‘ کو ۔ کعب بن زہیر کے قصیدہ کو سن کر حضور نے ان کو اپنی چادر اوڑھائی تھی اور وہ چادر خلفاء بنی عباس تک صحیح سالم رہی۔ اس کے بعد اس متعلق تاریخ میں کوئی حتمی بات نہیںملتی ہے ۔ اسی طر یقے سے امام بوصیر ی کے خواب میں حضور آئے اور ان کو چادر پیش کیا ۔ اس اعتبار سے ان قصید وں کو قصیدہ بر د ہ کہا جاتا ہے ۔ مصنفہ نے جہاں ان چیزوں کو پیش کیا ہے وہاں ہلکی سی چوک ہوئی ہے ۔ وہ یہ کہ کعب بن زہیر کے نام میں کہیں کہیں زہیر بن کعب لکھا گیا اور دوسرے مضمون کے آخرمیں لکھتی ہیں ’’ امام بوصیر ی کو عطا کر دہ ردائے رحمت بوصیر ی کے بعد کن ہاتھوں میں پہنچی اور اب کہاں ہے اس کی جستجو و تلاش جاری ہے ‘‘ (ص۸۲) ۔ان کو تو چادر خواب میں عطا ہوئی تھی ۔ پھر کن ہاتھوں میں پہنچنے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟۔

’’قصیدہ کی شرحیں اور تر جمے‘‘ میں انہوں نے دنیا میں کی گئی تر اجم کا ذکر کیا اور اردو تر اجم کا خصوصی ذکر ہے ۔ایک مختصر مضمون علامہ اقبال اور امام بوصیری کے تعلق سے بھی ہے ۔ایک اہم عنوان ’’شر ح قصیدہ بر دہ شریف ‘‘ ہے ۔ اس عنوان کے تحت ۱۲ سے زیادہ صفحات پر مشتمل قصیدہ بر دہ شر یف کو صرف ۶ صفحات میں پیش کیا گیا ہے ، میرے خیال سے مصنفہ سے چوک ہوگئی۔ شاید خلا صہ پیش کر نا چا ہتی تھیں جیسا کہ پیش بھی کیا ہے لیکن شر ح لکھا گیا اس میں قصیدہ بردہ کے دسو ں باب کا خلاصہ ہے ،نہ کہیں لفظی بحث ہے اور نہ ہی معنوی بحث ، نہ ہی تعلیقہ کے تحت آنے والے اسماء و مقامات کا تعارف ہے بلکہ ایک عمومی تجزیہ ہے قصیدہ بردہ پر ۔ اس کتاب کا سب سے اہم تنقیدی جزو میر ے نزدیک ’ ’دایوان اشر ف الاشعار‘ ‘ ہے ۔ اس میں مصنف نے ان کے دیوان کا جزوی مطالعہ اور قصیدہ بر دہ (تر جمہ ) کا کلی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ ہر ایک باب کے عربی اشعار کے ساتھ اردو اشعار کا موازنہ بھی پیش کیا گیاہے اور اس پر اپنی تنقیدی نظر بھی ڈالی ہے ۔ موصوف کے قصید ہ گوئی کے تعلق سے مصنفہ لکھتی ہیں ’’ وہ محمد رفیع سودا کی طرح مزاجاًقصیدے کے شاعر تھے ۔ ان کے اشعار پُر زور اور پُر شکوہ الفاظ سے مملو ہیں۔ لیکن طنطنہ خیز نہیں ہیں‘‘ (ص ۱۱۴) ۔ یقینایہ خصوصیت اس کتاب میں شامل قصیدہ بر دہ میں نظر آتی ہے ۔ اس کے بعد امام بوصیری کا عربی قصیدہ بر د ہ ، پھر مولوی عبدالفتاح اشرف علی گلشن آبادی کا اردو قصید ہ شاملِ کتاب ہے ۔

الغر ض مصنفہ نے ایک عمدہ تحقیق سید عبدالفتاح اور ان کے قصید ہ کے تعلق سے پیش کیا ہے اس کے لیے وہ بہت ہی مبارکباد کی مستحق ہیں اور ساتھ ہی پر وفیسر عبدالستا ر دلوی بھی جن کا پر مغز مقدمہ شامل کتاب ہے اور انجمن اسلام کابھی جو اتنے عمدہ تحقیقی کام انجام دے رہی ہے۔

صفحات  ۲۰۰
قیمت  ۲۰۰
ناشر  انجمن اسلام اردو ریسر چ انسٹی ٹیوٹ ، ممبئی 

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...