Monday 8 July 2019

ِ خیمہ ٔ احباب سے آگے

ِ  خیمہ ٔ احباب سے آگے 

مصنف ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی 

 تعارف  امیر حمزہ

ڈاکٹر آفاق عالم صدیقی کی شناخت عصر حاضر میں ایک اہم ناقد کے طور پر ہوتی ہے ۔ ان کا شمار جنوبی ہند میں سکونت پذیر صف اول کے جدید تنقید نگار وں میں ہوتا ہے ۔ ان کی تنقید نگاری سے فن تنقید میں بحث و مباحث کے نئے باب روشن ہو تے نظرآتے ہیں ۔ موصوف نے شعر ی و نثری اصناف ادب کے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایاہے جس کی ادبی حلقہ میں خاطر خواہ پذیرائی ہوئی ہے ۔ انہوں نے جہاںمختلف موضوعات پر لکھا وہیں زیر تبصرہ کتاب کے مشمولات سے یہ باور ہوتا ہے کہ ان کا خاص میدان شاعری ہے ۔موصوف کی مقال جیسی عمدہ کتاب اس سے قبل ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنا نے میں کامیاب رہی ہے۔ موصوف کی کتاب میں شامل اکثر مضامین اہم اور معتبر جر یدہ میں شائع شدہ یا سمینار میں پیش کر دہ ہو تے ہیں۔ 

آفاق عالم صدیقی کاتنقیدی انداز اپنے معاصرین میں جداگانہ ہے ۔ وہ تنقید میں جدت نگاری کی جانب گامزن نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے مضامین میں گفتگو کا نیا بیج اور فکر کا نیا دریچہ وا کر نے کی کوشش کر تے نظر آتے ہیں جیسا کہ اس کتاب کے کئی مضامین اس پر دال ہیں ۔

 کتاب کا پہلا مضمون ’ تحقیق اور تحقیقی مقالہ‘ ہے ،یہ مضمون سادگی سے تحر یر کیا گیاہے ۔اس میں انہوںنے کسی بھی دانشور کے خیال و نظر یہ کو اقتباس میں پیش کر کے جر ح کرنے کی اور نہ ہی اپنی بات کو مدلل طور پر پیش کر نے کے لیے اقتباسات لانے کی کوشش کی ہے ۔ بلکہ اپنی باتوں کو خوبصورت انداز میں پیش کر تے چلے گئے ہیں ۔ بہر حال یہ مضمون کسی بھی مقالہ کو صورت تحریر میں لانے کے لیے ایک عمدہ گائڈلائن ہے ۔ 

’ دوہا تدریس و تنقید‘ کتاب کا دوسرا اہم مضمون ہے ۔ مضمون کے شروع میں تدریس کے آرٹ کو پیش کیا گیا ہے پھر دوہا بطور صنف کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے ۔دوہے کی روایت اور سفر پر گفتگو کر تے ہوئے لکھتے ہیں ’’ ....... جمیل الدین عالی نظم و غزل کے بھی اچھے شاعر سمجھے جاتے تھے ، مگر انہیں جو مقبولیت دوہو ں کی وجہ سے ملی غالبا وہ تمام عمر غزل کہتے تب بھی ایسی مقبو لیت نہیں مل پاتی ۔ یہیں سے اردو میں دوہے کہنے کی روایت مستحکم ہوئی اور عالی جی اردو دوہے کے بانی کے نام سے یاد کیے جانے لگے ۔‘‘ (ص ۳۳) مصنف کا یہ جملہ کہ’’ اردو میں دوہے کے بانی قرار دیے گئے‘‘ ۔ یہاں بانی سے شاید مصنف کی مراد نشاۃ ثانیہ کا محر ک ہے نہ کہ حقیقی بانی ۔ کیونکہ جمیل الدین عالی سے قبل ایک لمبی فہرست ہے جو اردو کے شاعر تھے اور دوہے بھی کہے جس کو خاور چودھری کی کتاب ’’ اردو دوہے کا ارتقائی سفر ‘ ‘ میں دیکھا جاسکتا ہے ۔اسی مضمون میں وہ لکھتے ہیں ’’ جمیل الدین عالی کے بعد تو گویا دوہا اردو کی پسندیدہ صنف شاعری بن گیا ‘‘ (ص ۳۴) کیا یہ حقیقت ہے کہ جمیل الدین عالی کے بعد ہر طر ف دوہا کے چرچے ہونے لگے ؟ غزل ، نظم ، آزاد نظم، نثری نظم ، نظم معریٰ ،رباعی اور قطعات پس پشت چلے گئے ؟ میرے خیال میں ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ہاں دوہے بکثر ت جرائد میں پڑھنے کو ملنے لگے یہ سچ ہے ۔ پسندیدہ صنف شاعری بننا انفرادی طور پر کہہ سکتے ہیں لیکن ا جتماعی طور پرمناسب بات معلوم نہیں ہوتی ۔  بہر حال اس مضمون میں مصنف نے دوہا تدریس کے متعلق سات نکات پیش کیے ہیں ، تمہید ، اعلان مدعا، استحضار ، تفہیم اشعار ، استحسان دوہا، دوہا خوانی اور اعادہ۔ نیز اس کا بھی بخوبی ذکر ہے کہ دوہا کی تدریس کیونکر دیگر اصناف کی تدریس سے مختلف ہے ۔ الغر ض یہ مضمون ، تحقیق، تنقیدی، تجزیاتی اور تدریسی اعتبار سے بہت ہی اہم ہے۔

’نئی غزل ایک مطالعہ‘  یہ مضمون صر ف کسی خاص عہد ، تحریک اور رجحان کا احاطہ کر تا ہوا نظر نہیں آتا ہے بلکہ مضمون جدید غزل کے بانیین اصغر ، فانی ، جگر اور حسر ت و فراق سے موجود ہ عہد تک کے اہم غزل گو شعراء پر محیط ہے ۔ ترقی پسند شعرا میںفیض ، مجاز ، جذبی ، ساحر، مخدو م اور مجرو ح کا ذکر کر تے ہوئے تر قی پسندی پر اپنا نظریہ اس انداز میں پیش کر تے ہیں کہ ’’ تر قی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کے اسلوب ، لہجے اور موضوعات میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ مگر موضوعات کی تکر ار اور رویے کے ٹھوس پن نے اس سفر کو بہت طویل نہیں ہونے دیا اور جلدہی دوسری سمت کا سفرشروع ہوگیا ‘‘ (ص۴۹) ۔ جدید شاعری کے سر مایے میں جن شعرا نے قابل قدر اضافہ کیا ان میں سے خورشید احمد جامی ، مظہر امام، پر کاش فکری ، شہر یار ، کمار پاشی، نشتر خانقاہی ، صدیق مجیبی، لطف الرحمن ، شاذتمکنت ، شکیب جلالی، حسن نعیم ، بمل کرشن اشک ، شہزاد احمد ، سلیم احمد اور سلطان اخترکا ذکر ہے ۔یہ گفتگویہیں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ جدیدیت کے زیر سایہ جوشاعری پروان چڑھی اس پر بھی بہت ہی عمدہ بحث پڑھنے کو ملتی ہے اور غزل کے رنگ و آہنگ میں کس طر ح شا عر نے کچھ نیا پیش کر نے کی کوشش کی ہے یا نظر آتی ہے اس کا بھی بخوبی احاطہ کیا گیا ہے جس کا ذکر تفصیل طلب ہوگا ۔ 

’اکیسویں صدی میں نثر ی نظم‘ ۴۵ ؍صفحات پر مشتمل ایک طویل مقا لہ ہے ۔ اردو میں نثر ی نظم کی شروعات ساٹھ کی دہائی سے ہوتی ہے۔ جدیدیت کے دور میں اس کو بہت فروغ ملا اس کے بعد اس صنف میں فن ، موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے کئی موڑ آئے ہیںلیکن آفاق عالم صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ اس صنف کے ردو قبول اور صنفی اعتبار سے اس کے اختصاص پر گفتگو سے زیادہ ضر وری ہے کہ اب اس کے سرمایے پر گفتگو کی جائے اور نثر ی نظم کے شعرا اور نظموں دونوں کا جائزہ پیش کیا جائے۔ انہوں نے اس مضمون میں  اکیسویں صدی میں نثر ی نظم کی تاریخ بیان کر نے کے ساتھ ساتھ جائزہ بھی لیاہے جن میں خورشیدالاسلام ، منیر نیازی، افتخار جالب، سلیم الرحمان ، باقر مہدی، زبیر رضوی ، شہر یا ر، لطف الرحمان، محمد حسن ، نعمان شوق ، احتشام اختر، ایس ایم عقیل ، شمیم قاسمی ،عذارا عباس ، احمد ہمیش، پرو فیسر صادق، حمید سہر وردی، صلاح الدین محمد ثر وت حسین ، اصغر ندیم سید کے علاوہ درجنوں شاعر ہیں جو نثر ی نظم کی مشاطگی میں لگے ہوئے ہیں ۔مصنف نے تمام شعرا کے کلام پر گفتگو کرنے کے ساتھ ان کی نظموں پر بھی اچھی بحث کی ہے۔یہ مضمون کسی بھی ریسر چ اسکا لر کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔

’ اسی (۸۰) کے بعد کے شاعروں کا ایک اور انتخاب ‘ اس مضمون میں مصنف نے اس بات کو پیش کر نے کی کوشش کی ہے کہ اسی(۸۰) کے بعد کی شاعری غزل کے حوالہ سے کس قدر مختلف ہے اور وہ شاعر جو جدیدیت سے کسی قدر بھی متاثر نہیں تھے ان کی شاعری کا رنگ کیا ہے ۔  اس مضمون میں مصنف نے پروفیسر کو ثر مظہری کی کتاب ’ جواز و انتخاب ‘ کا بھی بخوبی ذکر کیا ہے کہ اس کتاب نے’’ کئی شعرا کو خصوصی و عمومی مطالعے کی مرکزی فضا کا حصہ بنایا اور ان کی شناخت کی راہیں ہموار کیں ‘‘ ۔ اس مضمون میں ارشد عبدا لحمید ، اقبال خسرو ، اکر م نقاش ، تفضیل احمد ، راشد طراز ، نعمان شوق، ساجد حمید ، خورشید طلب ،عذرا پروین، شارق کیفی، جاوید ندیم ، فراغ روہوی  اور کبیر اجمل وغیرہ کا ذکر ہے ۔ 

آفاق عالم صدیقی ایک زمانہ سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں اس لیے وہ تدریس کے مسائل و جزئیات کو بطر یق احسن پیش کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تدریس کے سلسلے میں ان کا اہم مضموں ’ اردو زبان و ادب کی تدریس ، شامل کتاب ہے ۔ یہ مضمون جزئیاتی طور پر دوہا تدریس و تنقید سے مماثلت رکھتا ہے نیز اس سے بہت حدتک مختلف اس لحاظ سے ہے کہ اس میں زبان کی تدریس کے کئی اہم نکات بیان کیے گئے ہیں جو اساتذہ کے لیے بھی بہت مفید ہے اور خاص طور سے ادب کے قاری کے لیے بھی۔

’نئی غزل کے چند اہم غیر مسلم شعرا‘ اس مضمون میں مصنف نے اردو کے قدیم غیر مسلم شاعروں کو فہرست میں شامل نہیں کیا ہے جیسا کے عنوان سے بھی ظاہر ہے ۔ اصل میں ہندی اردو قضیہ کا معاملہ قیام فورٹ ولیم کالج سے ہی شروع ہوگیا تھا مزید یہ مسئلہ سیاست کے ہاتھوں میں آگیا جس پر آزادی سے قبل ہنوز سیاست جاری ہے ۔ ’نئی غزل ‘ سے مصنف کا اس جانب بھی اشارہ ہے کہ تمام تر ناموافق حالات کے باجود اردو شعری سرمایہ میں غیر مسلم شعراء کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور آج بھی کئی غیر مسلم شاعر گیسوئے اردو کی مشاطگی میں لگے ہوئے ہیں اور اردو شاعری میں وہ اپنا منفر د مقام بھی رکھتے ہیں جیسے گلزراین ( گلزرا دہلوی اور گلزار فلمی نغمہ نگار)۔ اس مضمون میں پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی سے لے کرموجودہ وقت کے اہم شاعر خوشبیر سنگھ شاد تک کی شاعری پر مختصرا ًگفتگو کی گئی ہے۔

’بچوں کاادب ---ہم عصر صورت حال ‘  اس مضمون میں ادب اطفال کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کر تے ہوئے مصنف نے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے ماضی کی تاریخ پر گفتگو کرتے ہوئے معاصر صورتحا ل کو پیش کیا ہے اور بچوں کی نشونما اور ان کی فکر ی قوت کو نظر میں رکھتے ہوئے ارد و میں موجودہ ادب اطفال پر غیر مطمئن نظر آتے ہیں ۔لکھتے ہیں ’’ اکیسویں صدی کے جو بڑے واقعات اور امکانی وقوعے ، مسائل اور فنٹاسیز ہیں جو ذہن اور انسا ن کی بڑی جستیں اور اختراعات ہیں۔ جو سائنس اور ٹکنالوجی کی بڑی عطیات اور آزمائشیں ہیں ۔ ان کے تخلیقی اور علمی بیان سے اردو ادب اطفال کا سرمایہ بالکل خالی ہے ‘‘(ص۲۰۹) پھر انہوں نے اخلاقیات پر گفتگو کی ہے کہ سائنسی ایجادات کے عہد میں ادب اطفال ان کے ایجادات کے ساتھ کس قدر تعمیر اخلاقیات کا ضامن ہو سکتا ہے ۔ان تمام کے علاوہ انہوں نے کئی اور اہم چیزوں کی جانب اشارہ کیا ہے۔ الغر ض ہمعصر صورت حال میں آپ کوادب اطفال میں فقدان سے روبرو کروائیں گے ساتھ ہی مضمون میں ہم عصر ادیبوں کے ذکر کابھی فقدان نظر آتا ہے ۔

’اذکار کا اداریہ اور اسی کے بعد کے قلمکار ‘ اس مضمون کو ہم احتسابی اور جواب احتساب دونوں کہہ سکتے ہیں ۔اصل میں مصنف نے اس مضمون میں اذکا رکے جس اداریہ کا تجزیہ پیش کیا ہے وہ اذکار کے انتیسویں شمارہ کا اداریہ ہے جس کو اکرم نقاش نے تحریر کیا ہے۔ اس میں اکر م نقاش نے موجودہ ادب اور ادیبوں پر احتسابی نظر ڈالی ہے اسی کو آفاق عالم صدیقی نے اپنے اندازسے سترہ صفحات پر طویل مضمون کی صورت میں پیش کیا ہے اور ان کے تمام شکوک و شبہات کو ختم کر نے کی کوشش کی ہے ۔اذکار کے اداریہ میں اکر م نقاش پانچ سوالات قائم کرتے ہیں (۱)یہ نسل سمت نما کے بغیر محو سفر ہے (۲)یہ نسل اپنے تخلیقی وفور کا ثبوت کیوں نہیں دیتی؟ ( ۳) یہ ادبی عرصہ کسی ادبی ہلچل کا احساس کیوں نہیں دلا تا ؟ (۴)آج کا ادیب اپنی انفرادیت کے اثبات پر اصرار کیوں نہیں کر تا ؟ (۵)اور اسے اپنے شناخت کے استحکام میں اور کتنا وقت درکار ہے ؟۔ان تمام سوالات کے جوابات آفاق عالم صدیقی نے جس خوش اسلوبی سے مدلل انداز میں پیش کیا ہے وہ لائق تحسین اور قابل مطالعہ بھی ہے ۔ 

’’جنوبی ہند کا موجودہ ادبی منظر نامہ ‘‘ یہ کتاب کا آخری مضمون ہے ۔ ایک عہد ایسا تھا جب شمال و جنوب کے ادب میں تفریق اور دوری پائی جاتی تھی ولی دکنی اور سراج اورنگ آبادی کے زمانے سے بُعد قُر ب میں بدلنا شروع ہوگئی لیکن اس کی رفتار تیز نہیں تھی، جب تر قی پسند تحر یک وجود میں آئی تو جنوب نے اس تحریک کے توسط سے کئی لاثانی اور غیر فانی ادیب دیے ۔ اب شاید علاقائی سطح پر کسی کوکسی پر تفوق حاصل نہیں ہے اور ادب کے منظر نامہ میں سب یکساں نظر آتے ہیں کیونکہ اب زبان و آہنگ میں ایک ہی رنگ نظرآتا ہے اور قواعد میں جو تفریق تھی وہ صرف بولنے کی حد تک رہ گئی ہے ،لکھنے میں نہیں ۔ اس مضمون میں تر قی پسندتحریک سے لیکر موجود ہ وقت تک ادب کے تمام گوشو ں میں جنوبی ہند نے جو خدمات انجام دیں ہیں اس کا ذکر اجمالا کیاگیا ہے ۔

خلاصہ کلام ’خیمہ ٔ احباب سے آگے ‘ایک ایسی کتاب ہے جواگر چہ کسی خا ص موضوع پر مشمولات کو آپ کے سامنے نہیں پیش کر تی ہے لیکن مصنف نے عنوانات پر قلم اٹھا یاکما حقہ انصاف کر نے کی کوشش کی ہے ۔ خواہ وہ دوہے سے متعلق ہو، نئی غزل ہو، نثر ی نظم ہویا ادب اطفال یہ تمام مضامین کتاب کو یقینا عظمت بخشتے ہیں ۔ امید ہے کہ مصنف مستقبل میں مزید فکر ی پرواز سے اردو کو نوازیںگے ۔

امیر حمزہ 
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو دہلی یو نی ورسٹی دہلی 

صفحات : ۲۴۸
قیمت : ۳۰۰
ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 

No comments:

Post a Comment

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘

’’ دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے ‘‘  نئے پرانے چراغ پر اجمالی رپورٹ  ڈاکٹر امیر حمزہ      شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی فرد ا...